توضیح المعارف، قسط نمبر: 6
فلسفۂ سائنس اور معرفتِ الٰہی – پہلا حصہ
الٰہیات کی اصطلاح اُن مباحث کے لئے استعمال ہوتی ہے، جن میں ذاتِ باری تعالیٰ، اُس کی صفات، کائنات، مبدأ کائنات، مخلوق کے خالق سے ربط و تعلق اور ان سے متعلقہ مسائل سے گفتگو کی جائے۔ جدید دور میں ایسے علوم تک رسائی آج کل انٹرنیٹ نے بہت آسان بنا دی ہے لیکن ان علوم کو سمجھنے کے لئے جن مبادی علوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تو ہر ایک کے پاس نہیں ہوتے۔ لھذا ’’نیم ملا خطرۂ ایمان‘‘ والی بات کا خدشہ ہو جاتا ہے۔ اگر ان پیچیدہ مباحث میں کوئی نہ پڑے اور سادہ سادہ دین پر عمل کرتا رہے، تو بچت کی امید زیادہ ہے۔ لیکن اگر کسی نے اس میدان میں کسی طرح کچھ طبع آزمائی کرنی ہو، تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ ان مباحث کو اچھی طرح سمجھ لے۔ میں نے اپنے شیخ مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمہ اللہ سے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا میں حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تقویۃ الایمان‘‘ کا مطالعہ کرلوں؟ حضرت خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر پوچھا، حضرت پھر خاموش رہے۔ اس کے بعد جب میں نے پھر پوچھا، تو فرمایا: ”ہاں پڑھ لو، لیکن ایسی اچھی طرح پڑھو کہ اس کو سمجھ جاؤ۔“ حضرت کی اس ہدایت میں بھی یہی اشارہ ہے۔
الہیات کا یہ میدان بہت ہی نازک ہے، اسی لئے پوری تاریخِ اسلام میں علماءِ اسلام میں سے چند شخصیات ہی اس موضوع کو زیرِ بحث لانے سے مشہور ہوئی ہیں۔ ان میں شیخ اکبر امام ابن عربی، امام ابن تیمیہ، امام غزالی، حضرت مجدد الفِ ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور قریبی دور میں مولانا محمد قاسم نانوتوی اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ کے نام نمایاں ہیں۔ مؤخر الذکر (یعنی شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ) نے اس موضوع پر ایک معرکۃ الآراء کتاب ”عبقات“ لکھی ہے، جو خود مصنف کی تصریح کے مطابق امام ابنِ عربی اور مجدد الف ثانی رحمہما اللہ کے علوم و افکار سے اثر لے کر شاہ ولی اللہ صاحب کی ”لمعات“ اور”سطعات“ کی شرح و توضیح کے لئے لکھی گئی ہے۔ ”عبقات“ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسمعیل شہید رحمہ اللہ اسلامی الہٰیات کے موضوع پر بیک وقت حضرت شیخ ابن عربی رحمہ اللہ ، حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ اور حضرت شاہ ولی اللہ، تینوں بزرگوں کے علوم و معارف کے نہایت معتقد ہیں۔ اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی طرح مؤخر الذکر دو بزرگوں کے علوم میں تطبیق دیتے ہیں۔
یہی وہ وصف جامع ہے ، جسے آج بھی شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے طرز پر علماءِ دیوبند مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ یہ حضرات امام ابنِ عربی رحمہ اللہ کے نظریہ ’’وحدۃ الوجود‘‘ میں حد درجہ غلو رکھتے ہیں اور نہ انکار، اسی طرح امام ربانی مجدد الف ثانی کے نظریہ ’’وحدۃ الشہود‘‘ میں غلو رکھتے ہیں اور نہ انکار؛ بلکہ ان دونوں نظریات میں تطبیق کے قائل اور دونوں بزرگوں کی عقیدت و احترام کے جذبات سے سرشار ہیں)
