تعلیمات مجددیہ درس 12




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں چند چیزوں پر جس ترتیب سے زور دیا ہے، ہم ان چیزوں پر اسی انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت نے عقائد پر زور دیا ہے، گویا یہ بتایا ہے کہ تصوف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے عقائد درست ہو جائیں اور ان میں پختگی آ جائے۔

اس کے بعد اس بات پر زور دیا ہے کہ ہم تمام اعمال دائمی طور پر سنت کے مطابق کرنے لگیں اور اسی طریقہ کے مطابق اعمال کرنے والے بن جائیں جس طریقہ سے آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کئے ہیں۔

حضرت نے سنت کی پیروی پر بہت زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ نقشبندی سلسلہ کا امتیاز یہی ہے کہ اس سلسلہ میں سنت کا اہتمام عزیمت کے درجہ میں ہے۔

پھر حضرت نے بدعت کا زبردست رد فرمایا ہے تاکہ کسی طریقہ سے بھی بدعات کا ارتکاب نہ ہو۔

الحمد للہ ہم نے اسی ترتیب سے تعلیماتِ مجددیہ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

اعمال میں سب سے پہلے عبادات ہیں اور عبادات میں سب سے اول نمبر نماز کا ہے، پچھلی دفعہ نماز پر بات ہوئی تھی۔ نماز کے بعد اور عبادات ہیں جیسے رمضان شریف کے روزے رکھنا، زکوۃ دینا، اور حج کرنا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ان کے بارے میں آج بات ہو گی، تاکہ ہمیں اسی ترتیب سے یہ چیزیں سمجھ میں آجائیں۔

رمضان شریف کے بارے میں حضرت مکتوب نمبر 45 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

جاننا چاہیے کہ رمضان المبارک کا مہینہ بہت بزرگی والا مہینہ ہے، نفلی عبادات نماز، ذکر اور صدقہ وغیرہ جو اس مہینے میں ادا کی جائیں وہ دوسرے دنوں کے فرض ادا کرنے کے برابر ہے اور اس مہینے میں کسی فرض عبادت کا ادا کرنا دوسرے مہینوں کے ستر (70) فرضوں کے ادا کرنے کے برابر ہے۔ ایک فضیلت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس مبارک مہینے میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کو بخش دیتے ہیں اور اس کی گردن کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر دیتے ہیں اور اس (افطار کرانے والے) کو اس روزہ دار کے اجر کے برابر عطا فرماتے ہیں بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں سے کچھ کم کریں اور اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے غلاموں سے خدمت لینے میں کمی کرے تو حق سبحانہ و تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور اس کو دوزخ کی آگ سے آزاد فرما دیتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں آنحضرت علیہ الصلوۃ و التحیۃ قیدیوں کو آزاد فرما دیا کرتے تھے اور جو شخص آپ ﷺ سے جو کچھ مانگتا آپ اس کو عطا فرما دیتے تھے۔

تشریح:

مذکورہ بالا پیرا گراف آپ ﷺ کے ایک خطبہ سے منقول ہے جو آپ ﷺ نے شعبان کے اخیر میں رمضان شریف کی فضیلت کے بیان میں ارشاد فرمایا تھا۔ اسی سے یہ سب چیزیں مستفاد ہیں۔ الحمد للہ، ہر رمضان شریف کی آمد سے پہلے شعبان کے اخیر میں ہم بھی اس خطبہ پر بات کرتے ہیں۔

متن:

اگر کسی شخص کو اس ماہ مبارک میں خیرات اور اعمالِ صالحہ کی توفیق حاصل ہو جائے تو تمام سال اس کو ان اعمال کی توفیق شامل حال رہتی ہے اور اگر کسی کا یہ مہینہ اعمالِ صالحہ سے پراگندگی و کوتاہی میں گزرا تو اس کا تمام سال پراگندگی و کوتاہی میں گذرتا ہے (لہٰذا) جہاں تک ہو سکے اس مہینے میں اعمالِ صالحہ پر جمعیت و پابندی میں کوشش کرنی چاہیے اور اس مہینے کو غنیمت جاننا چاہیے۔

تشریح:

اس ماہ میں سٹارٹ لینا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کو شروع کرتے ہیں تو اسے روکنے والی چیزوں کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے بڑھانے والی چیزوں کو زیادہ کر لیتے ہیں۔ نیک اعمال میں دو رکاوٹیں ہیں، ایک رکاوٹ شیطان ہے، ایک رکاوٹ نفس ہے اور یہی دو چیزیں برائی کو بڑھاوا دینے والی بھی ہیں، ایک تو شیطان اس میں مہمیز کرتا ہے اور دوسرا نفس کی خواہشات برائی کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ رمضان شریف میں شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے لہذا اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے، جب کہ نفس کے اوپر پیر رکھ لیا جاتا ہے، نفس کی تین بہترین خواہشات کھانا، پینا اور مباشرت کو دبا دیا جاتا ہے۔ ان تین چیزوں کے دبنے کی وجہ سے نفس مضمحل ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں اس کے لئے یہ لفظ (مضمحل ہونا) بہت مناسب ہے۔ نفس مضمحل ہو جاتا ہے، ادھ موا ہو جاتا ہے۔ مضمحل چیز کو آپ جس طرف لگانا چاہیں لگا سکتے ہیں، اس وقت آپ اس سے جتنا کچھ حاصل کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ میں اس کی مثال اکثر یوں دیا کرتا ہوں کہ جب آرمی والے جنگ کی حالت میں ہوں، گولیاں چل رہی ہوں، جنگ میں کسی پوسٹ کو اڑا دیا جائے اور وہاں سے ان کے اوپر شیلنگ نہ ہو رہی ہو، اس وقت یہ جتنی زیادہ سے زیادہ حرکت، پیش قدمی اور مزید تیاری ممکن ہو، کر لیتے ہیں، کیونکہ پھر ان کو موقع نہیں ملے گا۔ رمضان شریف کا مہینہ بھی ایسے ہی ہے کہ اگر شیطان بند ہے اور نفس مضمحل ہے تو اس میں جتنی تیاری کر سکتے ہو، کر لو۔ اس طریقہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:

