اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَالُوْا طَآىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ (یٰس: 19)
ترجمہ: ’’رسولوں نے کہا: تمہاری نحوست خود تمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ باتیں اس لئے کر رہے ہو کہ تمہیں نصیحت کی بات پہنچائی گئی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ تم خود حد سے گذرے ہوئے لوگ ہو‘‘۔
’’فَقَدْ حَانَ شَهْرُ صَفَرَ، يَتَشَائَمُ بِهٖ بَعْضُ النَّاسِ وَيَتَطَيَّرُ كَمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ مَعَ هٰذَا الْإِعْتِقَادِ يَبْتَدِعُوْنَ فِيْهِ النَّسِيْءَ النُّکْرَ، فَأَبْطَلَهُ اللهُ تَعَالٰی بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّمَا النَّسِیْءُ زِيَادَةٌ فِی الْكُفْرِ﴾ (التوبہ: 37) وَكَذٰلِكَ نَفٰی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الشُّوْمَ وَ الطِّيَرَةَ بِهٖ خُصُوْصًا وَّ بِكُلِّ شَىْءٍ عُمُوْمًا، وَ أَزَاحَ بِهٰذَا النَّفْيِ عَنَّا ھُمُوْمًا وَّغُمُوْمًا، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''لَا عَدْوٰى وَلا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَّلَا صَفَرَ''۔ (بخاری، رقم الحدیث: 5707) قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ: ''یَتَشَاءَمُوْنَ بِدُخُوْلِ صَفَرَ''۔ فَقَالَ النَبِیُّ ﷺ: ''لَا صَفَرَ''۔ (ابو داؤد، رقم الحدیث: 3915، بِإِخْتِلَافِ الْأْلْفَاظِ) وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ''الطِّیَرَۃُ شِرْكٌ [قَالَهٗ ثَلٰثاً]، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ: مَا مِنَّا إِلَّا وَلٰکِنَّ اللهَ یُذْھِبُهٗ بِالتَّوَکُّلِ''۔ (ابو داؤد، رقم الحدیث: 3910) وَعُلِمَ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ أَنَّ وَسْوَسَةَ الطِّیَرَۃِ إِذَا لَمْ یَعْتَقِدْھَا بِالْقَلْبِ وَلَمْ یَعْمَلْ بِمُقْتَضَاھَا بِالْجَوَارِحِ وَلَمْ یَتَکَلَّمْ بِھَا بِاللِّسَانِ لَا یُؤَاخَذُ عَلَیْھَا، وَھٰذَا ھُوَ الْمُرَادُ بِالتَّوَکُّلِ‘‘۔
صفر کا مہینہ شروع ہو چکا ہے، اس ماہ کے حوالے سے بہت ساری ایسی باتیں لوگوں میں مشہور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بعض باتیں چونکہ آپ ﷺ کے بعد شروع ہوئی ہیں لہٰذا ان کا جواب دینا ذرا مشکل ہوتا ہے، کیونکہ ان کو دلائل سے سمجھانا ہوتا ہے۔ لیکن صفر کا مہینہ پہلے بھی آتا رہا ہے۔ آپ ﷺ کے وقت میں بھی صفر کا مہینہ آتا تھا اور صحابہ کرام کے پورے دور میں اور جتنے بھی اَھْلُ اللّٰه گذرے ہیں ان کے ادوار میں بھی صفر کا مہینہ آتا رہا ہے۔ ان وقتوں میں جو اعمال ہوئے تھے، ہم انہیں ہی دیکھیں گے، وہی ہمارے لئے معیار ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہود میں 71 فرقے بن گئے تھے اور نصاریٰ میں 72 بن گئے تھے، میری امت میں عنقریب 73 فرقے بن جائیں گے، لیکن ان میں سے صرف ایک حق پر ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ وہ کون ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’مَآ اَنَا عَلَیْهِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی، حدیث نمبر: 2641)
ترجمہ: ’’جس پر میں ہوں اور جس پر میرے صحابہ ہیں‘‘۔
چنانچہ ہمارے پاس حق کا معیار یہ ہے کہ آپ ﷺ کے وقت میں اگر وہ کام ہو چکا ہو تو دیکھیں گے کہ وہ کیسے ہوا تھا۔ کیونکہ احادیث شریفہ 3 قسم کی ہیں۔ قولی، فعلی اور تقریری۔ قولی احادیث شریفہ وہ ہیں جن میں آپ ﷺ نے کسی چیز کے بارے میں فرمایا کہ یہ چیز ایسی ہے یا یہ چیز ایسی نہیں ہے یا اس طرح کرنا ہے اور اس طرح نہیں کرنا۔ یہ بالکل واضح ہوتا ہے۔ دوسری طرف کچھ کام آپ ﷺ نے کئے ہیں اور کچھ نہیں کئے، جو کئے ہیں وہ بھی حدیث کے زمرے میں ہیں اور جو نہیں کئے، انہیں نہ کرنا بھی سنت ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کچھ کام کئے، آپ ﷺ نے ان کو دیکھا اور کرنے دیا، روکا نہیں۔ یہ بھی سنت ہو گئی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کوئی کام کیا، آپ ﷺ نے اسے دیکھا اور روک دیا تو اسے نہ کرنا بھی سنت ہو گیا۔ یعنی آپ ﷺ نے کسی چیز کو ہونے دیا یا کسی چیز کو نہ ہونے دیا تو اس سے حکم پتا چل جاتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ اسے ماننا ہے یا نہیں ماننا۔
صفر کا مہینہ بھی چونکہ آپ ﷺ کے وقت میں آیا تھا اور آپ ﷺ سے کچھ صحابہ کرام نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا صَفَرَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 3916)
ترجمہ: ’’صفر میں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔
یعنی یہ بھی عام مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ اگر کوئی اس میں اچھا کام کرے گا تو اس کو فائدہ ہو گا اور اگر کوئی برا کام کرے گا تو اس کو نقصان ہو گا۔ خیر و شر اعمال کی بنیاد پر ہے، وہ اس مہینے میں بھی ہے اور باقی مہینوں میں بھی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بعض مہینوں میں بعض اعمال کی قیمت بڑھ جاتی ہے، مثلاً رمضان شریف کا مہینہ یا حج کا موقع، یہ ضرور خصوصی اوقات ہیں۔ لیکن صفر میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے ہم یہ سمجھیں کہ کوئی عمل بڑھ گیا ہے یا کسی عمل میں کوئی کمی ہو گئی ہے۔ بس یہ عام مہینہ ہے۔ جیسے جمعہ کا دن خاص دن ہے اور باقی عام دن ہیں۔ جمعہ کے دن ہر عمل کی قیمت اس کے لحاظ سے ہوتی ہے اور باقی دنوں میں ان کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اسی طرح صفر کا مہینہ ایک عام مہینہ ہے، اس کے اندر کوئی خاص بات نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سوءِ ظن کے لئے دلیل چاہئے ہوتی ہے جب کہ حسنِ ظن کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر آپ کسی کے ساتھ اچھا گمان رکھتے ہیں تو اس کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، بس وہ آپ کا اچھا گمان ہے، وہی کافی ہے اور بہت اچھی بات ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کے ساتھ بد گمانی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے دلیل چاہئے ہوتی ہے، آپ کے پاس ثبوت ہونا چاہئے۔ اسی طرح اس مہینے میں ہمارے پاس اس بدگمانی کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس مہینے میں کوئی مسئلہ ہے۔ عموماً عام لوگوں نے اس کے ساتھ بہت ساری باتیں باندھ دی ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس میں بلائیں اترتی ہیں۔ ان بلاؤں کے لئے انہوں نے باقاعدہ وظیفے بنائے ہوئے ہیں۔ یہ در اصل دکان داری کی باتیں ہیں، جنہوں نے اپنی دکانیں سجانی ہوتی ہیں انہیں اس کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ چاہئے ہوتا ہے، پہلے وہ ڈراتے ہیں پھر اپنا مال بیچتے ہیں۔ یہاں ڈرانے والی چیز ہی نہیں ہے تو مال بیچنے والی بات کیسے ہو گی؟ کسی بھی برائی کے پھیلنے میں سب سے بڑا کردار اِس چیز کا ہوتا ہے کہ آپ اس کو تقدُّس کا رنگ دے دیں، جب آپ تقدس کا رنگ دے دیں گے تو لوگ اس کو ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی کہتا ہے صفر کا مہینہ بڑا منحوس ہے، اس میں روزانہ 141 مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھ لیا کرو۔ اب سورۂ فاتحہ تو مبارک ہے، مقدس ہے، لہٰذا لوگ کہیں گے کہ یہ بات تو صحیح ہے۔ سورۂ فاتحہ ضرور پڑھیں لیکن اس نیت سے نہ پڑھیں کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے۔ یہ سوچ غلط ہے، سورۂ فاتحہ مبارک ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔ بہر حال لوگوں نے وظیفے اس طرح بنائے ہوتے ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں شاید یہ واقعی صحیح بات ہو گی۔ لوگ کہتے ہیں یہ قرآن پڑھنا ہی تو ہے۔ بھئی! قرآن پڑھنا تو ہے لیکن کیا نعوذ بالله من ذالک بیت الخلا میں قرآن پڑھ سکتے ہیں؟ جس طرح بیت الخلا میں قرآن پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح غلط عقیدے کے ساتھ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے، غلط اصول کے ساتھ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔ مثلاً کوئی قرآن کے ساتھ میوزک بجانا شروع کر دے تو جائز نہیں ہو گا؛ کیوں کہ اگرچہ قرآن تو اپنی جگہ صحیح ہے لیکن میوزک تو غلط ہے۔ جیسے دو من دودھ میں ایک چمچ پیشاب ڈال لیں تو جسے پتا ہو گا وہ اسے پینے کے لئے کبھی تیار نہیں ہو گا. اسی طرح ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو چیز ثابت نہ ہو اس پر بغیر تحقیق کے ہمیں عمل نہیں کرنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی بات کسی کو پتا چلے اور وہ بغیر تحقیق کے اس کو آگے بڑھائے تو یہ جھوٹ میں شامل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا یہ جو اکثر لوگوں کا طرز عمل ہے کہ بس کسی طریقے سے سوشل میڈیا پر کوئی کلپ آ جائے تو اسے آگے بڑھا دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ کو پہلے تحقیق کرنا ہو گی اگر وہ بات آگے بڑھانے کے قابل ہو تو پھر ہی آپ اس کو آگے بڑھائیں۔ صفر کا مہینہ بھی ایک عام مہینہ ہے، اس میں کوئی نحوست نہیں ہے۔ ہمیں اپنے عام معمول کے اعمال کرنے چاہئیں۔ اس مہینے میں کوئی خصوصیت بھی نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اس میں نحوست کا پہلو یہ نکالا ہے کہ اس میں آپ ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ حالانکہ آپ ﷺ کا ربیع الاول کے مہینے میں وصال ہوا ہے، فوت ہونا زیادہ بڑی بات ہے یا بیمار ہونا زیادہ بڑی بات ہے؟ پھر ربیع الاول میں کیوں جلوس نکالتے ہیں؟ آپ ﷺ تو ربیع الاول میں فوت ہوئے ہیں، دنیا سے تشریف لے گئے ہیں۔ لہٰذا یہ غلط طرزِ عمل ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ’’مَا اَنَا عَلَیْهِ وَاَصْحَابِیْ‘‘ کو دیکھنا چاہئے کہ آپ ﷺ نے خود ہمیں فرمایا ہے کہ وہ راستہ حق ہے جس پر میں چلا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلیں۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ حضور ﷺ کے عاشق نہیں ہو سکتے، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالی عنہ سے زیادہ حضور ﷺ کے عاشق نہیں ہو سکتے، حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ حضور ﷺ کے عاشق نہیں ہو سکتے۔ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یہ بنیادی بات ہے۔ ہمیں اپنے آپ میں رہنا چاہئے۔ جتنے ہم ہیں ہمیں خود کو اتنا ہی رکھنا چاہئے، خود کو اس سے زیادہ نہیں بڑھانا چاہئے۔ لہٰذا آپ ﷺ کے ساتھ محبت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی کریں۔ کیونکہ آپ ﷺ اس سے خوش ہوتے ہیں، جو زیادہ درود شریف پڑھتا ہے آپ ﷺ اس سے خوش ہوتے ہیں اور جو آپ ﷺ کی زیادہ پیروی کرتا ہے اس سے خوش ہوتے ہیں۔ باقی چیزیں لوگوں نے حلوے مانڈے کے لئے نکالی ہوئی ہیں، اُن کو کوئی بہانہ چاہئے ہوتا ہے تاکہ کچھ خیر خیرات ہوتی رہے اور وہ اُن تک پہنچتی رہے۔ بس اسی لئے انہوں نے اس قسم کی باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ ہم کسی کو روکتے نہیں کہ کھانا نہ کھلائیں۔ کھانا کھلانے کا تو حدیث شریف میں حکم ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ”سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، نماز تہجد پڑھو اور جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ“۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کھانا کھلانے کی نیت کیا ہے؟ اگر کھانا کھلانے کی نیت ایک مسلمان کے ساتھ خیر خواہی ہے تو یہی بات کافی ہے۔ نعوذ باللّٰه من ذالک اگر میں کھانا اس لئے کھلاتا ہوں کہ چونکہ صفر کا مہینہ منحوس ہے لہٰذا اس سے ہماری بلائیں ختم ہو جائیں گی تو یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ویسے صدقہ کرو، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صدقہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں، لیکن یہ نیت کرنا کہ صفر میں بلائیں ہوتی ہیں یہ غلط ہے، یہ اپنی طرف سے بنائی ہوئی بات ہے۔ بلائیں کسی وقت بھی ہو سکتی ہیں، کوئی بھی وقت ایسا ہو سکتا ہے کہ جس میں ہمارے اعمال کی وجہ سے کوئی بلا نازل ہو رہی ہو۔ لہٰذا اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کی تلافی کریں، استغفار کریں، توبہ کریں، اللّٰہ کی طرف رجوع کریں۔ اس میں صدقہ بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کا صفر کے مہینے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حدیث میں ایک اور بات بھی آئی ہے کہ: ’’لَا عَدْوٰی‘‘ اس میں ’’چھوت‘‘ کی نفی کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا عَدْوٰی وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 5380)
ترجمہ: ’’بیماری لگ جانا اور بدشگونی اور ہامہ اور صفر لغو ہیں‘‘۔
