نَسَمَہ کی تہذیب کے لئے متاخرین صوفیا کرام نقشبندیہ کا دریافت کردہ مختصر راستہ
نَسَمہ کی ہر ہر قوّت (عقلیہ، وہمیہ، خیالیہ، عازِمہ اور محرّکہ)کی علیحدہ علیحدہ تدریجی (gradual) اصلاح کر کے اس قوّت کی تہذیب کے آخری درجے تک پہنچنا؛ ایک محفوظ لیکن لمبا راستہ ہے۔ اس کو تصوّف کی اصطلاح میں ”سلوک“ کہتے ہیں۔ حضراتِ نقشبندیہ کا دریافت کردہ مختصر طریقہ جس کو حضرت مجدّد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ ”طریقِ نا مَسلُوک“ کہتے ہیں، اس کا خلاصہ ان کے مکتوب نمبر 287 کی روشنی میں درج ذیل ہے:
نقشبندیہ طریقے میں سلوک سے جذب کو ملا کر کئی مراحل (steps) کو ایک جَسْت میں طے کرا دیا جاتا ہے۔ ابتدائی محبت یا جذب کی مدد سے روح کو بیدار کیا جاتا ہے، پھر سلوک کے ذریعے نفس کی اصلاح کے چیدہ چیدہ مقامات طے کرا دئے جاتے ہیں، جس سے روح نفس سے چھوٹ کر عالمِ بالا (مَلَاءِ اعلیٰ، حظیرۃ القدس) سے مل جاتی ہے۔
ملاءِ اعلیٰ سے یہ تعلق تمام خوبیوں کی جان ہے۔ اس تعلق کے حصول کے بعد ایسا شخص اس دنیا میں ہو کر بھی دنیا کا نہیں رہتا۔ اس کی معلومات (information) کے ذرائع عام انسانی ذرائع سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ یہ عالمِ بالا سے آنے والی معلومات (information) کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ یہ ایک مستقل (continuous) تعلق ہوتا ہے۔ ایسے شخص کی عقل (قوّتِ عقلیہ، قوّتِ خیالیہ اور قوّتِ وہمیہ) ملاءِ اعلیٰ سے تعلق کی وجہ سے ترقی پا کر ایک ترقی یافتہ شکل (سِرّ) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس میں آنے والی کلیات و تجاویز، ادراکات اور تصورات کا تعلق بھی ملاءِ اعلیٰ سے ہوتا ہے اور اس کی دل کی کیفیات اور قوّتِ محرکہ بھی اس ملاءِ اعلیٰ سے تعلق کی وجہ سے ترقی پا لیتی ہیں۔ جس کو صوفیاء ’’الروح‘‘ کہتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نَسَمہ کی قوّتیں interrelated (باہمی طور پر ایک دوسرے پر منحصر) ہیں۔ ایک کا اثر دوسری پر پڑتا ہے۔ اس لئے ملاءِ اعلیٰ سے تعلق کی وجہ سے نَسَمہ کی تمام قوّتیں اپنی اپنی استعداد کے مطابق بآسانی تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں۔
ایک ضروری تنبیہ: مذکورہ بالا آخری طریقے (اور) راستے سے واقفیت کسی کامل رہبر یعنی شیخ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ صرف مطالعہ سے یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے اس کو ’’طریقِ نا مسلوک‘‘ کہا گیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ نقشبندیہ کے اس وضع کردہ طریقے کے بیان کو اس سلسلے کی دوسرے سلاسلِ تصوّف پر ترجیح نہ سمجھا جائے، بلکہ تصوّف کے ہر سلسلے کا اس بارے میں اپنا ایک مخصوص طریقہ ہے، جو سب درست ہیں۔
روح کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی رح کی تحقیقات میں تطبیق
ما شاء اللہ! دونوں اکابر کو قرآن پاک کی تفسیر میں بہت درک حاصل تھا۔ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی صاحب رحمہ اللہ نے روحِ سفلی کو نفس فرمایا ہے، جب کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفس کی تین قسمیں ہیں: انسانى نفس، نباتى نفس اور حیوانى نفس۔ اور روح کے بھی تین اجزاء بتاتے ہیں: روحِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوتی۔ اگر دیکھا جائے، تو روحِ ملکوتی کا تعلق عالمِ امر سے ہے اور روحِ ہوائی کا تعلق عالمِ خلق سے ہے، جب کہ نفسِ ناطقہ ان دونوں کے درمیان برزخ ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ (نفسِ ناطقہ) انسان میں ہوتا ہے اور مادی اثرات اور روحِ ملکوتى کے ملاپ سے وجود مىں آنے والى انسانى روح کا دوسرا جزو ہے۔
