اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (الصٰفّٰت: 102)
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
معزز خواتین و حضرات!
الحمدللہ ذی الحج کے ایام شروع ہو چکے ہیں جس میں پہلا عشرہ انتہائی قیمتی عشرہ ہے۔ احادیث شریفہ میں اس عشرہ کے بارے میں کچھ خصوصی بات کی گئی ہے۔ میں اکثر یہ حدیث شریف ذکر کرتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ لوگ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے۔ حالانکہ اس حدیث میں ایامِ ذی الحج کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لیکن جتنی باتیں دوسری ان چیزوں کے بارے میں کی جاتی ہیں جو فضیلت کے اعتبار سے ایامِ ذی الحج کے بعد آتی ہیں، اتنی بات اس کے بارے میں نہیں کی جاتی۔ لہٰذا اس کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ احادیث شریفہ میں جس چیز کی فضیلت آئی ہوتی ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے بیان کیا جائے تاکہ لوگ اس سے بر وقت فائدہ اٹھائیں۔ اگر وقت گذرنے کے بعد پتا چلے تو پھر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ہمیں اس کا بہت اہتمام کرنا چاہئے کہ جو بات بتانی ہو اسے وقت پہ بتا دیں۔ پہلے میں احادیث شریفہ عرض کرتا ہوں تاکہ مضمون سمجھ میں آ جائے اور معلوم ہو جائے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ پھر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس پر بات کرنا کتنا ضروری ہے۔ آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
”مَا مِنْ اَیَّامٍ اَحَبُّ اِلَی اللہِ اَنْ یُّتَعَبَّدَ لَہٗ فِيْھَا مِنْ عَشْرِ ذِیْ الْحِجَّۃِ یَعْدِلُ صِیَامُ کُلِّ یَوْمٍ مِّنْھَا بِصِیَامِ سَنَۃٍ وَ قِیَامُ کُلِّ لَیْلَۃٍ مِّنْھَا بِقِیَامِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ“ (سنن ترمذی: رقم الحدیث: 758)
صَومُ عَرَفَۃ الَّتِیْ قَالَ فِیْھَا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ:
”صِيامُ يوْمِ عَرَفَةَ: أحْتَسِبُ عَلَى اللهِ اَنْ يُّكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِیْ قَبلَهٗ وَالسَّنَۃَ الَّتِیْ بَعدَهٗ“ (صحیح مسلم: رقم الحدیث: 1162)
پہلی حدیث شریف ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت ہے اور دوسری حدیث شریف مسلم شریف کی روایت ہے۔ یہ تینوں کتابیں صحاح ستہ میں سے ہیں۔ عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کو ذی الحج کے پہلے عشرہ میں عبادت جتنی محبوب ہے اس کے علاوہ دوسرے دنوں میں اتنی زیادہ محبوب نہیں ہوتی۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ عشرۂ ذی الحجہ میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے۔ اور نویں ذی الحج کے روزے کے بارے میں فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ یہ روزہ ایک سالِ گذشتہ اور ایک سالِ آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔
دس ذی الحجہ کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ وہ عید کا دن ہے۔ عید الفطر میں ایک دن روزہ رکھنا حرام ہے اور عید الاضحیٰ میں تین دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ تین دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمانی کے دن ہیں۔ اس مہمانی سے فائدہ اٹھانا واجب ہے۔
اس تفصیل سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ عشرۂ ذی الحج کے ایام اور راتوں کی کیا فضیلت ہے۔ ہمیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اس فضیلت کو پانے کے لئے اعمال کرنے چاہئیں۔ پہلے سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے۔ جیسے کسی اہم کام کے لئے آدمی پہلے سے تیاری کرتا ہے تاکہ یہ کام مجھ سے رہ نہ جائے۔ اسی طرح عشرۂ ذی الحج کے لئے اچھی طرح تیاری کرنی چاہئے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ احادیث شریفہ میں شوال کے روزوں کی فضیلت بھی آئی ہے کہ جو شخص یہ چھ روزے رکھ لے تو ایسا ہے جیسے اس نے پورا سال روزے رکھے۔ گویا کہ شوال کے چھ روزے رکھنا پورے سال کے روزے رکھنے کے برابر ہے۔ جس میں دس مہینے رمضان شریف کے ہو گئے۔ کیونکہ رمضان شریف میں دس گنا اجر ملتا ہے۔ اور چھ روزے ہوں تو چھ ضرب دس کرنے سے ساٹھ دن ہو گئے اور ساٹھ دن کے حساب سے دو مہینے ہو گئے۔ دو مہینے یہ اور دس مہینے رمضان شریف والے، یہ کل بارہ مہینے ہو گئے۔ یہ بھی بہت بڑی بات ہے۔ لیکن عشرۂ ذی الحج میں ایک روزے کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر فرمایا گیا ہے اور یوم العرفہ کے روزے کو دو سال کے گناہوں کا کفارہ فرمایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے عشرۂ ذی الحج کے روزوں کا ثواب زیادہ ہے۔
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ عشرۂ ذی الحج کا کوئی روزہ ہم سے نہ رہ جائے۔ البتہ یہ خیال رہے کہ یہ روزے نفلی ہیں۔ واجب و فرض نہیں ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ روزے نہ رکھے اور ان کا درجہ کم نہ سمجھے تو کوئی مسئلہ نہیں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کو کسی اور ذریعے سے دے رہا ہو۔ وہ کوئی اور نفلی کام کر رہا ہو۔ لہٰذا ان دنوں میں روزے نہ رکھنے والوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہ سوچیں لیکن کم از کم خود تو حاصل کر لیں۔ کیونکہ یہ روزے مستحب ہیں۔ مستحب کا معنی ”پسندیدہ“ ہے۔ یہاں پسندیدہ سے مراد ہے: اللہ کا پسندیدہ عمل۔ اللہ کے پسندیدہ عمل کو کوئی کم درجہ نہیں کہہ سکتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ ان کو ہم پسندیدہ ہی سمجھ کر پسند کر لیں اور ان کا اہتمام کریں۔ البتہ چونکہ یہ فرض و واجب نہیں ہیں اس وجہ سے جو لوگ یہ روزے نہ رکھیں ان پہ کوئی ملامت نہیں ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہئے۔
