تعلیمات مجددیہ درس 14

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ نے ان تعلیمات میں اگرچہ اپنے دور کے لحاظ سے بہت اہم باتیں کی ہیں، لیکن حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہزار سالوں کے مجدد ہیں اس لئے اگلے ہزار سال میں حضرت کا فیض جاری رہے گا اور ہم لوگوں کو حضرت کی تعلیمات سے فائدہ ہوتا رہے گا۔
حضرت نے سب سے زیادہ زور عقائد اور اعمال کی درستگی پر دیا ہے۔ تصوف عقائد اور اعمال ہی کو درست کرنے کا نظام ہے۔ یہ ایک ذریعہ ہے مقصد نہیں ہے۔ اسی لئے اگر کسی شخص کے عقائد درست اور اعمال صحیح ہیں تو اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، جیسے اگر ایک شخص صحت مند ہے تو اس کو ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر آدمی صحت مند نہیں ہے، تو پھر اسے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
تصوف اور میڈیکل سائنس میں ایک فرق ہے۔ عام میڈیکل سائنس میں اکثر لوگ ابتداءً صحت مند پیدا ہوتے ہیں، بیماری بعد میں لگتی ہے، تب انہیں علاج کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن روحانیت کے معاملہ میں یوں ہے کہ اس میں انسان پیدا ہی نفس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب تک نفس کی تربیت نہ ہو تب تک نفس نفسِ امّارہ (برائی کا حکم دینے والا) بنا رہتا ہے۔ یعنی برائی پہ لگانے والا نفس ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نفس کا علاج لازمی ہے۔
اس بارے میں قرآن پاک میں اتنا واضح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کی سمجھ میں کمی ہو تو اسے (نہ سمجھنے کی وجہ) سے نقصان ہو گا اور وہ یہ کہ، اللہ پاک نے سورۃ الشمس کے اندر سات قسمیں کھا کر اعلان کیا ہے: ﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ میں نے اس نفس کے اندر دو چیزوں کو الہام کیا ہے۔ ایک اس کا فجور، دوسرا اس کا تقوی۔
انسان کے اندر فجور By default (پیدائشی طور پر) موجود ہیں، تقویٰ کو پیدا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کائنات کے اندر اندھیرا By default ہے اور روشنی کے لئے سورج، چاند، ستارہ یا روشنی کے اور کسی ذریعہ کا ہونا ضروری ہے۔ By default اندھیرا ہی ہے۔ اسی طرح نفس امارہ By default برائی کی طرف لے جانے والا نفس ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:
﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ﴾ (یوسف: 53)
ترجمہ: ”اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے“۔
انسان نفسِ اَمّارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت قرآن پاک میں سورۃ الشمس کی دو آیتوں میں ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو رذائل سے پاک کر لیا، وہ شخص کامیاب ہو گیا، اور شخص جس نے اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیا، اسے وہ سب کرنے دیا جو وہ کرنا چاہتا تھا، وہ برباد ہو گیا۔
اس کی تشریح حدیث شریف میں یوں آئی ہے: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”عقل مند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کر لیا اور آخرت کے لئے کام کیا۔ اور بے وقوف ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو چھوڑ دیا، جو وہ کرنا چاہتا تھا اسے کرنے دیا۔ پھر ویسے ہی اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرتا رہا“۔
معلوم ہوا کہ نفس By default (پیدائشی طور پر) نفس امارہ ہے، اسے نفسِ مطمئنہ بنانا پڑے گا۔ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ جیسے پانی ڈھلوان کی طرف خود بخود جاتا ہے، لیکن اوپر لے جانے کے لئے محنت کرنی ہوتی ہے۔ ڈیم یہی کام کرتے ہیں، ڈیم میں بہت سارے پانی کو روک دیا جاتا ہے، خدا نخواستہ اگر وہ ڈیم ٹوٹ جائے تو پانی یک دم نیچے جائے گا اور اس کے سامنے جو آئے گا اسے تباہ کر دے گا۔ اسی طرح نفس کو برائی سے روکنا پڑے گا، اگر نفس کو چھوڑ دیا تو تباہی آئے گی۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ جس کا مفہوم یہ ہے کہ یقیناً تباہ و برباد ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا“۔
انسان نفسِ اَمّارہ اور شیطان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ ہر شخص کے ساتھ، جب وہ پیدا ہوتا ہے، ایک شیطان بھی پیدا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شیطان وسوسہ ڈالنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا، جب کہ نفس انسان کو کسی بھی کام پر مجبور کر سکتا ہے، کیونکہ نفس انسان کے ساتھ ہر وقت ہے، اور نفس کچھ جانتا سمجھتا بھی نہیں ہے، وہ صرف اپنی خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اگر نفس کی اصلاح ہو جائے تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا، کیونکہ شیطان وسوسہ نفس کے ذریعے ہی ڈالتا ہے۔ بنیادی طور پر تصوف، اسی نفس امارہ کے علاج اور شیطان سے مقابلہ کے لئے، ایک انتہائی اہم اور ضروری ذریعہ ہے، اگر ہم اس ذریعہ کو استعمال نہیں کریں گے تو ہمارا نفس ہمیں تباہ و برباد کر دے گا۔
جیسا کہ ہم سب کو علم ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے دین کے ہر شعبے کی اصلاح کی کوشش فرمائی، تو تصوف جو کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا میدان تھا اس کی اصلاح کی کوشش کیوں نہ فرماتے۔ پس غلط تصوف اور کج رو صوفیوں کی اصلاح کی بھر پور کوشش فرمائی جیسا کہ دفتر اول مکتوب نمبر 207 میں صراحتاً ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
شریعت کے خلاف وجد و حال اور کشف و الہام معتبر نہیں۔
