مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 15

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
منگل کے دن ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات شریفہ اور ان کی تعلیمات کے بارے میں بات ہوتی ہے۔ حضرت کے صاحبزادہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب، جنہیں حلیم گل بابا کہتے ہیں، ان کی کتاب ’’مقامات قطبیہ و مقالات قدسیہ‘‘ کی تعلیم ہوتی ہے۔
متن:
ہمارے شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس مقام سے آگاہ تھے۔ اور حقیقت میں وہ عارف تھے اور معرفت میں کمال درجہ اُن کو حاصل تھا۔ جس طرح کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ زمانۂ قدیم میں معرفت میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ بیت:
؂ ہر جا فقیر بینی با او نشست باید
ما را فقیر معنی چوں بایزید باید
ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ
ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید
ترجمہ: ”تو جہاں کہیں بھی کسی فقیر کو دیکھے تو اس کی مجلس میں بیٹھنا چاہئے۔ اور ہم کو تو بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح فقیر منش مرشد چاہئے۔ ہم کو غیب کے خُمِستاں (مے خانے) سے شراب کا مژدۂ (خوشخبری) چاہئے اور ہم کو بیٹھنے اور محفل آرائی کے لیے عرشِ مجید جیسا مقدس مقام چاہئے“
پس اے بھائی! چاہئے کہ تمام میخانہ نوش کر کے بھی ہوش میں رہو اور کچھ چیخ و پکار نہ کرو۔ اور اگر کوئی چیخے چلائے تو وہ کامل نہیں ہوتا۔ اور جوان مردوں کی مجلس کے قابل نہیں۔ "أَنَا الْحَقُّ" کہنا اور "سُبْحَانِيْ" الاپنا اہل ہمت کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اگر آئینۂ محمدی میں مشاہدہ حاصل ہو جائے تو پھر شور نہیں مچاؤ گے اور اہل ظواہر کو آواز نہیں دو گے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: "وَ مَاقَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَمَا عَرَفَ اللہَ حَقَّ مَعْرِفَتِہٖ" کہ اللہ کی قدر و منزلت اور اس کی معرفت کو کما حقہٗ نہیں سمجھا گیا۔ پس دل سے جان لو، اور آنکھوں سے دیکھ لو، مگر مخلوق کو نہ کہو۔ اور اس دیکھنے اور جاننے سے کسی کو بھی مگر جو مردِ حقیقت ہو، اطلاع نہ دو۔ اور اہلِ ظواہر یعنی ظاہر بینوں کو یہ راز افشا نہ کرو۔ پس اے بھائی! جان لو کہ معرفت کے درخت کا میوہ اللہ کا دیدار ہے، اور جو شخص یہاں اہل معرفت ہو گا وہ اہل رویت ہو گا۔ یعنی اس کو دَوار (رسائی) نصیب ہو گی۔ اور جس شخص نے یہاں معرفت حاصل نہ کی تو وہاں اندھا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿مَنْ کَانَ فِيْ ھٰذِہٖ أَعْمٰی فَھُوَ فِي الْآخِرَۃِ أَعْمٰی﴾ (الاسراء: 72) ”جو اس دنیا میں اندھا ہو گا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہو گا“ پس اے بھائی! معرفت تین قسم کی ہوتی ہے: معرفتِ ذات، معرفتِ صفات و معرفتِ افعال اللہ و احکامہ۔ آخر الذکر یعنی معرفت افعال اللہ و احکامہ کو اپنے نفس سے حاصل کرو گے کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی ﴿وَفِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریٰت: 21) ”اور خود تمہارے اندر سو کیا تم کو سوجھتا نہیں“ اور معرفتِ صفات، نفسِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت سے حاصل کرو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبہ: 128) ”آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں کا“ اور معرفتِ ذات کی کیفیت اور ماہیت کا بیان ممکن نہیں اور وہ الفاظ کے احاطے میں سما نہیں سکتا۔ اور یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "تَفَكَّرُوْا فِيْ آلَاءِ اللهِ - يَعْنِيْ عَظَمَتَهُ - وَلَا تَتَفَكَّرُوْا فِي اللهِ" (شعب الإیمان للبیھقی، کتاب الإیمان باللہ، باب: أسامی صفات الذات، رقم الحدیث: 119) ”اُس کی عظمتوں میں تفکر کیا کرو، اور اس کی ذات میں فکر کرنے سے باز رہو“ تو یہ بات عام لوگوں اور متوسط ہمت رکھنے والے لوگوں کے لیے ہے۔ مگر اے برادر! شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ عالی ہمت لوگ سلوک کے راستے میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ جب تک اس کی ذات میں اس کے سوا سب کچھ محو نہ کریں، اُن کو قرار نہیں آتا۔ اور جب خود محو ہو جاتے ہیں تو ان کو قرار آتا ہے۔ اور ان کی محویت کا عالم یہ بیان ہوا ہے۔ بیت:
؎ من نیم آن کس که منم گویی کیست
خاموش دلم دردمندم گوئی کیست
من پیرہن بیش نیم از سر تا پائے
آنکس کہ منش ز من گوئی کیست
ترجمہ: ”میں وہ شخص نہیں ہوں جو کہ میں ہوں، آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ خاموش دل اور درد مند ہوں۔ آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ میں ایک قمیص سے زیادہ نہیں سر سے پیر تک، جس کو میں کہتے ہیں پتہ نہیں کون ہوں۔“ ابیات:
؎ دلا نزدیک کن بنشین که از جانان خبر دارد
بجنبان آں درختے را کہ او گلہائے تر دارد
نہ ہر کلک شکر دارد نہ ہر زیرِ زبر دارد
نہ ہر جسم بصر دارد نہ ہر بحر گہر دارد
ترجمہ: ”اے میرے دل! ایسے شخص کی ہمنشینی اختیار کر جو کہ محبوب کے حال سے آگاہ ہو۔ اور اُس درخت کو ہلایا کرو جو کہ تازہ اور میٹھا میوہ رکھتا ہو۔ ہر مل اور بانس میں شکر اور شیرینی نہیں ہوتی نہ ہر جسم میں دیکھنے کی قوت یعنی آنکھ ہوتی ہے، اور نہ ہر سمندر میں موتی ہوتا ہے۔“ مثنوی:
مُردم از حیوانی و آدم شدم
از چه ترسم کی ز مردن کم شدم
حملۂ دیگر بمیرم از بشر
تا بر اَرم نہ ملائک برد سر
از ملائک هم بایدم جستن ز جو
کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہٗ
بارِ دیگر از ملک قربان شوم
آنچہ اندر دہم نایداں شوم
پس عدم گردم عدم چوں ارغنون
گردم کَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن
یہ مولانا روم صاحب کے مثنوی شریف کے نا مکمل اشعار ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