ذی الحج کا مہینہ بہت سارے فضائل لئے ہوئے ہے۔ پہلے عشرہ کی فضیلت کے بارے میں تو بتا دیا گیا۔ اس ماہ کی ایک اور بڑی فضیلت یہ ہے کہ اس میں حج ہوتا ہے اور حج کی فضیلت ہمیں معلوم ہے۔ حج نہ کرنے والے کے بارے میں ایک وعید یہ آئی ہے کہ اگر کسی شخص پر حج فرض ہو جائے اور وہ سارے اسباب مہیا ہونے کے با وجود حج نہ کرے، یہاں تک کہ فوت ہو جائے تو اللہ پاک فرماتے ہیں: مجھے کوئی پروا نہیں کہ وہ یہودی مرتا ہے یا عیسائی مرتا ہے۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ حج کا عمل کتنا مہتم بالشان ہے۔ جب کسی کی انتہائی قیمتی چیز ضائع ہو رہی ہو تو اس پر وعید سنائی جاتی ہے۔
حج ایک ایسا عمل ہے کہ اس کے اندر جو کچھ ملتا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں مل نہیں سکتا۔ مثلاً تہجد کی نماز آپ کو ہر جگہ مل سکتی ہے۔ جہاں پر بھی آپ تہجد کی نماز پڑھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ قرآن پاک کی تلاوت ہر جگہ کر سکتے ہیں۔ آپ روزہ رکھنا چاہیں تو کسی بھی جگہ رکھ سکتے ہیں۔ رمضان شریف گذارنا چاہیں تو ہر جگہ رمضان آتا ہے۔ زکوٰۃ بھی ہر جگہ ادا کی جا سکتی ہے۔ لیکن حج ایک ایسا کام ہے جو صرف ایک جگہ پر ہو سکتا ہے۔ اس جگہ کے علاوہ باقی جگہوں پہ نہیں ہو سکتا۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا: اگر میں کوئی ایسا عمل نہ کروں جو دنیا میں کسی اور نے نہ کیا ہو تو تجھے طلاق۔ کہنے کو تو کہہ بیٹھا لیکن جب سوچا کہ ایسا کون سا عمل کیا جائے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ علماء کرام کے پاس مسئلہ لایا گیا۔ علماء کرام سوچ سوچ کے حیران ہو گئے کہ ایسا کون سا عمل ہو گا۔ آخر کار امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے مسئلہ پیش کیا گیا تو امام صاحب نے فرمایا کہ اس کے لئے مطاف خالی کیا جائے اور یہ طواف کر لے۔ طواف صرف خانہ کعبہ میں ہی ہو سکتا ہے کسی اور جگہ نہیں ہو سکتا۔ جب خالی مطاف میں یہ اکیلا طواف کرے گا اس وقت یہ کام کسی اور جگہ نہیں ہو رہا ہو گا۔ اس طرح اس کی بات پوری ہو جائے گی اور اس کی بیوی پر طلاق نہیں پڑے گی۔
حج کے اعمال کسی اور جگہ نہیں ہو سکتے۔ یہ صرف ایک ہی جگہ ہو سکتے ہیں۔ اس جگہ کی بڑی عظمت ہے۔ اس کی اپنی ایک شان ہے۔ اللہ پاک نے اس مقام کو اتنی زیادہ فضیلت دے رکھی ہے کہ اگر کوئی شخص وہاں تجارت کے لئے بھی چلا جائے اور نماز پڑھ لے تو اسے بھی ایک لاکھ نمازوں کا اجر ملے گا۔
یہ بات یاد رکھئے کہ شیطان بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا۔ جب اللہ پاک نے اتنا زیادہ اجر رکھا ہے تو شیطان بھی اپنا کام کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے جو وہاں رہتے ہیں اور کوشش کرتا ہے کہ وہ لوگ وہاں کی فضیلت سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ اس لئے کئی لوگ جو وہاں رہتے ہیں ان کے اندر طلب ہی نہیں رہتی۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مدتوں حرم شریف نہیں جاتے حالانکہ ادھر ہی رہتے ہیں۔ ان سے وہ طلب ہی نکل چکی ہوتی ہے۔ اللہ معاف فرمائے کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کچھ اور ہی ارادوں سے وہاں جاتے ہیں۔ مثلاً جیب کترے بھی ادھر ہی ہوتے ہیں۔ حاجیوں پر ظلم کرنے والے لوگ بھی وہیں پر ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ کر لیں کہ بات کہاں سے کہاں تک چلی جاتی ہے۔ در اصل شیطان ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ وہ ہمارا ”عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ“ (کھلا دشمن) ہے۔ وہ ہمیں ہر اس چیز سے روکے گا جس چیز میں ہمارا فائدہ ہو گا۔
ہمارے ایک پیر بھائی نے ایک بہت اچھی بات کی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ حج سے پہلے انسان اپنی اصلاح کر لے پھر حج کا مزہ ہے۔ کیونکہ وہاں کی برکات حاصل کرنے کے لئے دل کی اپنی ایک خاص حالت ہونی چاہئے۔ دل میں طلب ہونی چاہئے۔ احتیاط ہونی چاہئے۔
وہاں کے پروٹوکول کو علم کے لحاظ سے سمجھنا چاہئے اور عمل کے لحاظ سے اپنے اندر ڈھالنا چاہئے۔ دل میں ادب ہونا چاہئے۔ اگر دل میں ادب نہ ہو تو بعض دفعہ انسان فائدہ کی جگہ نقصان کر لیتا ہے۔ وہاں کی بے ادبی و گستاخی اور غفلت کرنے سے نقصان ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ حج پہ جا رہے ہیں وہ اپنی نیت کو درست کر لیں اور کم از کم اتنی اصلاح ضرور کر لیں کہ وہاں جانے پر بے ادبی کی وجہ سے جو مسائل ہو سکتے ہیں وہ پیش نہ آئیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اتنے کم دنوں میں مکمل اصلاح ہو جائے گی۔ بلکہ بات یہ ہے کہ اصلاح دو قسم کی ہے۔ ایک اصلاح یہ ہے کہ جو کام انسان کے کرنے کے ہیں، جو اللہ پاک کے پسندیدہ کام ہیں وہ بغیر تکلف کے ہونے لگیں اور جن کاموں سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں ان کاموں سے ایسے نفرت ہونے لگے جیسے پاخانے سے نفرت ہوتی ہے۔ یہ اصل اصلاح ہے لیکن یہ بڑی مدت میں ہوتی ہے۔ یہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ دوسری اصلاح یہ ہے کہ انسان کم از کم یہ سمجھ جائے کہ میں ایک بہت بڑا کام کرنے جا رہا ہوں۔ اس میں بے شک مجھے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو میں نے اس کو ویسے ہی کرنا ہے جیسے اللہ چاہتا ہے۔ اس بات کا پکا ارادہ کر لے۔ کیونکہ وہ اس کے ساتھ عادی نہیں ہے اور ابھی اس کی مکمل اصلاح نہیں ہوئی، اس لئے اُسے اس کام میں یقیناً مشقت ہو گی۔ لیکن کم از کم اس کی عقل اپنی جگہ پر ہو اور اس لحاظ سے وہ اپنے اوپر پابندی لگا دے کہ جن کاموں سے خطرہ ہے وہ میں نے نہیں کرنے۔ ان سب کاموں سے کوشش کر کے بچے۔ اگر حج سے پہلے یہ چیز حاصل ہو جائے تو الحمد للہ یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ اگر کوئی اپنی یہ اصلاح کر لے تو اسے ہم اخیار کہتے ہیں۔ یہ شخص کم از کم اخیار میں سے تو ہو ہی سکتا ہے۔ اگر ہم اس چیز کا التزام کر لیں تو اس کا ہمیں بہت فائدہ ہو گا۔ اپنے آپ کو اخیار کے زمرے میں لے آئیں اور یہ سوچیں کہ میں بہت بڑی جگہ جانے والا ہوں۔ مجھے وہاں کے حالات کے مطابق اپنے آپ کو سنوارنا ہے۔ وہاں کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اس میں مشقت ضرور ہو گی لیکن اس مشقت پر اجر بھی ملے گا۔ اس کے ساتھ یہ عزم بھی کریں کہ ہم ان موانع سے بھی بچیں گے جن کی وجہ سے اس کے حج کو نقصان ہو سکتا ہے۔ کم از کم اتنا کرنا ضروری ہے۔