صوفیوں کی ترہات (سکر و مستی کی حالت میں جو خلاف شرع باتیں سرزد ہوتی ہیں) ان سے کیا حاصل ہوتا ہے اور ان کے احوال سے کیا اضافہ ہوتا ہے وہاں وجد و حال کو جب تک شریعت کی میزان پر نہ تول لیں، نیم جیتل (آدھا پیسہ) کے عوض بھی نہیں خریدتے، اور کشف و الہام کو جب تک کتاب و سنت کی کسوٹی پر نہ پرکھ لیں نیم جو کے بدلے میں بھی قبول نہیں کرتے۔ صوفیائے کرام رحمہم اللہ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ مُعْتَقَداتِ شرعیّہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکامِ فِقْہِیہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے کیونکہ رویتِ باری تعالیٰ کے آخرت میں ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ دنیا میں ہرگز واقع نہیں ہو گی۔ وہ مشاہدات و تجلیات جن کے ساتھ صوفیہ خوش ہوتے ہیں وہ صرف ظِلال سے آرام پانا اور شبہ و مثال سے تسلی حاصل کرنا ہے کیونکہ حق تعالیٰ ان سب سے وراء الوراء ہے۔ عجب کاروبار ہے کہ اگر ان مشاہدات و تجلیات کی حقیقت پوری طرح بیان کر دی جائے تو اس بات کا خوف ہے کہ اس راستے کے مبتدیوں کی طلب میں فتور اور ان کے شوق میں قصور واقع ہو جائے گا اور ساتھ ہی اس بات کا بھی ڈر ہے کہ اگر علم کے باوجود کچھ بھی نہ کہا جائے تو حق باطل کے ساتھ ملا رہے گا“۔
تشریح:
یہاں حضرت نے کچھ ضمنی اثرات (Side effects) کے بارے میں بات کی ہے۔ ہر دوائی کا ایک سائیڈ ایفیکٹ ہوتا ہے، جو ڈاکٹر کو پتا ہوتا ہے۔ ممکن ہے مریض اس سائیڈ ایفیکٹ کو حقیقی اثر سمجھ لے جیسے ایک وقت میں Corex D کھانسی کا ایک شربت تھا، اس میں خاص قسم کا نشہ ہوتا تھا جس سے سرور آتا تھا، نشئی لوگ با قاعدہ اس کو نشے کے لئے پیتے تھے، وہ اتنا زیادہ استعمال ہونے لگا کہ حکومت کو اس پر پابندی لگانی پڑی۔ اس شربت میں جو نشہ تھا وہ ایک سائیڈ ایفیکٹ تھا، تھوڑی دیر کے لئے ہوتا تھا، اگر صرف دوائی کے طور ایک چمچ یا دو چمچ (جتنی اس کی خوراک تھی) اتنا لیتے تو وہ نشہ دو تین گھنٹے میں ختم ہو جاتا اور اس کا اصل اثر (کھانسی کو ٹھیک کرنا) باقی رہ جاتا تھا، اس کا فائدہ ہوتا اور نشہ کا اثر ختم ہو جاتا تھا، اتنی خوراک میں کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن اگر کوئی ایک دو چمچ کی جگہ دس بارہ چمچ چڑھا لے، تاکہ اس کو نشہ آ جائے، تو اس کو اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ وہ دوائی ہے، اور کسی بھی علاج کی دوائی کو اگر آپ زیادہ مقدار میں استعمال کریں تو وہ زہر بن جاتا ہے کیونکہ یہ drug ہے۔ اس لئے سائیڈ ایفیکٹ کو سائیڈ ایفیکٹ ہی سمجھنا چاہیے۔
حضرت نے یہی ارشاد فرمایا کہ صوفیوں کی ایسی وجد و حال وغیرہ کی باتیں سائیڈ ایفیکٹ ہیں۔ مثلاً آپ نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کے اشعار سن لئے تو اس کا حقیقی اثر (main effect) یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا ہو جائے، آپ شریعت پر عمل کرنے لگیں، حضور ﷺ کے طریقہ پر چلنے لگیں۔ کیونکہ یہی اس کا حقیقی اثر (main effect) اور مطلوبہ اثر (required effect) ہے، لیکن اگر آپ کو اس میں مستی آ جائے، آپ اچھلنا کودنا شروع کر دیں، چیخیں مارنا شروع کر دیں تو یہ مطلوب نہیں ہے، ہاں ایسا آدمی معذور کہلاتا ہے جیسے نشہ کی دوا لینے سے جو نشہ ہوتا ہے اس میں آدمی معذور ہوتا ہے۔
اگر میرے سامنے مجلس میں ایسا کوئی آدمی بیٹھا اونگھ رہا ہو اور مجھے پتا ہو کہ اس نے دوائی لی ہے تو میں اس کو کہتا ہوں نیچے بیسمنٹ جا کر سو جاؤ۔ کیونکہ اس وقت نیند کا آنا اس بے چارے کے اپنے بس میں نہیں ہے۔ اگر خواہ مخواہ اس کو اپنے سامنے بٹھاؤں گا تو وہ میری خاطر بیٹھ تو جائے گا لیکن اس کا مقصد حاصل نہیں ہو گا، اس لیے ایسے آدمی کو نیچے بیسمنٹ سونے کے لیے بھیج دیتا ہوں، یہاں اس لئے نہیں بیٹھنے دیتا کہ باقی لوگوں پہ اثر ہو گا۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھنے والے کو سونے کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ اس کا اثر ڈرائیور پر بھی ہوتا ہے۔ اگر دو آدمی پڑھائی کر رہے ہیں، ایک کو نیند آ جائے تو دوسرا پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے گا، اس کو بھی نیند آنے لگے گی۔
اسی طرح یہ احوال وغیرہ مجبوری ہوتی ہے، یہ منفی اثرات ہوتے ہیں۔ اچھل کود، وجد و حال وغیرہ یہ مجبوری بھی ہے، عذر و معذوری بھی ہے، مگر مقصود نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی اسی کو بنیاد سمجھ لے تو وہ مقصود سے ہٹ گیا۔ جیسے ہمارے بعض علاقوں میں یہ سیفی لوگ چیختے چلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں شاید بہت بڑا کام ہو گیا، میں ولی اللہ بن گیا۔ کیا چیخنے سے ولی اللہ بنتے ہیں؟
دیکھیں بات بالکل واضح ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالْعَصْرِۙ O اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍۙ O اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۠﴾ (العصر: 1-3)
ترجمہ: ”زمانے کی قسم! انسان در حقیقت بڑے گھاٹے میں ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں“۔
امام شافعی رحمة اللہ علیه نے فرمایا: اگر صرف یہ سورت نازل ہوتی باقی قرآن نازل نہ ہوتا تو یہی ہدایت کے لئے کافی تھی۔
اللہ پاک فرماتے ہیں: زمانے کی قسم بے شک انسان خسارے میں ہے مگر جو لوگ چار کام کرنے والے ہیں وہ خسارے سے بچے ہوئے ہیں۔ (1) ایمان لانے والے۔ (2) نیک عمل کرنے والے۔ (3) حق کی تلقین کرنے والے۔ (4) صبر کی تلقین کرنے والے۔
بس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ تلقینِ حق میں تبلیغ آ گئی اور تلقینِ صبر میں مشقت برداشت کرنا آ گیا۔ باقی اعمال آپ نے ایمان کے زور پر کرنے ہیں۔ اگر یہ چار چیزیں ہیں، تو خسارے سے بچا ہوا ہے۔
اب بتائیں اس میں اچھل کود کہاں ہے؟ جو چیخیں مار رہا ہے اس کو کہاں کی کامیابی حاصل ہے؟ کیا ان چار چیزوں میں وہ چیخ و پکار شامل ہے؟ قطعاً نہیں ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں: پچاس ہزار سال ولی اللہ محنت کرتے ہیں تب ان کو یہ حاصل ہوتا ہے جو ہمیں حاصل ہے۔ سیفی لوگ اپنے آپ کو نقشبندی کہتے ہیں جب کہ نقشبندیوں کے امام حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه ہیں اور یہ ہم انہی کی تعلیمات پڑھ رہے ہیں، اب ہم اِن کی مان لیں یا اُن کی مانیں!
ایک صاحب یہاں آئے تھے اور یہاں بیٹھے بیٹھے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اچھل رہے تھے۔ میں نے ساتھیوں کو کہا: اس کی طرف ذرہ بھر بھی نہ دیکھیں۔ جتنا دیکھو گے، اس کو مزید مستی ہو گی، سمجھے گا شاید میں کچھ ہوں۔ بس آپ اپنا کام کئے جائیں، اس کی کچھ پروا نہ کریں۔ یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گا.
