اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’مقالات قدسیہ اور مقامات قطبیہ‘‘ میں ہمارے جدِ امجد، حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں سے لکھتے ہیں:
متن:
”اچھے اخلاق سعادت ابدی ہے، اور یہ سعادت ہر کسی کو نہیں دی جاتی“۔ ہمارے محترم شیخ صاحب بلکہ شیخ المشائخ (حضرت شیخ رحمکار صاحب رحمتہ اللہ علیہ) اپنے زمانے کے زاہد تھے۔ زُہد میں تین حروف ہیں، زا، ہا اور دال، ”ز“ ترکِ زینت کی جانب اشارہ ہے، ”ہ“ ترکِ ہوا و ہوس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ”د“ ترکِ دنیا کی سمت اشارہ ہے اور آپ ہر تین اوصاف سے موصوف تھے۔ درویش حضرات فرماتے ہیں کہ درویش کا فائدہ اس میں ہوتا ہے کہ آخرت کے لیے دنیا ترک کرے، مگر سلطان العارفین صاحب فرماتے ہیں: "لَیْسَ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَرَکَ الدُّنْیَا لِلْآخِرَۃِ وَالْآخِرَۃَ لِلدُّنْیَا وَ لٰکِنَّ خَیْرَکُمْ مَّنْ لَّمْ تُوْخَذْ مِنْ ھٰذِہٖ وَ ھٰذِہٖ" یعنی وہ شخص تم میں سے بہتر نہیں جو دنیا کو آخرت کے لیے یا آخرت کو دنیا کے لیے ترک کرے۔ بلکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو کہ یہ بھی اختیار نہ کرے اور وہ بھی۔ بقول اقبال:
؎ سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
اے گلشنِ زہد کی نورستہ کلی! زہد یہ نہیں کہ کچھ نہ کھایا جائے بلکہ زہد یہ ہے کہ جو کچھ کھایا جائے حلال کھایا جائے۔ اے درویش! اگر تم کو کسی دولت مند کے دسترخوان پر حاضری کا موقع ملے تو اُس سے اجتناب کرو، اور اپنے آپ کو بچائے رکھو، اور اگر کسی درویش کی جھونپڑی میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو اس کے بے نمک، سُوکھی روٹی سے دل تنگ نہ کیجیو، اور اس کو اس کی بے نوائی کا طعنہ یا احساس نہ دیجیو۔ ایک دفعہ ایک درویش نے ایک دولت مند کو مہمان کیا، جب اُس کی غربت کو دولت مند نے دیکھا، اور اگلے روز کچھ نقد روپے درویش کے پاس ارسال فرمائے، درویش نے اس رقم کو واپس کیا اور کہا کہ میرے لیے یہ سزا کافی ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی سے آگاہ کیا۔ اور یہ عام طریقہ ہے کہ شکاری کتا اکثر اور بہت زیادہ شکار کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے اور چیتا جو کہ شکار کی تاک میں بیٹھا ہوتا ہے، ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دفعہ شکار کا قصد کرتا ہے، اور شکار کے پیچھے زیادہ نہیں دوڑا کرتا۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ کتے کی مانند رزق کی تلاش میں نہ رہیں، اور جو کچھ سامنے آئے تو چیتے کی طرح اُس پر قبضہ کریں۔ اور نیز لوگوں کو چاہیے کہ دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کریں، جیسا کہ چیتا نافرمانی کرتا ہے تو کُتے اُس کے سامنے مارتے ہیں تاکہ عبرت حاصل کرے۔ پس دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کرنا بہت اچھا کام ہے، "اَلسَّعِیْدُ مَنْ سُعِدَ بِغَیْرِہٖ" یعنی نیک بخت وہ ہے جو کہ دوسروں کی حالت سے نیک بختی کے اصول سیکھے۔
تشریح:
یقیناً اچھے اخلاق ابدی سعادت ہے، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ اور یہ اچھا ہونا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہونا ہے۔
اخلاق ایک جامع لفظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست کرے اور مخلوق کے ساتھ بھی معاملہ درست کرے۔ دونوں کے ساتھ جب معاملہ درست ہوتا ہے، تو اس سے اچھے اخلاق ہوتے ہیں، کیوں کہ اگر مخلوق کے ساتھ معاملہ درست کر لیا اور اللہ کے ساتھ معاملہ درست نہ ہوا، تو یہ اچھے اخلاق نہیں ہیں، کیوں کہ اس شخص نے گویا مخلوق کی نظر میں اچھا ہونا پسند کیا اور خالق کی نظر میں ناپسند ہونا قبول کر لیا۔ پس یہ اخلاق نہیں ہیں۔ اخلاق وہ ہیں جن کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی معاملہ درست کرتا ہے اور اس معاملہ کو درست کرنے کے لئے مخلوق کے ساتھ بھی معاملہ درست کرتا ہے۔ گویا نیت اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست کرنے کی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اخلاق میں ہر وہ صفت آ جاتی ہے، جس میں انسان خالصۃً اللہ کے لئے کسی کے ساتھ معاملہ درست کرے، چاہے وہ معاملہ بولنے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے سننے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے سوچنے سے تعلق رکھتا ہو، چاہے چلنے پھرنے سے تعلق رکھتا ہو۔ ہر چیز میں اس کا مطمح نظر یہی ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کو راضی کر لوں اور اللہ پاک جن چیزوں سے راضی ہوتے ہیں ان کو مدِ نظر رکھے اور مخلوق کے جو حقوق اللہ پاک نے مقرر فرمائے ہیں، ان حقوق کو یاد اور مستحضر رکھے اور ان کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ کرے۔ اور فرمایا کہ یہ سعادت ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔ واقعۃً یہ سعادت اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے، جو واقعۃً ہر کسی کو نہیں دیا جاتا۔ خوش قسمت لوگوں کو یہ سعادت دی جاتی ہے، البتہ ہر ایک پر اس کے حصول کی کوشش کرنا لازم ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے حصول کے لئے جس تربیت کی ضرورت ہے، اس تربیت کے اندر جو شخص سعی کرے گا، تو اللہ تعالیٰ کسی کی سعی کو ضائع نہیں کرتا، اس لئے جو شخص کوشش کرتا ہے، اس کو یہ فضل ضرور ملتا ہے، لہذا سعادت مند وہی لوگ ہوتے ہیں، جو اس سلسلہ میں کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے محترم شیخ صاحب بلکہ شیخ المشائخ حضرت شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے زاہد تھے۔ زاہد کے لفظ کے بارے میں حضرت فرماتے ہیں کہ اس کے تین حروف ہیں: زا، ہا اور دال۔ اصل میں ایسی باتوں کو لطائف کہتے ہیں۔ یہ کوئی تفسیر نہیں ہوتی۔ تفسیر اور لطائف میں فرق ہے، تفسیر میں دلیل دینی ہوتی ہے، اس کے لئے دلیل دینا لازم ہوتا ہے، جب کہ لطائف میں مختلف طریقوں اور اعتبارات کے ذریعے سے صرف جوڑنا ہوتا ہے۔ جو چیز جوڑی جاتی ہے وہ لطیفہ بن جاتی ہے۔ لطائف سے ایسی چیزیں حاصل کی جاتی ہیں، جن کی طرف عموماً انسان کا دھیان نہیں جاتا۔ جیسے: زُہد کا لفظ ہے، یہ ایک معروف لفظ ہے، غیر معروف لفظ نہیں ہے۔ عربی زبان کا لفظ ہے اور کم چیز کے اوپر قناعت کر لینا، یہ اس کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس کا بنیادی مفہوم کم چیز کے اوپر قناعت کرنا ہے، لیکن یہاں پر چوں کہ زُہد بہت وسیع لفظ ہے، اس لئے اس کے معنی لوگوں کے سامنے زیادہ بہتر صورت میں اُسی وسعت کے ساتھ، جتنی ممکن ہے، پیش کرنا؛ یہ محققین کا کام ہوتا ہے۔ جیسے ہم لوگ مختلف فارمولے یاد کرتے ہیں اور ان کو الفاظ میں اس طرح ترتیب دے لیتے ہیں کہ ان سے دوسری چیز یاد آ جاتی ہے، ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ چیز اس طرح ہے۔ اسی طریقے سے معارف کو بھی حاصل کرنے کے لئے آسان کلیے اخذ کئے جاتے ہیں، جن سے لوگوں کو ان معارف کا پتہ لگ جاتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ زہد میں تین حروف ہیں: زا، ہا اور دال۔ زا ترکِ زینت کی طرف اشارہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ زینت تو اچھی چیز ہے، یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، لیکن زینت کے اندر دل کا لگا رہنا، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو ایک بیماری ہو جاتی ہے، ہمارے پاس اس بیماری سے متعلق ایک خط بھی آیا تھا۔ وہ بیماری یہ ہوتی ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ ہر ایک مجھے دیکھ رہا ہے۔ عورتوں کے اندر یہ بیماری بہت زیادہ ہوتی ہے۔ عورتیں اپنے کپڑوں کے بارے میں اور اپنے گھر کی چیزوں کے بارے میں بہت حساس ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں کوئی مہمان آ جائے، تو سب سے پہلے گھر کی طرف بھاگیں گی، چیزوں کو درست کریں گی، اگرچہ یہ بھی ممکن ہوتا ہے کہ مہمان کی نظر ان چیزوں کی جائے ہی نہیں، لیکن چوں کہ ان کی اپنی نظر ان چیزوں کی طرف جاتی ہوتی ہے، اس لئے وہ ان چیزوں کے بارے میں بہت فکر مند ہوتی ہیں اور جلدی جلدی ان چیزوں کو درست کر لیتی ہیں۔ اسی طرح کپڑوں کے بارے میں بھی بڑی حساس ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی کو پتا بھی نہ چلے کہ اس نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، لیکن ان کو بڑی فکر ہو گی۔ یہاں تک کہ جب شادی بیاہ پر جاتی ہیں، تو کہتی ہیں کہ یہ کپڑے تو میں نے فلاں شادی پر پہنے تھے، لوگ کہیں گے کہ ابھی بھی وہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی ایسی بات کہہ دے، تو کیا مسئلہ ہو گا؟ بلکہ یہ اچھی بات ہے، کیوں کہ یہ قناعت پسندی ہے اور قناعت پسندی تو اچھی چیز ہے۔ اگر کوئی میرے بارے میں کہہ دے کہ بہت قناعت کرنے والا ہے، تو اس نے میری تعریف کی ہے، میرا عیب تو بیان نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات ہو گی کہ مجھے غریب سمجھے گا، تو غریب ہونا کون سا کوئی عیب ہے! اگر غریب سمجھتا ہے، تو سمجھتا رہے۔ ضروری تو نہیں ہے کہ سارے مال دار ہوں، غریب کو بھی دنیا میں رہنے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر غریب سمجھتا ہے، تو غریبوں کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا ہے کہ یا اللہ! مجھے مسکینوں میں زندہ رکھ اور مسکین ہونے کی حالت میں موت دیجئے، اس لئے یہ تو اچھی صفت ہے۔ بہر حال ترکِ زینت سے مراد یہی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ خواہ مخواہ بے زینت کپڑے پہنے۔ صرف اتنی بات ہے کہ اس کی فکر میں نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کو ان کا ایک معتقد سال کی ابتدا میں 355 جوڑے حوالے کر دیتا تھا اور کہتا تھا کہ حضرت! آپ نے ہر دن میں نیا جوڑا پہننا ہے اور اس کو دھونا نہیں۔ بعض محبت والے ایسے ہوتے ہیں۔ حضرت نے تو اس سے نہیں کہا تھا، اس لئے اشرافِ نفس نہیں تھا اور نہ ہی سوال کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیج دیئے گئے، تو حضرت اس طرح کر لیتے تھے۔ لوگ بڑے حیران ہوتے، کیوں کہ روزانہ نئے کپڑے پہننا، یہ کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ مال دار سے مال دار لوگ بھی شاید آسانی سے ایسا نہیں کر پاتے۔ بہر حال! حضرت کسی جوڑے کو دوبارہ نہیں پہنتے تھے۔ لوگ کہتے کہ یہ تو بہت زیادہ مال دار ہیں، لیکن ایک دن دیکھا گیا کہ چھت ٹپک رہی تھی، کیوں کہ مسجد کچی تھی۔ تو جس جگہ پر پانی گِر رہا تھا، اس جگہ پر کوئی شخص کھڑا نہیں ہو رہا تھا۔ جس وقت حضرت سید صاحب تشریف لائے، تو عین اسی جگہ کھڑے ہو گئے اور اپنے کپڑوں کی پروا نہیں کی، بلکہ اول صف میں جگہ لینے کی سعادت کو سامنے رکھ کر کپڑوں کی پروا کئے بغیر وہاں کھڑے ہو گئے۔ اس سے پتا چلا کہ ان کا دل کپڑوں میں نہیں تھا۔
حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ، نقشبندی سلسلہ کے بزرگوں میں سے ہیں اور حضرت مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہیں۔ یہ بڑے مال دار تھے، حتیٰ کہ ان کے خیمے کی تنابیں سونے کی ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک درویش حضرت سے بیعت ہونے کے لئے آیا اور جیسے وہاں پہنچا، تو دیکھا کہ حضرت کی ایسی شان ہے۔ اس کے ذہن میں زہد کی جو تعریف تھی، وہ حضرت کے اوپر فِٹ نہیں ہو رہی تھی، اس لئے واپس چلا گیا اور جاتے جاتے یہ کہہ گیا:
نا مردے کہ دنیا دوست دارد
وہ مرد نہیں، جو دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ یہ بات اس نے صرف اپنے آپ سے کہی تھی، کسی کے سامنے نہیں کہی تھی۔ واپس جاتے ہوئے چلتے چلتے آخر تھک گیا اور کسی جگہ سستانے کے لئے بیٹھ گیا۔ نیند کا غلبہ ہوا، تو سو گیا۔ خواب میں دیکھا کہ قیامت کا منظر ہے اور حساب کتاب ہو رہا ہے، میزان قائم کیا گیا ہے اور اس کے اعمال پیش ہو رہے ہیں۔ اس کی نیکیاں کم ہو گئیں، تو فرمایا گیا کہ جاؤ، کہیں سے نیکیاں مل جائیں تو لے آؤ۔ چند نیکیاں کم ہیں، اگر یہ مل جائیں، تو ٹھیک ہے، ورنہ پھر جو نتیجہ ہو گا، وہ سامنے ہے۔ اب اس نے بہت پریشانی کی حالت میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں سب سے درخواست کی، لیکن کوئی بھی نیکیاں دینے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ ہر ایک اپنی پریشانی میں تھا۔ اسی پریشانی میں وہ راستے میں کھڑا ہو گیا کہ اگر کوئی نظر آ گیا اور اس نے میری بات مان لی، تو میرا کام ہو جائے گا۔ ادھر خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ خراماں خراماں جنت میں جا رہے ہیں۔ یہ راستہ میں کھڑا ہو گیا، حضرت نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا کہ بھائی! تو کدھر کھڑا ہے؟ کیا مسئلہ ہے؟ اس نے کہا: حضرت! مسئلہ یہ ہے کہ نیکیاں کم ہو گئی ہیں، اب مجھے پریشانی ہے کہ کہاں سے نیکیاں لوں، کوئی شخص نیکیاں دے نہیں رہا۔ حضرت نے کہا: میں نے جو اتنی نیکیاں جمع کی تھیں، ان میں سے جتنی نیکیاں چاہیں، لے لیں۔ اتنے میں وہ جاگ گیا اور پتہ چل گیا کہ یہ تو تنبیہ ہے، میں نے واپس آ کر غلطی کی۔ بہر حال! جب واپس خانقاہ پہنچ گیا، تو حضرت سامنے بیٹھے ہوئے مسکرائے اور فرمایا: آؤ، درویش! کیا حال ہے؟ کس سلسلے میں آئے ہو؟ اس نے کہا: حضرت بیعت ہونے کے لئے آیا ہوں۔ حضرت نے کہا: اچھا بیعت کر لوں گا، لیکن پہلے وہ شعر سناؤ، جو جاتے وقت کہہ گئے تھے۔ اس نے کہا: حضرت! وہ جاہلیت کی بات تھی، چھوڑیں، بس بات ختم ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا: نہیں، میں اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا، جب تک وہ شعر نہیں پڑھو گے۔ اس نے پڑھ دیا، اس نے پڑھا:
نا مردے کہ دنیا دوست دارد
وہ مرد نہیں، جو دنیا کو دوست رکھتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: دوسرا مصرعہ بھی پڑھو۔ اس نے کہا: وہ تو مجھے معلوم نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا: دوسرا مصرعہ یہ ہے۔
اگر دارد برائے دوست دارد
اگر رکھتا ہے، تو دوست کے لئے رکھتا ہے۔
میں آپ کو بتاؤں، ’’اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ‘‘ پس اللہ پاک جمال کو پسند فرماتے ہیں۔ اب جو شخص زینت اس لئے کرتا ہے کہ میں اللہ کو جمیل نظر آؤں، کیوں اللہ پاک جمیل کو پسند فرماتے ہیں، تو اس کا معاملہ الگ ہے، وہ ترکِ زینت کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ یہاں پر زینت اور ترکِ زینت میں زینت سے مراد دنیا ہے، اس کو ترک کرنا ہے۔ ہوا و ہوس کو ترک کرنا ہے۔ ہوا سے مراد نفسانی خواہشات ہیں اور ہوس سے مراد ایسی چیزیں ہیں، جن میں انسان شریعت کی پروا نہ کرے اور اس میں خود غرضی پائی جائے، اس کو ہوس کہتے ہیں۔ ہوس میں خود غرضی پائی جاتی ہے اور محبت میں ایثار پایا جاتا ہے۔ یہ اصل میں بنیادی فرق ہے، ورنہ ظاہری صورت میں اس وقت جتنی بھی فضول شاعری ہے، اس میں ہوس کو محبت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عربوں کے جو جاہلی اشعار ہیں، سارے اسی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ چیز ہوس ہے، محبت نہیں ہے۔
زہد میں دال، ترکِ دنیا کی سمت اشارہ ہے۔ ترکِ دنیا سے مراد مذموم دنیا کا ترک ہے۔ دنیا کی دو قسمیں ہیں: ایک دنیا مذموم ہے اور ایک دنیا محمود۔ جو دنیا محمود ہے، اس کے لئے تو ہم ادھر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ تو ہمارا کام ہے، اس کو حاصل کرنا محمود ہے، لیکن دنیا مذموم سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ آپ رحمہ اللہ ہر تین اوصاف سے موصوف تھے۔ درویش حضرات فرماتے ہیں کہ درویش کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ آخرت کے لئے دنیا ترک کرے۔ مطلب یہ ہے کہ زیادہ کو لے لے اور کم کو چھوڑ دے۔ ترکِ دنیا کی عام تعریف، عام ہے، تعریفِ خاص یہی تعریف ہے، لیکن اس کا ادراک مختلف ہے۔ الفاظ یہی ہیں، لیکن ان الفاظ کے پیچھے جو حقیقت ہے، وہ مختلف ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ دنیا کم ہے اور آخرت زیادہ ہے، لیکن آخرت میں بھی جو کچھ غیر اللہ ہے، مثلاً جنت بھی تو غیر اللہ ہے، جنت اللہ تو نہیں ہے، اب جو آخرت میں غیر اللہ ہے، اگر اس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملا لیا جائے، تو پھر زیادہ والی بات کون سی ہے؟ اس لئے جو عشاق اور اہلِ محبت ہوتے ہیں، ان کا مطلوب صرف اللہ ہوتا ہے، ان کا مطلوب جنت نہیں ہوتی۔ وہ جنت اس لئے مانگتے ہیں کہ اللہ نے حکم دیا ہے کہ جنت مانگو، اس لئے حکم پورا کرتے ہیں۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ ایسے لوگ صرف اللہ کے لئے زینت کرتے ہیں، اسی طرح وہ صرف حکم پورا کرنے کے لئے جنت مانگتے ہیں، ورنہ ان کا مطلوبِ حقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا:
متن:
مگر سلطان العارفین صاحب فرماتے ہیں: "لَیْسَ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَرَکَ الدُّنْیَا لِلْآخِرَۃِ وَالْآخِرَۃَ لِلدُّنْیَا وَ لٰکِنَّ خَیْرَکُمْ مَّنْ لَّمْ تُوْخَذْ مِنْ ھٰذِہٖ وَ ھٰذِہٖ" یعنی وہ شخص تم میں سے بہتر نہیں جو دنیا کو آخرت کے لیے یا آخرت کو دنیا کے لیے ترک کرے۔ بلکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو کہ یہ بھی اختیار نہ کرے اور وہ بھی۔
تشریح:
میں اکثر ایک مثال عرض کرتا رہتا ہوں، مثلاً: بادشاہ نے آپ کی دعوت کی اور آپ بادشاہ کے ساتھ ملاقات کے لئے چلے گئے، اب بادشاہ کے ساتھ آپ کی بات چیت ہو رہی ہے۔ بادشاہ، بادشاہ ہے۔ بادشاہ کے ارد گرد وہ چیزیں ہوں گی جو بادشاہوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ بادشاہ کے کپڑے بھی شاہانہ کپڑے ہوں گے، بادشاہ کی کرسی بھی شاہانہ کرسی ہو گی، بادشاہ کا تخت بھی شاہانہ تخت ہو گا، بادشاہ کی سواری بھی شاہانہ سواری ہو گی، غرض ہر چیز سے شاہانہ شان ٹپک رہی ہو گی۔ اگر انسان کا دل ان چیزوں میں اٹکا ہے، تو وہ ان کی طرف دیکھے گا، بے شک چوری چھپے دیکھے۔ عین ممکن ہے کہ بادشاہ کی نظروں میں بھی کوئی آ جائے کہ یہ تو اس طرف دیکھ رہا ہے، بے شک اس وقت بادشاہ کچھ نہ کہے، لیکن اس کے دل میں ایک بات آ جائے گی کہ اس کا دل میرے ساتھ نہیں ہے، بلکہ چیزوں کے ساتھ ہے۔