یعنی مرض کا تعدیہ (ایک سے دوسرے کو بیماری لگ جانے کی کوئی حیثیت) نہیں ہے، بلکہ جس طرح اوّلاً حق تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں، اس طرح دوسرے کو بھی اپنے مستقل تصرف سے بیمار کر دیتے ہیں، میل جول وغیرہ سے کسی کو مرض نہیں لگتا، ایسا سمجھنا وہم ہے۔ اسی طرح جانور کے اڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز نہیں ہے جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ بائیں جانب سے پرندہ اڑے تو منحوس جانتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ اور نہ اُلّو کی نحوست کوئی چیز ہے، جیسا کہ عام طور پر لوگ اس کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور یہ حدیثِ صریح کے خلاف ہے۔ اور ایک رسم اس ماہ میں آخری چار شنبہ کی مروج ہے، یہ بھی بالکل بے اثر ہے۔
چار شنبہ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس میں آپ ﷺ کو صحت ہوئی تھی تو بیبیوں نے چُوری تیار کی تھی اور تقسیم کی تھی۔ چنانچہ لوگ اس دن چوری تقسیم کرتے ہیں۔ چوری بہت اچھا کھانا ہے۔ اگر کوئی کھانا چاہے تو کسی وقت بھی کھا سکتا ہے، کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اس کو اس دن کے ساتھ خاص کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ایک بدھ پہلے کر لو یا ایک بدھ بعد میں کر لو، کسی بھی دن کر لو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ جتنا بنانا چاہتے ہو بنا لو، کھا لو، لوگوں میں تقسیم کردو، کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر آپ نے اسی دن بنائی ہے اور اس نیت سے بنائی ہے تو یہ چونکہ واقعہ کے خلاف ہے لہٰذا یہ غلط ہو گا۔
اس حدیث میں بیماری کے دوسرے کو لگنے کا بھی ذکر ہے۔ اس میں کچھ تفصیل ہے۔ چونکہ دونوں قسم کی احادیث شریفہ موجود ہیں، دوسروں کو بیماری لگنے کے متعلق بھی حدیثیں موجود ہیں اور نہ لگنے کے متعلق بھی موجود ہیں۔ ان میں تطبیق اس طرح کی جا سکتی ہے کہ ’’کَلِّمُوْا النِّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ ’’لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق بات کرو‘‘۔ کی روشنی میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اسی سے بیماری لگتی ہے۔ یہ غلط ہے۔ میں کہتا ہوں اگر کوئی زہر بھی کھا لے، لیکن اللّٰہ تعالیٰ اس کو نہ مارنا چاہے تو نہیں مر سکتا اور اگر اللّٰہ تعالیٰ مارنا چاہے تو زہر کی ضرورت ہی نہیں، بغیر زہر کے بھی مار سکتا ہے۔ جیسے لوگ چلتے چلتے گر پڑتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ تو کیا انہوں نے زہر کھایا ہوتا ہے یا ان کو گولی لگی ہوتی ہے؟ بس جن کی موت کا وقت آیا ہوتا ہے، اچانک ان کا ہارٹ فیل ہو جاتا ہے یا فالج ہو جاتا ہے یا کسی اور وجہ سے وہ مر جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ چیزیں اللّٰہ کے حکم سے ہوتی ہیں، جن کی نظر اللّٰہ کے حکم پر ہوتی ہے وہ اس کو صرف ایک سبب کے طور پر جانتے ہیں کہ اللّٰہ پاک اس کو بھی سبب بنا سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ یعنی اللّٰہ تعالیٰ کے ارادے سے بیماری لگنے کا عقیدہ رکھنا ٹھیک ہے۔ اور اگر درمیان سے اللّٰہ تعالیٰ کے ارادہ کو نکال دیں اور خود بیماری کے متعدی ہونے پر یقین رکھیں، تو یہ اصل میں اسباب کے مؤثر اور غیر مؤثر ہونے کے اصول کے زمرے میں آتا ہے کہ کچھ لوگ اسباب کو مؤثر حقیقی سمجھتے ہیں جو کہ دہریوں کا قول ہے، ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ ہم اسباب کو مؤثر حقیقی نہیں سمجھتے، اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو مؤثر حقیقی سمجھتے ہیں۔ اسباب اللّٰہ کے حکم کے محتاج ہیں، جب اللّٰہ جل شانہ چاہے گا تو کام ہو گا اور اگر اللّٰہ تعالیٰ نہیں چاہے گا تو نہیں ہو گا۔ ہم نے کرونا کے دنوں میں اس کا نظارہ کیا ہے، ہمارے بھائی کے گھر میں سب کو کرونا ہوا، مگر ایک آدمی کو نہیں ہوا۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ اگر لگنے والی بات درست ہے تو وہ بھی تو ان کے ساتھ ہی تھے، ان کو کیوں نہیں لگا؟ اس لئے نہیں لگا کیونکہ اس کے لئے اللّٰہ کا حکم نہیں تھا، اور جس کے لئے حکم تھا اس کو لگ گیا۔ ہمارے رشتہ داروں میں بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے حد سے زیادہ احتیاط کی، لیکن ان کو لگ گیا اور بعض لوگ ایسے تھے جو بے پروا قسم کے تھے، ان کو نہیں لگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پروا نہیں کرنی چاہئے، پروا تو کرنی چاہئے، مگر اسباب کے دائرے میں ہو؛ کیونکہ اسباب بھی اللہ کے حکم کے محتاج ہیں، جیسے میں پانی پیتا ہوں تو اس سے پیاس بجھتی ہے۔ لیکن اگر اللّٰہ نہ چاہے تو نہیں بجھتی، جیسے استسقاء کی بیماری میں پانی سے پیاس نہیں بجھتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ پاک کا حکم اصل میں مؤثر ہے۔ اسی وجہ سے دو چیزوں کا حکم ہے: اسباب کو اختیار کرو اور اللّٰہ پاک سے مانگو۔ اللّٰہ پاک سے مانگنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ سارے کام خود بخود نہیں ہوتے، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ کی منظوری سے ہوتے ہیں، جب اللّٰہ تعالیٰ چاہتے ہیں تو ہو جاتے ہیں اور جب اللّٰہ پاک نہیں چاہتے تو نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں بڑے بڑے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی الگ الگ آراء ہیں۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ تشریف لے جا رہے تھے، وہاں طاعون کی بیماری تھی، حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ تھے، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے وہاں جانے کا فیصلہ ترک کر دیا اور نہیں گئے۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح جو بہت بڑے صحابی تھے، امینِ امت تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا: کیا آپ تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تقدیر سے تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔ وہاں بھی تو تقدیر ہی ہے، وہاں بھی تو اللّٰہ ہی ہے، لیکن میں نے سبب کے طور پہ ایسا کرنا ہے۔ اب دیکھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سبب کے درجے میں اس بات کو اختیار کیا، حالانکہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خلیفہ راشد ہیں۔