پہلے میں جمادات یعنی مٹی کی شکل میں تھا، جب میری وہ صورت فنا ہو گئی تو نباتات اور سبزے کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس شکل سے بدل کر میں حیوانوں کے اجسام میں منتقل ہو گیا اور حیوانات کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اسی طرح ہوتے ہوتے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ چونکہ ارتقاء کا عمل بدستور جاری ہے، تو اب میں مرنے سے کیا ڈر اور خوف کروں گا کہ مرنے سے میں کم ہو جاؤں گا۔ اب کہ جب میں مر جاؤں گا تو عالَمِ بشریت سے نکل کر عالَم ملکوت کی جانب قدم بڑھاؤں گا، بلکہ اس سے بھی آگے نکل جانے کی کوشش کروں گا، فرشتوں سے بھی آگے نکل جانے کی جستجو کروں گا۔ اور چونکہ خدا کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اس لیے اس مرحلے سے آگے جا کر فرشتوں سے بھی آگے نکل جاؤں گا۔ اس کے بعد میں عدم ہو جاؤں گا، جس طرح باجے کی آواز معدوم ہوتی ہے۔ اور میرے بارے میں "إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" کہا جائے گا۔
اس کتاب کے مؤلف کو مثنوی شریف اور اس مقام سے حضرت شیخ صاحب شیخ المشائخ رحمکار صاحب کے مقامِ معرفت کے بارے میں حالت استغراق میں ایک راز کی بات کہہ دی کہ محبت کے آسمان میں معرفت کے بادلوں میں ایک بجلی چمکی اور اس روشنی میں مجھ کو کلمہ طیبہ کے معنیٰ واضح ہو کر معلوم ہوئے۔ اور وہ مفہوم و معانی مجھ پر روشن ہو گئے۔ وہ معنیٰ کوئی دوسری چیز ہے اور یہ معنیٰ جو کہ ظاہر بین لوگ کرتے ہیں، اس میں اور اُس معنیٰ میں بہت عظیم فرق ہے۔ یعنی اُس میں روح کا مشاہدہ اور معائنہ کیا اور ایمان بالغیب کے مقام سے آگے نکل کر معائنے اور مشاہدے کے ایمان یعنی ایمان شاہد و مشہود کے مقام کو پہنچا۔
؎ گر علمِ خرابات ترا ہم نفسے
ایں علم و عمل و هنرش تو بادا ہوسے
گر طائرِ غیبی ست بسرت سایہ فگن
سیمرغِ جہاں در نظرت چوں مگسے
ترجمہ: ”اگر تمہیں ظاہری علوم میں دسترس حاصل ہو، تو تمہارا یہ علم اور ہنر صرف تمہاری خواہشات ہیں۔ اور اگر غیب کا پرندہ تمہارے سر پر سایہ کر ڈالے تو دنیا کا سیمرغ پرندہ تمہاری نظر میں ایک حقیر مکھی جیسا ہو گا“
اس بات کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش عطا کی ہو۔ مختصر یہ کہ میں نے یہ جو بات عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے نفس سے حاصل کرو گے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک مَلکی، اور دوسری قسم کے افعال ملکوتی ہیں، یعنی یہ جہاں اور وہ جہاں۔ جو کچھ کہ اس جہاں میں ہے، اس کو ملکی کہتے ہیں، اور جو کچھ کہ اُس جہاں میں ہے وہ ملکوتی ہے، اور جو کچھ کہ اس اور اس جہاں سے تعلق نہیں رکھتا اُس کو جبروتی کہتے ہیں۔ اور لاہوتی کی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ اُس کی تعریف الفاظ میں سما نہیں سکتی۔ اس راہ میں مطلب اور غرض کی بات یہ ہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو، فقط اُسی کے لیے کرو۔ اس کے لیے دنیا بھر کی لغزشوں اور گناہوں کی پرواہ نہ کرو۔ اور اس تک رسائی و نارسائی سے آنکھیں بند رکھو۔ اور یہ خیال تک ذہن میں نہ لاؤ کہ میں پہنچ جاؤں گا یا نہیں پہنچوں گا۔ اور اُن خوشگوار نہ ختم والی ہواؤں کے انتظار میں رہو، اور وہ اعمال دینی جو کہ لوگوں کی نظروں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہوں، وہ سب آتش میں ڈال دو۔ اور اپنے آپ کو منکرات کے نزدیک تصور کرو۔ اور اے برادر عزیز! جب تک پردۂ ربوبیت سے پردۂ جمالِ الٰہی تک رسائی حاصل نہ ہو، اور پردۂ جمال الٰہی سے پردۂ عزت تک اور پردۂ عزت سے پردۂ کبریائی تک رسائی حاصل نہ ہو، "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”یعنی اس نے اپنے رب کو پہچانا“ کے مقام تک پہنچ نہیں سکتا۔ اور ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پردۂ کبریائی کے غوطہ زن تھے۔ اور اس زمانے میں وحدتِ الٰہی کے قطب تھے اور بایزید بسطامی دوم تھے۔ اور جب کوئی مقامِ کبریائی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کلام کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ بیت:
؂ ہر کرا در معرفت محکم قدم
در گزشت از کفر و از اسلام ہم
چوں ترا این چنیں ایماں بود
این تنِ تو گم شد آن جان بود
”جس کسی کے مقامِ معرفت میں قدم مضبوط ہو جائیں، تو وہ کفر اور اسلام سے گزر گیا۔ اور جب تجھے ایسا مقام حاصل ہو جائے، تو تمہارا بدن گم ہو کر فقط جان باقی رہ جائے گی“
؂ مردِ میداں شوی این کار را
مرد باشی این چنیں اسرار را
؂ ہائے در نہ ہمچو مردان و مترس
در گزر از کفر و از ایمان مترس
؂ چند ترسی دستی از طفلی بدار
باز سو چوں شیر مرداں سوئے کار
ترجمہ: ”اس کام کے لیے مرد کار بن جاؤ تو اس قسم کے اسرار و رموز کے اہل ہو جاؤ گے۔ جواں مردوں کی طرح آگے قدم بڑھاؤ، اور مت ڈرو۔ کفر اور ایمان کے جھمیلوں کو چھوڑ دو۔ اور کچھ خوف نہ کرو۔ تم کب تک یہ خوف کھاتے رہو گے؟ یہ بچپن چھوڑ دو، اور شیر دل جوانوں کی طرح ہو جاؤ“۔
یہ اشعار شیخ محمد حسین کے مکتوبات میں سے لکھے گئے۔ لیکن اب "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کا "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" کے ساتھ کیا واسطہ ہے اور اس کے کیا ثمرات ہیں، اس کے متعلق کیا معلومات ہیں۔ "وَاللہُ أَعْلَمُ"
تشریح:
حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے علوم کو سمجھنے کے لئے بہت صلاحیت چاہئے۔ اصل میں سمجھ کے اعتبار سے لوگوں کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ میں پہلے بھی اس کے بارے میں عرض کر چکا ہوں کہ میٹرک کے سٹوڈنٹ کو اگر کہا جائے کہ ایٹم بھی قابلِ تقسیم ہے، تو اس کی سمجھ میں بات نہیں آئے گی اور اگر اس کو Schrodinger Equation سمجھائی جائے، تو اس کو کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گا، بلکہ جو کچھ سمجھ آ رہا ہو گا، وہ بھی جاتا رہے گا۔ اسی طرح ہر شخص کو اس کے مقام کے مطابق معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جتنی کسی نے معرفت حاصل کی ہو، اسی کے حساب سے اس کو مزید معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔ مثلاً: اگر میں پانچویں سیڑھی پر ہوں، تو چھٹی سیڑھی پر چڑھنا میرے لئے ممکن ہو گا اور اگر میں پہلی سیڑھی پر ہوں، تو یک دم چھٹی سیڑھی پر چڑھنا میرے لئے نا ممکن ہو گا۔ یہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ اس لئے ان حضرات نے جو مقامات طے کئے ہیں، اگر ان کو الفاظ میں بیان کیا جائے، تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی۔ لیکن بہر حال! ہمیں تو ضرورت ہے کہ ہم ان حضرات کے علم سے فائدہ اٹھائیں، اس وجہ سے کوشش کی جاتی ہے کہ بات کچھ نہ کچھ سمجھ میں آ جائے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے معرفت و اسرار سے متعلق باتوں کو سمجھنے کے لئے پورا ایک نظام وضع فرمایا ہے۔ انہوں نے سمجھنے کے لئے بنیادی طور پر کچھ باتیں بیان فرما دی ہیں، جن کا ذکر ہماری کتاب ’’جذب و سلوک‘‘ میں مکتوب نمبر 287 کی تشریح میں آ چکا ہے، ان باتوں کے ذریعے سے ہمیں کچھ باتیں سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ یہ ان حضرات کا ہمارے اوپر بہت بڑا احسان ہے، ورنہ یہ باتیں ویسے ہی ہمارے سروں کے اوپر سے گزر جاتیں اور ہم لوگ ان باتوں سے استفادہ نہ کر سکتے۔
یہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: یا اللہ! مجھے اپنا دیدار کرا دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَنْ تَرَانِیْ﴾ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا تو حضرت نے فرمایا کہ اگر موسی علیہ السلام جمالِ محمدی کا مشاہدہ کرتے، تو اس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ کو دیکھ لیتے یعنی اس ذریعے سے ان کو اللہ پاک کا دیدار جو اس دنیا میں ہو سکتا ہے، وہ ہو جاتا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے حضرت موسی علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ یا اللہ! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہونے کی وجہ سے جو کچھ حاصل ہے، وہ بہت کچھ ہے۔ اسی وجہ سے بعض پیغمبروں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہونے کی تمنا کی تھی۔ گذشتہ سے پیوستہ درس میں اس کا ذکر آ چکا ہے کہ حضرت نے فرمایا تھا: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ جس نے اپنے نفس کو پہچانا، تو اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ اس کے بارے میں حضرت نے ارشاد فرمایا تھا کہ بعض بزرگوں نے فرمایا ہے: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ ان دونوں باتوں کی پوری تشریح چوں کہ پہلے گزر چکی ہے، اس لئے اب یہ دوبارہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی شخص وہ تشریح جاننا چاہتا ہے، تو ویب سائٹ پر موجود ہمارے بیانات میں سے اس بیان سے پہلے والے دو بیانات (درس نمبر 13 اور 14) سن سکتا ہے۔ ان بیانات سے ان شاء اللہ پوری تشریح سامنے آ جائے گی۔
بہر حال! حضرت فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ المشائخ اس مقام سے آگاہ تھے۔ میرے خیال میں مقام کی بات سمجھ میں آ چکی ہو گی کہ حضرت کس مقام کا ذکر کر رہے تھے۔ حقیقت میں وہ عارف تھے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ عارف کون ہوتا ہے؟ سب سے پہلے شریعت ہے اور شریعت پر عمل مقصود ہے۔ ہمیں پیدا ہی اسی لئے کیا گیا ہے۔ اب شریعت پر عمل کرنا ہے اور اس عمل کرنے میں دو رکاوٹیں ہیں: ایک رکاوٹ ہمارا نفس ہے اور دوسری رکاوٹ شیطان ہے۔ شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور نفس اپنی خواہشات کے ذریعے سے انسان کو بگاڑتا ہے اور برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ دل بھی نفس سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ ساری باتیں مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بتائی ہیں۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، کیوں کہ حضرت نے اس کو تفصیل سے سمجھایا ہوا ہے۔ اب نفس کا علاج کرنا ہے، جس کو ’’اصلاحِ نفس‘‘ یا ’’تزکیۂ نفس‘‘ کہتے ہیں۔ نفس کی اصلاح مجاہدہ کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ جب نفس کی مخالفت کی جاتی ہے، تو پھر نفس ماننا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر نفس کی بات مانی جائے، تو نفس مزید ضدی بن جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پہلے ایک انسان اتنا زیادہ خراب نہیں ہوتا، لیکن جب وہ نفس کے پیچھے چلنے لگتا ہے اور اس کی بات ماننا شروع کر دیتا ہے، تو پھر نفس اس سے مزید چاہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ شخص خیر کی تمام چیزوں سے دور ہو جاتا ہے اور نفس کا بندہ بن جاتا ہے۔ ایسے شخص کا ہی قرآن پاک میں ذکر ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ﴾ (الفرقان: 43)
ترجمہ: ’’بھلا بتاؤ، جس شخص نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہو‘‘۔
یعنی یہ وہ لوگ ہیں، جو نفس کی بات مانتے ہیں اور نفس کی خواہشات ماننے میں شریعت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف چونکہ دل ہے اور دل میں شیطان کی طرف سے وسوسہ بھی آتا ہے اور اللہ کی طرف سے الہام بھی ہوتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں دل سے متعلق ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر نفس کی بات مانو گے، تو نفس مزید سوار ہوتا جائے گا اور نفس کی مخالفت مشکل سے مشکل تر ہوتی جائے گی۔ لیکن اگر نفس کی مخالفت کی جائے، تو نفس ماننا شروع کر دے گا اور نفس کو منوانا آسان سے آسان تر ہوتا جائے گا۔ ایک بہت واضح بات ہے، جس سے بہت سے راستے کھلتے ہیں۔ بعینہ اسی طریقے سے دل میں چوں کہ دو چینلز ہیں: ایک شیطانی چینل ہے اور ایک رحمانی چینل ہے۔ اگر کسی نے شیطانی چینل کی بات ماننا شروع کر دی، تو اس کے لئے شیطانی چینل کھلتا جائے گا اور رحمانی چینل بند ہوتا جائے گا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ پہلے یہ دونوں چینلز پچاس پچاس فیصد ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے شیطانی چینل کی بات مانی اور رحمانی چینل کو اس کے مقابلہ میں چھوڑ دیا، تو رحمانی چینل کو چھوڑنے کی وجہ سے وہ کم ہو جائے گا اور شیطانی چینل کی بات ماننے کی وجہ سے وہ بڑھ جائے گا۔ بس شیطانی چینل 51 فیصد ہو جائے گا اور رحمانی چینل 49 فیصد ہو جائے گا۔ پھر اگر مزید شیطانی چینل کی بات مانی، تو یہ 52 فیصد اور رحمانی چینل 48 فیصد ہو جائے گا۔ اسی طرح شیطانی چینل مزید کھلتا جائے گا اور رحمانی چینل مزید بند ہوتا جائے گا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آ سکتا ہے (اللہ ایسے وقت سے بچائے) کہ شیطانی چینل سو فیصد کھل جائے اور رحمانی چینل بالکل بند ہو جائے۔ ایسی صورت میں انسان مسلوب الہدایۃ ہو جاتا ہے یعنی پھر وہ ہدایت کے قابل نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا، وَلَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا، وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا (الاعراف: 178)