الٰہیات کے موضوع پر مندرجہ بالا بزرگوں کے علوم و معارف کو سمجھنے کے لیے ایک باریک نکتے کا لحاظ رکھنا بہت مفید ہے ۔اور وہ یہ کہ ہر دور میں فتنوں کا رخ مختلف ہوتا ہے، اس لئے اس دور کے اکابر ان فتنوں کے رد میں جس بات کی ضرورت ہوتی ہے، اس پر زیادہ زور دیتے ہیں اور جس کی ضرورت نہیں ہوتی، اس سے قدرے بے فکر ہوتے ہیں۔ شیخ اکبر رحمہ اللہ اور حضرت امام ربانی رحمہ اللہ کا دور مختلف ہونے کی وجہ سے ہر دو کے افکار میں بوجوہ فرق پایا جاتا ہے ۔ان دونوں بزرگوں شیخ محی الدین ابن عربی رح اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے خالق اور مخلوق کے درمیان تعلق کو ، جو ایک واحد لیکن کثیر الجہت Multidimentional حقیقت ہے، کو دو مختلف Angles یا نقطہ نظر سے دیکھا اور محسوس کیا۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی کا نقطہ نظر، غلبہ حب الہیٰ، مخلوق کی خالق پر بے پناہ انحصار Dependency کی وجہ سے خالق سے غایت قرب کے احساس پر مبنی تھا۔
جبکہ حضرت مجدد رح کے پیش نظر خالق اور مخلوق کے مابین مغائرت اور خالق کی مخلوق سے استغناء تھا، جس کا منشاء عظمتِ الٰہی تھا۔ اور ظاہر ہے کہ قرب و حبِ الٰہی اور عظمتِ الٰہی، دونوں احوال قرآن و سنت سے ثابت اور مطلوب ہیں۔ حضرت شیخ اکبر رحمہ اللہ نے خالق اور مخلوق کے درمیان (شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے) اتحاد پر زیادہ زور دیا، کیونکہ مخلوق کی ہر چیز خالق کے ارادے سے ہے اور خالق تمام مخلوقات کا قیوم ہے۔ جب کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے ان میں مغائرت پر زور دیا، کیونکہ مخلوق کی کسی بھی چیز کا خالق پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ خالق ان سب موجودات سے جو کہ اس کی مخلوق ہیں، مستغنی اور پاک ہے۔ مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمایا کہ خدا موجود ہے، لیکن کسی وجود کے بغیر موجود ہے۔ کیونکہ مخلوق صرف اس وجود کو جانتی ہے،جو مخلوق ہے۔ واجب الوجود کا وجود،جو اصل وجود ہے، اس کی مخلوق کو سمجھ ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور مخلوق کے وجود میں مَوطِن (Domain) مختلف ہے۔حضرت شیخ اکبر رحمہ اللہ کے بعد ان کے بعض غالی معتقدین نے اس میدان میں وہ طوفانِ بد تمیزی برپا کیا کہ کثرت سے وحدت کے ظہور کے بجائے کثرت کو ہی وحدت سمجھنے لگے، جس کی وجہ سے شرعی تعریفات ساری مبہم ہو گئیں اور اس سے زندیقی وجود میں آئی۔ ان معتقدین کی اس نارسائی کا انجام یہ ہوا کہ علامہ اقبال جیسے علامہ بھی اس بات کو شیخ اکبر رحمہ اللہ کے کھاتے میں ڈالنے لگے اور ایک موقع پر کہا: ’’جہاں تک مجھے علم ہے، فصوص الحکم میں سوائے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں ہے‘‘۔ البتہ بعد میں علامہ اقبال کا یہ موقف یہ نہ رہا۔ ان کی فکر پر حضرت مولانا روم کا گہرا اثر پڑا، جن کی مثنوی مولانا روم ، شیخ ابن عربی کی تعلیمات کی طرح قربِ الٰہی اور فنا کے پیغام سے ہی لبریز ہے۔حضرت مولانا روم کا یہ اثر ان پر اتنا گہرا تھا کہ علامہ اقبال اپنے آپ کو مولانا رومی رحمہ اللہ کا مرید ہندی قراد دیتے۔ لیکن حضرت امام ربانی رحمہ اللہ پر قربان جائیں کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے غالی متعقدین کی زندیقیوں کا ایک جامع رد کرنے کے باوجود فرماتے ہیں کہ میں کشف میں شیخ اکبر رحمہ اللہ کو اعلیٰ درجے کی جنتوں میں پاتا ہوں۔
اس کتاب میں الٰہیات سے متعلق چند ضروری اصطلاحات کی تشریح دی جارہی ہے، ایک بڑے،لیکن غیر معروف محقق حضرت سید تسنیم الحق رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اصطلاحات مبتدی کے لئے سیڑھی ہیں اور منتہی کے لئے عیب ہیں۔ چونکہ یہ کتاب اس علم کے مبتدیوں کے لئے لکھی جا رہی ہے، اس لئے ان اصطلاحات کا تعارف بہت ضروری ہے۔ کیونکہ بعض اوقات صرف صحیح اصطلاح نہ جاننے کی وجہ سے بھی بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں اور اس طرح گمراہی کو راستہ ملتا ہے۔