نفس کی صفات کے لحاظ سے بھی قرآن تین قسمیں بتاتا ہے: نفسِ اَمّارہ، نفسِ لَوّامہ اور نفسِ مُطمئنہ۔ پھر انسان کے اندر حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تین لطائف بیان فرماتے ہیں: قلب، نفس اور عقل۔ یہ تینوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ پس نفس کے اندر جو فجور کے تقاضے ہیں، اگر انسان ان کے مطابق عمل کرتا ہے، تو از روئے حدیث شریف اس سے دل متاثر ہوتا ہے اور اس پر سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے۔ اگر توبہ کرے، تو دور ہو جاتا ہے، ورنہ باقی رہتا ہے۔ اس لئے اصلاح کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سلوک کے ذریعے نفس کے رذائل دبا دئے جائیں اور توبہ سے دل کو صاف کیا جائے، تو اللہ تعالی کا کرم ہو جاتا ہے اور اللہ جل شانہٗ اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے۔ اس طریقے کو ’’سلوک جذب ‘‘ کا طریقہ کہتے ہیں۔اس میں سلوک پہلے اور حقیقی جذب بعد میں حاصل ہوتا ہے ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دل پر محنت کر کے اس کو صاف کیا جائے، جس سے دل کو اتنی روشنی ملے کہ خیر و شر اس کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے صاف معلوم ہونے لگے، پھر دل کی قوّتِ عازمہ کو کام میں لا کر نفس پر محنت کی جائے یعنی سلوک طے کرایا جائے اس کو ’’جذب سلوک‘‘ کا طریقہ کہتے ہیں۔یعنی اس میں ابتدائی جذب پہلے اور سلوک بعد میں آتا ہے۔
پس حضرت قاضی رحمہ اللہ کی تحقیقِ روح علوی اور سفلی، جس میں روحِ علوی کو روح اور روحِ سفلی کو نفس کہا گیا، یہ اجمالی ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور حضرت شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی تحقیق میں قدرے تفصیل ہے، جس سے تصوّف کے طریقوں کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم۔ البتہ محققین حضرات اپنی اپنی بصیرت کے لحاظ سے اگر ایسی چیزوں کی تشریح مختلف بتائیں، جن میں قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہو، تو وہ اپنی اپنی تحقیق پیش کر سکتے ہیں اور بعد میں ان پر مزید تحقیق کر کے دوسرے محققین اپنی اپنی رائے پیش کر سکتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت بھی وہی ظںی ہوتی ہے، جو ان سے پہلے کے محققین کی تحقیق کی ہوتی ہے۔
انسان کی فطرت خیر ہے یا شر؟
حدیث شریف میں ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں، جیسے چوپائے جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے، کوئی ان میں کان کٹا نہ پاؤ گے۔ اسی طرح صحیح مسلم شریف کی بھی ایک حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندے یکسوئی والے پیدا کئے، ان کے پاس شیطان پہنچا اور دین سے ورغلا لیا۔ اس لئے روح تو بوقتِ پیدائش سب کی یکساں طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف یکسو ہوتی ہے، لیکن شیطان اس کو اس کے نفس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق عدم سے وجود میں آئی ہے اور عدم شرِّ محض ہے تو اس کو جانتے ہوئے مندرجہ بالا احادیثِ شریفہ کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟
فطرت کا وسیع مفہوم:
پس حدیث میں جو فطرت کا لفظ ہے، وہ بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے اور یہ لفظ تقریباً ہر اس شے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جو انسان کو اس دنیا میں خالقِ کائنات کی جانب سے بنی بنائی مل گئی ہو۔ اس کو انگریزی میں ’’Nature‘‘ کہا جاتا ہے۔ جیسے قدرتی طور پر پیدا کی ہوئی کائنات، آفرینش، قدرت، طبیعت یا اقتضائے طبیعت جو پیدائشی ہو اور خارجی اثر سے پیدا نہ ہوا ہو۔ اردو میں اس کے لئے دیگر الفاظ بھی استعمال کئے جاتے ہیں، جیسے لفظ ’’قدرتی‘‘۔ لفظِ فطرت یا فطری سے ملتا جلتا ایک لفظ ’’طبیعی‘‘ بھی فطرت کے مفہوم میں آتا ہے اور اسی سے بنا ہوا ایک لفظ مشہور شعبۂ علم کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے یعنی طبیعیات۔ عام طور پر طبیعی کا لفظ طبیعت سے الگ مفہوم میں آتا ہے، مگر اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے: ’’طبیعی موت‘‘ تو اس سے مراد وہ موت ہوتی ہے، جو کسی حادثے یا بیماری کی وجہ سے نہ ہوئی ہو، بلکہ فطری طور پر واقع ہوئی ہو۔ ان ہی تمام وجوہات کی بنا پر اس اردو دائرۃ المعارف پر Nature کے سائنسی مضامین میں استعمال کے لئے فطرت کا لفظ منتخب کیا گیا ہے۔
انسان چونکہ دو چیزوں کا مرکب ہے یعنی روح اور نفس کا، اس لئے اس میں روحانی طور پر خیر کی صلاحیت موجود ہے اور نفسانی طور پر شر اور خیر دونوں کی۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا﴾ (سورۃ الشمس: 8) اور نفسِ اَمّارہ شر کی طرف مائل ہوتا ہے۔ نیز یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر انسان نفسِ اَمّارہ اور شیطان کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اس لئے نفسِ اَمّارہ اس کو برائی کی طرف مائل کرتا ہے اور شیطان اس کے نفس کی خواہشات کو بنیاد بنا کر اپنے وسوسے سے اللہ تعالیٰ سے دور لے جانا چاہتا ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں شیطان کے مکالمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس (انسان) کو تجھ تک نہیں آنے دوں گا اور تُو ان میں سے بہت کم (انسانوں) کو شکر گزار پائے گا۔ حضرت مجدّد الفِ ثانی صاحب رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ روح اللہ تعالی کی عاشق تھی، لیکن نفس نے اس کو جکڑ کر اپنا تابع بنا لیا اور یہ اللہ کو بھول گئی۔ نفس کے اندر خیر اور شر دونوں کا جو مادہ ہے، اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب نفس میں خیر کا مادہ بذریعۂ تربیت یا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے غالب ہو جاتا ہے، تو روح تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف مائل ہوتی ہے، لہذا دونوں کے مل جانے سے روحانیت پیدا ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو یعنی نفسِ اَمّارہ کا علاج نہ کیا جائے اور شیطانی ماحول اس کی نفسانی خواہشات کو ابھار کر اس کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دے، تو پھر نتیجہ اس کے بر عکس ہو سکتا ہے۔ پس فطرت میں تو خیر کا مادہ موجود تھا، لیکن ماحول نے اس کو ضائع کروا دیا اور اس کو نفس کے شر اور شیطان کے حوالے کر دیا۔ اس کی بہترین مثال؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کے ذریعے دینِ اسلام کو تقویت دلانے کی دعا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں دونوں صلاحیتیں موجود تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے اور آپ ﷺ کی صحبت و تربیت سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ابو جہل اسلام کا دشمن ہو کر اپنی ان صلاحیتوں کے غلط استعمال سے کہاں پہنچ گیا۔ ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ﴾ (سورۃ الحشر: 2)