ترجمہ: ’’ان کے پاس دل ہیں، جن سے وہ سمجھتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں، جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے پاس کان ہیں، جن سے وہ سنتے نہیں‘‘۔
اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔
﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰى سَمْعِهِمْ، وَعَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَۃٌ﴾ (البقرہ:7)
ترجمہ: ’’اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے‘‘۔
پس ایسے لوگ مسلوب الھدایۃ ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف اگر کوئی شخص رحمانی چینل کی بات مانے اور شیطانی چینل کی بات ماننا چھوڑ دے، تو رحمانی چینل 51 فیصد اور شیطانی چینل 49 فیصد ہو جائے گا۔ اسی طرح پھر رحمانی چینل 52 فیصد اور شیطانی چینل 48 فیصد، پھر رحمانی چینل 53 فیصد اور شیطانی چینل 47 فیصد، پس اس طرح رحمانی چینل مزید کھلتا جائے گا اور شیطانی چینل مزید بند ہوتا جائے گا۔ بہت ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا آ جائے کہ رحمانی چینل سو فیصد کھل جائے اور شیطانی چینل بالکل بند ہو جائے۔ ایسی صورت میں پھر شیطان اس انسان پر حملہ نہیں کر سکتا۔ شیطان ایسے شخص کو چھیڑ ہی نہیں سکتا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کی اس انسان تک access (رسائی) ہی نہیں رہی، کیوں کہ شیطان کا چینل زیرو فیصد اور رحمانی چینل سو فیصد کھل چکا ہے۔ نتیجتاً پھر ایسے انسان تک شیطان کی access (رسائی) نہیں ہو سکتی۔شیطان نے جنت سے نکلتے ہوئے اللہ تعالی سے کہا تھا کہ میں بنی آدم کے لئے سیدھے راستے میں رکاوٹ ڈالوں گا۔ میں ان کی دائیں جانب سے آؤں گا، بائیں جانب سے آؤں گا، سامنے سے آؤں گا اور پیچھے سے آؤں گا۔ میں ان کو آپ تک نہیں پہنچنے دوں گا۔ آپ ان میں سے بہت کم لوگوں کو شکر گزار پائیں گے۔ مگر تیرے بعض چنے ہوئے بندوں پر میرا بس نہیں چلے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں ہے: ﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (ص: 83)
ترجمہ: ’’سوائے تیرے برگزیدہ بندوں کے‘‘۔
یہ چنے ہوئے بعض بندے وہی لوگ ہوتے ہیں، جن کا شیطانی چینل بالکل بند ہو جاتا ہے۔ پھر ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔
اس مقام پر بعض لوگوں کو دھوکہ ہو جاتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، تو پھر ان کا قصور کیا ہے؟ گمراہ اور بد راہ قسم کے لوگ عموماً لوگوں کو خراب کرنے کے لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگ قرآن پاک کو مکمل پڑھتے نہیں، صرف اپنی پسند کا حصہ سیاق و سباق سے کاٹ کر پڑھتے ہیں۔ کسی بھی کلام کو اگر اس کے سیاق و سباق سے کاٹ دیا جائے، تو اس کا صحیح مفہوم سامنے نہیں آئے گا۔
پس یہاں پر اصل بات یہ ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے جو مہر لگائی گئی ہے، وہ ان کے اپنے عمل کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پورا طریقۂ کار آپ کے سامنے بیان کیا کہ شیطان کا چینل بھی ہے اور رحمان کا چینل بھی ہے۔ ہمیں اختیار ہے کہ ہم شیطانی چینل کو اختیار کریں یا رحمانی چینل کو اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اختیار دے دیا ہے۔ اب اس اختیار کو ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے، پھر اسی کے مطابق اللہ پاک اس کے ساتھ معاملہ فرماتے ہیں۔ اگر کسی نے شیطانی چینل کو اختیار کیا، تو شیطانی چینل مزید کھل جائے گا اور رحمانی چینل اسی تناسب سے بند ہو جائے گا۔ پس اگر وہ شیطانی چینل کی بات مانتا چلا گیا اور رحمانی چینل کو چھوڑے رکھا، تو رفتہ رفتہ شیطانی چینل سو فیصد کھل جائے گا اور رحمانی چینل زیرو فیصد ہو جائے گا یعنی بالکل بند ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں پھر اس شخص کی طرف اللہ کی جانب سے ہدایت نہیں پہنچ سکے گی۔ جیسے یہودیوں نے کہا تھا: ﴿وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِیْلًا مَّا یُؤْمِنُوْنَ (البقرہ: 88)
ترجمہ: ’’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ہمارے دل غلاف میں ہیں‘‘۔ نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں‘‘۔
یہودیوں نے یہ صحیح بات کہی تھی۔ ان کے دل واقعتاً ایسے ہی ہو چکے تھے کہ وہ حق کی بات سن ہی نہیں سکتے تھے۔ یہودی جانتے تھے، لیکن مانتے نہیں تھے۔ قرآن میں ہے: ﴿یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْ (البقرہ: 14)
ترجمہ: ’’وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘‘۔
یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح جانتے تھے، جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے تھے، لیکن پھر بھی مانتے نہیں تھے۔ شیطان نے بھی ایسا ہی کیا تھا کہ سب کچھ جانتا تھا، لیکن سجدہ نہیں کیا۔ اللہ پاک اس کو فرما رہے تھے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، تو کیا شیطان کو پتا نہیں تھا کہ اللہ پاک فرما رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کو پتا تھا، لیکن اس نے اپنے نفس کی وجہ سے اللہ پاک کے حکم کی مخالفت کی کہ میں اس سے بہتر ہوں، یہ منصب مجھے کیوں نہیں دیا جا رہا؟ اللہ تعالیٰ کے ہاں نا انصافی نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ نے سب کو اختیار دیا ہے اور اختیار بھی ایسا دیا ہے کہ مکمل آزادی کے ساتھ آپ کو سب کام کرنے دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ آپ پر کوئی پابندی لگا دیتا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ جو شخص خیر کی طرف آتا ہے، تو اللہ تعالی خیر میں اس کی مدد فرماتے ہیں اور جو آدمی شر کی طرف جاتا ہے، تو شر میں اللہ تعالی اس کی مدد نہیں کرتے۔ لیکن اس کو شر سے زبردستی روکتے بھی نہیں، بلکہ کرنے دیتے ہیں، کیوں کہ ہر چیز میں اللہ تعالی کا حکم چلتا ہے۔ آپ عام قانون کو دیکھ لیں! اگر کوئی آدمی اچھا کام کرتا ہے، تو اس کو دس گنا اجر ملتا ہے اور اگر کوئی آدمی برا کام کرتا ہے، تو اس کو صرف اسی ایک گناہ کے برابر سزا ملتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کرنا چاہے، تو اللہ پاک نے مکمل اختیار دیا ہے کہ کسی بھی وقت میں کوئی بھی توبہ کرے، اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنی پوری عمر میں گناہ سے توبہ نہیں کرتا، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے چاہا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے۔ اگر وہ چاہتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے، تو اللہ جل شانہ ضرور اس کے لئے راستے نکال دیتا۔ لیکن افسوس! کہ ایسی صورت میں ایسا شخص اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں مگن ہوتا ہے۔ آپ موبائل کی ہی مثال لے لیں! اللہ تعالیٰ اس کے شر سے ہماری حفاظت فرمائے۔ موبائل پر کتنا گند پڑا ہوا ہے! اب ہر انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اسے نہ دیکھے، لیکن نفس کے اندر دیکھنے کی چاہت بھی ہے۔ اگر ہم نفس کی اس خواہش پر عمل نہ کریں، تو اللہ کی طرف سے انعام یہ ہے کہ اللہ تقویٰ نصیب فرما دیں گے۔ اور تقویٰ چاہت کے بقدر حاصل ہو گا۔ اگر کسی کو دس گریڈ کی چاہت ہو اور وہ اس چاہت کو پورا نہ کرے، تو اس کو دس گریڈ کا تقویٰ حاصل ہو گا۔ جس کو سو گریڈ کی چاہت ہو، اگر وہ شخص چاہت پر عمل نہ کرے، تو اس کو سو گریڈ کا تقویٰ حاصل ہو گا۔ اللہ پاک نے سب چیزوں کا مدار بندے کے اختیار پر رکھا ہے۔ اگر کوئی شخص خود خیر کو نہیں چاہتا، تو اس کی اپنی مرضی ہے۔
بہر حال! میں عرض کر رہا تھا کہ پہلے شریعت ہے اور شریعت پر عمل کرنا مطلوب اور اللہ کا حکم ہے۔ شریعت اوامر و نواہی کا نام ہے یعنی کچھ چیزوں کے کرنے اور کچھ چیزوں سے بچنے کا نام ہے۔ جن چیزوں کے کرنے کا حکم ہے، ان میں نفس ضد کرتا ہے اور وہ کام نہیں کرنے دیتا۔ مثلاً: نماز نہیں پڑھنے دیتا، روزہ نہیں رکھنے دیتا، زکوٰۃ نہیں دینے دیتا، حج نہیں کرنے دیتا، معاملات کو صاف نہیں کرنے دیتا اور معاشرت کو اچھا نہیں ہونے دیتا۔ یہ نفس کی بات ہے۔
مثلاً: شادی کی نعمت ہے تو شادی کی نعمت کس نے دی ہے؟ اللہ تعالی نے یہ نعمت دی، بلکہ خوشی کے سارے اسباب اللہ تعالی دیتے ہیں، لیکن پوری شادی کے دوران خوش کس کو کیا جاتا ہے؟ اور ناراض کس کو کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے سارے parameters (حدیں) گڑبڑ ہیں۔
میں عرض کر رہا تھا کہ اوامر پر عمل کرنا اور نواہی سے بچنا؛ یہ شریعت ہے۔ شریعت پر عمل کرنے میں نفس رکاوٹ ڈالتا ہے اور شیطان دل میں وسوسہ ڈالتا ہے، جس کی وجہ سے پھر انسان گڑبڑ کرتا ہے۔ اب اس گڑبڑ سے بچنا اور نفس کی اڑی سے اپنے آپ کو بچانا؛ یہ چیز حاصل کرنی ہے۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے جو طریقے ہیں، ان کو طریقت کہتے ہیں۔ یہ موٹی سی بات ہے۔ جس طرح صحت کو حاصل کرنے کے جو طریقے ہیں، ان کو علاج کہا جاتا ہے۔ اور علاج وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ جس طرح علاج بدلتا رہتا ہے، اسی طرح طریقت کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہ پورا ایک نظام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چل رہا ہے۔ پس جس طرح علاج کا نظام ہے، اسی طرح طریقت کا بھی ایک نظام ہے۔ طریقت کو اپنانے کی وجہ سے انسان کو شریعت پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے۔ شریعت کی چیزوں کو اللہ پاک نے آیات بینات یعنی روشن نشانیاں فرمایا ہے۔ جب یہ روشن نشانیاں انسان کے اوپر کھلتی ہیں، تو ان کی وجہ سے بہت ساری حقیقتیں جو پہلے واضح نہیں ہوئی ہوتیں، واضح ہو جاتی ہیں۔ مثلاً: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے: ﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ: 276)
ترجمہ: ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے‘‘۔
اب نفس زدہ انسان جو شریعت پر عمل کرنے والا نہ ہو، جب اس بات کو سنتا ہے تو وہ یہ بات سمجھتا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص مزید آگے چلا جاتا ہے، تو وہ مانتا بھی نہیں اور اگر کوئی شخص اس سے بھی آگے چلا جائے، تو وہ اس کی مخالفت پر اتر آتا ہے۔ یہ مختلف درجات ہیں۔ جس کا دل جتنا گندا ہو گا، اس معاملے میں وہ اتنے ہی درجات آگے بڑھا ہوا ہوگا۔ میں مزید تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ طریقت کے ذریعے سے انسان کو شریعت پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے، جس کے بعد انسان کے دل پر حقائق کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اشیاء کی حقیقتیں، احکام کی حقیقتیں، شریعت کی حقیقتیں، اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کی حقیقتیں؛ یہ سب چیزیں انسان کے اوپر کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس چیز کو حقیقت کہتے ہیں۔ پس پہلے شریعت ہے، پھر طریقت ہے اور پھر اس کے بعد حقیقت ہے۔ حقیقت شریعت کا outcome (نتیجہ) ہے۔ جب کسی پر حقیقت کھلتی ہے، اس پر اللہ جل شانہ کی معرفت کھلتی ہے کہ اللہ کیا کر رہے ہیں؟ اللہ مجھے کیا فرما رہے ہیں؟ اللہ کا نظام کیا ہے؟ ان چیزوں کی معرفت اس شخص پر کھلتی ہے۔ ایسے شخص کو ’’عارف باللہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس لئے حضرت نے فرمایا:
متن:
’’ہمارے شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس مقام سے آگاہ تھے۔ اور حقیقت میں وہ عارف تھے اور معرفت میں کمال درجہ اُن کو حاصل تھا‘‘۔
تشریح:
معرفت کے بھی درجات (stages) ہیں۔ دیکھیں! آپ لوگ اس مجلس میں کیوں آئے ہیں؟ ہر شخص کا اپنا اپنا جواب ہو گا، لیکن میں اپنی سوچ کے مطابق یہ کہوں گا کہ آپ لوگوں نے اس مجلس کو اپنے لئے مفید سمجھا، اس لئے آپ یہاں آئے ہیں۔ اس حد تک آپ سب لوگ عارف ہیں، لیکن پھر اس مجلس کی برکات جب آپ کی زندگی پر پڑیں گی اور اس کے اثرات جب آپ دیکھیں گے، اس سے آپ کی یہی معرفت بڑھے گی اور پھر آپ زیادہ معرفت کے ساتھ اس مجلس میں شامل ہوں گے۔ آپ کے دل کے اوپر اس مجلس کے اثرات، آپ کے نفس کے اوپر اس کے اثرات، آپ کی معاشرت کے اوپر اس کے اثرات، آپ کے اخلاق کے اوپر اس کے اثرات؛ جب آپ کو یہ اثرات نظر آئیں گے، تو آپ کی معرفت بڑھے گی۔ یہ معرفت کس لئے بڑھ رہی ہے؟ اس لئے بڑھ رہی ہے کہ آپ کے اوپر حقیقتیں کھل رہی ہیں۔ اس لئے مختلف درجات ہیں۔ پہلے ایک انسان کسی سے سن کر کسی بات کی طرف آتا ہے، پھر اس کو دیکھ لیتا ہے اور پھر سمجھ بھی لیتا ہے۔ اس طرح ما شاء اللہ اور زیادہ حقیقت حاصل ہوتی جاتی ہے، نتیجتاً انسان کی معرفت بڑھ جاتی ہے۔ میں نے آپ کو صرف سمجھانے کے لئے اپنی مجلس کی مثال دی، ورنہ مقصود یہ نہیں، کیوں کہ مجلس بذاتِ خود کچھ بھی نہیں ہے۔ مجلس فقط ذریعہ ہے اس اصل چیز کو حاصل کرنے کا جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ حقیقت جب آپ کے اوپر کھلنا شروع ہو گی، تو اس کے اپنے اثرات بھی ہوں گے۔ انہیں اثرات میں سے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا۔ اثرات ظاہر ہونا؛ یہ الگ بات ہے۔ مثلاً: ایک ایسے شخص پر ظلم کیا جاتا ہے، جس کا ڈپٹی کمشنر کے ساتھ تعلق ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں ڈپٹی کمشنر سے شکایت کروں گا۔ تو اس شخص کی معرفت اسی درجہ کی ہے۔ اور جس شخص کا اللہ سے تعلق ہو اور وہ یہ کہے کہ میں اللہ سے کہوں گا، تو اس شخص کی معرفت اس درجہ کی ہے۔ اور جس کی یہ حالت ہو کہ وہ یہ سوچے کہ اللہ پاک میرا امتحان کرنا چاہتا ہے تاکہ میں نیک عمل کر کے ان لوگوں میں سے ہو جاوں جو اللہ پاک سے بِن دیکھے ڈرتے ہیں تو اس شخص کی معرفت اِس درجے کی ہے اور اگر وہ یہ کہے کہ اگر میں اس شخص کو معاف کر دوں، جو مجھ پر ظلم کر رہا ہے، تو اللہ پاک مجھ سے بہت خوش ہوں گے، تو اس کی معرفت اس درجہ کی ہے۔ یہ سارے معرفت کے درجات ہیں۔
کہتے ہیں کہ: ایک بزرگ کے ساتھ ان کے شاگرد اور مریدین جا رہے تھے، راستے میں ایک گھر کے پاس سے پگڈنڈی گزر رہی تھی۔ اس گھر کی خاتون نے جھاڑو وغیرہ دے کر جو گند جمع کیا تھا، وہ باہر پھینکا۔ جس طرح ہم لوگ احتیاط نہیں کرتے، اسی طرح اس نے بھی احتیاط نہ کی اور کچرا باہر پھینک دیا۔ جمعہ کا دن تھا، حضرت غسل فرما کر صاف کپڑے پہن کر جا رہے تھے۔ وہ سارا گند حضرت پر گر پڑا۔ ان کے مرید تو غصے سے جل گئے۔ قریب تھا کہ وہ اس گھر پر حملہ کر دیتے، کیوں کہ مریدوں کو سمجھنے کا تو اتنا حوصلہ ہوتا نہیں۔ حضرت نے سب لوگوں کو روکا کہ ایک ضروری بات کرنی ہے، آپ سب لوگ کھڑے ہو جاؤ۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ: میرا ایک سوال ہے، پہلے اس کا جواب دے دو پھر جو کرنا چاہو، کر لو۔ وہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پھانسی کی سزا کا مستحق ہو اور اسے عمر قید ہو جائے، تو اس پر خوش ہونا چاہئے یا خفا ہونا چاہئے؟ یا اگر کسی شخص کی سزا یہ ہو کہ اس پر پتھر برسیں، لیکن اس پر صرف چھلکے برسا دئیے جائیں، تو اچھا ہو گا یا برا؟ اب سارے مریدین خاموش تھے۔ حضرت نے فرمایا: میں تو اس بات کا مستحق تھا کہ مجھ پر پتھر برستے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نہایت کرم فرمایا اور اس کچرے پر اس سزا کو رفع فرما دیا۔ اس لئے میں تو بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ کوئی بات نہیں، میں دوبارہ جا کر غسل کر کے صاف کپڑے پہن لوں گا۔ یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے، میرے لئے تو آسانی ہو گئی ہے۔ اب یہ بھی ایک معرفت ہے۔
بعض دفعہ انسان ایک بات سمجھتا ہے، لیکن جس شخص کو معرفت حاصل ہوتی ہے، وہ اسی بات سے دوسری بات سمجھتا ہے۔ کافر کی معرفت یہ تھی کہ تلوار ہاتھ میں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معرفت کی وجہ سے جواب دیا: مجھے اللہ بچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب سے وہ تھر تھر کانپنے لگا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ بہر حال ہر ایک کی معرفت اپنی اپنی ہوتی ہے۔
اس لئے حضرت فرماتے ہیں:
بیت:
؂ ہر جا فقیر بینی با او نشست باید
ما را فقیر معنی چوں بایزید باید
ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ
ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید
ہر شخص کی اپنی اپنی پرواز ہے۔ دنیا کی چیزوں پر تکیہ کرنا؛ یہ بھی معرفت کا ایک درجہ ہے اور آخرت کے لئے دنیا سے منہ موڑ لینا؛ یہ بھی معرفت کا ایک درجہ ہے۔ اور آخرت کے لئے دنیا کی طرف آ جانا؛ یہ بھی معرفت کا ایک درجہ ہے۔ مختلف درجات ہیں۔
اس شعر میں فقیر کا لفظ آیا ہے۔ فقیر میں دو چیزیں جمع ہوتی ہیں۔ میرے خیال سے چار پانچ ہفتے پہلے میں اس موضوع پر بہت تفصیل سے بات کر چکا ہوں کہ فقیر کون ہوتا ہے اور فقر کسے کہتے ہیں؟ فقیر میں دو چیزیں جمع ہوتی ہیں: ایک اللہ تعالیٰ کی شدید محبت، جس کے لئے وہ سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور دوسری چیز زہد، کہ وہ دنیا کی چیزوں سے دل نہیں لگاتا۔ زہد اور عشق جب جمع ہو جاتے ہیں، تو اس کو فقر کہتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے عرض کیا تھا: ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ(القصص: 24)
ترجمہ: ’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کر دے، میں اس کا محتاج ہوں‘‘۔
یہاں پر فقیر کا لفظ اس معنی میں نہیں ہے، جو معنی ہماری اصطلاح میں ہے۔ اصطلاحات تبدیل ہو جاتی ہیں اور ہم لوگ اپنی اصطلاح میں بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ ہم لوگ بھیک مانگنے والے کو فقیر کہتے ہیں۔ بھیک مانگنے والا تو دنیا کے پیچھے بھاگ رہا ہے، وہ کیسے فقیر ہے؟ وہ فقیر نہیں ہے۔ فقیر وہ ہے، جو اللہ کے لئے سب کچھ قربان کرنے والا ہو۔ اس کو اللہ کے ساتھ اتنی محبت ہو کہ وہ کسی دوسری فضیلت پر تیار نہ ہو۔ اس کی خوشی صرف یہ ہو کہ بس اللہ مجھ سے راضی ہو، چاہے دوسرا کوئی راضی ہو یا ناراض ہو۔ ایسا شخص فقیر ہے اور اصل میں فقیر ہے۔
حضرت مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ ایک بڑے سیاسی بزرگ تھے، لیکن آپ ان کے فقر کو دیکھیں۔ ان کا ایک شعر ہے اور عجیب شعر ہے:
ہو جائے اگر ساری خدائی بھی مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
یہ عجیب شعر ہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لئے ہے
دیکھیں! یہ ایک سیاسی بزرگ ہیں۔ لوگ سیاسی بزرگوں کو دنیا کے بہت قریب سمجھتے ہیں، لیکن یہ حضرات ایسے نہیں تھے۔ حضرت کا جو حال تھا، اس میں سے اپنی کچھ حالت اشعار میں بیان کر رہے ہیں:
تنہائی کے سب دن ہیں تنہائی کی سب راتیں
اب ہونے لگیں ان سے خلوت میں ملاقاتیں
ہر لحظہ تشفی ہے ہر آن تسلی ہے
ہر وقت ہے دل جوئی ہر دم ہیں مداراتیں
کوثر کے تقاضے ہیں تسنیم کے وعدے ہیں
ہر روز یہی چرچے ہر روز یہی باتیں
معراج کی سی حاصل سجدوں میں ہےکیفیت
اک فاسق و فاجر میں اور ایسی کراماتیں
بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں
اللہ تعالیٰ نے ان کو جیل کے اندر کیا کیا چیزیں عنایت فرمائیں! یہ بڑے لوگ تھے۔ چوں کہ عام سیاست دان گندی سیاست میں ملوث ہیں، اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ یہ بزرگ سیاسی تھے تو ذہن میں آتا ہے کہ فلاں عالم تو سیاست دان ہے۔ اسی طرح فقیر کا لفظ بھی بد نام ہو چکا ہے۔ پیر کا لفظ بھی بد نام ہو چکا ہے۔ محبت کا لفظ بھی بد نام ہو چکا ہے۔ یہ سارے الفاظ صحیح تھے، لیکن بد نام ہو چکے ہیں۔ ان کے مفہوم میں دنیا درمیان میں آ گئی ہے۔
آپ دیکھیں! لفظِ محبت کے مفہوم میں ایثار پایا جاتا ہے۔ اپنا سب کچھ محبوب پر قربان کرنا؛ یہ محبت ہے۔ اور ہَوس میں ایثار نہیں ہوتا، بلکہ خود غرضی ہوتی ہے، لیکن آج کل ہَوس کو محبت کہا گیا ہے۔ فقیر بھیک مانگنے والے کو کہا گیا ہے، استاذ ڈرائیور کو کہا گیا ہے اور روحانی معالج نجومی کو کہا گیا ہے۔ ان سب الفاظ کے مفہوم تبدیل ہو گئے ہیں۔ پیر عامل کو کہا گیا ہے، حالانکہ پیر اور عامل کا آپس میں کوئی جوڑ ہی نہیں ہے۔ عامل اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی ہو سکتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی ہوتا ہے۔ میں سارے عاملوں کو برا نہیں کہتا، لیکن سارے عامل اچھے بھی نہیں ہیں۔ عام طور پر لوگ جب کسی عامل کے عمل کو چلتا ہوا دیکھتے ہیں، تو اس کو اپنا پیر بھی مان لیتے ہیں۔ اس کے لئے لوگ نہ اس عامل کے عقیدہ کو دیکھتے ہیں، نہ اس کی اصلاح کی طرف دیکھتے ہیں، نہ اس کے علم کو دیکھتے ہیں۔
بعض لوگ تو اس کو کرامت کہتے ہیں، حالانکہ وہ استدراج ہوتا ہے۔ لوگ اس کے عمل کو چلتا ہوا دیکھ لیتے ہیں، تو بس اس کے عاشق ہو جاتے ہیں۔
’’بری امام‘‘ کے مقام میں ایک پیر تھا۔ اب ہے یا نہیں؟ واللہ اعلم۔ آئل اینڈ گیس کے محکمہ میں اشتیاق نامی ایک شخص آفیسر تھے۔ چوں کہ پبلک ڈیلنگ والے شعبوں والے لوگوں پر لوگ ڈورے ڈالتے ہیں۔ ان کے بھائی ڈاکٹر اشفاق صاحب مجھے بتا رہے تھے کہ ایک دن صبح سویرے اشتیاق صاحب کے پاس وہ پیر صاحب آئے اور فریج میں ایک گلاس رکھا، جس کے اوپر خوب صورت رومال ڈالا ہوا تھا۔ پھر اشتیاق صاحب سے کہا کہ آپ نے میرا دل نہیں توڑنا، آپ نے اس کو پینا ہے۔ کسی کا دل نہیں توڑنا چاہئے۔ ایسے لوگ اس قسم کی منطقی (عقلی) باتیں بہت لڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے گلاس سے رومال اٹھایا، تو وہ ویسکی (whiskey) تھی۔ ایسا آدمی پیر صاحب ہے۔ اب یہ خدا سے ملانے والا پیر ہے یا شیطان سے ملانے والا؟ اس طرح کے آدمی بھی پیر بنے ہوئے ہیں۔ اس میں اصل قصور عوام کا ہے کہ انہوں نے انہیں پیر سمجھا ہوا ہے۔ ایسے لوگ اصل میں تو عملیات کے عامل ہیں اور عملیات کا عامل تو عیسائی بھی ہو سکتا ہے، ہندو بھی ہو سکتا ہے، بلکہ عیسائیوں اور ہندوؤں کے عملیات زیادہ پکے ہوتے ہیں۔ پس یہ پیر صاحب عامل تھے، اس وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان کے مرید ہو گئے تھے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس پیر کے گھر کے سامنے بڑی بڑی گاڑیاں ہوں، لینڈ کروزر ہوں، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بڑا پیر ہے، حالانکہ سلوک کے ساتھ ان چیزوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو شخص دنیا میں پھنسا ہوا ہے، اس کی آنکھیں بھی دنیا کی ہوں گی، اس کی آنکھیں معرفت کی آنکھیں تو نہیں ہوں گی۔ آپ اس کی آنکھوں پر کیسے اعتماد کرسکتے ہیں؟ ایسے آدمی کو جس شخص نے پیر سمجھا ہوا ہو، اس نے تو دنیا کے لحاظ سے سمجھا ہو گا۔ آپ اس کو کیسے پیر سمجھ لیتے ہیں؟ پیر کو جانچنے کے لئے تو دوسری چیزیں ہیں، وہ پیر میں دیکھنی چاہئیں۔
خیر! بات بہت دور چلی گئی۔ لفظِ فقیر سے بات نکلی تھی۔ فقیر صرف اور صرف اللہ کا طالب ہوتا ہے، اللہ جل شانہ کی رضا کو کسی صورت میں قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو دیکھتا ہے۔ ایسے فقیر کے بارے میں فرمایا:
بیت:
؂ ہر جا فقیر بینی با او نشست باید
جہاں فقیر کو دیکھو، اس کی مجلس میں بیٹھو۔ فقیر کی مجلس میں بیٹھنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھیک مانگنے والے کی مجلس میں بیٹھ جاؤ۔
ما را فقیر معنی چوں بایزید باید
حضرت نے خود ہی فقیر کی وضاحت کر دی کہ ہمیں بایزید جیسا فقیر چاہئے۔
ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ
ہمیں شراب چاہئے، لیکن وہ شراب، جو غیب والی شراب ہو یعنی ایمان سے تعلق والی شراب ہو۔ غیب والی شراب کا مطلب یہ ہے کہ وہ شراب ایمان سے تعلق رکھتی ہو۔ ہمیں ایسی شراب چاہئے۔
شراب کا مطلب کیا ہے؟ یہ وہی بات ہے کہ اصطلاحات کا بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ شراب کے اندر ایک کیفیت ہے کہ شراب انسان کو وقتی طور پر حالاتِ حاضرہ سے لا تعلق کر دیتی ہے، چیزوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔ یہ شراب کی صفت ہے۔ وہ detachment (لا تعلقی) کس چیز کی طرف ہے؟ ہوس کی طرف ہے یا معرفت کی طرف؟ اگر وہ ہوس کی طرف ہے، تو وہ بادِ انگور ہے اور اگر معرفت کی طرف ہے، تو بادِ معرفت ہے۔ علامہ اقبال مرحوم بہت بڑے آدمی تھے، لیکن اس مسئلہ میں وہ دھوکہ کھا گئے۔ انہوں نے حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار پر کہا تھا کہ شیرازی بادِ انگور والا ہے۔ لیکن پھر سمجھ دار لوگوں نے ان کو ٹوکا کہ ہر ایک پر تنقید نہیں کی جاتی، حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ایسے لوگوں میں سے نہیں تھے۔ لیکن میں نے اس سے ایک اچھی بات نوٹ کی۔ ہر ایک کی اپنی معرفت ہے۔ میں نے اس واقعہ سے یہ ایک اچھی بات نوٹ کی کہ جب علامہ اقبال نے بادِ انگور کی وجہ سے حافظ شیرازی پر تنقید کی، تو اس سے معلوم ہوا کہ علامہ اقبال خود بادِ انگور کے بھی خلاف تھے۔ لہذا اس واقعہ سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی ساری باتیں غلط ثابت ہو گئیں، کیوں کہ وہ کہتا ہے کہ علامہ اقبال بھی شرابی تھے اور وہ بھی ان چیزوں میں مبتلا تھے۔ در اصل بہت سارے لوگ اپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے اپنے بڑوں کو بد نام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بڑے بھی ایسے تھے، اس لئے ہم بھی ایسے ہیں۔ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے۔ یہود اپنے پیغمبروں کے بارے میں ایسا ہی کرتے تھے۔ نتیجتاً وہ برباد ہو گئے۔ لوگ چوں کہ خود خراب ہوتے ہیں، اس لئے اپنے بڑوں کی طرف بھی ویسی باتیں منسوب کرتے ہیں اور ان کو اپنے لئے آڑ بناتے ہیں کہ وہ بھی ایسے تھے۔
