تعلیمات مجددیہ درس 15




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کی تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ حضرت کے مکتوبات شریفہ میں علوم کے سمندر پنہاں ہیں، لیکن دو مشکلات کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ایک مشکل یہ ہے کہ یہ مکتوبات جن کو لکھے گئے ہیں، اُن کے حال کے مطابق ہیں۔ اگر وہ بہت بڑا عالم ہے تو ان کو انہی کی زبان میں خط لکھا گیا ہے یا ان کا جو حال ہے اس کے مطابق ان کو جواب دیا گیا ہے۔ عام لوگ جو اس حال پر نہیں ہوتے یا وہ علم ان کے پاس نہیں ہوتا تو وہ نہیں سمجھ پاتے۔ یہ مکتوبات شریفہ خاص خاص لوگوں کے لئے ہیں، ان کے مضامین انہی سے متعلق ہوتے ہیں۔

دوسری مشکل یہ ہے کہ یہ مکتوبات علوم و معارف پر مشتمل ہوتے ہیں، اور علوم و معارف میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ جیسے جیسے کسی بزرگ کی معرفت بڑھتی ہے، ممکن ہے پہلے ایک چیز ان کو ایک طرح سمجھ آ رہی ہو، بعد میں ان کے اوپر حقیقت کھل جائے کہ وہ چیز ایسی نہیں تھی۔ اس طرح ان کی معرفت بڑھ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک خط اگر پانچ سال پہلے لکھا گیا ہے، پانچ سال کے بعد وہ حالت نہیں رہے گی، تو گذشتہ حالت کا ریکارڈ پانچ سال پہلے والا خط ہی ہو گا۔ علامہ اقبال ہی کو دیکھ لیں۔ اگر ہم علامہ اقبال کے اُس دور کے خطوط دیکھیں جب وہ یورپ میں تھے تو یہ خطوط اس دور کے خطوط سے بالکل مختلف ہیں جب ان کا بزرگوں کے ساتھ رابطہ ہو گیا تھا۔ اس لئے ہمیں اس میں یہ ملحوظ رکھنا ہوتا ہے کہ وقت کون سا تھا، حالات کون سے تھے، آخری نتیجہ کیا تھا۔

اس وجہ سے مکتوبات شریفہ کی تشریحات کے ساتھ یہ ضروری تھا کہ ان کا ایک نچوڑ بھی سامنے لایا جائے۔ مثلا اگر کسی موضوع پر بیس مکتوبات ہیں تو ان میں جو آخری نچوڑ اور نتیجہ ہے اس کو بیان کیا جائے۔ ابتدائی تحقیقات کو کسی چیز کو سمجھانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ مطلوب نہیں ہوتیں۔ لہٰذا ہم نے تعلیماتِ مجددیہ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہ وہی نچوڑ ہے۔ ایک تو ان میں تکرار حذف ہو جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک مرتب و مستحکم اور جامع بات سامنے آ جاتی ہے۔

الحمد للہ تعلیماتِ مجددیہ کے سلسلہ میں عقائد کی بات ہو چکی ہے، اس کے بعد اعمال کی بات شروع ہے، اور اعمال کے بارے میں الحمد للہ سات دروس ہو چکے ہیں، یہ آٹھواں درس ہے۔ اس مسئلہ میں ہمیں جلدی نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ساتھ ساتھ اس کی تشریح ہوتی رہے۔ کیونکہ مقصد یہ نہیں ہے کہ مکتوبات پورے ہو جائیں، بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ علوم سامنے آ جائیں۔

آج ہم اس بات سے آغاز کرتے ہیں کہ بہت سارے لوگ خوابوں کے چکر میں پڑے ہوتے ہیں، ان کے ساتھ بڑی دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر ان کو کوئی اچھا خواب نظر آ جائے تو بس پورا مہینہ اسی کے خمار میں سرشار رہتے ہیں، اور اگر کوئی برا خواب نظر آئے تو پریشان رہتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کی باتیں عرض کروں گا، اور مجدِّدِ وقت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اس کے بارے میں جو فرمایا وہ بھی عرض کروں گا ان شاء اللہ۔ اس سے وہ لوگ جو زیادہ تر خوابوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہوتے ہیں، ان کی اصلاح ہو جائے گی، ان کو فائدہ ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگ خوابوں کی دنیا میں پڑے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے شیطان کو انہیں گمراہ کرنے کا خوب موقع ملتا ہے۔

خواب و واقعات لائق اعتبار نہیں، القائے شیطانی کا ہر جگہ احتمال ہے:

حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ دفترِ اول کے مکتوب نمبر 273 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

آپ کے گرامی نامہ میں لکھا ہوا تھا اگر سماع کے منع ہونے کا مبالغہ ایسے مولود کے منع ہونے کو بھی شامل ہے جو نعتیہ قصیدوں اور غیر نعتیہ اشعار کے پڑھنے سے مراد ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو برادر عزیز میر محمد نعمان اور اس جگہ کے بعض دوستوں کے لئے جنہوں نے واقعہ میں آنحضرت ﷺ کو دیکھا ہے کہ اس مجلسِ مولود سے بہت خوش ہیں، یہی وجہ ہے کہ مولود کے سننے کو ترک کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہے۔

تشریح:

اس نقطہ پر غور کریں جس پہ حضرت نے پکڑ فرمائی ہے، یعنی آپ ﷺ کی خواب میں زیارت۔

متن:

میرے مخدوم اگر وقائع کا کچھ اعتبار ہوتا اور خوابوں پر بھروسہ ہوتا تو مریدوں کو پیروں کی کچھ ضرورت نہ رہتی اور طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اپنے اوپر لازم کرنا لغو اور بے فائدہ ہوتا کیونکہ ہر ایک مرید اپنے واقعات کے موافق عمل کر لیتا اور اپنے خوابوں کے مطابق زندگی بسر کرتا، خواہ وہ واقعات اور منامات پیر کے طریقے کے موافق ہوں یا نہ ہوں اور خواہ پیر کو پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس طریقے پر سلسلۂ پیری و مریدی درہم برہم ہو جاتا اور ہر بو الہوس اپنی وضع و طریقے پر مضبوطی سے قائم ہو جاتا۔ حالانکہ مریدِ صادق ہزارہا واقعات کو پیر کی موجودگی میں آدھے جو کے عوض بھی نہیں خریدتا اور طالبِ رشید پیر کی حضوری [موجودگی] کی بدولت خوابوں کو پریشان و جھوٹے خواب جانتا اور ان کی طرف کچھ التفات نہیں کرتا۔ شیطان لعین ایک طاقتور دشمن ہے جب منتہی حضرات اس کے فریب سے امن میں نہیں ہیں اور اس کے مکر سے لرزاں و ترساں ہیں تو پھر مبتدیوں اور متوسطوں کا کیا ذکر ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ منتہی شیطان کے غلبہ سے محفوظ و مامون ہیں بخلاف مبتدیوں اور متوسطوں کے، پس ان کے واقعات اعتماد کے لائق نہیں ہیں اور نہ ہی دشمن کے مکر سے محفوظ ہیں۔

تشریح:

اس معاملہ میں شیطان کا سب سے بڑا جال یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو بزرگی کے جال میں پھنساتا ہے، یعنی ان کو اس طرح کے خواب دکھاتا ہے۔

حضرت تنظیم الحق حلیمی صاحب رحمة اللہ علیہ بڑے زبردست مُعَبِّرْ تھے۔ تعبیر کا علم خوب جانتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے میری بات ہو رہی تھی۔ حضرت نے فرمایا کہ شیطان آپ کو خواب میں دھوکہ سے کچھ بھی دکھا سکتا ہے۔ میں نے کہا: آپ ﷺ کو بھی؟ کہتے ہیں: دیکھو! آپ نے روضۂ اقدس کو کسی تصویر میں تو دیکھا ہو گا، اگر شیطان وہی تصویر آپ کے لئے 3 dimensional بنا دے، تو آپ سمجھیں گے کہ میں وہیں روضۂ اقدس کے پاس ہوں، یہ جو آپ اپنے آپ کو وہاں دیکھیں گے، یہ حقیقت نہیں ہو گی بلکہ آپ کا اپنا خیال ہو گا۔ ایسا ہوتا ہے، شیطان کو بہت ترکیبیں آتی ہیں۔

حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں:

متن:

سوال: وہ واقعہ کہ جس میں حضرت پیغمبر ﷺ کو دیکھیں اور زیارت ہو وہ سچ ہے اور یہ بات شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہے: فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَایَتَمَثَّلُ بِصُورَتِہٖ. کَمَا وَرَدَ کیونکہ شیطان ان (حضور علیہ الصلوۃ والسلام) کی صورت میں نہیں آ سکتا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ پس وہ وقائع جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں سچے ہیں اور شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہیں۔

تشریح:

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سوال خود قائم کیا ہے کہ ہم نے تو خواب میں آپ ﷺ کو دیکھا ہے، اور حدیث شریف کے مطابق آپ ﷺ کی صورت میں شیطان نہیں آ سکتا، لہٰذا ہم کیسے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو خواب میں نظر آئے وہ آپ ﷺ نہیں تھے۔

اب جواب سنیں جو حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے۔ یہ باتیں ہم بہت پہلے سے کرتے رہے ہیں، لیکن بعض حضرات کو ذرا خیال آ جاتا ہے کہ شاید میں اس مسئلہ میں سخت ہوں۔ حالانکہ ہم نے بزرگوں کو دیکھا ہے اور پڑھا ہے، ان کی تحقیقات ہمارے سامنے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه صاحب کو اگر کوئی خواب بتاتا تو فرماتے:

نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

من ہمہ ز آفتابم و ز آفتاب گویم

میں نہ رات ہوں نہ رات کا پرستار ہوں کہ رات کی باتیں کروں میں تو آفتاب کے ساتھ چل رہا ہوں اور آفتاب کی باتیں کرتا ہوں یعنی دن کی باتیں کرتا ہوں، جو دن کے حالات ہیں، ان کے مطابق بات کرتا ہوں۔

ہم نے ان حضرات کو دیکھا ہے، سنا ہے اور پڑھا ہے۔ اس وجہ سے الحمد للہ یہ معاملہ ہمارے سامنے واضح ہے۔