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’صوفیوں کی ترہات (سکر و مستی کی حالت میں جو خلاف شرع باتیں سرزد ہوتی ہیں) سے کیا حاصل ہوتا ہے اور اس سے احوال میں کیا اضافہ ہوتا ہے۔ وجد و حال کو جب تک شریعت کی میزان پر نہ تول لیں، یہ آدھے پیسہ کے بھی نہیں ہیں اور کشف و الہام کو جب تک کتاب و سنت کی کسوٹی پر نہ پرکھ لیں نیم جو کے بدلے میں بھی نہیں لیتے‘‘۔
کیونکہ صوفیائے کرام کے طریقے پر چلنے سے صرف ایک ہی مقصود ہے اور وہ یہ ہے کہ جو شریعت کے عقائد ہیں جو ایمان کی حقیقت ہے اس پر زیادہ یقین حاصل ہو جائے، پکا ہو جائے اور احکام فقہیہ پر عمل کرنے میں آسانی میسر ہو جائے، نماز کے لئے آسانی ہو جائے، روزے کے لئے آسانی ہو جائے، زکوۃ کے لئے آسانی ہو جائے، حج کے لئے آسانی ہو جائے، معاملات صحیح کرنے کے لئے آسانی ہو جائے، معاشرت شریعت کے مطابق کرنے کے لئے آسانی ہو جائے، اچھے اخلاق حاصل کرنا آسان ہو جائے یہ چیزیں بنیادی باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی مقصود نہیں۔ اور اگر کوئی کہہ دے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا کے بندو دیدارِ الٰہی وہاں پر ہو گا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے کشف میں کچھ نظر آ گیا۔ بھئی یہ کیا بات ہے؟ اصل چیز اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے، وہ آخرت میں ہو گا۔ یہاں نہیں ہو گا اور جب یہاں نہیں ہو گا تو پھر آپ انہی چیزوں پر رہیں جن کا حکم ہے، اس سے زیادہ نہ اُڑیں۔ یہ اڑان بے فائدہ ہے، اس کے لئے خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کر رہے ہو۔
پھر حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں: عجیب بات ہے، اگر ہم سچ بات کرتے ہیں تو جو لوگ شوق میں آ کر کچھ نہ کچھ کرتے ہیں ان پہ اثر پڑ سکتا ہے اور ممکن ہے ان کا شوق ختم ہو جائے۔ حضرت نے فرمایا:
متن:
عجیب کاروبار ہے کہ اگر ان مشاہدات و تجلیات کی حقیقت پوری طرح بیان کر دی جائے تو اس بات کا خوف ہے کہ اس راستے کے مبتدیوں یعنی جو شروع کرنے والے ہیں ان کی طلب میں فتور اور ان کے شوق میں قصور واقع ہو جائے گا۔ اگر ہم صحیح بات نہ بتائیں تو حق اور باطل آپس میں مل جائے گا، فرق نہیں رہے گا
تشریح:
اس لئے اگر شروع شروع میں کسی کے اس قسم کے خیالات ہیں تو برداشت کرو، ابھی ان میں رہنے دو۔ جلدی نہ روکو، لیکن جس وقت اس حالت سے تھوڑا سا باہر آ جائے اور سمجھ دار ہو جائے، پھر ان کو بتاؤ یہ اصل چیزیں نہیں ہیں، تاکہ اس کے اندر ہی مگن نہ رہے۔ اس صورت میں دونوں پر عمل ہو جائے گا، شوق میں بھی کمی نہیں آئے گی، وہ شوق تو ابتدا کے لئے ضروری ہے۔ فی الحال ابتدا میں اسے ایسے رہنے دو لیکن جس وقت قابو آ جائے، سمجھ دار ہو جائے پھر ان کو بتاؤ اور سمجھاؤ کہ ان چیزوں میں کچھ نہیں رکھا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اصل کام شریعت پر حضور ﷺ کے طریقہ کے مطابق عمل کرنا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام غلط طریقوں کی غلطیاں واضح فرمائیں جو اس وقت تصوف کے نام پر مستعمل تھیں جن میں خلافِ سنت مجاہدے اور غیر مشروع ریاضتیں تھیں جیسا کہ دفتر اول مکتوب نمبر 221 میں ارشاد فرمایا ہے:
متن:
جاننا چاہیے کہ پیر وہ ہے جو مرید کو حق سبحان اللہ وتعالیٰ کی طرف رہنمائی کرے اور یہ معنی تعلیمِ طریقت میں زیادہ ملحوظ اور واضح ہیں، کیونکہ پیرِ تعلیم شریعت کا بھی استاد ہے اور طریقت کا بھی رہنما ہے، بخلاف پیرِ خرقہ کے۔
تشریح:
سجادہ نشین قسم کے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ باپ پیر ہے تو بیٹا ویسے ہی پیر بن جاتا ہے، خواہ اس کی تربیت ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
میں آپ کو دو واقعات سناتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ بگاڑ کس طرح آتا ہے۔
ایک بزرگ جہانگیرہ تشریف لائے تھے اور میرے والد صاحب نے انہیں دعوت دی کہ ہمارے ہاں بھی تشریف لائیں۔ غلطی یہ ہوئی کہ میرے کزن کا سکول کا ایک گروپ فوٹو سامنے انگیٹھی پہ پڑا ہوا تھا۔ غالبًا والد صاحب کو پتا نہیں تھا۔ جب حضرت تشریف لائے اور اندر بیٹھک میں داخل ہوئے، جوں ہی سامنے تصویر پہ نظر پڑی، فوراً بیٹھک سے واپس باہر نکل گئے اور جہانگیرہ ہی کے ایک اور مرید کے ہاں چلے گئے۔ والد صاحب کو بہت تکلیف ہوئی، لیکن کیا کر سکتے تھے جو ہونا تھا ہو گیا۔
بعد میں انہی بزرگ کا بیٹا ان کا جانشین ہو گیا جو کہ خود عالم بھی تھا، سیرت النبی ﷺ پر ایک کتاب لکھی جو مقابلہ میں پیش کی گئی اور اس نے مقابلہ کا امتحان جیت لیا۔ نواز شریف کا دور تھا، نواز شریف نے ان کو اس کا انعام، شیلڈ، سرٹیفیکیٹ وغیرہ دینے کے لئے تقریب میں بلایا۔ وہاں ان دونوں کی تصویر لی گئی، وہ تصویر اس نے enlarge (بڑی) کروا کے خانقاہ میں لگا دی۔ غور کریں صرف ایک نسل کا فرق ہے، ان کے والد صاحب اس سے دس گنا چھوٹے گروپ فوٹو کی تصویر کی وجہ سے گھر سے باہر تشریف لے گئے، اور ان کے بیٹے نے اس سے دس گنا بڑی تصویر اپنے والد صاحب کی خانقاہ میں لگا دی۔ کیا وہ پیر اپنے والد کی طرح ہو گا؟ کیا اس کے ساتھ وہ چیز ہو گی؟ بالکل نہیں ہو گی۔
ایک اور بڑے بزرگ کا واقعہ ہے، نام نہیں لیتا کیونکہ وہ کافی مشہور ہیں، خواہ مخواہ ایک سیاسی گفتگو بن جائے گی۔ میں ان کے ہاں گیا، ہمارے اِس کمرے سے نسبتاً چھوٹا کمرہ ہو گا، اس میں ان کے ساتھ مریدین بیٹھے ہوئے تھے، بڑے بڑے لوگ تھے، بڑے بڑے افسر تھے، چھالیہ صاف ہو رہی تھی، اور باتیں ایسے ہو رہی تھیں جیسے MNA کا یا MPA کا دفتر ہو، کہ فلاں کو فلاں جگہ لے جائیں، فلاں کو فلاں جگہ تبادلہ کر دو۔ اس قسم کی باتیں ہو رہی تھیں۔ نہ کسی سے ذکر سنا، نہ کسی کو ذکر تلقین کیا، نہ کسی کو کوئی قرآن کی بات بتائی، نہ کسی کو حدیث کی بات بتائی، نہ کسی سے پوچھا کہ کیا کرتے ہو؟ ساری باتیں دنیاوی ہو رہی تھیں۔ کیا یہی پیری مریدی ہے؟ اس طرح خانقاہیں تباہ ہو جاتی ہیں، نام رہ جاتا ہے کام نہیں رہتا۔
ایک صاحب یہاں اسلام آباد میں ڈانس کر رہے تھے جو دو خانقاہوں کے پیر صاحب ہیں اور سجادہ نشین ہیں۔ اس کو کس نے شیخ بنایا ہے؟ صرف خاندانی آدمی ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، نہ خود عمل کرتے ہیں نہ دوسروں کو عمل کے بارے میں کچھ کہتے ہیں۔ صرف نذرانے وصول کرنے کے لئے بیٹھے ہوں گے۔ یہی اصل میں تباہی ہے، اسی نے تصوف کو بد نام کیا ہوا ہے۔
متن:
اور طریقت کا بھی رہنما ہے، بخلاف پیرِ خرقہ کے۔ لہذا پیرِ تعلیم کے آداب کی رعایت کو بہت زیادہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور پیر بننے اور کہلانے کا زیادہ مستحق یہی ہے اور اس طریق میں نفسِ امارہ کے ساتھ ریاضات و مجاہدات کرنا احکامِ شرعیہ کی بجا آوری اور سنتِ سُنیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیۃ کی پیروی کا التزام کرنے میں ہے، کیونکہ رسولوں کے بھیجنے اور کتابوں کے نازل کرنے سے مقصود نفسِ امّارہ کی خواہشات کو ختم کرنا ہے جو اپنے مولا جل سلطانہ کی دشمنی پر قائم ہے۔ لہذا نفسانی خواہشوں کا دور کرنا احکامِ شریعہ کی بجا آوری پر وابستہ ہوا، جو شخص جس قدر شریعت میں راسخ اور ثابت قدم ہو گیا اسی قدر خواہشاتِ نفسانی سے دور ہو گیا۔ لہٰذا نفسِ امّارہ پر شریعت کے اوامر و نواہی کی بجا آوری سے زیادہ گراں کوئی چیز نہیں اور صاحبِ شریعت کی تقلید کے علاوہ کسی چیز میں اس نفسِ امّارہ کی خرابی متصور نہیں۔ جو لوگ وہ ریاضات و مجاہدات جو سنت کی تقلید کے علاوہ اختیار کریں وہ قابل اعتبار نہیں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے جوگی اور برہمن اور یونان کے فلسفی اس معاملے میں شریک ہیں، اور وہ تمام ریاضتیں ان کے حق میں گمراہی کے اضافہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور سوائے خسارے کے کچھ رہنمائی نہیں کرتیں۔“
تشریح:
تو حضرت کی بات کا مطلب یہ ہوا کہ تصوف اور خانقاہوں سے اصل مقصود یہ ہے کہ انسان شریعت پر ثابت قدم ہو۔ اصل ریاضت شریعت پر چلنا ہے۔ بہت سارے لوگ آج کل فجر کی نماز نہیں پڑھ رہے۔ کہتے ہیں جی ہم سے نہیں پڑھی جاتی، نیند سے آنکھ نہیں کھلتی۔ یہ مجاہدہ ہے جو اس مجاہدہ میں کامیاب ہو گیا، اسے مقصود حاصل ہو گیا۔ ایک شخص پہاڑ میں جوگیوں کی طرح بیٹھا ہوا ہے اور مختلف قسم کی ریاضتیں کر رہا ہے۔ دوسرا آدمی کچھ بھی نہیں کر رہا، صرف فجر کی نماز وقت پہ پڑھ رہا ہے، اگر اللہ نے مزید توفیق دی ہے تو تہجد بھی پڑھ رہا ہے۔ ان دونوں میں سے اللہ کے زیادہ نزدیک کون ہے؟ دوسرا اللہ کے نزدیک ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ چیز آپ ﷺ کی طرف سے آئی ہے، باقی چیزیں دوسروں کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ ہاں! اگر دوسری چیزوں کو صرف ذریعہ بنایا جائے تو مضائقہ نہیں ہے۔ ذریعہ کس طرح بنایا جائے؟ اکثر میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر میں اس کاغذ کو اس طرح موڑ لوں، نلکی بنا دوں، دوبارہ اس کو کھولوں گا تو کیا یہ پہلے کی طرح سیدھا ہو جائے گا؟ نہیں ہو گا۔ اسے سیدھا کرنے کے لئے مجھے مخالف سمت میں موڑنا پڑے گا۔ تب سیدھا ہو گا۔ اب مخالف سمت میں زیادہ موڑنا، صرف سیدھا کرنے کے لئے ہے۔ جب سیدھا ہو جائے، پھر نہیں موڑنا۔ یوں ہی یہ اضافی مجاہدہ سنت مجاہدے پہ لانے کے لئے ہے کہ آپ نماز وقت پہ پڑھ سکیں، روزہ صحیح طریقہ سے رکھ سکیں۔ زکوۃ صحیح ادا کر سکیں، حج صحیح طریقہ سے کر سکیں۔ اس کے لئے ریاضت ہے کہ آپ اس قابل ہو جائیں۔ کیونکہ جب آپ ایک حد سے زیادہ کر لیتے ہیں تو اس سے نچلا درجہ آسان ہو جاتا ہے۔ اضافی مجاہدہ کا یہی مقصد ہے کہ اس سے کم درجہ کا مجاہدہ کم از کم آسان ہو جائے۔ کسی نے شاعر نے کہا ہے کہ
؏ مشکلیں ہم پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مقصد یہ ہے کہ اگر مشکلیں پڑ جائیں اور ان کے ذریعہ اصل چیز آسان ہو جائے تو کام ہو گیا۔ یہ ریاضت مقصود نہیں ہے، یہ ریاضت صرف ذریعہ ہے۔ اصل ریاضت شریعت پر چلنا ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ وَاِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَۙ O الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠﴾ (البقرۃ: 45-46)
ترجمہ: ”اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔ جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے“۔
اصل چیز معتقداتِ شرعیّہ پر عمل کرنا ہے، اس پر پختگی آ جائے، یقین ہو جائے اور دوسرا یہ کہ اعمالِ شرعیہ میں آسانی ہو جائے، اس کے لئے اگر ہم ریاضتیں کرتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن ریاضتیں ریاضتوں کے لئے کی جائیں اور اسی میں ثواب سمجھا جائے تو یہ رہبانیت ہے، اسلام نہیں ہے، ریاضتیں اصلاً مقصود نہیں ہیں وہ صرف اور صرف ایک ذریعہ ہیں، اگر مقصد حاصل ہو رہا ہے، تو ٹھیک ہے۔
یہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مشروع مجاہدات سے مراد وہ مجاہدات ہیں جو ثواب سمجھ کر کئے جاتے ہیں اور ان میں ثواب سمجھا جاتا ہے اس صورت میں یہ مجاہدات رہبانیت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جس کی اسلام میں اجازت نہیں تاہم وہ مجاہدہ جو کہ سنت پر استقامت اور اس میں عزیمت کی تیاری کے لئے ہے، وہ وقتی طور پر کوئی شیخ کسی سالک کے لئے تجویز کرلے تو اس کی ممانعت نہیں یا نفس کی تادیب کے لئے کہ وہ سر نہ اٹھائے اور کسی رذیلے کے سر اٹھانے سے منع کروانا مقصود ہو تو اس کی نظیر تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی ملتی ہے جیسے عمر رضی اللہ عنہ کا وفود سے ملنے سے نفس پر ممکنہ اثر کو دھونے کے لئے بیت المال کی بوریوں کا خود اٹھانا وغیرہ۔
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خود بوریاں اٹھانی شروع کیں تو خادم نے کہا حضرت ہمارے ہوتے ہوئے آپ کیوں اٹھا رہے ہیں؟ فرمایا: ابھی کچھ وفود آئے تھے، ان کے ساتھ بحیثیتِ امیر المومنین ملاقات ہوئی ہے، جس کے سبب نفس ذرا موٹا ہو گیا ہے، اس کا علاج کر رہا ہوں تاکہ اس کو عقل آ جائے۔
تصوف رذائل کو دبانے کے لئے ہوتا ہے اس لئے اگر نفس کی خواہشات اسی تصوف ہی کے نام پر پوری کی جائیں تو یہ بڑی قبیح حرکت ہو گی جیسے بے ریش لڑکوں اور اجنبی عورتوں کے دیکھنے اور مظاہرِ جمیلہ و نغماتِ حسنہ میں مشغول ہونا وغیرہ، تو اس کی رد میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 234 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
