اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ
فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
وَقَالَ عَلَیہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: ’’إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُّهْدَاةٌ‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، حدیث نمبر: 100)
وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ فِیْ کَلَامِہٖ ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ (الاحزاب: 56)
’’اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّعَلٰى اٰلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى اٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ‘‘۔
ربیع الاول کا مہینہ شروع ہے، بعض چیزوں کی بعض چیزوں کے ساتھ ایک ایسی نسبت ہوتی ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً: مدینہ منورہ کی آپ ﷺ کے ساتھ یہ نسبت ہے کہ آپ ﷺ وہاں مدفون ہیں۔ اگر کوئی شخص وہاں چلا جائے، تو درود پاک پڑھنا چاہئے۔ ویسے تو اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ﴾ (الاحزاب: 56) لہٰذا ہر جگہ پر درود شریف پڑھنا چاہئے، اگرچہ حدیث شریف کے مطابق جب پہلی دفعہ آپ ﷺ کا نام لیا جائے تو آپ ﷺ پر درود پاک پڑھنا واجب ہے اور بعد میں جتنی مرتبہ اسی مجلس میں نام لیا جائے، تو درود پڑھنا مستحب ہے اور ویسے بھی درود پاک پڑھنا مستحب ہے، لیکن مدینہ منورہ میں جا کر بھی اگر کوئی درود شریف نہ پڑھے تو یہ بڑی عجیب بات ہے۔ لہٰذا ہر وقت درود شریف پڑھنا چاہئے اور آپ ﷺ کے متعلق یاد ہونا چاہئے کہ آپ ﷺ ہمارے بڑے محسن ہیں اور آپ ﷺ ہی کی برکت سے ہم مسلمان ہیں، آپ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کا پتا چلتا ہے۔ یہ ساری باتیں ہمارے لئے قابلِ فہم ہیں۔ لیکن ربیع الاول کے مہینے کا بالکل ایسا ہی معاملہ ہے، جیسے مدینہ منورہ کا معاملہ ہے۔ کیونکہ ربیع الاول کے مہینے اور پیر کے دن کے ساتھ آپ ﷺ کی ولادت کی، آپ ﷺ کی رحلت کی، آپ ﷺ کی ہجرت کی، ان تینوں اہم واقعات کی نسبت ہے۔ کمال کی بات ہے کہ یہ تینوں واقعات پیر کے دن ہوئے اور ربیع الاول کے مہینے میں ہوئے ہیں۔ اس لئے پیر کے دن کو لوگوں نے پیر کہہ دیا، گویا اس کا احترام کیا کہ یہ دن خاص ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ اس میں تشریف لائے ہیں اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی باقاعدہ انتظار فرماتے تھے کہ میری رحلت پیر کو ہو جائے تو یہ خوش قسمتی بات ہو گی۔ ان نسبتوں کی قدر اپنے طور پر ضروری ہے، کیونکہ جس کو بھی محبت کے ساتھ واسطہ ہے، اس کا محبوب کی ہر چیز کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ جیسے مشہور کھلاڑیوں کا (بلّا) bat بہت مہنگا نیلام ہوتا ہے۔ بعض مشہور لوگوں کا قلم، اسی طرح بعض اور مشہور لوگوں کی مختلف چیزیں نیلام ہوتی ہیں۔ یہ سب نسبت کی بات ہے، ورنہ تو وہ ایک قلم ہی ہوتا ہے، بازار میں اس کی قدر و قیمت کچھ بھی نہیں ہو گی۔ اگر یہ نہ بتایا جائے کہ فلاں کا قلم ہے تو کوئی اس کو پانچ روپے کا بھی نہ لے۔ لیکن چونکہ ایک نسبت اس کے ساتھ ہوتی ہے تو لوگ اس کا بہت احترام کرتے ہیں۔ اسی طرح ربیع الاول کے مہینے کا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ ہے، آپ ﷺ کے تعلق کی وجہ سے اس میں ہمیں درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہئے۔ یہ بات یہاں تک تو سمجھ میں آتی ہے۔ اس سے آگے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ یہ کہ آپ ﷺ جو دین لے کر آئے، اس کا تو خیال نہ ہو اور آپ ﷺ کے نام پر بڑے ہنگامے شروع کر دیئے جائیں، کسی کی نماز کی بھی پروا نہ ہو، کسی دوسرے کے اعمال کی بھی پروا نہ ہو، خود بھی نماز نہ پڑھیں، دوسروں کو بھی اپنے شور کی وجہ سے نہ پڑھنے دیں۔ کہیں اور کا تو مجھے علم نہیں، لیکن ہمارے اس بازار میں یہ حال ہو گا کہ عموماً 12 ربیع الاول کو عصر کی نماز پڑھیں گے، پھر ان کو پتا نہیں چلے گا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ایسے بے ہنگم طریقے سے شور ہو گا۔ کیونکہ ایک محدود علاقے میں، ایک بازار میں بیس لاؤڈ سپیکر آن ہوں اور ان سے مسلسل نعتیں اور وہ بھی میوزک کے ساتھ، (کیونکہ آج کل زیادہ تر میوزک کے ساتھ ہوتی ہیں) اس طرح نعتیں چل رہی ہوں تو کس کو کیا پتا چلے گا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے، کیونکہ آواز کا بھی اپنا ایک سائنٹیفِک اصول ہے، دو آوازیں اکٹھی ہوں تو ان سے مل کر ایک تیسری آواز بن جاتی ہے، اس طرح ایک ہی وقت میں کئی آوازیں مل کر شور بن جاتا ہے، جس کا کچھ بھی پتا نہیں چلتا کہ کیا پڑھا جا رہا ہے، کیا کہا جا رہا ہے۔ شور ایسی چیز ہے جو نا پسندیدہ ہوتی ہے۔ اور نعت شریف ایسی چیز ہے جو پسندیدہ ہونی چاہئے۔ پسندیدہ اور نا پسندیدہ کو آپس میں ملا دیا تو کیا ہو گا، اس کو ہم کیا کہیں گے؟ یہ عقلی بات ہے، یہ بیوقوفی کی علامت ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بہت میٹھی چیز کے ساتھ بہت کڑوی چیز ملا دی جائے۔ بہر حال اس طرح کے اور بہت سارے واقعات ہیں۔