اگر شیطان صرف اتنی سی بات ہی کسی کے دل میں ڈالے کہ میرا شیخ ان خوابوں کو کیوں وقعت نہیں دے رہا تو اس کو شیخ کے بارے میں تردد پڑ گیا۔ اب اس کو کامیابی نہیں ہو گی، اپنے شیخ کے بارے میں بد گمانی کر لی تو کامیابی بالکل نہیں ہو گی۔

متن:

جواب: صاحبِ فتوحات مکیہ (شیخ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ آں سرور علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ والسلام کی اس صورتِ خاصہ کے ساتھ جو کہ مدینہ منورہ میں) گنبدِ خضرا کے اندر (مدفون و آرام فرما ہیں شیطان متمثل نہیں ہو سکتا) لیکن (اس مخصوص صورت کے علاوہ جس صورت کے ساتھ آپ ﷺ کو دیکھا جائے شیطان کے عدم متمثل ہونے کا حکم تجویز نہیں کرتے۔ یعنی (شیخ اکبر کے نزدیک اس صورت خاص [شبیہ مبارک] کے علاوہ (جو احادیث شریفہ سے ثابت ہے) اور جس صورت میں بھی حضور انور ﷺ کو دیکھیں شیطان متمثل ہو سکتا ہے، اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرف گئے ہیں)۔

تشریح:

جو خوابوں کے بڑے معبر تھے۔

متن:

اور اس میں کچھ شک نہیں کہ آنحضرت علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی اس صورت خاص (شبیہِ مبارک) کی تمیز و تشخص خصوصاً خوابوں میں بہت مشکل اور دشوار ہے، پھر یہ بات کس طرح اعتماد کے لائق ہو گی۔ اور اگر شیطان کے متمثل نہ ہونے کو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی اس صورتِ خاصہ کے ساتھ مخصوص نہ کریں اور جس صورت میں بھی لوگ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے دیدار سے مشرف ہوں اس صورت میں شیطان کے متمثل نہ ہونے کو تجویز کریں جیسا کہ بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں تو یہ بات بھی آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی رفعتِ شان کے نہایت مناسب ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس صورت سے جو خواب میں دیکھی ہے احکام کا اخذ کرنا اور آنحضرت ﷺ کی مرضی و نا مرضی کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دشمنِ لعین شیطان درمیان میں واسطہ بن گیا ہو اور خلاف واقعہ کو واقعہ کی صورت میں ظاہر کیا ہو اور دیکھنے والے کو شک و شبہ میں ڈال دیا ہو، اور اپنی عبارت و اشارت کو آں سرور علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی اس صورت کی عبارت و اشارت کر کے دکھایا ہو۔

تشریح:

یہ بہت اہم علمی نکتہ ہے۔

متن:

چنانچہ مروی ہے کہ ایک دن حضرت سید البشر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور قریش کے بڑے بڑے سردار اور اہل کفر کے رئیس بھی اس مجلس میں حاضر تھے اور بہت صحابہ کرام بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت سید البشر علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے ان کے سامنے سورہ النجم کی تلاوت شروع کی اور جب ان کے باطل معبودوں کے ذکر پر پہنچے تو شیطان لعین نے اس وقت چند فقرے ان کے بتوں کی تعریف میں آں سرور علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ والسلام کے کلام کے ساتھ اس طرح شامل کر دیئے کہ حاضرین نے اس کو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کا کلام سمجھا۔

تشریح:

یعنی درمیان میں ایسا تصرف کر دیا، آواز کو ملا جلا دیا کہ امتیاز نہ ہو سکا۔ کیونکہ صورت کی بات ہوئی ہے، آواز کی بات نہیں ہوئی، صورت میں نہیں آ سکتا۔ اگر آواز میں آ سکتا ہو تو وہ اپنی آواز کو شامل کر لے گا، کہ اگر آپ ﷺ کی خواب میں دکھائی دینے والی صورت صحیح بھی ہے، تو ممکن ہے آواز اصلی نہ ہو۔

مجھے کافی لوگوں نے اپنے اس قسم کے خواب سنائے ہیں۔ اور ان میں اسی قسم کی چیز ہوتی ہے، تو میں ان کو سمجھا دیتا ہوں کہ بھئی یہ وہ نہیں ہے۔

متن:

اور اس میں کچھ تمیز نہ کر سکے اس پر جو کافر وہاں موجود تھے انہوں نے خوش ہو کر شور مچا دیا اور کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ صلح کر لی اور ہمارے بتوں کی تعریف کی۔ حاضرین اہل اسلام بھی اس کلام سے حیرت میں پڑ گئے، لیکن آں سرور ﷺ اس لعین کے کلام سے مطلع نہ ہو سکے آپ نے فرمایا کیا بات ہے؟ (یہ کافر کیوں خوش ہو رہے ہیں)۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اثناءِ کلام میں آپ سے اس قسم کے فقرے ظاہر ہوئے۔ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام یہ بات سن کر متفکر اور مغموم ہو گئے۔ اسی اثناء میں جبرئیل امین علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام وحی لے کر حاضر ہوئے کہ وہ کلام شیطان کا القا کیا ہوا تھا، اور کوئی نبی یا رسول ایسا نہیں گزرا کہ جس کے کلام میں شیطان نے القا نہ کیا ہو، جس کے بعد حق سبحانہ و تعالیٰ نے اس کو رد کر کے اپنے کلام کو محکم بنایا ہے۔ پس جب آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کی حیات مبارکہ بیداری کے وقت صحابہ کرام کی مجلس میں شیطان لعین نے اپنے باطل کلام کو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں القا کر دیا [ملا دیا] اور حاضرین صحابہ میں سے کسی نے تمیز نہ کی تو آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خواب کی حالت میں جو کہ حواس کے معطل اور بیکار ہونے کا محل اور شک و شبہ کا مقام ہے دیکھنے والے کی تنہائی کے با وجود کہاں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ شیطان کے تصرف اور مکر و فریب سے محفوظ و مامون ہے۔ اس کے با وجود میں کہتا ہوں کہ جب نعتیہ قصیدوں کے پڑھنے اور سننے والوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام اس عمل سے راضی ہیں جیسا کہ ممدوح لوگ اپنی مدح کرنے والوں سے راضی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ان کی قوت متخیلہ میں منقش ہو گئی ہو، تو ہو سکتا ہے کہ واقعہ میں اسی اپنی متخیلہ صورت کو دیکھا ہو، قطع نظر اس کے کہ اس واقعہ کو کوئی حقیقت بھی ہے یا صرف تمثیل شیطانی ہی ہے۔ اور نیز واقعات اور رویائے صادقہ کبھی ظاہر پر محمول ہوتے ہیں اور ان کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو دیکھنے والے نے دیکھی ہے، مثلاً زید کی صورت کو خواب میں دیکھا اور اس سے مراد زید کی وہی حقیقت ہے۔ اور کبھی واقعات اور رویائے صادقہ ظاہر سے پھرے ہوئے اور تعبیر پر محمول ہوتے ہیں مثلاً زید کی صورت کو خواب میں دیکھا اور اس سے مراد عمرو کو رکھا گیا اس مناسبت کے لحاظ سے جو زید و عمرو کے درمیان ہے۔ لہذا کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ احباب کے یہ واقعات ظاہر پر محمول ہیں اور ظاہر سے پھرے ہوئے نہیں ہیں۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان واقعات سے مراد ان کی تعبیریں ہوں اور وہ واقعات دوسرے امور سے کنایہ ہوں، بغیر اس کے تمثیل شیطانی کی گنجائش ہو۔ غرض کہ وقائع کا کچھ اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اشیاء خارج میں موجود ہیں کوشش کرنی چاہیے کہ اشیاء کو بیداری میں دیکھيں جو کہ اعتبار کے لائق ہے اور اس میں تعبیر کی بھی گنجائش نہیں۔

آنچہ در خواب و خیال دیدہ شود خواب و خیال است۔

جو کچھ خواب و خیال میں دیکھا جائے وہ خواب و خیال ہی ہے۔

تشریح:

یہ ایک بہت بڑی تحقیق ہے جو بہت سارے لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لئے کافی ہے، کیونکہ شیطان کو اس راستے سے گمراہ کرنے کا بہت موقع ملتا ہے۔

ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیہ کو اللہ پاک نے یہ صلاحیت دی تھی کہ میں اگر کبھی حضرت کو اپنا خواب سناتا تو حضرت فرماتے: یہاں تک تو ٹھیک ہے، اس کے آگے شیطان کا وسوسہ ہے۔

اس قسم کی باتیں عموماً ہوتی ہیں۔ اس لئے علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جب کوئی آپ ﷺ کو خواب میں دیکھے یا کسی بزرگ کو دیکھے یا کسی قسم کا بھی خواب دیکھے، اس میں اس قسم کا کوئی بھی اشارہ کسی بھی طرف سے ہو، اس کو قرآن اور سنت پر پیش کیا جائے گا، اگر قرآن و سنت کے مطابق ہو تو مانا جائے گا ورنہ نہیں مانا جائے گا اور اس کو سہو پر محمول کیا جائے گا کہ سننے میں سہو ہوا ہے یا کوئی ایسی بات ہوئی ہے۔

میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں نے خواب دیکھا۔ کوئی بس سٹاپ جیسی ایک جگہ ہے۔ وہاں تین بزرگ ہیں۔ ان میں ایک شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ ہیں، ساتھ ایک اور بزرگ ہیں۔ ان کو میں محسوس تو کر رہا ہوں لیکن نظر نہیں آ رہے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ بڑے خوش ہوئے، مصافحہ کر لیا۔ جو دوسرے بزرگ تھے ان کو میں بہت غور سے دیکھ رہا ہوں، اتنا غور سے دیکھتا ہوں کہ ان کی صورت میرے دل پہ گویا نقش ہو گئی۔ پھر ہم ادھر سے چل پڑتے ہیں۔ میرے ساتھ اپنے دفتر کا ایک ساتھی ہے۔ خواب میں ہی میں اس کے ساتھ بات کر رہا ہوں کہ ایک بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کو تو میں نے پہچان لیا، دوسرے بزرگ جن کی طرف میں دیکھ رہا تھا ان کے بارے معلوم نہیں ہوا کہ یہ کون ہیں۔ دفتر کا ساتھی مجھے بتاتا ہے کہ یہ خواجہ شہاب اللہ لودھی ہیں جو اہلِ حدیث کے امام تھے۔ میں جب جاگا تو میں نے سوچا کہ اہل حدیث کا تو کوئی امام نہیں ہوتا، اگر ان کا کوئی امام ہو پھر تو ان سے کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ اور خواجہ شہاب اللہ لودھی کا نام کبھی نہیں سنا تو یہ کیسا خواب ہے؟ میں حضرت تنظیم الحق حلیمی صاحب کے پاس گیا۔ وہ بہت زبردست معبر تھے۔ خواب سن کر انہوں نے کہا کہ ایک بزرگ تو شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ صاحب تھے اور دوسرے خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ نے اس کو خواجہ شہاب اللہ لودھی سنا، یعنی آپ کو سننے میں غلطی لگ گئی۔ یہ خواجہ شہاب الدین سہروردی ہیں خواجہ شہاب اللہ لودھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا: میں نے ان کو اتنا زیادہ غور سے کیوں دیکھا؟ شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کے ساتھ تو بس مصافحہ ہوا جب کہ ان کو میں نے بہت غور سے دیکھا، ان کی صورت بھی مجھے یاد ہے، میں تفصیلات بھی بیان کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اس لئے کہ ہمارے نسبی سلسلہ میں کاکا صاحب رحمة اللہ علیہ ہیں، جو سہروردی تھے، لہٰذا ہمارے نسبی سلسلہ کے ساتھ خواجہ شہاب الدین سہروردی کا ایک تعلق پہلے سے موجود ہے، اس لئے آپ نے ان کو غور سے دیکھا۔ میں نے کہا: اور اہل حدیث کے امام کیسے ہوئے؟ کیونکہ اہل حدیث کا تو کوئی امام نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا: نہیں! بات یہ ہے کہ متقدمین حضرات حنابلہ کو اہلِ حدیث کہتے تھے، اس وقت آج کے دور والے مروجہ اہلِ حدیث تھے ہی نہیں۔ یہ تو بعد میں انگریزوں کے دور میں پیدا ہوئے، انہوں نے با قاعدہ اہلِ حدیث کا نام انگریزوں سے رجسٹر کروایا ہے، یہ ابھی کی پیداوار ہے۔ جب کہ متقدمین حضرات حنابلہ کو اہلِ حدیث کہتے تھے۔ اس کی وجہ ہے کہ وہ ظاہر حدیث پر عمل کرتے ہیں۔ اس لئے امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کے ایک ایک امر میں کئی کئی اقوال ہوتے ہیں۔ اور یہ دونوں بزرگ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ اور حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ حنبلی تھے، اس لئے ان کو اہلِ حدیث کا امام کہا گیا۔

اب دیکھئے میں اگر کسی اور سے اس کی تعبیر پوچھتا تو وہ اس طرح نہیں بتا سکتے تھے۔ کہاں کہاں سے چیزیں منسلک ہو گئیں۔

حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا، کہ بعض دفعہ چیز کچھ ہوتی ہے اور اس سے مطلب کچھ اور ہوتا ہے، اس کے لئے تفصیل جاننی پڑتی ہے۔

یہ اس قسم کی باتیں ہیں جن کی وجہ سے شیطان کو راستہ و موقع ملتا ہے۔ اگر ہم ان چیزوں میں نہ پڑیں تو کوئی نقصان نہیں ہے، مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کا ایک حال اچھا بنا دیا ہے، آپ کو خواب میں دکھا دیا گیا اور آپ نے خواب پر کوئی توجہ نہیں دی تو کیا آپ سے وہ حال اس وجہ سے ختم ہو جائے گا؟ کہ آپ نے ایک خواب کے اوپر توجہ نہیں دی! وہ خواب صرف اس کا ایک اشارہ ہے جو اگر آپ کو نظر نہ بھی آئے پھر بھی وہ چیز موجود ہے، اُس چیز میں کوئی فرق نہیں پڑا، اور اگر برا خواب ہے تو اگر آپ کا شیخ کے ساتھ رابطہ ہے، آپ جب اپنے احوال ان کو بتائیں گے، تو وہ آپ کی رہنمائی کرتے رہیں گے لہٰذا آپ کا علاج اس طریقہ سے ہو گا۔ خوابوں سے آپ کا علاج نہیں ہوگا، آپ کا علاج شیخ کی تربیت سے ہو گا۔

اس وجہ سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه اور حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیہ خوابوں کے بارے میں لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان کی تفصیلات میں نہ جاؤ۔

کشف علم کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن شیطان سے یہ بھی محفوظ نہیں۔ اس لئے اس سے استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ کشف اور القائے شیطانی میں تمیز کی جا سکے۔ اس کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمرب 107 میں مندرجہ ذیل سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

دوسرا سوال: یہ ہے کہ طالبانِ صادق کے کشف و شہود میں القائے شیطانی کو دخل ہے یا نہیں؟ اور اگر دخل ہے تو کشفِ شیطانی کو واضح کریں کہ وہ کس طرح پر ہے، اور اگر دخل نہیں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ بعض الہامی امور میں خلل واقع ہو جاتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے وَاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کو صحیح بات کا علم ہے) کہ کوئی شخص بھی القائے شیطانی سے محفوظ نہیں ہے، جبکہ یہ دخل اندازی انبیاء علہیم الصلوٰۃ والسلام میں بھی متصور بلکہ متحقق ہو تو اولیائے کرام میں بدرجہ اولیٰ ہو گی، پھر طالبِ صادق کس گنتی میں ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰت والتسلیمات کو اس القائے (شیطانی) پر (حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے) آگاہ کر دیا جاتا ہے اور باطل کو بھی حق سے جدا کر دیا جاتا ہے (جیسا کہ) آیہ کریمہ ﴿فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ﴾ (الحج: 52) (پس جو کچھ شیطان القا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مٹا دیتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم و اٹل کر دیتا ہے) اسی مضمون پر دلالت کرتی ہے۔ اور اس معنیٰ میں اولیاء کے لئے یہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ ولی نبی کے تابع ہوتا ہے وہ جو کچھ نبی کے (قول و فعل کے) خلاف پائے گا اس کو رد کر دے گا اور باطل جانے گا۔ ہاں ایسی صورت میں جس میں نبی کی شریعت خاموش ہو۔

تشریح:

یعنی اس کے بارے میں کوئی بات نہ بتائی گئی ہو۔

متن:

اور (اس مسئلہ میں) اثبات و نفی میں سے کوئی حکم شریعت میں موجود نہ ہو تو حق و باطل کے درمیان امتیاز یقینی طور پر مشکل ہوتا ہے، کیونکہ الہام کا تعلق ظن سے ہے لیکن عدم امتیاز کی صورت میں ولی کی ولایت میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا، اس لئے کہ شریعت (کے احکام) کی بجا آوری اور نبی کی پیروی، دونوں جہان میں فلاح و نجات کی ضامن ہے اور جن امور کے بارے میں شریعت نے سکوت اختیار کیا ہے وہ شریعت پر زائد ہیں اور ہم زائد امور کے مکلف نہیں ہیں۔

تشریح:

یہ کہہ کر بات ہی ختم کر دی کہ یہ امور زائد ہیں اور امور زائد کے بارے میں آپ کو پتا نہ بھی چلے تو کوئی بات نہیں۔ آپ کے لئے اصل بات وہ ہے جو یقینی ہو، اسی کے ساتھ آپ کا معاملہ ہے۔

متن:

جاننا چاہیے کہ غلط کشف کا واقع ہونا محض القائے شیطانی پر ہی منحصر نہیں ہے بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قوتِ متخیلہ غیر صادقہ (غلط) احکام کی ایک صورت پیدا کر لیتے ہیں جن میں شیطان کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا اسی قسم سے یہ بھی ہے کہ بعض لوگوں کو خواب میں حضرت پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور وہ بعض احکام آپ سے اخذ کر لیتے ہیں جو فی الحقیقت شرعی احکام کے خلاف متحقق ہو چکے ہیں، ایسی صورت میں القائے شیطانی تصور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے که شیطان، حضرت خیر البشر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام کی شکل میں کسی طرح بھی متشکل نہیں ہو سکتا، پس اس صورت میں سوائے قوتِ متخیلہ کے کہ وہ غیر واقع کو واقع تصور کر لیتی ہے اور کچھ نہیں ہے۔

تشریح:

واقعی انسان کا ذہن اگر کسی چیز پر مائل ہو تو قوتِ متخیلہ اسے ویسا ہی دکھا دیتی ہے۔ جیسے استخارہ کی مثال ہے، اگر ایک شخص کے ذہن میں ایک چیز رچی بسی ہے، تو جیسے کہتے ہیں بلی کو خواب میں چھیچھڑے دکھائی دیتے ہیں، اسے ہر طرف وہی چیز نظر آئے گی۔ اس کی قوتِ متخیلہ متشکل ہو جاتی ہے اور آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے اس کے بارے میں خواب دیکھا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔

کشف کے بارے میں آپ کو صاف اور واقعی بات بتا دوں۔ اولیاء کرام میں حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کا مقام لوگوں سے مخفی نہیں ہے۔ ان کا واقعہ، ان کے ایک بیٹے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مراقبہ کی حالت میں تھے کہ ایک نور سا نظر آیا اس میں سے آواز آئی کہ اے عبد القادر میں نے تیری عبادت کو قبول کر لیا اور تجھے اپنا بنا لیا اب تو جو کچھ بھی کرے گا تجھ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی، ہاں اگر تو اپنے شوق سے نمازیں پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے تو وہ کرتا رہ، اس میں تجھ سے کچھ نہیں کہا جائے گا، لیکن اب تم پر لازم کچھ بھی نہیں ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ عالِم بھی تھے انہوں نے فوراً یہ سوچا کہ آپ ﷺ تو اخیر وقت تک شریعت پر جمے رہے حتیٰ کہ با جماعت نماز تک کے لئے بھی تشریف لائے تو میں کون ہوں کہ مجھے معاف کیا جائے، اس سے ان پر بات واضح ہو گئی۔ انہوں نے سر اوپر اٹھایا اور کہا: اے ملعون میں نے تجھے پہچان لیا، تُو مجھے دھوکہ نہیں دے سکتا، یہ کہا تو وہ نور اندھیرے میں بدل گیا، اس دجل کا پردہ چاک ہو گیا۔ اس کے بعد یوں آواز آئی جیسے کوئی دوڑتے دوڑتے کہہ رہا ہو کہ عبد القادر! تو مجھ سے اپنے علم کی وجہ سے بچ گیا۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ملعون جاتے جاتے بھی وار کرتا ہے! میں تجھ سے اللہ کے فضل سے بچا ہوں۔