اس ماہ میں ایک تو یہ بات ہے کہ یہ حج کا مہینہ ہے۔ اس میں حج ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مقبول حج نصیب فرمائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مہینہ قربانی کا بھی ہے۔ جو لوگ حج پہ نہیں جا رہے اور ان پہ قربانی واجب ہے تو انہیں قربانی بھی کرنی ہے۔ قربانی بھی بہت فضیلت والی چیز ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ قربانی کے تین ایام (دس، گیارہ، اور بارہ بارہ ذی الحج) میں قربانی کرنے سے زیادہ کوئی اور عمل اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ نہیں ہوتا۔ اس سے قربانی کی فضیلت بھی سامنے آ گئی۔
قربانی کے مسائل سیکھنا، قربانی کے فضائل جاننا، قربانی کو صحیح طریقے سے ادا کرنا، اس کے اندر جو روحانیت ہے اسے محسوس کرنا اور اس کے مطابق سارے اعمال کرنا، یہ بھی بہت ضروری ہے۔ اب اس بارے میں کچھ عرض کروں گا۔ قرآن پاک کی جو آیت کریمہ میں نے پڑھی ہے سب سے پہلے اس کا ترجمہ عرض کرتا ہوں۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْۤ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْۤ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰی قَالَ یٰۤاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (الصٰفّٰت: 102)
ترجمہ: ”پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تو انھوں نے کہا: بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب سوچ کر بتاؤ، تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے کہا: ابا جان! آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے“۔
یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام انبیاء میں بہت اونچا ہے۔ آپ علیہ السلام ابو الانبیاء بھی ہیں۔ خلیل اللہ بھی ہیں۔ اللہ جل شانہ نے انہیں طرح طرح سے آزمایا، وہ ہر دفعہ کامیاب ہوئے اور لوگوں کے لئے مثال بن گئے۔ جس واقعہ کا درج بالا آیات میں ذکر ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ حضرت بی بی ہاجرہ علیہا السلام اور ان کے دودھ پیتے بچے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کو مکہ کی لق و دق پہاڑوں کے اندر گھری ہوئی زمین میں لے جائیں اور وہاں چھوڑ دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو لے گئے اور بتایا بھی نہیں کہ کس لئے لے جا رہا ہوں۔ وہاں پر انہیں توشہ دے دیا اور خود واپس چل پڑے۔ اب حضرت ہاجرہ علیہا السلام حیران ہیں کہ ہمیں کہاں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ ہمیں کہاں چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ اللہ کی طرف سے جواب کی اجازت نہیں تھی۔ امتحان، امتحان ہوتا ہے۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے پہلے تو خود پوچھا، پھر ان کے ذہن میں خود ہی یہ بات آئی کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کا نبی کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کرتا۔ اللہ نے حکم دیا ہو گا تبھی ہمیں یہاں چھوڑ کے جا رہے ہیں۔ پھر پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اجازت مل گئی کہ سر کے اشارے سے جواب دے سکتے ہیں۔ انہوں نے سر کے اشارے سے ہاں کر دی۔ اب ہاجرہ بی بی کو پتا چل گیا کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس پر ان کی زبان سے ایک تاریخی فقرہ نکلا۔ انہوں نے فرمایا: ٹھیک ہے اگر اللہ کی طرف سے حکم ہے تو آپ جا سکتے ہیں اللہ پاک ہمیں ضائع نہیں فرمائیں گے۔ یہ وہ بھروسہ ہے اللہ تعالیٰ پر، جس کی مثال شاید ہی ملے۔ جیسے مومنِ آلِ فرعون نے کہا تھا:
﴿وَ اُفَوِّضُ اَمْرِیْۤ اِلَی اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ بَصِیْرٌۢ بِالْعِبَادِ﴾ (المؤمن: 44)
ترجمہ: ”اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقینا اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے“۔
یہی بات حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنے الفاظ میں فرمائی کہ اللہ پاک ہمیں ضائع نہیں فرمائیں گے۔ یہ صرف ایک قول نہیں تھا بلکہ ایک حال تھا جو ان پہ گذر رہا تھا۔ یہ ان کا حقیقی حال تھا کہ اس وقت ان کے سامنے اللہ کے سوا اور کوئی ذریعہ نہیں رہا تھا۔ جس پر ایسے حالات پیش نہ آئے ہوں اور وہ صرف یہ قول نقل کر رہا ہو تو ایک الگ بات ہے اور جس پر یہ حالات پیش آ رہے ہوں، ایسے میں وہ پختہ یقین کے ساتھ یہ کہے کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا تو یہ ایک الگ بات ہے۔ اس میں ایمان کی پختگی اعلیٰ درجہ کی ہے۔ دونوں باتیں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں۔
خیر اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تھوڑا دور جا کر باقاعدہ دعا کی کہ اے اللہ! میں یہاں اپنے گھر والوں کو چھوڑ رہا ہوں (ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا)۔ دعا کے بعد وہاں سے تشریف لے گئے۔ ادھر ہاجرہ بی بی کے پاس موجود توشہ ختم ہو گیا۔ پانی بھی ختم ہو گیا۔ ماں کا دودھ بھی ختم ہو گیا۔ ایسی صورت میں مائیں اپنی پروا نہیں کرتیں۔ اپنے سے زیادہ اپنے بچوں کی فکر کرتی ہیں۔ وہ بہت پریشان ہوئیں کہ پیاسے بچے کو پلانے کے لئے پانی کہاں سے لاؤں۔ جس جگہ پر وہ اس وقت موجود تھیں۔ وہاں ایک طرف صفا کی پہاڑی ہے دوسری طرف مروہ کی پہاڑی ہے۔ صفا کی پہاڑی پہ چڑھ کے دیکھا کہ ممکن ہے کوئی قافلہ آ رہا ہو جس سے پانی مل جائے۔ وہاں سے کوئی نظر نہیں آیا۔ پھر دوڑ کے مروہ پہاڑی کی طرف گئیں کہ ممکن ہے وہاں کچھ نظر آ جائے۔ وہاں بھی کچھ نہ ملا۔ اس طرح پانی کی تلاش کرتے کرتے مروہ سے صفا کی طرف اور صفا سے مروہ کی طرف دوڑتی رہیں یہاں تک سات چکر پورے ہو گئے۔ ساتویں چکر پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ ان کے پیروں کے نیچے سے پانی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے پیر زمین پر مار رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی سے پانی نکلوا دیا۔ ہاجرہ بی بی نے پانی دیکھا تو دوڑ کے آئیں اور پانی کے ارد گرد رکاوٹ لگائی تاکہ وہ جمع ہو جائے اور سارا بہہ نہ جائے اور پانی روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں: زَمْ زَمْ۔ زَمْ زَمْ۔ رک جا۔ رک جا۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ نہ فرمایا ہوتا تو یہ پانی دنیا کے آخری سرے تک پہنچ جاتا۔ اب بھی آبِ زم زم ہر جگہ ہی پہنچ جاتا ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی جگہ ایسی ہو جہاں آبِ زم زم نہ پہنچتا ہو۔ میں امریکہ گیا تھا۔ جس جگہ پر ٹھہرا ہوا تھا وہاں عرب حضرات کے ساتھ میری دوستی ہو گئی۔ انہوں نے مجھے ایک پاؤ کے لگ بھگ مدینہ منورہ کی کھجور اور زم زم کا پانی دیا۔ میں نے سوچا: سبحان اللہ۔ امریکہ میں مجھے اس سے بڑی اور کیا دولت مل سکتی ہے۔