ہمارا ایک کلاس فیلو دوسری جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ اس کے والد نے اس سے پوچھا کہ بیٹا! رزلٹ آیا ہے، آپ پاس ہو گئے یا نہیں؟ اس نے کہا: ابو! فلاں بھی فیل ہو گیا، فلاں بھی فیل ہو گیا۔ اس کے والد نے کہا: میں تجھ سے تیرے بارے میں پوچھتا ہوں اور تو کہتا ہے کہ فلاں فیل ہو گیا اور فلاں فیل ہو گیا۔ میں تجھ سے تیرا پوچھتا ہوں کہ تو پاس ہوا یا نہیں؟ پھر اس کے والد نے جوتی اتار کر اس کی پٹائی کی کہ تیرے جواب کا مطلب تو یہ ہے کہ تو فیل ہو گیا ہے۔ اصل میں یہی بات ہوتی ہے کہ خود خراب ہوتے ہیں اور دوسروں کو خراب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ حافظ شیرازی کے بارے میں علامہ اقبال مرحوم کی یہ بات غلط تھی، لیکن ان کی اس غلطی میں مجھے ان کی ایک اچھی بات نظر آئی کہ کم از کم وہ شراب نہیں پیتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی بات جھوٹ تھی۔ علامہ اقبال کے اوپر الزام لگایا ہے کہ وہ شرابی تھے۔ وہ شرابی نہیں تھے۔ ان کو اللہ نے بڑا مقام عطا فرمایا تھا اور آخر عمر میں وہ ساری چیزوں سے تائب ہو گئے تھے۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کی جو آخری ملاقات ہوئی تھی، بلکہ انہوں نے حضرت سے درخواست کی تھی کہ حضرت! میں بیمار ہوں، مجھے آپ کے پاس آنا چاہئے تھا، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ موت سے پہلے پہلے آپ سے میری ملاقات ہو جائے۔ میں خود تو آ نہیں سکتا، اگر آپ تشریف لا سکیں، تو آ جائیں۔ علامہ اقبال شوگر کے مریض تھے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے امراض تھے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ ان کے مقام کو جانتے تھے، اس لئے حضرت تشریف لے گئے۔ حضرت علامہ اقبال کے پاس کھڑے تھے اور وہ لیٹے ہوئے تھے، اس حالت میں انہوں نے اپنا ہاتھ حضرت کی طرف بڑھایا، جیسے کوئی شخص بیعت کرتا ہے کہ حضرت! آپ گواہ رہیں، میں نے تمام گناہوں سے توبہ کر لی بشمول داڑھی کٹوانے کے گناہ کے۔ علامہ اقبال کی ایک تصویر بھی چھوٹی چھوٹی داڑھی کے ساتھ آئی تھی، لیکن بعد میں وہ غائب کر دی گئی۔ کیوں کہ آپ کو پتا ہے کہ پوری ایک لابی موجود ہے جو علامہ اقبال کی اصل صورت کو سامنے نہیں لانا چاہتے۔
خیر! فقیر کی بات چل رہی تھی۔
ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید
ہر جا فقیر بینی با او نشست باید
ما را فقیر معنی چوں بایزید باید
ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ
ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید
تشریح:
سبحان اللہ! میں کہاں جانا چاہتا ہوں؟ میرا مقام کون سا ہے؟ میرے دل کی آرزو والا مقام کون سا ہے؟ وہ مقام عرشِ مجید ہے۔
آپ کہیں گے کہ یہ کیسے ہو گا؟ میں بتاتا ہوں کہ کیسے ہو گا۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ(البقرہ: 152)
ترجمہ: ’’لہذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘۔
پس جو انسان اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے، وہ اللہ کی یاد میں ہوتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا: ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7405)
"میں اپنے بندے کے ساتھ اس کے اس گمان کے مطابق معاملہ کرتا ہوں، جو وہ میرے بارے میں رکھتا ہے"۔ اب گمان کے اندر جو رکاوٹیں ہیں، اگر ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے، تو یہ حدیث شریف تو موجود ہے۔ بندہ جب اپنے آپ کے بارے میں سوچتا ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر فیض آ رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک سے میرے دل پر آ رہا ہے، تو ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ‘‘ والی بات پوری ہو جاتی ہے اور فیض آنا شروع ہو جاتا ہے۔ پھر وہ فیض بڑھتا رہتا ہے، بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان بہت بلند مقام تک پہنچ جاتا ہے۔ ہر شخص کا اپنا مقام ہے۔ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔
متن:
پس اے بھائی! چاہئے کہ تمام میخانہ نوش کر کے بھی ہوش میں رہو۔ تشریح:
یعنی یہ شراب بے ہوش کرنے والی شراب نہیں ہے، بلکہ ہوش میں لانے والی شراب ہے۔ اس شراب کی وجہ سے آپ کی معرفت بڑھے گی، آپ غفلت سے نکلیں گے اور اللہ کی یاد میں آ جائیں گے۔ اس لئے فرمایا کہ تمہیں لوگوں کی طرح چیخنا نہیں چاہئے، بلکہ ضبط کرنا پڑے گا، کنٹرول کرنا پڑے گا اور لوگوں کے سامنے باتیں نہیں کرنی ہوں گی، بلکہ اللہ کے ساتھ مشغول رہنا ہو گا۔ جس شخص نے اپنی کیفیت دوسروں کو بتائی، تو یوں سمجھ لیجئے کہ وہ اللہ کی مجلس سے لوگوں کی مجلس میں آنا چاہتا ہے۔ لوگوں کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، گویا وہ لوگوں سے اس چیز کا متمنی ہے، جس چیز کا متمنی اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہئے۔ یہ کتنی بڑی غلط بات ہے! جس شخص پر یہ بات کھل گئی، اس کو اس کی معرفت حاصل ہو گئی اور جس کو اس کی معرفت حاصل ہو گئی، وہ سمندر کی طرح خاموش رہے گا۔ ما شاء اللہ! یہ کیا مقام ہے!
پس ایک بات تو یہ ہے کہ تم تمام کا تمام میخانہ نوش کر کے بھی ہوش میں رہو۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ کی محفل سے اغیار کی محفل میں نہ آؤ۔ لوگوں کو کچھ نہ بتاؤ، کیوں کہ لوگ تجھے کچھ نہیں دے سکتے۔ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
جب یہ کیفیت انسان کو حاصل ہو جاتی ہے، تو پھر اس کے اوپر اللہ کی صفات کھلتی ہیں اور اس پر اللہ کی معرفت کھلتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو یہ مقام نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