وہ چیز جو آخرت سے تعلق رکھتی ہے، اور آخرت کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے وہ حَسَن (اچھی) ہے اگرچہ بظاہر اچھی معلوم نہ ہو اور جو چیز دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے حصول کے لئے ذریعہ و وسیلہ ہے وہ قبیح (بری) ہے اگرچہ بظاہر اچھی معلوم ہو اور حلاوت و طراوت کے ساتھ ظاہر ہو جیسا کہ دنیوی مزخرفات (جھوٹی زیب و زینت) کا یہی حال ہے، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مصطفویہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام والتحیۃ میں بے ریش لڑکوں، اور اجنبی عورتوں کے حُسن اور کمینی دنیا کی زیب و زینت کی طرف رغبت و خواہش سے نظر کرنا منع فرما دیا گیا ہے، کیونکہ یہ حسن و طراوت عدم کے مقتضیات سے ہے جو ہر شر و فساد کی جگہ ہے۔ اگر اس حسن و جمال کا منشا کمالاتِ وجودیہ ہوتے تو اس سے منع نہ فرماتے۔ اس لئے کہ اصل کے موجود ہوتے ظِل کی طرف توجہ کرنا برا اور مکروہ ہے۔ اور یہ منع کرنا استحسان کے طور پر ہے نہ کہ واجب، بر خلاف پہلے منع کرنے کے (جو کہ وجوبی ہے)۔ لہذا وہ حسن جو دنیاوی مظاہرِ جمیلہ میں ظاہر ہوتا ہے وہ اس ذات تعالیٰ و تقدس کے حُسن کے ظلال سے نہیں ہے بلکہ عدم کے لوازمات میں سے ہے جس نے حسَن کی مجاورت (معیت) کی وجہ سے ظاہر میں حُسن پیدا کر لیا ہے، اور حقیقت میں قبیح و ناقص ہے جیسے کہ زہر کو شکر کے غلاف میں ڈھانپ دیا جائے یا نجاست پر سونے کا غلاف چڑھا دیں اور یہ جو خوبصورت عورتوں اور لونڈیوں سے نکاح کرنے کا حکم فرمایا گیا وہ اولاد حاصل کرنے اور بقائے نسل کے لئے ہے جو نظامِ عالم کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہے۔
لہٰذا بعض صوفیا جو مظاہرِ جمیلہ اور دلکش نغمات میں اس خیال سے گرفتار ہیں کہ یہ حسن و جمال حضرت واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کے کمالات سے مستعار ہے وہ ان مظاہر میں ظاہر ہوا ہے، اور اس گرفتاری کو نیک اور مستحسن خیال کرتے ہیں بلکہ وصول الی اللہ کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، اس فقیر کے نزدیک اس کے خلاف ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ اس قسم کا تھوڑا سا مضمون اوپر بیان ہو چکا ہے۔“
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی زبردست تحقیق فرمائی ہے۔ آپ لوگوں کو تو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ حضرت نے بات کیا کی ہے، ہمیں اس کا پتا اس لئے نہیں کہ اِس وقت وہ مسائل نہیں ہیں، وہ مسائل گزر گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ لوگ خوبصورت لڑکوں کو اور خوبصورت عورتوں کو اس لئے دیکھتے تھے کہ ان میں اللہ پاک کا حسن ظاہر ہوتا ہے۔ وحدت الوجود کے نظریہ کو انہوں نے بگاڑ کے یوں بنایا ہوا تھا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا جمال ظاہر ہوتا ہے۔ حضرت نے اس کا جواب دیا ہے کہ اس میں اللہ پاک کا جمال ظاہر نہیں ہوا ہے، کیونکہ یہ عدم سے ہے عدم سے مراد ہے ’’کچھ نہ ہونا‘‘ سائنس اور ریاضی کی زبان میں اس کو Null set کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ’’کچھ نہ ہونا‘‘ ہے۔ زیرو بھی ایک چیز ہے، وہ null نہیں ہے۔
جس میں کچھ بھی نہ ہو، پھر اس کے بعد اس کو تجلی وجودی کے ذریعہ سے وجود دیا جائے، اس کی وجہ سے اس میں وقتی طور پر ظہور اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ یہ وقتی طور پر حسن اور ظہور کچھ حکمتوں کے سبب ہوتا ہے۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں، بہت اچھی مثال ہے۔ کھانا کھانا، زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے، پانی پینا ضروری ہے، اگر پانی کڑوا ہو جائے، آپ نہیں پی سکیں گے۔ کھانا اگر بے مزہ ہو جائے، آپ نہیں کھا سکیں گے۔ جیسے یرقان میں کھانا بے مزہ لگنے لگتا ہے کچھ لوگ نہیں کھا سکتے۔
ایک ساتھی کو ایسی بیماری تھی کہ جب لوگ cooking کرتے، جو چیزیں پک رہی ہوتیں ان کی مہک سے اسے ابکائی آ جاتی تھی، کھانا تو دور کی بات ہے۔ اس کا نظام بگڑ گیا تھا۔ چونکہ کھانا ضروری ہے، بلکہ مجبوری ہے، اس لئے اللہ پاک نے اچھے کھانوں کو پیدا کیا کہ لوگ کھانا کھائیں تاکہ زندہ رہیں۔ یہ زندہ رہنے کے لئے ذریعہ ہے، یہ نہیں کہ ہم اسی کے لئے پیدا ہوئے ہیں کہ اچھے اچھے کھانے کھائیں، بلکہ اچھے کھانے اس لئے پیدا کئے کہ ہم زندہ رہیں اور آخرت کے لئے کام کریں، اسی طرح پانی کی مثال ہے۔
اسی طرح اولاد کو پیدا کرنا ہے، اس سے نسل محفوظ ہوتی ہے، اگر لوگ نسل کو محفوظ نہ رکھیں تو دنیا ایک ہی نسل میں ختم ہو جائے۔ اللہ پاک نے اس نظام کو بر قرار رکھنے کے لئے ان حسین صورتوں کو بنا دیا اور ایک دوسرے کی طلب پیدا کر دی۔ اگر یہ طلب نہ ہوتی تو کیا لوگ آگے نسل چلاتے؟ تو جس طرح زندہ رہنا ضروری تھا، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اچھا کھانا بنا دیا، نسل برقرار رکھنا تو اس سے بھی زیادہ ضروری ہے، وہ تو اس سے آگے کی بات ہے، اس کے لئے اللہ پاک نے توالد و تناسل کا نظام بنا دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں اللہ پاک کا جمال آ رہا ہے۔ نعوذ باللہ من ذلك۔ یہ تو عدم کی چیز ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ اللہ پاک نے یہ چیز پیدا کی ہے، وہ اللہ والا تعلق پیدا نہیں ہوتا، بلکہ اللہ سے دوری پیدا ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کا تعلق پیدا کرنے کے لئے کچھ اور کرنا پڑتا ہے، اگر آپ اسی میں لگے رہیں تو آپ اللہ تعالیٰ سے بالکل دور ہو جائیں گے۔ مثلا آپ صرف کھانے میں لگے رہیں کہ یہ زندگی کے لئے بہت ضروری ہے اور نماز نہ پڑھیں، تو کتنے کامیاب ہوں گے؟ کھانا تو اس لئے تھا کہ آپ زندہ رہیں، عبادت کریں۔
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔
اگر آپ عبادت نہ کریں صرف کھانا ہی کھائیں، تو آپ نے ذریعہ کو مقصد بنا لیا، اسی طرح انسانی صورتوں میں وقتی طور پر حسن و جمال کا ہونا یہ بھی ایک خاص حکمت کی وجہ سے ہے، وہ حکمت توالد و تناسل کا ذریعہ ہے، اس کو ذریعہ تک ہی محدود رکھا جائے گا، مقصد نہیں بنایا جائے گا۔ حضرت نے اس مسئلہ میں بہت اچھی طرح وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
متن:
لہٰذا بعض صوفیا جو مظاہرِ جمیلہ اور دلکش نغمات میں اس خیال سے گرفتار ہیں کہ یہ حسن و جمال حضرت واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کے کمالات سے مستعار ہے وہ ان مظاہر میں ظاہر ہوا ہے، اور اس گرفتاری کو نیک اور مستحسن خیال کرتے ہیں بلکہ وصول الی اللہ کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، اس فقیر کے نزدیک اس کے خلاف ثابت ہوا ہے۔ چنانچہ اس قسم کا تھوڑا سا مضمون اوپر بیان ہو چکا ہے۔“
تشریح:
اس سلسلے میں ایک واقعہ مجھے بھی پیش آیا تھا۔ جب میں ترکی گیا تھا، وہاں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بھی حاضری ہوئی تھی۔ وہیں سے ہم نے مثنوی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ والا پروگرام بھی کیا تھا۔ اس پروگرام کے دوران مزار کے اندر ایک بانسری مسلسل بج رہی تھی۔ جس کا طبیعت پر برا اثر تھا۔ ایک صاحب کو کشف کے ذریعے حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے حکم فرمایا کہ ان خرافات کے خلاف آواز اٹھاؤ۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے میری آواز کہاں تک جائے گی؟ تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ آواز اٹھانا تمھارا کام ہے اور اس کا پہنچانا خدا کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ادھر ہی ایک کلام فارسی میں لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ درج ذیل ہے جس میں تقریباً یہی مضمون تھا جو کہ یہاں حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔
چوں رفتم در مزارِ رومی دیدم چہ خرافات اند
خرافات اند خرافات اند بکثرت در مزارات اند
ترجمہ: ”جب میں رومی رحمة اللہ علیه کے مزار پہ گیا تو دیکھا کہ بہت سارے خرافات ہو رہے ہیں خرافات ہی خرافات ہیں، آج کل مزاروں پر بکثرت خرافات ہو رہی ہیں۔“
تصوف است عمل و در عمل است کیفِ احسانی
ضروری است لیکن ایں چنیں در ایں چہ آفات اند
ترجمہ: ”تصوف تو سراسر عمل ہے اور اس عمل میں کیفیتِ احسان کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہے لیکن اس کی اندر یہ کونسی آفتیں داخل ہوگئی ہیں۔
اگر اصلاحِ نفس دارد و می گوید کسے صوفی ست
آنہا را درک خواہد کرد ایں ہرچہ خرابات اند
ترجمہ: ”اگر کسی کی اصلاحِ نفس ہو چکی ہو اور وہ اپنے آپ کو صوفی کہہ رہا ہو تو پھر تو اس کو خود ہی معلوم ہونا چاہئیے کہ یہ کونسی خرابیاں اس میں داخل ہوگئی ہیں ۔“
بہ ایں نام تصوف ہر چہ می خواہی نفس گر کرد
چہ را اصلاحِ نفس باشد ازیں در ایں کمالات اند
ترجمہ: ”اسی تصوف کے نام پر اگر نفس کو وہی کرنے دیا جائے جو وہ چاہتا ہے۔ یعنی نام بھی تصوف ہو اور کیا بھی وہی جائے جو نفس چاہتا ہے۔ اگر اس میں یہ کمالات پائے جاتے ہیں تو پھر کہاں نفس کی اصلاح حاصل ہو رہی ہے۔“
بصد افسوس می گویم مزامیر در سماع گر اند
بجائے قرب دوری از خدا در ایں مقامات اند
ترجمہ: ”صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اگر سماع کے اندر مزامیر( Musical instruments) شامل ہوں، تو پھر تو ان مزاروں میں جن میں ایسا ہوتا ہو اللہ تعالیٰ کے قرب کی بجائے اللہ تعالیٰ سے دوری واقع ہو گی۔“
شبیر خوار و خجل است پیشِ رومی نیز می خواہی
توجہ و دعا از شیخ برائے در مناجات اند
ترجمہ: ”شبیر خوار و خجل رومی رحمة اللہ علیه کے مزار کے سامنے کھڑا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ شیخ کی توجہ اسے حاصل ہو اور اس مناجات کی قبولیت کے لئے شیخ دعا فرمائے۔“
واقعتاً مزاروں پہ آج کل بہت عجیب حالات ہیں۔ مزار تو اللہ تعالیٰ کے قرب کے ذرائع تھے۔ جیسے حضرت داتا صاحب رحمة اللہ علیه کا مزار ہے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیه نے یہاں پر چلہ کاٹا تھا، چالیس دن لگائے تھے اور انہیں بہت فائدہ ہوا تھا۔ پھر حضرت کو پورے ہندوستان میں کام کرنے کی توفیق ہوئی۔ یہ مزارات تو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستے تھے، اب لوگوں نے اپنے نفس کی خواہشات پوری کرنے کے ذریعے بنا لئے۔ آپ اندازہ کر لیں کہ اب اس حالت تک بات پہنچ گئی ہے کہ وہاں پر شریف آدمی کھڑا بھی نہیں ہو سکتا۔
ہمارے یہاں کے ایک عالم امتحان کے لئے لاہور گئے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے وہاں جانا ہے۔ کہتے ہیں: میں نہیں جانا چاہتا وہاں پر پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے ادھر جانا ہے، کیونکہ وہ ہمارے بزرگ ہیں۔ لوگ وہاں جو بھی کر رہے ہیں وہ ان کا کام ہے، لیکن وہ ہمارے بزرگ ہیں، ہم ان کو نہیں چھوڑ سکتے۔ وہ گئے، جب واپس آئے، تو مجھے بتایا کہ میں وہاں بیٹھا تھا، جس وقت اٹھنے لگا تو آواز آئی کہ پھر کب آؤ گے۔ یعنی ہم تو آپ جیسے لوگوں کے لئے انتظار میں ہوتے ہیں، باقی لوگوں کے ساتھ تو ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیه کے مزار پہ اتنا رش تھا کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ پیچھے سے مسلسل لوگ آ رہے تھے۔ اس وقت مجھے کہا گیا کہ آپ ادھر بیٹھ جائیں، میں حیران تھا کہ کیسے بیٹھ جاؤں، یہاں تو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔ خیر لوگ مجھے دھکیلتے رہے، دھکیلتے دھکیلتے آگے لے گئے۔ یہاں تک کہ ہم حضرت کی قبر کی عقبی طرف پہنچ گئے۔ حضرت کی قبر کے بالکل پیچھے کمرہ تھا، کھڑکی کھلی تھی اور کمرہ بالکل خالی تھا، ادھر جا کر بیٹھنے کی جگہ مل گئی، ہم بیٹھ گئے۔ وہیں بانسری بج رہی تھی، وہیں سے ہم نے پروگرام شروع کیا۔ چونکہ حضرت کی خواہش تھی، اس لئے اللہ پاک نے رستہ بنا دیا، ادھر بیٹھنے کی جگہ بھی بنا دی، پھر یہ ارشاد فرمایا کہ اس کے خلاف آواز اٹھاؤ۔
اندازہ کریں کہ لوگ وہ بانسری بجاتے ہوئے کتنے خوش ہوں گے، سمجھتے ہوں گے، شاید رومی رحمة اللہ علیه کی روح اس سے خوش ہو رہی ہے۔ جبکہ نتیجہ یہ ہے حضرت اس پہ ناراض ہیں۔
بہت ساری جگہوں پہ، جہاں اکابر کے مزارات ہیں ان پہ جو خرافات ہو رہی ہیں، وہ حضرات اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں کیا ان کو اللہ پاک کا کوئی تعلق حاصل ہو گا؟ کیا ان بزرگوں کو ان چادروں کی ضرورت ہے جو آپ چڑھا رہے ہیں؟ جس شخص نے ایک اچھا عطر لگایا ہو، آپ ایک بد بو دار تیل اس کی ناک کے سامنے کر لیں، کیا اس کو خوشی ہو گی؟ بالکل نہیں۔
ہمیں ان بزرگوں سے کٹنا بھی نہیں ہے، اور اپنے خود ساختہ طریقوں پہ وہاں جانا بھی نہیں، بلکہ بزرگوں کا جو پسندیدہ طریقہ ہے، جو اللہ والوں کا طریقہ ہے اس کے مطابق جانا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے دفتر اول مکتوب نمبر 261 میں سماع و سرود اور وجد و تواجد کی شرعی حیثیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ:
متن:
”اور ایسی باتیں ’’حقیقتِ نماز‘‘ سے ’’عدم آگاہی‘‘ (بے خبری) کی وجہ سے ہیں بلکہ اس طائفۂ (صوفیاء) کی ایک کثیر جماعت نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین کو سماع و نغمہ اور وجد و تواجد میں تلاش کیا اور اپنے مطلوب کو نغمہ کے پردوں میں مطالعہ کیا اور رقص و رقاصی کو اپنا مسلک بنا لیا ہے۔