مکہ مکرمہ میں یہ جو ہر جگہ سے لوگ آتے ہیں۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی موجود ہے کہ اس شہر میں لوگ بہت دور دور سے دبلی اونٹنیوں پر سوار ہو کر آئیں گے۔ اور فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ آئیں گے وہ اپنے ساتھ زم زم کا پانی لے جائیں گے۔ اس طرح ہر جگہ زم زم کا پانی پہنچ رہا ہے۔ اب تو لوگوں کے ذریعے پہنچ رہا ہے اگر حضرت ہاجرہ علیہا السلام زم زم نہ فرماتیں تو کسی ذریعہ کے بغیر ہی پہنچ جاتا۔ بہرحال انہیں پانی مل گیا، انہوں نے پانی کے ارد گرد رکاوٹ بنا لی اور ایک حوض سا بن گیا۔ اب وہ اسی کو استعمال کرنے لگیں۔ عرب کے لوگ صحرا نشین تھے۔ صحرا نشین لوگ جانتے ہیں کہ پانی کدھر ہے کیونکہ یہ ان کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ ایسی جگہ جہاں پر پانی ہو، اس کے آس پاس پرندے اڑتے رہتے ہیں کیونکہ پرندوں کو بھی پانی کی ضرورت ہے۔ پرندوں کے لئے تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے وہ تو اڑ کر پانی والی جگہ پر چلے جاتے ہیں۔ جب پرندوں کو پانی کی نشانی مل جائے تو پانی کے آس پاس جمع ہونے لگتے ہیں۔ اتفاقاً قبیلہ جرہم کے لوگ اس طرف آ رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس جگہ پرندے جمع ہیں۔ اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ ضرور اس طرف پانی ہے۔ اس جگہ کو تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں پانی موجود ہے۔ اس پانی کے حوض کے پاس ایک خاتون اور ایک بچہ ہے۔ وہ شریف لوگ تھے انہوں نے اجازت مانگی کہ کیا ہم پانی استعمال کر سکتے ہیں اور یہاں ٹھہر سکتے ہیں؟ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے اپنی کچھ شرائط رکھیں کہ اگر یہ شرائط منظور ہوں تو ٹھہر سکتے ہو۔ انہوں نے شرائط منظور کر لیں اور وہیں ٹھہر گئے۔ پھر وہاں ان کا رہنا سہنا ہو گیا۔ آبادی ہو گئی۔ قبیلہ جرہم کے لوگ وہیں پر سکونت پذیر ہو گئے۔ اس طرح مکہ مکرمہ کی ابتدا ہوئی۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوئے تو اسی قبیلہ میں ان کی شادی ہوئی۔
جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کچھ بڑے ہوئے اور چلنے پھرنے کے قابل ہو گئے۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب کے ذریعے سے اشارہ ہوا کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر دیں۔ انہوں نے خواب دیکھا کہ میں اسماعیل کو ذبح کر رہا ہوں۔ نبی کا خواب وحی ہوتا ہے۔ انہوں نے سوچا یہ تو اللہ کا حکم ہے۔ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے لے کر جانے لگے۔ شیطان کو بڑی فکر ہو گئی کہ یہ تو بہت بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ وہ ہاجرہ بی بی کے پاس آ کر کہنے لگا کہ آپ کو پتا ہے کہ آپ کے بیٹے کو کدھر لے جا رہے ہیں؟ یہ تو اسے ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: جا دفع ہو جا۔ بھلا کوئی باپ بھی اس طرح کرتا ہے؟ اس کے بعد شیطان، حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے کہنے لگا کہ تیرا باپ تجھے ذبح کرنے کے لئے لے جا رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے شیطان کو کنکریاں ماریں۔ وہ غائب ہو گیا۔ ذرا آگے پہنچے تو شیطان پھر آیا اور یہی بات کی۔ انہوں نے اس کو دوبارہ کنکریاں ماریں۔ وہ پھر غائب ہو گیا۔ تھوڑی دور جا کر پھر نمو دار ہوا۔ انہوں نے پھر کنکریاں ماریں تو یہ پھر غائب ہو گیا۔ یہ تین جگہیں جہاں پر کنکریاں ماری گئی تھیں، ابھی بھی ان جگہوں کی نشانیاں موجود ہیں۔ انہی جگہوں پر ہم رمیِ جمرات کرتے ہیں۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ بتائیں اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اتنے چھوٹے بچے سے کوئی خواب کی تعبیر پوچھے گا تو وہ بھلا اس کا کیا جواب دے گا۔ لیکن وہاں معاملہ اور تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ ابا جان آپ وہ کر گذریئے جس کا آپ کو حکم ہوا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خوش ہوئے۔ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام وصیت کرتے ہیں کہ ابا جان جب آپ مجھے ذبح کریں تو اوندھے منہ لٹائیں اور تیز چھری سے ذبح کریں اور اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھیں تاکہ اللہ کے حکم میں کوئی تاخیر واقع نہ ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ آنکھیں بند کر کے تیز چھری حضرت اسماعیل کے گلے پر رکھ دی اور چھری چلانے لگے۔ اب خوب زور سے چھری چلا کر ذبح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن چھری کو حکم ہے کہ تم نے نہیں کاٹنا۔
اس سے دو باتیں سامنے آتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ ہی کا حکم ہے کہ ذبح کرو۔ اور چھری کو بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ نہ کاٹو۔ پہلا حکم تشریعی حکم ہے۔ دوسرا حکم تکوینی حکم ہے۔ بعض دفعہ تشریعی اور تکوینی حکم الگ الگ ہوتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوتی ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کو ایمرجنسی والا حکم دیتے ہیں کہ جنت سے مینڈھا لے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر رکھ دو۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے خود بیان کیا ہے کہ تین موقعے ایسے تھے جب مجھے بہت ہی زیادہ تیزی کے ساتھ کام کرنا پڑا ان میں سے ایک موقع یہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جنت سے مینڈھا لے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ رکھ دو۔ انہوں نے فوراً جنت سے مینڈھا لیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وہاں سے ہٹا کر ان کی جگہ مینڈھا رکھ دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام آنکھیں بند کر کے چھری چلا رہے تھے۔ جب چھری کے نیچے مینڈھا آ گیا تو اب چھری کو حکم ہوا کہ کاٹ دو۔ چھری کاٹتی چلی گئی۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندازہ ہو گیا کہ اب ذبح ہو چکے ہوں گے تو آنکھیں کھولیں۔ دیکھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام صحیح سالم کھڑے ہیں اور چھری سے مینڈھا ذبح ہو چکا ہے۔ وہ بڑے حیران ہوئے کہ یہ کیا ہوا۔ نبی کا اللہ تعالیٰ کے حکم پر سو فیصد یقین ہوتا ہے لیکن وہ ہوتے تو انسان ہی ہیں۔ اس لئے انسان ہونے کے لحاظ سے انہیں حیرت ہوتی ہے اور نبی ہونے کے لحاظ سے وہ حکم کو مانتے بھی ہیں۔ اتنے میں حکم آ گیا کہ اے ابراہیم! تو نے اپنا خواب سچا کر کے دکھا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تشریعی طور پر ذبح کیا۔ کیونکہ انہوں اپنے خیال سے چھری تو حضرت اسماعیل علیہ السلام پر ہی چلائی تھی۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میں مینڈھا ذبح کر رہا ہوں۔ اس طرح شریعت کا حکم پورا ہو گیا اور تکوینی طور پر وہ نہیں ہوا جو وہ چاہتے تھے۔ تکوینی حکم اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم ہوتا ہے۔ جس چیز کو حکم ہوتا ہے اس کا بندہ کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا۔ لہٰذا بندہ اس کا ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ اللہ پاک کا تکوینی حکم یہ تھا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ذبح نہ ہوں اور تشریعی حکم یہ تھا کہ ذبح ہوں۔ دونوں حکم پورے ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تشریعی حکم پر عمل کر دیا۔ اس لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔
اس واقعہ سے کچھ باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات یہ سامنے آتی کہ ہمیں اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنا چاہئے چاہے وہ سمجھ آئے یا نہ آئے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم پر عمل کیا۔
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ مینڈھے کے ذبح کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذبح قرار دیا گیا۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم دے رہا ہے اگر وہ ایک چیز کو دوسری کے مترادف قرار دے تو اس پہ کوئی اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ چیز جو اصل حکم کے قائم مقام کر دی گئی وہ اصل کی طرح ہی ہے۔
تیسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ ہم سب کو حکم ہے کہ ہم اسی دن قربانی کیا کریں۔ اس طرح قربانی کا سلسلہ چل پڑا۔ ان کے بعد جتنے بھی انبیاء آئے سب نے قربانی کی۔ تمام صحابہ نے بھی قربانی کی اور اب تک مسلمان قربانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ سب قربانیاں اس خاص جانور کی قربانی کے مترادف قرار دی گئیں جو مینڈھا جنت سے آیا تھا۔ اور اس مینڈھے کی قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی طرح قرار دی گئی۔ لہذا ہمارے جانور کی قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی طرح ہے۔ ہمارا قربانی کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہم اپنے بیٹوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ مثلاً حکومت دو روپے کے نوٹ کو دس ہزار روپے کا نوٹ قرار دے تو اس کی قدر و قیمت دس ہزار روپے کے جتنی ہو جائے گی۔ اسی طرح ہم جو جانور کی قربانی کرتے ہیں اس کی فضیلت بھی اللہ پاک کی طرف سے ہی مقرر کی گئی ہے کہ وہ بیٹے کو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ اسی وجہ سے اِس قربانی کی اتنی زیادہ فضیلت ہے۔ یہ اتنا بڑا عمل ہے کہ ان تین دنوں میں کسی اور عمل کا ثواب اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا قربانی کا ثواب ہے۔
آج کل بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ قربانی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس میں خواہ مخواہ گوشت کا ضیاع ہے۔ آپ یہ قربانی کے پیسے کسی غریب کو دے دیں، اس کا بھلا ہو جائے گا، اس کے دل سے آپ کے لئے دعا نکلے گی، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان ہوشیاروں سے کوئی پوچھے کہ کبھی تم نے خود بھی ان غریبوں کی خبر لی ہے یا نہیں؟ تم لوگوں نے خود ان غریبوں کے ساتھ تعاون کے لئے کیا کیا ہے؟ تب پتا چلے گا کہ ان کا اصل مقصد غریبوں کا بھلا نہیں، بلکہ کوئی اور بات ہے۔
میرے ایک کلاس فیلو لیبیا میں کام کر رہے تھے۔ ایک جگہ میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے میری چائے کی دعوت کی۔ ہم چائے پی رہے تھے اور گپ شپ لگا رہے تھے۔ انہوں نے دوران گفتگو کہا کہ میرے دو گھر ہیں۔ اس کے بعد اور باتیں ہوتی رہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک قمیض بھی نہیں تھی اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ غنی تھے۔ ایسا کیوں تھا؟ گویا کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ اعتراض کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ تم تو غریبوں کے بڑے خیرخواہ ہو، تم اپنے دو گھروں میں سے ایک گھر غریبوں کو دے دو تاکہ تمہارا قول سچا ہو جائے اور تم غریب پرور ثابت ہو جاؤ۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ جب بھی کوئی خرچ کرنے کا موقع ہوتا تو سب سے زیادہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے بقول حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ جنت خریدی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان کے بھیجے ہوئے سامان کو ایک ہاتھ سے دوسرے میں دوسرے ہاتھ میں لیتے اور فرماتے تھے کہ آج کے بعد عثمان جو کچھ کرے گا اس پر کوئی عذر نہیں ہو گا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر اپنے دستِ مبارک کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ اگر میری اور بھی بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کے نکاح میں دے دیتا۔ اتنی فضیلتوں والے سردار کے بارے میں تم یہ بات کر رہے ہو اور خود تمھاری حالت یہ ہے کہ تمھارے اپنے دو دو گھر ہیں۔ اب میری تمہارے ساتھ دوستی ختم۔ آئندہ تم میرے دوست نہیں ہو۔ یہ کہہ کر میں نے چائے چھوڑ دی اور اس کے پاس سے اٹھ گیا۔ اس پر آس پاس کے لوگ پریشان ہو گئے کہ باتوں باتوں میں یہ کیا ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ چھوڑیں معاف کریں۔ میں نے کہا معافی کی کیا بات ہے۔ اس نے مجھے تو کچھ نہیں کہا لیکن جس کے بارے میں بات کی ہے وہ ہمارے نزدیک بہت عظیم ہستی ہیں۔ لہٰذا اب ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کے بعد ہم نے اس سے کوئی بات نہیں کی اور اس سے کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ کیونکہ یہ موقع ہی ایسا تھا۔ انسان میں دینی غیرت ہونی چاہئے۔ اس قسم کے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ یہ بالکل منہ پھٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو نہیں جانتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ جو لوگ قربانی کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ بھی اسی قسم کے لوگ ہیں۔ بھائی تم اللہ کے حکم کے مقابلہ میں بات کر رہے ہو۔ پیغمبر کے طریقے کے مقابلہ میں بات کر رہے ہو۔ تمھاری حیثیت ہی کیا ہے؟ پشتو میں اس کے لئے محاورہ ہے ما مه شمیره درګډ یم ”مجھے گنو مت میں شامل ہوں“۔ بھائی کیوں شامل ہو؟ تمھاری حیثیت کیا ہے؟
اس قسم کی باتوں کی پروا نہ کی جائے۔ قربانی بہت بڑا عمل ہے اگر آپ اس بڑے عمل کو کر نہیں سکتے تو کم سے کم اس کے خلاف بات نہ کرو۔
قربانی میں آپ جو جانور ذبح کر رہے ہوتے ہیں وہ گوشت کے لئے ذبح نہیں کرتے بلکہ اللہ کے حکم پہ عمل کرنے کے لئے ذبح کرتے ہیں۔ قرآن گواہ ہے:
﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰی مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
ترجمہ: ”اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون، لیکن اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“۔
تم جس تقویٰ اور کیفیت کے ساتھ قربانی کرتے ہو وہ تقویٰ اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے۔ یہ تقویٰ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ سب کا ایک جیسا نہیں ہوتا۔ جس کا جتنا ہے اس کے حساب سے پہنچتا ہے۔ یہ گوشت کا معاملہ نہیں ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ آپ خیر خواہ بنتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کے بارے میں بہتر طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے تین حصے کر لو۔ ایک حصہ خود کھاؤ کیونکہ یہ مبارک گوشت ہے۔ آپ ﷺ نے بھی سو اونٹ قربان کئے اور سو اونٹوں کی یہ قدر کی کہ ہر ایک سے ایک ایک بوٹی لی اور اس کو ایک ہنڈیا میں ڈال کر اسے ابال لیا۔ اس سے جو شوربا بنا اس شوربا کو پی لیا۔ یعنی سب اونٹوں کے گوشت میں سے استعمال کیا کیونکہ مبارک گوشت تھا۔ ہر اونٹ نے اپنی جان دی تھی۔ اس لئے سب کا تھوڑا تھوڑا حصہ پی لیا۔
نبی کریم ﷺ نے ایک اور موقع پر بھی یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔ یہ بعثتِ نبوی سے پہلے کی بات ہے۔ جب حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ سب لوگوں نے نبی کریم ﷺ کا فیصلہ قبول کر لیا۔ نبی ﷺ نے ایک چادر منگوائی۔ چادر میں حجرِ اسود کو رکھا اور تمام قبیلوں کے سرداروں کو کہا کہ اس چادر کا کوئی نہ کوئی کونہ پکڑ لیں۔ اور سب مل کر اس کو اٹھا کر اس جگہ تک لے آئیں جہاں اسے نصب کرنا ہے۔ سب حجر اسود کو اٹھا کر وہاں لے آئے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سب سرداروں سے پوچھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں اس کو اپنے ہاتھ سے رکھ دوں۔ سب نے خوشی سے اجازت دے دی اور یہ مسئلہ حل ہو گیا۔ یہ ہے بصیرت۔ اسی طریقے سے آپ ﷺ نے سارے اونٹوں کا گوشت لے کر اس کا تھوڑا تھوڑا شوربا بنایا اور اس شوربا کو پی لیا۔ اس طرح سب کا حصہ ادا ہو گیا۔ قربانی کا گوشت مبارک گوشت ہے لہذا خود بھی کھانا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہمانی ہے ﴿نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم سجدہ: 32) میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠﴾ (حم سجدہ: 31-32)
ترجمہ: ”اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے جو تم منگوانا چاہو یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل“۔
اسی طرح یہ قربانی کا موقع بھی اللہ تعالیٰ کی مہمانی ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اگر قربانی کا گوشت اس نیت سے کھایا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مہمانی ہے اور اللہ تعالیٰ جیسے یہاں مہمانی کر رہے ہیں ایسے ہی جنت میں بھی مہمانی کریں گے تو امید ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔ کیونکہ اللہ پاک فرماتے ہیں:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح بخاری: حدیث: 7405)
ترجمہ: ”میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔“
یہ اللہ کی طرف سے مہمانی ہے۔ تبھی تو ان تین دنوں میں روزے رکھنا منع ہے۔ جنت میں کوئی روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ ساری باتیں اِدھر کی ہیں۔ وہاں تو مزے ہی مزے ہیں۔ اگر کوئی اس نیت کے ساتھ قربانی کا گوشت کھائے گا تو ان شاء اللہ اسے آخرت میں بھی ایسا معاملہ نصیب ہو گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی مہمانی میں ہو گا۔ اس لئے اس گوشت کو محبت کے ساتھ کھائیں۔
قربانی کے گوشت کا ایک حصہ خود کھائیں اور دوسرا حصہ غریبوں کو دیں۔ تیسرا حصہ رشتہ داروں کو دیں۔ یہ ایک طریقہ کار ہے جو بزرگوں نے وضع فرمایا ہے تاکہ سب چیزوں کا حق ادا ہو جائے لیکن اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے، سارا گوشت خود کھا لے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی قربانی ضائع نہیں ہو گی۔ البتہ اسے اضافی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ جیسے کوئی شخص تہجد کی نماز نہیں پڑھتا تو اس کی باقی فرض نمازوں کا ثواب کم نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے تہجد کی نماز کا مخصوص اجر نہیں ملے گا۔ وہ تو ان کو ہی ملے گا جنہوں نے تہجد پڑھی ہو گی۔ یہی بات یہاں پر بھی ہے کہ اس طریقے کے مطابق گوشت تقسیم نہ کرنے سے قربانی پہ اثر نہیں پڑتا البتہ اضافی ثواب نہیں ملے گا۔