آپ ﷺ کے لئے میوزک نا پسندیدہ چیز ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ میوزک دل میں نفاق کو ایسے فروغ دیتا ہے جیسے پانی پودے کو فروغ دیتا ہے۔ اگر میوزک کے ساتھ نعت شریف ملائیں تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے ٹائلٹ کے اندر کوئی قرآن پڑھے۔ قرآن بذات خود حق ہے، بہت برکت والا ہے، اس کی تلاوت پر اجر ملتا ہے، لیکن اگر کوئی ٹائلٹ میں پڑھے تو اس کو گناہ ہو گا، کیونکہ اس نے قرآن کی بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔ اس طرح نعت شریف گانے کی سُر میں اور میوزک کے ساتھ پڑھنا، انتہائی درجہ کی گستاخی ہے۔ لیکن یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ ہمیں اس چیز کو ذرا کھلے دل کے ساتھ بغیر اس تعصب کے کہ کون کہ رہا ہے، صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا کہہ رہا ہے، عقلی طور پر کیا چیز ہے اور دین کے لحاظ سے کیا چیز ہے۔ میں نے عقلی طور پر بھی آپ سے عرض کیا کہ بے ہنگم انداز میں سارے مل کے نعتیں پڑھیں گے تو وہ شور بن جائے گا، جو کہ عقلی طور پر بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اور دینی طور پر میوزک کو نعت کے ساتھ اگر ملا دیا جائے یا گانے کی طرز پر نعت کو پڑھا جائے تو کتنا برا طرز ہے۔ گانے کی طرز پر پڑھنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے وہ گانا سنا ہوتا ہے، جب وہ نعت شریف سن رہے ہوتے ہیں تو ان کے ذہن میں گانا بج رہا ہوتا ہے، جو ایک غلط حرکت ہے، اس سے ہمیں بچنا پڑے گا۔ آپ ﷺ کا ہمارے اوپر احسان ہے، آپ ﷺ اللّٰہ کے محبوب ہیں اور آپ ﷺ کی قدر کرنا اللّٰہ پاک کو مطلوب ہے۔ ہمیں صحابہ کرام سے سیکھنا ہو گا، کیونکہ صحابہ کرام اولین مخاطَب تھے، اگر انہوں نے کوئی صحیح کام کیا تو اس کی تعریف کی گئی ہے، یعنی آپ ﷺ نے اس کو مان لیا اور اس کو باقی رہنے دیا۔ اور اگر کوئی غلطی ہو گئی تو آپ ﷺ نے فوراً اس کی اصلاح کر دی۔ اس وقت اگر ہماری کوئی اصلاح کرے گا تو وہ کوئی عالِم ہی کرے گا۔ جب کہ اُس وقت آپ ﷺ خود کر رہے تھے۔ لہٰذا ان کی زندگی معیار ہے۔ انسان ذرا ماضی کو دیکھے کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے، حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ نے، ان حضرات نے یہ دن کیسے منایا؟ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ منایا بھی تھا یا نہیں؟ چنانچہ کہیں بھی اس کا ثبوت نہیں ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت کی اصل تاریخ میں اختلاف ہے، بڑے بڑے مؤرخین کا اختلاف ہے، یہ اختلاف اس بات کی علامت ہے کہ یہ دن منانے کا کوئی معمول نہیں تھا، ورنہ اگر کوئی دن منایا جاتا ہے تو اس میں اختلاف نہیں ہوتا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ کوئی صاحب تھے جن کے پاس کوئی زیادہ علم نہیں تھا، لیکن خاندانی لحاظ سے مشہور بہت تھے، لوگ ان کے پاس آتے تھے، اس نے کچھ لوگوں کے ساتھ مشورہ کیا کہ میرے پاس علم تو نہیں ہے، میں کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ آپ یہ کہہ دیا کریں کہ اس میں اختلاف ہے۔ کیونکہ علمی باتوں میں اختلاف ہوا کرتا ہے، یوں آپ کی بے علمی چھپی رہے گی۔ تو جو کوئی بھی آتا اور کوئی بات پوچھتا تو وہ کہتا کہ اس میں اختلاف ہے۔ اکثر جگہ ان کی یہ بات صحیح ہو جاتی تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ بہت بڑا عالِم ہے کہ اس کو اتنے اختلافات کا بھی پتا ہے۔ ایک صاحب اس کو تاڑ گئے کہ یہ جانتا تو کچھ نہیں ہے، صرف اختلاف کا لفظ یاد کیا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس نے کہا: اس میں اختلاف ہے۔ لوگوں نے اس کو مارنا شروع کر دیا کہ کلمہ میں کیسے اختلاف ہو سکتا ہے؟ بہرحال اگر آپ ﷺ کی ولادت پاک کا دن منایا جاتا تو اس میں کیسے اختلاف ہوتا۔ سب سے زیادہ مشہور یہ ہے کہ 12 ربیع الاول یومِ ولادت ہے، اور 12 ربیع الاول یومِ وفات بھی ہے۔ اسی لئے ابھی بھی 12 ربیع الاول کو منایا جا رہا ہے۔ یہاں پر چھٹی بھی 12 ربیع الاول کو کی گئی ہے۔ لیکن astronomers جو back calculation کرتے ہیں۔ آج کل back calculation کوئی مشکل نہیں ہے، کمپیوٹر پر میں بھی آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ ﷺ کی ولادت پاک کے سال کا جو ربیع الاول کا مہینہ تھا، اس وقت چاند افق سے کتنا اونچا تھا۔ اور یہ معلوم بھی ہے۔ چنانچہ back calculation سے یہ ساری چیزیں جاننا ممکن ہے۔ چونکہ یہ متعین ہے کہ آپ ﷺ کا یومِ ولادت پیر کا دن تھا، کیونکہ احادیث شریفہ میں موجود ہے۔ اور یہ بھی متعین ہے کہ ربیع الاول کا مہینہ تھا، چنانچہ back calculations کر کے پتا چلا ہے کہ پیر کا دن کب کب آتا تھا۔ کیونکہ آج کل calculation ہو سکتی ہے کہ پیر کا دن کب کب آتا تھا، تاریخ کی کتابوں میں طے شدہ نہیں ہے، اختلافی امر ہے۔ جب کہ پیر کا دن اختلافی نہیں ہے اور ربیع الاول کا مہینہ بھی اختلافی نہیں ہے۔ تو ان دونوں چیزوں کو لے کر ہم اگر تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ ﷺ کے سالِ ولادت میں ربیع الاول کے مہینہ میں جو پیر کے دن آتے تھے، وہ یا یکم ربیع الاول یا آٹھ ربیع الاول یا پندرہ ربیع الاول یا بائیس ربیع الاول یا انتیس ربیع الاول معلوم ہوتا ہے۔ اور وفات کا بھی ایسا ہی تھا۔ پھر احادیث شریفہ میں مذکور اور واقعات کہ فلاں واقعہ اس وقت ہوا، فلاں واقعہ اس وقت ہوا، ان واقعات کو ملا کر بھی یہی پتا چلتا ہے۔ عورتوں میں یہ چیز بہت مشہور ہے، ہم مَردوں کو تو تاریخ یاد ہوتی ہے، عورتوں کا کیلنڈر یہ ہوتا ہے کہ فلاں کا بچہ اس وقت اتنے سال کا تھا۔ اور اس سے واقعی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہاں یہ بات صحیح ہے۔ اسی طرح اس وقت جو واقعات ہوئے تھے، جیسے اصحاب الفیل کا واقعہ ہے، اسی سال آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے۔ اسی طرح اور بہت سارے واقعات recorded ہیں۔ ان سے پتا چلا کہ پیر کا دن یکم، آٹھ، پندرہ، بائیس، انتیس کو تھا۔ یا اگر ایک دن کا فرق ڈال لیں، کیونکہ ایک دن کا فرق ہو سکتا ہے، تو دو، نو، سولہ، اور تئیس، یہ تاریخیں تھیں۔ چنانچہ اس کے ساتھ دوسری روایت میں غور کر کے پتا چلا کہ ولادت یا آٹھ تاریخ کو آتی ہے یا نو ربیع الاول کو آتی ہے، کیونکہ پیر کا دن متعین ہے، آٹھ اور نو میں فرق ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف وفات کا دن یا یکم ربیع الاول ہے یا دو ہے۔ گویا کہ بارہ دونوں میں نہیں ہے۔ لیکن مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ چیز اتنی زیادہ مشہور نہیں تھی۔ اس پہ عمل یوں شروع ہوا کہ مِصر کا کوئی بادشاہ تھا، اس نے پہلی دفعہ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے اس دن کو منایا تھا، کیوں اس کی حکومت خطرے میں تھی، جانے والی تھی، چنانچہ اس نے لوگوں کی محبتِ رسول ﷺ کو exploit کیا اور یہ دن منایا۔ یہ غالباً دو سو سال پہلے کی بات ہو گی۔ تو یہ ایک بادشاہ نے منانا شروع کیا ہے، کسی فقیہ نے نہیں منانا شروع کیا، کسی بڑے بزرگ نے نہیں منانا شروع کیا۔ ہمارا تو اس مسئلہ میں مسلک یہ ہے کہ ہمیں آپ ﷺ پہ ہمیشہ درود پاک پڑھتے رہنا چاہئے اور آپ ﷺ کی سنت پر ہمیشہ عمل کرتے رہنا چاہئے۔ یہی دو چیزیں آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ یہی دو چیزیں ہیں جن کا مطالبہ ہے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اور آپ ﷺ کی طرف سے بھی۔ پس اگر کوئی یہ کر رہا ہے تو وہ ما شاء اللّٰہ ہر روز منا رہا ہے، ہر روز اس کا تعلق بن رہا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا طرز ہے، جو بس محرم کا ایک خاص دن مناتے ہیں اور پھر باقی سال چھٹی، پھر وہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ تو جان چھڑانے والی بات ہے۔ ہمارا کام جان چھڑانا نہیں ہے، ہمارا کام ہے؛ مسلسل آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنا اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی وجہ سے مسلسل درود شریف پڑھنا اور جتنی آپ ﷺ کی تعریف ہو سکتی ہے، وہ کرنا۔ مگر اپنی من مانی کرنا کون سے دین کی بات ہے۔ کبھی کس طریقے سے منایا جاتا ہے، کبھی کس طریقے سے منایا جاتا ہے، جب ایک آدمی ایک دفعہ راستہ سے ہٹ جائے تو اس کا کچھ پتا نہیں چلتا۔ آج ہی صبح ایک صاحب سے میری بات ہو رہی تھی، میں نے کہا کہ صراطِ مستقیم ایک ہے، لیکن اگر آدمی ایک دفعہ راستہ سے ہٹ جائے تو پھر کچھ پتا نہیں چلتا کہ کون کدھر گیا۔ کیونکہ جب آپ کے پاس بنیاد ہی ختم ہو گئی تو آپ کدھر ٹھہریں گے؟ پھر تو آپ کا راستہ روکنے کی کوئی صورت نہیں ہے، آپ کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، جتنا مرضی لوگ چیخیں، آپ کہیں گے کہ میرے نزدیک یہ صحیح ہے۔ چنانچہ اسی طرح ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ وہ چیزیں بڑھ رہی ہوتی ہیں، جس طرح ان کے ہاں (جو محرم کا خاص دن مناتے ہیں) بڑھ رہی ہیں، اس طرح ان کے ہاں بھی بڑھ رہی ہیں، دونوں میں مماثلت ہے۔ حالانکہ ہمارا دین مستقل ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: 3)
ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا‘‘۔
