توضیح المعارف قسط 04

مجتہدینِ کرام کا کام:
اوپر دنیاوی لحاظ سے ”نَسَمَہ“ کی کسی خاص قوت کی تہذیب میں کمال حاصل کرنے والوں مثلاً شاعر، فلسفی، کھلاڑی کا عوام سے فرق کا ذکر ہوا۔
اسی طرح انبیائے کرام کے بعد ان کے کامل مُتَّبِعِیْن (followers) میں سے بھی بعض ایسے تھے جن کی ”نَسَمَہ“ کی کسی خاص قوت میں استعداد بلند تھی اور ان کو انبیائے کرام علیہم السلام سے زیادہ مشابہت بھی حاصل تھی۔ ایسے حضرات نے اپنی فطری استعداد کے مطابق نسمہ کی کسی خاص قوت سے متعلق انبیائے کرام کے بتائے ہوئے بنیادی احکامات پر اپنی توجہ مرکوز کی۔ ان احکامات سے کچھ کُلِّیَّات (general laws) اخذ کئے۔ پھر ان کلیات سے ایسے نئے معاملات میں، جن کے بارے انبیائے کرام سے احکام منقول نہیں تھے، جزئی (specific) احکام مستنبط (deduce) ) کئے۔ ایسے حضرات کو ”مجتہدین“ کہا جاتا ہے۔ اس عمل سے کئی نئے علوم و فنون وجود میں آئے، جن کی بنیاد تو انبیائے کرام علیہم السلام کی نصوص پر ہے، لیکن فروعی مسائل براہِ راست ان سے منقول نہ تھے۔
اس امت میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اولین مجتہدین تھے۔ چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے دور کے حالات کے لحاظ سے ایسے اقدامات کئے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے منقول نہ تھے۔ یہ کام انہوں نے آپ ﷺ کی منشاء کے مطابق ہی کئے تھے۔ مثلاً حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا منکرینِ زکوٰۃ سے جہاد، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خواتین کے مسجد میں نماز پڑھنے کو نا پسندیدہ قرار دینا، ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں (پر مستقل علیحدگی کا حکم) نافذ کرنا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا امت کو ایک مصحف پر جمع کرنا، جمعہ کی نماز کی پہلی اذان کا سلسلہ شروع کرنا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مسلمانوں کی آپس کی لڑائی کی صورت میں قواعد بنانا وغیرہ۔
آپ ﷺ کے صحابہ کرام کے بارے میں ”مَآ اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سننِ ترمذی: 2641) کے عمومی حکم کے ساتھ خصوصی طور پر ”عَلَیْکُمْ بِسُنِّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ الرَّاشِدِیْنَ“ (سنن ابن ماجہ: 42) کا علیحدہ حکم دینے میں شاید یہی مصلحت ہے کہ ان چاروں حضرات کی شانِ مجتہدیت امت پر واضح ہو اور امت کو ان معاملات میں بھی ان حضرات کا اتباع کرنے میں تردد (hesitation) نہ ہو جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے براہِ راست منقول نہیں ہیں۔
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بعد بھی امت میں با اِستعداد امتیوں کے اجتہاد کا سلسلہ جاری رہا۔ ان میں چار فقہ کے امام مشہور ہیں۔ لیکن اجتہاد کا یہ عمل صرف فقہ تک محدود نہ تھا۔ بلکہ آپ ﷺ کے لائے ہوئے تمام علوم میں جاری رہا۔ ان میں سے چند علوم کے نام درج ذیل ہیں:
اسلامی علماء کے ہاں نَسَمَہ کی تہذیب سے متعلق علوم کے نام:
علم الکلام وہ علم ہے جس میں اسلامی عقائد پر عقل کی روشنی میں بحث کی جاتی ہے۔ اور اگر ان عقائد کی تشریح میں کشف سے مدد لی جائے تو اس کو عام طور پر علم التصوف کہتے ہیں۔
نوٹ: علم التصوف کی کتابوں میں عقائد کے بارے جو مباحث پائے جاتے ہیں، ان کا تعلق عقل سے ہے، جو نَسَمَہ کی قوتوں میں سے ہے۔ ان میں اور ان کے مآخذ یعنی اکابر صوفیاء کے وہبی علوم یا معرفت، جس کا منبع نَسَمَہ سے بالا تر ہے، میں بہت بڑا فرق ہے، جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
قوتِ مُحَرِّکہ سے متعلق علم کا نام فِقْہ ہے۔ اور قوّتِ مُتَخَیِّلہ سے جس علم میں بحث کی جاتی ہے، یعنی جس میں خیال کی صفائی کے طریقے بیان ہوتے ہیں۔ اس کا نام آداب التصفیه العزله ہے۔ قوّتِ واہمہ سے متعلق علم کا نام علم الاَشغال و المُراقبات و النَّسب ہے جو علمِ قلب سے متعلق ہے۔ جس علم میں انسان کے اخلاق اور فطری جذبات، احوال اور مقامات کی بات ہوتی ہے، اس کو علم السلوک کہتے ہیں۔
علم الکلام اور علم الفقہ کے علاوہ نَسَمَہ کی تہذیب سے متعلق مندرجہ بالا سارے علوم آج کل تصوف کے اصطلاحی نام کے تحت ہی بیان کئے جاتے ہیں۔
اجتہادی علوم کے بارے میں چند غلط فہمیاں اور ان کا حل:
ہر علم اور فن میں کچھ مبادی (preliminaries) ہیں۔ ان کا اس فن کے اصل مقاصد سے تعلق کیسا اور کتنا ہے، یہ اس فن کے ماہرین ہی بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔ اس فن سے نا واقف لوگ اکثر ان مبادی کو مقاصد سمجھ کر اعتراض کرتے ہیں اور اس کو بدعت سمجھ کر اس کے لئے نصوص سے دلیل مانگتے ہیں۔ مثلاً تصوف کے بعض سلاسل میں جاری ذکر بالجہر یا مراقبات جن کی حیثیت اس راہ پر چلنے والوں کے مقاصد کے لئے مَبَادی کی سی ہے۔
اس کو یوں سمجھ لیں کہ جیسے علم الفقہ جس میں شریعت کے احکام پر بحث ہوتی ہے، اگر اس کا طالب علم عربی گرامر پڑھ رہا ہو، تو کوئی اس کو بدعت نہیں سمجھتا۔ کیونکہ عربی گرامر کا اس علم کے لئے مبادی یا preliminary subject ہونا سب کو واضح ہے۔ لیکن تصوف کے ماہرین، اپنے تجربات اور بصیرت کی روشنی میں اس راہ کے سالکوں کے لئے جو اشغال و مراقبات یا ذکر بالجہر (اونچی آواز میں خوش آوازی سے ذکر کرنا) تجویز کرتے ہیں، ان کا تصوف کے مقاصد (للّٰہیت، خشوع خضوع وغیرہ) سے تعلق، ہر کسی کو پہلی نظر میں معلوم ہونا ضروری نہیں۔
اسی طرح بعض اوقات فن سے نا واقف لوگ اس فن کے مبادی کو بدعت تو نہیں لیکن لغو قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ بعض اوقات مبادی کا مقاصد سے تعلق اتنا مخفی ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والے پر یہ تعلق نہیں کھل پاتا۔ مثلاً یہ بات کہ عربی گرامر کے قواعد یا زمانۂ جاہلیت کے عرب اشعار کے کلام سے فقہ کے مقاصد مثلاً احکام کا فرض یا واجب ہونے کا کیا تعلق ہے؟ یہی حال نَسَمَہ کی تہذیب کے دوسرے شعبوں کا بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ دین کے ان مختلف شعبوں کے اوپر اعتراضات کا ایک بڑا حصہ محض نا واقفیت پر مبنی ہے۔ ان میں سے ہر شعبے کی بنیاد نصوص پر قائم ہے۔ اور ہر شعبے میں کچھ فروعی مسائل اور کچھ مبادی ہیں۔ فروعی مسائل کو صحیح یا غلط اور بدعت قرار دینے میں جلدی کرنے کے بجائے، ان مسائل کو مستنبط (derive) کرنے میں، اس شعبے کے ماہر یا مجتہد کے طرزِ استدلال (method of reasoning) سے واقفیت حاصل کرنا چاہئے۔ یہ طرزِ استدلال ہر شعبے کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ بہرحال یہ فروعی مسائل پھر بھی ظنی ہی رہتے ہیں۔ اور ان مسائل کے صحیح ہونے کے گمان غالب پر عمل کرنے والے یا دلائل کی بنیاد پر اس پر اختلاف کرنے والے دونوں گروہ اہل حق میں سے ہی رہتے ہیں۔ جہاں تک مبادی یا ذرائع کا تعلق ہے، ان کا criteria (جانچ کا اصول) یہی ہے کہ ان سے مقاصد حاصل ہونے میں کتنی مدد ملتی ہے۔ جو فن کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں۔
ایک ضروری تنبیہ: جیسا کہ بیان ہوا، دین کے مختلف فرقوں یا شعبوں میں اختلاف بعض دفعہ فروعی ہوتے ہیں۔ مثلاً فقہ کے ائمہ (امام کی جمع) کا اختلاف، تصوف کے سلاسل کے درمیان اختلاف، تبلیغ اور جہاد کے طریقہ کار میں اختلاف۔ اس اختلاف میں وسعت ہے۔ لیکن بعض اختلافات اصولی ہوتے ہیں، جیسے شیعہ اور سنی کا اختلاف۔ تصوف کے اندر جائز اور ناجائز ذرائع استعمال کرنے والے کے درمیان اختلاف۔ ناجائز ذرائع استعمال کرنے کی مثال شراب اور نشہ آور چیزوں سے مراقبات میں مدد لینا وغیرہ۔ ان صورتوں میں ایک ہی فریق حق پر ہوتا ہے جس کو ماننا اور دوسرے کو جھٹلانا ضروری ہے۔
ان دونوں اختلاف کو الگ الگ مرتبے پر رکھنا ضروری ہے۔
ظاہر شریعت اور باطن شریعت کیا ہے؟
نسمہ کی تہذیب سے جن علوم کا تعلق ہے، وہ تمام کے تمام ظاہر شریعت میں شامل ہیں۔ ان میں علم الفقہ، علم التصوف، علم الکلام وغیرہ سب برابر ہیں۔ جس طرح فقہ میں نصوص سے مستنبط (derived) فروعی مسائل، اور نصوص سے ہی ثابت مقاصد کے ذرائع اور مبادی سب ظاہرِ شریعت میں شامل ہیں۔ اس طرح تصوف و سلوک کے مقاصد یعنی اخلاقِ حمیدہ کا حصول اور اخلاقِ رذیلہ سے خلاصی، اور اس کے فروعی مسائل اور مبادی بھی سارے کے سارے ظاہر شریعت میں داخل ہیں۔
اوپر والی بات سمجھنے کے بعد اگلا سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر باطن شریعت سے کیا مراد ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے مندرجہ ذیل مثال سمجھ لیں:
گفتگو کا ایک سادہ مطلب وہ ہوتا ہے جو بات کرنے والا مخاطب کو بتاتا (communicate کرتا) ہے اور سننے والے سے اس پر عمل کروانا چاہتا ہے۔ اور اسی بات کا ایک مطلب وہ ہوتا ہے جو خود اس پر عمل (کی implication ہوتی) ہے۔ مثلاً بولنے والا فقیر کو کچھ دینے کا بتائے۔ اس کا ایک مطلب ظاہر ہے کہ فقیر کو کچھ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے اگر کوئی یہ سمجھے کہ مجھ سے سخاوت اختیار کرنے کا مطالبہ ہے۔ تو یہ اس کا باطنی مطلب ہو گا، جو بالکل درست ہو گا۔ اسی طرح کسی کو سلام کرنے سے اس کی تعظیم مراد لینا اس کا باطنی مطلب ہو گا۔ اس قسم کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
باطنِ شریعت کی مزید تفصیل وہبی کمالات کے سلسلے میں آئے گی۔
شریعتِ مطہرہ کی رہنمائی میں نَسَمَہ کی قوتوں کی تہذیب کا تدریجی عمل
شریعتِ مطہرہ پر عمل سے نَسَمَہ کی ہر قوت کی تدریجاً (gradually, step by step) تہذیب اور ترقی ہوتی ہے۔ تہذیب سے مراد کسی صلاحیت کو organize (منظم) کر کے حقیقی مصرف میں استعمال کرنا اور افراط تفریط یا randomness سے بچنا ہے۔ ذیل میں اس عمل (process) کی تفصیل بیان ہو گی۔
تہذیب و اصلاح کا ابتدائی درجہ:
جب نفسِ ناطقہ اپنے مختلف اشغال اور اعمال کے ضمن میں نَسَمَہ کی کسی خاص قوت سے بقدر ضرورت کام لے رہا ہو۔ تو اس صورت میں اس قوت کی تہذیب کا ابتدائی درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
تہذیب و اصلاح کا درمیانی درجہ:
جب نفسِ ناطقہ، نسمہ کی کسی قوت سے اس طور پر کام لے کہ اس قوت کا استعمال ہی مقصود ہو جائے۔ باقی سب چیزوں سے الگ ہو کر اسی خاص قوت کی تکمیل میں ہی انسان منہمک ہو جائے تو اس صورت میں نَسَمَہ کی اس قوت کی تہذیب کا درمیانی درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
تہذیب و اصلاح کا انتہائی یا آخری درجہ:
نَسَمَہ کی قوتوں کی تہذیب کا آخری درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ کی طرف سے اس خاص قوت کے استعمال کے مواقع میں غیبی تائید ہونے لگے۔ اس وقت اس قوت کے استعمال کے نتائج، بہت مثبت انداز میں اور وسیع پیمانے پر با آسانی (effortlessly) حاصل ہونے لگتے ہیں۔ یہ نَسَمَہ کی کسی بھی قوت کی تہذیب کا آخری درجہ ہے۔
قوّتِ عاقِلہ کی تہذیب:
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”اَلْطَافُ الْقُدُس“ میں عقل کا بنیادی کام تمیز و تفتیش یا (differentiate and analyze) کرنا بتایا گیا ہے۔ عقل نفسانی بھی ہو سکتی ہے اور ایمانی بھی۔ جو عقل نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں استعمال ہو، اسے عقلِ نفسانی اور جو ایمان کے نور سے منور ہو کر اس کے تقاضے پورے کرے، اسے عقلِ ایمانی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے انسانی عقل کے استعمال (application) کے لئے جو میدان دیا گیا ہے، وہ تین بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کو ماننے اور ان پر غور و فکر سے آغاز کر کے بالآخر ان پر یقین کے اعلٰی ترین درجات تک پہنچنا ہے۔
پہلا درجہ (level) مومن:
مومن“ قرآن پاک کے تین (3) بنیادی مضامین توحید، رسالت اور آخرت سے متعلق عقائد کو دل سے مان کر، ان پر سوچ بچار کا آغاز کرتا ہے۔ مثلاً وہ اللہ کی اعلیٰ صفات کے بارے میں سوچتا رہتا ہے، انبیائے کرام کی محبت اور احترام کی اہمیت، ان کی پیروی کی ضرورت پر اپنے آپ کو قائل (convince) کرتا ہے۔ اسی طرح عقیدۂ آخرت کے متعلق سوچنے سے انسان کی اپنے اعمال کی جواب دہی (accountability)، سزا و جزا کی ضرورت اور اہمیت اس پر کھل جاتی ہے۔
درمیانی درجہ (level)۔ عالم
اس درجے تک پہنچنے والے کی قوتِ عقلیہ کا، عقائد کی بنیاد پر سوچ بچار اور analysis (تجزیہ) کرنا، مستقل مشغلہ بن جاتا ہے۔ مغربی ممالک کے ذہین نو مسلموں کی روز مرہ زندگی میں اس قسم کی سوچ بچار کا اثر بہت واضح نظر آتا ہے۔
اس درجہ والا شخص عقائد سے متعلق اکابر صوفیاء کرام اور علماء (متکلمین) کی معرفت اور دلائل کی تحریروں سے استفادہ کرتا ہے۔ اس میں ان عقائد (ذات و صفاتِ باری، رسالت اور آخرت) سے متعلق مختلف امور میں فرق کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً:
عقیدۂ توحید پر غور کرتے کرتے وہ اللہ کے حقیقی اور انسان کے مجازی کمالات میں فرق سمجھنے لگتا ہے۔ اس معاملے میں صوفیاء (مثلاً حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) کی اصطلاحات ”اصل“ اور ”ظِل“ (shadow) سے واقف ہو جاتا ہے۔
اسی طرح عقیدۂ رسالت پر غور کرنے سے انبیائے کرام کی وحی اور صوفیائے کرام کے الہام میں فرق کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح علم کسبی جو با قاعدہ طور پر کتابوں اور استادوں سے سیکھا جاتا ہے اور اللہ کی طرف سے براہِ راست ملنے والے علمِ لدنی میں فرق کرنے لگتا ہے۔
تیسرا درجہ (level) اَلرَّاسخ فی العِلم:
اس درجے میں اوپر جن چیزوں کے ما بین تمیز یا فرق کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی، اب اس پر، اس فرق کی حقیقت اور وجہ کھل (revealed ہو) جاتی ہے۔
مثلاً اس پر کھل جاتا ہے کہ مختلف انبیائے کرام (یا مجددین) کے پیغام اور اصطلاحات میں فرق کی اصل وجہ یہ ہے کہ اللہ ان حضرات کی زبانوں سے ان کے دور کے حالات کے مطابق پیغام جاری فرماتا ہے۔ ایسا شخص ان مختلف ادوار اور حالات کے تقاضوں سے ان پیغامات (بظاہر آپس میں مختلف) کا تعلق سمجھ لیتا ہے۔ اور یہ بھی کہ فی الحقیقت اصل اور بنیادی پیغام اور اس کا منبع (source) ایک ہی ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسے تمام حقائق قوّتِ عاقِلہ کے اس درجے پر فائز شخص پر revealed (وارد، منکشف) ہوتے ہیں، یہ evolved (تجربے اور مشاہدے سے حاصل شدہ) نہیں ہوتے۔ ایسا شخص ان کا محض اظہار یا نقل (narration) کرتا ہے۔ یہ دلائل کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ دلائل سے فی الاصل اس کو سروکار نہیں ہوتا۔ البتہ اپنے اوپر ان منکشف (revealed) حقائق کو دوسروں کو سمجھانے کے لئے کبھی دلائل کا استعمال بھی کر سکتا ہے۔
آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جمعہ کے خطبات کا رنگ کچھ یوں ہوتا تھا جیسے اوپر سے آیا ہوا پیغام بطور شاہی نمائندہ، سامعین کو پہنچایا جا رہا ہو۔ ایسی صورتحال میں دلائل دینے کی گنجائش اور موقع نہیں ہوتا۔
ایسے حضرات کو الرّاسخون فی العلم کہتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ان ہی حضرات میں سے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی کتاب ”اَلْطافُ الْقُدُسْ“ میں عقل پر اس قسم کے وہبی علوم کے وارد ہونے کا mechanism (طریقۂ کار) سمجھایا ہے۔
قوّت واہِمہ کی تہذیب:
اوپر انبیائے کرام علیہم السلام کے بیان کردہ عقائد کا قوّتِ عقلیہ کی تہذیب میں مرکزی کردار (role) بیان ہوا۔ کتاب کے دوسرے باب کے آغاز میں قوّتِ واہِمہ کی بیان کردہ تعریف یاد رکھیں کہ یہ وہ صلاحیت ہے جس سے جزئی، غیر مادی چیزوں کا ادراک ہوتا ہے۔
انبیائے کرام علیہم السلام کے لائے ہوئے بنیادی عقائد چونکہ غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو کہ نا محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاً آخرت کی تمام نعمتیں اور عذاب، جن کا وعدہ ہے، ہمارے لئے غیب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ اب ایک ایسا تربیتی نظام جس سے یہ نا محسوس، محسوس کی طرح ہو جائے، انبیائے کرام علیہم السلام کے ماننے والوں کی ضرورت ہے۔ نَسَمَہ کے اندر قوّتِ واہِمہ کی faculty (شعبہ)، جو غیر مادی امور کا ادراک کر سکتی ہے، اس مقصد کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔ صوفیائے کرام نے جو مراقبات کا نظام مقرر کیا ہے وہ نَسَمَہ کی قوّتِ واہِمہ پر اثر انداز ہو کر غیب سے تعلق کو بڑھا سکتا ہے۔ اب اِس قوّت کی تہذیب کے لحاظ سے مختلف درجات بیان ہوں گے۔
پہلا درجہ۔ صاحبِ کیفیت
اس درجے میں اعمال مثلاً وضو، عبادات اور صحبتِ صالحین سے متعلق لطیف، پاکیزہ کیفیات کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ اور غیب کی طرف توجہ اور شوق پیدا ہونے لگتا ہے۔ جیسے مقناطیس سے لوہے میں کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔
دوسرا درجہ۔ صاحبِ مراقبہ
اس درجے میں اعمال اور اذکار کے اوقات کے علاوہ بھی غیب کی طرف خصوصی توجہ کرنے کی قدرت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے شخص کو صاحبِ مراقبہ کہتے ہیں۔
تیسرا درجہ۔ صاحبِ دوام حضور
اس درجے والے کی غیب کی طرف توجہ مستقل ہو جاتی ہے، دوسرے مشاغل اس کو متاثر نہیں کرتے۔ توجہ کی یہ کیفیت تصور اور تصدیق (قوّتِ عاقِلہ سے متعلق امور) کی طرح نہیں ہے، بلکہ یہ کیفیت التفات، کسی پیاسے کو لگی ہوئی پانی کی لو یا دھن کی طرح ہوتی ہے۔
اس مرتبے والے کو تصرّف اور ہمت کی خاصیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔
تصرف: صاحب دوام حضور اپنی قوّتِ واہِمہ کو کسی دوسرے کی قوّتِ واہِمہ سے connect کر کے، اپنی واہِمہ کی کسی کیفیت کا اثر اس میں پیدا کر سکتا ہے۔ اس کو عام لوگ توجہ کہتے ہیں۔
ہمت: صاحبِ دوام حضور کی قوّتِ واہِمہ میں یہ قدرت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اس کے ذریعے کسی مفید چیز کو حاصل یا نقصان دہ چیز سے بچاؤ کر سکتا ہے۔
قوّتِ متخیّلہ کی تہذیب
ابتدائی درجہ
اس درجے والے کو عبادت اور شرعی اعمال کی مصروفیت کی وجہ سے دل کے وسوسوں (random thoughts) کی طرف متوجہ ہونے کی فرصت نہیں ملتی۔
درمیانی درجہ