مسلمان قربانی تو کرتے ہیں البتہ اس کا اصل تصور نہ جاننے اور صحیح معنوں میں اس سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اس کو ایک عادت کے طور پہ کرتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کی نعمت ہے کہ عادت تو ہے۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہے اور وہ یہ کہ اس سارے تصور کو سمجھنے اور جاننے کے بعد قربانی کرنے سے جو قرب حاصل ہوتا ہے، ان چیزوں کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے وہ چیز حاصل نہیں ہو پاتی۔ ہمارا یہ بیان اسی لئے ہے کہ ہم یہ چیزیں جان لیں کہ ہم قربانی کیوں کر رہے ہیں اور اس میں بہتر طریقہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بہتر کام یہ ہے کہ ہم قربانی کے مسائل سیکھیں۔ قربانی کے فضائل تو الحمد للہ بیان ہو ہی رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قربانی کے مسائل جاننا بھی ضروری ہے۔ بہشتی زیور میں یہ مسائل موجود ہیں۔ اس میں پڑھ لیں۔ ہماری ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں وہاں سے پڑھ لیں۔ دوسری کئی اچھی اچھی کتابیں موجود ہیں انہیں پڑھ لیں۔
ایک تو یہ سیکھنا چاہئے کہ قربانی میں نیت کون سی اور کس طرح ہونی چاہئیں۔ اس کے بڑے احکامات ہیں۔ وہ سیکھنے چاہئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ جانور کیسا ہونا چاہئے۔ اس کے بارے میں تفصیلات اور مسائل ہیں۔ وہ بھی سیکھنے چاہئیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ جانور کو ذبح کیسے کیا جائے۔ اس کا کیا طریقہ کار ہے۔ اس سے متعلق مسائل بھی سیکھنے چاہئیں۔ بعض لوگ ان مسائل کو نہیں جانتے۔ وہ کام خراب کر دیتے ہیں۔ قصابوں کے بارے میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا دل ان کے پیشے کی نوعیت کی وجہ سے سخت ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ ان تمام چیزوں کا خیال نہیں رکھتے جن کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جانور ذبح کرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ جانور کو ذبح کرنے کے بعد جب تک اس کی جان نہ نکلے اس وقت تک اس پہ مزید کوئی کام نہ کریں۔ لیکن بہت سے قصاب ایسا نہیں کرتے، ذبح کرتے ہوئے حرام مغز کے قریب والی شہ رگ کو یکدم کاٹ دیتے ہیں۔ جس سے جانور فوری طور پہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ اس کا خون پورا بہنا چاہئے۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہئیں کہ جانور کی کتنی رگیں ہیں، ان میں سے کتنی رگیں کاٹنی چاہئیں۔ چھری کیسے چلانی چاہئے، کس جگہ پہ رکھنی چاہئے۔ یہ سب معاملات سیکھنے چاہئیں۔ اٹکل پچو طریقے سے نہیں کرنا چاہئے۔
اس کے بعد گوشت کی تقسیم کے مسائل ہیں۔ اس کے اپنے احکامات ہیں۔ گوشت کی تقسیم کے بعد جو چیزیں بچ جاتی ہیں، مثلاً رسی ہے، کھال ہے، سینگ وغیرہ ہیں۔ ان کے اپنے احکامات ہیں۔ یہ سب سیکھنے چاہئیں۔
قصاب کو اجرت دینے کے الگ مسائل ہیں۔ اگر آپ نے اس کی اجرت قربانی کے گوشت میں سے ہی دے دی تو یہ جائز نہیں ہے۔ اسے علیحدہ سے اجرت دینی ہوتی ہے۔
گوشت کی تقسیم میں یہ بات ہے کہ برابر سرابر تقسیم کرنا چاہئے۔ بڑے جانور میں زیادہ سے زیادہ سات حصے ہو سکتے ہیں۔ اگر کسی نے آٹھ کر دیئے تو کسی کی بھی قربانی نہیں ہوئی۔ چھ ہو سکتے ہیں، پانچ ہو سکتے ہیں، چار ہو سکتے ہیں، تین ہو سکتے ہیں، دو ہو سکتے ہیں، ایک بھی ہو سکتا ہے لیکن آٹھ نہیں ہو سکتے، نو نہیں ہو سکتے اور دس نہیں ہو سکتے، الغرض سات سے زیادہ نہیں ہو سکتے۔
اگر کوئی آدمی گوشت کھانے کی نیت سے اپنا حصہ رکھ لے۔ اس کی قربانی کی نیت نہ ہو تو ساری قربانی ضائع ہو جائے گی۔ اس لئے اپنے ساتھ کوئی ایسا ساتھی شامل نہیں ہونے دینا چاہئے جس کی نیت محض گوشت لینے کی ہو۔
قربانی صحت مند جانوروں کی ہوتی ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ قوانین ہیں۔ بعض قصاب ایسے جانوروں کی قربانی کر دیتے ہیں جو قربانی کے لئے درست نہیں ہوتے۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ ان کے ساتھ حصہ رکھ لیتے ہیں، ہمارا کام ہو جائے گا تو یہ جائز نہیں ہے۔ رزق کے بارے میں سوچو۔ کسی کا رزق کھلا ہوا حرام ہے تو ان کو قربانی میں اپنے ساتھ شامل نہیں کرنا چاہئے۔
مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بیان کے دوران فرمایا کہ ہم ایک دفعہ ایک بینک میں دعوت کی نیت سے گئے۔ بینک منیجر ہمیں جانتا تھا۔ اس نے ہمارے لئے چائے منگوائی۔ میں نے سوچا کہ چائے ٹھنڈی ہونے دیتے ہیں، پھر اس بہانہ سے نہیں پئیں گے کہ ٹھنڈی چائے ہے، نہیں پی جا سکتی۔ گویا لطائف الحیل سے ٹالنا چاہ رہے تھے۔ لیکن جب چائے ٹھنڈی ہوئی تو منیجر نے کہا: مفتی صاحب کے لئے اور گرم چائے لے آؤ۔ میں نے سوچا: اب تو بات کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا: منیجر صاحب معاف کیجئے گا۔ میں یہ تو دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں بالکل ہی حلال کھاتا ہوں لیکن اتنا کھلا حرام بھی نہیں کھاتا۔
یہ ایسی بات ہے کہ جو کسی بینک منیجر سے کی جائے تو وہ ضرور ناراض ہو جائے گا۔ لیکن کیا کریں حق بات تو حق ہی ہے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ قربانی میں شامل نہ کریں۔ ان کو ترغیب دیں کہ آپ بکرا قربان کر لیں وہ آپ کے لئے زیادہ مفید ہے۔ کم از کم اتنا مفید تو ضرور ہے کہ کسی اور کی قربانی خراب نہیں ہو گی۔ اگر وہ نہیں مانتا تو پھر آپ بکرا قربان کر لیں۔ یہی طریقہ ٹھیک ہے۔ یہ اس قسم کے مسائل ہیں جن کا خیال کرنا ضروری ہے۔
مسائل کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ مولانا عبد اللہ کاکاخیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ڈین (Dean) تھے۔ ہم ان دنوں نیلور میں ہوتے تھے۔ نیلور یہاں سے کافی دور ہے۔ تقریباً بیس کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ ہے۔ اس زمانے میں راستہ بھی اتنا ٹھیک نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ عید کی قربانی ہمارے ساتھ کرتے تھے۔ ہمارے پاس آتے تھے اور کہتے کہ میں شبیر کے ساتھ اس لئے قربانی کرتا ہوں کہ یہ مسائل کا خیال رکھتا ہے۔ اس دن ہمارے لئے دگنی عید ہوتی تھی کیونکہ ان سے ہم بڑے مسائل سیکھتے تھے۔ وہ بہت بڑے عالم تھے۔ جتنا وقت قربانی ہو رہی ہوتی تھی ہم ان سے مسلسل مسائل پوچھتے رہتے تھے اور وہ بتاتے رہتے تھے۔