اولیاء محفوظ ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ کر دیا۔ حالانکہ شیطان کا یہ بہت کاری وار تھا اور کس مقام پہ جا کے اس نے وار کیا۔ آپ غور کریں کہ ہم لوگوں کو کس حد تک محتاط رہنا چاہیے، ہمارے کشف، ہمارے خواب اور اس قسم کی چیزوں کا کیا حال ہو گا۔

ایک انتہائی مشکل صورت حال کہ خواب میں اگر آپ ﷺ کی زیارت ہو اور حضور ﷺ کچھ ارشاد فرمائیں تو اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہو گا کہ حدیث شریف میں آیا ہے فَإِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِصُوْرَتِیْ“ اس کے بارے میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 273 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

متن:

سوال: وہ واقعہ کہ جس واقعہ میں حضرت پیغمبر ﷺ کو دیکھیں اور زیارت ہو وہ سچ ہے اور یہ بات شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہے: فَاِنَّ الشَّیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِصُورَتِہٖ، کَمَا وَرَدَ کیونکہ شیطان ان (حضور علیہ الصلوۃ والسلام) کی صورت میں نہیں آ سکتا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔ پس وہ وقائع جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں سچے ہیں اور شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہیں۔

تشریح:

اگر کوئی صوفی کسی ایسے پیر سے بیعت ہو چکا ہو جو خلافِ سنت زندگی گزار رہا ہو تو ایسے صوفیوں کو دفتر دوم کے مکتوب نمبر 23 میں سنت کے خلاف اپنے پیروں کی تقلید نہ کرنے کی ہدایت ارشاد فرماتے ہیں۔

یہ حضرت کی بہت اہم تشریح ہے، اور نقشبندی سلسلہ کے لئے دو وجوہات سے بہت ضروری ہے۔ ایک اس لئے کہ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقشبندی حضرات پہ حجت ہے، کیونکہ جتنے بھی نقشبندی اس وقت ہیں وہ سب مجددی ہیں، تو تربیت کے معاملے میں اپنے شیخ کے ساتھ تحقیق میں اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نقشبندی سلسلہ سارے کا سارا مخفی سلسلہ ہے ظاہر نہیں ہے۔ باقی سلسلوں میں ظاہری تبدیلیاں ہوتی ہیں، جیسے ذکرِ جہری، مجاہدات وغیرہ، اس لئے پتا چل جاتا ہے کہ وہ کدھر ہے۔

ہماری انجینئرنگ میں Mechanical Engineering بھی ہوتی ہے اور Electronics بھی ہوتی ہے، کچھ حضرات کہتے ہیں Mechanical Engineering آسان ہے کیونکہ کم از کم جو چیز Mechanical ہو وہ سامنے نظر تو آتی ہے، Electronics میں کیسے نظر آئے کہ کون سی چیز ہے۔ اس وجہ سے یہ مشکل ہے کیونکہ نظر نہیں آتا۔ Chip کے اندر آپ کو کیا نظر آئے گا کہ اس میں کیا ہے بس Chip ہی ہے اور ساری Chips ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے اندر Circuit کون سا ہے Circuit Diagram کیا ہے، اس کے لئے آپ کو بڑی تفصیلات میں جانا پڑے گا پھر آپ کو پتا چلے گا۔

نقشبندیہ سلسلہ الیکٹرونک سسٹم کی طرح ہے، اور باقی سلسلے مکیینکل سسٹم کی طرح ہیں، سامنے نظر آتے ہیں۔ اس وجہ سے ان سلسلوں میں دجل نہیں ہو سکتا۔ کوئی آدمی اتنا ہوشیار ہو کہ کم از کم جائز نا جائز کو جانتا ہو تو اسے پتا چل جائے گا کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے۔ لیکن نقشبندی سلسلہ میں معاملات چونکہ مخفی ہوتے ہیں اس لیے اس میں دجل و فریب آسان ہوتا ہے، سارا ذکر بھی خفی ہے، آپ دیکھیں کوئی آدمی بیٹھا ہے اس کا پورا جسم ذکر کر رہا ہو گا مگر آپ کو پتا نہیں چل سکے گا۔ اگر کسی کا جسم ذکر نہیں کر رہا، وہ دعویٰ کر لے کہ میرا جسم ذکر کر رہا ہے تو آپ کے پاس اس کے رد کے لئے کیا دلیل ہو گی؟ آپ اس کا دعوی رد نہیں کر سکتے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ چیک کرنے کی transparency (شفافیت) نہیں ہے واضح سسٹم نہیں ہے۔ ایسی چیزوں میں دو باتیں ہو سکتی ہیں، ایک بہت بڑی خوبی ہے اور ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ خوبی یہ ہے کہ جو مخلص ہوتا ہے اس کو بہت جلدی جلدی ترقی ہوتی ہے کیونکہ سارا کام چپکے چپکے ہوتا ہے کسی کو پتا ہی نہیں چل رہا، تو اخلاص پیدا ہو گیا۔

مجھے خوب یاد ہے دفتر میں ہمارے ایک ساتھی ہیں ان کے شیخ مردان میں تھے، میں ان سے ملا ہوں، اس ساتھی نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ مجھے میرے شیخ نے بتایا کہ آپ حافظ صاحب کے پاس جا کر مراقبہ سیکھیں، حافظ صاحب ان کے بیٹے تھے اور بڑے مجاہد تھے، میں ان کے پاس چلا گیا، انہوں نے مجھے مراقبہ کا طریقہ سکھایا اور یہ فرمایا کہ آپ نے مراقبہ اس طرح کرنا ہے کہ آپ جب مراقبہ کر رہے ہوں تو ایسے ظاہر کریں جیسے آپ کو نیند آ رہی ہے، جیسے آدمی بیٹھے بیٹھے سو رہا ہو۔ سبحان اللہ! میں نے کہا: یہ بہت صحیح بات ہے۔ گویا کہ اس حد تک تربیت دی گئی ہے کہ آپ کی کوئی چیز ظاہر نہیں ہونی چاہیے۔

اس قسم کی بات ہو تو سلوک میں بہت جلدی جلدی ترقی ہوتی ہے، کیونکہ نظام موجود ہے، بس اخلاص ہونا چاہیے، اگر اخلاص کے ساتھ وہ نظام پہ عمل کرے گا تو بہت جلدی جلدی پہنچے گا۔ لیکن اگر اخلاص نہیں ہے تو سب سے خطرناک نظام بھی یہی ہے، کیونکہ آپ اس کو چیک ہی نہیں کر سکتے، کس طریقہ سے چیک کریں گے کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔

دیکھئے یہاں پر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کیا فرماتے ہیں:

متن:

صوفیائے وقت بھی اگر انصاف سے کام لیں اور اسلام کے ضعیف ہونے اور جھوٹ کے شائع کرنے کو ملاحظہ فرمائیں تو ان کو چاہیے کہ سنت کے خلاف امور میں اپنے پیروں کی تقلید نہ کریں اور اپنے شیوخ کے عمل کا بہانہ بنا کر امورِ مخترَعہ (خود ساختہ امور) کو اپنی عادت نہ بنائیں۔ سنت کا اتباع یقیناً نجات دینے والا اور خیرات و برکات بخشنے والا ہے اور سنت کے خلاف امور کی تقلید میں خطرہ ہی خطرہ ہے۔ وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ (قاصد کے ذمہ پہنچا دینا ہے)۔

حق سبحانہ و تعالیٰ ہمارے پیروں کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے اپنے متبعین کو امورِ مبتدعہ کے بجا لانے کی ہدایت نہیں کی اور اپنی تقلید سے ہلاک کرنے والی تاریکیوں میں نہیں ڈالا، اور سنت کی متابعت کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بتایا اور صاحبِ شریعت علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ کی اتباع اور عزیمت پر عمل کرنے کے سوا کچھ ہدایت نہیں فرمائی اسی وجہ سے ان بزرگوں کا سلسلہ بلند ہو گیا اور ان کے وصول کا ایوان رفیع ہو گیا۔ یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے سماع و رقص کو ٹھکرا دیا ہے اور وجد و تواجد کو انگشت شہادت سے دو ٹکڑے کردیا ہے۔

تشریح:

ان حضرات نے تو ان چیزوں کو بھی در خور اعتنا (توجہ کے لائق) نہیں سمجھا حالانکہ بعض بزرگ ان سے کام بھی لیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا نہیں ہم سنت کے علاوہ کوئی چیز نہیں لینا چاہتے۔ یہ واقعی بہت بڑی کامیابی ہے کہ ہر چیز سنت کے مطابق ہو۔

اب ایک اور اہم بات سمجھئے۔ سنت کس کو کہتے ہیں۔ سنت آپ ﷺ کے اس طریقہ کو کہتے ہیں، جو تین قسم کی احادیث شریفہ قولی، فعلی اور تقریری سے مروی ہوتی ہے۔ پھر یہ بات ہے کہ احکام مدون ہو چکے ہیں، دین مکمل ہو گیا ہے، احکامات میں فرائض، واجبات، سنن، مستحبات اور مباحات تمام چیزوں کا تعین ہو چکا ہے، اس کے مقابلہ میں حرام، مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی ان ساری چیزوں کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔

اب ایک شخص ہے کہ عمامہ اور داڑھی کی سنت تو اختیار کرے، ماشاء اللہ کپڑے بھی بالکل سنت کے مطابق ہوں، درود شریف بھی پڑھتا رہے الغرض اس کی ظاہری وضع قطع ساری سنت کے مطابق ہو، لیکن مالی معاملات میں دغا باز ہو یا عورتوں کے ساتھ اختلاط میں احتیاط نہ کرتا ہو تنہائی میں ان سے ملتا ہو۔ آپ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے؟ کیا وہ سنت پہ چل رہا ہے؟ شریعت پہ چل رہا ہے؟ اگر نہیں تو کیا پیر صاحب کے لئے شریعت پہ نہ چلنا جائز ہو جاتا ہے؟ اب اگر میری نظر صرف سنت لباس پہ جائے، وہ تو اس کو حاصل ہے بلکہ کئی بڑے بزرگوں سے زیادہ ہی کرتا ہو گا، کیونکہ اس کا یہی طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ سے وہ دھوکہ دے رہا ہے، اس لئے اس کی اس چیز میں تو کمی نہیں ہو گی، باقی لوگ تو طبعاً جتنا کر سکتے ہیں اتنا کریں گے مگر یہ ایسا کام بڑھ چڑھ کے کرے گا۔

مستحبات کی دنیا بہت وسیع ہے، اتنی وسیع کہ سارے مستحبات شاید ہی کوئی کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں پر بعض مستحبات کھولے ہوتے ہیں، دوسروں پر دوسرے مستحبات کھولے ہوتے ہیں، کسی پہ مالی مستحبات ہیں، کسی پر جانی ہوتے ہیں کسی پہ اور نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جن کو جس راستے سے دینا چاہے، دے دیتا ہے۔ ہم مستحبات میں کسی کو ملامت بھی نہیں کر سکتے، کیونکہ مستحب مستحب ہوتا ہے، واجب نہیں ہوتا۔ بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جو مستحب پہ واجب کی طرح زور دینے لگے تو اس کے لئے اس مستحب کا ترک واجب ہو جاتا ہے۔

زیرِ نظر صورت حال میں میں مستحبات کی بات نہیں کر رہا بلکہ فرائض و واجبات کی، حرام کی اور مکروہ تحریمی کی بات کر رہا ہوں کہ اگر کوئی فرض کے ترک میں مبتلا ہو، مثلاً نماز نہ پڑھتا ہو کیا میں اس کو بزرگ مان سکتا ہوں؟ اچھا اگر کوئی نماز تو نہیں چھوڑتا لیکن مالی معاملات میں خراب ہو، وعدہ خلاف ہو، کیا میں اس کو بزرگ مان سکتا ہوں؟ یا خواتین کے ساتھ اختلاط کے مسئلہ میں احتیاط (شریعت پر عمل) نہ کرتا ہو، کیونکہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ تخلیہ حرام ہے۔ تو آپ اس کو بزرگ مان لیں گے؟

ان چیزوں کی طرف لوگوں کے اذہان نہیں جاتے، نتیجتاً ایسے لوگوں کی عیاشی ہوتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے فرمایا: ایسے لوگوں کی ہر چیز میں جیت ہوتی ہے، اگر چپ رہتے ہیں تو چپ شاہ کہلاتے ہیں۔ اگر بے تکی بولتے ہیں تو کہا جاتا ہے، رموز کی باتیں ہیں، لوگ اس کے لئے کوئی نہ کوئی تاویل بنا ہی لیتے ہیں۔ اور اگر ٹھیک بات کر رہا ہو، پھر تو حقائق و معارف ہیں۔

بعض لوگ بزرگوں کے علوم و معارف میں یوں گم ہو جاتے ہیں کہ ان کے مقابلہ میں شریعت کی بات بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، ان کے علوم و معارف کی شرعی حیثیت بیان کرنے کے لئے دفترِ دوم کے مکتوب نمبر 55 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں۔ اس میں دو باتیں آئی ہیں دو بہت اہم باتیں ہیں۔ ان کا جاننا بھی ضروری ہے۔

احکام الہامیہ کی تشریح:

متن:

پس ثابت ہوا کہ علوم و معارف احکام شرعیہ کے علاوہ دوسری چیز ہیں۔

تشریح:

فرمایا کہ علوم و معارف احکام شرعیہ کے علاوہ دوسری چیز ہیں۔ مثلاً اگر کسی کو علوم و معارف حاصل نہیں ہیں لیکن وہ شریعت پر چل رہا ہے تو اس سے کوئی اور مطالبہ نہیں ہے۔ اصل مطالبہ صحیح عقیدہ کے ساتھ اخلاص کے ساتھ شریعت پر چلنے کا ہے۔ تین باتیں ہیں، (1) علم، (2) عمل (3) اخلاص۔ ان تین باتوں کا مطالبہ ہے۔ ان پہ فیصلے ہوتے ہیں، علم ہے یا نہیں ہے، اس پر عمل ہے یا نہیں ہے، اس میں اخلاص ہے یا نہیں ہے۔ یہ کُل 6 باتیں بن جاتی ہیں۔

اب اگر کسی کو علوم و معارف حاصل ہیں لیکن ظاہر نہیں کئے تو آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ وہ اپنا کام کر رہا ہے، جو اس سے مطالبہ ہے وہ پورا کر رہا ہے۔ اس سے مزید کچھ پوچھنے کا آپ کو اختیار نہیں ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

متن:

کہ جن کے ساتھ اہل اللہ مخصوص ہیں اگرچہ وہ معارف ان ہی احکام کے ثمرات و نتائج ہیں۔

تشریح:

یہ بہت اہم بات ہے جس کو میں عرصہ دراز سے مسلسل عرض کرتا رہا ہوں۔

متن:

درخت لگانے سے مقصود اس کے پھلوں کا حصول ہے اور جب تک درخت قائم ہے اس وقت تک پھل کی امید رہتی ہے اور جب درخت کی جڑ میں خلل آ جائے تو اس کے پھل بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ بے عقلی کی بات ہے کہ کوئی شخص درخت کو تو کاٹ ڈالے اور پھلوں کی امید رکھے۔

تشریح:

یعنی شریعت پر نہ چلے اور علوم و معارف کی امید رکھے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

متن:

درخت کی جس قدر اچھی تربیت کریں گے اسی قدر زیادہ پھل دے گا مقصود اگرچہ پھل ہے لیکن وہ درخت کی فرع ہے۔ شریعت کو لازم پکڑنے والے اور شریعت میں سستی کرنے والے کو اسی پر قیاس کرنا چاہیے جو شخص شریعت کو لازم پکڑتا ہے وہ صاحبِ معرفت ہے، جس قدر شریعت کا التزام زیادہ ہو گا اسی قدر معرفت بھی زیادہ حاصل ہو گی اور جو شریعت میں سست ہے وہ معرفت سے بے نصیب ہے۔ بالفرض وہ اپنے خیال فاسد کی بنا پر کچھ (معرفت) رکھتا ہے اگرچہ (حقیقت میں) وہ کچھ بھی نہیں رکھتا تو یہ استدراج کی قسم سے ہے جس میں جوگی اور برہمن اس کے ساتھ شریک ہیں کُلُّ حَقِیْقَۃٍ رَدَّتْہُ الشَّرِیْعَۃُ فَھُوَ زَنْدَقَۃٌ وَ اِلْحَادٌ (جس حقیقت کو شریعت نے رد کردیا ہو وہ زندقہ اور الحاد ہے)

پس ہو سکتا ہے کہ اہل اللہ میں سے خاص خاص حضرات حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال کے معارف میں بعض ایسے اسرار و دقائق کو سمجھ لیں کہ ظاہر شریعت ان معارف سے خاموش ہو اور حرکات و سکنات میں حق تعالیٰ کا اذن (اجازت) و عدم اذن معلوم کر لیں اور حق تعالیٰ کی مرضی و نا مرضی کو جان لیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض نفلی عبادتوں کے ادا کرنے میں (حق تعالیٰ کی) مرضی نہیں پاتے اور اس کے ترک کا اذن پا لیتے ہیں اور کبھی نیند کو بیداری سے بہتر سمجھتے ہیں۔

تشریح:

یہ اضافی باتیں ہیں، اضافی باتوں میں اللہ تعالیٰ بعض خاص لوگوں سے بعض خاص کام لیتے ہیں۔ مزید آسانی کے لئے سمجھاتا ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ عالم کی نیند عابد کی عبادت سے افضل ہے۔ کیونکہ عالم کو نیند کی ضرورت اس لئے ہے کہ وہ ہوش میں رہے اور صحیح صحیح فتوے دے، صحیح صحیح مسائل بتائے۔ عابد یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سویا ہوا ہے، میں عبادت کر رہا ہوں اس لئے میں اس سے زیادہ اچھا ہوں۔ نہیں، بلکہ عالم کے احوال کے مطابق اس کی نیند زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔

اس قسم کی باتیں لوگوں کے اپنے اپنے احوال کے مطابق ہوتی ہیں، کچھ لوگوں کے احوال اور حالات مختلف ہوتے ہیں، اس میں ان کے لئے کچھ اور حکم ہوتا ہے، ان کے لئے کوئی الگ حالت زیادہ فضیلت کا باعث ہوتی ہے، لیکن یہ بات زوائد میں ہے، اصول میں نہیں، اصول سب کے لئے ایک ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے ایک وعظ کہا ہے: ”طریق القلندر“ اس وعظ میں حضرت نے یہ چیزیں بہت تفصیل کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ اس کا لبّ لباب یہ ہے کہ قلندر فرائض و واجبات کو ترک نہیں کرتا، لیکن نوافل ترک کر دیتا ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نوافل کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ نوافل جو ظاہری اعمال میں ہیں اور ایک وہ نوافل جو قلبی اعمال میں ہیں۔ قلبی اعمال میں بھی فرض و واجب اور نفل کے درجے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر صبر کا ایک مقام فرض ہے اور ایک نفلی ہے، تو باقی لوگوں سے صبر کے نفلی مقام کا تقاضا نہیں کیا جاتا، وہ فرض پورا کر لیں تو کافی ہے۔ لیکن قلندر کے لئے اس کی اجازت نہیں ہوتی، اس کو وہ قلبی فرض بھی ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں قلندر ظاہری نوافل کا اہتمام نہیں کرتا اس لئے لوگوں میں مشہور ہو جاتا ہے کہ یہ تو بزرگ نہیں ہے، کیونکہ لوگ نوافل کے اہتمام کو بزرگی سمجھتے ہیں، فرائض کے اہتمام کو بزرگی نہیں سمجھتے، اگر کوئی فرض نمازوں کا اہتمام کرتا ہے اس کو کوئی بزرگ نہیں کہتا۔ اگر کوئی پیسے کے لین دین میں ٹھیک ٹھاک ہو تو کہتے ہیں، بس ٹھیک ہے اچھا آدمی ہے، کوئی اس کو بزرگ نہیں کہتا، لیکن جو نفلی خیرات کرتا ہے اس کو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا سخی ہے۔ حالانکہ جس نے اپنے آپ کو ایک پیسے کے حرام سے بچایا وہ دوسرے کے لاکھوں روپے خرچ کرنے سے زیادہ فائدہ میں ہے۔