ایک دین ہے اور وہ آپ ﷺ کا لایا ہوا دین ہے اور صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔ ہاں اجتہادی اختلافات ہوتے ہیں، اجتہادی اختلافات میں کوئی بری بات نہیں ہے، وہ ایک سمجھ کا اختلاف ہے۔ لیکن دین ایک ہوتا ہے، دین میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بہرحال میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہمیں آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کے ذریعے سے آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا ثبوت دینا چاہئے، آپ ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھتے رہنا چاہئے اور آپ ﷺ کا ذکر خیر کرتے رہنا چاہئے۔ کوئی خاص دن مقرر نہیں ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ہاں نعت شریف سننے کا یا پڑھنے کا کوئی خاص نظام نہیں تھا، کبھی اچانک فرما دیتے کہ ہے کوئی سنانے والا؟ جو اچھا سنانے والا ہوتا تھا، وہ آ جاتا اور سناتا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی سنانے والا نہیں تھا، اگرچہ ہم تو تھے، چونکہ میری آواز اتنی اچھی نہیں ہے، باقی لوگوں کی بھی شاید ایسی ہو گی، جب کوئی نہیں بولا تو میں نے کہا کہ حضرت! میں سناؤں؟ چونکہ میں نے کبھی سنایا نہیں تھا تو حضرت نے پوچھا: کیا سناؤ گے؟ رحمٰن بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اشعار کی کتاب ذرا دور رکھی ہوئی تھی، میں نے اس طرف اشارہ کیا کہ میں اس میں سے سناؤں گا۔ حضرت نے فرمایا: اچھا سنائیں۔ میں نے اس کتاب کو اٹھا لیا اور اس میں سے سنا دیا، میری آواز اگرچہ ایسی ہی ہے، جیسے آپ جانتے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت کی اپنی طلب تھی تو الحمد للہ محفل بن گئی۔ لہٰذا ہمارے ہاں کوئی مستقل طور پر یہ چیز نہیں ہے، لیکن منع بھی نہیں ہے، بعض لوگ تو یہ سلسلہ بند کر دیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں منع نہیں ہے؛ کیونکہ اچھے الفاظ سے نعت پڑھنا ایک اچھی چیز ہے، آپ ﷺ نے خود سنی ہے، حضرت حسان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ممبر پر خود اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا پڑھو، روح القدس کے ذریعے سے اللّٰہ تیری مدد فرمائے۔ اور پھر حسان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے پڑھنا شروع کیا اور آپ ﷺ سن رہے تھے۔ لہٰذا نعت شریف کا پڑھنا صحابہ کرم سے ثابت ہے اور سننا آپ ﷺ سے ثابت ہے۔ اور اسرائیلی روایات میں بعض پیغمبروں سے بھی ثابت ہے۔ جیسے: حضرت سلیمان علیہ السلام نے عبرانی زبان میں نعت پڑھی۔ لہٰذا نعت شریف بہت اونچی چیز ہے۔ ہمیں نعت شریف کے ساتھ محبت ہونی چاہئے، لیکن نعت شریف میں ایک احتیاط بہت ضروری ہے، کیونکہ آپ ﷺ جن و انس اور تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ افضل ہیں، لہٰذا آپ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے اگر آپ ذرا سا بے احتیاط ہو کر تھوڑا سا اور آگے بڑھائیں گے تو اللّٰہ کی صفات میں شریک کر لیں گے، جو کہ خطرناک بات ہے، اور اگر کچھ درجہ نیچے کر لیں گے تو یہ بھی خطرناک ہے۔ اس لئے بالکل عین درمیانی راستہ پہ چلنا تلوار پہ چلنے والی بات ہے اور بڑا مشکل کام ہے۔ ایک دفعہ میں دفتر جا رہا تھا، میرے ساتھ ایک ساتھی بھی تھے جو ذرا باذوق آدمی تھے، شعر و شاعری کو جاننے والے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا: شبیر صاحب! آپ کی لکھی ہوئی حمد شریف تو موجود ہیں، لیکن آپ کی نعت شریف کبھی نہیں سنی۔ میں نے کہا: میں نعت شریف نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اس میں مجھے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں میں افراط و تفریط میں مبتلا نہ ہو جاؤں، جو کہ خطرناک ہے۔ خیر! یہ بات میں نے عرض کر دی۔ لیکن اللّٰہ پاک کی طرف سے ایک نظام ہے، جو وہی اللّٰہ ہی چلاتا ہے، اسی وقت پہلا شعر وارد ہو گیا۔ وہ میں سنا دیتا ہوں:
نعت شریف
اپنے آقا کی تعریف کیسے کروں، اس کے کرنے کو میری زباں ہی نہیں
جس کسی دل میں ان کی محبت نہ ہو، ایک پتھر ہی ہے اس میں جاں ہی نہیں
وہ ہیں محبوبِ ربِ کریم مصطفےٰ
وہ کہ مظہر ہدایت کے ہیں مجتبےٰ
تو مری اب زباں پہ ہو صلِّ علیٰ
اب درود و سلام، میں ہمیشہ پڑھوں
دل سے میں ہر جگہ صرف یہاں ہی نہیں
ہیں سراپا وہ رحمت ہمارے لئے
ان کا رستہ ہدایت ہمارے لئے
منبعِ فیض و حکمت ہمارے لئے
جو کبھی بھی جدا ہو گیا ان سے تو، اس کے بچنے کا کوئی مکاں ہی نہیں
اب بھی ملتا ہے ان کی نظر کے طفیل
ان کی تعلیمِ دیں پُر اثر کے طفیل
ہیں بشر زندہ خیر البشر کے طفیل
نام لیوا اگر نہ رہے ان کا تو پھر خدا کی قسم یہ جہاں ہی نہیں
پڑھ کے سیرت میں ان کی ہی، انساں بنوں
ان کے پیچھے رہوں مردِ میداں بنوں
ان کو میں چھوڑ کر کیسے تیرا بنوں
گر محبت نہ حاصل ہو ان کی شبیر ؔ تو کہوں یوں کہ پھر تو ایماں ہی نہیں
یہ نعت میں نے ان صاحب کو سنا دی۔ بہرحال آپ ﷺ کے ساتھ محبت ایمان کی علامت ہے۔ اور کسی کو اگر آپ ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہے تو اس کے ایمان کا بچنا بڑا ہی مشکل ہے۔ اور یہ بات میں نہیں کر رہا، میری زبان ایسی نہیں ہے کہ یہ بات کر سکوں، آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے:
