اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے ہجرت، جہاد، حج اور عمرہ کی نیت سے اسفار کئے ہیں۔ کیا آپ ﷺ یا کسی صحابی رضی اللّٰہ عنہ نے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کے نظاروں کو دیکھنے کے لئے کسی تفریحی مقام کا سفر کیا ہے؟ اس قسم کے اسفار پر جانے سے پہلے کیا تیاری کرنی چاہئے تاکہ قدرتی مناظر اللّٰہ تعالیٰ کی یاد دلائیں؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ آج کل چونکہ ہم لوگ ادھر (ایک روزہ اصلاحی و تربیتی جوڑ کے لئے مری میں) آئے ہیں، شاید اس لئے یہ سوال بھیجا گیا ہے۔ اصل میں کسی بھی چیز کو صحیح طریقے سے برتا نہ جائے، تو وہ فی نفسہ مفید نہیں ہوتی۔ مثلاً: اگر آپ نماز کو صحیح طریقے سے نہ پڑھیں، تو آپ کو اس کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ الٹا نقصان ہو جائے۔ اور اگر آپ تفریح کی جگہ پہ جائیں اور وہاں پر اللّٰہ تعالیٰ کے راضی کرنے والے کام کریں، تو اس سے اللّٰہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو جائیں گے۔ اصل چیز اللّٰہ تعالیٰ کا حکم ماننا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ اللّٰہ پاک نے کس وقت کس چیز کا حکم دیا ہے اور اس چیز کی خاصیت کیا ہے؟ اس چیز کو اسی طریقے سے کام میں لانا چاہئے۔ نماز کی خاصیت یہ ہے کہ نماز بری چیزوں سے روکتی ہے:
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ ؕ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللّٰہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔
گویا نماز کے اندر اصل چیز اللّٰہ کی یاد ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طٰہ: 14)
ترجمہ:’’اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔
لہٰذا اگر مجھے نماز میں اللّٰہ یاد نہیں ہیں اور میرا ذہن دنیا کی چیزوں میں مصروف ہے اور ادھر ادھر پھر رہا ہے، تو اس سے نماز کے فوائد کم ہو رہے ہیں اور اس سے وہ فوائد حاصل نہیں ہو رہے، جو ہونے چاہئیں۔ لیکن اگر مجھے نماز کے اندر اللّٰہ یاد ہے اور میں اللّٰہ کے لئے نماز پڑھ رہا ہوں اور میں اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے پا رہا ہوں کہ جیسے میں اللّٰہ کو دیکھ رہا ہوں، تو ایسی صورت میں وہ نماز مجھے بری باتوں سے اور بے حیائی کے کاموں سے روکنے والی ہو گی۔ گویا نماز کے اندر بھی مجھے اللّٰہ تعالیٰ کی یاد کی ضرورت ہے، ورنہ نماز کی وہ خاصیت نہیں ملے گی۔
جہاں تک تفریحی مقامات کی بات ہے تو اس میں میں یہ بات نہیں کروں گا کہ کس نیت سے جانا چاہئے۔ بہر حال! آپ کسی تفریحی مقام پر کسی بھی وجہ سے چلے گئے ہیں، تو اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں پر کیا ہو سکتا ہے۔ یہ جو تفریحی مقامات ہیں اور دل کو لبھانے والی جو چیزیں ہیں کہ جن میں انسان مشغول ہو جاتا ہے، اگر کسی کو اللّٰہ بنیادی طور پر یاد نہیں ہے یعنی اس نے اتنی محنت نہیں کی ہے کہ اس کو اللّٰہ تعالیٰ ہر صورت میں یاد رہے، تو پھر یہی چیزیں انسان کو اللّٰہ تعالیٰ سے مزید غافل کریں گی۔ پھر لوگ اسی میں مشغول ہو کر اللّٰہ کو بھول جائیں گے۔ جیسے مری میں جو لوگ آتے ہیں، کیا خیال ہے کہ وہ اللّٰہ کو یاد کرتے ہیں؟ خواہ مخواہ فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں کہ آج ہم اخلاقیات سے بھی آزاد ہیں، آج ہم تمام چیزوں سے آزاد ہیں۔ وہ خواہ مخواہ اپنا کباڑہ کر لیتے ہیں، نقصان کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کو واقعی دل میں مضبوطی کے ساتھ اللّٰہ پاک یاد ہو، اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہو، تو جب وہ ان درختوں کو دیکھے گا تو اللّٰہ کو یاد کرے گا، ان پہاڑوں کو دیکھے گا تو اللّٰہ کو یاد کرے گا، اچھے موسم کو دیکھے گا تو اللّٰہ کو یاد کرے گا، پرندوں کے چہچہانے کو سنے گا تو اللّٰہ کو یاد کرے گا۔ گویا کہ اس کو ہر چیز سے اللّٰہ یاد آئے گا۔ شیخ سعدی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک شعر فرمایا ہے جو میرے خیال میں اس موقع کے لئے بہت اچھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
برگ درختان سبز در نظرِ هوشیار
ہر ورقش دفتریست معرفتِ کردگار
ترجمہ: ایک صاحب شعور انسان کے لئے سبز درختوں کا ایک ایک پتا گویا معرفتِ خداوندی کا دفتر ہے۔
واقعتاً اگر ہم دیکھیں تو درختوں کے پتوں کے اندر باریک باریک رگیں ہوتی ہیں، ان رگوں کے ذریعے سے ان کو پانی پہنچتا ہے۔ اور کلوروفل اور سورج کی روشنی مل کر اس سے ما شاء اللّٰہ پھل اور پھول بنتے ہیں۔ یعنی پھل و پھول بننے کا نظام اللّٰہ پاک نے ان پتوں کے اندر پیدا کیا ہوا ہے کہ سورج کی روشنی جب ان کے ساتھ ملتی ہے، تو پھر پھولوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو آدمی عارف ہو گا، وہ اس کو دیکھ کر اللّٰہ کو یاد کرے گا کہ اللّٰہ پاک نے کیسے یہ اتنا بڑا نظام بنایا ہے۔ جیسے اگر ہم کسی شہر میں چلے جائیں اور وہاں دیکھیں کہ حکومت نے ایسا انتظام کیا ہے کہ باریک باریک پائپ ہیں، جو ہر جگہ پر گئے ہوئے ہیں اور ساری ضروریات اس سے پوری ہو رہی ہیں، کہیں پر بھی پانی کی کمی نہیں ہے اور اس کا پورا انتظام ہو رہا ہے، تو ہم کہتے ہیں: واہ جی! کیا زبردست انتظام کیا ہوا ہے۔ ہر جگہ پانی پہنچانے کا پورا انتظام ہے۔ پانی ضائع نہیں ہو رہا۔ اسی طرح اللّٰہ پاک نے ان درختوں کی جڑوں کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ دور دور سے پانی کو کھینچتی ہیں، پھر وہ پانی اس تنے کے ذریعے سے شاخوں میں جاتا ہے اور شاخوں سے پھر پتوں میں جاتا ہے اور پتوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر اوپر سے سورج کی روشنی آتی ہے اور وہ آپس میں مل جاتے ہیں۔ گویا یہ اللّٰہ پاک نے پورا کارخانہ لگایا ہوا ہے۔ اسی طرح ہمارے جو بال ہیں، ان کی افادیت کو دیکھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ہماری آنکھوں کا نظام ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ جب میں آنکھ کا آپریشن کرتا ہوں، تو جب میں آپریشن کے لئے آنکھ کھول لیتا ہوں، تو میں اللّٰہ تعالیٰ کی صناعت کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہوں کہ اللّٰہ پاک نے اس آنکھ کو کیسے انداز سے بنایا ہے۔ صرف ایک آنکھ کے اندر سامنے کی جانب million cones ہیں، اور سائڈوں پر rodes ہیں۔ cones کا کام یہ ہے کہ یہ صحیح تصویر کھینچتی ہیں کہ جس چیز کو جس طرح دیکھنا ہو، وہ اس طرح نظر آ جاتی ہے۔ پھر ان million cones کا ڈیٹا دماغ میں جا کر مل جاتا ہے اور اس سے تصویر بنتی ہے۔ اور راڈز کے ذریعے سے مکمل تصویر نہیں بنتی، صرف موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے مجھے پتا ہے کہ یہاں کچھ ہے، لیکن یہ پتا نہیں کہ کیا ہے۔ جب تک میں اس کو اس طرح نہ دیکھوں، تو مجھے پتا نہیں چلے گا۔ سامنے دیکھنے سے پتا چلتا ہے، اس میں اللّٰہ کی کیا حکمت ہے؟ یہاں آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اس میں بظاہر اللّٰہ پاک کی یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اگر یہ راڈز بھی cones جیسے ہوتے، تو نظر کی حفاظت بڑی مشکل ہوتی، کیونکہ ہر طرف وہ چیزیں نظر آتیں۔ لہٰذا بہت مشکل ہو جاتی۔ اور اگر آپ چہرے کو موڑ کر دیکھتے تو حادثے کا خطرہ تھا یا پھر فتنے میں مبتلا ہو جاتے۔ اسی لئے اللّٰہ پاک نے راڈز ایسے بنائے کہ وہ آپ کو صرف موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ مثلاً: آپ نیچے دیکھ رہے ہوں، تو دائیں بائیں کا علاقہ آپ کے راڈز ہیں۔ ان سے موجودگی کا احساس ہوتا ہے کہ کوئی آ رہا ہے۔ کون آ رہا ہے؟ کیا آ رہا ہے؟ کس طرح ہے؟ یہ پتا نہیں چل رہا ہوتا۔ اس کو غضِّ بصر کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں کسی بھی فتنے سے بچنے کے لئے غضِّ بصر کا حکم ہے اور یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کو ہے۔ لیکن اگر اللّٰہ پاک اس کے لئے یہ سہولت مہیا نہ فرماتے، تو کیسے اس پر عمل ہوتا؟ لہٰذا اللّٰہ پاک نے سہولت عطا فرما کر ہمیں اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا تفریح کے مقامات میں شکر کے جو لمحات ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس پر اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اے اللّٰہ! تو نے اتنا پیارا موسم بنایا ہوا ہے اور ہمارے لئے راحت کا سامان بنایا ہوا ہے، اے اللّٰہ! تیرا بہت شکر ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جیسے روزہ دار کو اجر ملتا ہے، اسی طرح کھانا کھا کر شکر کرنے والے کو بھی اجر ملتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی انسان کسی سخت تکلیف میں ہے یعنی ایسے موسم میں ہے کہ جس میں اس کا پسینہ بہہ رہا ہے اور وہ مختلف کام کر رہا ہے اور اس میں صبر کرتا ہے، تو اس کو اس پر اجر مل رہا ہے۔ اس کے بر عکس ہم یہاں پر ہیں، جہاں راحت کا سامان ہے، موسم اچھا ہے اور ہم تفریح کر رہے ہیں، اس پر اگر ہم شکر کریں، تو ہمیں بھی اجر ملے گا، لیکن اگر ہم یہاں شکر نہ کریں یا وہاں صبر نہ کریں، تو پھر مسئلہ ہے۔ بس یہی طریقہ ہے کہ اگر ان تفریحی مقامات پر جائیں، تو سب سے پہلے تو شکر کریں۔ شکر کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس نے وہ چیز دی ہے، اس کے ممنون اور احسان مند ہوں، اور اس کی بات مانیں اور جس مقصد کے لئے وہ چیز دی ہے، اس مقصد کے لئے اس کو استعمال کریں۔ خدا نخواستہ اگر یہاں کوئی فتنے کی چیزیں ہیں، تو ان سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اپنی نظر کی حفاظت کریں اور استغفار کریں۔ اور جن اچھی چیزوں کو دیکھ کے اللّٰہ یاد آتے ہیں، تو اللّٰہ کو یاد کریں اور جن چیزوں سے اللّٰہ نے منع کیا ہے، ان سے باز رہیں۔ بعض ظالم اور شاعر قسم کے لوگ عجیب و غریب قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح یہ حسین مناظر ہیں، اسی طرح وہ (نامحرم) بھی تو حسین چیزیں ہیں، ان کو دیکھنے سے بھی اللّٰہ یاد آئیں گے۔ نہیں! اللّٰہ یاد آئیں گے، لیکن شیطان کے طریقے سے۔ یہ شیطان آپ کو دکھا رہا ہے، کیونکہ بات تو آپ نے شیطان کی مانی ہے۔ اللّٰہ کی بات تو آپ نے نہیں مانی۔ جب آپ نے اللّٰہ کی بات نہیں مانی، تو یہ جرم ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو ان چیزوں سے محفوظ رکھیں۔ یہاں جو ہمارے اسفار اور ہمارے جوڑ ہوتے ہیں، ان میں ہماری واحد نیت یہ ہوتی ہے کہ ایسے ماحول، جن میں غفلت ہے، ان میں اللّٰہ کی یاد کو پیدا کیا جائے گا۔ جیسے جو لوگ یہاں(ایک روزہ اصلاحی و تربیتی جوڑ میں) آئے ہوئے ہیں، وہ مسجد میں آ کر بیٹھیں، اللّٰہ کو یاد کریں، ذکر کریں، جس کے ذریعے سے ان کو اللّٰہ پاک یاد ہو جائیں، تو ما شاء اللّٰہ وہ ان تمام چیزوں کے نقصانات سے بچ جائیں گے، جو ارد گرد ہو رہی ہیں اور اللّٰہ کا شکر کرنے کی توفیق ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو جتنا زیادہ اس دلدل میں پھنسیں گے اور پھنستے چلے جائیں گے، تو وہی حالت ہو جائے گی جو 2008 کے زلزلے میں ہوئی تھی۔ کیونکہ اس زلزلے سے زیادہ تر وہ علاقے تباہ ہوئے تھے، جو پکنک کے مقامات تھے۔ حتیٰ کہ انہی دنوں میں بلوچستان کے علاقے زیارت میں جو زلزلہ آیا تھا، وہ بھی وہاں کے پکنک کے مقامات میں آیا تھا اور اس نے وہاں تباہی مچائی۔ لہٰذا ایسے بھی ہو سکتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سب کچھ کر سکتا ہے۔ یقیناً پہاڑ ہمارے لئے اللّٰہ کی بہت بڑی نعمت ہیں، لیکن اگر زلزلہ آ جائے اور ایک دفعہ ھل جائے اور لینڈ سلائیڈنگ ہو جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو کشمیر میں ہوا تھا کہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے پہاڑ تھا، تھوڑی دیر بعد دیکھا، تو کچھ بھی نہیں تھا۔ سب کچھ دریا میں گرا ہوا تھا۔ یہ ہم نے خود وہاں دیکھا تھا کہ پورے کے پورے پلازے smash پڑے ہوئے تھے۔ اور پھر اللّٰہ پاک نے ایک چیز بھی دکھائی کہ جب ہم بالاکوٹ گئے تھے، تو وہاں دیکھا کہ مکانات، مساجد سب ملیا میٹ ہو چکے تھے، مگر درمیان میں ایک پلازہ کھڑا تھا جو بالکل بچا ہوا تھا۔ ہم خود اس کی پتلی پتلی سیڑیوں پر چڑھے اور ہم نے اسے ادھر ادھر سے دیکھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا۔ ہم حیران ہوئے کہ یہ کیا بات ہے۔ بعد میں پتا چلا وہ کسی ایسے صاحب کا تھا، جس کا یہ مستقل اصول تھا کہ اس میں سے کوئی دکان کسی ایسے شخص کو نہیں دیتا تھا، جو داڑھی مونڈھنے والا ہو یا ٹیپ ریکارڈر چلانے والا ہو یا گانے سنانے والا ہو۔ اور اپنے مال سے کچھ پیسے مختص کر کے غریب لوگوں کو دیا کرتا تھا۔ اللّٰہ پاک نے اس کے پلازے کو سب کے سامنے اس طرح کھڑے ہی رکھا، اس کو نقصان نہیں ہوا، باقی سب تباہ ہو چکے تھے۔ حالانکہ زلزلہ تو ادھر بھی آیا تھا۔ لہٰذا اللّٰہ پاک کبھی کبھی یہ چیز بھی دکھا دیتے ہیں اور ہم نے وہاں دیکھا۔ رات کے وقت جب ہم بالاکوٹ کے رستے سے مانسہرہ کی طرف آ رہے تھے، تو ہم نے دیکھا کہ کوئی جگہ بچی ہوئی ہے، کوئی گری ہوئی ہے۔ درمیان میں اس قسم کی چیزیں نظر آ رہی تھیں۔
بہر حال! اللّٰہ نہ کرے، اگر ہم نافرمانی کی طرف چلے گئے اور درمیان میں اگر کوئی ناگہانی فیصلہ آ گیا، تو پھر بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اس لئے کہتے ہیں کہ ہر وقت کو آخری وقت سمجھیں کہ پتا نہیں، کس وقت کیا ہو جائے۔ اگر میری ابھی موت آ گئی، تو ایسی صورت میں میں اللّٰہ کے ساتھ کس حالت میں ملوں گا۔ اکثر شادی بیاہ کی محفلوں میں بسّوں میں لوگ جاتے ہیں، تو بڑے مست ہوتے ہیں، ناچتے ہیں، کوئی کیا کرتا ہے، کوئی کیا کرتا ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔ پھر اچانک حادثہ ہو جاتا ہے، تو کبھی پندرہ لوگ مر جاتے ہیں اور کبھی بیس لوگ مر جاتے ہیں۔ جو بچ جاتے ہیں، وہ بھی باقی زندگی کے لئے بے کار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اچانک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں ایسے حالات میں اپنے آپ کو بچانے کا بند و بست کرنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