الغرض بعض لوگوں کے خاص احوال کے مطابق ان کے لئے کچھ چیزیں خاص ہوتی ہیں، اس لئے قلندر جتنا فرائض و واجبات کا اہتمام کرتا ہے اتنا نوافل کا نہیں کرتا۔ جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ہو ان کے لئے طریقۂ کار یہی ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا کہ قلبی نوافل کا اہتمام کرتے ہیں، ظاہری نوافل کا اہتمام نہیں کرتے تو لوگ ان کی طرف نہیں جاتے اور یہی ان کا مقصود بھی ہوتا ہے کہ بس وہ اپنا کام جاری رکھیں اور کوئی ان کی طرف نہ آئے۔ وہ قلندر اس معنی میں ہوتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بہت زیادہ آگے ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں بڑی تفصیلات بیان کی ہیں۔

متن:

احکامِ شرعیہ اپنے اپنے وقتوں کے ساتھ مخصوص ہیں اور الہامیہ ہر وقت ثابت ہیں جب ان بزرگوں کے حرکات و سکنات (حق تعالیٰ کے) اذن پر موقوف ہیں تو بے شک دوسروں کے نوافل بھی ان کے لئے فرض ہوں گے۔

تشریح:

کیونکہ ان کے لئے اللہ پاک نے وہ خاص رکھا ہو گا، ان کے لئے اس میں کوئی خاص چیز رکھی ہو گی۔

متن:

مثلاً ایک فعل شریعت کے حکم سے ایک شخص کی نسبت نفل ہے اور وہی فعل دوسرے شخص کے لئے الہامی حکم سے فرض ہے۔

تشریح:

یعنی اس کو ایک ذمہ داری دی گئی ہے۔

متن:

پس دوسرے لوگ کبھی نوافل ادا کرتے ہیں اور کبھی مباح امور کے مرتکب ہوتے ہیں لیکن یہ بزرگوار جب کام کو مولیٰ جل سلطانہ کے امر و اذن سے کرتے ہیں وہ سب فرض ہی ہوتے ہیں، دوسروں کے مستحب و مباح ان کے لئے فرائض کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس تحقیق سے ان بزرگوں کی بلندیِ شان معلوم کرنی چاہیے۔ علمائے ظواہر دین کے امور میں غیبی خبروں کو صرف پیغمبروں علیہم الصلوات والتسلیمات کے ساتھ مخصوص جانتے ہیں اور دوسروں کو ان خبروں میں شریک نہیں کرتے، یہ بات وراثت کے منافی ہے اور اس میں بہت سے ایسے علوم و معارف صحیحہ کی نفی ہے جو دین متین سے تعلق رکھتے ہیں ہاں احکامِ شرعیہ اَدِلّۂ اربعہ (چار دلیلوں) پر موقوف ہیں جن میں الہام کی کوئی گنجائش نہیں لیکن احکام شرعیہ کے ماسوا بہت سے دینی امور ایسے ہیں جن میں پانچویں اصل الہام ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب و سنت کے بعد تیسری اصل الہام ہے اور یہ اصل دنیا کے فنا ہونے تک قائم ہے۔ پس دوسروں کو ان بزرگوں سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔

تشریح:

ایسے لوگوں کا معاملہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ الہام کے ذریعہ سے ہوتا ہے لہٰذا وہ صرف ان کے لئے ہوتا ہے کسی اور کے لئے نہیں ہوتا، اس میں ان کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ تقلید اَدِلّۂ اربعہ سے ثابت ہونے والی چیزوں میں ہے۔ جب کہ الہام اَدِلّۂ اربعہ میں سے نہیں ہے۔ لہٰذا جس کو الہام ہو اس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق ہے، اس کے ذریعہ ان کو جو بھی حکم ہو گا، صرف وہی اس کے مامور ہوں گے۔

خود میں نے مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیہ سے سنا ہے، میں اس بات کا گواہ ہوں، میں نے براہِ راست سنا ہے، میں اس وقت ان کی مجلس میں موجود تھا۔ غالباً صرف تین آدمی تھے، جن میں سے ایک پروفیسر مُغنی صاحب تھے، پروفیسر صاحب سید تھے اور فلسفہ کے پروفیسر تھے۔ حضرت ان کا بڑا خیال رکھتے تھے، ان کو کچھ باتیں بتا رہے تھے، اسی دوران فرمایا: پروفیسر صاحب آپ نہ مانیں تو آپ گناہ گار ہو سکتے ہیں، میں نہیں مانوں گا تو کافر ہو جاؤں گا، جہاں پر آپ بیٹھے ہیں یہیں پر آپ ﷺ تشریف فرما تھے اور مجھ سے فرمایا کہ آپ آ نہیں رہے۔ میں نے کہا: آپ حکم دیں تو کیوں نہیں آئیں گے۔ فرمایا: آ جاؤ۔

بس پھر پروگرام بن گیا حضرت نے حج پہ جانے کا اعلان کر دیا، جماعت تیار ہو گئی اور آناً فاناً حضرت کا سارا انتظام بن گیا اور بس چلے گئے۔ اور ایسے وقت میں گئے کہ بظاہر جانا نا ممکن معلوم ہو رہا تھا، کیونکہ بالکل آخری وقت کی بات تھی۔ ساری فلائٹیں بُک ہو چکی تھیں، اب جانے کی کوئی صورت نہیں تھی، تو یہیں اسلام آباد تشریف لائے، اس وقت کوئی امتیاز صاحب سیکرٹری تھے، انہوں نے کہا کہ اگر آپ فارن ایکسچینج کی صورت میں کل تک اتنے پیسے بھجوا دیں، پھر میں کچھ کرا سکتا ہوں، ورنہ کچھ نہیں کر سکتا۔ حضرت نے دبئی میں اپنے کسی مرید کو اطلاع کر دی تو انہوں راتوں رات وہ پیسے بھجوا دئیے۔ حضرت صبح پھر سیکرٹری کے پاس چلے گئے۔ اس نے سمجھا تھا کہ یہ فقیر آدمی ہے، اتنے پیسوں کا انتظام فارن ایکسچینج کی صورت میں کیسے کرے گا، وہ تو ایک قسم کا بہانہ بنا رہا تھا، جب پیسے آ گئے تو اس نے کہا: میں تو مجبور ہوں، کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ حضرت نے کہا: آپ نے وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا: بس میں نہیں پورا کر سکتا، نہیں ہو سکتا۔ حضرت جلال میں آ گئے، فرمایا: میں نے تو جانا ہے تیری قسمت میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنے گھر کا داروغہ نہیں بنایا۔ اس کے بعد وزارت مذہبی امور سے واپس روانہ ہوئے۔ (مجھے مولانا رحمن صاحب نے یہ باتیں سنائیں) حضرت کو وہیل چئیر پہ لایا جا رہا ہے، راستے میں ہی میلوڈی کے پاس جسٹس عبد الحکیم صاحب کا گھر تھا، سڑک پر موڑ مڑ رہے تھے، جسٹس صاحب نے کہا: حضرت مولانا صاحب کافی تھکے ہوئے ہیں، کچھ آرام کر لیں۔ میں نے کہا: حضرت! جسٹس صاحب کے گھر تھوڑا آرام نہ کر لیں، وہ حضرت کے مرید تھے، انہوں نے کہا: ہاں ٹھیک ہے، اچھی بات ہے، کچھ آرام کر لیتے ہیں۔ آرام کی نیت سے جسٹس صاحب کے گھر مڑ کے چلے گئے، جسٹس صاحب نے کہا: آپ آرام کر لیں، میری ضیاء الحق کے ساتھ میٹنگ ہے تو میں بس ابھی میٹنگ کرکے آیا۔

مولانا نعمان صاحب بتاتے ہیں کہ ہم نے کہا: سیکرٹری امتیاز صاحب کے ساتھ حضرت کی اس قسم کی بات ہوئی ہے۔ کیا یہ کام ہو سکتا ہے؟ جسٹس صاحب نے کہا: مجھے کاغذات دے دو۔ کاغذات ساتھ لے لئے اور ضیاء الحق کے ساتھ میٹنگ کے لیے چلے گئے۔ ضیاء الحق صاحب کو انہوں نے وہ بات بتائی۔ ضیاء الحق صاحب کافی اچھے آدمی تھے۔ دین دار لوگوں کی بہت قدر کرتے تھے، مولانا صاحب کے تو بہت معتقد تھے۔ انہوں نے صرف اتنا کہا کہ مولانا صاحب کو اخیر میں ہوش آیا، پہلے کہہ دیتے تو بہت آسان تھا، اب تو کافی مشکل ہے خیر بطور خصوصی مہمان کر لیتے ہیں۔ اور بس مولانا صاحب پہنچ گئے۔

اب حضرت یہ جو فرما رہے ہیں کہ میں اگر نہ مانوں تو کافر ہو جاؤں گا یہ کس وجہ سے کہا۔ کیا ان باتوں سے کوئی کافر ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان کے ساتھ مخصوص باتیں ہیں، باقی لوگوں پر اس کی تقلید لازم نہیں ہے، میں اس مسئلہ میں مولانا صاحب کی تقلید نہیں کر سکتا لیکن مولانا صاحب اس کو نہیں چھوڑ سکتے تھے، ان کے لئے لازم تھا۔