’’لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰى أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 15)
ترجمہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔
یہ بنیاد ہے۔ ایک اور موقع پہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! مجھے آپ سے محبت ہے ہر چیز سے زیادہ بجُز اپنی جان کے۔ انہوں نے طبعی محبت بات کی کہ انسان کو اپنی جان کے ساتھ زیادہ محبت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عمر! یاد رکھو، جب تک میں تمہیں اپنے آپ سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں، اس وقت تک ایمان کامل نہیں ہو گا۔ اس کے بعد انہوں نے فوراً کہا: یا رسول اللّٰہ! اب تو میں اپنے آپ سے بھی زیادہ آپ کو محبوب سمجھتا ہوں۔ فرمایا: ’’اَلْاٰنَ یَا عُمَرُ‘‘۔ کہ اب بات بن گئی۔ اس سے پتا چلا کہ اگر آپ ﷺ کی محبت نہ ہو تو ایمان کا بچنا مشکل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک دوسری بات بھی ہے کہ آپ ﷺ آئے کس لئے؟ آپ ﷺ کے آنے کی منشاءِ الہیٰ کیا تھی اور آپ ﷺ کو کیوں بھیجا گیا؟ آپ ﷺ کو دین کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جیسے ایک عمارت ہو، اس میں ایک اینٹ کی جگہ باقی ہو اور وہ ایک اینٹ رکھ دی جائے اور وہ عمارت مکمل ہو جائے۔ چنانچہ نبوت کی عمارت میرے آنے سے مکمل ہو گئی۔ اب ختمِ نبوت کا تاج بھی آپ ﷺ کے سر پر ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کی محبت بھی لازم ہے اور آپ ﷺ کی پیروی بھی لازم ہے۔ کیونکہ ہمیں آپ ﷺ کے علاوہ کوئی اور ذریعہ نہیں مل سکتا کہ جس سے ہم جان سکیں کہ اللّٰہ پاک ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ جتنے بھی دوسرے ذرائع ہیں، ان کی انتہا آپ ﷺ پر ہوتی ہے۔ اگر ہمیں کسی صحابی سے کچھ معلوم ہوتا ہے تو اس کے پیچھے بھی آپ ﷺ ہیں، اگر قرآن سے پتا چلتا ہے تو قرآن بھی آپ ﷺ کے ذریعے آیا ہے۔ گویا تمام چیزوں کی انتہا آپ ﷺ پر ہے۔ اور پھر آپ ﷺ اللّٰہ تعالیٰ سے لیتے ہیں۔ لہٰذا آپ ﷺ کی پیروی کرنا بنیاد ہے۔ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا: ’’إِنِّيْ قَدْ تَرَكْتُ فِيْكُمْ مَآ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهٖ فَلَنْ تَضِلُّوْا أَبَداً: كَتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهٖ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘‘
ترجمہ: ’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اگر ان کا اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک قرآن ہے اور دوسری میری سنت ہے‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم الحدیث: 318) تو ایک اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو آپ ﷺ کے ذریعے سے آیا ہے اور دوسری آپ ﷺ کی سنت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحی الہیٰ ہے جو آپ ﷺ پہ آئی ہے اور وحی جلی یعنی وحی ظاہری ہے۔ اور ایک وحی خفی ہے جس کو وحی غیرِ متلو بھی کہتے ہیں، وہ وحی آپ ﷺ کے قلب پر ایسے اتاری گئی ہے کہ اس کی تلاوت نہیں کی جاتی، لیکن اس پر عمل کیا جاتا ہے، وہ آپ ﷺ کی سنت ہے۔ تو آپ ﷺ نے جو فرماتے تھے قرآن میں اس کے بارے میں ہے کہ: ﴿وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیؕ 0 اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی﴾ (النجم: 3-4)
ترجمہ: ’’نہیں کرتے آپ ﷺ کوئی بات اپنی طرف سے، مگر اللّٰہ تعالیٰ جو وحی کرتے ہیں‘‘۔
لہٰذا آپ ﷺ کی ہر بات میں بنیادی source اللّٰہ تعالیٰ کی بات ہے۔ اپنی طرف سے آپ ﷺ کوئی بات نہیں کرتے، بلکہ اگر آپ ﷺ کی زندگی کے حالات پڑھیں، قرآن کا، احادیثِ شریفہ کا اور آپ ﷺ کے زمانہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ آپ ﷺ سے کوئی سوال پوچھا گیا تو جب تک اس کے بارے میں وحی نہیں اترتی اس وقت تک آپ ﷺ خاموش ہو جاتے اور آپ ﷺ اس کا جواب نہ دیتے۔ بلکہ بعض دفعہ صحابہ کرام کو تکلیف ہو جاتی کہ کیوں ہم نے ایسا سوال کیا، جس نے آپ ﷺ کو فکر میں ڈال دیا۔ آپ ﷺ کے سامنے عورت آئی جس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، اس عورت نے کہا: یا رسول اللّٰہ! یہ میری دو بچیاں ہیں، ان کے والد فلاں تھے، جو آپ کے ساتھ احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہیں، ان کے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کر لیا ہے، اِن کے پاس اب کچھ بھی نہیں ہے۔ واللّٰہ! ان کے ساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا جب تک ان کے پاس مال نہیں ہو گا، ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ کا دل جتنا نرم تھا اور محبت کرنے والا تھا، اس وقت کتنا تڑپ گیا ہو گا؟ لیکن اس وقت آپ ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا، کیونکہ حکم نہیں آیا تھا۔ اس وقت خاموش رہے، پھر سورۃ النساء میں حکم آ گیا، یہ حکم نازل ہونے کے بعد آپ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا کہ ان بچیوں کے چچا کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ دو تہائی ان بچیوں کو دو، اور آٹھواں حصہ بیوہ کو دے دو، اور باقی خود رکھ لو۔ یہ میراث کا پہلا مسئلہ تھا، جس پہ آپ ﷺ کی زندگی میں عمل ہوا تھا۔ چونکہ میراث کے احکامات آ گئے تو اس کے مطابق فیصلے بھی شروع ہو گئے۔ چنانچہ آپ ﷺ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرتے تھے، جب تک کہ اللّٰہ تعالیٰ کا حکم نہیں آتا تھا۔ مثلاً: وہ تین حضرات جو تبوک کی لڑائی سے پیچھے رہ گئے تھے، انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا کہ ہم نہیں گئے، یہ ہماری غلطی تھی، اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کیا۔ آپ ﷺ نے ان کو اس وقت تک کچھ نہیں کہا، جب تک اللّٰہ کا حکم نہیں آیا تھا۔ صرف بائیکاٹ کیا تھا۔ جس وقت ان کے بارے میں توبہ کی قبولیت کا حکم آ گیا، تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے، کیوں کہ آپ ﷺ اپنی امت پہ بڑے مہربان تھے، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اللّٰہ کا حکم ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اس لئے آپ ﷺ کی پیروی بہت ضروری ہے اور آپ ﷺ کی پیروی سے کیا ہوتا ہے، یہ بھی اللّٰہ پاک نے فرما دیا: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللّٰہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللّٰہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔
یعنی آپ ﷺ کی پیروی میں اللّٰہ کی محبوبیت ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ چونکہ اللّٰہ کے محبوب ہیں، آپ ﷺ کی ہر ادا، ہر کام اللّٰہ تعالیٰ کو محبوب ہے، تو جو بھی اس کو کرنے والا ہو گا، وہ بھی محبوب ہو جائے گا۔ اس لئے اگر کوئی شخص دین و دنیا میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو آپ ﷺ کی پیروی شروع کر دے، آپ ﷺ کے طریقہ پہ چلنا شروع کر دے، تو اس کے لئے ما شاء اللّٰہ دین و دنیا کی کامیابی کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ کیونکہ یہ اللّٰہ پاک کا وعدہ ہے۔ لہٰذا یہ دو شانیں ہیں: آپ ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی۔ لیکن شیطان کب اس بات کو اپنی اصلی حالت پہ رہنے دے سکتا تھا، تو اس نے یہ کوشش اور محنت کی کہ ان دونوں میں دراڑ ڈال دی، لہٰذا کچھ لوگوں نے سنتوں پہ چلنا شروع کیا اور آپ ﷺ کی محبت کو کم سمجھا، بلکہ ان کی باتوں کو چھیڑنا ہی نہیں چاہتے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ویسے جذباتی باتیں ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور کچھ لوگوں نے آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کافی سمجھا اور عمل کو بالکل کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اتنے موٹے موٹے دعوے کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ بھائی کس دلیل کی بنیاد پر یہ کرتے ہو؟ آپ ﷺ نے اپنی محبوب بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا سے فرمایا: اے میری بیٹی! اس وجہ سے تم نہیں بچو گی کہ میں تیرا باپ ہوں، بلکہ اس لئے بچو گی کہ تیرا اپنا عمل نیک ہو، اپنے عمل کی وجہ سے بچو گی۔ اب بیٹی کا معاملہ ہے اور وہ بھی اتنی محبوب بیٹی کہ آپ ﷺ جب سفر پہ جاتے تو سب سے اخیر میں ان سے ملتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے ان سے ملتے۔ لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کی اس محبت کو کافی قرار نہیں دیا۔ بلکہ اس کے لئے عمل کو لازمی بتایا۔ لہٰذا آج چاہے کوئی کتنا بڑے سے بڑا دعویٰ کیوں نہ کرے، لیکن اگر وہ عمل پہ نہیں جاتا تو اس کے سارے دعوے کاغذی دعوے ہو جائیں گے، ان کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی۔ کیونکہ ہر دعوے کی ایک حقیقت ہوتی ہے، اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت کے دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ عمل ہو۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ: حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آپ کے وضو اور آپ کی حاجت کا پانی لے کر آتا تھا، تو ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا: ”جو مانگنا ہو مجھ سے مانگو“، میں نے کہا: میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: ”اس کے علاوہ اور بھی کچھ؟“ میں نے عرض کیا: بس یہی، تو ﷺ نے فرمایا: ”تو اپنے اوپر کثرت سجدہ کو لازم کر کے میری مدد کرو۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر 1139)