ایک جذامی نے آپ ﷺ سے بیعت ہونے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے دور سے فرمایا کہ تو بیعت ہے، واپس چلا جا اور یہ بھی فرمایا کہ جذامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہیں۔ لہٰذا اسباب کے دائرے میں اس کو لانا ٹھیک ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ مسبب الاسباب کے حکم کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا جس جگہ جس چیز کا جتنا حکم ہے ہمیں اسی طرح کرنا چاہئے، نہ اس کو بڑھانا چاہئے اور نہ کم کرنا چاہئے۔ اللّٰہ جل شانہ کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے اور ہمیں اللّٰہ پاک کی سنتِ عادیہ کا بھی خیال رکھنا چاہئے، اس کے خلاف نہیں کرنا چاہئے۔ اللّٰہ پاک کی سنتِ عادیہ ہے کہ آگ میں ہاتھ ڈالو گے تو ہاتھ جل جائے گا۔ اب اگر آپ آگ میں ہاتھ ڈال لیں تو آپ نے اللّٰہ تعالیٰ کے سنتِ عادیہ کے خلاف کیا لہٰذا آپ نے اپنا نقصان کر لیا۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں چونکہ لوگ ڈال رہے تھے تو اللّٰہ پاک نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ! ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہو جا۔ سبحان اللّٰه! آگ ان کے لئے گلزار بن گئی۔ چنانچہ اسباب کے مؤثر ہونے کا اصل حکم اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ بہت عجیب بات ہے۔ جراثیم میں جان ہوتی ہے، وائرس میں جان نہیں ہوتی، وائرس بے جان چیز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں وائرس مر گیا۔ حالانکہ وائرس مرتا نہیں، وائرس پہلے سے مرا ہوا ہوتا ہے۔ وائرس میں زندگی ہے ہی نہیں۔ وائرس بالکل معمولی سا ذرہ ہے جس کے اندر ایک جینیاتی کوڈ ہوتا ہے جو در اصل ایک میسج ہوتا ہے۔ جیسے آپ کسی کو میسج دیں، جس میں صرف یہ لکھا ہو کہ: ’’آگے کو بھاگو‘‘ جس کے پاس بھی وہ پہنچے، اس کے لئے یہی میسج ہو کہ ’’آگے کو بھاگو‘‘، یوں وہ بھی آگے بھاگنا شروع کر دے، پھر اس نے دوسرے کو یہی میسج دیا تو وہ بھی آگے سے بھاگنا شروع کر دے گا۔ جس طرح یہ ایک مختصر سا میسج ہے، اسی طرح وائرس میں بھی مختصر سا میسج ہوتا ہے۔ مثلاً وہ میسج یہ ہو کہ میری طرح بن جا۔ گویا جسم کے ہر سیل کے لئے اس کے اوپر میسج ہو کہ میری طرح بن جا، بس پھر جب یہ جسم کے کسی خاص حصے میں داخل ہو جاتا ہے تو ان (cells) خلیوں کے اندر داخل ہو کر ان کو اسی طرح بنا لیتا ہے اور وہ بہت بڑی تعداد میں مزید وائرس بن جاتے ہیں اور پھر اس سے نکلتے ہیں۔ پھر وہ جس کے پاس نہیں پہنچے تو نہیں پہنچے۔ لیکن جس کے پاس پہنچ گئے تو چونکہ وہ میسج ان کے ساتھ موجود ہے، لہٰذا جس کے پاس وہ وائرس پہنچ گیا تو وہ بھی اس طرح کرے گا۔ اس کو کہتے ہیں وائرس کی بیماری۔ کرونا بھی اسی قسم کی بیماری ہے۔
اب اللّٰہ کا حکم دیکھیں۔ ہم الحمد للّٰہ پاکستان میں ہیں۔ ہمارے مشرق میں ہندوستان ہے اور مغرب میں ایران ہے۔ یہ تینوں ملک ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔ یعنی گرمی سردی ہم سب کی ایک ہے۔ مگر ایران میں بھی تباہی مچی، انڈیا میں بھی تباہی مچی۔ پاکستان کافی حد تک بچا ہوا تھا۔ اب اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا پاکستان کے لوگ زیادہ احتیاط کرنے والے ہیں؟ پاکستان کے ڈاکٹر بہت زیادہ ماہر ہیں؟ نہیں! بس اللّٰہ کا حکم ہے کہ یہاں نقصان کم ہو چنانچہ یہاں نقصان کم ہوا۔ اگرچہ لوگوں نے یہاں پر بھی خوف پھیلانے کے لئے بہت شور مچایا، لیکن الحمد للّٰہ، اللّٰہ پاک نے دکھا دیا کہ جو اللہ کا حکم ہو وہی ہوتا ہے۔
جن لوگوں نے دہشت پھیلانی ہوتی ہے ان کو بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے سب لوگوں کے ٹیسٹ تو نہیں ہوتے، گذشتہ دنوں میں روزانہ 20، 22 ہزار لوگوں کے ٹیسٹ ہوتے تھے، ان میں سے تقریباً تین چار سو لوگوں کے نتائج مثبت نکل آتے تھے۔ پھر جب سکول کھل گئے تو سکول والوں نے یا ہسپتالوں میں جو لوگ آئے تو ہسپتال والوں نے ان کے ٹیسٹ کر لئے تاکہ خطرہ نہ ہو، اس دوران 13 ہزار لوگوں کا ٹیسٹ ہوا جن کے پہلے ٹیسٹ نہیں ہوئے تھے، ان میں سے 88 لوگوں کے وائرس مثبت آ گئے۔ اب 13 ہزار میں سے 88 کا عدد کتنا فیصد بنتا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ لیکن انہوں نے ڈرامہ شروع کر دیا کہ اوہ! 88 لوگوں کا کرونا مثبت آ گیا۔ خدا کے بندو! 13 ہزار میں سے 88 لوگوں کا ہی آیا ہے۔ پہلے 20، 22 ہزار میں تین چار سو کا مثبت آتا تھا تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اب 13 ہزار میں سے 88 لوگوں کا آیا ہے تو آپ کو پریشانی ہو گئی۔ حالانکہ 22 ہزار میں 450 اور 33 ہزار میں 750 کا تناسب ایک ہی ہے۔ لیکن شور بہت زیادہ ہو گیا کہ وہ ہو گیا، یہ ہو گیا۔ اصل میں یہ سارا ڈرامہ ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اس سے نقصان نہیں ہوتا۔ نقصان ہوتا ہے لیکن اتنا نہیں جتنا شور مچایا جا رہا ہے۔ ان کا ایجنڈا خوف پھیلانا ہے ہمارا ایجنڈا صرف لوگوں کو بچانا ہے، خوف کے ساتھ انسان کی قوت مدافعت گر جاتی ہے۔ نتیجتاً نقصان زیادہ ہوتا ہے اور جس کی قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے، اس کو بڑی سے بڑی چیز بھی نہیں گرا سکتی۔ لہٰذا قوت مدافعت نہیں گرنی چاہئے۔ میں آپ کو صاف بات بتاؤں کہ یہ ڈرامہ اتنے زبردست طریقے سے کھیلا گیا کہ اس وقت کرونا کے مقابلے میں ٹی بی سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں، ہیپاٹائٹس سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں۔ ان کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور بھی بڑی خطرناک بیماریاں ہیں، ان کا کوئی ذکر نہیں۔ صرف کرونا سے لوگ مر رہے ہیں تو اس کے بارے میں آسمان سر پہ اٹھا لیا گیا۔ اس طرح باقی بیماریوں سے بھی لوگ مرتے ہیں، ابھی حساب کر لیں، گذشتہ سالوں میں جتنے لوگ ایک سال میں مرتے تھے اس سے زیادہ لوگ کرونا میں نہیں مرے۔ گزشتہ سالوں میں دوسری بیماریوں سے مرنے والے لوگوں کو شمار کر لیں تو کسی بھی ملک میں کل تعداد میں جتنے لوگ مرتے تھے، اگر یہ اس دفعہ کی ساری بیماریوں سے مرنے والوں کو ملا کے شمار کر لیں تو کوئی فرق نہیں ہے۔ بلکہ بعض جگہوں پہ کم ہے۔ ہمارے ایک ساتھی نے انگلینڈ کا حساب کیا تو انگلینڈ میں سال 2020 میں مجموعی طور پر ساری بیماریوں سے جو لوگ مرے ہیں وہ کم مرے ہیں۔ لہٰذا یہ خواہ مخواہ ایک ڈرامہ تھا جو ان لوگوں نے رچا لیا۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں بچائے۔ میں نہیں کہتا کہ احتیاط نہیں کرنی چاہئے۔ الحمد للّٰہ اُن دنوں خانقاہ میں بھی لکھ کر لگایا گیا تھا کہ ماسک لگائیں، ہاتھ نہ ملائیں۔ ہمارا SOP's پر عمل ہے۔ الحمد للّٰہ ہم نے احتیاط والا فاصلہ رکھا ہوا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ دہشت نہ پھیلاؤ بلکہ علاج، احتیاط اور طریقے سے کام کرو۔ اس طریقے سے ان شاء اللّٰہ فائدہ ہو گا۔ اللّٰہ پاک نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ نرمی کا معاملہ فرمایا ہے، ہمارے اعمال اس قابل نہیں ہیں لیکن اللّٰہ پاک نے ہم پر فضل فرمایا۔ کچھ لوگوں کی دعاؤں کی برکت ہے جس وجہ سے ہم لوگوں کو نقصان کم ہوا ہے۔ ایک دن میں نے حساب کیا تھا تو (active cases) موجودہ کیسز کے لحاظ سے ہمارا نمبر 214 تھا گویا 213 ممالک ہم سے پہلے ہیں۔ جب کہ کُل 235 کے لگ بھگ ممالک ہیں، ان میں سے 214 واں نمبر ہمارا ہے۔ ہم اتنے نیچے ہیں۔ اس پر اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی حفاظت میں رکھا ہے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ﴾ (ابراهیم: 7)