اس درجہ والا اپنے دل کو ان وسوسوں سے خالی رکھنے کے لئے عملی اَقدام اٹھاتا ہے۔ یعنی وہ اپنی اُن دنیاوی دلچسپیوں اور social gathering (لوگوں سے میل جول) کو محدود کرتا ہے، جہاں سے یہ خیالات دل میں آتے ہیں۔
مثلاً جو لوگ نماز میں وساوس کی شکایت کرتے ہیں، ان کو اپنے نماز سے باہر کے حالات کا جائزہ لینا پڑے گا۔ کیونکہ جیسے ایک ہموار زمین (جس پر پانی پڑا ہو) میں اگر ایک گڑھا کھودا جائے تو پانی خود بخود اس گڑھے میں جانا شروع ہو جائے گا۔ اسی طرح ہمارے روز مرّہ زندگی کے خیالات، جو پانی کی طرح ہیں، کے لئے نماز کا عمل ایک گڑھے کی مانند ہے، جس کی طرف خیالات کا آنا قدرتی (natural) ہے۔
انتہائی درجہ:
قوّتِ متخیّلہ کی تہذیب کا آخری درجہ کشف کا حاصل ہونا ہے۔ کشف عام طور پر چھپی ہوئی چیزوں کا بغیر کسی ذریعہ (instrument) کے کسی پر ظاہر ہونے کو کہتے ہیں۔ کشف کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ کشف بالکل واضح ہو بلکہ یہ اشاروں اور تمثیلات کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے سمجھنے کے لئے کشف والے کی اپنی عقل یا کسی کامل کی بصیرت درکار ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے حضرت سے اپنے کشف کے بارے میں دریافت کیا جس کی تعبیر خود اسے سمجھ نہیں آئی تھی۔ اس مرید نے اپنی نماز کو نظرِ کشفی میں ایک حسین حور کی صورت میں دیکھا تھا، جو اندھی تھی۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بتایا کہ یہ نماز میں ان کی آنکھیں بند کرنے کے نقص کی طرف اشارہ تھا۔
کشف کے ذریعہ شریعت سے ثابت شدہ کسی بات میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔ البتہ اگر صاحبِ کشف مستند ہو، تو اس کا کشف شریعت کی تشریح کر سکتا ہے۔ قوّتِ خیال کا یہ آخری درجہ بھی نَسَمَہ کی باقی قوتوں کے انتہائی درجات کی طرح وہبی اور من جانب اللہ ہوتا ہے۔ اس کے درپے نہیں ہونا چاہئے۔
نوٹ:
کشف کی ایک اعلیٰ قسم جس کا عموماً تذکرہ نہیں ہوتا، شَرحِ صدر ہے۔ شَرحِ صدر سے یہاں مراد دین کی کسی بات مثلاً تصوف کے کسی ذریعے کے بارے میں علمی دلیل پر دل کا اس طرح مطمئن ہو جانا ہے کہ اس پر عمل میں یکسوئی پیدا ہو جائے یہاں تک کہ کسی بڑے چھوٹے کی مخالفت یا ناراضگی کے ڈر کا ذرہ برابر اثر نہ رہے۔ اس کو علمی کشف کہہ سکتے ہیں۔ جن حضرات سے اللہ نے کوئی خاص کام لینا ہوتا ہے، ان کو یہ چیز دے دی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت اِس سے ظاہر ہے کہ قرآن پاک میں ایک پیغمبر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا اس (مقصد) کے لئے منقول ہے:
﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ﴾ (طٰہٰ: 25)
ترجمہ: ”موسیٰ نے کہا: پروردگار! میری خاطر میرا سینہ کھول دیجیے“
4. قوّتِ عازمہ کی تہذیب
قوت عازمہ (will power) کا قلب سے تعلق ہوتا ہے۔
پہلا درجہ۔ مہذب الاخلاق:
اس درجے میں اخلاق میں افراط تفریط دور ہونے لگتی ہے۔ غصہ اور شہوت وغیرہ میں اعتدال حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسا شخص اچھی اور پسندیدہ معروف عادات کے حصول میں لگ جاتا ہے۔