چنانچہ اگر کوئی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا ثبوت عمل کے ذریعے سے ہونا لازمی ہے۔
ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو“، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو“، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر و محتاجی کا ٹاٹ تیار رکھو، اس لیے کہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا“۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2350)
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا: دین کی خاطر مجھے جتنا ڈرایا گیا، ستایا گیا، کسی اور نبی کو اتنا نہیں ڈرایا گیا، نہیں ستایا گیا۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 12212)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے شدید ترین بلا کس پر آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: انبیاء پر، پھر جو ان کے مثل ہیں، پھر جو ان کے مثل ہیں۔ انسان اپنے دین کے مطابق مصائب میں مبتلا ہوتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 1481)
لہٰذا اس دنیا میں تو ایسا ہو گا۔ یہاں آپ ﷺ نے ایک کے لئے اختیاری مجاہدہ بتایا کہ نماز پڑھو۔ اور دوسرے کو غیر اختیاری مجاہدہ بتایا۔ گویا آپ ﷺ کی محبت کے دو مظاہر ہیں، ایک اختیاری مجاہدہ ہے اور دوسرا غیر اختیاری مجاہدہ ہے۔ اور دونوں میں کامیابی آپ ﷺ کی محبت کی ضمانت ہے۔ لہٰذا ہم خالی خولے دعوے نہ کیا کریں، اس کے پیچھے بنیاد بنائیں۔ اور بنیاد کیسے بنتی ہے؟ وہ بھی عرض کرتا ہوں۔ محبت دل میں ہوتی ہے۔ اب اگر دل میں آپ ﷺ کی محبت ہے اور صحیح محبت ہے تو آپ عمل کرنا چاہیں گے۔ ہاں اگر صحیح محبت نہیں ہے تو پھر یہ out of course ہے، پھر تو دوسرا معاملہ ہے۔ میں صحیح محبت کی بات کرہا ہوں۔ یعنی اگر آپ کو صحیح محبت ہے تو پھر آپ ضرور عمل کرنا چاہیں گے لیکن عمل دل کا domain نہیں ہے، نفس کا domain ہے، نفس کے ذریعے سے انسان عمل کرتا ہے، کیوں کہ خواہشات نفس سے ابھرتی ہیں، تقویٰ اور فجور نفس کے ذریعے سے وجود میں آتے ہیں۔ پس اگر کسی کے نفس کی اصلاح ہو چکی ہو گی تو وہ نفس دل کی آواز پہ لبیک کہے گا اور ایسے عمل کرے گا جو عمل چاہئیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو دل رو رہا ہو گا، لیکن نفس عمل کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ لہٰذا صرف اور صرف محبت کے الفاظ یا محبت کے ذرائع کو حاصل کر کے ہم یہ کام نہیں کر سکتے، بلکہ اس کے لئے ٹھوس کام کرنا چاہئے، یعنی اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے۔ پھر نفس کی اصلاح دو طریقوں سے ہوتی ہے: محبت اور مجاہدہ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے محبت کے ساتھ دو مجاہدے بتائے، ایک اختیاری مجاہدہ اور دوسرا غیر اختیاری مجاہدہ۔ اس لئے یا تو غیر اختیاری مجاہدہ کے ذریعے سے آپ کے نفس کی اصلاح کی جائے گی اور پھر آپ صحیح عمل کرنا شروع کر لیں گے۔ یا پھر اختیاری مجاہدہ کے ساتھ اصلاح ہو گی۔ گویا دل کا درست ہونا یعنی دل میں محبت کا ہونا، مطلوب تو ہے، لیکن کافی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ صحابی آپ ﷺ کے سامنے بات کر رہے تھے، اگر صرف محبت کافی ہوتی تو آپ ﷺ فرماتے: بس ٹھیک ہے، کام ہو گیا۔ چنانچہ ہمیں ان دو احادیث شریفہ سے اتنا بڑا ثبوت مل گیا۔ الحمد للہ۔ جو لوگ جذب کی باتیں کرتے ہیں، تو یہاں سے بھی ثبوت ملتا ہے کہ صرف جذب کافی نہیں ہے، بلکہ جذب عمل کے لئے ضروری ہے، اور عمل آتا ہے سلوک کے ذریعے سے اور سلوک طے ہوتا ہے نفس کی اصلاح کے ذریعے سے اور نفس کی اصلاح ہوتی ہے مجاہدہ کے ذریعے سے۔ لہٰذا مجاہدہ کرنا پڑے گا، چاہے اختیاری ہے، چاہے غیر اختیاری ہے۔ لہٰذا ہمیں اس میں محتاط ہونا چاہئے۔ ان دونوں باتوں یعنی آپ ﷺ کی محبت اور آپ ﷺ کی سنت کی پیروی میں شیطان کی طرف سے دراڑ ڈالی گئی ہے اور شیطان نے لوگوں کو چسکی پہ لگا دیا ہے، یعنی کسی کو صرف محبت کے دعوؤں پہ لگا دیا اور کسی کو محبت سے خالی عمل پر لگا دیا۔ جس کو خشکی کہتے ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اصل میں جو عمل انسان کسی اور جذبہ سے کرے، وہ مطلوب نہیں ہے۔ اگر ہم کوئی عقلی بات کسی اور مقصد کے لئے کریں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اگر اس کا تعلق ایمان کے ساتھ ہو گا تو اس کی حیثیت بنتی ہے، ’’بِقَدْرِ عُقُوْلِہِمْ‘‘ کے تحت اس میں معرفت ہونی چاہئے۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور اس مسئلے میں دونوں چیزوں کو اپنی جگہ پہ رکھنا پڑے گا، یعنی محبت بھی ہونی چاہئے اور ساتھ ساتھ عمل بھی ہونا چاہئے۔ خشک عمل جس میں محبت نہ ہو، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ کیا حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے اعمال کوئی کم تھے؟ خود آپ ﷺ نے فرمایا کہ ستاروں سے زیادہ عمر (رضی اللہ عنہ) کی نیکیاں ہیں۔ لیکن ان سے فرمایا کہ جب تک تم اپنے آپ سے بھی مجھے زیادہ محبوب نہیں سمجھو گے، کامیابی نہیں ہو گی۔ اس لئے عمل والوں کے لئے محبت ضروری ہے اور محبت والوں کے لئے عمل ضروری ہے۔ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم ہیں۔ ان دونوں کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔
اس کے لئے بھی میں نے ایک کلام کہا ہے، جو کسی طالب علم نے پڑھا ہے اور ما شاء اللّٰہ بہت اچھا پڑھا ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہم سب سے راضی ہو جائے۔ در اصل بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں لگتی ہیں، لیکن اس پہ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہمیں ان باتوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہم ان دونوں کو جدا نہ کریں، یعنی ہمارے اندر محبت بھی ہو اور ساتھ ساتھ عمل بھی ہو۔
نعت شریف
"محبت رسول کی"
کتنی بڑی نعمت ہے محبت رسول کی
کتنی ہے ضروری متابعت رسول کی
اب سارے طریقے جو ہیں، منسوخ ہو گئے
اللّٰہ کو پسند ہے سنت رسول کی
اللّٰہ نے جو جمال و کمال ان کو دیا تھا
دل پر تو اس لئے ہے حکومت رسول کی
معیار اب اچھے برے کا کیسے ہو مشکل
جب تجھ کو ہے معلوم شریعت رسول کی
یعنی اگر ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون سا کام اچھا ہے اور کون سا کام برا ہے، تو ہمارے پاس معیار موجود ہے جو کہ شریعت ہے، یعنی آپ ﷺ نے جو فیصلے کئے ہیں اور اللّٰہ پاک کی طرف سے قرآن پاک میں جو فیصلے آئے ہیں، ان سے بہتر فیصلے کون سے ہو سکتے ہیں؟ اس لئے اگر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون سا کام صحیح اور کون سا کام برا ہے تو اس کے لئے ہمارے پاس شریعت کی کسوٹی موجود ہے۔ اس لئے ہم شریعت پر فیصلہ کیا کریں، اپنے جذبات پہ نہ کریں۔
جو ان کے بن گئے ہیں، وہ اللّٰہ کے بن گئے
اللّٰہ کے ساتھ ہے کیسی حیثیت رسول کی
چونکہ اللّٰہ جل شانہ نے جو کچھ آپ ﷺ کو دیا، اس میں سے وہ سب کچھ آپ ﷺ نے اپنی امت تک پہنچا دیا جو پہنچانے کے لئے دیا گیا تھا۔ اور اس بات کا مظاہرہ حجۃ الوداع کے موقع پہ ہوا تھا کہ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین سے پوچھا کہ اللّٰہ نے مجھے جو دین دیا، کیا میں نے تم لوگوں تک وہ پہنچا دیا؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا کہ نہ صرف پہنچا دیا بلکہ اس کا حق ادا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارہ کیا: اے اللّٰہ! تو گواہ رہنا، اے اللّٰہ! تو گواہ رہنا، اے اللّٰہ! تو گواہ رہنا۔ آپ ﷺ نے درمیان میں اپنی بات نہیں رکھی، جو اللّٰہ کی بات تھی، وہ ساری کی ساری آگے پہنچا دی۔ جب یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اس میں کسی کی اپنی کوئی بات نہیں رہتی تو پھر ان کی ہر بات اُن کی طرف سے ہوتی ہے جو اُن کو وہ بات بھیج رہے ہیں۔ آپ ﷺ کے ہاں جو مقبول تھے، وہ اللّٰہ کے ہاں بھی مقبول تھے اور آپ ﷺ جن کو پسند نہیں کرتے، ان کو اللّٰہ تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتے، لہٰذا جو آپ ﷺ کے ہو گئے وہ اللّٰہ پاک کے ہو گئے۔
شبیر بن جا اب تو ان کا سچا متبع
مل جائے وہاں تجھ کو شفاعت رسول کی
یہ دونوں نعت شریف تھیں، اور نعت شریف کے ساتھ ساتھ ان میں ایک پیغام بھی تھا جو سب کو پہنچنا چاہئے۔ ایسی نعتوں کو ضرور سننا چاہئے، کیوں کہ ان میں پیغام ہوتا ہے، اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول ﷺ کی محبت ہوتی ہے اور ان میں جو مقبول نعتیں ہیں، ان کو سن کر جن کے جذبات ان کے مطابق ہو جائیں تو وہ بھی اللّٰہ پاک کے مقبول ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا ایسی نعتیں تو سننی چاہئیں لیکن جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ ایسی نعتیں جن میں میوزک کا گند ملا ہو یا گانے کے طرز پر پڑھی گئی ہوں، ایسی نعتوں سے بالکل بچنا چاہئے، کیونکہ یہ دوسروں کو دین کے راستے سے بے دین کرنا ہے۔ مثلاً: آپ کسی کو دوائی کی صورت میں زہر دے دیں تو یہ کتنا خطرناک ہے؟ اسی طرح اللّٰہ جل شانہ نے جو صحیح چیز ہم تک پہنچائی ہے، اگر ہم اسے آگے کریں تو یہ صحیح ہے۔ اور اگر خود اپنے نفس کی چیز ساتھ ملا لیں تو نفسِ امّارہ تو نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ جیسا کہ اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ؕ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (یوسف: 53)
ترجمہ: ’’اور میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا) بیشک میرا رب بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے‘‘۔
لہٰذا اس چیز سے ہمیں بچنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے بچائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