میرے ساتھ ایک عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ میری بعض چیزیں گڑ بڑ ہیں۔ میں جب دفتر میں ہوتا تھا، تو جو لوگ مجھے جانتے تھے کہ یہ فلاں افسر ہے، وہ اگر میری قدر کرتے، تو میں اس سے متاثر نہیں ہوتا تھا، لیکن جو لوگ مجھے نہیں جانتے تھے کہ یہ افسر ہے اور پھر بھی قدر کرتے تھے، تو میں اس سے متاثر ہوتا تھا کہ یہ واقعی قدر ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب میں وہاں گیا، تو لوگوں نے ما شاء اللہ بڑی قدر دانی کی۔ میں معمول کی کاروائی کے مطابق چلا گیا اور جو سیکورٹی والا چِٹ بنانے والا تھا، وہ پہلے تو بات سمجھا نہیں کہ میں کس لئے آیا ہوں۔ مجھے کہنے لگا کہ سر! کیا چاہئے؟ میں نے کہا: لیٹر چِٹ بنا دیں، میں اندر جا رہا ہوں۔ کہنے لگا: سر! آپ نے بہت شرمندہ کیا ہے، آپ کو چٹ بنانے کے لئے کس نے کہا ہے؟ آپ تشریف لے جائیں۔ میں نے کہا: قانون نے مجھے کہا ہے۔ کہنے لگا کہ جائیں، بس آپ جائیں، ہم آپ کو جانتے ہیں۔ اس طریقے سے ما شاء اللہ میں جب بھی جاتا ہوں، تو وہ حضرات بڑی محبت کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ پھر میں خوش ہو گیا، میں نے کہا کہ یہ انسان کی ایک انسان کے ساتھ محبت ہے، یہ عہدے (post) کے ساتھ محبت نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی میرے عہدے کے ساتھ محبت کرتا تھا، تو وہ اب محبت نہیں کرے گا۔ اس لئے اس وقت کی محبت متاثر نہیں کر سکتی تھی، کیوں کہ عہدے کے ساتھ تو سارے لوگ محبت کرتے ہیں۔ جب تک انسان کسی عہدے پر ہوتا ہے، اس وقت تک اس کے آگے پیچھے چلتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ جب غلام اسحاق خان صاحب ریٹائر ہو گئے تو ایک دن یہ اور فاروق لغاری صاحب دونوں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، لوگ آ رہے تھے اور لغاری صاحب کے ساتھ مل رہے تھے۔ غلام اسحاق صاحب کے ساتھ کوئی بھی آدمی نہیں مل رہا تھا۔ غلام اسحاق صاحب چپکے چپکے مسکرا رہے تھے۔ کسی آدمی نے کہا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اس چیز کا نظارہ کر رہا ہوں کہ لغاری صاحب چوں کہ موجودہ صدر ہیں، اس لئے لوگ ان کے ساتھ مل رہے ہیں اور سابق صدر سے چوں کہ اب کوئی کام نہیں رہا، اس لئے میری طرف التفات نہیں کر رہے۔ لیکن میرا اپنا خیال ہے کہ ہوشیار، ہوشیار ہوتا ہے۔ ہوشیار اور عقل مند آدمی کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے، اس لئے اگر لغاری صاحب ہوشیار ہوتے، تو یہ ان کے لئے بھی پیغام تھا کہ تم اس وقت چوں کہ چئیر مین ہو، اس وجہ سے یہ لوگ تمھارے ساتھ مل رہے ہیں اور غلام اسحاق صاحب چوں کہ چئیر مین نہیں ہیں، اس لئے ان کے ساتھ نہیں مل رہے۔ کل جب تم چئیر مین نہیں ہو گے، تو تمھارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو گا۔ یہ بالکل سیدھی سیدھی باتیں ہیں۔ یہ بات میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ بادشاہ کے ساتھ اگر میں ملاقات کے لئے جاؤں اور میری نظر بادشاہ کی چیزوں پر ہو، تو میں بادشاہ کی نظر میں گر جاؤں گا، خواہ بادشاہ شریفانہ لحاظ سے مجھے کوئی بات نہ کہے، بلکہ ہو سکتا ہے کہ بادشاہ وہ چیزیں بھی دے دے، لیکن ان لوگوں کے لئے، جن کے دل میں خالصۃً بادشاہ کے ساتھ محبت ہو گی، وہ جب ملنے کے لئے جائیں گے اور بادشاہ کے اوپر ان کی یہ حالت کھل جائے گی، تو ان کی بات الگ ہو گی۔ یہی بات یہاں پر بھی ہے کہ خالص اللہ کے ساتھ محبت ہو۔ اور خالص اللہ کے ساتھ محبت، یہ کسی کسی شخص کے حصہ میں آتی ہے۔
ہمارے سلسلے کے ایک بزرگ گذرے ہیں، جو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بھی شیخ تھے، حضرت خواجہ بدر الدین حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ جن کا لقب سدید الدین ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تاریخ مشائخِ چشت‘‘ میں ان کا ایک واقعہ لکھا ہوا ہے کہ جس وقت حضرت فوت ہو رہے تھے، تو جنت آراستہ کر کے حضرت کے سامنے کر دی گئی۔ حضرت نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا: یا اللہ! اگر میری پوری زندگی کا صلہ یہی ہے، تو میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ پھر جنت کو ہٹا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی فرما دی، اس کو دیکھنے کے ساتھ ہی حضرت فوت ہو گئے۔ یہ بڑے اولو العزم لوگ ہیں، جن کی باتیں سمجھ میں نہیں آ سکتیں، کیونکہ یہ کیفیت ہر ایک کی نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: ’’ولی را ولی می شناسد، نبی را نبی می شناسد‘‘ ولی کو ولی جانتا ہے، نبی کو نبی جانتا ہے، ’’خاتم النبیین را خدا می شناسد‘‘۔ خاتم النبیین کو خدا ہی جان سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خاتم النبیین کی طرح دوسرا کوئی ہے نہیں۔ دوسرا خاتم النبیین تو نہیں ہو سکتا، اس لئے خاتم النبیین کو نبی بھی نہیں جان سکتا۔ اس لئے جن کو وہ کیفیت حاصل نہیں ہوتی، وہ ان کیفیت والوں کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ لیکن فی الواقع تو وہ بڑے اونچے مقام کے لوگ ہوتے ہیں، اس لئے اللہ پاک ایسے لوگوں کا بہت خیال کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے: بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو پراگندہ بالوں والے ہوتے ہیں، اگر ان کے لئے کسی سے رشتہ مانگیں، تو کوئی رشتہ نہ دے۔ اگر وہ سلام کریں، تو کوئی شخص اس کا جواب نہ دے۔ کوئی شخص ان سے مشورہ تک نہ لے، لیکن اللہ کے ہاں ان کا ایسا مقام ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی چیز پر قسم کھا لیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کرنے کے لئے، ان کی لاج رکھنے کے لئے اس قَسم کو پورا کر دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے کارخانۂِ قدرت میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کا معاملہ خالصۃً اللہ پاک کے ساتھ ہوتا ہے، ان کا معاملہ کسی دوسری چیز کے ساتھ نہیں ہوتا۔ اس پر علامہ اقبال نے بھی یہ کہا ہے:
بقول اقبال:
؎سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
واقعۃً جو شخص عبادت اس لئے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی جزا دے گا، تو وہ تو سودا گری ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے بھی یہ الفاظ قرآن پاک میں استعمال کئے ہیں، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے Lowest level (ہماری سمجھ کے ادنیٰ درجے) کے مطابق کلام کیا ہے، تاکہ سب لوگ اس میں شامل ہو جائیں، لیکن جو مقامات ہیں، وہ تو مقامات ہیں۔ خواص، خواص ہیں اور عوام، عوام ہے۔
متن:
اے گلشنِ زہد کی نورستہ کلی! زہد یہ نہیں کہ کچھ نہ کھایا جائے بلکہ زہد یہ ہے کہ جو کچھ کھایا جائے حلال کھایا جائے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ کچھ نہ کھانا، یہ زہد نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے پاس کسی چیز کی کمی تو ہے نہیں کہ اگر آپ اپنے خیال میں کچھ نہیں کھائیں گے، تو اللہ تعالیٰ کا کھانا بچ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی چیزیں بچ جائیں گی۔ ایسا تو نہیں ہے۔ زہد سے مقصود صرف تجھے نفس کے کتے سے آزاد کرنا ہے۔ نفس کا کتا تجھے حرام کی طرف لے جائے گا۔ نفس کا کتا یہ نہیں دیکھتا کہ یہ کس کا مال ہے، وہ یہ دیکھتا ہے کہ مجھے کیا چاہئے۔ اگر دیکھا جائے، تو نفس کا کتا جو ہمارے اندر ہے، وہ تمام چیزوں میں یہی سوچتا ہے، وہ جائز و ناجائز کو نہیں دیکھتا۔ وہ کسی کی ملکیت کو نہیں دیکھتا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے چیز چاہئے۔ اس لئے انسان کا حلال کی طرف متوجہ ہونا، یہ اصل میں نفس کے کتے سے آزاد ہونے والی بات ہے۔ دیکھیں! کسی غیر محرم کی طرف دیکھنا، اللہ تعالیٰ کی نظروں سے گرنے والی بات ہے، یہ بہت سخت بات ہے۔ سمجھنے والوں کے لئے یہ بہت سخت بات ہے کہ کسی غیر محرم کی طرف دیکھا جائے، لیکن اپنی منکوحہ کی طرف نہ دیکھنا، یہ بھی اللہ کو پسند نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ وہ لقمہ جو شوہر اپنی بیوی کے منہ میں دیتا ہے، اس پر بھی اس کو نیکی ملتی ہے۔ صحابہ -کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین- نے پوچھا کہ یہ تو انسان کی اپنی خواہش ہے، اس پر بھی اجر؟ فرمایا: اگر کوئی اپنی خواہش حرام محل میں پورا کرتا، تو پھر کیا ہوتا؟ اس لئے پتہ چلا کہ صرف اتنا نہیں ہے کہ حلال پر پابندی نہیں، بلکہ اس پر پسندیدگی ہے، البتہ اعلی ظرفی یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کے لئے نہ کھائے، بلکہ اس عمل کو بھی اللہ کے لئے کرے۔ ہر کام اللہ کی نسبت کے ساتھ ہو، چاہے منکوحہ کی طرف دیکھنا ہو، چاہے کپڑے پہننا ہو، چاہے کھانا کھانا ہو، چاہے دوست کی دعوت قبول کرنا ہو، چاہے کوئی اور بات ہو۔ بس سارے کام صرف اور صرف اللہ ہی کے لئے ہوں، اپنے نفس کے لئے نہ ہوں۔ واقعۃً بہت سارے لوگ ایسے ہیں، جو کوئی بھی کام اپنے نفس کے لئے نہیں کرتے، وہ ہر کام صرف اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں، ان کے لئے وہ کام خیر بنتا جاتا ہے۔
متن:
اے درویش! اگر تم کو کسی دولت مند کے دسترخوان پر حاضری کا موقع ملے تو اُس سے اجتناب کرو، اور اپنے آپ کو بچائے رکھو
تشریح:
وجہ یہ ہے کہ دولت مند کو عام طور پر دولت کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ (یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، بلکہ قاعدہ اکثریہ ہے) اس لئے وہ آپ کو دولت کے پیمانے پر ناپے گا۔ میں نے ایک دن آپ کو ایک عالم کا قصہ بیان کیا تھا کہ ان کو Heart problem (دل کا مرض) ہو گیا تھا، ڈاکٹر نے ان کو کہا کہ آپ کا bypass (بائی پاس) کرنا ہو گا اور اس پر چار لاکھ روپے لگیں گے۔ یہ سن کر وہ عالم صاحب رو پڑے۔ ڈاکٹر نیک آدمی تھا، اس نے کہا: مولانا صاحب! آپ روئیں نہیں، مجھ سے جتنا ہو سکے گا، میں کوشش کروں گا کہ کم سے کم پیسوں میں بائی پاس کر دوں۔ باقی لوگوں کا بائی پاس چار لاکھ میں ہوتا ہے، آپ کے لئے ڈھائی لاکھ روپے میں ہو جائے گا۔ مولانا صاحب نے کہا: نہیں، میں چار لاکھ دے سکتا ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے پیسے دیئے ہیں اور میرے پاس پیسے موجود ہیں، میں پیسوں کی کمی کی وجہ سے نہیں رو رہا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ پھر آپ کس لئے رو رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ میری اتنی عمر صحیح سالم دل کے ساتھ گزری ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس پر مجھ سے کچھ بھی عوض نہیں لیا۔ اب میرا دل بیمار ہو گیا ہے اور آپ اس بیماری کو تھوڑا سا کم کر رہے ہیں، کیوں کہ بالکل ٹھیک تو آپ نہیں کر سکتے، کچھ نہ کچھ مسئلہ تو اس میں رہ جائے گا، مگر میں اس پر آپ کا شکریہ بھی ادا کروں گا اور چار لاکھ روپے بھی دوں گا۔ لیکن ہماری کتنی کم ظرفی ہے کہ ہم نے اتنا عرصہ صحیح سالم دل کے ساتھ گذار کر بھی اس کا شکر ادا نہیں کیا۔ میں تو اس بات پر رو رہا ہوں۔ اب یہ عالی ظرفی تھی۔ ڈاکٹر صاحب بھی حیران رہ گئے، کیوں کہ اس کا ذہن کبھی اس طرف گیا ہی نہیں تھا۔ اس لئے جو انسان کسی دولت مند کے پاس جاتا ہے، تو دولت مند کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور وہ شخص اس لحاظ سے اس کے پاس جاتا ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں! میں نے یہ صورتِ حال دیکھی ہے اور اس قسم کی چیزیں میرے سامنے آئیں ہیں۔ ہمارے ایک دوست تھے، جو Meteorology Department (محمکہ موسمیات) کے Director General (ڈائریکڑ جنرل) تھے، ڈاکٹر قمر الزمان صاحب۔ میں ایک دفعہ ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، بات چیت ہو رہی تھی۔ وہ چوں کہ پاکستان کے پورے محمکہ موسمیات کے Director General (ڈائریکڑ جنرل) تھے، اس لئے جہاں جہاں اس محکمہ کے آفس تھے، وہ سب ان کے ما تحت تھے۔ تبلیغی جماعت میں موسمیات کے شعبہ کا کوئی آدمی چل رہا تھا، وہ اپنے ساتھ خصوصی گشت میں ساتھیوں کی تشکیل کروا کے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کے لئے آیا، ڈاکٹر صاحب سے جب اس نے بات کی تو ڈاکٹر صاحب اس کو جانتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے Rude language (سخت لہجے میں) میں اس سے بات کی اور اس کو ایسا دبایا کہ اس کو بولنے ہی نہیں دیا۔ مجھے ڈاکٹر صاحب پر بھی غصہ آیا، لیکن مجھے زیادہ غصہ اس آدمی پر آیا کہ اس نے کیوں اس بات کا خیال نہیں کیا کہ مجھے اس شخص کے پاس نہیں جانا چاہئے، کیوں کہ میری اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ میں تو اپنی بے عزتی کر رہا ہوں۔ اس کے پاس کسی دوسرے کو بھیجنا چاہئے تھا۔ مثال کے طور پر اگر میں یہ باتیں ان سے کرتا، تو وہ مجھے کچھ بھی نہ کہتے، بلکہ سن لیتے، اگرچہ نہ مانتے، لیکن جیسے اس آدمی کو دبا دیا تھا، اس طرح مجھے دبا نہیں سکتے تھے۔ کہتے ہیں: ’’نِعْمَ الْاَمِیْرُ عَلٰی بَابِ الْفَقِیْرِ وَ بِئْسَ الْفَقِیْرُ عَلٰی بَابِ الْاَمِیْرِ‘‘۔ اچھا امیر وہ ہے، جو فقیر کے دروازے پر جائے اور برا فقیر وہ ہے، جو امیر کے دروازے پر جائے۔ کیوں کہ فقیر اگر امیر کے دروازے پر جائے گا، تو وہ اپنی عزت مزید کم کروائے گا اور امیر کے ہاں اس کی کوئی عزت نہیں ہو گی۔ ہوشیار لوگ وہ ہوتے ہیں، جو اپنے سے کم درجہ کے لوگوں سے رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کی عزت کرتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے سے اونچے درجے کے لوگوں سے رابطہ اور تعلق رکھتے ہیں، ان کی بے عزتی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے اور کوئی چیز آ جائے گی، تو وہ ان کے خادم بنیں گے اور مفت کے خادم ہوں گے۔ اس کے لئے ہماری پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے: ما ته خان شوده وئیلي دی۔ ترجمہ: "مجھے خان نے شودا کہا ہے"۔ یعنی یہ شخص اس پر خوش ہو رہا ہے کہ مجھے خان نے شودا کہا ہے۔ اس لئے یہ پستی کی بات ہے۔ عزتِ نفس اللہ نے دی ہے اور یہ امانت ہے، اس کو لوگوں کے لئے قربان نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے فرمایا:
متن:
اے درویش! اگر تم کو کسی دولت مند کے دسترخوان پر حاضری کا موقع ملے تو اُس سے اجتناب کرو، اور اپنے آپ کو بچائے رکھو اور اگر کسی درویش کی جھونپڑی میں جانے کا اتفاق ہو جائے تو اس کے بے نمک، سُوکھی روٹی سے دل تنگ نہ کیجیو۔
تشریح:
حضرت صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ، یہ دونوں بڑے بزرگ ہیں اور حضرت بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ہیں۔ حضرت صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت استغراق کی حالت میں ہوتے تھے۔ ایک گولر کے درخت کے نیچے قیام تھا اور کھانا کھانے کے وقت گولر کھا کر پانی پی لیتے۔ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے اُس وقت کے کمیونیکیشن کے طریقہ کے مطابق ایک مرتبہ ایک ڈوم کو خبر لینے کے لئے دونوں کے پاس بھیجا۔ وہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گیا، ان کا تو بادشاہی نظام تھا، ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ نے بڑی فتوحات کھولی ہوئی تھیں۔ یہ چوں کہ حضرت کی طرف سے گیا تھا، اس لئے خواجہ نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ نے خوب آؤ بھگت کی اور اس کے لئے بڑی دعوتیں کیں۔ یہ بہت خوش ہوا۔ کیوں کہ ایسے لوگ تو پٹھو ہوتے ہیں۔ بڑا خوش تھا کہ یہاں تو بڑے مزے ہیں۔ پھر اس کے بعد صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گیا۔ حضرت بالکل مستغرق تھے۔ جب کھانے کا وقت ہوا تو اس نے تعارف کروا دیا کہ بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے آیا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: اچھا، آپ ان کی طرف سے آئے ہیں۔ خادم سے کہا کہ گولر میں تھوڑا سا نمک ڈال دیں، حضرت کا آدمی آیا ہوا ہے۔ بس یہی اکرام تھا۔ چونکہ خود بے نمک کھاتے تھے اور ان کے لئے تھوڑا سا نمک ڈلوا دیا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ یہ بڑے پیٹ والا تھا۔ واپس جا کر حضرت نظام الدین اولیاء کے بڑے قصے سنائے کہ وہ ایسے تھے اور ایسے تھے اور یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا۔ حضرت بابا فرید رحمہ اللہ بیتاب تھے کہ حضرت صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی کچھ بتائے۔ آخر حضرت نے کہا: بھائی! صابر کا بھی کچھ حال بتاؤ کہ وہاں کیا ہوا؟ اس نے کہا: حضرت! کچھ بھی نہیں ہوا، جب میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا تو انہوں نے صرف اتنا کہہ دیا کہ بابا کا آدمی آیا ہوا ہے، اس لئے گولر میں ذرا نمک ڈال دو۔ اس کو سن کر بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ کو وجد آ گیا، جب کہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ساری باتیں سن کر حضرت کو کوئی اثر نہیں ہوا، لیکن ان کی بات سن کر حضرت کو وجد آ گیا۔ فرمانے لگے کہ اچھا، میں اس وقت بھی ان کو یاد ہوں، صابر کلیری رحمہ اللہ تو اللہ کی یاد میں مستغرق ہیں، ان کو تو کوئی شخص بھی یاد نہیں ہو گا، لیکن میں اس حالت میں بھی ان کو یاد ہوں۔ اس بات پر بہت خوش ہو گئے۔ اب بابا فرید رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی کتنی قدر دانی کی۔ لیکن وہ ڈوم چوں کہ جاننے والا نہیں تھا، اس لئے وہ کیا کہہ سکتا تھا؟ اس کو تو صرف پیٹ چاہئے تھا۔
متن:
تو اس کے بے نمک، سُوکھی روٹی سے دل تنگ نہ کیجیو، اور اس کو اس کی بے نوائی کا طعنہ یا احساس نہ دیجیو۔
تشریح:
’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ ایک کتاب ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک صاحب جنگل سے لکڑیاں لاتے تھے، روزانہ بس ایک گٹھڑی لاتے تھے اور اس کو بیچتے تھے۔ اس سے جو پیسے حاصل ہوتے، اس کا چوتھائی حصہ خیرات کرتے تھے، چوتھائی حصہ اپنے اوپر لگاتے تھے یعنی اپنی ضروریات کے لئے استعمال کر لیتے تھے اور ایک چوتھائی حصہ بچاتے تھے۔ اس طریقے سے مہینہ میں اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ جن سے اس وقت کے بزرگوں کی دعوت کرتے۔ وہ بزرگ باقاعدہ ان کی دعوت کے انتظار میں ہوتے تھے کہ کب ان کی دعوت ہو گی۔ کسی نے کہا کہ آخر اس انتظار کی کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا: اس شخص کی دعوت میں اتنی نورانیت ہوتی ہے کہ ہمارا پورا مہینہ اس کے ذریعے سے اچھا گذرتا ہے۔ پس حلال چیز نورانیت والی ہوتی ہے۔ اس لئے حلال چیز بے شک تھوڑی ہو یا روکھی، سوکھی ہو، لیکن جن لوگوں کو جس چیز کی طلب ہوتی ہے، وہ اسی چیز کی طرف دیکھتے ہیں، وہ ظاہری چیزوں کو نہیں دیکھتے۔ پس جو لوگ سمجھ دار ہوتے ہیں اور ان کو نورانیت کا احساس ہوتا ہے، تو وہ درویشوں کی سوکھی روٹی کو نہیں دیکھتے، بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کتنی نورانیت ہے۔
متن:
اور اس کو اس کی بے نوائی کا طعنہ یا احساس نہ دیجیو۔ ایک دفعہ ایک درویش نے ایک دولت مند کو مہمان کیا، جب اُس کی غربت کو دولت مند نے دیکھا، اور اگلے روز کچھ نقد روپے درویش کے پاس ارسال فرمائے، درویش نے اس رقم کو واپس کیا اور کہا کہ میرے لیے یہ سزا کافی ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی سے آگاہ کیا۔
تشریح:
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو وقت کے بادشاہ نے جاگیر کے طور پر ملکِ نیمروز پیش کیا کہ آپ کی خانقاہ کے اخراجات اس سے پورے ہوں گے۔ حضرت نے فارسی کا ایک شعر پڑھا،
چون چتر سنجری رخ بختم سیاه باد
با فقر اگر بود هوس مُلک سنجرم
تا یافت جان من خبر از مُلک نیم شب
صد مُلک نیمروز به مویی نمیخرم
جس کا مفہوم یہ ہے: میرا بخت تیری سیاہ چھتری کی طرح سیاہ ہو جائے، اگر میں تیرے اس ملک نیمروز کی طرف ایک آنکھ بھی دیکھوں۔ جس وقت سے مجھے نیم شبی کی دولت حاصل ہوئی ہے، میں تیرے ملک نیمروز کو ایک جَو کے بدلے میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔
ایسی غیرت ہر شخص نہیں کر سکتا، یہ صرف اللہ والے کر سکتے ہیں، جن کا دل ہر چیز میں اللہ کے ساتھ لگا ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے علاوہ کوئی اور چیز سوچ بھی نہیں سکتے۔
متن:
درویش نے اس رقم کو واپس کیا اور کہا کہ میرے لیے یہ سزا کافی ہے کہ میں نے تم کو اپنی درویشی سے آگاہ کیا۔ اور یہ عام طریقہ ہے کہ شکاری کتا اکثر اور بہت زیادہ شکار کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ اور چیتا جو کہ شکار کی تاک میں بیٹھا ہوتا ہے، ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دفعہ شکار کا قصد کرتا ہے، اور شکار کے پیچھے زیادہ نہیں دوڑا کرتا۔ لوگوں کو بھی چاہیے کہ کتے کی مانند رزق کی تلاش میں نہ رہیں، اور جو کچھ سامنے آئے تو چیتے کی طرح اُس پر قبضہ کریں۔ اور نیز لوگوں کو چاہیے کہ دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کریں، جیسا کہ چیتا نافرمانی کرتا ہے تو کُتے اُس کے سامنے مارتے ہیں تاکہ عبرت حاصل کرے۔ پس دوسروں کی حالت سے عبرت حاصل کرنا بہت اچھا کام ہے، "اَلسَّعِیْدُ مَنْ سُعِدَ بِغَیْرِہٖ" یعنی نیک بخت وہ ہے جو کہ دوسروں کی حالت سے نیک بختی کے اصول سیکھے۔
پانچواں باب
اسلام کی پانچ بنا کے بارے میں اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقامات کے بیان میں
"اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانَ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ" ایمان زبان سے اقرار اور دل سے اس کی تصدیق اور توثیق کرنا ہے۔ یہ بات عوام الناس میں مشہور ہے۔ اور ایمان کی یہی تعریف عام لوگوں کے ایمانی حالت پر صادق آتی ہے۔ لیکن ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایمانی حقیقت نورانیت کے کمال کی دوسری قسم ہے۔ اور ایمان کی یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر حقیقی طور پر ایمان لانا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" کہ جو شخص اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلے، وہ اپنے پروردگار کی معرفت تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اے بھائی! معاف فرمائیں اور مجھ کو معذور سمجھیں جب آپ معرفت کی ابتدا تک پہنچ جائیں گے تو معرفت کی شراب سے مست ہو جائیں گے اور اس مستی کے عالم میں اپنے منتہیٰ کے انتہا تک پہنچ جائیں گے اس کے بعد اپنے نفس کی معرفت حاصل کریں گے کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" یہی حقیقت آپ کے احوال کی تجلیات ہو جائیں گی۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر ایک نکتہ تحریر فرمایا ہے کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسِکُمْ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 128) کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچانا یعنی نفس کی آیت، اور نفس سے مراد رسول اللہ ﷺ کا نفسِ مقدسہ ہے۔ اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ" یعنی جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کے نفس مقدسہ کی معرفت حاصل کی، تو اس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی۔ یہ حقیقت اس معنیٰ اور مفہوم کی طرف جلوہ گری کرتی ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے ابیات:
؎ گر گزر یابی ز نفس و جان و جسم و جان
آشنا گردی یقین با جان جان
جانِ جان ہم پرتو است از ذاتِ او
کس نہ بیند جز بداں مرآت او
”اگر تم نفس و جان اور جسم و جان سے گزر سکو، تو جانِ جان سے واقف ہو جاؤ گے۔ جانِ جان بھی اس کی ذات اقدس کی ایک پرتو ہے۔ اس شیشے کے بغیر کوئی اس کو نہیں دیکھ پاتا“
سرور عالم ﷺ نے بھی فرمایا ہے: "طُوْبٰی لِمَنْ رَّآنِيْ" (مسند الإمام أحمد، رقم الحدیث: 22138) ”اس شخص کے لیے خوش نصیبی ہے جس نے مجھے دیکھ لیا“ جب تجھے محمد رسول اللہ ﷺ کے نفس مبارک کی معرفت حاصل ہو جائے، تو تب معرفت نفس احمدی کی بدولت معرفت حضرت احدی کو حاصل کرو گے۔ اور سرور کونین ﷺ نے رمزًا اور اشارتًا فرمایا ہے کہ "مَنْ رَآنِيْ فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (لم أقف علی ھذا الجزء من الحدیث) ”جس نے مجھے دیکھا اس نے میرے رب کو دیکھا“
پس اللہ تعالیٰ کی معرفت یہ ہے کہ اس جگہ "رَآنِيْ" (مجھے دیکھا) اور "فَقَدْ رَاٰی رَبِّيْ" (اس نے میرے رب کو دیکھا) کے درمیان نکتہ ہے۔ شیخ محمد حسین نے فرمایا کہ اگر میں اس کو ظاہر کرتا تو یہ مجازی اور تقلیدی مسلمان مجھ کو اس کی وجہ سے سنگسار کرتے۔ ان کی نا سمجھی کی وجہ سے میں نے اس کا اظہار چھوڑ دیا۔ لیکن برادرانِ اسلام یہ بات جان رکھیں کہ جو کوئی خود شناس نہ ہو یعنی اپنے آپ کو نہ پہچانے وہ محمد ﷺ کو کیا پہچانے گا؟ کس طرح عارف بنے گا؟ اور محبوب کی معرفت اس کو کیسے حاصل ہوگی؟ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ یَدُ اللّٰہِ فَوْقَ أَیْدِیْھِمْ...﴾ (الفتح: 10) ”تحقیق جو لوگ بیعت کرتے ہیں، تجھ سے وہ بیعت کرتے ہیں اللہ سے، اللہ کا ہاتھ ہے اوپر اُن کے ہاتھ کے“ (ترجمہ شیخ الہند) کی بیعت کی حقیقت تم پر جلوہ افروز ہو گی۔ اور بیعت کی اس نعمت عظمیٰ کے بعد ﴿اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔۔﴾ (المائدہ: 3) ”آج میں پورا کر چکا تمہارے لیے دین تمہارا اور پورا کیا تم پر احسان اپنا“ کی نعمت سے تمہاری تکمیل ہو گی۔ اس کے بعد ﴿لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ۔۔۔﴾ (آل عمران: 164) ”اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کا“ کے احسان عظیم کے مستحق ہو گے۔ اور اس احسانِ عمیم کا تم پر اتنا زیادہ شکر کرنا واجب ہوگا جو کہ تحریر میں نہیں آ سکتا۔ اور شکر کثیر کے ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ تم کو اتنی فراواں نعمت سے نوازے گا اور اپنی اتنی معرفت عطا فرمائے گا کہ اس معرفت میں نہ تو عارف کو پہچانے گا، اور نہ معروف کو۔ یہ بھی ایک تحقیق شدہ بات ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" یعنی سمجھنے سے عاجز ہونے کا سمجھنا بھی سمجھنا ہے، یعنی عجزِ معرفت و ادراک یہ ہے کہ عارف کی ذات کو کھا جائے اور محو کرے، اور عارف کی جگہ معروف رہ جائے۔
تشریح:
یہ واقعۃً بالکل صحیح بات ہے۔ حقائق حقائق ہوتے ہیں، جیسا کہ میں نے زہد کی حقیقت کے بارے میں باتیں عرض کی ہیں۔ ایک ہوتا ہے کسی چیز کے بارے میں عمومی تاثر اور ایک اس کی حقیقت ہوتی ہے۔ چوں کہ حقیقت تک ہر ایک نہیں پہنچ سکتا، اس لئے اسی عمومی تأثر پر ہی قناعت کا یقین کیا جاتا ہے اور اس کو غلط نہیں سمجھا جاتا۔ اب وہ عمومی تأثر غلط تو نہیں ہوتا، لیکن اس چیز کا اعلیٰ درجہ وہی ہوتا ہے، جو خاص لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جیسے ایمان کا عرفی معنی تو ہے: ’’إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ (یعنی زبان سے اقرار کرنا اور دل سے تصدیق کرنا) یہ ایمان کا عرفی معنی ہے، لیکن تصدیق کس قسم کی ہے؟ یہ ہر ایک کا اپنا اپنا حال ہے۔ وہ تصدیق جو انسان کو حسنات و سیئات کے حقائق سے آگاہ کر دے، ایسی تصدیق خواص کو حاصل ہوتی ہے۔ جیسے زہر کی حقیقت جب انسان پر کھل جاتی ہے، تو وہ اس کو ہاتھ نہیں لگاتا، اسی طرح جب حالی کیفیت ایمان کے ساتھ مل جائے، تو اس کی بھی الگ بات ہے۔ اور وہ یہ کہ اللہ پاک نے جس چیز سے منع فرمایا ہے، وہ تو زہر سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اب اگر کسی کا ایمان کامل ہو اور اس کو واقعی معرفت کامل حاصل ہو، تو وہ اس چیز کے قریب کیسے جائے گا؟ وہ اس چیز کے قریب جا ہی نہیں سکتا۔ جو لوگ گناہوں کے قریب جانے والے ہیں، ان کو عمومی ایمان تو حاصل ہے، لیکن ایمان کی خاص حقیقت حاصل نہیں۔ اب جن لوگوں کی ایمان کی خاص حقیقت پر نظر ہوتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ شرک فی الطریقت ہے۔ وہ شرک فی الشریعت نہیں ہوتا، یعنی آپ اس کو شریعت کی رو سے مشرک نہیں کہہ سکتے، لیکن طریقت والے حضرات کا معاملہ الگ ہے۔ جس طرح حدیث میں ہے: ’’مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ فَقَدْ کَفَرَ‘‘ پس ایک تو بے نمازی کا شرعی حکم ہے، اس اعتبار سے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا۔ اس بارے میں علماء کرام نے باقاعدہ تشریح فرمائی ہے اور وہ اس حدیث کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ اس نے کافروں جیسا کام کیا۔ اس وجہ سے بے نمازی کے اوپر کفر کا فتویٰ نہیں لگا۔ لیکن جو سمجھ دار ہے، ان کی بات جدا ہوتی ہے، وہ کسی اور چیز کو دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بزرگ تشریف لائے تھے، بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ ان کے کسی جاننے والے نے ان سے کہا: حضرت! کافی تعداد میں لوگ استقبال کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے فرمایا: خدا کے لئے صرف ایک آیا تھا۔ اب دیکھیں! ان کی نظر کس چیز پر تھی؟ ان کی نظر اس چیز پر تھی کہ خدا کے لئے کون آیا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اپنی دنیا کی چیزوں کے لئے کون آیا ہے۔ ان کی نظر اس پر نہیں ہوتی۔ اس لئے جو اہلِ حقائق ہوتے ہیں، وہ حقائق ہی سے متاثر ہوتے ہیں، وہ حقائق کی باتیں کرتے ہیں اور حقائق لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ سارے لوگ ایسے ہو سکتے ہیں یا ہو جائیں گے، کیوں کہ بات اس طرح کی جائے گی کہ کم سے کم level (سطح) والے بھی اس میں سما سکیں، لیکن اگر ہم لوگ معیار کو چھوڑ دیں گے، تو پھر ہم اس اعلیٰ مقام پر تو قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اس لئے معیار کو بھی قائم رکھنا ہے اور وسعت بھی دینی ہے۔ گویا کہ اس درجہ بندی کو محفوظ رکھنا ہے۔ ہر ایک کے ساتھ اس کے درجہ کے مطابق معاملہ ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’کَلِّمُوْا النَّاسَ بِقَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ لوگوں کے ساتھ ان کی عقل کے مطابق بات کرو۔ جس کی جتنی عقل ہے، اس کے مطابق اس سے بات کرو۔ اس لئے حضرت نے فرمایا: ’’اگر میں تقلیدی لوگوں کے سامنے وہ باتیں کروں، تو یہ مجھے سنگسار کر دیں گے‘‘۔ اس لئے زیادہ باتیں بیان نہیں کیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’مجھے جو علم ملا ہے، اگر میں وہ ظاہر کر دوں، تو یہ لوگ مجھے سنگسار کر دیں گے‘‘۔ یہ اس وقت کی بات ہے۔ اس لئے کوئی تو بات تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا فرمایا۔ اور وہ صحابی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں، جو لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ کیوں سمجھ میں نہیں آ سکتیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا وہ حال نہیں ہوتا اور وہ قال کی چیزیں ہوتی نہیں۔ قال کی چیزیں تو قال سے سمجھ میں آ جائیں گی، لیکن حال کی باتیں قال سے کیسے سمجھ میں آ سکتی ہیں۔ اس لئے اہلِ حال ہی ان چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اہلِ حال کے سامنے حال کی بات کو لایا جا سکتا ہے، وہ ان کو جان سکتے ہیں اور وہ ان کی قدر بھی کر سکتے ہیں۔ ورنہ عام لوگ تو کہیں گے کہ پتہ نہیں، یہ کیا چیزیں ہیں؟ یہ کیا باتیں کر رہا ہے؟ یہ اصل میں بنیادی مسئلہ ہے کہ اگر ہم لوگ بزرگوں کے ساتھ بیٹھیں، تو سارے لوگ ان سے ایک جیسا استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ کس قبیل کا آدمی ہے۔ ’’کَلِّمُوْا النَّاسَ بِقَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ کے مطابق وہ سوچتے ہیں کہ اس کے ساتھ کس level کی بات کریں۔ جو شخص جس level (سطح) کا ہوتا ہے، اس کے ساتھ اسی level (سطح) کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے جو لوگ اصل فیض لینے والے ہوتے ہیں، وہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں! حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ فیض حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حاصل کیا، اگرچہ اس وقت دوسرے حضرات بھی عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے تھے، لیکن سب نے ایک جیسا فیض نہیں لیا۔ ایسے ہی خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ بھی گئے تھے اور دوسرے حضرات بھی تھے، لیکن سب نے ایک جیسا فیض نہیں لیا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور اسی طرح دوسرے بڑے اکابر حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے تھے اور عام لوگ بھی گئے تھے، لیکن سب نے ایک جیسا استفادہ نہیں کیا۔ جگہ ایک ہی ہوتی ہے، لیکن ہر ایک اپنے اپنے حال کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان بزرگوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