مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 14



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات پر حضرت شیخ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ (جو کہ حضرت کاکا صاحب کے صاحبزادہ تھے) نے جو کتاب لکھی ہے، ہمارے ہاں اس کی تعلیم جاری ہے۔ اب اس کتاب کا پانچواں باب شروع ہو رہا ہے۔

متن:

پانچواں باب

اسلام کی پانچ بنا کے بارے میں اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقامات کے بیان میں

"اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانَ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ" ایمان زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق اور توثیق کرنا ہے۔ یہ بات عوام الناس میں مشہور ہے۔ اور ایمان کی یہی تعریف عام لوگوں کی ایمانی حالت پر صادق آتی ہے۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی حقیقت نورانیت کے کمال کی دوسری قسم ہے۔ اور ایمان کی یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر حقیقی طور پر ایمان لانا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کہ جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلے، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اے بھائی! معاف فرمائیں اور مجھ کو معذور سمجھیں جب آپ معرفت کی ابتدا تک پہنچ جائیں گے تو معرفت کی شراب سے مست ہو جائیں گے اور اس مستی کے عالم میں اپنے منتہیٰ کے انتہا تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد اپنے نفس کی معرفت حاصل کریں گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" یہی حقیقت آپ کے احوال کی تجلیات ہو جائیں گی۔

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر ایک نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبۃ: 128) کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا یعنی نفس کی آیت، اور نفس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسِ مقدسہ ہے۔ اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ" یعنی جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس مقدسہ کی معرفت حاصل کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔ یہ حقیقت اس معنیٰ اور مفہوم کی طرف جلوہ گری کرتی ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے ابیات:

؎ گر گزر یابی ز نفس و جان و جسم و جان

آشنا گردی یقین با جان جان

جانِ جان ہم پرتو است از ذاتِ او

کس نہ بیند جز بداں مرآت او

”اگر تم نفس و جان اور جسم و جان سے گزر سکو، تو جانِ جان سے واقف ہو جاؤ گے۔ جانِ جان بھی اس کی ذات اقدس کی ایک پرتو ہے۔ اس شیشے کے بغیر کوئی اس کو نہیں دیکھ پاتا“

سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: "طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِيْ" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 22138) ”اس شخص کے لیے خوش نصیبی ہے جس نے مجھے دیکھ لیا“ جب تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس مبارک کی معرفت حاصل ہو جائے، تو تب معرفت نفس احمدی کی بدولت معرفت حضرت احدی کو حاصل کرو گے۔ اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمزًا اور اشارتًا فرمایا ہے کہ "مَن رَّآنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أقف علی ھذا الجزء من الحدیث) ”جس نے مجھے دیکھا اس نے میرے رب کو دیکھا“

پس اللہ تعالیٰ کی معرفت یہ ہے کہ اس جگہ "رَآنِيْ" (مجھے دیکھا) اور "فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (اس نے میرے رب کو دیکھا) کے درمیان نکتہ ہے۔ شیخ محمد حسین نے فرمایا کہ اگر میں اس کو ظاہر کرتا تو یہ مجازی اور تقلیدی مسلمان مجھ کو اس کی وجہ سے سنگسار کرتے۔ ان کی ناسمجھی کی وجہ سے میں نے اس کا اظہار چھوڑ دیا۔ لیکن برادرانِ اسلام یہ بات جان رکھیں کہ جو کوئی خود شناس نہ ہو یعنی اپنے آپ کو نہ پہچانے وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا پہچانے گا؟ کس طرح عارف بنے گا؟ اور محبوب کی معرفت اس کو کیسے حاصل ہوگی؟ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْ﴾ (الفتح: 10) ”تحقیق جو لوگ بیعت کرتے ہیں، تجھ سے وہ بیعت کرتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر اُن کے ہاتھ کے“ (ترجمہ شیخ الہند) کی بیعت کی حقیقت تم پر جلوہ افروز ہو گی۔ اور بیعت کی اس نعمت عظمیٰ کے بعد ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدہ: 3) ”آج میں پورا کر چکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر احسان اپنا“ کی نعمت سے تمہاری تکمیل ہو گی۔ اس کے بعد ﴿لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ﴾ (آل عمران: 164) ”اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کا“ کے احسانِ عظیم کے مستحق ہو گے۔ اور اس احسانِ عمیم کا تم پر اتنا زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا جو کہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ اور شکرِ کثیر کے ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ تم کو اتنی فراواں نعمت سے نوازے گا اور اپنی اتنی معرفت عطا فرمائے گا کہ اس معرفت میں نہ تو عارف کو پہچانے گا، اور نہ معروف کو۔ یہ بھی ایک تحقیق شدہ بات ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" یعنی سمجھنے سے عاجز ہونے کا سمجھنا بھی سمجھنا ہے، یعنی عجزِ معرفت و ادراک یہ ہے کہ عارف کی ذات کو کھا جائے اور محو کرے، اور عارف کی جگہ معروف رہ جائے۔

بیت:

؎ عشق و عاشق محو گردد زیں مقام

خود ہماں معروف گردد والسلام

”یعنی اس مقام پر عشق اور عاشق محو ہو جاتے ہیں۔ اور بس معروف (یعنی معشوق) ہی باقی رہ جاتا ہے“

اے بھائی! یہ عجز معرفت کا کمال ہے، یعنی جو شخص کہ کمال معرفت میں غرق اور محو ہے، وہ کمال سے عاجز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ انتہائی غنی ہے اور فقر ہمارا کمال ہے اور غِنا (غنی ہونا) اس کا کمال ہے۔ بیت:

؎ گر شاه را تاجِ زر بر سر است

مرا پایۂ عقل عالی تر است

و گر شاہ مستِ مئے ہستی است

بجامِ نیستی مرا سر خوش تر است

”اگر بادشاہ کے سر پر سونے کا تاج ہے، تو مجھے عقل و سمجھ کا عالی مرتبہ حاصل ہے۔ اور اگر بادشاہ ہستی کی شراب سے مست ہے، تو نیستی کے جام و ساغر سے میں بھی نشے میں ہوں“

اسی مطلب کو بیان کرتے ہوئے، حضرت قطبِ عالم شیخ نصیر الدین صاحب نے فرمایا ہے کہ "سُبْحَانَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلْ لِلْخَلْقِ سَبِیْلًا إِلٰی مَعْرِفَۃٍ إِلَّا بِعِجْزٍ عَنْ مَعْرِفَتِہٖ" کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنی معرفت کا مخلوق کے لیے کوئی راستہ سوائے اس کے نہ چھوڑا کہ اس کی معرفت سے عجز کا ادراک کیا جائے۔ یعنی اے بھائی! انبیاء اور اولیاء میں سے کسی کو بھی اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی معرفت کے لیے آئینہ محمدی کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ مصرع:

؂ بیروں ز دو سرا زلفِ شاہد راہ نیست

یعنی معشوق کی زلف کے علاوہ کوئی (دوسرا) راستہ نہیں۔ پس اے میرے بھائی! اگر تم طریقت کے راستے پر جانا چاہتے ہو، تو اپنے آپ کو آئینہ بناؤ، اُس آئینے میں اپنے پیر و مرشد کو دیکھتے رہو۔ اور پیر و مرشد کو آئینہ بنا کر نفسِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشاہدہ کرو، اور نفسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئینہ بناؤ، مالک الملک اس سے آگے ہے، "رَأَیْتُ رَبِّيْ لَیْلَۃَ الْمِعْرَاجِ فِيْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ" (سنن الدارمی بتغییر قلیل، کتاب الرؤیا، باب: فی رؤیۃ الرب فی النوم، رقم الحدیث: 2195) کہ میں نے بہترین صورت میں معراج کی رات اپنے پروردگار کو دیکھا۔ پس شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام میں فرمایا ہے کہ یہ دیکھنا حقیقت میں ذاتِ محمدی کا اپنے آپ کو دیکھنا ہے۔ جیسا کہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو میں نے خود دیکھا ہے۔ اس مقام میں ایک باریک نکتہ ہے، محمد حسین فرماتے ہیں کہ میں اس نکتہ کو مجازی مسلمانوں کی خوف کی وجہ سے ظاہر نہیں کرتا لیکن "فِیْ أَحْسَنِ صُوْرَۃٍ" سے مراد وہی ہے جو کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما چکے ہیں کہ "أَنَا مِنْ ظُھُوْرِ ذَاتِہٖ وَمَخْلُوْقُہٗ مِنْ ظُھُوْرِ ذَاتِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ میں اس کی ذات کے ظہور سے (پیدا ہوا) ہوں اور مخلوق میری ذات کے ظہور سے ہے۔ پس اے میرے پیارے! یہ وہی ذات تھی جو کہ اس ذات میں محو ہوئی، جب روح نظارہ میں فنا ہوئی تو یہ کہا کہ خدا کے جمال کا نظارہ خدا کے سوا کسی دوسرے نے نہیں کیا۔ اور اسی مقام سے ہی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ "مَن رَّاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) کہ جس نے مجھے دیکھا تحقیق اس نے میرے رب کو دیکھا۔ اور شیخ محمد حسین نے فرمایا ہے کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جو کہ اُس کی ذات کا مظہر ہے، آئینۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں "رَبِّ أَرِنِيْ" کہہ ڈالتے، تو "لَنْ تَرَانِيْ" کے جواب سے ہرگز مخاطب نہ ہوتے، لیکن چونکہ انہوں نے آئینۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے باہر یعنی اس کو چھوڑ کر سوال کیا تو لامحالہ "لَنْ تَرَانِيْ" کے جواب سے مخاطَب ہوئے۔ پس اے میرے پیارے! اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام رسولِ کریم و جمیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زمانے میں ہوتے، تو جب وہ جمال محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشاہدہ فرماتے تو گویا اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کا جمال ملاحظہ کرتے اور تسکین پاتے۔ "مَنْ رَاٰنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" کی حقیقت سے جب موسیٰ علیہ السلام کو آگاہی ہوئی تو آئینۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جذب ہونے کے بعد ان پر یہ حقیقت روشن ہو گئی اور اس آگاہی کے بعد انہوں نے سوال کیا، کہ "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " (کتاب السنۃ لأبی عاصم بتغییر قلیل، باب: نسبۃ الرب تبارک و تعالٰی، رقم الحدیث: 996) یعنی اے خدا! مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے قبول فرما۔ اِس زمانے میں ہمارے شیخ المشائخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس مقام سے آگاہ تھے۔ اور حقیقت میں وہ عارف تھے اور معرفت میں کمال درجہ اُن کو حاصل تھا۔ جس طرح کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ زمانۂ قدیم میں معرفت میں کمال درجہ رکھتے تھے۔ بیت:

؂ ہر جا فقیر بینی با او نشست باید

ما را فقیر معنی چوں بایزید باید

ما را نویدِ باده از خمِ غیب بادہ

ما را مقام و مجلس عرشِ مجید باید

”تو جہاں کہیں بھی کسی فقیر کو دیکھے تو اس کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے۔ اور ہم کو تو بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح فقیر منش مرشد چاہیے۔ ہم کو غیب کے خُمِستاں (مے خانے) سے شراب کا مژدۂ (خوشخبری) چاہیے اور ہم کو بیٹھنے اور محفل آرائی کے لیے عرشِ مجید جیسا مقدس مقام چاہیے“

پس اے بھائی! چاہیے کہ تمام میخانہ نوش کر کے بھی ہوش میں رہو اور کچھ چیخ و پکار نہ کرو۔ اور اگر کوئی چیخے چلائے تو وہ کامل نہیں ہوتا۔ اور جوان مردوں کی مجلس کے قابل نہیں۔ "أَنَا الْحَقُّ" کہنا اور "سُبْحَانِيْ" الاپنا اہل ہمت کے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ اگر آئینۂ محمدی میں مشاہدہ حاصل ہو جائے تو پھر شور نہیں مچاؤ گے اور اہل ظواہر کو آواز نہیں دو گے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: "وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَمَا عَرَفَ اللہَ حَقَّ مَعْرِفَتِہٖ" کہ اللہ کی قدر و منزلت اور اس کی معرفت کو کما حقہٗ نہیں سمجھا گیا۔ پس دل سے جان لو، اور آنکھوں سے دیکھ لو، مگر مخلوق کو نہ کہو۔ اور اس دیکھنے اور جاننے سے کسی کو بھی مگر جو مردِ حقیقت ہو، اطلاع نہ دو۔ اور اہلِ ظواہر یعنی ظاہر بینوں کو یہ راز افشا نہ کرو۔ پس اے بھائی! جان لو کہ معرفت کے درخت کا میوہ اللہ کا دیدار ہے، اور جو شخص یہاں اہل معرفت ہوگا وہ اہل رویت ہوگا۔ یعنی اس کو دَوار (رسائی) نصیب ہو گی۔ اور جس شخص نے یہاں معرفت حاصل نہ کی تو وہاں اندھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: ﴿مَنْ کَانَ فِيْ ھٰذِہٖ أَعْمٰی فَھُوَ فِي الْآخِرَۃِ أَعْمٰی﴾ (الاسراء: 72) ”جو اس دنیا میں اندھا ہوگا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا“ پس اے بھائی! معرفت تین قسم کی ہوتی ہے: معرفتِ ذات، معرفتِ صفات و معرفتِ افعال اللہ و احکامہ۔ آخر الذکر یعنی معرفت افعال اللہ و احکامہ کو اپنے نفس سے حاصل کرو گے کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی ﴿وَ فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریٰت: 21) ”اور خود تمہارے اندر سو کیا تم کو سوجھتا نہیں“ اور معرفتِ صفات، نفسِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت سے حاصل کرو گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبہ: 128) ”آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں کا“ اور معرفتِ ذات کی کیفیت اور ماہیت کا بیان ممکن نہیں اور وہ الفاظ کے احاطے میں سما نہیں سکتا۔ اور یہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "تَفَكَّرُوْا فِيْ آلَاءِ اللهِ - يَعْنِيْ عَظَمَتَهُ - وَلَا تَتَفَكَّرُوْا فِي اللهِ" (شعب الإیمان للبیھقی، کتاب الإیمان باللہ، باب: أسامی صفات الذات، رقم الحدیث: 119) ”اُس کی عظمتوں میں تفکر کیا کرو، اور اس کی ذات میں فکر کرنے سے باز رہو“ تو یہ بات عام لوگوں اور متوسط ہمت رکھنے والے لوگوں کے لیے ہے۔ مگر اے برادر! شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ عالی ہمت لوگ سلوک کے راستے میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ جب تک اس کی ذات میں اس کے سوا سب کچھ محو نہ کریں، اُن کو قرار نہیں آتا۔ اور جب خود محو ہو جاتے ہیں تو ان کو قرار آتا ہے۔ اور ان کی محویت کا عالم یہ بیان ہوا ہے۔ بیت:

؎ من نیم آن کس که منم گویی کیست

خاموش دلم دردمندم گوئی کیست

من پیرہن بیش نیم از سر تا پائے

آنکس کہ منش ز من گوئی کیست

”میں وہ شخص نہیں ہوں جو کہ میں ہوں، آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ خاموش دل اور دردمند ہوں۔ آپ پوچھیں گے کون ہوں؟ میں ایک قمیص سے زیادہ نہیں سر سے پیر تک، جس کو میں کہتے ہیں پتہ نہیں کون ہوں۔“ ابیات:

؎ دلا نزدیک کن بنشین که از جانان خبر دارد

بجنبان آں درختے را کہ او گلہائے تر دارد

نہ ہر کلک شکر دارد نہ ہر زیرِ زبر دارد

نہ ہر جسم بصر دارد نہ ہر بحر گہر دارد

”اے میرے دل! ایسے شخص کی ہمنشینی اختیار کر جو کہ محبوب کے حال سے آگاہ ہو۔ اور اُس درخت کو ہلایا کرو جو کہ تازہ اور میٹھا میوہ رکھتا ہو۔ ہر مل اور بانس میں شکر اور شیرینی نہیں ہوتی نہ ہر جسم میں دیکھنے کی قوت یعنی آنکھ ہوتی ہے، اور نہ ہر سمندر میں موتی ہوتا ہے۔“ مثنوی:

مُردم از حیوانی و آدم شدم

از چه ترسم کی ز مردن کم شدم

حملۂ دیگر بمیرم از بشر

تا بر اَرم نہ ملائک برد سر

از ملائک هم بایدم جستن ز جو

کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہٗ

بارِ دیگر از ملک قربان شوم

آنچہ اندر دہم نایداں شوم

پس عدم گردم عدم چوں ارغنون

گردم کَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْن

یہ مولانا روم صاحب کے مثنوی شریف کے نا مکمل اشعار ہیں، جن کا مطلب یہ ہے کہ مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:

پہلے میں جمادات یعنی مٹی کی شکل میں تھا، جب میری وہ صورت فنا ہو گئی تو نباتات اور سبزے کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس شکل سے بدل کر میں حیوانوں کے اجسام میں منتقل ہو گیا اور حیوانات کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور اسی طرح ہوتے ہوتے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ چونکہ ارتقاء کا عمل بدستور جاری ہے، تو اب میں مرنے سے کیا ڈر اور خوف کروں گا کہ مرنے سے میں کم ہو جاؤں گا۔ اب کہ جب میں مر جاؤں گا تو عالَمِ بشریت سے نکل کر عالَم ملکوت کی جانب قدم بڑھاؤں گا، بلکہ اس سے بھی آگے نکل جانے کی کوشش کروں گا، فرشتوں سے بھی آگے نکل جانے کی جستجو کروں گا۔ اور چونکہ خدا کی ذات کے علاوہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اس لیے اس مرحلے سے آگے جا کر فرشتوں سے بھی آگے نکل جاؤں گا۔ اس کے بعد میں عدم ہو جاؤں گا، جس طرح باجے کی آواز معدوم ہوتی ہے۔ اور میرے بارے میں "إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ" کہا جائے گا۔

اس کتاب کے مؤلف کو مثنوی شریف اور اس مقام سے حضرت شیخ صاحب شیخ المشائخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقامِ معرفت کے بارے میں حالت استغراق میں ایک راز کی بات کہہ دی کہ محبت کے آسمان میں معرفت کے بادلوں میں ایک بجلی چمکی اور اس روشنی میں مجھ کو کلمہ طیبہ کے معنیٰ واضح ہو کر معلوم ہوئے۔ اور وہ مفہوم و معانی مجھ پر روشن ہو گئے۔ وہ معنیٰ کوئی دوسری چیز ہے اور یہ معنیٰ جو کہ ظاہر بین لوگ کرتے ہیں، اس میں اور اُس معنیٰ میں بہت عظیم فرق ہے۔ یعنی اُس میں روح کا مشاہدہ اور معائنہ کیا اور ایمان بالغیب کے مقام سے آگے نکل کر معائنے اور مشاہدے کے ایمان یعنی ایمان شاہد و مشہود کے مقام کو پہنچا۔

؎ گر علمِ خرابات ترا ہم نفسے

ایں علم و عمل و هنرش تو بادا ہوسے

گر طائرِ غیبی ست بسرت سایہ فگن

سیمرغِ جہاں در نظرت چوں مگسے

”اگر تمہیں ظاہری علوم میں دسترس حاصل ہو، تو تمہارا یہ علم اور ہنر صرف تمہاری خواہشات ہیں۔ اور اگر غیب کا پرندہ تمہارے سر پر سایہ کر ڈالے تو دنیا کا سیمرغ پرندہ تمہاری نظر میں ایک حقیر مکھی جیسا ہو گا“

اس بات کو وہ لوگ سمجھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش عطا کی ہو۔ مختصر یہ کہ میں نے یہ جو بات عرض کی کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اپنے نفس سے حاصل کرو گے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک مَلکی، اور دوسری قسم کے افعال ملکوتی ہیں، یعنی یہ جہاں اور وہ جہاں۔ جو کچھ کہ اس جہاں میں ہے، اس کو ملکی کہتے ہیں، اور جو کچھ کہ اُس جہاں میں ہے وہ ملکوتی ہے، اور جو کچھ کہ اس اور اس جہاں سے تعلق نہیں رکھتا اُس کو جبروتی کہتے ہیں۔ اور لاہوتی کی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ اُس کی تعریف الفاظ میں سما نہیں سکتی۔ اس راہ میں مطلب اور غرض کی بات یہ ہے کہ تم جو کچھ کرتے ہو، فقط اُسی کے لیے کرو۔ اس کے لیے دنیا بھر کی لغزشوں اور گناہوں کی پرواہ نہ کرو۔ اور اس تک رسائی و نارسائی سے آنکھیں بند رکھو۔ اور یہ خیال تک ذہن میں نہ لاؤ کہ میں پہنچ جاؤں گا یا نہیں پہنچوں گا۔ اور اُن خوشگوار نہ ختم والی ہواؤں کے انتظار میں رہو، اور وہ اعمالِ دینی جو کہ لوگوں کی نظروں میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہوں، وہ سب آتش میں ڈال دو۔ اور اپنے آپ کو منکرات کے نزدیک تصور کرو۔ اور اے برادر عزیز! جب تک پردۂ ربوبیت سے پردۂ جمالِ الٰہی تک رسائی حاصل نہ ہو، اور پردۂ جمال الٰہی سے پردۂ عزت تک اور پردۂ عزت سے پردۂ کبریائی تک رسائی حاصل نہ ہو، "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”یعنی اس نے اپنے رب کو پہچانا“ کے مقام تک پہنچ نہیں سکتا۔ اور ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پردۂ کبریائی کے غوطہ زن تھے۔ اور اس زمانے میں وحدتِ الٰہی کے قطب تھے اور بایزید بسطامی دوم تھے۔ اور جب کوئی مقامِ کبریائی میں پہنچ جاتا ہے تو اس کے بعد اس کلام کی نغمہ سرائی کرتا ہے۔ بیت:

؂ ہر کرا در معرفت محکم قدم

در گزشت از کفر و از اسلام ہم

چوں ترا این چنیں ایماں بود

این تنِ تو گم شد آن جان بود

”جس کسی کے مقامِ معرفت میں قدم مضبوط ہو جائیں، تو وہ کفر اور اسلام سے گزر گیا۔ اور جب تجھے ایسا مقام حاصل ہو جائے، تو تمہارا بدن گم ہو کر فقط جان باقی رہ جائے گا“

؂ مردِ میداں شوی این کار را

مرد باشی این چنیں اسرار را

؂ ہائے در نہ ہمچو مردان و مترس

در گذر از کفر و از ایمان مترس

؂ چند ترسی دستی از طفلی بدار

باز سو چوں شیر مرداں سوئے کار

”اس کام کے لیے مرد کار بن جاؤ تو اس قسم کے اسرار و رموز کے اہل ہو جاؤ گے۔ جواں مردوں کی طرح آگے قدم بڑھاؤ، اور مت ڈرو۔ کفر اور ایمان کے جھمیلوں کو چھوڑ دو۔ اور کچھ خوف نہ کرو۔ تم کب تک یہ خوف کھاتے رہو گے؟ یہ بچپن چھوڑ دو، اور شیر دل جوانوں کی طرح ہو جاؤ“

یہ اشعار شیخ محمد حسین کے مکتوبات میں سے لکھے گئے۔ لیکن اب "فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کا "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" کے ساتھ کیا واسطہ ہے اور اس کے کیا ثمرات ہیں، اس کے متعلق کیا معلومات ہیں۔

تشریح:

اصل میں یہ مضمون چوں کہ آپس میں بہت زیادہ مربوط تھا، یعنی ہر حصے کا دوسرے حصے کے ساتھ تعلق تھا، جس کی وجہ سے لفظ با لفظ اس کی تشریح ممکن نہیں تھی، اس لئے پہلے اس پورے مضمون کو پڑھا گیا ہے تاکہ پہلے مفہوم سمجھ میں آ جائے کہ حضرت کیا کہنا چاہتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اس پر بات ہو سکتی ہے۔

حضرت نے ایمان سے بات شروع کی ہے۔ ایمان کی تعریف ہے: ’’اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ یعنی انسان زبان سے اقرار کرے اور دل سے اس کی تصدیق کرے۔ اگر دل سے تصدیق نہ ہو اور زبان کے ساتھ اقرار ہو، تو یہ منافقت ہے۔ اور اگر (تصدیقِ قلب اور اقرار) دونوں ہی نہ ہوں، تو یہ ظاہری کفر ہے یعنی واضح کفر ہے۔ کیوں کہ کفر تو دل سے ہی ہوتا ہے، منافق بھی کافر ہوتا ہے، بلکہ کافر کے درجہ سے بھی آگے ہوتا ہے۔ منافق کو چوں کہ اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ کفر کو ظاہر کر سکے، اس لئے وہ اپنے کفر کو چھپا کے رکھتا ہے، اسی لئے اس کو منافق کہا جاتا ہے۔

حضرت شیخ عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عوام کے لئے تو ایمان کی تعریف یہی ہے، لیکن جو بڑے لوگ ہوتے ہیں یعنی جو اللہ والے ہوتے ہیں، جن پر اللہ جل شانہ نے اپنی معرفت کو کھولا ہوتا ہے، ان کا ایمان دوسری طرح ہوتا ہے۔ عام لوگ اس کے مکلف نہیں ہوتے، اس لئے عام لوگوں سے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہے۔ لیکن جن لوگوں کو اللہ وہ مقام عطا فرمائے، تو ان کے ساتھ پھر وہی معاملہ کیا جاتا ہے۔ باقی لوگوں کا معاملہ الگ ہوتا ہے اور ان کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔

اس وقت مجھے دو باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک اپنے شیخ کی اور دوسری حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کی۔ ہمارے شیخ مولانا محمد اشرف سلیمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اونچا درجہ عطا فرمایا تھا۔ اس دور میں اللہ نے ان کو جو مقام نصیب فرمایا تھا، ہم لوگ اس کو سمجھا ہی نہیں سکتے۔ ہم اس معاملے میں معذور ہیں۔ ایک مرتبہ میں حضرت کے پاس بیٹھا ہوا تھا، پروفیسر ’’مُغنی صاحب‘‘ جو کہ سید بھی تھے، جس کی وجہ سے ہم ان کا خیال رکھتے تھے، وہ فلسفے کے پروفیسر تھے۔ حضرت کے پاس تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان سے بات ہو رہی تھی، اس مجلس میں زیادہ لوگ نہیں تھے۔ میرے خیال میں ہم تین یا چار آدمی تھے۔ حضرت نے پروفیسر صاحب سے ایک موقع پر فرمایا: دوسرے لوگ اگر یہ بات نہ مانیں، تو گناہ گار ہو سکتے ہیں، لیکن اگر میں نہ مانوں، تو میں کافر ہو جاؤں گا۔ پھر فرمایا: پروفیسر صاحب! جہاں پر آپ تشریف فرما ہیں، اسی جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ہمارے پاس نہیں آتے؟ میں نے کہا: حضرت! کیوں نہیں!! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر آ جاؤ۔ اس کے بعد حضرت نے حج کی نیت کی اور بڑے عجیب انداز میں وہاں پہنچ گئے؛ کیوں کہ یہ بالکل آخری وقت تھا اور حج کے داخلہ سے متعلق سارے عوامل (procedure) بند ہو چکے تھے۔ لیکن چوں کہ بلاوا تھا اور صحیح معنوں میں بلاوا تھا، اس لئے اللہ تعالی نے پہنچانا تھا۔

اب اس کے اندر دو باتیں ہیں: ایک تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس طرح فرمانا، یہ ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے، کیوں کہ ہر ایک کے لئے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جس شخص کا ایسا حال ہو، تو کیا اس کا ایمان عام لوگوں کے ایمان کی طرح ہو گا؟ ہرگز نہیں، کیوں کہ حضرت نے خود ہی فرمایا: اگر میں نہ مانوں، تو کافر ہو جاؤں گا، جب کہ دوسرے لوگ اس کی وجہ سے کافر نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت کا جیسا مقام تھا، تو اسی مقام کے حساب سے ان سے مطالبہ تھا۔

دوسرا واقعہ مجھے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا ذہن میں آ رہا ہے کہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جب فوت ہو گئے، تو کسی نے ان کو خواب میں دیکھا۔ اس نے پوچھا کہ حضرت! آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ حضرت نے فرمایا: اللہ پاک نے مجھ سے پوچھا کہ میرے لئے دنیا سے کیا لائے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ یا اللہ! توحید لایا ہوں۔ اللہ پاک نے فرمایا: تم دودھ والی رات بھول گئے؟ دودھ والی رات کا واقعہ اس طرح تھا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے دودھ پیا، جس کی وجہ سے پیٹ میں درد ہو گیا تھا۔ کسی نے پوچھا: حضرت! کیا حال ہے؟ حضرت نے فرمایا: دودھ پیا تھا، جس کی وجہ سے پیٹ میں درد ہو گیا۔ اس بات پر گرفت ہو گئی کہ ایسا کیوں کہا کہ دودھ پی لیا تھا، جس کی وجہ سے پیٹ میں درد ہو گیا۔

اب ظاہر ہے کہ ایسی بات پر عام لوگوں کی تو گرفت نہیں ہوتی، کیوں کہ عام لوگوں کا معاملہ الگ ہے۔ ان کی range (پہنچ) ہی اتنی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر میٹرک کے طالبِ علم سے electron, proton کے بارے میں پوچھا جائے، تو سوال ان کے level (درجے) کے حساب سے ہو گا اور اگر ایم ایس سی کے طالبِ علم سے electron, proton (الیکٹرون اور پروٹون) کے بارے میں پوچھا جائے گا، تو اس سے اس کی سطح کے مطابق سوال ہو گا۔ میٹرک کا سٹوڈنٹ اگر جواب میں کہہ دے کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرہ ہے، تو اس کا جواب قبول کیا جائے گا اور اگر ایم ایس سی کا سٹوڈنٹ یہ بات کہے گا، تو وہ فیل ہو جائے گا۔ پس جس طرح دنیاوی اشیاء کی معرفت میں ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے، اس مقام کے حساب سے اس سے پوچھا جاتا ہے اور اس کی بات کو پرکھا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا بھی ہر ایک کے ساتھ اپنا معاملہ ہے اور یہ معاملہ ہر ایک کی اپنی معرفت کی شان کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو جتنی اللہ کی معرفت حاصل ہے، اس کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ ہوتا ہے، اس کا مقام بھی اسی کے حساب سے ہوتا ہے اور اس مقام کے مطابق پھر اس سے مطالبہ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا:

متن:

لیکن ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی حقیقت نورانیت کے کمال کی دوسری قسم ہے۔ اور ایمان کی یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر حقیقی طور پر ایمان لانا ہے۔

تشریح:

کیوں کہ ایمان کی یہ کیفیت حقیقی طور پر ایمان ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی عمل کریں گے، تو آپ اس عمل کا ظاہر حاصل کر لیں گے، لیکن اس عمل کی حقیقت آپ پر اس وقت کھلے گی، جب آپ اس عمل کے اونچے درجہ پر پہنچیں گے۔ جب تک آپ اس چھت سے اوپر نہیں جائیں گے، تو آپ پر چھت سے اوپر کی چیزیں نہیں کھل سکتیں۔ چھت کی اوپر کی چیزیں اس وقت کھلیں گی، جب آپ ادھر سے اوپر جائیں گے۔ اس سے پہلے پہلے آپ جو چیزیں طے کر چکے ہوں گے، صرف انہی کی حقیقت آپ کے اوپر کھل سکتی ہے۔ اسی طریقے سے جو شخص جتنا آگے بڑھتا ہے، اس پر حقیقت کھلتی جاتی ہے۔ ایمان کے درجات کے حساب سے جو لوگ جتنا آگے بڑھتے ہیں، ان پر اتنی ایمان کی حقیقت کھلتی جاتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ پر حقیقی طور پر ایمان لانا ہے۔

متن:

جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کہ جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلے، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔

تشریح:

ان الفاظ کو بعض لوگ حدیث شریف قرار دیتے ہیں، لیکن یہ حدیث شریف نہیں ہے، بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اللہ جل شانہ نے علومِ باطنیہ کا بہت بڑا ذریعہ بنایا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ باقی صحابہ کو یہ علوم نہیں دیے گئے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقامِ صدق حاصل ہے اور یہ امت میں انتہائی مقام ہے۔ جب ان کو صدق کا مقام حاصل ہو گیا، تو لازمًا ان کو باقی ساری چیزیں بھی حاصل تھیں۔ لیکن علومِ باطنیہ کی تشریحات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہیں اور دوسرے لوگوں کے لئے ذریعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے (مستدرک للحاکم، حدیث نمبر: 4637)۔ اللہ پاک نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دروازہ بنایا ہے، اس لئے ایسی چیزوں کی تشریحات زیادہ تر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں۔ نیز تصوف کے چاروں سلسلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے پہنچے ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ نقشبندی سلسلہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے پہنچتا ہے، یہ بات ٹھیک ہے، لیکن باقاعدہ بیعت کے طریقے سے نقشبندی سلسلہ بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے پہنچتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ درمیان میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو چوں کہ شیخ حقانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی خلافت ملی تھی، اس لئے یہ چیز نقشبندی سلسلہ کے لئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نسبت کا سبب بن گئی۔ گویا کہ یہ اضافی تعلق ہے، بنیادی تعلق حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے ہے۔ پس سلسلے جتنے بھی ہیں، وہ سب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے پہنچتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اضافی تعلق نقشبندی سلسلہ کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاصل ہے۔ لیکن یہ اضافی تعلق اتنا زیادہ مشہور ہو گیا کہ جو بنیادی بات ہے، وہ گم ہو گئی۔ ہمارے شجرہ میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ اگر کوئی شخص جاننا چاہے، تو اس میں پوری تفصیل پڑھی جا سکتی ہے۔

پس جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرے گا، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک بھی رسائی حاصل کر لے گا۔ اللہ جل شانہ نے نفس کو پوری کائنات کا خلاصہ بنایا ہے، یعنی نفس ایسی چیز ہے کہ جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ پاک نے انسان کے اندر یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے، لیکن نفس بھی اس کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اگر انسان اس کا خیال نہیں کرے گا اور اس کو ضائع کرے گا، تو پھر شیطان سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ اب اتنی متضاد الاحوال چیز کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اس لئے نفس کی معرفت کوئی آسان بات نہیں ہے۔ جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرے گا، تو نفس کی معرفت حاصل کرنے کے ساتھ تقویٰ جڑا ہوا ہے یعنی انسان نفس کی جس خواہش کو چھوڑے گا، تو اس کی بقدر اس کو تقویٰ حاصل ہو جائے گا۔ اس لئے نفس کی معرفت سے تقویٰ حاصل ہو سکتا ہے۔ جو شخص نفس کی پہچان نہیں رکھتا، تو وہ اس سے کیسے بچے گا؟ مثال کے طور پر نفس کا کوئی ایسا کید (فریب) ہے، جو کسی شخص کو سمجھ نہیں آ سکا، تو وہ شخص اس میں مبتلا ہو جائے گا۔ جو شخص نفس کے داؤ میں مبتلا نہیں ہوتا، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نفس کے کید (فریب) کو سمجھ چکا ہے اور یہی معرفت ہے۔ جتنے مکائدِ نفسانی ہیں، وہ سب نفس کے Trapes (جال) ہیں۔ اب جو شخص ان سے بچے گا، تو ظاہر ہے کہ اس کو نفس کی معرفت حاصل ہے۔ اس لئے نفس کے جتنے مکائد ہیں، نفس کے جتنے جال ہیں اور نفس کی جتنی خواہشات ہیں، ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ پس جو شخص جتنا خواہشات سے بچتا ہے، وہ اس کے بقدر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو جاتا ہے، اس کے بقدر اس کا فہم صحیح ہو جاتا ہے اور اس کے بقدر اس کا ادراک بڑھتا ہے۔

دیکھیں! اللہ بڑے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے، کوئی مانے یا نہ مانے۔ جو شخص نہیں مانتا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا تو کوئی شخص نقصان نہیں کر سکتا۔ جو شخص اس حقیقت کو مانتا ہے، تو وہ صحیح بات مانتا ہے اور جو شخص نہیں مانتا، تو اپنا ہی نقصان کر رہا ہے۔ لیکن جب تک نفس درمیان میں موجود ہے، تو یہ کسی کو اللہ کی بڑائی ماننے کے لئے نہیں چھوڑتا۔ ایک طرف میرے نفس کی خواہش ہے اور دوسری طرف اللہ کی بات ہے، اب اگر میں نفس کی خواہش مانتا ہوں، تو کیا میرے ذہن میں اللہ کی بڑائی کا ادراک ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چیز کو بالکل واضح کرنے کے لئے ارشاد فرمایا: اے معاذ! اگر ساری مخلوق مل کر تجھے ایک چیز دینا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو، تو وہ چیز تجھے نہیں مل سکتی اور اگر ساری مخلوق تجھے ایک چیز سے محروم کرنا چاہے اور اللہ کا ارادہ نہ ہو، تو وہ تجھے اس چیز سے محروم نہیں کر سکتی۔ یہ معرفت ہے۔ اور یہ معرفتِ علمی ہے۔ جب یہ معرفتِ علمی معرفتِ حالی بن جائے، تو پھر وہ ایمان کی حقیقت ہو گی۔ اب ایمان کی تعریف کا پتا چلا کہ حقیقتِ ایمان کیا ہے اور ایمان کی تعریف کیا ہے؟ اصل میں فرق اسی چیز کا ہوتا ہے کہ ایمان سب کا ہے، لیکن حقیقی ایمان سب کا نہیں ہے۔ ایمان کی حقیقت جس پر جتنی کھلی ہے، وہ ایمان کے اندر آگے بڑھتا ہے، اتنا اس کے عمل میں اثر بڑھتا ہے، اتنا اس کا ادراک بڑھتا ہے اور اتنی اس کو اللہ کی پہچان نصیب ہوتی ہے جو کہ معرفتِ الہٰی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ نفس کی معرفت، نفس کے جالوں کی معرفت ہے، نفس کے مکائد کی معرفت ہے اور ان سے بچنے کی معرفت ہے کہ کیسے نفس کے مکائد سے بچیں گے؟ جتنا انسان ان چیزوں میں بڑھتا ہے، اتنا وہ اللہ پاک کی پہچان کو حاصل کرتا رہتا ہے اور رکاوٹیں عبور ہوتی رہیں گی، نتیجۃً جتنا کسی نے اپنے نفس کو پچھاڑا اور جتنا اس نے اپنے نفس سے اپنے آپ کو محفوظ کیا، اتنا وہ اللہ کا عارف بن گیا۔ یہ بنیادی بات ہے۔ اس لئے فرمایا: ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، تو اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

متن:

جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلے، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اے بھائی! معاف فرمائیں اور مجھ کو معذور سمجھیں جب آپ معرفت کی ابتدا تک پہنچ جائیں گے تو معرفت کی شراب سے مست ہو جائیں گے

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ معرفت کے سمندر میں تیرا قدم پڑتے ہی تجھ پر جو مستی کی کیفیت طاری ہو گی، اس کو برداشت کرنا پڑے گا، اگرچہ اس کا برداشت کرنا آسان نہیں ہو گا۔

متن:

اور اس مستی کے عالم میں اپنے منتہیٰ کے انتہا تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد اپنے نفس کی معرفت حاصل کریں گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" یہی حقیقت آپ کے احوال کی تجلیات ہو جائیں گی۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ معرفت کی وجہ سے تیرا بول مختلف، تیرا سننا مختلف، تیری سوچ، غرض تیری ہر چیز مختلف ہوتی جائے گی اور اس کے اندر نورانیت آنا شروع ہو جائے گی۔

مرد حقانی کی پیشانی کا نور

کب چھپا رہتا ہے پیشِ ذی شعور

یعنی مرد حقانی کے اندر جو کچھ ہوتا ہے، وہ اس کے ماتھے سے ظاہر ہو جاتا ہے ان لوگوں کے سامنے جو ان چیزوں کی پہچان رکھتے ہیں۔ ان کو پتا چل جاتا ہے کہ یہ شخص کیا ہے؟ عام لوگوں کو اس کا پتا نہیں چلتا، لیکن جو لوگ اس راستے کے شہسوار ہوتے ہیں، ان کو اس کا پتہ چل جاتا ہے۔

متن:

شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر ایک نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبۃ: 128) اور "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا۔

تشریح:

یہاں پر آیت اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کو ذرا ملا کر پڑھیں، تو ایک نکتہ معلوم ہو گا۔ ظاہر ہے کہ نکتے الگ ہوتے ہیں اور تفسیر الگ ہوتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے، جو مفسرین حضرات کو معلوم ہوتی ہے کہ نکتہ الگ ہوتا ہے اور تفسیر الگ ہوتی ہے۔ آیت کے ظاہری معنوں کو واضح کرنا تفسیر کہلاتا ہے، جب کہ آیات کا آپس میں جو ربط بنتا ہے اور ایک بات سے جو دوسری بات نکلتی ہے، وہ نکتے ہوتے ہیں۔

یہاں پر فرماتے ہیں کہ اس میں نکتہ ہے کہ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا۔ اور آیت ہے: ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ﴾ (التوبہ: 128) ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" میں بھی نفس کی بات ہے اور قرآن کی آیت میں بھی نفس کی بات ہے۔ اس سے کیا بات نکلتی ہے؟ حضرت نے فرمایا: آیت میں نفس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسِ مقدسہ ہے یعنی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ یعنی اس سے یہ نکتہ نکلتا ہے۔

متن:

اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ" یعنی جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس مقدسہ کی معرفت حاصل کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔

تشریح:

صحیح بات ہے کہ میں الفاظ میں اس کی تشریح نہیں کر سکتا۔ لیکن میرا وجدان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ بات وہی ہے، جو میں آپ کو بتاؤں گا۔ زبان دل کی باتیں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی، لیکن میں کوشش کرتا ہے۔

ایک دفعہ میں کسی صاحب سے عرض کر رہا تھا کہ امت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شفقت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے جو روئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر بات سمجھانے کی جو پوری کوشش فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لئے جو ہر وقت متفکر رہتے تھے اور رہتے ہیں اور قیامت کے دن بھی متفکر ہوں گے، جب کہ باقی پیغمبر نفسی نفسی پکاریں گے، سارے لوگ نفسی نفسی کہیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امتی امتی پکاریں گے، ان ساری باتوں سے ہمارا رخ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو مقامِ اطہر ہے، وہ ہم سمجھ سکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمارے اوپر جو احسانات ہیں، وہ ہم یاد رکھ سکیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا حق ادا کر سکیں۔ یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن تھوڑا سا غور کر کے ذرا آگے جائیں اور یہ سوچیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر اپنی امت کے لئے شفقت و محبت اور امت کے لئے کڑھن اور امت کی فکر؛ یہ تمام چیزیں کس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر رکھی ہیں، تو پھر پتا چلے گا کہ ہمارے ساتھ اصل محبت اللہ کی ہے۔ اللہ اپنی مخلوق کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتا ہے اور مخلوق پر بہت مہربان ہے۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کا ذریعہ بنایا گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ پاک کی صفتِ ہادی کے مظہر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندر رحمت اور کریمیت کا جو پہلو ہے، وہ اللہ جل شانہ کے کریم ہونے اور رحیم ہونے کی وجہ سے ہے۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جتنی صفات ہیں، وہ سب اللہ پاک نے پیدا فرمائی ہیں، اس لئے یقیناً یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف جائے گی۔ لہذا اگر کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہے، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں پہچانا۔ جو شخص جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان حاصل کرے گا، وہ اصل میں اللہ کی پہچان حاصل کر رہا ہو گا۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس کا دعویٰ نہیں کرتا کہ میں اس بات کو صحیح طور پر سمجھا سکوں گا، لیکن میرا وجدان بتاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ذریعے سے ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو جان سکتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اگر ہمیں محبت ہوتی ہے، (اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے) تو یہ محبت ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف لے جائے گی۔ جتنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہماری محبت کامل ہو گی، اتنی اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہماری محبت کامل ہو گی۔ جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گیا اور آگے اللہ تک نہ پہنچ سکا، تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل نہیں ہو گی اور بقول حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ اپنی ذات کا عاشق ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق ہوتا، تو وہ وہاں جاتا جس طرف ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے جا رہے ہیں۔ یہ جو یہاں رک گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے نفس میں پھنس گیا، اس لئے یہ شخص اپنے آپ کا عاشق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق نہیں ہے۔

دوسری طرف اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور توحید کا اقرار کرتا ہے، لیکن اللہ جل شانہ کے اس نظام کو نہیں مانتا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، تو اس کی معرفت بھی کامل نہیں ہے۔ اس نے بھی اللہ کو نہیں پہچانا۔ اگر یہ شخص اللہ تعالیٰ کو پہچانتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی پہچانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کون سا مقام دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گریز اللہ جل شانہ کی منشا سے گریز ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی منشا سے گریز کرے، تو اس کے پاس کیا رہتا ہے؟ یہی بات ہے کہ دونوں باتوں کا نتیجہ ایک ہے، اگرچہ ترتیب مختلف ہے، چاہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے اللہ کو پہچانو یا اللہ تعالیٰ کی توحید کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانو۔ یہی بات مرزا مظہر جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی جذبی حالت میں کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا:

خدا در انتظارِ حمدِ ما نیست

محمدﷺ چشم بر راهِ ثنا نیست


محمدﷺ حامدِ حمدِ خدا بس

مناجاتے اگر باید بیاں کرد

به بیتے هم قناعت می تواں کرد

محمد ﷺ از تو می خواهم خدا را

الٰہی از تو عشقِ مصطفیٰ ﷺ را

یعنی خدا تعالیٰ ہماری حمد کی انتظار میں نہیں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درود کے انتظار میں نہیں ہیں۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی جو تعریف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی ہے، وہ اللہ کے لئے کافی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو تعریف کی ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کافی ہے۔ تم اگر اپنا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اللہ پاک سے دعا کرو کہ یا اللہ! مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت عطا فرما دے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرو کہ اے اللہ کے رسول! ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے۔ یہ تم کر سکتے ہو۔ پس اللہ کے رسول کی معرفت اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان باقی ایمانوں کی تکمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہم نے نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا ہے، وہی ہم مانتے ہیں۔ فرشتوں کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا، وہی ہم مانتے ہیں۔ کتابوں کے بارے میں، تقدیر کے بارے میں اور روزِ جزا کے بارے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے، اسی پر ہمارا ایمان ہے۔ یہ سب باتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان سارے ایمانوں کا خلاصہ ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شرابی آدمی آیا، بالکل نشے میں تھا۔ اس وقت تک شراب پر پابندی نہیں لگی تھی۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی میں ایسی چیزیں تو ہوتی تھیں۔ اس آدمی نے حضرت سے پوچھا: مولانا! تجھے اللہ تعالیٰ پر یقین اور ایمان ہے؟ حضرت نے فرمایا: میں مسلمان ہوں، مجھے اللہ پر یقین کیوں نہیں ہو گا؟ اس نے کہا: آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ حضرت نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی دلیل ہیں۔ وہ آدمی اصل میں عقلی چیزوں میں پھنسانا چاہتا تھا، حضرت نے اس سے نقلی بات کر کے عقلی باتوں کا دروازہ بند کر دیا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے فرعون کی بات سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: پہلی قوموں کے حال کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب لَوحِ محفوظ میں ہے۔ بہر حال حضرت نے نقلی دلیل دی۔ اس نے کہا: کیا ایک وحی پر آپ اتنی بڑی حقیقت کو قبول کر سکتے ہیں؟ حضرت کے ساتھ جو لوگ بیٹھے ہوئے تھے، وہ بڑے مشتعل ہوئے کہ یہ کیا بات کر رہا ہے؟ حضرت نے اشارے سے فرمایا کہ جب میں جواب دے رہا ہوں، تو تم لوگ کیوں مشتعل ہوتے ہو؟ حضرت بہت دور تک بات لے گئے، جیسے بات کو اس موضوع سے منقطع کر لیا ہو۔ حضرت نے اس سے پوچھا کہ آپ کے والد کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: والدہ؟ اس نے کہا: والدہ حیات ہیں اور کافی عمر ہو چکی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ کی والدہ تو بڑی سچی عورت ہو گی؟ کیوں کہ پرانی عورتیں بڑی سچی ہوا کرتی ہیں۔ لیکن چوں کہ ایسے عقل پرست لوگ روشن خیال بھی بنتے ہیں، اس لئے اس نے کہا کہ نہیں، نہیں، کبھی اپنے مقصد کے لئے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔ حضرت نے فرمایا: اچھا یہ بتائیں کہ کیا آپ واقعی اسی مرد کے بیٹے ہیں، جس کے بارے میں آپ کی ماں بتاتی ہے؟ وہ پٹھان آدمی تھا، اس نے کہا: مولانا! گالی تو نہ دو۔ اس نے غصہ سے یہ بات کہی۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ نے اتنی بڑی بات کی، میں نے غصہ نہیں کیا، اب آپ بھی غصہ نہیں کریں، بلکہ حقیقت کی بات کریں، ہم بحث کر رہے ہیں۔ آپ نے مجھ سے ایک سوال کیا، تو میں نے بھی آپ سے ایک سوال کیا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا آپ واقعی اس مرد کے بیٹے ہیں، جس کے بارے میں آپ کی ماں کہتی ہے؟ کیوں کہ آپ نے خود کہا ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مقصد کے لئے جھوٹ بھی بول لیتی ہے۔ اس لئے جو تمہاری والدہ ہے اور بقول آپ کے وہ پکی گواہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ وہ جھوٹ بھی بول سکتی ہے، تو تم اس بات پر کیسے یقین کر سکتے ہو کہ تم اس مرد کے بیٹے ہو؟ پھر حضرت نے نرمی سے سمجھایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ایسے شخص تھے کہ کوئی کافر بھی ان کو جھوٹا نہیں سمجھتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دینے سے پہلے ان سے پوچھا تھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر ہمارے اوپر حملہ کرنے والا ہے، تو کیا تم اس بات پر یقین کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں یقین کریں گے، ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دعوت دی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دعوت کی بنیاد اپنی زندگی کے ماضی کو بنایا۔ لہذا اصل بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہو گی۔ اس لئے فرمایا:

متن:

مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" یعنی جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس مقدسہ کی معرفت حاصل کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔ یہ حقیقت اس معنیٰ اور مفہوم کی طرف جلوہ گری کرتی ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے ابیات:

؎ گر گزر یابی ز نفس و جان و جسم و جان

آشنا گردی یقین با جانِ جان

جانِ جان ہم پرتو است از ذاتِ او

کس نہ بیند جز بداں مرآت او

”اگر تم نفس و جان اور جسم و جان سے گزر سکو، (یعنی اگر تم اپنے نفس کو دباؤ، اس کی خواہشات سے اپنے آپ کو بچا سکو، اس کے جال میں نہ پھنسو اور اس راہ کی جو رکاوٹیں ہیں، ان سے اپنے آپ کو بچا لو) تو جانِ جان سے واقف ہو جاؤ گے۔ جانِ جان بھی اس کی ذات اقدس کی ایک پرتو ہے۔ اس شیشے کے بغیر کوئی اس کو نہیں دیکھ پاتا“ سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: "طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِيْ" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 22138)

تشریح:

جانِ جاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس تم پہلے اپنے نفس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ یہ سلبی طریقہ ہے۔ سلبی طریقہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفس سے پیچھا چھڑاؤ، جو تمھیں نیچے کی طرف کھینچ رہا ہے۔ پہلے اس سے اپنے آپ کو چھڑاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلبی طریقہ سے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ہے، اس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کر لو۔ اس طرح دونوں باتیں صحیح ہو گئیں۔ ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ اپنے نفس کے اعتبار سے درست ہو گیا اور ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعتبار سے درست ہو گیا۔ فرق صرف سلبی اور جلبی طریقے کا ہے۔ (الحمد للہ یہ علم ابھی اترا ہے)۔ پس فرق سلبی اور جلبی طریقہ کا ہے کہ اپنے لحاظ سے سلبی طریقہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لحاظ سے جلبی طریقہ ہے۔ ان دونوں طریقوں کا نتیجہ کیا ہو گا؟ نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کر لو گے۔

تصوف میں تین مقامات ’’فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ‘‘ جو بتائے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ فنا فی الشیخ کے ذریعے سے اپنے نفس سے رہائی حاصل کر لو، کیوں کہ شیخ سامنے ہے، اس کی محبت کے ذریعے سے اپنے نفس کے جال سے بچو گے۔ اس لئے کوئی ایک شخص ایسا ہونا چاہئے کہ جس کے سامنے تم اپنی خواہشات کو قربان کر سکو۔ جب وہ کہے کہ تم نے سگریٹ نہیں پینا، تو تم بھی کہو کہ ہاں، اب میں نے سگریٹ نہیں پینا۔ جب وہ کہے کہ تم نے دو گھنٹے کم سونا ہے، تو تم اپنی نیند دو گھنٹے کم کر دو۔ یہ الگ بات ہے کہ شیخ کے پاس اپنی حکمتِ عملی (strategy) ہو گی۔ وہ تمھیں ایک دن میں پہنچانا نہیں چاہے گا، کیوں کہ یہ چیز خلافِ فطرت ہو گی۔ شیخ تمھارے لئے ایک طریقہ کار بنائے گا، جس کو تم آسانی کے ساتھ کر سکو گے اور اس میں فائدہ بھی ہو گا۔ جب تک اپنے شیخ کے بارے میں اپنا یہ ذہن بنا کر رکھو گے کہ میری کامیابی ان کی بات ماننے میں ہے، تو یہی تمھارا ادراک تمھارے لئے نفس کے جال سے نکلنے کا راستہ ہے۔ اس لئے فنا فی الشیخ اپنے نفس سے نکلنے کا راستہ ہے، فنا فی الرسول جلبی طریقہ ہے اور اس کے بعد فنا فی اللہ ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

متن:

طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِيْ" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 22138) ”اس شخص کے لیے خوش نصیبی ہے جس نے مجھے دیکھ لیا“ جب تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفس مبارک کی معرفت حاصل ہو جائے، تو تب معرفت نفس احمدی کی بدولت معرفت حضرت احدی کو حاصل کرو گے۔ اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمزًا اور اشارتًا فرمایا ہے کہ "مَن رَّآنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أقف علی ھذا الجزء من الحدیث) ”جس نے مجھے دیکھا اس نے میرے رب کو دیکھا“

تشریح:

اصل بات یہ ہے کہ واقعۃً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کو دیکھنے کا ایک آئینہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے اندر جو چیزیں اللہ پاک نے رکھی ہیں، ان کے ادراک کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ادراک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جتنا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کا ادراک کرو گے، اتنا تمہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہو گا۔ اس لئے تم اللہ کو اس وقت پہچان سکو گے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانو گے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔

متن:

پس اللہ تعالیٰ کی معرفت یہ ہے کہ اس جگہ "رَآنِيْ" (مجھے دیکھا) اور "فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (اس نے میرے رب کو دیکھا) کے درمیان نکتہ ہے۔ شیخ محمد حسین نے فرمایا کہ اگر میں اس کو ظاہر کرتا تو یہ مجازی اور تقلیدی مسلمان مجھ کو اس کی وجہ سے سنگسار کرتے۔

تشریح:

یہ وہ بات ہے جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمائی تھی۔ میرے پاس دو علم ہیں، ایک علم تو میں نے آپ کو بتا دیا اور اگر دوسرا علم بتا دوں، تو تم مجھے مار دو (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 120)۔

متن:

ان کی نا سمجھی کی وجہ سے میں نے اس کا اظہار چھوڑ دیا۔

تشریح:

بزرگوں سے منسوب ایسے اقوال کے اصل مفہوم تک رسائی کے لئے ہمیں کچھ تمہید اور تشریح کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ آج کل کے دور کی ضرورت ہے۔ ورنہ آج کل کے لوگ ان مبادی امور کو نہ جاننے کی وجہ سے کچھ کا کچھ سمجھ لینگے۔

آگے فرمایا:

متن:

لیکن برادرانِ اسلام! یہ بات جان رکھیں کہ جو کوئی خود شناس نہ ہو یعنی اپنے آپ کو نہ پہچانے، وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا پہچانے گا؟

تشریح:

وہی پہلی بات دوبارہ آ گئی۔

متن:

کس طرح عارف بنے گا؟ اور محبوب کی معرفت اس کو کیسے حاصل ہوگی؟ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْ﴾ (الفتح: 10) ”تحقیق جو لوگ بیعت کرتے ہیں تجھ سے، وہ بیعت کرتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر اُن کے ہاتھ کے۔

تشریح:

در اصل تھوڑے تھوڑے رمزیہ اشارے موجود ہوتے ہیں، افسوس کہ ہم لوگ ان میں غور نہیں کرتے، بلکہ جلدی مچاتے ہیں۔ حدیث قدسی میں ہے: اللہ پاک قیامت کے دن کسی سے پوچھیں گے کہ میں بیمار تھا، تو نے میری عیادت نہیں کی۔ میں بھوکا تھا، تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ انسان کہے گا کہ یا اللہ! آپ کیسے بیمار ہو سکتے ہیں؟ اور آپ کیسے بھوکے ہو سکتے ہیں؟ آپ تو خالق ہیں۔ آپ تو سب چیزوں کے مالک ہیں۔ اللہ پاک فرمائیں گے: فلاں میرا بندہ بھوکا تھا، اگر تو اس کو کھانا کھلا دیتا، تو تُو مجھے وہاں پاتا۔ فلاں میرا بندہ بیمار تھا، اگر تُو اس کی عیادت کرتا، تو مجھے وہاں پا لیتا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ منشاء الہیٰ کی معرفت اللہ کی معرفت ہے۔ جب منشاء الہٰی کی معرفت اللہ کی معرفت ہے، تو مجھے بتائیے کہ منشاء الہٰی کون سمجھائے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھائیں گے۔ دوسرا تو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ اس لئے صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت ہو سکتی ہے۔ آگے فرمایا:

متن:

بیعت کی حقیقت تم پر جلوہ افروز ہو گی۔ اور بیعت کی اس نعمت عظمیٰ کے بعد ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (المائدہ: 3) ”آج میں پورا کر چکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر احسان اپنا“ کی نعمت سے تمہاری تکمیل ہو گی۔ اس کے بعد ﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ (عمران: 164) ”اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کا“ کے احسان عظیم کے مستحق ہو گے۔ اور اس احسانِ عمیم کا تم پر اتنا زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا جو کہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