بہرحال ان مسائل کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس سے ہمارا عمل محفوظ ہو جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر کام خراب ہو سکتا ہے۔
عید الاضحیٰ دعوتوں کی عید ہے۔ اس میں ایک دوسرے کی دعوت کر لیا کریں۔ خوشی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کا دل رکھنے کے لئے دعوتوں کا اہتمام کیا کریں۔ اگر دلوں میں کوئی خلش ہو، کسی مسئلہ کی وجہ سے خلجان ہو تو اسے دور کرنے کے لئے ایک دوسرے کی دعوت کر لیا کریں۔ الحمد للہ ہماری خانقاہ میں بھی یہ دعوت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تو سادہ طریقہ ہوتا ہے۔ گوشت میں ہم صرف نمک ڈالتے میں اور کوئی چیز نہیں ڈالتے۔ اسی کو کھا لیتے ہیں۔ اللہ پاک ہی کسی چیز میں مزہ ڈالتے ہیں اور قربانی کے اُس گوشت میں اللہ پاک ایسی لذت ڈالتے ہیں کہ لوگ اسے کھانے کے لئے دور دور سے آتے ہیں۔ ما شاء اللہ یہ بہت مزے دار دعوت ہے اور مقبول ہے۔
جن حضرات کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو وہ اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ ذی الحج کا چاند نظر آنے سے لے کر قربانی کرنے تک ناخن نہ کاٹیں، بال نہ کاٹیں، حجامت وغیرہ نہ کروائیں تاکہ حاجیوں سے مشابہت ہو جائے۔
جس وقت قربانی ہو جائے تو اس کے گوشت سے کھانا پینا شروع کرنا چاہئے۔ اس کو بعض لوگوں نے روزہ بھی کہا ہے۔ یہ روزہ نہیں ہے کیونکہ اس دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ اس دن روزہ تو نہیں ہو سکتا۔ البتہ قربانی کا اکرام یہ ہے کہ اس دن ہم کھانے کی ابتدا قربانی کے گوشت سے کریں۔
قربانی کا گوشت کھلے دل سے تقسیم کریں، کھلے دل سے کھائیں اور اس پر اللہ پاک کا کھلے دل سے شکر ادا کریں۔
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراہیم: 7)
ترجمہ: ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا“۔
ہم اپنی طرف سے تو قربانی کرتے ہی ہیں لیکن آپ ﷺ نے پوری امت کی طرف سے قربانی فرمائی ہے۔ تو کیا ہم آپ ﷺ کے لئے قربانی نہیں کر سکتے؟ آپ ﷺ کے لئے بھی قربانی کریں اور اگر ہمت ہو تو آپ ﷺ کی امت کے لئے بھی قربانی کرنی چاہئے۔ یہ قربانی نفلی ہو گی۔ واجب تو اپنے لئے ہوتی ہے، اس میں کسی اور کے ساتھ شراکت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن نفلی قربانی جتنی چاہے کی جا سکتی ہے اور جس کی طرف سے کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ لہٰذا قربانی خود اپنے لئے بھی کرنی چاہئے اور جو ہمارے دل کے قریب ہیں ان کے لئے بھی کرنا چاہئے۔ یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔
دوسروں کے لئے قربانی کرنا فیض حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب ہم آپ ﷺ کے لئے قربانی کریں تو اُدھر سے بھی فیض ضرور آئے گا۔ اگر کسی اللہ والے کے ساتھ کسی وجہ سے بہت محبت ہو تو ان کے لئے بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔
قربانی کے جانور کو اچھی طرح پالنا چاہئے۔ اگر خریدا ہے تو وہ جتنے دن آپ کے ساتھ ہے اس کی اچھی خدمت کرنی چاہئے۔ آپ جتنی زیادہ اس کی خدمت کریں گے آپ کو اس کے ساتھ اتنی محبت ہو گی۔ اس محبت کے ہوتے ہوئے جب آپ اسے ذبح کریں گے تو یہ محبت اللہ کی محبت میں ڈھل جائے گی۔ مجاز کے ذریعے حقیقت تک پہنچنا یہی ہے کہ آپ اس مجازی محبت کو اللہ کی محبت میں قربان کر دیں تو آپ کو اللہ کی محبت حاصل ہو جائے گی۔ یہ نسبتاً ایک مختصر طریقہ ہے۔
مثلاً انسان کو کسی کے ساتھ بہت محبت ہو لیکن وہ محبت حرام ہو۔ اس کو پتا بھی ہو کہ یہ محبت حرام ہے۔ اگر یہ شخص اس حرام محبت کو اللہ جل شانہ کی خاطر ختم کر لے کہ اب میں یہ نہیں کروں گا کیونکہ اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے تو اسے اللہ کی محبت نصیب ہو جائے گی۔ یہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کا ایک شارٹ کٹ طریقہ ہے۔ لیکن قصداً ایسا نہ کرے کہ کسی کے ساتھ حرام محبت کرے پھر اس محبت کو قربان کرے اور سمجھے کہ یہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ ایسا کرنا تو جہالت ہے۔ ہاں اگر اتفاقاً ایسا ہو جائے تو پھر یہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کا ایک طریقہ بن سکتا ہے۔
اگر کسی کے ساتھ ایسا مسئلہ ہو تو اسے ہم یہ ذکر بتاتے ہیں کہ ایک ہزار مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کا ذکر اس تصور کے ساتھ کرو کہ ”لَآ اِلٰہَ“ کے ساتھ اس کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور ”اِلَّا اللہُ“ کے ساتھ اللہ کی محبت دل میں آ رہی ہے۔ اس طریقے سے وہ محبت اللہ کی محبت میں تبدیل ہو جائے گی۔
یہ سب اعمال اللہ کی محبت حاصل کرنے کے ذرائع ہیں۔ قربانی بھی ان میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ اس کے ساتھ ہم محبت کریں اور پھر اس محبت کو اللہ کی محبت کے لئے قربان کر دیں تو اس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتے ہیں۔
اللہ کی محبت کمانے کے ذرائع بہت ہیں۔ لیکن انسان صرف نہ جاننے کی وجہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے تو اس کی مثالیں قائم کی ہیں۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ گائے کی قربانی کرتے تھے۔ حالانکہ ہندوستان میں گائے کی قربانی کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وہ گائے کی قربانی کرتے تھے۔ قربانی سے پہلے اس گائے کی خوب خدمت کرتے تھے۔ اس کے ساتھ دوڑتے بھاگتے تھے۔ اسے نہلاتے دھلاتے تھے۔ اس طرح اس کے ساتھ اچھی خاصی محبت ہو جاتی تھی۔ پھر جس دن ذبح کرتے تو رو رہے ہوتے تھے۔ لیکن بہرحال ذبح کر رہے ہوتے تھے۔ ہمیں بھی ایسا کرنا چاہئے۔ اللہ پاک ہم سب کو نصیب فرما دے۔
وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