حسد
حاسد کو لمحہ بھر نہیں راحت جہان میں
رنجِ حسد ہے جان ہے جب تک کہ جان میں
جو دل کہ معترض ہوا تقسیمِ رب پہ ہے
آنکھ اس کی اک آفت ہے ہر گھڑی ہر آن میں
اے کاش خزانوں پہ رب کے اس کی ہو نظر
اِس سے ہو کامیاب یاں کے امتحان میں
حاسد نے حسد میں اپنا خرمن جلا دیا
یہ تو وہی ہے خُو جو رہی ہے شیطان میں
اے کاش ہم ان تین کو کریں ٹھیک اے شبیر
نفس و عقل اور قلب جو ہیں ہر انسان میں
کلام: حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل دامت برکاتہم
کتاب: نورِ معرفت