حالانکہ انہوں نے سُنا ہو گیا: مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی الْحَرَامِ شِفَاءً (اللہ تعالیٰ نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی) ہاں : اَلْغَرِیقُ یَتَعَلَّقُ بِکُلِّ حَشِیْشٍ وَحُبُّ الشَّیءِ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ (ڈوبنے والا شخص ہر ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے) اگر نماز کے کمالات کی کچھ بھی حقیقت ان پر منکشف ہو جاتی تو وہ ہرگز سماع و نغمہ کا دم نہ بھرتے اور وجد و تواجد کو یاد نہ کرتے۔
چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
(جب حقیقت نہ ملی ڈھونڈلی افسانے کی راہ)
اے بھائی! جس قدر فرق نماز و نغمہ میں ہے اسی قدر فرق نماز کے مخصوصہ کمالات اور نغمہ سے پیدا ہونے والے کمالات میں ہے۔ عاقل کو ایک اشارہ ہی کافی ہے۔
نیز دفتر اول کے مکتوب نمبر 266 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
جب اس طریقے کے بزرگوار (صوفیائے ربانی) ذکر جہری سے منع کرنے میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں تو پھر سماع و رقص اور وجد و تواجد کا کیا ذکر۔ وہ احوال و مواجید جو غیر مشروع اسباب پر مرتب ہوں فقیر کے نزدیک استدراج کی قسم سے ہیں کیونکہ استدراج والوں کو بھی احوال و اذواق حاصل ہوتے ہیں اور جہان کی صورتوں کے آیئنوں میں کشفِ توحید اور مکاشفہ و معائنہ ان کو بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس امر میں حکمائے یونان اور ہندوستان کے جوگی و برہمن سب برابر ہیں، احوال کے سچا اور صادق ہونے کی علامت ان احوال کا علوم شرعیہ کے مطابق ہونا اور مُحَرَّمہ و مشتبہ امور کے ارتکاب سے بچنا ہے۔
جاننا چاہیے کہ سماع و رقص در حقیقت لہو و لعب میں داخل ہیں: آیۃ کریمہ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَهْوَ الْحَدِیْثِ﴾ (لقمٰن: 6) (اور لوگوں میں (کوئی) ایسا بھی (نالائق) ہے جو واہیات (وخرافات) قصے کہانیاں مول لے لیتا ہے) سرود سے منع کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد اور کبار تابعین میں سے ہیں فرماتے ہیں ”لَھْوَ الْحَدِیْث“ سے مراد سرود ہے۔ تفسیر مدارک میں ہے کہ ”لَھْوَ الْحَدِیْثِ“ سے مراد (بعد عشاء) بیہودہ قصے کہانیوں میں وقت گزارنا اور سرود و نغمہ ہے۔ اور حضرت ابن عباس و ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم قسم کھاتے تھے کہ بیشک وہ غنا و سرود ہے۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿لَا یَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ﴾ (الفرقان: 72) (زُور میں حاضر نہیں ہوتے)۔ اور امام الہدی ابو منصور ماتریدی سے روایت کی گئی ہے کہ جس شخص نے ہمارے زمانے کے کسی قاری کو (جو کلمات قرآن میں گانے کی طرز پر پڑھنے کی وجہ سے تغیر پیدا کرتا ہے) قراءت کے وقت کہا کہ تو نے بہت اچھا پڑھا تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کی عورت کو طلاق ہو جاتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کی تمام نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ اور ابو نصیر الدبوسی سے حکایت کی گئی ہے کہ انہوں نے قاضی ظہیر الدین خوارزمی سے نقل کیا ہے کہ جس نے گانے والے یا کسی اور سے سرود سنا یا فعلِ حرام کو دیکھا اور اس کو اچھا جانا وہ اسی وقت مرتد ہو جاتا ہے خواہ اچھا جاننا اعتقاد کی رو سے ہو یا بغیر اعتقاد کے، کیونکہ اس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا اور جس نے شریعت کے حکم کو باطل کر دیا وہ کسی مجتہد کے نزدیک مومن نہیں رہتا اور اللہ تعالیٰ اس کی عبادت کو قبول نہیں کرتا اور اس کی سب نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے بچائے۔
سرود و غنا کی حرمت میں آیات و احادیث اور روایاتِ فقہیہ اس کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار کرنا مشکل ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص منسوخ حدیث یا روایتِ شاذہ (یعنی غیر معتبر) کو سرود کے مباح ہونے میں پیش کرے تو اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کسی فقیہ نے کسی زمانے میں بھی سرود کے مباح ہونے کا فتوی نہیں دیا ہے اور نہ ہی رقص و پاکوبی کو جائز قرار دیا ہے جیسا کہ امام ہمام ضیاء الدین شامی کے رسالہ ملتقط میں مذکور ہےـ اور صوفیاء کا عمل حِل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ کیا ان کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اور ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں، یہاں تو امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول معتبر ہے، نہ کہ ابو بکر شبلی اور ابو الحسن نوری رحمہما اللہ کا عمل ـــ اس زمانے کے خام صوفیوں نے اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر سرود و رقص کو اپنا دین و ملت بنا لیا ہے اور اسی کو طاعت و عبادت سمجھ لیا ہے ﴿اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَهْوًا وَّ لَعِبًا﴾ (الاعراف: 51) (یعنی یہی وہ لوگ ہیں) جنہوں نے لہو و لعب کو اپنا دین بنا لیا ہے) اور سابقہ روایت سے معلوم ہو چکا ہے کہ جو شخص فعلِ حرام کو مستحسن اور اچھا جانے وہ اسلام کے گروہ سے نکل جاتا اور مرتد ہو جاتا ہے۔ تو پھر خیال کرنا چاہیے کہ سماع و رقص کی مجلس کی تعظیم کرنا بلکہ اس کو طاعت و عبادت سمجھنا کس قدر برا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ ہمارے پیر اس مرض میں مبتلا نہ ہوئے اور ہم متبعین کو اس قسم کے امور کی تقلید سے چھڑا دیا۔
سننے میں آیا ہے کہ مخدوم زادے سرود کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور جمعہ کی راتوں میں سرود اور قصیدہ خوانی کی مجالس منعقد کرتے ہیں اور اکثر احباب اس امر میں موافقت کرتے ہیں۔ نہایت تعجب کی بات ہے کہ دوسرے سلسلوں کے مرید تو اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر اس امر کے مرتکب ہوتے ہیں اور شرعی حرمت کو اپنے پیروں کے عمل سے دفع کرتے ہیں اگرچہ فی الحقیقت وہ اس امر میں حق پر نہیں ہیں۔ بھلا اس سلسلہ کے احباب اس ارتکاب میں کون سا عذر پیش کریں گے۔ ایک طرف حرمت شرعی اور دوسری طرف اپنے پیروں کی مخالفت ہوئی، نہ اہل شریعت اس فعل سے راضی اور نہ اہل طریقت۔