ترجمہ: ’’ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے نا شکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔
لہٰذا اس پر ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹروں نے کام نہیں کیا، اللّٰہ تعالیٰ ان کو اجر دے۔کام کیا ہے۔ لیکن یہ بچاؤ محض ڈاکٹروں کی وجہ سے نہیں ہے۔ مثلاً یہاں کوئی بیمار ہو جاتا ہے اور اس کا علاج نہیں ہوتا تو کہاں کہاں بھیجتے ہیں؟ امریکہ بھیجتے ہیں، یورپ بھیجتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہاں اب اس کا علاج اب نہیں ہو سکتا۔ کچھ لوگ امریکہ، کچھ انگلینڈ اور کچھ جرمنی چلے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ مانتے ہیں کہ وہاں کے ڈاکٹر زیادہ قابل ہیں۔ حالانکہ وہاں تباہی پھیلی ہوئی تھی اور ان قابل ڈاکٹروں کے ہاتھ میں کنٹرول نہیں تھا، یہاں پر ان سے کم قابل ڈاکٹر ہیں، اور یہ بات ڈاکٹر خود مانتے ہیں کہ یہاں کے ڈاکٹر ان سے کم قابل ہیں۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ نے (ما شاء اللّٰہ) ہمارے ساتھ بہت اچھا معاملہ کیا ہے۔ بہت احسان کا معاملہ کیا ہے۔ لہٰذا اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جب کبھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ اگر ٹھیک ہو گیا تو کہتے ہیں کہ ڈاکٹر نے ٹھیک کر دیا اور اگر مر گیا تو کہتے ہیں کہ (نعوذ باللّٰہ من ذالک) اللّٰہ نے مار دیا۔ خدا کے بندو! صحت بھی اللّٰہ دیتا ہے اور بیماری بھی اللّٰہ دیتا ہے۔ زندگی بھی اللّٰہ دیتا ہے، موت بھی اللّٰہ دیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اللّٰہ کی طرف سے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ اچھی باتیں تو اپنے لئے سمجھو اور بری باتوں کی نسبت اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کر دو؟ یہ غلط طریقہ ہے۔ شکر کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللّٰہ تعالیٰ کے احسان اور فضل کو مان لیں۔ اس وقت تو بالکل کھلی بات ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ بہت ہی کرم کا معاملہ ہے اور بہت ہی احسان کا معاملہ ہے۔ ہماری یہ آواز بڑی مختصر ہے، پتا نہیں کہاں کہاں پہنچے گی۔ لیکن کم از کم کوئی آواز تو ایسی ہونی چاہئے جو حق بتائے۔ جو لوگوں کے سامنے صحیح بات لائے کہ اصل بات کیا ہے۔
بہرحال میں نے یہ بات عرض کی کہ ماہِ صفر کے معاملے میں کوئی بھی یہ نہ کہے کہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، کوئی مہینہ منحوس نہیں ہے، کوئی دن منحوس نہیں ہے۔ ہاں اعمال منحوس یا اچھے ہو سکتے ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔﴾ (الروم: 41)
ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔
چنانچہ لوگوں کے اعمال ان کو خراب بھی کرتے ہیں اور ان کو اچھا بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے اعمال درست کرنے چاہئیں۔ ہمیں کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھنا چاہئے۔ یہ ہندؤوں کے عقیدے ہیں۔ ہمارے بڑے بڑے لوگوں کے کچھ اخلاق ہندوؤں کی طرح ہیں۔ مثلاً جب وہ سفر کرتے ہیں تو زائچہ بنواتے ہیں کہ آج کا سفر کیسا رہے گا۔ آپ لوگوں نے بھی اخباروں میں پڑھا ہو گا، لکھا ہوتا ہے: اس دفعہ کا آپ کا ہفتہ کیسے رہے گا۔ یہ سب ہندوؤں کی باتیں ہیں مسلمانوں کی باتیں نہیں ہیں۔ ایک دفعہ وزارتِ مذہبی امور کے پاس پرویز مشرف کی طرف سے ایک چٹھی آ گئی۔ کسی عامل نے مشرف کو لکھا تھا کہ پاکستان کا جھنڈا منحوس ہے، اس پہ جو چاند ہے یہ ڈوبتا چاند ہے، چڑھتا ہوا چاند نہیں ہے۔ اس کو تبدیل ہونا چاہئے۔ پرویز مشرف نے اس کو وزارتِ مذہبی امور کے پاس بھیجا کہ آپ لوگ اس پہ رائے دیں کہ یہ صحیح کہہ رہا ہے یا غلط کہہ رہا ہے؟ خدا کی شان سیکرٹری صاحب نے مجھے فائل مارک کر دی کہ آپ اس پہ رائے دیں۔ اس پر ساری کہانی لکھی ہوئی تھی۔ میں نے جواب میں تین نکات لکھے۔ پہلا پوائنٹ یہ لکھا کہ جس نے ایسا کہا ہے وہ فلکیات سے بالکل نا واقف ہے۔ کیونکہ ڈوبتے چاند اور چڑھتے چاند کی صورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ ایک مشرق کی طرف ہوتا ہے، ایک مغرب کی طرف ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ لکھی کہ علامہ اقبال ہمارے شاعر مشرق ہیں۔ انہوں نے یہ کہا ہے ؎
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخئ افلاک میں ہے خوار و زَبوں
چنانچہ علامہ اقبال ہمیں کہتا ہے کہ یہ ستارہ شناسی وغیرہ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ تو خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ مثلاً وائرس کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے۔ وہ تو خود بھی کچھ نہیں جانتا۔ وہ تو زندہ نہیں ہے۔ اور ستارہ بھی اس طرح ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے جس طرف لے جاتے ہیں وہ اس طرف چلا جاتا ہے۔ وہ تجھے کیا خبر دے گا؟ تیسری بات میں نے حدیث شریف سے کی۔ میں نے پہلی بات اس لئے حدیث شریف سے نہیں کی کہ اگر حدیث کے بارے میں اس کے ذہن میں کوئی غلط بات آ گئی تو اس کو نقصان ہو گا۔ لہٰذا پہلے منطقی انداز میں بات کی تاکہ ان کا ذہن بن جائے۔ اس کے بعد پھر حدیث شریف بتائی جائے، جس سے وہ فوراً قبول کر لیں گے۔ بہرحال اخیر میں میں نے حدیث شریف کا حوالہ دیا کہ جو ستارہ شناسی وغیرہ اور نجومیوں کی باتوں پہ یقین کرتا ہے، اس کی چالیس دن کی مقبول نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اس لئے ’’آپ کا ہفتہ کیسا رہے گا‘‘ ان چیزوں پہ یقین کرنے سے نقصان ہو گا۔
عورتوں میں یہ چیز بہت زیادہ ہے۔ آج کل فیشنی عورتیں جب ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات کرتی ہیں تو کہتی ہیں آپ کا ستارہ کون سا ہے؟ پہلے لوگ پوچھتے تھے موسم کیسا ہے یا یہ فلاں چیز کیسی ہے؟ اس طرح آج کل پوچھتی ہیں کہ آپ کا ستارہ کون سا ہے؟ حالانکہ ستارے سے کیا بنتا ہے؟ یہ پوچھو کہ آپ کے اعمال کیسے ہیں؟ کیونکہ اچھے اعمال ہوں گے تو اچھے نتیجے آئیں گے، برے اعمال ہوں گے تو برے نتیجے آئیں گے، لیکن آپ ستارے پوچھتی ہیں۔ یہ ستاروں والی باتیں چھوڑو۔ یہ ہندوؤں کی باتیں ہیں۔ ہندوؤں کا طریقہ یہ ہے کہ قدرتی چیزوں میں اللّٰہ نے جو کمال ڈالا ہوتا ہے، یہ ہر کمال کے سامنے جھکتے ہیں۔ مثلاً سورج میں اللّٰہ نے کمال ڈالا ہوا ہے اس سے سب کو روشنی ملتی ہے، گرمی ملتی ہے۔ یہ کمال ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اس کو سجدہ تو نہیں کر سکتے۔ اس طرح اللّٰہ پاک نے کوئی درخت بہت زبردست بنایا ہو تو ظاہر ہے ہم اس کو سجدہ تو نہیں کر سکتے۔ گائے کو اللّٰہ نے پیدا کیا، وہ ہمیں دودھ دیتی ہے، لیکن اس کو کوئی سجدہ تو نہیں کر سکتا۔ اگر آپ نے کچھ کرنا ہے تو جس نے یہ ساری چیزیں بنائی ہیں اس کو سجدہ کرو۔ ایک ہندو شاعر گذرا ہے، ہماری دوسری جماعت کی اردو کی کتاب میں اس کی ایک نظم تھی۔
اللّٰہ کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو ایک نعمت دی ہے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ کا شکر کرو۔ لیکن ہندو ہر اس کمال کی طرف جھکتے ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے۔ ہم کمال دینے والے کے سامنے جھکتے ہیں، جس نے ہر چیز کے اندر کمال پیدا کیا ہے اور وہ ایک ہے۔ لہٰذا ہم اُس ایک کے سامنے جھکتے ہیں۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یعنی تُو کس کس کے سامنے جھکے گا؟ یہ سب کام اللّٰہ تعالیٰ نے کئے ہیں، لہٰذا اللّٰہ کے سامنے جھک جاؤ۔ اللّٰہ تعالیٰ سے سب کچھ لو۔ کیونکہ اللّٰہ جل شانہ ساری چیزوں کو پیدا کرنے والے ہیں، خالق کائنات ہیں۔ سارے لوگوں کا رب ہے، رب العالمین ہے۔ اس نے سب لوگوں کو زندگی دی ہے۔ جیسے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ﴾ (الحدید: 2) اور سب لوگوں کو پھر دنیا سے لے جائیں گے اور حشر میں وہی مالک ہو گا۔ جیسے فرمایا: ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾ (الفاتحہ: 4) سب معاملوں کا فیصلہ اللّٰہ پاک ہی کریں گے۔ جب یہاں کا بھی سب کچھ اللّٰہ کے اختیار میں ہے، وہاں بھی سب کچھ اللّٰہ کے اختیار میں ہے تو پھر اسی کے سامنے جھکنا چاہئے۔ مسلمان کا عقیدہ یہ ہے۔ مسلمان کمال سے انکار نہیں کرتا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سورج کچھ بھی نہیں۔ سورج اللّٰہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس طرح چاند بھی اللّٰہ پاک کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس طرح آسمان بھی ہے زمین بھی ہے۔ جیسے اللّٰہ نے فرمایا:
﴿تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙنِ O الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: 1-2)
ترجمہ: ’’بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی اس لئے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے‘‘۔
لہٰذا یہ سب کچھ اللّٰہ پاک نے بنایا ہے، اس لئے اللّٰہ پاک کی بڑائی بیان کرو، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف جھکو، اللّٰہ تعالیٰ سے مانگو، اللّٰہ تعالیٰ سے لو، اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔ اللّٰہ جل شانہ نے فرمایا:
﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ۔﴾ (غافر: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘۔
یہ بہت بڑا وعدہ ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ جس طرح اللّٰہ جل شانہ نے بیماریاں رکھی ہیں، اس طرح اللّٰہ پاک نے صحت بھی رکھی ہے۔ ’’لِکُلِّ دَآءٍ دَوَآءٌ‘‘ ’’ہر بیماری کی ایک دوا ہے‘‘۔ لیکن جب کسی کا وقت آ جائے تو پھر کوئی دوائی کام نہیں کرتی۔اس کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ (یونس: 49)
ترجمہ: ’’جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو وہ اس سے نہ ایک گھڑی پیچھے جا سکتے ہیں نہ آگے آ سکتے ہیں‘‘۔
جو وقت مقرر ہوتا ہے اس پر وہ چیز آ ہی جاتی ہے، اس کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اللّٰہ پاک نے جو مقرر کر دیا ہے اس کے مطابق ہو گا، اسی کے مطابق مانگو، جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ لہٰذا بیماریوں کا علاج کرنا چاہئے، کیونکہ اللّٰہ پاک نے ہر بیماری کی شفا اتاری ہے اور شفا، شفا کی دکانوں سے ملے گی۔ اللّٰہ پاک نے جہاں جہاں جو چیز رکھی ہے وہاں سے اس کو لو۔ اللّٰہ پاک نے شفا کی دکانوں میں شفا رکھی ہے لیکن شفاء کی دکانوں پر انحصار نہ کرو۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ سے مانگو کہ اللّٰہ شفا تو دینے والا ہے۔ یہاں ایک میجر جنرل ڈاکٹر ہے اس کے رائٹنگ پیڈ پر لکھا ہوا ہے: ’’ھُوَ الشَّافِیْ‘‘ ’’وہ وہی شفا دینے والا ہے‘‘۔ یہ بالکل صحیح سوچ ہے۔ کیونکہ شفا تو اللّٰہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ ہم جو علاج کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسی علاج سے ٹھیک ہو جائیں گے۔ جب اللّٰہ جل شانہ شفا دینا چاہیں گے تو اس چیز میں شفا آ جائے گی۔ ہماری پشتو میں بعض بوڑھیاں کہتی ہیں: ’’خدائے تعالٰی دې د منګی اوبه دارو کړه‘‘۔ ’’اللّٰہ تعالیٰ تیرے لئے گھڑے کا پانی دوائی بنا دے۔ اور ایسے ہو جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ بنا دیتا ہے۔ یہ اللہ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا کام یہ ہے کہ دوائی بھی کرنی ہے، دعا بھی کرنی ہے۔ دوا کے ساتھ دعا بھی ہے اور دعا کے ساتھ دوا بھی ہے۔ اب ہمارا حال یہ ہے کہ جو ہمارا کام ہے وہ ہم کرتے نہیں۔ مثلاً ایک طالب علم ہے جو کسی سکول میں داخل ہے، یا کالج یا یونیورسٹی میں داخل ہے۔ پڑھتا نہیں ہے اور پھر بزرگوں کے پاس جاتا ہے کہ میرے لئے دعا کرو میں پاس ہو جاؤں۔ یہ اس پورے نظام کی توہین ہے۔ اس نظام کی توہین نہیں کرنی چاہئے۔ محنت کر لو اور پھر محنت پہ بھروسہ نہ کرو۔ اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے اللّٰہ پاک سے مانگو۔ یہ دو طریقے ہیں کہ سبب اختیار کر لو اور مسبب الاسباب پر بھروسہ کرو۔
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر
یعنی اللّٰہ پاک اس سے جو کام نکلوانا چاہتا ہے اس کے لئے اس کو سامنے کر لو۔ ہمارے مسلمانوں کا طریقہ یہ تھا اور آپ ﷺ کی سنت بھی یہی ہے۔ آپ ﷺ نے ایک جنگ میں دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ آپ ﷺ سے زیادہ متوکل کوئی بھی نہیں لیکن پھر بھی دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں، لیکن ان پہ بھروسہ نہیں تھا۔ حال یہ تھا کہ مسجد نبوی میں آپ ﷺ کے لئے ایک پہرہ ہوتا تھا۔ ریاض الجنہ میں استوانہ حرس کی جو جگہ ہے وہاں پر پہرہ دار کھڑا ہوتا تھا۔ لیکن جب قرآن پاک میں آیا ﴿وَاللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدہ: 67)
ترجمہ: ’’اور اللہ تمہیں لوگوں (کی سازشوں) سے بچائے گا‘‘۔
اس کے بعد آپ ﷺ نے پہرہ ہٹا دیا کہ جب اللّٰہ پاک نے فرما دیا ہے تو اب مجھے کسی پہرے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہرے پہ پہلے بھی بھروسہ نہیں تھا، صرف حکم کے مطابق پہرہ ہوتا تھا۔ لیکن جب واضح بات آ گئی کہ اب ضرورت نہیں ہے تو پھر ہٹا دیا۔ اس طرح ہمارا بھی یہی عمل ہونا چاہئے۔ ایک صحابی کو آپ ﷺ نے بشارت دی تھی کہ آپ فلاں جنگ میں شرکت کریں گے، اس سے ان کو معلوم ہو گیا تھا کہ میں اس سے پہلے نہیں مر سکتا۔ تو وہ لوگوں کو کہتے تھے کہ مجھے منجنیق میں کافروں کی طرف پھینکو مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم فلاں جنگ میں شریک ہو گے۔ لہٰذا جب تک وہ جنگ نہیں آئے گی میں نہیں مر سکتا۔ اسی طرح ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین بھی ہونا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی سنتِ عادیہ کا پاس بھی رکھنا چاہئے یعنی اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور توہمات سے بچنا چاہئے۔ توہمات وہ لوگ کرتے ہیں جو چیزوں کو مؤثر جانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے ڈرتے ہیں۔ حالانکہ صرف اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے، باقی کا معاملہ اسباب کے حوالے کر لیں۔ اسباب کی طرف دیکھو! موسیٰ علیہ السلام کو اللّٰہ پاک نے حکم دیا کہ عصا کو ڈالو۔ موسیٰ علیہ السلام نے عصا کو زمین پر ڈال دیا، وہ اژدھا بن گیا تو موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے، کیونکہ وہ بالکل قدرتی اژدھا کی طرح تھا، موسیٰ علیہ السلام ڈر کے بھاگنے لگے تو اللّٰہ پاک نے فرمایا ’’لَا تَخَفْ‘‘ ’’ڈرو نہیں‘‘۔ موسٰی علیہ السلام رک گئے۔ پھر فرمایا اس کو پکڑو، اللّٰہ کا حکم تھا لہٰذا جا کر منہ میں ہاتھ ڈال کر اسے پکڑا۔ وہ پھر دوبارہ عصا بن گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اژدھا بنا تھا، اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے پھر عصا بن گیا اور اس سے موسٰی علیہ السلام کا طبعی طور پر ڈرنا کوئی غلط بات نہیں تھی۔ انسان ایسے ہی کرتا، کیونکہ طبعی طور انسان ایسی چیزوں سے ڈرتا ہے، جیسے آگ سے انسان ڈرتا ہے، اس طرح اژدھا سے بھی ڈرے گا، اس طرح شیر سے بھی انسان ڈرے گا، لیکن وہ ڈرنا اسباب کے رخ سے ہو گا، یقین کے رخ سے نہیں ہو گا۔ یقین اللّٰہ تعالیٰ کی بات پر ہو گا۔ چونکہ موسیٰ علیہ السلام کا یقین اللّٰہ کے حکم پر تھا تو وہی اژدھا جس سے پہلے بھاگ رہے تھے پھر فوراً لوٹ کے اس کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اسے پکڑ لیا۔
پیغمبروں کا طریقہ یہی ہے لہٰذا ہمارا طریقہ بھی یہی ہونا چاہئے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی چیز کے بارے میں بتا دیں تو اس کے بعد ہمیں کوئی شک نہیں کرنا چاہئے۔ ایک دفعہ ایک صحابی رسول ﷺ نے عرض کیا کہ میرے بھائی کو پیٹ کی بیماری لاحق ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ۔ پھر دوسری بار آیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ۔ پھر (تیسری بار) آیا اور عرض کیا کہ میں نے پلایا (لیکن فائدہ نہیں ہوا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سچا ہے، اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، چنانچہ اس نے پھر شہد پلایا، تو وہ تندرست ہو گیا۔
الحمد للّٰہ! جرمنی میں مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے۔ مجھے معدے کو صاف کرنا تھا، اس مقصد کے لئے ڈاکٹروں نے مجھے جلاب دیا، اس دوران مجھے فاقہ کرنا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ قہوہ پی سکتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا میں قہوہ میں شہد ڈال سکتا ہوں؟ کہتے ہیں: ہاں ڈال سکتے ہو۔ میں نے کہا بس پھر کوئی پروا نہیں ہے۔ میں قہوے میں شہد ڈالتا تھا اور پیتا تھا اور کھانا وغیرہ کچھ نہیں تھا اور وہ کئی منزلہ ہسپتال تھا، اور میں 24 گھنٹے میں کام کے سلسلے میں بار بار اوپر نیچے آ جا رہا تھا، اور ما شاء اللّٰہ ذرا بھر کمزوری نہیں ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اللّٰہ کے حکم کو مانو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کا یقین چیزوں پر ہو۔ اس لئے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے حکم کو دیکھتے ہیں، جب اللّٰہ تعالیٰ کا حکم بھاگنے کا ہو گا تو ہم بھاگیں گے اور جب اللّٰہ تعالیٰ کا حکم رکنے کا ہو گا تو ہم رک جائیں گے۔ جیسے دجال کے بارے میں حکم ہے کہ دجال سے بھاگو، لہٰذا ہم دجال سے بھاگیں گے، کیوں کہ ایمان بچانا ہے، ایمان بہت عزیز ہے، ہم اس کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ کیونکہ اس ظالم کے پاس نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کی ایسی زبردست چیزیں ہوں گی کی کہ بڑے سے بڑا پہلوان بھی پھسل سکتا ہے۔ جیسے تنکا تو چُلّو بھر پانی میں بہہ جاتا ہے لیکن آبشار کے سامنے ہاتھی بھی نہیں ٹھہرتا۔ اس کے پاس سفلی طاقتیں اتنی زیادہ ہوں گی کہ اس کے سامنے ٹھہرنا بڑا مشکل ہو گا۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ بس اس سے بھاگو۔
ایک دفعہ ہمارے استاذ نے ہم سے پوچھا کہ 100 کیوری کی تابکاری کا اگر source ہو تو تم کیا کرو گے؟ ہم نے کہا کہ shielding وغیرہ کریں گے۔ ہم نے جو طریقے سیکھے تھے وہ بتائے۔ وہ مسکرا رہے تھے۔ جب ہم سب نے اس قسم کی باتیں کیں تو انہوں نے فرمایا: gentleman you will run away from there ’’آپ کو ادھر سے بھاگنا ہو گا، اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘‘۔ 100 کیوری کی تابکاری بہت بڑی چیز ہوتی ہے، تباہی ہے۔ بتائیے اگر سونامی آ جائے تو کیا کرو گے؟ بیلچہ اور کدال لے کے مقابلہ کرو گے؟ نہیں! بلکہ بھاگیں گے۔ بھاگنے کے سوا اور کیا کریں گے؟ دجال خبیث بھی سونامی کی طرح ہے۔ اس لئے اس سے بھاگنا ہے۔ لیکن بھاگنے کے لئے جائے پناہ تو ہونی چاہئے۔ پناہ کی جگہ امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہونا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ﴿فَفِرُّوْۤا اِلَی اللّٰهِ﴾ (الذاریات: 50) یعنی بھاگو دجال سے۔ لیکن کس طرف؟ اللّٰہ کی طرف بھاگو۔ لہٰذا اللّٰہ کی طرف بھاگنے کا مطلب ہے امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہو جاؤ۔ چنانچہ امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہونے کا سلسلہ ہو گا۔ اس وقت ان کی بیعت اتنی زیادہ اہم ہو گی کہ فرمایا؛ بیشک برف کے اوپر پھسل کے بھی جانا پڑے تو پھر بھی جاؤ لیکن ان سے بیعت کر لو۔ ذرا غور کریں کیا سعودی عرب میں برف باری ہوتی ہے؟ (نہیں ہوتی) لیکن اس دفعہ ہوئی ہے، اس دفعہ مدینہ منورہ میں برف باری ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ تیاریاں ہو رہی ہیں، کوئی نظام بن رہا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو اچھی طرح تیاری کرنا ہو گی۔ اور وہ تیاری کیا ہے؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دجال کے ساتھ جو چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو چھڑا لو۔ دجالی چیزوں کے اوپر انحصار نہ کرو۔ دجال کے پاس کیا چیز ہے؟ اچھے اچھے کھانے، تعیش کے سامان، میوزک، اس قسم کی ناچ گانے کی چیزیں ہوں گی۔ تو جو لوگ ان چیزوں کے رسیا ہیں وہ ان کی وجہ سے گرفتار ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا ان چیزوں سے اپنے دل کو کاٹو۔ یہ وقت آنے والا ہے۔ ان چیزوں میں نہ پڑو۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ موبائل تقریباً دجال کا ایک نمونہ بن گیا ہے۔ اس پہ جو اچھی چیزیں ہیں ان میں بھی خطرات ہیں۔ میں خود ایک دفعہ براؤزنگ کر کے تفسیر عثمانی ڈھونڈ رہا تھا تو تفسیر عثمانی مل گئی، لیکن ساتھ ہی دائیں بائیں بہت غلط چیزیں تھیں۔ اب کہاں تفسیر عثمانی، کہاں وہ چیزیں! آدمی کیا کر سکتا ہے۔ کچھ لوگ میرے بیانات کے clips بنا کر اپ لوڈ کر دیتے تھے۔ اب بھی آپ search کریں تو میرے بیانات کے clips نکل آئیں گے۔ چار پانچ clips کے بعد کچھ اور غلط چیزیں بھی ساتھ آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ میں نے ان بنانے والوں سے شکایت کی کہ آپ کم از کم اس کو اچھی جگہ پہ رکھ دیں، یہ آپ نے ایسی جگہ پہ رکھ دی ہیں کہ اس سے نظر غلط چیز کی طرف جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے تو اچھی جگہ پہ ڈالی ہیں، لیکن یہ ظالم ایسے کرتے ہیں کہ جو پروگرام زیادہ چلتے ہیں، لوگ جن کو زیادہ pick کرتے ہیں تو وہ چیزیں وہیں پہنچا دیتے ہیں۔ ان کا طریقۂ کار ہی یہ ہے۔ یہ بات بالکل بات صحیح ہے، ایسے ہی کرتے ہیں۔ یہ دجالی دور ہے۔ جیسے آج کل انسان موبائل میں پھنسا ہوا ہے اور موبائل سے اپنے آپ کو چھڑانا مشکل ہے۔ اسی طرح دجال سے اپنے آپ کو چھڑانا مشکل ہو گا۔ یہ ہمارے پاس ایک مثال ہے۔ اس کے لئے ہمارے پاس بہت روحانی طاقت ہونی چاہئے۔ روحانی طاقت کے لئے (الحمد للّٰہ) ہم نے ’’المنزل الجدید‘‘ کو چھاپا ہے، اس کو مغرب کے بعد باقاعدگی سے پڑھو۔ اس میں جادو ٹونے، دجال سے بچنے کا اور نظر بد وغیرہ کے برے اثرات سے بچنے کا سامان ہے۔ مغرب کے بعد نہ ہو سکے تو عشاء کے بعد پڑھ لیا کرو۔ بہرحال رات کے اندر پڑھ لیا کرو۔ ان شاء اللّٰہ اللّٰہ تعالیٰ حفاظت فرمائیں گے۔
دوسرا کام یہ ہے کہ جہاں پر بھی ہو وہاں کے اہلِ حق سے جڑے رہو۔ کراچی میں ہو تو کراچی کے اہلِ حق کے ساتھ جڑے رہو۔ لاہور میں ہو تو لاہور کے اہلِ حق کے ساتھ جڑے رہو۔ امریکہ میں ہو تو امریکہ کے اہلِ حق کے ساتھ جڑے رہو۔ الغرض کہیں پر بھی ہو اہلِ حق کے ساتھ جڑے رہو۔ اپنا اٹھنا بیٹھنا اہلِ حق کے ساتھ کرو۔ یہ اس وقت کی بہت اہم ضرورت ہے۔ اپنے بچوں کی حفاظت کرو۔ اپنے بچوں کو اس کلچر میں نہ لے جائیں جو خطرناک ہے۔ اب جب بچے انگریزی میں بات کرتے ہیں تو ہم خوش ہوتے ہیں لیکن ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم ان کو کون سے culture میں پھینک رہے ہیں۔ ہمیں احساس ہونا چاہئے۔ قابلیت انگریزی میں نہیں ہے۔ انگریزی ایک زبان ہے، اچھی زبان ہے، بری زبان نہیں ہے۔ لیکن انگریزیت بہت فضول چیز ہے۔
جو آدمی انگریزی جانتا ہو گا اور اردو نہیں جانتا ہو گا تو ظاہر ہے وہ انگریزی میں پڑھے گا، لیکن انگریزی میں اچھے لکھنے والے بہت کم ہیں۔ اب اس کے پاس علم کون سا آئے گا؟ بہت سارے لوگ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ حضرت مجدد الفِ ثانی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ان جیسے ہمارے دیگر بڑے اکابر کی تحریروں سے محروم ہیں، ان کی تحریروں میں ساری چیزیں موجود ہے لیکن وہ محروم ہیں، پڑھ نہیں سکتے، کہتے ہیں یہ مشکل ہیں اور انگریزی کے اخبار پڑھتے ہیں، Dawn, Pakistan times, News week اور پتا نہیں کیا کیا پڑھتے ہیں۔ تو انگریزی اخبارات میں جو زہر ہے سارا وہ لے رہے ہوں گے۔ لہٰذا اگر آپ نے اپنے بچوں کو وہ کلچر دیا جس میں غیر ہماری تربیت کریں گے تو ہم کیسے اپنے بچوں کو بچائیں گے۔ ان کا نظام ہی الگ ہو جائے گا۔ میرے بچے باہر پنجابی اور اردو بولتے تھے جب وہ گھر میں یہ زبانیں بولتے تو میں نے ان کو کہا تھا کہ گھر میں آپ کو پشتو بولنی پڑے گی۔ باہر چاہے جو بھی زبان بولو لیکن گھر میں پشتو بولنی پڑے گی۔ کیونکہ اگر انہوں نے پشتو نہیں سیکھی ہو گی تو اپنے علاقے میں جائیں گے تو کیا کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ ان کو اپنی مادری زبان سکھاؤ، ان کو اردو سکھاؤ اور اگر ہمت ہو تو عربی سکھاؤ۔ یہ زبانیں ان کو سکھاؤ تاکہ ان کو کم از کم اپنی چیزوں کا علم تو ہو، اس کے بعد پھر حوالہ دینے کی ضرورت ہو گی، باقی چیزیں وہ خود ہی کر لیں گے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آپ ان کو سمجھائیں گے تو الٹا وہ آپ کو سمجھائیں گے، وہ کہیں گے کہ فلاں یوں ہے اور فلاں یوں ہے۔ ایک وقت یہ تھا کہ ہم جب پڑھتے تھے تو کہتے تھے الف اللّٰہ، ب بسم اللّٰہ۔ اس کے بعد یہ دور آ گیا کہ یوں پڑھایا جانے لگا: الف انار، ب بوتل۔ اور اب یوں کہتے ہیں: Mummy dancing Father singing. اب بتائیے آج کے بچے کیسے سیکھیں گے؟ اس لئے بچوں کے اوپر بھی محنت کرو، آپ کے بچے بھی تھوڑے سے اسلام کے قریب آ جائیں، اپنے دین کے قریب آ جائیں، اس کے لئے کچھ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ میں ان سے کہتا ہوں: بچوں کی تربیت کے لئے بڑوں کی تربیت پہلے ضروری ہے۔ جب تک بڑوں کی تربیت نہیں ہو گی، بچوں کی تربیت کیسے کریں گے! اب جو لوگ اپنے بچوں کو انگریزی سکھانے پہ فخر محسوس کرتے ہیں اور انگریزی کلچر میں ان کو ڈالتے ہیں تو پھر بعد میں گِلہ کیوں کرتے ہیں؟ خود ہی تو اس آگ میں ڈالا ہے۔ لہٰذا یہ ساری باتیں ہمیں سیکھنی چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