ان ہی معارف کے بارے میں فرمایا کہ ان کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عارف اگر عالم یا مفتی ہوا تو میں شرعی مسئلہ میں بھی اس کی تقلید نہ کروں۔ مفتی ہونے کے لحاظ سے ان کی ذمہ داری الگ ہے وہاں میں صحیح بات میں ان کی تقلید کروں گا، اس کا ان کی معرفت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ معرفت ایک اضافی چیز ہے اس کا دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے صرف اس کے ساتھ ہے جس کو وہ پیش آئے۔

یہی بات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی ہے اور بہت اونچی بات فرمائی ہے کہ جو حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے معارف ہیں وہ ان کے اپنے معارف ہیں، ہمارے نہیں ہیں، جو معرفت ان کے پاس ہے وہ مجدد صاحب کی اپنی ہے، ہاں جو کام انہوں نے عقائد پہ کیا ہے، اس کو علماء نے پھیلا دیا ہے، اہل حق کے بھی وہی عقائد ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہے، اور علماء دیو بند کے وہی عقائد ہیں۔

اب شریعت پر عمل کے لیے دو چیزیں یعنی علم اور پھر اس پر عمل ہے اور عمل میں اخلاص پیدا کرنا ہے اور یہ چیز ابھی بھی مطلوب ہے اور اس پر سارے لوگ محنت کرہے ہیں البتہ جو معرفت ہے وہ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اپنی ہے۔

اس لئے اگر میں حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ میں سے کچھ بھی نہ پڑھتا، صرف اتنا پڑھ لیتا تو میرا مقصد پورا ہو جاتا۔ کیونکہ سب سے پہلے شریعت کا علم ہے، اس کی اپنے طور پر ایک الگ حیثیت ہے۔ وہ میں شریعت والوں سے سیکھوں گا۔ جہاں تک اس پر عمل کی بات ہے، اس کے لئے مجھے اصلاح کرنی پڑے گی۔ اپنی اصلاح کرنے کے بہت سارے رستے ہیں جس میں نقشبندی بھی ہے، چشتی بھی ہے، سہروردی بھی ہے، قادری بھی ہے، جس ذریعہ سے بھی اصلاح ہو میرا کام ہو جائے گا۔ پھر اس پر عمل کی توفیق ہو جائے، پھر اس کے ساتھ اخلاص بھی آ جائے۔ ان کے علاوہ باقی میرا کام صرف حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمة اللہ علیہ کے طریقہ پہ چلنا ہی نہیں ہے کیونکہ میرے پاس شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کا طریقہ بھی موجود ہے، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ کا طریقہ بھی موجود ہے، خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ کا طریقہ بھی موجود ہے، حضرت شاہ شاذلی رحمة اللہ علیہ کا طریقہ بھی ہے، دوسرے اکابر کا طریقہ بھی ہے، جس طریقہ سے بھی میں چلا اور میرا مقصد حاصل ہو گیا تو کیا مجھ سے مجدد صاحب ناراض ہو جائیں گے کہ آپ میرے طریقہ سے کیوں نہیں گئے؟ نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ ان کے معارف ان کے اپنے ہیں، اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

یہ باتیں مجھے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے تو پہلے سے معلوم تھیں کہ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے فرمایا ہے۔ الحمد للہ کافی عرصہ ہم ”انفاسِ عیسیٰ“ کا درس دیتے رہے ہیں، لیکن اس وقت اگر میں یہ باتیں کرتا تو شاید میری بات کوئی نہ سنتا، سب کہتے یہ تو تھانوی ہے، یہ ہماری باتیں کیا جانے، اور صِفر سے ضرب دے دیتے، اب صفر سے ضرب نہیں دے سکتے کیونکہ سامنے حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں اب ہم ان کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور با قاعدہ حوالے دے رہے ہیں۔

تو یہ بنیادی چیز ہے اس وجہ سے اللہ تعالی نے یہ کام لیا، اللہ پاک کا شکر ہے، اس میں صرف یہ چیز سامنے آنی تھی۔ یہ بات بالکل سادہ اور واضح ہے لیکن اس کو لوگوں نے بہت پیچیدہ بنایا ہوا ہے حالانکہ بزرگوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اپنا ایک خواب سنایا۔ انہوں نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم حج پہ جا رہے ہیں، ہم نے بغداد شریف کا راستہ لیا جب بغداد شریف پہنچ گئے تو حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بڑے خوش ہوئے اور کھڑے ہو گئے کہ میرا بیٹا آ گیا، مجھے اپنے سینہ سے لگا لیا، وہاں میں نے دیکھا کہ ہمارے ایک استاذ تھے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، زیارت کاکا صاحب میں استاذ تھے، وہ بھی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا: استاذ جی آپ تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کے مرید ہیں آپ ادھر کیسے؟ تسنیم الحق صاحب کہتے ہیں استاذ جی کی عادت تھی کہ اگر وہ انگلی بھی اٹھانا چاہتے تو اس کے لئے پورا ہاتھ اٹھاتے، پورا ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ اوپر سارے ایک ہیں۔

بات بالکل صحیح کی کہ اوپر سارے ایک ہیں، اوپر کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف ہم میں ہے۔ ہم لوگوں نے دیواریں کھڑی کی ہیں، ورنہ سب شریعت پر لانے والے ہیں۔

متن:

لیکن احکام شرعیہ کے ماسوا بہت سے دینی امور ایسے ہیں جن میں پانچویں اصل الہام ہے بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب و سنت کے بعد تیسری اصل الہام ہے اور یہ اصل دنیا کے فنا ہونے تک قائم ہے۔ پس دوسروں کو ان بزرگوں سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔

تشریح:

یہ بات عبقات میں بہت تفصیل کے ساتھ ثابت کی گئی ہے۔

متن:

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بعض اوقات میں عبادت کرتے ہیں لیکن وہ عبادت نا پسند ہوتی ہے اور یہ بزرگ بعض حالات میں عبادت ترک کر دیتے ہیں اور وہ ترک کرنا پسندیدہ ہوتا ہے پس حق جل و علا کے نزدیک ان کا ترک دوسروں کے فعل سے بہتر ہے۔ لیکن عوام اس کے بر خلاف حکم لگاتے ہیں یعنی اس کو عابد (عبادت کرنے والا) جانتے ہیں اور اس (ترک کرنے والے) کو مکار سمجھتے ہیں۔

تشریح:

مثال کے طور پر نفلی عبادت یا خاص طریقے سے خرچ کرنا۔

متن:

سوال: جب دین کتاب و سنت سے کامل ہو گیا تو کمال کے بعد الہام کی کیا حاجت ہے اور وہ کون سی کمی ہے جو الہام سے پوری ہوتی ہے؟

جواب: الہام دین کے پوشیدہ کمالات کا ظاہر کرنے والا ہے نہ کہ دین میں کمالات زائدہ کا ثابت کرنے والا۔

تشریح:

نماز تو سب ہی پڑھیں گے لیکن نماز کے کچھ خاص خاص اسرار ہیں وہ سب پہ نہیں کھلتے۔ وہاں تک سب لوگ نہیں پہنچتے، وہ پوشیدہ کمالات معرفت کے ذریعہ سے، الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے اس مقام تک پہنچا دیا تو اس کی نماز ادھر تک پہنچ جائے گی۔ اس کو پھر اللہ تعالی نے اس کے حساب سے مرتبہ دیا ہوتا ہے۔ تو یہ کوئی اضافی چیز نہ ہوئی بلکہ اسی کے اندر کچھ گہرائی ہے۔

متن:

جس طرح اجتہاد احکام کا مظہر ہے اسی طرح الہام ان دقائق و اسرار کا مظہر ہے اکثر لوگوں کی فہم اس کے سمجھنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ اجتہاد اور الہام میں واضح فرق ہے کہ وہ رائے کی طرف منسوب ہے اور یہ خالقِ رائے جل سلطانہ کی طرف منسوب ہے۔

تشریح:

یعنی الله جل شانهٗ ان کی طرف الہام فرماتے ہیں۔

متن:

پس الہام میں ایک قسم کی اصالت پیدا ہو گئی جو اجتہاد میں نہیں ہے۔ الہام نبی کے اس اعلام کی مانند ہے جو سنت کا ماخذ ہے۔

تشریح:

یعنی آپ ﷺ پر ایک تو وحی آتی تھی اور ایک آپ ﷺ کے قلب پر ایک چیز اترتی تھی، اور آپ ﷺ بتاتے تھے، الہام بھی قلب پر اترتا ہے۔ گویا کہ جیسے وہاں پر اتباعِ سنتِ ظاہری ہے اسی طرح یہاں پر اتباعِ سنتِ باطنی بھی ہے، باطنی اتباعِ سنت یہ ہے کہ جن پر الہام اتر رہا ہے اور شریعت سے ٹکرا نہیں رہا، بلکہ صرف گہرائی کی بات ہے تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

متن:

الہام نبی کے اس اعلام کی مانند ہے جو سنت کا ماخذ ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا اگرچہ الہام ظنی ہے اور وہ اعلام قطعی۔

تشریح:

کیونکہ وحی کے ذریعہ اس کی تصحیح یا تغلیط ہو سکتی تھی، آپ ﷺ نے کوئی بات کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کو تبدیل نہیں کیا تو وہ قطعی ہو جاتی تھی، اور اگر اس بات میں کوئی کمی بیشی ہوتی تھی تو اللہ پاک وحی کے ذریعہ اس کمی بیشی کو دور فرما دیتے تھے۔

سلوک سے مقصود غیبی صورتوں اور انوار کا مشاہدہ نہیں:

دفتر اول مکتوب نمبر 210 میں حضرت فرماتے ہیں:

متن:

سب سے پہلے عقائد کا درست کرنا ضروری ہے اور جو کچھ تواتر و ضرورت کے طور پر دین سے متعلق معلوم ہوا ہے اس کی تصدیق سے چارہ نہیں ہے۔ دوسرے ان باتوں کا علم ضروری ہے جن کا متکفل علمِ فقہ ہے۔ اور تیسرے طریقۂ صوفیہ کا سلوک بھی ضروری ہے لیکن اس غرض کے لئے نہیں کہ غیبی صورتیں اور شکلیں مشاہدہ کریں اور طرح طرح کے انوار اور رنگوں کا معائنہ کریں کیونکہ یہ سب لہو و لعب میں داخل ہیں۔ حِسی صورتیں اور انوار کیا کم ہیں کہ کوئی شخص ان کو چھوڑ کر ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعے غیبی صورتوں اور انوار کی ہوس کرے حالانکہ یہ (حسی) صورتیں اور انوار اور وہ (غیبی) صورتیں اور انوار دونوں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور حق تعالیٰ کے صانع ہونے پر روشن دلیلیں ہیں۔

سورج اور چاند کا نور جو کہ عالمِ مشاہدہ سے ہے اور طرح طرح کے ان انوار سے مزین ہے جو عالم مثال میں نظر آتا ہے اس سے کئی درجے افضل ہے لیکن چونکہ یہ (سورج اور چاند کے نور کا) دیکھنا دائمی ہے اور خاص و عام سب اس (کے دیکھنے) میں شریک ہیں اس لئے اس کو نظر اعتبار سے گرا کر انوار غیبی کی خواہش میں لگ جاتے ہیں۔

تشریح:

نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

من ہمہ ز آفتابم و ز آفتاب گویم

یہ گویا کہ اس کی تشریح ہے۔

متن:

بلکہ طریقۂ صوفیہ کے سلوک سے مقصود یہ ہے کہ شرعی اعتقادی امور میں زیادہ یقین حاصل ہو جائے۔ تاکہ استدلال کی تنگی سے نکل کے کشف کے کھلے میدان میں آجائیں۔

تشریح:

یعنی اس میں یہ ہوتا ہے کہ اس یقین میں اضافہ ہو گا۔ مثلاً ایک شخص نے اپنے استاذ سے قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی بات سنی اور اس کو علم ہو گیا۔ یہ علم الیقین ہے یعنی اسے علم کے ذریعے سے یقین ہو گیا ہے کہ یہ بات ایسی ہے، آگے علم الیقین کے دو درجے ہیں، ایک عین الیقین اور ایک حق الیقین ہے۔ عین الیقین میں وہ چیز سامنے نظر آجاتی ہے۔ میں آپ کو اس سلسلے میں ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ حضرت تنظیم الحق حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: میں میخ بند بابا جی کے پاس گیا ہوا تھا، میخ بند بابا جی رحمۃ اللہ علیہ نے پہاڑ میں خانقاہ بنائی تھی، اس میں مسجد بنا رہے تھے۔ وہاں لوگوں میں اختلاف تھا کہ قبلہ کس طرف ہے، میخ بند بابا جی کہہ رہے تھے کہ اس طرف ہے، لوگ کہتے کہ نہیں قبلہ اس طرف نہیں ہے۔ ان کے پاس آلات وغیرہ نہیں تھے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو حضرت نے میرے سر کے اوپر اپنی پگڑی رکھ دی اور فرمایا کہ قبلہ کے سامنے کھڑے ہو جاؤ، مجھے کعبہ نظر آنے لگا، تو میں اس کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا۔ یہ کون سا یقین ہے؟ یہ عین الیقین ہے کہ سامنے نظر آ گیا۔

اس میں خطرہ نہیں ہے، کیونکہ کشف ہے اور کشف ظنی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دوسرے جو کہہ رہے تھے کہ اس طرف قبلہ نہیں ہے تو ان کے پاس کونسی وحی تھی۔ ان کے پاس بھی وحی نہیں ہے۔ ہاں البتہ ان کے پاس اگر آلات ہیں جس کے ذریعہ صحیح صحیح حساب کیا جا سکتا ہے، تب وہ بدیہیات والی بات ہو جائے گی، اس وقت ہم اسی پر چلیں گے۔ یہاں تو بعد میں حضرت ہی کی بات کی تصدیق ہو گئی۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کو کشف سے واقعی صحیح بات کا پتا چل جائے تو آپ کا فائدہ ہو گیا۔ یعنی آپ کو کسی اور ذریعہ سے بھی پتا چل سکتا ہے لیکن وہ چیز آپ کے پاس اس وقت نہیں ہو گی، اس وقت آپ کو کشف کے ذریعہ سے پتا چل گیا آپ نے اس کو دیکھ لیا۔ تحری بھی یہی چیز ہوتی ہے اگر کوئی نئی جگہ چلا جائے تو استقبال قبلہ کے لئے تحری کی جاتی ہے، یہ اندازہ ہوتا ہے، اس صورت میں اندازہ بھی مقبول ہے کیونکہ اس وقت آپ یہی کر سکتے ہیں۔ اور تحری کسی بھی طریقہ سے ہو سکتی ہے، کشف کے ذریعہ سے بھی ہو سکتی ہے، لیکن اس کی تقلید نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا اگر اختلاف ہو جائے تو پھر آپ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے۔ وہ اپنے طور پہ اور آپ اپنے طور پہ پڑھیں گے سب کی نماز ہو جائے گی، لیکن یہ ہے کہ بعد میں اگر اس کی تصدیق ہو جائے، پھر تو دونوں طریقوں سے یقین حاصل ہو گیا۔ علم الیقین عین الیقین میں بدل گیا اور عین الیقین سے پھر حق الیقین میں بھی بدل سکتا ہے۔

حضرت فرما رہے ہیں کہ:

متن:

تاکہ استدلال کی تنگی سے نکل کے کشف کے کھلے میدان میں آ جائیں اور اجمال سے تفصیل کی طرف مائل ہو جائیں مثلاً واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کا وجود اور اس سبحانہ کی وحدت جو پہلے استدلال یا تقلید کے طور پر معلوم ہوئی تھی اور اس کے اندازے کے موافق یقین حاصل ہوا تھا (لیکن) جب طریقۂ صوفیہ کا سلوک میسر ہو جاتا ہے تو یہ استدلال و تقلید کشف و شہود سے بدل جاتا ہے۔ اور کامل ترین یقین حاصل ہو جاتا ہے۔ تمام اعتقادی امور میں یہی قیاس ہے۔ اور نیز (طریقِ صوفیا کے سلوک سے) مقصود یہ ہے کہ احکامِ فقہیہ کے ادا کرنے میں آسانی حاصل ہو جائے۔ اور وہ مشکل دور ہو جائے جو نفس کی امارگی سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اس فقیر کا یقین یہ ہے کہ طریقۂ صوفیہ حقیقت میں علومِ شرعیہ کا خادم ہے نہ کہ شریعت کے خلاف کوئی اور امر اس سے ثابت ہوتا ہے اور (میں نے) اپنے رسائل و کتابوں میں اس معنی کی تحقیق میں لکھا ہے اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے طریقۂ عالیہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا تمام طریقوں سے زیادہ اولیٰ و انسب ہے کیونکہ ان بزرگوں نے سنت کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا ہے اور بدعت سے اجتناب کرنے کے لئے فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو متابعت کی دولت حاصل ہو جائے اور احوال کچھ نہ رکھتے ہوں تو خوش ہیں اور اگر احوال حاصل ہونے کے با وجود متابعت میں فتور و کمی محسوس کریں تو ان احوال کو پسند نہیں کرتے۔

تشریح:

حضرت کو اپنے سلسلۂ نقشبندیہ کی تعریف کرنے کا سو فیصد اختیار تھا، کیونکہ کوئی شخص جس چیز کو اپنے لئے چنتا ہے تو اس کو کسی بنیاد پر چنتا ہے، لیکن وہ کسی اور شخص کے لئے لازمی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کسی اور شخص کو کسی اور وجہ سے کوئی دوسری چیز زیادہ پسند ہو یا اس کے لئے دوسری چیز زیادہ آسان ہو یا اس کی طبیعت اس کے ساتھ زیادہ ملتی ہو۔ حضرت کی بات کے رد میں بھی کوئی بات ہمارے پاس نہیں ہے لیکن ہم حضرت کی بات کی وجہ سے دوسرے بزرگوں کا رد بھی نہیں کر سکتے، مثلاً اگر شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ قادری سلسلہ کی بات فرما دیں تو ہم شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ کا رد نہیں کر سکتے۔ وہ بھی ٹھیک ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ اپنے چشتیہ سلسلے کے بارے میں فرما دیں، تو ہم اس کا رد بھی نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ یہ طریقے ہیں، یہ مقصود نہیں ہیں، طریقہ کوئی بھی ہو سکتا ہے جس کے لئے جو طریقہ زیادہ مناسب ہو اور اس کے ذریعے اس کو مقصد حاصل ہو جائے، تو بس ٹھیک ہے۔

جیسے میڈیکل ڈاکٹر کے سامنے حکمت کی باتیں کریں تو وہ حکمت کی باتوں کو نہیں مانتے کہتے ہیں کہ یہ ثابت نہیں ہے۔ دوسری طرف حکیم لوگ ڈاکٹروں کی باتیں نہیں مانتے۔ حکیموں کے ہاں گرم و سرد بھی ہوتا ہے مگر ڈاکٹر لوگ اس کو نہیں مانتے۔ میں نے خود مدینہ منورہ میں ایک بہت بڑے ڈاکٹر سے پوچھا، کہ آپ جو گرمی سردی نہیں مانتے، تو انڈے سے جو گرمی کا نقصان ہوتا ہے، اس کو آپ کس کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہم اس کو الرجی کہتے ہیں۔

ایک جگہ گفتگو ہو رہی تھی۔ حکیم صاحب نے ایک بڑا نقطہ بتایا، انہوں نے کہا: اگر یہ گرمی سردی نہیں مانتے تو ایک پاؤ گرم مسالا کھا لیں اور پھر دیکھیں۔ ایک پاؤ گرم مسالا کوئی کھائے گا تو میرے خیال میں ہسپتال ہی میں جائے گا۔

مفتی منیب صاحب اور دوسرے حضرات مولانا عبد الغفور حیدری صاحب کے ہاں میٹنگ کے لئے گئے تھے۔ ان کے پاس کوئی کشتہ لایا تھا، وہ سمجھے کہ یہ حلوہ ہے، انہوں نے مہمانوں کے سامنے رکھ دیا، سب نے حلوہ سمجھ کے کھایا۔ کشتہ کی خوراک بہت تھوڑی ہوتی ہے، بالکل جیسے تنکے کے ساتھ کھاتے ہیں۔ انہوں نے چمچ کے ساتھ کھا لیا اور سب بیمار پڑ گئے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