الٰہیات کی کچھ اصطلاحات اللہ تعالیٰ کی وراء الورا ذات سے متعلق عقل پسند لوگوں کے اشکالات کو دور کرنے کے لئے وضع کی جاتی ہیں۔ کچھ نام نہاد مسلمان سکالرز جو مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ ان اصطلاحات پر تنقید کرتے ہیں۔تاکہ ان اخلاص کے پیکر بزرگوں سے عامۃ الناس قاریوں کو بد گمان کر کے ان کو اپنا تابع بنائیں۔ اس بدگمانی کی وجہ سے لوگ دھیرے دھیرے الحاد کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ پس جب تک وہ مغضوب علیھم کے مرتبے کو نہیں پہنچتے،اور ضالین کے درجے میں ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش ہو سکتی ہے۔ یہ کتاب صرف ان کے لئے ہے، تاکہ وہ اپنے بزرگوں کے اخلاص پر شبہ کرنے کے بجائے ان کی مخلصانہ کوششوں سے مستفید ہوں۔
یونان کے فلسفیوں نے بھی الٰہیات کے موضوعات پر بہت کچھ تحریر کیا ہے، لیکن وہ ان کے ذہن کی کار فرمائیاں تھیں۔ اس میں وحی سے استفادہ نہیں کیا گیا تھا، لیکن ایک ایسے موضوع کو جس کا تعلق ایمان بالغیب کے ساتھ ہو، محض عقل سے سمجھنا کیسے ممکن تھا؟ اس لئے انہوں نے اس میدان میں منہ کی کھائی اور حقیقت سے بہت دور جا پڑے۔ لیکن ان کی ان تحریرات کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سے سارے ایسے فلسفی پیدا ہو گئے جو ان کی کوششوں کے ایسے معترف ہوئے کہ ان کے ہاں وحی کے علوم نے ثانوی حیثیت اختیار کی، جس کی وجہ سے وہ ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ اس قسم کے نقصان سے بچانے کے لئے علمِ کلام وجود میں آیا، جس میں اصلِ وحی اور وحی کو سمجھنے کے لئے فقاہت کے درجے میں عقل کا جتنا استعمال ممکن تھا، اس پر کام کیا گیا۔ اس میں بعض دفعہ یونانی فلسفہ کو فلسفہ کے طریقے سے رد کیا گیا، اس وقت وہی علمِ کلام تھا۔ لیکن اب اس جدید دور میں فلسفہ کی جگہ سائنس نے لے لی ہے، اس لئے اسی طریقے سے سائنس ہی کے اصولوں سے وحی کی روشنی میں سائنس کے غلط استعمال کی ظلمت کو دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ یہ کتاب اسی کوشش کی ایک لڑی ہے۔
اس میں ’’عبقات‘‘ جو حضرت شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اس سے بہت کچھ اخذ کیا گیا ہے، لیکن اس کتاب کا مواد صرف اس کتاب تک محدود نہیں، بلکہ آج کل کے دور کی جدید ضروریات کے پیشِ نظر جدید علوم سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ عبقات میں جو مثالیں دی گئی ہیں، وہ پرانی ہو چکی ہیں، آج کل کے لوگوں کے لئے وہ مثالیں زیادہ کار آمد نہیں ہیں اور ان سے بہتر مثالیں وجود میں آ چکی ہیں، اس لئے ضرورت تھی کہ ان جدید مثالوں کی بنیاد پر بات سمجھائی جائے۔ دوسری طرف جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ اس وقت لوگ فلسفہ کو زیادہ نہیں جانتے، بلکہ سائنس کو زیادہ جانتے ہیں، اس لئے ہمارا طریقہ کار سائنٹیفک ہونا چاہئے۔ لیکن سائنس سے مرعوب ہو کر نہیں، بلکہ اس کو صرف اتنا استعمال کریں، جتنا ضروری ہے اور جہاں سائنس کی دال نہیں گلتی، وہاں پر اس کو نظر انداز کیا جائے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اس کام میں حسنِ نیت کی توفیق عطا فرما کر اس کام کو خلوص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کو امت کے لئے مفید بنا کر ہمارے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرمائے۔
آمِیْنْ ثُمَّ آمِیْنْ
سید شبیر احمد کاکا خیل
حال خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی