تعلیمات مجددیہ درس 13

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج بدھ کا دن ہے اور بدھ کے دن ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں۔ آج حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کی تعلیمات میں سے ایک اہم نقطہ بیان کیا جا رہا ہے۔ کافی عرصہ سے اس پہ تھوڑی تھوڑی بات ہوتی رہی ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہماری طرح نہیں تھے کہ جو کام خود کر رہے ہیں جذباتیت میں آکر اسی کو اچھا کہیں اور باقیوں کے کام کو کمزور درجہ میں رکھیں، وہ ایسے نہیں تھے، وہ تو ”مجدِّدِ الفِ ثانی“ تھے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہزار برسوں میں جو اتار چڑھاؤ آیا ہے، جو کمی بیشی ہوتی رہی ہے اور دین کے سمجھنے میں جو مسائل پیدا ہوئے ہیں، حضرت ان تمام چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لئے آئے تھے اس لیے وہ خود ایسی چیزوں میں نہیں پھنس سکتے تھے، لہٰذا حضرت نے برملا انداز میں بعض باتیں کی ہیں، کاش اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی سمجھ عطا فرمائے اور ہم لوگ اس قابل ہو جائیں کہ ان باتوں تک پہنچ سکیں، باتیں بڑی سادہ ہیں لیکن بڑی مشکل سے دل میں اترتی ہیں کیونکہ نفس نہیں مان رہا ہوتا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی تھے اور انہوں نے تصوف پر بہت کام کیا ہے۔ تصوف کے بنیادی نتائج اور تصوف کی بنیاد پر حضرت نے جو گفتگو کی ہے وہ بہت اہمیت کی حامل ہے۔
فرمایا: ”اصل شریعت ہے اور تصوف شریعت پر عمل کرنے کا ایک ذریعہ ہے“۔
شریعت کے علم کو بڑی فوقیت حاصل ہے کیونکہ وہ علم ہماری طرف سے نہیں آیا بلکہ انبیاء کرام علیھم السلام کی طرف سے آیا ہے اور انبیاء کرام علیھم السلام کے پاس روح القدس کے ذریعے اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یہ سب بہت ہی محفوظ سلسلے ہیں۔ جب کہ اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کو جو معارف حاصل ہوتے ہیں وہ کشف اور الہام کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، کشف اور الہام مکمل طور پر محفوظ نہیں ہوتے، ان میں بہت سی باتیں صحیح بھی ہوتی ہیں اور کچھ غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، ایسی چیزوں کو ظنی کہا جاتا ہے۔ ہم ظنی چیز کی بنیاد پر قطعی چیز کو نہیں پرکھ سکتے بلکہ قطعی چیز کی بنیاد پر ظنی کو پرکھا جاتا ہے۔ لہٰذا جو کشف اور الہام ان قطعی چیزوں کے ساتھ ٹکرائے گا اس کو قبول نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ظنی چیزیں یعنی الہامات، کشف، اور معارف فضول چیزیں ہیں۔ پھر وہ کون سی چیز ہے جس کے لئے ان پر محنت کرنی ہوتی ہے اور وہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے ان کو شرعی چیزوں سے اوپر نہیں سمجھنا چاہیے، یہ بات سمجھانا بہت مشکل کام تھا۔ جو چیزیں ہم لوگ علمی طور پر جانتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف آئی سے ہیں اور ہمارے پاس علم کے ذریعے سے آئی ہیں، ہم نے انہیں خود نہیں دیکھا، ہمیں ان کا علم الیقین ہے، یہ علم ہمیں استدلالی طور پر حاصل ہوا ہے، لیکن حضرات اکابر نے جو کشف و الہام سے علوم و معارف حاصل کئے وہ وہی تھے جو قرآن و حدیث نے ہمیں بتائے ہیں اس طرح ان کو شریعت کے بارے میں عین الیقین حاصل ہو گیا ہے۔ عین الیقین علم الیقین سے اونچا درجہ ہے، عین الیقین سے اگلا درجہ حق الیقین ہوتا ہے۔ اس استدلالی علم یعنی علم الیقین سے عین الیقین اور حق الیقین کی طرف جانا تصوف کے ذریعے ہی ممکن ہے، عارفین اسی کی کوشش کرتے ہیں اور یہی چیزیں پاتے ہیں، وہ کوئی نئی چیز نہیں پاتے، پس ان کو جو معرفت حاصل ہوتی ہے اس پر انہیں ایسے یقین ہو جاتا ہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یقین تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ ﷺ کو دیکھ رہے تھے جبکہ ہم آپ ﷺ کو نہیں دیکھ رہے، صحابہ کرام کو آپ ﷺ کی زیارت کی وجہ سے جیسا یقین تھا ہمیں بھی وہ یقین تصوف کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے۔
گویا کہ دو باتیں ہمارے سامنے آ گئیں۔ ایک تو یہ کہ اصل اور بنیاد یہ ہے کہ شریعت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ہم شرعی باتوں کو کم نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اور حضور ﷺ کی طرف سے ہیں۔ لیکن وہ معارف جن کے ذریعے شرعی چیزوں کی تائید و تصدیق قلبی طور پر اور شرحِ صدر کے ساتھ ہوتی ہے، وہ یقیناً قابل قدر ہیں اور ان کی وجہ سے ایسے شخص کے عمل میں بڑی قوت آ جاتی ہے، اس کی نماز عام لوگوں سے مختلف ہوتی ہے، اسے کیفیت احسان حاصل ہوتی ہے، اسے عبادت کرتے ہوئے ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّكَ تَرَاہُ“ کی کیفیت حاصل ہوتی ہے۔
کس کو پتا نہیں کہ اللہ پاک ہے، سب کو پتا ہے لیکن یہ علم الیقین ہے، جس وقت آپ کو عبادت میں ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَأَنَّكَ تَرَاہُ“ کی کیفیت حاصل ہو جائے تو یہ تقریباً عین الیقین ہے کہ جیسے آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں تو اس سے آپ کے علم اور عمل میں یقیناً فرق آئے گا۔ جب آپ کا یہ تصور پختہ (concept) ہو گا کہ آپ اللہ کو دیکھ رہے ہیں تو ذرا سوچیں کہ پھر آپ کیسے کام کریں گے، پھر آپ نماز کیسے پڑھیں گے، روزہ کیسے رکھیں گے، حج کیسے کریں گے، یقیناً کیفیتِ احسان کے حصول کے بعد ان تمام اعمال کی کیفیت بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہو گی۔
آج کل ہم نے روزہ رکھا ہوتا ہے اور غیبتیں کر رہے ہوتے ہیں، جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، کاروبار میں دھوکہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اللہ پاک کے دیکھنے پر یقین نہیں ہے، یقین ضرور ہے لیکن وہ علم الیقین ہے، عین الیقین یا حق الیقین نہیں ہے۔ علم الیقین اتنا طاقتور نہیں ہوتا کہ ہم سے عمل کروا دے، اس کے لئے عین الیقین کی طرف جانا پڑتا ہے اور وہ تصوف سے حاصل ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات تو بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ تصوف فضول چیز نہیں ہے لیکن تصوف کی بنیاد پر آپ قرآن و حدیث کی بات تبدیل نہیں کر سکتے، تصوف کی قدر اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ اس سے شرعی اعمال پر مداومت اور ترقی حاصل ہوتی ہے۔
یہ بنیادی بات تھی جس کا لب لباب میں نے آپ کو بتایا ہے، میں نے ذرا منتشر انداز میں یہ باتیں کی ہیں، اب حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت نے یہ باتیں کس انداز میں کی ہیں۔
چار شرعی دلائل:
مکتوب نمبر 55 دفتر دوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
احکامِ شرعیہ کے اثبات میں صرف کتاب و سنت ہی کا اعتبار ہے اور مجتہدوں کا قیاس اور اجماع امت۔
تشریح:
مجتہدین سے مراد امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیھم ہیں۔
قرآن، سنت، اجماع اور قیاسِ مجتہد۔ یہ چار شرعی دلائل ہیں۔ شریعت کی کوئی بھی بات ان چار دلائل کی بنیاد پر ثابت ہوتی ہے۔ اگر قرآن سے ثابت ہو گئی تو سبحان اللہ! اگر حدیث سے ثابت ہو گئی تو بالکل ٹھیک، اگر اجماع سے ثابت ہو گئی تو بھی صحیح، اور اگر قیاسِ مجتہد سے ثابت ہو گئی تو بھی درست۔ یہ چار دلائل ہیں۔
متن:
ان چار شرعی دلیلوں کے سوا اور کوئی دلیل ایسی نہیں جو احکام شرعیہ کو ثابت کر سکے۔ (اولیاء کا) الہام کسی چیز کی حلت و حرمت کو ثابت نہیں کرتا۔
تشریح:
یہ وہی بات ہے جو میں نے آغاز میں عرض کی کہ اولیاء اللہ کا الہام کسی چیز کی حلت و حرمت کو ثابت نہیں کرتا۔
متن:
اور اہلِ باطن کا کشف کسی چیز کے فرض یا سنت ہونے کا اثبات نہیں کرتا۔
تشریح:
توجہ فرمائیں کہ حضرت کیسے زبردست طریقے سے فرما رہے ہیں۔
متن:
اور اہل باطن کا کشف کسی چیز کے فرض یا سنت ہونے کا اثبات نہیں کرتا۔ احکامِ اجتہادیہ میں مجتہدین کرام کی تقلید کرنے میں ولایتِ خاصہ والے حضرات عام مومنین کے برابر ہیں۔
تشریح:
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی پر عمل کرتے تھے، ہم بھی اسی پر عمل کرتے ہیں، کوئی فرق نہیں۔ نماز انہوں نے بھی پڑھی تھی اور نماز ہم نے بھی پڑھنی ہے، پانچ نمازیں ان پر بھی فرض تھیں اور پانچ نماز ہم پر بھی فرض ہیں، جس طرح نماز پڑھنے کا حکم ان کو تھا اسی طرح نماز پڑھنے کا حکم ہمیں بھی ہے، اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
متن:
ان کے کُشُوف و الہامات ان کو فضیلت نہیں بخشتے اور تقلید سے باہر نہیں نکالتے۔ حضرت ذو النون (مصری)، (بایزید) بسطامی، جنید (بغدادی)، اور شیخ شبلی (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) احکامِ اجتہادیہ میں عام مومنین زید، عمرو، بکر اور خالد وغیرہ کے ساتھ مجتہدین کی تقلید کرنے میں مساوی ہیں۔ ہاں ان بزرگواروں کی بزرگی دوسرے امور میں ہے۔
تشریح:
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ ہیں لیکن حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے صوفی شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مقلد ہیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی حضرت سِرّی سُقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید ہیں۔ یہ ہے specialization (کسی شعبے میں تخصُّص) کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ایک صوفی سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ ہیں اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کر رہے ہیں لیکن خود امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جایا کرتے تھے جو بالکل ان پڑھ تھے۔ یہ ذرا سمجھنے کی باتیں ہیں۔ کسی نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: حضرت آپ تو اپنے وقت کے امام ہیں اور یہ ان پڑھ، پھر آپ ان کی مجلس میں کیوں جاتے ہیں؟ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا میں کیوں نہ جاؤں، ہر شخص اپنے فائدے کے لئے جاتا ہے اور میرا فائدہ اسی میں ہے کہ جب میں ان کی مجلس میں جاتا ہوں تو مجھے عمل کی توفیق ہو جاتی ہے۔ ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے فرمایا: میں عالم بالقرآن ہوں اور یہ عارف باللہ ہے۔
اب ظاہراً علماء کا اتنا بڑا مقام ہے لیکن دیکھیے وہ عارفین کی اتنی قدر دانی فرما رہے ہیں، دوسری طرف اتنے بڑے بڑے عارفین ہیں مگر شرعی مسائل میں ایک عالمِ ظاہر کے مقلد ہیں۔ یہ حضرات ہماری طرح جھگڑنے والے نہیں تھے کہ میں سب سے بڑا، میں سب سے بڑا۔ ان میں یہ والی باتیں نہیں تھیں۔ ہمیں یہ چیز سیکھنی پڑے گی۔
قرآن مجید تمام احکامِ شرعیہ کا جامع ہے۔
مکتوب نمبر 55 دفتر دوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
(واضح ہو کہ) قرآن مجید تمام احکامِ شرعیّہ کا جامع ہے بلکہ تمام سابقہ شریعتوں کا بھی جامع ہے مختصر یہ کہ اس شریعت کے بعض احکام اس قسم کے ہیں جو (خود قرآن مجید کی) عبارت النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاء النص سے سمجھے جا سکتے ہیں اور اہلِ لغت میں سے عوام و خواص سب ان کے سمجھنے میں برابر ہیں۔
اور دوسری قسم کے احکام وہ ہیں جو اجتہاد و استنباط کے ذریعے مفہوم ہوتے ہیں ان کا سمجھنا ائمہ مجتہدین کے ساتھ مخصوص ہے جن میں بقولِ جمہور اوّل آں سرور علیہ الصلوۃ والسلام ہیں بعد ازاں آں سرور علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور آپ ﷺ کی امت کے تمام مجتہدین ہیں لیکن آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جو وحی کا زمانہ تھا، احکامِ اجتہادیہ میں خطا و صواب کے درمیان تردُّد نہ رہتا تھا بلکہ وحی قطعی کے ساتھ حق باطل سے اور صواب خطا سے الگ اور مُتَمَیِّز ہو جاتا تھا کیونکہ خطا پر نبی کو ثابت اور برقرار رکھنا جائز نہیں ہے، بر خلاف ان احکام کے جو زمانہ وحی کے ختم ہونے کے بعد مجتہدین کے استنباط کے طریق پر حاصل ہوئے ہیں کہ ان میں صواب و خطا کا احتمال ہے۔
تشریح:
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ”کَلَالہ“ میراث کا ایک موضوع ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ”کلالہ“ کے تعین اور تعریف کے بارے میں بڑی بحثیں ہوتی تھیں۔ مشورے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اس پر میری بھی ایک رائے ہے، اگر ٹھیک ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری طرف سے اور میرے شیطان کی طرف سے ہے۔ ”کلالہ“ کی تعریف یہ ہے: ”مَا خَلَا الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ“۔ ”ایسا مُوْرِثْ جس کے اوپر بھی وارث نہ ہوں اور نیچے بھی وارث نہ ہوں البتہ بہن بھائی ہوں اور ان کی اولاد ہو“ اس کو کلالہ کہتے ہیں۔ یعنی جس مُورِث کے صرف حواشی ہوں، اصول و فروع نہ ہوں، وہ کلالہ کہلاتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت عمدہ تعریف فرمائی، لیکن ساتھ یہ فرما دیا کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور میرے شیطان کی طرف سے ہے۔
ائمہ اربعہ میں سے حضرت امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہما نے کلالہ کی اسی تعریف کو ترجیح دی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کی ہے جبکہ امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما نے دوسری تعریف کو راجح قرار دیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بارے میں کہا: ”اگر مجھے کلالہ کے بارے میں آپ ﷺ سے کچھ پتہ چل جاتا تو سلطنت کے بجائے وہ علم میرے لیے زیادہ محبوب چیز تھی“۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ وحی قطعی کا زمانہ گزر چکا تھا، اب مزید وحی نازل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین افسوس کرتے تھے کہ کاش ہم اس وقت یہ پوچھ لیتے تو آج ہمیں سوچنا نہ پڑتا کیونکہ وحی ایک قطعی چیز تھی اور اب قطعی چیز نہیں رہی بلکہ ظنیات رہ گئی ہیں۔ اب جو بھی کچھ کہے گا وہ ظنی بات ہوگی اور ظنی بات میں اختلاف کی گنجائش ہے۔
کلالہ کے مسئلہ میں ائمہ اربعہ میں سے دو امام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف ہیں اور دو امام دوسرے صحابہ کی طرف ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کو بھی ظنی سمجھا گیا اور دوسرے صحابہ کی بات کو بھی ظنی سمجھا گیا۔ دین کی باتیں ایسی ہوتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ساری چیزیں ہمیں مفت میں ملی ہیں، آسمان سے اسی طرح اتری ہیں لیکن در حقیقت اس میں بڑی محنتیں ہوئی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
متن:
بر خلاف ان احکام کے جو زمانۂ وحی کے ختم ہونے کے بعد مجتہدین کے استنباط کے طریق پر حاصل ہوئے ہیں کہ ان میں صواب و خطا کا احتمال ہے، اسی لئے وہ احکامِ اجتہادیہ جو وحی کے زمانے میں مقرر ہو گئے ہیں مُوْجِبِ یقین ہیں جن سے عمل و اعتقاد کے فائدے حاصل ہوتے ہیں اور جو زمانۂ وحی کے بعد ثابت ہوئے ہیں وہ (احکامِ اجتہادیہ) البتہ ظنّ کا موجب ہیں جو عمل کے لئے تو مفید ہیں لیکن اعتقاد کا موجب نہیں۔
تشریح:
کیونکہ عقیدہ میں ظن نہیں ہوا کرتا، عقیدہ میں قطعیت ہوتی ہے۔ میں آپ کو ایک زبردست بات بتاؤں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے اوپر شک تھا کہ میں کہیں منافق تو نہیں ہوں۔ ہماری بزرگی کو دیکھ لو اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو۔ انہیں اپنے اوپر شک تھا کہ کہیں میں منافق تو نہیں۔ ایک صاحب نے کہا: حضرت آپ کیا فرما رہے ہیں، آپ کو تو جنت کی بشارتیں ملی ہیں، پھر آپ کیسے اس کے بارے میں شک کرتے ہیں؟ اس شخص نے بہت اونچی بات کہی لیکن ذرا جواب سن لو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے جو اعمال ہم نے آپ ﷺ کے سامنے کئے ہیں ان کی تصدیق تو ہو گئی کیونکہ وہ وحی کا دور تھا، لیکن میں اس کے بعد والے زمانہ کے اعمال پر پریشان ہوں کیونکہ ان کے بارے میں مجھے کچھ پتا نہیں ہے۔ در اصل ان حضرات کو فکر تھی۔
متن:
قرآن مجید کے تیسری قسم کے احکام وہ ہیں جن کے سمجھنے سے انسانی طاقت عاجز ہے، جب تک کہ احکام کے نازل کرنے والے حق جل سلطانہ کی طرف سے ان کو اطلاع نہ ہو، ان احکام کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس اِعلام و اطلاع کا حصول صرف پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ والسلام کے لئے مخصوص ہے، پیغمبر کے علاوہ کسی اور کو اس کی اطلاع نہیں ہوتی۔ یہ احکام اگرچہ کتاب (قرآن مجید) ہی سے ماخوذ ہیں لیکن چونکہ ان کے مُظْہِر (ظاہر کرنے والا) پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اس لئے یہ احکام سنت کی طرف منسوب ہوئے کیونکہ ان کا مُظْہِر سنت ہے۔ جس طرح احکامِ اجتہادیہ کو قیاس کی طرف منسوب کرتے ہیں اس اعتبار سے قیاس ان احکام کا مُظْہِر ہے، پس سنت اور قیاس دونوں مُظْہِرِ احکام ہیں اگرچہ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے کیونکہ ایک (قیاس) رائے کی طرف منسوب ہے جس میں خطا کی گنجائش ہے، اور دوسرا سنت کی طرف جس کی حق جل و علا کے اِعْلام (خبر دینے) سے تائید ہو جاتی ہے اور اس میں خطا کی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ آخری قسم اپنی اصل (قرآن مجید) کے ساتھ کمال مشابہت رکھتی ہے گویا احکام کو ثابت کرنے والی ہے اگرچہ حقیقت میں تمام احکام کو ثابت کرنے والی صرف وہی ”کتابِ عزیز“ ہے۔
تشریح:
کتاب عزیز سے مراد قرآن ہے۔ دیکھیے حضرت کتنے زور کے ساتھ یہ چیزیں بیان فرما رہے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں کے اندر یہ راسخ ہو جائے کہ ہم لوگ جو کشفیات اور معارف کی اونچی اونچی باتیں کرتے ہیں، اگر یہ باتیں قرآن و حدیث کے ساتھ ٹکرا رہی ہوں تو ساری دھری کی دھری رہ جائیں گی۔
حدیث نبوی کی اہمیت:
مکتوب نمبر 100 دفتر اول میں حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
میرے مخدوم! فقیر کو اس قسم کی باتیں سننے کی طاقت ہرگز نہیں ہے میری رگِ فاروقی (ایسی باتوں سے) بے اختیار جوش میں آ جاتی ہے اور ایسے کلام کی تاویل و توجیہ کی فرصت نہیں دیتی۔ ان باتوں کا کہنے والا خواہ شیخ کبیر یمنی ہو یا شیخ اکبر شامی، ہمیں تو حضرت محمد عربی علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کا کلام (حدیث) درکار ہے نہ کہ محی الدین عربی، صدر الدین قونوی اور عبدالرزاق کاشی کا کلام، ہم کو نَصّ (قرآن و حدیث) سے کام ہے نہ کہ فَصّ (فصوص الحکم) سے، فتوحات مدنیہ (رسول ﷺ کی احادیث) نے ہم کو فتوحات مکیہ سے بے نیاز کر دیا ہے۔
تشریح:
اس سے پتا چلا کہ معارف کو قرآن و حدیث کے مقابِل نہیں لا سکتے۔
یہ باتیں میں اس لیے کر رہا ہوں کہ آج کل کے دور میں یہ سلسلہ چل رہا ہے کہ لوگ معارف میں گم ہیں اور ان کے مقابلہ میں قرآن و حدیث کی باتیں سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ میں کوئی مبالغہ کی باتیں نہیں کر رہا، میرے سامنے یہ باتیں ہوئی ہیں کہ میں قرآن کی بات کر رہا ہوں اور لوگ کہتے ہیں دیکھو فلاں اتنے بڑے بزرگ ہیں آپ ان کے مقام کو نہیں جانتے۔ میرے ساتھ ایسی باتیں ہوئی ہیں، ایسے میں، میں بھی وہی باتیں کرتا ہوں جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہیں کہ ایسی باتیں ہماری رگ حسینی کو برداشت نہیں ہیں، ہم جانتے ہیں کہ قرآن و حدیث کے مقابلے میں کوئی بات نہیں کر سکتا اور اس کی دلیل ہمارے پاس ایک صوفی کی باتیں ہیں، وہ بھی کوئی معمولی صوفی نہیں بلکہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں ہے۔ میں عقیدہ کی بات کر رہا ہوں، حضرت نے فرمایا: عقیدہ میں ظن کی گنجائش نہیں ہے، عقیدہ قطعی ہوتا ہے اور الہامی امور ظنی ہیں۔ الہامی امور جب اجتہادی امور کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے تو قرآن اور عقیدہ کے مقابلہ میں کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ ان کی تاویل کر لو، حضرت فرما رہے ہیں کہ مجھے ایسی باتوں کی تاویل کی بھی فرصت نہیں ہے جو عقیدہ کے مقابلہ میں آ جائیں۔ عقیدہ ہی تو آپ کی بنیاد ہے لہذا آپ اس کو نہیں چھیڑ سکتے۔
ایک مرتبہ رویتِ باری تعالیٰ پر گفتگو ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ عقائد کی بحث میں پانچویں عقیدے رویتِ باری تعالیٰ کے بیان میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اللہ جل شانہ کو کوئی بھی اِس جہان میں ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ بعض ساتھی کہنے لگے: فلاں بزرگ کہتے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور اس پر مناظرہ کرتے تھے۔ میں نے کہا خدا کے بندے کیا کہہ رہے ہو یہ گپ شپ کی بات نہیں ہے، یہ عقیدہ ہے اور عقیدہ کے مقابلے میں کسی بزرگ کی بات نہیں مانی جا سکتی، اس لیے ہم ان بزرگ کی بات کی تاویل کریں گے کہ ان بزرگ کو اجتہادی غلطی لگی ہے، وہ دل کی آنکھوں سے دیکھنے کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ صحو کی بات نہیں سکر کی بات ہے۔ ورنہ اگر کوئی یہ اعلان کر دے کہ میں کھلی آنکھوں سے خدا کو دیکھتا ہوں اور عقیدہ کے طور پر ایسا کہے تو وہ کافر اور ملحد ہو جائے گا۔ لہذا ایسے بڑے بزرگ کے بارے میں ہم کیسے گمان کریں کہ وہ ملحد ہیں حالانکہ وہ براہ راست حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ کے خلیفہ ہیں، ان کے بارے میں ہم یہ بد گمانی نہیں کر سکتے، ہم صرف یہ کہیں گے کہ ان کو غلطی لگی ہے۔
میں نے ان ساتھیوں کی بات کے جواب میں کہا: اول تو یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا کہا ہے، عین ممکن ہے کہ لوگوں نے اپنی طرف سے ان پہ جھوٹ باندھا ہو، اگر ایسا کسی کتاب میں لکھا ہے، تو معاملہ یہ ہے کہ آج کل کتاب کی بات کا کوئی اعتبار نہیں، لوگ بہت سی باتیں اپنی طرف سے شامل کر دیتے ہیں۔ جب لوگوں نے جھوٹی حدیثیں تک گھڑ دی ہیں تو بزرگوں کی کتابوں میں جھوٹی باتیں شامل کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ جو بات کر رہے ہیں اول تو میرے نزدیک یہ ثابت نہیں ہے، بفرضِ محال اگر ثابت بھی سمجھا جائے تو ہم کہیں گے کہ ان کو غلطی لگی ہے۔ جیسے شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بعض لوگ جب آنکھیں بند کرتے ہیں تو ان کو وہ چیزیں جو پہلے کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہیں، وہی چیزیں آنکھیں بند کرنے کے بعد کچھ دیر تک محسوس ہوتی ہیں، انسان سمجھتا ہے کہ شاید میں نے کھلی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تاویل ایسے کی، ہم نے بھی یہی کیا، لیکن آگے جا کر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ دل سے دیکھنا بھی اصل دیکھنا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی اصلاً نہیں دیکھ سکتا، وہ صرف ایک تشبیہ اور مثال ہے کہ انسان کے ذہن میں کوئی صورت آ گئی اور وہ یقین کی صورت ہے۔ جس چیز پر یقین ہے اس یقین نے تصور میں شکل بنائی ہے، اس کو آپ نے دیکھ لیا ہے، آپ نے اصل کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اصل کو کوئی دیکھ سکتا ہے۔ میں نے ان ساتھیوں کے جواب میں یہ باتیں کہیں اور یہی تاویل ہو سکتی تھی، لیکن وہ مجھ پر برس پڑے کہ بزرگوں کے لئے تاویل نہیں کرتے۔ اس لئے میں اتنے تشدد کے ساتھ یہ باتیں کر رہا ہوں کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تشدد سے یہ باتیں کی ہیں۔
قرآن و سنت کے خلاف چلنا ضد اور تعصب ہے:
مکتوب نمبر 24 دفتر سوم میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
لیکن جو شخص کتاب و سنت سے اپنی آنکھیں بند کر کے جھگڑنے لگے وہ خارج از بحث ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ بیت
آں کس کہ بقرآن و خبر زو نرہی
آنست جوابش کہ جوابش نہ دہی
ہے جو قرآن وحِدیث سے دُور
ہے جواب اُس کا یہ کہ دو نہ جواب
تشریح:
﴿وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 64)
ترجمہ: ”اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں“۔
جو لوگ قرآن و حدیث کی بات بھی نہیں مانتے ان کے سامنے خاموش ہو جاؤ کچھ بھی جواب نہ دو کیونکہ وہ جواب کے قابل ہی نہیں ہیں۔ یہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرمارہے ہیں اور مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ان کا قول نقل کر رہے ہیں۔
بخاری شریف ، قرآن مجید کے بعد اصح الکتب ہے:
مکتوب نمبر 15 دفتر دوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں جو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ہے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ”نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد تمام لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ، پھر ایک اور شخص“۔ تو ان کے صاحبزادے محمد بن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ ”پھر آپ“۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے علاوہ دوسرے اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم سے اس قسم کی بہت اور مشہور روایتیں موجود ہیں جن سے سوائے جاہل یا متعصب کے اور کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ قرآن مجید کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری شریف ہے، اگر اس کو بھی کوئی نہیں مانتا تو وہ جاھل ہے۔
متن:
علومِ نبوت علومِ ولایت سے افضل ہیں، سو علماء کی تحقیقات کو فوقیت حاصل ہے۔
تشریح:
کیا بات ہے! علماء کی تحقیقات کو اولیاء کی تحقیقات پر فوقیت حاصل ہے۔
مکتوب نمبر 266 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
جاننا چاہیے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ میں جن میں علماء اور صوفیا کا اختلاف ہے، جب اچھی طرح غور اور ملاحظہ کیا جاتا ہے تو حق علماء کی جانب معلوم ہوتا ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ علماء کی نظر نے انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے، اور صوفیا کی نظر ولایت کے کمالات اور اس کے معارف تک محدود رہتی ہے۔ لہذا وہ علم جو نبوت کی مشکوٰۃ سے حاصل کیا جائے وہ لازماً اس علم سے جو مرتبۂ ولایت سے اخذ کیا گیا ہو کئی درجے زیادہ صحیح اور حق ہو گا۔
تشریح:
یہ اختلاف کی صورت میں ہے کہ اگر اختلاف آ جائے تو پھر ہم کہیں گے علماء کی بات اول ہے۔ آگے حضرت اس کی بہت زبردست تشریح فرماتے ہیں۔
متن:
اجتہادِ شرعی پر عمل مقلد پر واجب ہے جبکہ کشف و الہام کی تقلید لازم نہیں۔
مکتوب نمبر 272 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
قیاس و اجتہاد اصولِ شرعیہ میں سے ایک اصل ہے جس کی تقلید پر ہم کو مامور کیا گیا ہے بخلاف کشف و الہام کے کہ اس کی تقلید کا ہم کو امر نہیں فرمایا گیا اور الہام دوسروں پر حجت نہیں ہے لیکن اجتہاد مقلد پر حجت ہے پس علمائے مجتہدین کی تقلید کرنی چاہیے، اور دین کے اصول کو ان کی رائے کے موافق ڈھونڈنا چاہیے، اور صوفیا جو کچھ علمائے مجتہدین کی آراء کے خلاف کہیں یا کریں ان کی تقلید نہیں کرنا چاہیے۔
تشریح:
صوفیا کی جو باتیں علمائے مجتہدین کی آراء کے خلاف ہوں ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے۔
متن:
اور ان پر حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے طعن سے اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے۔
تشریح:
صوفیا کی ایسی باتیں جو علمائے مجتہدین کی آراء کے خلاف ہوں، ان باتوں میں صوفیا کی تقلید نہیں کی جائے گی اور ان پر طعن بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ تاویل کر لی جائے گی کہ کوئی سکر کا معاملہ ہو گا یا کوئی اور بات ہو گی، اس لیے ہم ان کی بات نہیں مانیں گے اور ان کو معذور سمجھیں گے۔
متن:
اور ان کی اس قسم کی باتوں کی شَطْحِیّات میں سے شمار کرنا چاہیے اور ظاہر کی طرف سے مصروف و پھرا ہوا خیال کرنا چاہیے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے بعض صوفیا عام لوگوں کو اپنے کشفیہ اور الہامیہ امور مثلاً وحدت الوجود پر ایمان لانے کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی تقلید پر ترغیب دیتے ہیں اور ان کے عدم (یعنی ایسا عقیدہ نہ رکھنے) پر سرزنش کرتے ہیں۔ کاش یہ لوگ ان امور کے عدم انکار پر دلالت کرتے اور ان کے منکر پر تھدید اور تنبیہ فرماتے کیونکہ ایمان اور چیز ہے اور عدمِ انکار اور چیز۔ ان امور کے ساتھ ایمان لانا لازمی نہیں ہے۔
تشریح:
کیونکہ یہ عقائد نہیں ہیں بلکہ کیفیات اور احوال ہیں۔ جیسے وحدت الوجود ایک حال ہے لیکن سب سے بڑی بات یہ کیفیت ہے، ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّكَ تَرَاہُ“ ”تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے“۔ اس کو ”کیفیتِ احسان“ کہتے ہیں ”عقیدہ“ نہیں کہتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہاں دیکھا نہیں جا سکتا لیکن دیکھنے کی کیفیت حاصل کی جا سکتی ہے، اگر کوئی اس کیفیت کا انکار کرتا ہے تو یہ حال اور کیفیت کا انکار ہوا، اور کیفیت عقیدہ نہیں ہے، اور ایمان کیفیت پر نہیں بلکہ عقیدہ پر ہوتا ہے۔
متن:
ہاں ان امور کے انکار سے بچنا چاہیے ایسا نہ ہو کہ ان امور کا انکار ان امور والوں کے انکار تک پہنچا دے۔
تشریح:
کیونکہ ایک اللہ کے ولی کے خلاف ہونا ٹھیک نہیں ہے۔
متن:
اور حق جل و علا کے اولیاء کے ساتھ بغض و عداوت پیدا کر دے۔ علماء اہلِ حق کی آراء کے موافق عمل کرنا چاہیے اور صوفیا کی کشفی باتوں سے حُسنِ ظن کے ساتھ سکوت اختیار کرنا چاہیے اور لَا و نَعَم پر جرأت نہ کرنی چاہیے: ھٰذَا ھُوَ الْحَقُّ الْمُتَوَسِّطُ بَیْنَ الْاِفْرَاطِ والتَّفْرِیْطِ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (یہی وہ حق ہے جو افراط و تفریط کے درمیان ہے اور اللہ تعالیٰ بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے)۔
تشریح:
حضرت بڑی کھری کھری باتیں فرما رہے ہیں۔
شریعت مدار نجات ہے:
یہ بہت اہم عنوان ہے، اتنا اہم کہ حضرت نے صرف دفتر اول میں 343 دفعہ شریعت کی بات کی ہے۔ میں نے search کے ذریعہ دفتر اول میں چیک کیا ہے، جس میں صرف 313 مکتوبات ہیں، اب بھی کوئی search کر کے دیکھ سکتا ہے، شریعت کا لفظ 343 مرتبہ آیا ہے، حضرت اس پر اتنا زور دے رہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت پر عمل ہی مدارِ نجات ہے۔
مکتوب نمبر 41 دفتر سوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
نجات کا طریقہ اور چھٹکارے کا راستہ اعتقاد و عمل میں صاحبِ شریعت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی متابعت ہے۔ استاد اور پیر کو بھی اسی غرض کے لئے پکڑتے ہیں کہ شریعت کی طرف رہنمائی کریں اور ان کی برکت سے شریعت پر اعتقاد اور عمل میں آسانی اور سہولت پیدا ہو نہ یہ کہ مرید جو چاہیں کرتے رہیں اور جو جی چاہے کھاتے پھریں اور پیر ان کے لئے سِپَر بن جائیں اور ان کو عذاب سے بچائیں یہ معنی محض ایک دھوکہ اور آرزو ہے، وہاں کوئی بھی (حق تعالیٰ کی) اجازت کے بغیر سفارش نہیں کر سکتا اور جب تک رضا مندی نہیں ہو گی۔
تشریح:
یہ بات بالکل صحیح ہے۔ میں اس کو کہتا ہوں ”تقدس کے رنگ میں گڑبڑ کرنا“۔ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے پیر کی زبان سے اپنے حق میں کوئی بات نکلوا کر اس کو دلیل بناتے ہیں کہ شیخ نے ایسا کہہ دیا تو بس ٹھیک ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پیر سے فتویٰ نہیں لیا جاتا، پیر سے شریعت پر آنے کا آسان طریقہ پوچھا جاتا ہے، وہ آپ کی رہنمائی کرتا ہے، اگر وہ مفتی نہیں ہے تو وہ آپ کو فتویٰ نہیں دے سکتا، ہاں اگر مفتی ہو تو فتویٰ دے سکتا ہے جیسے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب اور حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتی بھی تھے اور پیر بھی تھے، ایسے حضرات فتویٰ بھی دیتے ہیں اور اصلاح بھی کرتے ہیں۔ لیکن جو مفتی نہ ہو، جیسے میں مفتی نہیں ہوں تو میں فتویٰ نہیں دے سکتا البتہ مفتی کی طرف رہنمائی ضرور کر سکتا ہوں کہ آپ کو کہہ دوں آپ مفتی صاحب سے پوچھ لیں یا میں نے کوئی بات مفتی سے سنی ہو تو من و عن آپ کو بتا دوں، اس سے میں مفتی نہیں بلکہ ناقل بنوں گا، ناقل کے طور پر بیان کر سکتا ہوں اور ناقل کے طور پر کوئی بھی بیان کر سکتا ہے۔ لیکن میں مفتی نہیں ہوں کہ خود اس میں تبدیلی کر لوں یا کمی بیشی کر دوں۔ میرا اکثر یہی اعلان ہوتا ہے کہ اگر پیر مفتی نہیں تو اس سے فتویٰ نہ پوچھو اور مفتی اگر شیخ نہیں تو اس سے تربیت نہ کرواؤ البتہ اگر شیخ مفتی ہے تو تربیت بھی کروا سکتے ہو اور فتویٰ بھی لے سکتے ہو۔
متن:
جب تک رضا مندی نہیں ہو گی اس کی سفارش نہیں کر سکتا اور راضی اس وقت ہو گا جب شریعت کے مطابق عمل کرنے والا ہو گا۔ البتہ بشریت کے تقاضے کی بنا پر اگر کوئی لغزش اس سے ہوئی ہے تو شفاعت کے ذریعے اس کا تدارک ممکن ہے۔
تشریح:
غلطی ہو سکتی ہے البتہ نہ تو اس کو حق سمجھا جائے گا نہ ہی اس پر اصرار ہو گا بلکہ اس پر ندامت ہو گی اور اللہ پاک کسی بزرگ، ولی یا کسی بھی ذریعے سے اس کی شفاعت کروا کے اس کا بیڑا پار کروا دے گا، ایسا ہو سکتا ہے۔
فقہاء کے اقوال پر عمل عام ہے اور صوفیاء اپنے احوال میں معذور ہیں لیکن قابل تقلید نہیں:
مکتوب نمبر 266 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
کسی فقیہ نے کسی زمانے میں بھی سَرُودْ کے مباح ہونے کا فتویٰ نہیں دیا ہے۔
تشریح:
آج کل ہر چیز میں میوزک ہے۔
متن:
اور نہ ہی رقص و پاکوبی کو جائز قرار دیا ہے جیسا کہ امام ہمام ضیاء الدین شامی کے رسالہ ملتقط میں مذکور ہےـ اور صوفیا کا عمل حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ کیا ان کے لئے صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم ان کو معذور سمجھیں اور ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کریں، یہاں تو امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا قول معتبر ہے، نہ کہ ابو بکر شبلی اور ابو الحسن نوری رحمہما اللہ کا عمل ـــ اس زمانے کے خام صوفیوں نے اپنے پیروں کے عمل کا بہانہ بنا کر سرود و رقص کو اپنا دین و ملت بنا لیا ہے اور اسی کو طاعت و عبادت سمجھ لیا ہے ﴿اَلَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَـهُـمْ لَـهْوًا وَّ لَعِبًا﴾ (الاعراف: 51) (یعنی یہی وہ لوگ ہیں) جنہوں نے لہو و لعب کو اپنا دین بنا لیا ہے)
تشریح:
چشتی سلسلہ کے بارے میں بعض نا سمجھ لوگوں نے مشہور کیا ہے کہ اس میں موسیقی جائز ہے۔ میں گمراہ چشتیوں کی بات نہیں کر رہا، وہ تو ہر جگہ موجود ہیں، گمراہ نقشبندی بھی ہو سکتا ہے، چشتی بھی ہو سکتا ہے، قادری بھی ہو سکتا ہے اور سہروردی بھی ہو سکتا ہے، نام کوئی بھی ہو اور پیچھے ان کا اپنا نظام ہو تو اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے البتہ صحیح چشتیوں کی بات کرتا ہوں، میرے شیخ الحمد للہ خالص چشتی تھے۔ ایک دفعہ ایک رجسٹرار صاحب ہماری پشاور یونیورسٹی میں حضرت کے پاس آئے اور کہنے لگے: حضرت میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔ پوچھا، کیا دیکھا ہے؟ کہا: خواب میں آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، آپ ﷺ نے مجھے ایک چِٹ دی، اس کو لے کر میں ایک پنڈال میں چلا گیا، بہت بڑا پنڈال تھا، وہاں کے لوگوں نے مجھے کہا آپ آگے چلے جائیں یہ آپ کا پنڈال نہیں ہے، اگلے پنڈال میں گیا، وہ بھی بہت بڑا پنڈال تھا لیکن وہاں کے لوگوں نے بھی کہا آگے چلے جائیں یہ آپ کا پنڈال نہیں ہے، تیسرے پنڈال میں مجھے اندر داخل ہونے دیا گیا، وہاں دیکھا تو کسی نے بتایا کہ یہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا پنڈال ہے، وہاں دیکھا کہ حضرت آپ درمیان میں بیٹھے ہوئے ہیں، میں نے وہ چٹ آپ کو دے دی، آپ نے اس کو دیکھ کر اپنی جیب میں رکھ لیا پھر میں جاگ گیا۔ اس خواب کی کیا تعبیر ہے؟
حضرت نے فرمایا: اس میں دو باتیں ہیں ایک تو یہ ثابت ہوا کہ ہمارا سلسلہ via چشتیہ متصل ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کی خدمت میرے حوالے کی گئی ہے۔ پھر وہ صاحب حضرت سے بیعت ہوئے۔ حضرت سراپا چشتی تھے۔ جب میں حضرت سے بیعت ہوا تو دو چیزیں حضرت کی بیعت کے ساتھ ہی مجھے عنایت ہوئیں، ایک یہ کہ اگر میں میوزک سنتا تو سر میں درد ہو جاتا تھا، اپنے ارادے سے سننا تو دور کی بات ہے کوئی اور سن رہا ہو تو میں وہ بھی نہیں سن سکتا تھا حتیٰ کہ مجھے اتنی پریشانی ہوتی کہ سر میں درد ہو جاتا تھا۔ میں نے حضرت سے عرض کیا: کہ حضرت اس مسئلہ کا کیا کروں، مجھے بسوں میں آنا جانا ہوتا ہے اور بسوں میں میوزک لگا ہوتا ہے جس سے سر میں درد ہو جاتا ہے۔ حضرت نے مجھے ایک وظیفہ دیا۔ ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ وَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَِظِیْمِ“ کہ یہ پڑھ لیا کرو۔ اس کے ذریعہ مجھے فائدہ ہو گیا۔ حضرت سے بیعت کرتے ہی مجھ میں یہ بات آ گئی کہ میں کسی کے ساتھ گلے نہیں لگ سکتا تھا، سخت repulsion (پرے ہونے کی کیفیت) ہوتی تھی۔ یہ دو چیزیں مجھے بیعت کے ساتھ عنایت ہوئیں۔ ایک کا تو وظیفہ کے ساتھ حل ہو گیا دوسرے کے بارے میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی، مجھے لگا کہ شاید مجھ میں یہ بات تکبر کی وجہ سے ہے، اس لیے میں قصداً لوگوں کے ساتھ گلے ملنے لگا، اس سے وہ کیفیت زائل ہو گئی۔ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو میرے استاد تھے، ان کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ یہ اللہ پاک نے آپ کی حفاظت کے لئے آپ کو ایک نعمت دی تھی، آپ نے اس کو ضائع کر دیا۔
یہ باتیں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ میرے شیخ حضرت مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ چشتی تھے، ان کے ساتھ تعلق کے دوران مجھے علم ہوا کہ حقیقی چشتی کیسے ہوتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ لوگوں نے چشتیوں پر کیسے کیسے جھوٹ باندھے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں سماع ہوا کرتا تھا، میں سنا سکتا ہوں، ہمارے پاس اس کی ریکارڈنگ موجود ہے، اس میں مزامیر نہیں ہوتے تھے، صرف خوش آوازی ہوتی تھی، کوئی ایسا انتظام بھی نہیں ہوتا تھا کہ با قاعدہ پوسٹر لگوائے جائیں اور تشہیر کی جائے کہ آج یہاں محفل سماع ہو گی، ایسی کوئی بات نہیں تھی، جس دن حضرت کا سماع کا ارادہ ہوتا اس دن حضرت فرماتے، کوئی سنانے والا ہے تو سنا دے، وہ سنا دیتا، حضرت کا بھی ذوق تھا، دوسروں کو بھی فائدہ ہو جاتا تھا۔ ایک دن حضرت نے دریافت فرمایا تو اس دن سنانے والا کوئی خاص موجود نہیں تھا، میں نے کہا: حضرت میں سنا دوں؟ میری آواز تو خراب ہے۔ حضرت نے فرمایا کیا سناؤ گے؟ وہاں رحمان بابا رحمۃ اللہ علیہ کے پشتو کلام کی ایک کتاب پڑی ہوئی تھی، میں نے کہا حضرت اس سے سناؤں؟ فرمایا: اچھا سنا دو، میں نے اس سے پشتو میں سنانا شروع کر دیا، حضرت بڑے خوش ہوئے اور دعا دی۔ چونکہ حضرت خود صاحبِ ذوق تھے، وہ کہتے ہیں نشہ شراب میں نہیں، اگر شراب میں ہوتا تو بوتل ناچتی، اصل بات یہ ہے کہ نشہ خود انسان کے اندر ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ چشتی سلسلہ میں سماع میں یہ چیزیں مثلاً مزامیر، موسیقی وغیرہ جائز ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے، یہ چیزیں جائز نہیں ہیں، یہ چشتیوں پر تہمت ہے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
شریعت کی جامعیت:
مکتوب نمبر 79 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفٰے علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی شریعت کے راستہ پہ ثابت قدمی و استقامت نصیب فرما کر اپنی پاک بارگاہ کی طرف پوری طرح متوجہ کر لے، چونکہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ حق سبحانہ و تعالیٰ کے تمام اسمائی و صفاتی کمالات کے جامع ہیں اور ان سب (اسماء و صفاتِ الٰہیہ) کے اعتدال کے طور پر مظہر ہیں جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ (نچوڑ) ہے جو تمام انبیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلوۃ و التسلیمات پر نازل ہوئی ہیں اور نیز وہ شریعت جو آں سرور عالم ﷺ کو عطا فرمائی گئی ہے تمام گذشتہ شریعتوں کا خلاصہ (عمدہ حصہ) ہے اور وہ اعمال جو اس شریعتِ حقہ کے موافق ہیں سب سابقہ شریعتوں کے اعمال میں سے منتخب ہیں بلکہ ملائکہ کرام صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علی نبینا و علیہم کے اعمال سے بھی منتخب ہیں کیونکہ بعض فرشتوں کو رکوع کا حکم دیا گیا ہے اور بعض کو سجدہ کا اور بعض کو قیام کا اور اسی طرح گذشتہ امتوں میں سے بعض کو صبح کی نماز کا حکم دیا گیا تھا اور دوسری بعض (امتوں) کو دوسرے (وقت کی) نمازوں کا۔ پس اس شریعت میں گذشتہ امتوں اور مقرب فرشتوں کے اعمال کا خلاصہ اور ان کا عمدہ حصہ انتخاب کر کے ان کے بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے لہذا اس شریعت کی تصدیق کرنا اور اس کے مطابق اعمال بجا لانا حقیقت میں تمام شریعتوں کی تصدیق کرنا اور ان شریعتوں کے موافق اعمال بجا لانا ہے۔
پس اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شریعت کی تصدیق کرنے والے (خیر الامم) تمام امتوں سے بہتر ہوئے اور اسی طرح اس شریعت کو جھٹلانا اور اس کے موافق عمل نہ کرنا تمام سابقہ شریعتوں کو جھٹلانا اور ان کے موافق عمل نہ کرنا ہے اور اسی طرح آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کا انکار کرنا تمام اسمائی و صفاتی کمالات کا انکار کرنا ہے اور آپ ﷺ کی تصدیق کرنا ان سب کی تصدیق کرنا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آں سرور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منکر اور اس شریعت کو جھٹلانے والے تمام امتوں سے بد تر ہوں۔ آیت ﴿اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّنِفَاقًا﴾ (التوبہ: 97) (عرب کے صحرا نشین لوگ کفر و نفاق میں سخت تر واقع ہوئے ہیں) میں اسی طرف اشارہ ہے۔
محمد عربی کابروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاک درش نیست خاک برسر او
(اردو ترجمہ)
عزت کونین میں حضرت محمد مصطفٰے
آپ کا منکر ہوا خوار و ذلیل دوسرا
شریعت کے تین جزو اور دنیا و آخرت کی تمام سعادتوں کا اس کا ضامن ہونا:
مکتوب نمبر 36 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
شریعت کے تین جزو ہیں: 1۔ علم، 2۔ عمل اور 3۔ اخلاص، جب تک یہ تینوں جزو ثابت نہ ہو جائیں اس وقت تک (حقیقت میں) شریعت ثابت نہیں ہوتی، اور جب (حقیقت میں) شریعت ثابت ہو گئی تو حق سبحانہ و تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو گئی جو کہ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں سے اوپر (افضل) ہے۔ ﴿وَ رِضْوَانُ مِّنَ اللہِ اَکْبَرُ﴾ (التوبہ: 72) (اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے)۔
پس شریعت تمام دنیوی و اخروی سعادتوں کی ضامن ہوئی، کوئی بھی مقصد نہیں جس کے حاصل کرنے میں شریعت کے ما سوا کسی اور چیز کی ضرورت پیش آئے۔ طریقت اور حقیقت کہ جس کے ساتھ صوفیائے کرام ممتاز ہیں۔ شریعت کے تیسرے جزو یعنی اخلاص کے تکمیل میں شریعت کے خادم ہیں۔
تشریح:
ان شاء اللہ، اس کی بہت بڑی تشریح سامنے آئے گی۔
متن:
پس ان دونوں کے حاصل کرنے سے مقصود شریعت کا کامل کرنا ہے نہ کہ شریعت کے سوا کوئی اور امر ہے۔
احوال و مواجید (وجد و حال)، علوم و معارف جو کہ صوفیائے کرام کو راہِ سلوک طے کرنے کے دوران حاصل ہوتے ہیں (اصلی) مقاصد میں سے نہیں ہیں بلکہ وہم و خیالات ہیں جن سے طریقت کے طلباء کی تربیت کی جاتی ہے۔
تشریح:
یعنی یہ تربیتی حصہ ہے جیسے قرآن کو سمجھنے کے لئے آپ عربی سیکھتے ہیں تو اس میں عربی مطلوب نہیں ہے بلکہ قرآن سمجھنا مطلوب ہے، عربی اس کا ذریعہ ہے، جیسے باقی ذرائع ہیں، حساب کتاب جاننا بھی ذریعہ ہے، حساب کتاب جاننا خود مطلوب نہیں ہے لیکن اس کا قرآن کے لئے جاننا مطلوب ہے کیونکہ آپ میراث کے مسائل بغیر حساب کتاب کے حل نہیں کر سکتے۔
اب آخر میں بڑی زبردست بات آ رہی ہے جس کے لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ بات سمجھ میں آ جائے۔
متن:
ان سب سے گذر کر مقامِ رضا تک پہنچنا چاہیے جو کہ جذب و سلوک کے مقامات میں آخری مقام ہے کیونکہ طریقت و حقیقت کی منزلوں کے طے کرنے سے اس کے سوا اور کچھ مقصود نہیں ہے کہ اخلاص حاصل ہو جائے جو کہ حق تعالیٰ کی رضا (خوشنودی) حاصل ہونے کے لئے لازمی ہے۔
تشریح:
پس مطلب یہ ہوا کہ تصوف میں آپ اخلاص کو حاصل کرتے ہیں، باقی شریعت اپنی جگہ پر ہے، اس کو تبدیل نہیں کر سکتے، عمل شریعت پر ہی کرنا ہے لیکن اخلاص کے ساتھ اور اخلاص آپ تصوف سے حاصل کر لیں کیونکہ اخلاص عملی چیز ہے علمی چیز نہیں ہے اور تصوف بھی عملی چیز ہے علمی نہیں ہے۔
مکتوب نمبر 48 دفتر اول میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
طالب علموں کے ذکر کو صوفیوں (کے ذکر) پر مقدم کرنا آپ کی بلند ہمتی ہے، بہت ہی اچھا معلوم ہوا۔ اَلظَّاھِرُ عُنْوَانُ الْبَاطِنِ (ظاہر باطن کا عنوان ہوتا ہے) کے مضمون کے مطابق امید ہے کہ آپ کے باطن شریف میں بھی اس بزرگ جماعت کو (صوفیوں پر) مقدم کرنا پیدا ہو گیا ہو گا کُلُّ اِنَاءٍ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْہِ (ہر برتن سے وہی چیز نکلتی ہے جو اس کے اندر ہوتی ہے)
از کوزہ بروں ہماں تراود کہ دروست
(نکلتا ہے وہی برتن سے جو کچھ اس کے اندر ہے)
اور طالب علموں کے مقدم کرنے میں شریعت کو رواج دینا ہے (کیونکہ) شریعت کے اٹھانے اور قائم کرنے والے یہی لوگ ہیں اور حضرت محمد مصطفٰے علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کا مذہب و ملت انہی کے ساتھ قائم ہے۔ کل قیامت کے روز شریعت کی بابت پوچھیں گے تصوف کے متعلق نہیں پوچھیں گے۔
تشریح:
یہ بات اگر میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے نہ کہوں تو صوفی لوگ مجھے پتھر ماریں گے، لیکن یہ میں نہیں کہہ رہا حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ کل قیامت کے روز شریعت کی بابت پوچھیں گے تصوف کے متعلق نہیں پوچھیں گے۔
متن:
جنت میں داخل ہونا اور دوزخ سے بچنا شریعت کے احکام بجا لانے پر منحصر ہے۔ انبیاء صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیہم نے جو کہ تمام کائنات میں سب سے بہتر ہیں (اپنی اپنی) شریعتوں کی طرف دعوت دی ہے اور نجات کا انحصار اسی پر رہا ہے اور ان بزرگوں کی پیدائش سے مقصود شریعتوں کی تبلیغ ہے پس سب سے بڑی نیکی شریعت کے رواج دینے اور اس کے حکموں میں سے کسی حکم کے زندہ کرنے میں کوشش کرنا ہے خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ اسلامی شعائر (نشانات و ارکان) بالکل مٹ گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے راستہ میں کروڑوں روپیہ خرچ کرنا بھی شرعی مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کو رواج دینے کے برابر نہیں ہے کیونکہ اس فعل (شرعی مسائل کی ترویج) میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ و السلام کی اقتدا (پیروی کرنا) ہے جو کہ مخلوقات میں سب سے زیادہ بزرگ ہیں اور اس فعل میں ان بزرگوں کے ساتھ شریک ہونا ہے۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ سب سے کامل نیکیاں انہی بزرگوں کو عطا ہوئی ہیں او کروڑوں روپیہ خرچ کرنا تو ان بزرگوں کے علاوہ دوسروں کو بھی میسر ہے۔
اور (ایک دلیل) یہ بھی ہے کہ احکام شریعت کے بجا لانے میں نفس کی پوری پوری مخالفت ہوتی ہے۔
تشریح:
یہ بہت اہم بات ہے۔ کم از کم نقشبندی سلسلہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سلسلہ کو محنت کے ساتھ بنایا ہوا ہے۔
متن:
کیونکہ شریعت نفس کے مخالف وارد ہوتی ہے اور اموال کے خرچ کرنے میں تو کبھی نفس بھی موافقت کر لیتا ہے ہاں البتہ اموال کا خرچ کرنا اگر شریعت کی تائید اور مذہب کی ترویج کے لئے ہو تو اس کا بہت بڑا درجہ ہے اور اس نیت کے ساتھ ایک جیتل (دام) کا خرچ کرنا کسی اور نیت سے کئی لاکھ (روپیہ) خرچ کرنے کے برابر ہے۔
یہاں کوئی یہ سوال نہ کرے کہ (ماسوی اللہ میں) گرفتار طالب علم (ماسوی اللہ سے) آزاد صوفی سے کس طرح مقدم ہو گا۔
تشریح:
حضرت نے یہ ایک سوال قائم کیا ہے۔ ما سوا اللہ سے مراد یہ ہے کہ جن لوگوں کا غیر اللہ کے ساتھ تعلق ہے۔ مثلاً ایک دین کا طالب علم ہے لیکن اس کا غیر اللہ کے ساتھ تعلق ہے یعنی لوگوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے، اللہ پاک کے ساتھ اس کا تعلق اتنا مضبوط نہیں ہے جبکہ صوفی ما سوائے اللہ کے ہر تعلق سے کٹا ہوا ہے، صرف اللہ کا ہے تو پھر وہ طالب علم صوفی پر کس طرح مقدم ہو گا۔
متن:
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اُس (آزاد صوفی) نے بات کی حقیقت کو حاصل نہیں کیا اور طالب علم با وجود (ماسوی اللہ کی) گرفتاری کے خلقت کی نجات کا سبب ہے کیونکہ احکام شرعی کی تبلیغ اس کو حاصل ہے اگرچہ وہ خود اس سے نفع حاصل نہیں کرتا اور صوفی نے (ماسوی اللہ سے) آزادی کے با وجود اپنے نفس کو خلاص کر لیا ہے (اس لئے) خلقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا ہے اور یہ بات ثابت ہے کہ جس شخص کے ساتھ بکثرت لوگوں کی نجات وابستہ ہو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو صرف اپنی نجات کے درپے ہو۔
تشریح:
کیسی عمدہ بات ہے! واہ! اب اہم بات فرماتے ہیں:
متن:
ہاں البتہ جس صوفی کو فنا و بقا اور سیر عن اللہ و باللہ کے بعد دنیا (مخلوق) کی طرف لوٹا دیا گیا ہو اور خلقت کی دعوت (یعنی مخلوق کو راہِ راست کی طرف لانے کا فریضہ انجام دینے) کے مقام میں لے آئے ہوں اس کو مقامِ نبوت سے حصہ حاصل ہے۔
تشریح:
یعنی ان مشائخ کو مقامِ نبوت سے حصہ حاصل ہے۔
متن:
اور شریعت کی تبلیغ کرنے والوں میں داخل ہے وہ بھی علمائے شریعت کا حکم رکھتا ہے (یعنی وہ بھی عالمِ شریعت ہے) ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہٖ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعۃ: 4) (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے)۔
تشریح:
عام آدمی یعنی طالب علم عام صوفی سے آگے ہے لیکن مشائخ علمائے حق کے حکم میں شامل ہیں۔
تصوف اور شریعت کا موازنہ:
مکتوب نمبر 48 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
اے میرے مخدوم! سلوک کی منزلیں اور جذبہ کے مقامات طے کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس سیر و سلوک سے مقصود مقامِ اخلاص کا حاصل کرنا ہے جو آفاقی و انفسی (بیرونی و اندرونی) معبودوں کی فنا پر موقوف ہے اور یہ اخلاص شریعت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے کیونکہ شریعت کے تین جزو ہیں: 1۔ علم، 2۔ عمل اور 3۔ اخلاص۔ پس طریقت اور حقیقت دونوں شریعت کے جزوِ اخلاص کو کامل کرنے میں شریعت کے خادم ہیں،
تشریح:
طریقت اور حقیقت کے ذریعے اخلاص حاصل ہوتا ہے اور یہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہے۔
متن:
اصلی مقصد تو یہی ہے، مگر ہر شخص کی سمجھ یہاں تک نہیں پہنچتی، اکثر اہلِ دنیا خواب و خیال کے ساتھ مطمئن ہو گئے ہیں اور انھوں نے اخروٹ اور منقیٰ (یعنی معمولی چیزوں) کو کافی سمجھ لیا ہے، وہ شریعت کے کمالات کو کیا جانیں اور طریقت و حقیقت کی اصلیت تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔
تشریح:
جو صوفی راستے میں ہیں، ان کو جو علوم و معارف حاصل ہو گئے ہیں اور چیزیں نظر آ گئی ہیں اس سے وہ سمجھے کہ ہم بہت آگے چلے گئے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اخروٹ یا ٹافیوں پر قناعت اختیار کر لے اور آگے جا کر اصل تک نہ پہنچ سکے۔ فرمایا:
متن:
انھوں نے اخروٹ اور منقیٰ (یعنی معمولی چیزوں) کو کافی سمجھ لیا ہے، وہ شریعت کے کمالات کو کیا جانیں اور طریقت و حقیقت کی اصلیت تک کیسے پہنچ سکتے ہیں، یہ لوگ شریعت کو پوست خیال کرتے ہیں اور حقیقت کو مغز (گودا) جانتے ہیں اور نہیں جانتے کہ معاملہ کی حقیقت کیا ہے، وہ صوفیوں کی (حالتِ سکر میں کہی ہوئی) باطل باتوں پر دھوکا کھائے ہوئے ہیں اور احوال و مقامات پر فریفتہ ہیں۔ ھَدَاھُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ سَوَاءَ الطَّرِیْقِ وَ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلیٰ عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ۔
تشریح:
اگر آج کل کے نقشبندی حضرات کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ وہ مقامات کی صرف باتیں ہی کر رہے ہیں، لیکن اصل مقامات کی طرف آنے کی کوئی بات نہیں کرتے اور دونوں میں بڑا فرق ہے۔ اصل مقامات تو یہ ہیں کہ رذائل سے خلاصی حاصل ہو جائے، مثلاً حرص کو دور کرنا مقامِ قناعت ہے، سستی کو دور کرنا مقامِ ریاضت ہے، فسق و فجور کو دور کرنا مقامِ تقویٰ ہے۔ یہ اصل مقامات ہیں۔ یہ نہیں کہ میں کتنا اوپر چلا گیا ہوں، یہ تو مقامِ تواضع کے خلاف ہے۔ اصل مقام ان رذائل کی دوری کا نام ہے تاکہ ہم رذائل سے بچ جائیں اور ہمارے رذائل ختم ہو جائیں، اس کے بارے میں بات نہیں ہوتی۔ میں بھی نقشبندی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ آمین۔
علمائے راسخین و علمائے ظاہر اور صوفیاء کا نصیب:
مکتوب نمبر 18 دفتر دوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
علمائے راسخین نے پوست کو مغز کے ساتھ جمع کیا ہے اور شریعت کی صورت و حقیقت کے مجموعے کو پا لیا ہے۔ اور ان بزرگواروں نے شریعت کو اس شخص کی طرح تصور کیا ہے جس کا پوست صورتِ شریعت اور اس کا مغز حقیقتِ شریعت ہو۔
تشریح:
”جس کا پوست صورتِ شریعت اور اس کا مغز حقیقتِ شریعت ہو“ اس کے بارے میں ایک بات عرض کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے، بڑی اونچی باتیں کرتے ہیں، جو عمر بھر کی تحقیق ہوتی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: آپ ﷺ کا ظاہر سنتِ رسول ہے اور آپ ﷺ کا باطن سیرتِ رسول ہے۔ اب اچھی طرح غور فرمائیں جس کا پوست صورتِ شریعت اور اس کا مغز حقیقتِ شریعت ہے، یعنی دونوں صورتوں میں شریعت ہے لیکن ایک میں صورتِ شریعت ہے جیسے آپ ﷺ کا ظاہر اور ایک میں حقیقتِ شریعت ہے یعنی آپ ﷺ کا باطن، آپ ﷺ کے باطن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ کی عاجزی، آپ ﷺ کی تواضع، آپ ﷺ کی محبت، آپ ﷺ کا تقوی، یہ آپ ﷺ کی سیرت ہے اور یہی حقیقتِ شریعت ہے۔ اس طرح ظاہر میں سب لوگ شریک ہیں کیونکہ ظاہر سب کو نظر آتا ہے لیکن حقیقت اور باطن ہر ایک کو نظر نہیں آتا۔
متن:
انھوں نے شرائع و احکام کے علم کو شریعت کی صورت اور حقائق و اسرار کے علم کو شریعت کی حقیقت سمجھا ہے۔ اور ایک جماعت نے شریعت کی صورت میں گرفتار ہو کر اس کی حقیقت سے انکار کر دیا ہے اور صرف ہدایہ اور بزدوی کے علاوہ کسی کو بھی اپنا پیر اور مقتدا نہیں سمجھا۔ (وہ صورت کے عاشق ہو گئے) اور ایک دوسری جماعت اگرچہ اس کی حقیقت میں گرفتار ہوئی ہے لیکن چونکہ انھوں نے اس کو شریعت کی حقیقت نہیں سمجھا بلکہ شریعت کو صورت پر موقوف رکھا اور اس کو صرف پوست خیال کیا اور مغز کو اس کے ما سوا کچھ اور تصور کر لیا اس لئے وہ اس حقیقت کی حقیقت سے واقف نہ ہو سکے اور نہ ہی وہ متشابہات کا کچھ حصہ حاصل کر سکے۔ لہذا علمائے راسخین ہی در حقیقت (انبیاء علیہم السلام کے) وارث ہیں۔ اللہ سبحانہ ہم کو اور آپ کو ان کے محبین اور متبعین میں سے بنائے۔ (آمین)
علوم شرعیہ کی تدریس ذکر و فکر سے زیادہ اہم ہے:
مکتوب نمبر 14 دفتر دوم میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
ایک ضروری نصیحت یہ ہے کہ درس و تدریس کے علوم میں کسی طرح کوتاہی نہ کریں، اگر آپ تمام دن درس میں مشغول رہیں (تو کوئی حرج نہیں)۔ ذکر و فکر کی ہوس نہ کریں کیونکہ رات کی ساعتیں ذکر و فکر کے لئے بڑی فراخ ہیں۔ شیخ حسن کو بھی سبق دیتے رہیں اور بیکار نہ چھوڑیں۔
تشریح:
یہ کامل کو کہا گیا ہے عام لوگوں کو نہیں۔ وہ کامل تھا اس سے کہا گیا چونکہ وہ کامل ہو چکا ہے تو اب اس کو عمل کرنا ہے، عمل کا بتا رہے ہیں کہ کون سا عمل کرنا ہے۔
متن: چونکہ ان کے علاقے میں علم بہت کم ہے اس لئے وہاں علوم شرعیہ کے احیاء میں زیادہ مبالغہ کیا جائے۔ زیادہ کیا لکھا جائے۔
علمائے ظاہر کے درست عقائد کا جمال صوفیا کے مجاہدات سے بڑھ کر ہے:
مکتوب نمبر 8 دفتر اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اور اہل سنت کے علمائے ظاہر سے اگرچہ بعض اعمال کی ادائیگی میں کوتاہی واقع ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق ان کے عقائد کی درستی کا اجمال اس قدر نورانیت رکھتا ہے کہ اعمال کی وہ کوتاہی و کمی اس نورانیت کے مقابلہ میں ہیچ و نا چیز دکھائی دیتی ہے اور بعض ظاہری صوفیانہ طرز کے لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق اس قدر درست عقیدے نہیں رکھتے لهذا ریاضتوں اور مجاہدوں کے باوجود ان میں وہ جمال نہیں پایا جاتا۔
تشریح:
پس ہم لوگ اپنے ساتھیوں میں یہ کرتے ہیں کہ پہلے ظاہر کو مضبوط کر لیں، عقیدے صحیح کر لیں، اعمال کے ظاہر کو مضبوط کر لیں پھر اس کے اندر حقیقت کا رنگ بھریں، تب بات بنے گی اور زیادہ بہتر طریقے سے کام ہوگا۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ یہی علمائے راسخین کا کام ہے کیونکہ اگر آپ نے شریعتِ ظاہر کی قدر نہیں کی تو باطن کو پا ہی نہیں سکتے کیونکہ باطن ظاہر کی بنیاد پر قائم ہے لہذا اگر آپ نے ظاہر نہیں پایا تو باطن کیسے پا سکتے ہیں، البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک صرف ظاہر کو پائیں اور دوسرے ظاہر و باطن دونوں پائیں، صرف ظاہر والوں سے ظاہر و باطن دونوں والے اچھے ہیں لیکن جو صرف باطن والے ہیں وہ صرف دعویٰ ہی دعویٰ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکہ ظاہر کے بغیر باطن موجود ہی نہیں ہو سکتا، جیسے نماز نہ ہو تو نماز کے اندر جو اخلاص ہے وہ کیسے آئے گا، جو اخلاص اللہ تعالیٰ کو نماز میں چاہیے، جو ذکر اللہ تعالیٰ کو نماز میں چاہیے:
﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾ (طہ: 14)
ترجمہ: ”اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو“۔
وہ یاد جو نماز کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے کسی اور طریقہ سے حاصل نہیں ہو سکتی، جب تک آپ نماز نہیں پڑھیں گے وہ ذکر والی چیز آپ کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہذا تین قسم کے لوگ ہو گئے، پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف ظاہر پر مر مٹے ہیں، یہ کچھ رکھتے ہیں، خالی نہیں ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف باطن کی بات کرتے ہیں یہ کچھ بھی نہیں رکھتے۔ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو ظاہر بھی رکھتے ہیں اور باطن بھی رکھتے ہیں، یہ سب کچھ رکھتے ہیں کیونکہ ظاہر بنیاد ہے۔ باطن کی وجہ سے آپ کا ظاہر ممکن ہے کروڑ گنا ارب گنا اونچا ہو جائے۔ لیکن اگر صرف باطن ہی باطن ہو ظاہر نہ ہو تو کوئی فائدہ نہیں، صفر کو دو کروڑ سے ضرب دو تو نتیجہ صفر ہی ہو گا اسی طرح اگر ظاہر نہیں ہو گا تو باطن آپ کو فائدہ نہیں دے گا لہٰذا پہلے ظاہر کو بنا لو اس کے بعد باطن کے ذریعے اس کو بڑھا لو، یہی محفوظ طریقہ ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا ہے۔
مکتوب نمبر 2 دفتر اول میں فرماتے ہیں:
متن:
رمضان المبارک کی چھٹی تاریخ کو ایسے بقا سے مشرف فرمایا اور ایسا احسان واخلاص میسر ہوا کہ یہ خادم کیا عرض کرے۔ جانتا ہے کہ استعداد کی انتہا وہیں تک ہے اور وہ وصل بھی جو کہ اس خادم کے حال کے مناسب تھا اس مقام میں حاصل ہو گیا اور مقامِ جذبہ کی جہت اب پوری ہو گئی ہے اور سیر فی اللہ میں جو کہ مقام جذبہ کے مناسب ہے۔
تشریح:
آج یہ بات بھی نوٹ کر لیں، بہت اہم بات ہے۔ سیر فی اللہ سیر الی اللہ کے ختم ہونے کے بعد ملتا ہے۔ میں کافی عرصہ سے یہ بات کر رہا ہوں لیکن اس کی دلیل ادھر سے ملی ہے۔ سیر الی اللہ سلوک کو طے کرنا ہے، اس کے لئے جذبِ مبتدی ابتدا میں حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ سلوک طے کر سکے، ایک جذبِ مبتدی ہوا دوسرا سلوک ہوا، سلوک کے ذریعہ سے سیر الی اللہ مکمل ہو گئی اب سیر فی اللہ میں داخل ہو گئے۔ سیر فی اللہ کے بارے میں فرمایا کہ جو مقامِ جذبہ کے مناسب ہے، جس کو ہم جذب وھبی کہتے ہیں وہ یہی چیز ہے یعنی اللہ اس کو کھینچ لیتا ہے، سلوک طے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ کھینچنا ہی اصل کھینچنا ہے، اس کو جذبِ منتہی اور جذبِ وھبی کہتے ہیں، یہ سارے سلسلوں میں ہے لیکن جذب مبتدی صرف نقشبندی سلسلہ میں ہے۔
متن:
اس خادم کی سیر شروع ہو گئی ہے، فنا جتنی زیادہ کامل ہو گی اس پر قائم ہونے والی بقا بھی اسی قدر زیادہ کامل ہو گی اور بقا جس قدر زیادہ کامل ہو گی صحو بھی اسی قدر زیادہ کامل ہو گا اور جس قدر زیادہ صحو حاصل ہو گا علومِ باطنی کا فیضان و ورود بھی شریعتِ حقہ کے موافق زیادہ ہو گا کیونکہ کمال درجہ کا صحو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو حاصل تھا اور جو معارف و علوم انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے ظاہر ہوئے ہیں وہ شریعت کے احکام اور وہ عقائد ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے بارے میں انہوں نے بیان فرمائے ہیں اور ان احکام و عقائد کے ظاہر کی مخالفت بقیہ سکر کی وجہ سے ہے۔ اس وقت جو معارف و علوم اس خاکسار پر جاری ہوئے وہ زیادہ تر معارف و علوم شرعیہ کی تفصیل اور ان کا بیان ہے اور استدلالی علم کشفی و ضروری علم بنتا جاتا ہے اور مجمل علم مفصل ہوتا جاتا ہے۔ع
تشریح:
تصوف سے استدلالی علم کشفی علم بنتا جا رہا ہے اور معارف و علوم کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فنا سیر الی اللہ کے ساتھ ہوتی ہے اور بقا سیر فی اللہ کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے، وہ جذبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔
حضرت کی برکت سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ خدا کے بندو! تمہارا سارا زور سیر الی اللہ حاصل کرنے پر لگنا چاہیے، یہ تمہارا کام ہے ،جب تم سیر الی اللہ مکمل کر لو گے تو اس سے اللہ کی رضا نصیب ہو جائے گی، مقامِ آخر مقامِ رضا ہے، مقامِ رضا سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے گی، اللہ کی رضا سے آپ کو عبدیت نصیب ہو جائے گی اور جب عبدیت نصیب ہو جائے گی تو اس سے علوم و معارف نکلیں گے۔ جب تک آپ نے عبدیت حاصل نہیں کی اس وقت تک آپ کو کسی اور کے علوم و معارف تو حاصل ہو سکتے ہیں، اپنے حاصل نہیں ہو سکتے۔ مثلاً حدیث میں حکم ہے کہ ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ کہ ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ اب مثال کے طور پر میرے شیخ کو یہ چیز حاصل تھی، میں حضرت کی کتاب میں پڑھ لوں کہ حضرت کو یہ مقام حاصل تھا، تو اس کے پڑھنے سے مجھے یہ مقام حاصل نہیں ہوا، اور کیفیتِ احسان سب سے اونچی معرفت ہے درمیان کی ساری معرفتیں اس سے نیچے ہیں، اب میں نے اپنے شیخ کے بارے میں پڑھ لیا کہ ان کو ”اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ“ کی کیفیت حاصل تھی تو صرف پڑھنے سے مجھے یہ مقام حاصل نہیں ہوا، بلکہ مجھے خود حاصل کرنا ہو گا اور خود اس طریقے سے حاصل ہو گا کہ میں کیفیتِ عبدیت میں آ جاؤں، نفس کو قابو کروں اور اسے نفسِ مطمئنہ بنا دوں، اس کے بعد مجھے خود یہ چیز حاصل ہو گی۔ مطالبہ خود حاصل کرنے کا ہے کسی اور کی حاصل کردہ چیز کو پڑھنے کا نہیں ہے۔ اگر مجھے حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سارے معارف سمجھ میں آ جائیں تو علم حاصل ہو گیا لیکن وہ چیزیں حاصل نہیں ہوئیں۔ یہی بات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اور بڑی زبردست بات کی ہے، مجدد ایسی ہی بات کرتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: جو معارف مجدد صاحب کے ہیں وہ مجدد صاحب کے ہی ہیں، ہمارے نہیں ہیں، جو عقیدے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے وہ علماء نے لے لئے اور عوام نے مان لئے، یہ کام ہو چکا ہے، باقی علم اور عمل ہے اسی پر ہم نے محنت کرنی ہے اور یہی ہمارا کام ہے۔ اگر میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب کے حوالے سے یہ بات کہوں تو لوگ کہتے ہیں یہ کون سی بات ہے، اس لیے آج میں حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے کہہ رہا ہوں تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔ نقشبندی حضرات مان لیں کہ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے کہی ہے۔
تمام کشفی علوم ظاہر شریعت کے مطابق نکلے:
مکتوب نمبر 13 دفتر اول میں فرماتے ہیں:
متن:
تمام کشفی علوم ظاہر شریعت کے مطابق نکلے اور ظاہر شریعت میں بال بھر یعنی ذرا بھی مخالفت نہ پائی اور بعض صوفیا جو ظاہر شریعت کے خلاف کشفوں کو بیان کرتے ہیں وہ صحو کی وجہ سے ہے یا سکر (مستی) کی وجہ سے (ورنہ) باطن ظاہر کے بالکل مخالف نہیں ہے۔ راہِ سلوک طے کرنے کے دوران سالک کو جو مخالفت نظر آتی ہے ان اختلافات کی توجیہ کرنے اور ان میں موافقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن حقیقی منتہی باطن کو ظاہر شریعت کے موافق پاتا ہے۔ (ظاہری) علماء اور ان بزرگوں (صوفیائے کرام) کے درمیان صرف اسی قدر فرق ہے کہ علماء (امور شریعت کو) دلیل اور علم کی وجہ سے جان لیتے ہیں اور یہ بزرگ کشف و ذوق کے ساتھ حاصل کرتے اور پالیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے حال کی صحت پر اس مطابقت سے زیادہ مدلل اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے (کہ ان حضرات کا تمام کشف کتاب وسنت اور ظاہر شریعت کے موافق ہوتا ہے اور ظاہر شریعت سے ذرا بھی ہٹا ہوا نہیں ہوتا)
تشریح:
ایک صاحب نے خواب میں آپ ﷺ کی زیارت کی، خواب میں وہ صاحب آپ ﷺ سے مصافحہ کرنا چاہتے تھے، آپ ﷺ نے اپنے منہ مبارک پہ پاؤڈر ملا ہوا تھا، اشارے سے فرمایا اس کو سونگھو۔ وہ شخص حیران تھا کہ اس خواب کی کیا تعبیر ہے؟ ایک مفتی صاحب سے اس کی تعبیر پوچھی جو شیخ بھی تھے، انہوں نے بڑی زبردست تعبیر دی، فرمایا آپ ﷺ در اصل یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ میرے ذوق کو اپناؤ۔ مطلب یہ کہ علم تو آپ کے پاس ہے لیکن علم کو ذوق کی طرف لے آؤ کہ آپ کا ذوق سنت بن جائے، ہر حال میں سنت پر عمل کرنا آپ کا ذوق بن جائے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، یہی حضرت فرما رہے ہیں۔
مکتوب نمبر 43 دفتر اول میں حضرت فرماتے ہیں:
متن:
طریقت اور شریعت ایک دوسرے کا عین ہیں، ان کے درمیان بال برابر بھی مخالفت واقع نہیں ہے فرق صرف اجمال و تفصیل اور استدلال و کشف کا ہے، جو کچھ بھی شریعت کے مخالف ہے وہ مردود ہے کُلُّ حَقِیْقَةٍ رَدَّتْہُ الشَّرِیْعَةُ فَھُوَ زَنْدَقَةٌ (ہر وہ حقیقت جس کو شریعت نے رد کر دیا ہو زندقہ (بے دینی) ہے)۔
مکتوب نمبر 52 دفتر اول۔ (یہ بھی بہت اہم مکتوب ہے۔)
متن:
انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت سے مقصود اور شرعی احکامات میں حکمت کی وجہ یہی ہے کہ نفسِ امارہ عاجز اور خراب ہو جائے (کیونکہ) شرعی احکامات نفسانی خواہشات کو دُور کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں، جس قدر شریعت کے مطابق عمل کیا جائے گا اسی قدر نفسانی خواہشات زائل ہوتی جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ خواہشاتِ نفسانی کے دُور کرنے میں شرعی احکامات میں سے ایک حکم بجا لانا اُن ہزار سالہ ریاضتوں اور مجاہدوں سے بہتر ہے جو اپنی طرف سے کی جائیں، بلکہ یہ ریاضتیں اور مجاہدے جو روشن شریعت کے مطابق واقع نہیں ہوئے نفسانی خواہشات کو مدد اور قوت دینے والے ہیں۔
برہمنوں اور جوگیوں نے ریاضتوں اور مجاہدوں میں کمی نہیں کی ہے لیکن ان میں سے کوئی چیز (ان کے لئے) فائدہ مند نہیں ہوئی اور نفس کی تقویت و پرورش کے سوا (ان کو) اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔
مثلًا زکٰوۃ کی ادائیگی میں جس کا کہ شریعت نے حکم دیا ہے ایک دام (دینار) خرچ کرنا نفس کے خراب (و ذلیل) کرنے میں (بغیر امر شرعی) اپنی مرضی سے ہزار دینار خرچ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور شریعت کے حکم سے عید الفطر کے دن کھانا خواہش (نفسانی) کے دور کرنے میں اپنی مرضی سے کئی سال کے روزے رکھنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور نمازِ فجر کی دو رکعتوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا جو کہ سنتوں میں سے ایک سنت کا بجا لانا ہے اس بات سے کئی درجے بہتر ہے کہ تمام رات نفل نماز ادا کرتا رہے اور فجر کی نماز جماعت کے بغیر ادا کر ے۔
غرض کہ جب تک نفس کا تزکیہ نہ ہو جائے اور دماغ سرداری کے مالیخولیا کی پلیدی سے پاک نہ ہو جائے نجات محال ہے، اس مرض کے دُور کرنے کی فکر ضروری ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اسی مرض میں ابدی موت آ جائے۔
کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ جو آفاقی (بیرونی) و انفسی (اندرونی) معبودوں کی نفی کے لئے وضع کیا گیا ہے نفس کے پاک صاف کرنے میں بہت ہی مفید اور نہایت مناسب ہے۔ بزرگانِ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے نفس کے تزکیہ کے لئے اسی کلمہ طیبہ کو اختیار فرمایا ہے۔؎
تا بجا روبِ لاَ نہ روبی راہ
نہ رسی در سرائے اِ لاَّ اللہ
(ترجمہ)
لَا کی جھاڑو سے نہ ہو جب تک صفائی راہ کی
باب اِلاَّ اللہ میں داخل نہیں ہو گا کبھی
جب نفس سرکشی کے مقام میں آ جائے اور عہد شکنی کرے تو اس کلمہ کی تکرار سے ایمان کو تازہ کرنا چاہیے۔ نبی کریم علیہ الصلٰوۃ و السلام نے فرمایا ”جَدِّدُوْا اِیْمَانَکُمْ بِقَوْلِ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ“ (یعنی لا الہ الا اللہ (کی تکرار) سے اپنے ایمان کو تازہ کر لیا کرو) بلکہ ہر وقت اس کلمہ کی تکرار ضروری ہے اس لئے کہ نفسِ امّارہ ہمیشہ ناپاکی (پلیدی) کے مقام میں ہے۔ اس کلمہ طیبہ کی فضیلتوں کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر سب آسمانوں اور زمینوں (اور ان کے درمیان کی چیزوں کو ترازو کے) ایک پلڑے میں رکھیں اور اس کلمہ طیبہ کو دوسرے پلڑے میں، تو یہ کلمہ والا پلڑا یقینًا بھاری ہو گا۔ اس شخص پر سلام ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفٰے علیہ وعلی آلہِ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کو لازم پکڑا۔
تشریح:
یہ حضرت نے گویا اپنے نقشبندی سلسلہ کا ایک خاکہ کھینچا ہے کیونکہ نقشبندی سلسلہ میں نفس کی تربیت کے لئے سنت اعمال کو اختیار کیا جاتا ہے اور عزیمت کی راہ کو اپنایا جاتا ہے یعنی اس میں کوئی رخصت نہیں لیتے۔ در اصل اس سلسلہ میں عزیمت ہی سب بڑا مجاہدہ ہے کہ آپ کسی حالت میں بھی سنت کو نہ چھوڑیں۔ چونکہ سنت طریقے پر عزیمت اختیار کرنے والے کو اللہ تعالی کی طرف سے تائید حاصل ہے، دوسرا اس میں نفس کا بڑا مجاہدہ ہے تو اس نفس کے مجاہدے سے ہی آپ کی تربیت ہو جائے گی، اور لطف کی بات یہ کہ آپ نے کوئی اور عمل بھی نہیں کیا، عمل بھی وہی کیا جو آپ ﷺ سے منقول ہے۔ اس لیے یہ بہت مناسب طریقہ ہے۔ اگر کوئی بالکل سنت کے مطابق چلتا ہے اور اسی کے ذریعہ اس کی اصلاح ہو جاتی ہے تو اسے اور کون سی ریاضتیں چاہئیں، البتہ اگر کسی کو یہ چیز حاصل نہیں ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے اگر کوئی ریاضت وغیرہ کرنی پڑ جائے تو ٹھیک ہے جیسے باقی سلاسل والے کرتے ہیں۔
مکتوب نمبر 59 دفتر اول۔
متن:
غرض کہ علم و عمل (دونوں) شریعت سے حاصل ہوتے ہیں، اور اخلاص جو کہ علم و عمل کے لئے روح کی طرح ہے اس کا حاصل ہونا صوفیا کے طریقہ پر چلنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (سالک) جب تک سیر الی اللہ قطع نہ کر لے اور سیر فی اللہ حاصل نہ ہو جائے اخلاص کی حقیقت سے دُور اور مخلصوں کے کمالات سے محروم ہے، ہاں عام مؤمنوں کو بھی تعمل و تکلف کے ساتھ بعض اعمال میں مجمل طور پر اخلاص حاصل ہو جاتا ہے لیکن جس اخلاص کو ہم بیان کر رہے ہیں وہ تمام اقوال و افعال اور حرکات و سکنات میں تکلف و بناوٹ کے بغیر اخلاص ہے، اور یہ اخلاص آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کرنے پر موقوف ہے جو فنا و بقا کے ساتھ وابستہ ہے اور ولایت خاصہ کے مرتبہ تک پہنچنا ہے۔ جو اخلاص حیلہ و تکلف کا محتاج ہے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہتا (اخلاص میں) دوام (ہمیشگی) حاصل ہونے میں جو کہ مرتبہ حق الیقین میں ہوتا ہے بے تکلّف ہونا ضروری ہے۔
تشریح:
مجھ سے صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سوال کیا تھا۔ حضرت نے مجھ سے فرمایا شبیر! اس جملے کا مطلب بتاؤ ”تصوف میں تصوف نہیں ہے“۔ میں نے حیران ہو کر کہا: حضرت آپ خود فرمائیں تو اچھا ہے۔ فرمایا: ”تصوّف بابِ تفعّل سے ہے اور بابِ تفعّل میں تکلف پایا جاتا ہے اور تصوّف میں تکلّف نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اخلاص بے تکلف حاصل ہو جائے، یہ تصوف ہے۔
متن:
بس اولیاء اللہ جو کچھ کرتے ہیں حق سبحانہ و تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے کیونکہ ان کا نفس حق تعالیٰ پر قربان ہو چکا ہے، اخلاص حاصل ہونے میں ان کے لئے نیت کا صحیح کرنا ضروری نہیں ہے ان کی نیت فنا فی اللہ و بقا باللہ سے درست ہو چکی ہے۔ مثلاً جو شخص اپنے نفس کا گرفتار ہے وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کے لئے کرتا ہے خواہ وہ اس کی نیت کرے یا نہ کرے، اور جب یہ نفس کی گرفتاری سے دور ہو جائے (یعنی فنا ہو جائے) اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی گرفتاری اس کی جگہ قائم ہو جائے تو بالضرور وہ جو کچھ کرے گا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے کرے گا خواہ وہ اس کی نیت کرے یا نہ کرے، نیت کا ہونا ظنی امر میں ضروری ہے یقینی و متعین امر میں تعین نیت کی ضرورت نہیں ہے۔
تشریح:
حضرت نے بہت بڑی فقہی بات کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو امر ضروری ہے وہ تو آپ نے کرنا ہی کرنا ہے۔
متن:
﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہٖ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے)۔
دائمی اخلاص والا شخص مخلَص بفتح لام ہے
تشریح:
﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْن مُخْلِصِیْن نہیں ہے، مُخْلَصِیْنَ ہے۔
متن:
اور جس شخص کو دوام حاصل نہیں ہے اور (ابھی) اخلاص کا کسب کرتا ہے وہ مخلِص بکسر لام ہے۔
تشریح:
یعنی ابھی جو تکلف کے ساتھ کر رہا ہے وہ مُخْلِص ہے۔ اور جو بے تکلف کرتا ہے وہ مُخْلَص ہے۔ عجیب بات ہے۔
متن:
اور ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اور صوفیا کے طریقہ سے جو نفع علم و عمل میں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ علمِ کلام و استدلال سے تعلق رکھنے والے علوم کشفی ہو جاتے ہیں، اور اعمال کے ادا کرنے میں نہایت آسانی پیدا ہو جاتی ہے اور جو سُستی نفس و شیطان کی جانب سے واقع ہوتی ہو وہ دُور ہو جاتی ہے۔
تشریح:
حضرت نے جس انداز میں یہ چیزیں سمجھائی ہیں، جس جوش اور ہوش کے ساتھ سمجھائی ہیں وہ کمال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت کے فیوض و برکات نصیب فرما دے، صرف نام کی بات نہیں کر رہا ہوں، اصل برکات نصیب فرمائے، کیونکہ نام بہت لوگ لیتے ہیں، نام کے ساتھ مجددی لکھ لیتے ہیں، اس لئے صرف نام نہیں، بلکہ اللہ پاک اصل برکات نصیب فرمائے، بے شک آپ مجددی نہ کہلائیں لیکن ہوں مجددی، یعنی طریقہ آپ کا وہی ہو جو حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، آپ کو کوئی مجددی نہ کہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میرے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نقشبندی نہیں ہے، میں کہتا ہوں میں آپ کے لئے نقشبندی نہیں بنا، خود بن بھی نہیں سکتا تھا، اللہ پاک بناتا ہے، اپنے آپ کو نقشبندی تو کہہ بھی نہیں سکتا تھا یہ تو میرے شیخ نے فرمایا ہے کہ تمھاری نسبت نقشبندی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں یہ صرف باتیں ہی کرتا ہے، اصل نقشبندی نہیں ہے، اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کہ کون کیا ہے آپ لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح طور پر بزرگوں کے پیچھے چلنے والا بنائے۔ ہمارے لئے تو سارے بڑے ہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے ہیں، حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے ہیں، شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی بڑے ہیں، خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بڑے ہیں، ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ اگر اللہ نے ہماری طبیعت نقشبندی بنائی ہے تو اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، جیسے اللہ پاک نے ہمیں حنفیوں میں پیدا کیا تو دوسری طرف جانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بھی صحیح طریقہ ہے، ہم کو اللہ تعالیٰ نے حنفیوں میں پیدا کیا ہے اور ہم نقشبندی بھی ہیں، اسی پر قائم رہنا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان چیزوں کی حقیقت نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