اگر حرمت شرعی نہ بھی ہوتی تو بھی طریقت میں کسی نئے امر کا پیدا کرنا برا ہوتا، پھر ایسا امر کس طرح برا نہ ہو جبکہ حرمت شرعی بھی اس کے ساتھ جمع ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ جناب مرزا جیو (یعنی خواجہ حسام الدین صاحب) اس امر سے راضی نہ ہوں گے لیکن آپ کے آداب کو مدنظر رکھ کر صریح طور پر منع بھی نہ کرتے ہوں گے اور دوستوں کو اس اجتماع سے نہ روکتے ہوں گے۔ اس فقیر نے چونکہ اپنے آنے میں کچھ توقف دیکھا اس لئے چند فقرے جمع کر کے لکھ کر بھیج دیئے ہیں۔ اس سبق کو مرزا جیو کی خدمت میں پیش کر دیں، اور اول سے آخر تک اس کے سامنے پڑھیں“۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمة اللہ علیه کے زمانے میں ہر جگہ اس طرح کے فتنے تھے اور پیروں کی محفلیں ان چیزوں سے بھری ہوتی تھیں۔ حضرت ان سب کی اصلاح پر مامور تھے، اصلاح سب کی کرنی ہوتی ہے، اس وجہ سے بہت سخت بولنا پڑتا تھا۔ یہ مکتوب شریف اپنے مرشد کے صاحبزادوں کو لکھا ہوا ہے، اس میں ان کو مخاطب فرما کر لکھتے ہیں کہ سنا ہے کہ آپ بھی اس طرح کر رہے ہیں۔ غور کریں جو اپنے مرشد کے صاحبزادوں کو اتنی سختی کے ساتھ حق بات لکھ سکتے ہیں، تو باقیوں کے لئے کیا حال ہوتا ہو گا۔ اس سختی کی وجہ یہ ہے کہ ایسی چیزوں سے اگر منع نہ کیا جائے تو بات بہت دور تک چلی جاتی ہے۔
ہم شیخ عبد القادر جیلانی ثانی رحمة اللہ علیه کے مزار پہ اوچ شریف پہ گئے، وہاں تقریباً دس بارہ افراد کی ایک ٹولی بیٹھی ہوئی تھی، میوزک بج رہا تھا، وہ اس کے ساتھ سر جھٹک رہے تھے، بال لمبے لمبے رکھے ہوئے تھے اور سر ہلا ہلا کے بالوں کو جھٹک رہے تھے۔ ان کی بس یہ ڈیوٹی تھی۔ پتا نہیں اس پر ان کو کیا ملتا تھا، شاید کچھ مقرر ہو گا۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ ان لوگوں نے عوام کے لئے تماشے بنائے ہوئے ہیں۔ عوام آتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں شاید یہ کوئی ثواب کا کام ہے یا دین کا کام ہے وہ بھی اس میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ اس کا ثواب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ اس کے لئے ایصال ثواب کریں وہاں جا کر اللہ پاک سے دعا کریں، کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان بزرگوں کے تعلق کی وجہ سے اپنا تعلق نصیب فرمائے۔ اس سے کسی نے منع نہیں کیا۔ آپ اندازہ کر لیں کہ جب ہم وہاں پر گئے۔ ہم بالکل نو وارد تھے۔ ہمیں وہاں کوئی نہیں جانتا تھا لیکن جب اس مزار پہ ہم حاضر ہوئے تو بالکل ایسا محسوس ہوتا جیسے اٹھنے نہیں دیا جا رہا، جیسے کہا جا رہا ہے کہ مت جائیں۔ ہمارے لئے ایک قسم کا امتحان سا ہو گیا کہ یہاں سے کیسے اٹھیں۔
اوچ شریف میں بہت سارے مزارات ہیں۔ ہمیں سب پہ جانا تھا۔ اس تصور کے ساتھ اٹھے کہ ان شاء اللہ پھر حاضر ہوں گے۔ آگے جا کر اس مسجد کے امام مل گئے، مسجد کے اندر ہم نے ذکر کیا اور پھر اس کے بعد اس امام سے ہمارا تعلق ہو گیا، ان کو ہم نے اپنا شجرہ دیا، انہوں نے وہ شجرہ ادھر لگایا۔ وہاں کے سجادہ نشین کے ساتھ ملایا۔ اس طرح اللہ پاک نے ہمارے لئے راستہ کھول دیا۔ حالانکہ ہم بالکل نو وارد تھے۔ پھر ہم ایک اور بزرگ حضرت سید صدر الدین راجن قتال بخاری سہروردی رحمة اللہ علیه کے مزار پہ گئے، وہاں پر بھی اسی قسم کے حالات پیش آئے تو میں نے وہاں ایک واقف کار مولانا عبد الغفار صاحب (جو اب فوت ہو گئے ہیں) سے پوچھا، کہ یہ بات وہاں تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہاں راجن قتال رحمة اللہ علیه کے ہاں ایسا کیوں ہوا ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کس نیت سے یہاں پر آئے تھے؟ میں نے کہا میں اس نیت سے آیا تھا کہ یہاں اہل السنت والجماعت کے لئے کام کرنے کا کچھ رستہ کھل جائے۔ انہوں نے کہا اسی لئے آپ کا یہ اکرام کیا گیا ہے، کیونکہ راجن قتال رحمة اللہ علیه کی اولاد میں ابھی بھی اہل السنت والجماعت موجود ہیں، اس وجہ سے یہاں آپ کا اکرام کیا گیا۔
مقصد یہ ہے کہ ان بزرگوں کے پاس صحیح طریقہ پہ جائیں تو یہ بہت خوش ہوتے ہیں، لیکن افسوس ہے کہ ہم ان کے صحیح طریقہ پہ نہیں جاتے۔ بزرگوں کے پاس اپنے طور پہ کچھ نہیں ہوتا، اللہ کے تعلق کی نسبت سے ہوتا ہے، اگر آپ اللہ تعالیٰ کے تعلق کے لئے جاتے ہیں تو وہ تعلق آپ کو بھی نصیب ہو جائے گا۔
نقشبندی سلسلے میں زیادہ زور چونکہ اخفاء پر دیا جاتا ہے اس لئے مندرجہ بالا اقتباس میں جہری ذکر کی ممانعت نقشبندی حضرات کے لئے فرما رہے ہیں دوسرے سلسلے جن میں ذکر جہری کرایا جاتا ہے یہ ان پر رد نہیں جیسا کہ ہومیو پیتھی علاج میں ایلو پیتھی دوائیوں کا استعمال ممنوع ہے، اس سے ایلو پیتھی کی مخالفت مراد نہیں بلکہ صرف دو علاجوں کو آپس میں گڈ مڈ کرنے سے ممانعت ہے۔ نیز دفتر سوم کے مکتوب نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
”سرود و نغمہ کی طرف رغبت نہ کریں اور ان کی لذتوں پر فریفتہ نہ ہوں کیونکہ وہ ایک قسم کا زہر ہے جو شہد میں ملا ہوا سَمِّ قاتل ہے۔“
تشریح:
اس قسم کی خلاف شرع چیزوں کو تصوف کے نام پہ کرنا بہت بڑی جہالت ہے اور حضرت نے اس کے بارے میں بڑی تفصیل کے ساتھ بات فرمائی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ تصوف کا بنیادی مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ ایمان مضبوط ہو جائے اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ باقی صرف ذریعے ہیں جیسے مریض کا اصل مقصود صرف صحت ہوتی ہے۔ اس صحت کے لئے بیشک آپ ایلو پیتھی والے کے پاس چلے جائیں، ہومیو پیتھی والوں کے پاس چلے جائیں، یونانی علاج والوں کے پاس چلے جائیں، آکو پنکچر والوں کے پاس چلے جائیں، اگر آپ کو کسی بھی علاج سے صحت مل گئی تو بس آپ کا کام ہو گیا۔ اسی طرح تصوف، چاہے وہ نقشبندی ہے، چاہے چشتی ہے، چاہے قادری ہے، چاہے سہروردی ہے، چاہے کوئی اور سلسلہ ہے، اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ ہمارا ایمان پختہ ہو جائے اور شریعت پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ معارف و علوم نصیب فرماتے ہیں، اللہ پاک اس کے ذریعے سے وہ دل میں لاتے ہیں۔ عبدیت کی وجہ سے معارف و علوم آتے ہیں۔ جتنی جتنی آپ کی عبدیت بڑھے گی، بندگی کی کیفیت بڑھے گی، اس کے ساتھ اللہ پاک وہ چیزیں بھی عطا فرماتے جائیں گے۔ جیسے کسی چیز کا آئینہ جتنا صاف ہوتا جائے گا، اس میں اتنا ہی صاف نظر آئے گا، جیسے اگر میری عینک کے شیشے پر کالک لگی ہو تو مجھے کچھ بھی نظر نہیں آئے گا، اگر میں اس کو صاف کرنا شروع کر دوں تو تھوڑا تھوڑا نظر آنا شروع ہو گا، جتنا صاف کروں گا اتنا زیادہ نظر آنا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر میں عبدیت حاصل کر لوں تو باقی چیزیں خود بخود حاصل ہوتی جائیں گی، اس کی نیت بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ ہم لوگوں کو صرف ایک ہی نیت کرنی ہے کہ ہم سے اللہ راضی ہو جائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