دوسرا درجہ۔ صاحبِ حال:
اس درجہ والے کی قلب پر مستقل نظر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ قلبی کیفیات اور احوال (مثلاً رجا و خوف، محبتِ حق) کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بیرونی محرکات (external stimuli) جیسے عارفانہ کلام، یا محبت کے واقعات پڑھنے سے مدد لیتا ہے۔ ایسا کلام ایسی کیفیات کا مفہوم دل میں اتار دیتا ہے اور ان کے اثرات کو اجاگر کرتا ہے
تیسرا درجہ۔ صاحبِ مقام
اس درجے میں نفس کے فوری تقاضے (مثلاً بد نظری وغیرہ) کی اپنی قوت ارادی سے مخالفت کی جاتی ہے، جو قلب پر منفی اثر ڈالتی ہیں تاکہ مندرجہ بالا کیفیات اس کے دل کی گہرائی میں اتر کر اِستادہ (establish) ہو جائیں۔ جس سے دوسرے پاکیزہ مقامات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً محبت کا جذبہ جب دل میں اتر جائے تو اس سے صبر، شکر اور توکّل کے مقامات یا مَلَکات پیدا ہو جاتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس درجے میں قلبی کیفیات کا سلوک اور مجاہدے کے بعد نفس پر عملی نفاذ ہو جاتا ہے۔
مشائخِ سلوک میں سے حضراتِ نقشبندیہ کی تربیت کا نظام بنیادی طور پر دل کی انہی کیفیات سے متعلق ہے جو مراقبات، اذکار، اشغال وغیرہ سے پیدا کی جاتی ہیں۔ پھر سالک سے انہی کیفیاتِ قلب کی نگرانی (monitoring) کے ضمن میں قوّتِ ارادی کا استعمال کروایا جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے ان کا عملی نفاذ نفس (قوّتِ محرّکہ) پر ہو جائے۔ اور صاحبِ حال صاحبِ مقام بن جائے۔
5. قوّتِ محرّکہ کی تہذیب
پہلا درجہ۔ مطیع
قوّتِ محرکہ کی تہذیب کے اس درجے میں عملی زندگی میں جائز اور ناجائز کی تمیز پیدا ہو جاتی ہے۔ گو اپنی مرغوب چیزوں کی چاہت اس میں رہتی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں نفس کی بات کو فائنل نہیں سمجھتا بلکہ شریعت کی اجازت کو مد نظر رکھتا ہے۔
دوسرا درجہ۔ عابد
اس درجہ والا اپنے اوقات اور اپنے مال کو ایسے نظم (manage) کرتا ہے کہ وہ تمام کے تمام مفید کاموں میں استعمال ہوں۔ اس کا نفس عبادت میں خلل نہ ڈال سکے۔ اس کی ایک مثال سفر کے دوران اپنے وضو کی نگہداشت کرنے کی ہے تاکہ سفر کے حالات کی وجہ سے نماز کی ادائیگی میں کوئی خلل نہ آ سکے۔ خلاصہ یہ کہ عبدیت یا بندگی اس کی اولین ترجیح (top priority) بن جاتی ہے۔
تیسرا درجہ۔ صاحبِ مجاہدہ (زاہد)
قوّتِ محرّکہ کی تہذیب کے اس درجے کو حاصل کرنے والا اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کے لئے مجاہدات (قلّتِ کلام، قلّتِ طعام اور قِلّتِ منام) اختیار کر کے نفس پر اس کی قوت کے مطابق توجھ ڈالتا ہے اور اس کو مشقّت کا عادی بناتا ہے۔ اس قسم کا مجاہدہ وقتی دنیاوی ضرورت کے لئے دنیا دار حضرات بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مثلاً اپنے موٹاپے کو قابو میں رکھنے کے لئے آج کل بالخصوص خواتین میں dieting کا trend (رجحان) عام ہے۔