اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ نے ذی الحج کے پہلے عشرے کے روزوں کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے خصوصاً نویں ذوالحج کے روزے کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے امید ہے کہ یہ ایک پچھلے سال اور ایک اگلے سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ 9 ذی الحج کو یوم عرفہ بھی ہے۔ کیا آپ ﷺ نے جس سال حج کیا تھا اس سال بھی آپ ﷺ نے 9 ذی الحج کا روزہ رکھا تھا؟ یعنی کیا حاجی کیلئے بھی 9 ذی الحج کا روزہ رکھنا مستحب ہے یا جو مسلمان حج کے لئے نہیں گئے صرف ان کے لئے یہ روزہ مستحب ہے؟
جواب:
در اصل ان ایام میں حج کی وجہ سے اور وہاں حاجی جو اعمال کر رہے ہیں ان کے ذریعے سے جو برکت ہے اس سے عام لوگ بھی مستفید ہو رہے ہیں؛ کیونکہ ہمارے پاس زمان موجود ہے، مکان نہیں ہے یعنی ان ایام کا جو زمان ہے وہ موجود ہے لیکن جس مکان کی وجہ سے یہ برکت ہے وہ مکان موجود نہیں ہے، حاجیوں کے پاس مکان موجود ہوتا ہے اور زمان بھی موجود ہوتا ہے۔ لہذا ان کو دو برکتیں حاصل ہیں، مکان کی بھی اور زمان کی بھی۔ اس وجہ سے مکان کی زیارت یعنی حج اور ان اعمال کے اندر اگر مشقت بہت زیادہ ہو تو ایسی صورت میں اس روزے کی یہ فضیلت اگر رہ جاتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن رکھنا منع نہیں ہے۔ البتہ آپ ﷺ نے پوری امت کے لئے آسانی کی خاطر خود روزہ ترک کیا تھا، آپ ﷺ اونٹ کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ کو دودھ پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے دودھ پی لیا تاکہ امت کے لئے آسانی ہو، تو اب یہ آپ ﷺ کی سنت بن گئی ہے۔ لہذا آپ ﷺ کی سنت کی پیروی میں حاجیوں کے لئے اس مستحب عمل کو موخر کرنا جائز ہے۔ البتہ باقی جو لوگ وہاں نہیں ہیں ان کے لئے ایسا نہیں ہے، ان کے لئے فضیلت قائم ہے لہذا اگر وہ روزہ رکھتے ہیں تو جو فضیلت آپ ﷺ نے بیان فرمائی ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ہے: 9 ذی الحج کو یوم العرفہ کے دن جو لوگ یہ روزہ رکھیں گے تو اس کا اجر ہزار روزوں کے برابر ہے یعنی گویا کہ اس نے ہزار روزے رکھ دیئے، تو یہ تقریباً دو سال سے بھی زیادہ بنتے ہیں۔
دوسری بات آپ ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ میں اللہ پاک سے امید کرتا ہوں کہ یہ روزہ ایک گزشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہو جائے۔ چنانچہ باقی حضرات کے لئے یہ روزہ رکھنا بہت فضیلت کی بات ہے۔ اب ہم کون سی 9 ذی الحج کو روزہ رکھیں، وہاں حاجیوں کی نویں کو یا یہاں اپنے ملک کی تاریخ کے مطابق؟ تو علماء کرام فرماتے ہیں کہ جیسے ہر ایک شخص پر نماز اس کے مقامی وقت کے مطابق فرض ہوتی ہے، مثلاً ظہر کی نماز یہاں کی ظہر کے وقت کے مطابق پڑھیں گے، حالانکہ اس وقت سعودی عرب میں تو ظہر کا وقت نہیں ہو گا۔ اسی طرح جب یہاں مغرب کا وقت ہوتا ہے لیکن مکہ مکرمہ میں تو وہ مغرب کا وقت نہیں ہو گا۔ تو جیسے ہم وہاں کے حساب سے نماز نہیں پڑھ سکتے اس طرح ہم وہاں کے حساب سے یہ روزے بھی اور دیگر اعمال بھی نہیں کر سکتے۔ بلکہ یہاں مقامی وقت کے مطابق جو فتوی ہے اس کے مطابق ہم عبادات کریں گے۔ اس وجہ سے تمام فضیلتیں اس لحاظ سے ہیں۔ البتہ ابھی میں تحقیق کر رہا ہوں، کیونکہ ایک روایت ایسی بھی ہے کہ عرفات کے ساتھ متصل جو زمین ہے اس کو وہ برکت ملتی ہے جو عرفات میں ہے پھر اس سے جو متصل ہے اس کو ملتی ہے پھر جو اس سے متصل ہے اس کو ملتی ہے، یوں پوری دنیا میں وہ برکت پھیل جاتی ہے۔ اس لحاظ سے جو برکت حج کے دن کی ہے وہ باقی جگہوں پر بھی پھیل رہی ہے۔ لہذا ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے اس برکت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی اگر وہاں آج حج کا دن ہے تو عرفہ شروع ہوتا ہے زوال سے، تو وہاں کا جو زوال کا وقت ہے اس وقت یہاں ہمارے ہاں تقریباً دو بجے کے کچھ بعد کا وقت ہوتا ہے۔ مثلاً یہاں آج زوال کا وقت 12:17 یہاں پر ہے تو 2 بج کر 17 منٹ پر وہاں زوال کا وقت شروع ہو گا۔ چنانچہ 2 بج کر 17 منٹ پر عرفات میں جو خصوصی رحمت اترنا شروع ہو جائے گی، اس رحمت کو حاصل کرنے کے لئے ہم اللہ کی طرف متوجہ ہو جائیں دعاؤں کے ذریعے سے اور دعائیں کرتے رہیں، کیونکہ وہاں تو لوگ ظہر اور عصر کی نماز پڑھنے کے بعد دعا کرتے ہیں اور وہ چونکہ اگر مسجد نمرہ میں پڑھیں تو دو نمازیں اکٹھی پڑھ لیتے ہیں اور اپنے خیموں میں پڑھنے والے اپنے اپنے وقت کے مطابق پڑھتے ہیں۔ ہم لوگ زوال کا وقت شروع ہونے کے ساتھ ہی اس برکت کو حاصل کر سکتے ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ پاک کی طرف متوجہ رہیں کہ جو رحمت وہاں اتر رہی ہے اس میں ہمیں بھی حصہ مل جائے۔ اس وجہ سے میں درخواست کرتا ہوں کہ آج کے دن بھی کچھ دعائیں ہیں جو خصوصی طور پر میں آج خانقاہ کے وٹس ایپ گروپ میں پیش بھی کر چکا ہوں تاکہ سارے لوگ وہ دعائیں کر لیں۔ چنانچہ آج کے دن اور کل کے دن بالخصوص ہم سب یہ دعا کریں کہ: ’’اللہ تعالیٰ سب حجاج کے حج کو قبول فرمائیں اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں، کمال ایمان کے ساتھ ہمیں کامل مغفرت نصیب فرمائے۔ ہم میں سے ہر ایک کو امت مسلمہ کے بالعموم اور اپنے ملک کے وسائل کو صحیح استعمال کرنے کی اور اپنے مسائل کو حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) بالخصوص جو افراد اور ادارے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملک و قوم کی تباہی کا ذریعہ بن رہے ہیں سب کو سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو دجالیت سے بچاتے ہوئے سنتوں اور طریقِ صحابہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔‘‘
یہ دعا کم از کم ان اوقات میں مانگی جائے جیسے میں نے عرض کیا، چونکہ آج وہاں پر یوم العرفہ ہے۔ چنانچہ اس روایت کے لحاظ کہ زمین کا جو ٹکڑا دوسرے ٹکڑے سے متصل ہوتا ہے وہ اس کا اثر لیتا ہے تو آج وہ اثر پوری دنیا میں تقسیم ہو گا۔ اس لحاظ سے وہاں زوال کے بعد آنے والی اس رحمت کی طرف متوجہ ہو کے ہم اللہ پاک سے دعا کر لیں کہ اللہ پاک ہم سب کو دائمی طور پر کامل ایمان نصیب فرمائے جو پھر کبھی زائل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو کمالِ معرفت نصیب فرمائے۔ کیونکہ عبدیت اور معرفت ہی کے لئے تصوف ہے، ہم لوگ اسی کی کوششیں کرتے ہیں کہ ہمیں عبدیت حاصل ہو اور اللہ کی معرفت حاصل ہو۔ ان میں معرفت کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور عبدیت کا تعلق نفس کے ساتھ ہے۔ تو ہم نفس کو قابو میں کر لیں اور اللہ تعالی کو پہچان لیں، اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں، اس چیز کی خصوصی دعا کر لیں۔
نیز اپنے گناہوں پہ استغفار ہو کہ جو گناہ ہم کر چکے ہیں اللہ تعالیٰ وہ معاف کر دے اور ہم صحیح دل سے توبہ کر لیں۔ اور توبہ بھی ہم اجتماعی طور پر کریں۔ کیونکہ ایک ہوتے ہیں انفرادی اعمال اور ایک ہوتے ہیں اجتماعی اعمال، اجتماعی اعمال میں چیز کا اثر بڑھ جاتا ہے، جیسے ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اجتماعی گناہ بھی بہت خطرناک ہوتا ہے اور اجتماعی اجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جیسے حج کے موقع پر اللہ پاک کی خصوصی رحمت اترتی ہے تو وہ اس اجتماع کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح عید کے دن جو نماز عید پڑھتے ہیں اور اس وقت جو اللہ پاک کی خصوصی رحمت اترتی ہے وہ بھی اس اجتماع کی وجہ سے۔ لہذا اس اجتماعیت کا بہت بڑا اثر ہے مثبت بھی اور منفی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اخیر میں جب دجالیت ہو گی تو یہ منفی اجتماعیت ہو گی اور جو ہدایت کا سامان اللہ پاک نے امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا ہو گا وہ بھی اجتماعی صورت میں ہوں گا۔ لہٰذا جو بھی امام مہدی علیہ السلام کے اس گروہ میں شامل ہو گا اس کے اوپر اللہ پاک کی خصوصی رحمت ہو گی اور جو دجال کے ساتھ ہو گا اس پر تباہی و بربادی کی خصوصی نحوست طاری ہو جائے گی۔ لہٰذا اس وقت چونکہ حج بالخصوص اجتماعی عمل ہے تو اس پر خصوصی توجہ کر کے ہمارے جو اجتماعی مسائل ہیں ان کو حل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذاتی مفادات کے لئے ملکی مفادات کو قربان کر لیتے ہیں، مِلّی مفادات کو قربان کر لیتے ہیں جس سے ان کا شر بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے اور بہت متعدی ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے بالخصوص اس کے لئے توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
توبہ کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہوتا ہے، اگر کسی پر اللہ پاک کا فضل ہو جائے اور توبہ کی توفیق ہو جائے اور موت سے پہلے پہلے گناہ معاف ہو جائیں تو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے! اس وجہ سے اس سلسلے میں ہمیں خصوصی طور پر تو آج بھی دعائیں کرنی چاہئیں وہاں کی نسبت کے لحاظ سے اور ہمارے یہاں کی نسبت کے لحاظ سے کل ہم یہ دعا کریں گے۔ لہذا کل کا دن تو سارے کا سارا ہمارا یوم العرفہ ہے، وہ دن کے لحاظ سے ہماری برکت ہے۔ اور وہاں مقام اور دن دونوں کے لحاظ سے برکت ہے۔ لہٰذا جیسے ہم صبح سے ہی تکبیرات شروع کرتے ہیں اس طریقے سے اس کے بعد ہم دعائیں بھی شروع کر لیں اور ہم اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جائیں بالخصوص اس دن جو مسنون اعمال ہیں وہ کریں۔ مثال کے طور پر سب سے پہلے تو رات کے خاتمے پہ تہجد کی نماز پڑھ لیں اور ﴿وَ بِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ (الذاریات: 18) کے مطابق اس وقت اللہ تعالیٰ سے استغفار کر لیں۔ چنانچہ بہت زیادہ کثرت کے ساتھ ہم استغفار کر لیں اور توبہ کر لیں۔ پھر فجر کی نماز میں تکبیرات شروع ہو جائیں گی، پھر اس کے بعد نماز کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں، اشراق تک اپنی جگہ پر بیٹھیں اور دینی محفل میں بیٹھیں یا دینی کاموں میں بیٹھیں اور ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک کی طرف متوجہ رہیں اور پھر اشراق کے نفل پڑھ لیں۔ یہ مسنون اعمال ہیں یعنی یہ نفل ہیں، لیکن مسنون طریقے سے ہیں اور پھر اس کے بعد چاشت تک جو وقت ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہیں، لیکن چاشت کی نماز نہ بھولیں، چاشت کی نماز پڑھ لیں، کیونکہ یہ مسنون نماز ہے۔ اس کے بعد پھر ہم زوال کے بعد والی چار رکعات پڑھ لیں، پھر عصر سے پہلے چار رکعات نفل جو سنتِ عصر کہلاتی ہیں وہ پڑھ لیں اور پھر مغرب کے بعد اوّابین پڑھ لیں، پھر عشاء سے پہلے چار رکعات سنت پڑھ لیں، پھر عشاء کے بعد جو نفل پڑھے جاتے ہیں وہ پڑھ لیں، چنانچہ وہ نوافل جن کا تعلق کسی مسنون عمل کے ساتھ ہے ان کی value (قدر و قیمت) بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی نفل پڑھے جا سکتے ہیں۔ پھر قرآن پاک کی تلاوت ہے۔ بالخصوص ذکر ہے، جیسے ’’سُبْحَانَ اللهِ، والْحَمْدُ لِلّٰهِ، وَلَآ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ، وَاللهُ اَكْبَرُ‘‘ کثرت کے ساتھ پڑھ لیں، درود شریف پڑھیں، قرآن پاک کی تلاوت کریں اور اللہ پاک سے اپنے لئے مغفرت کی اور قبولیت کی دعائیں کرتے رہیں اور ہدایت کی دعائیں کرتے رہیں۔ بہر حال پھر عید کے دن ’’اَللہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَر اَللہُ اَکْبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ یہ تو ہم کثرت کے ساتھ پڑھیں گے اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