”اس مہینہ میں جس کو نیک اعمال کی توفیق ہو گئی، وہ توفیق تمام سال جاری رہتی ہے“۔

کیونکہ وہ آغاز کر چکا ہوتا ہے۔ اگر خدا نخواستہ اس ماہ سے فائدہ نہ اٹھایا، اس میں نیکیوں کا آغاز نہ کیا تو بعد میں رکاوٹیں آجائیں گی، پھر باقی سال بھی ویسے ہی رہے گا۔

متن:

اور اس ماہ مبارک کی ہر رات میں کئی ہزار دوزخ کے مستحق آدمیوں کو آزادی ملتی ہے اور اس مہینے میں بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور رحمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔

اور افطار میں جلدی کرنا اور سحری کھانے میں تاخیر کرنا سنت ہے اور اس بارے میں آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام مبالغہ (یعنی بہت تاکید) فرماتے تھے۔ اور شاید سحری کھانے میں تاخیر اور افطار میں جلدی کرنے میں اپنے عاجز و محتاج ہونے کا اظہار ہے جو کہ بندگی کے مقام کے مناسب ہے۔ اور کھجور یا چھوہارے سے افطار کرنا سنت ہے۔ اور آنحضرت ﷺ افطار کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: ذَھَبَ الظَّمَأُ وَ ابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاۤءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ (یعنی پیاس دور ہو گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور اجر ثابت ہو گیا ان شاء اللہ تعالیٰ)۔ اس ماہ مبارک میں نماز تراویح کا ادا کرنا اور (نماز تراویح میں) قرآن مجید کا ختم کرنا سنت مؤکدہ ہے اور اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں وَفَّقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِحُرْمَۃِ حَبِیْبِہٖ عَلَیْہِ وَ عَلیٰ آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ وَ التَّحِیَّاتُ (اللہ سبحانہ اپنے حبیب علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات و التحیات کے طفیل ہم کو ان کاموں کی توفیق عطا فرمائے)۔

حضرت مکتوب نمبر 162 دفتر اول میں فرماتے ہیں:

متن:

اور ماہ رمضان المبارک تمام خیرات و برکات کا جامع ہے اور ہر خیر و برکت جو بھی ہے وہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف سے فیض پہنچا رہی ہے اور اس ذات کے شیونات کا نتیجہ ہے کیونکہ جو شر و نقص بھی وجود میں آتا ہے اس کی ذات و صفات محدثہ کے منشا سے ہے:

﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾ (النساء: 79)

ترجمہ: "جو بھی بھلائی تم کو پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو برائی تم کو پہنچتی ہے وہ تمھارے نفس کی طرف سے ہوتی ہے"۔

نص قاطع ہے۔ پس اس ماہ مبارک کی تمام خیرات و برکات ان کمالاتِ ذاتیہ کا نتیجہ ہیں جس کی جامع شان کلام ربانی ہے اور قرآن مجید اس شانِ جامع کی تمام حقیقت کا حاصل ہے۔ لہذا اس ماہِ مبارک (رمضان) کو قرآن مجید کے ساتھ مناسبتِ کلی حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید تمام کمالات کا جامع ہے اور یہ مہینہ ”جامع جمیع خیرات“ یعنی ان تمام نیکیوں کا جامع ہے جو کہ ان کمالات کے نتائج و ثمرات ہیں اور یہی مناسبت اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید کے نزول کا باعث ہوئی: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرہ: 185) (رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا)۔ اور شبِ قدر جو اسی ماہ کا خلاصہ اور لبِّ لباب ہے (وہ رات گویا) اس کا مغز ہے اور یہ مہینہ اس کے پوست کی مانند ہے۔ پس جو شخص اس مہینہ کو جامعیت (یعنی تمام فرائض کو بحسن و خوبی) کے ساتھ گزارے گا وہ اس کی تمام خیر و برکت سے مالا مال ہو گا اور (ان شاء اللہ) تمام سال جمعیت (و اطمینان) سے گزرے گا اور خیر و برکت کے ساتھ بہرہ ور ہوتا رہے گا۔ وَفَّقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ لِلْخَیْرَاتِ وَ الْبَرَکَاتِ فِیْ ھٰذَا الشَّھْرِ الْمُبَارَکِ وَ رَزَقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہُ النَّصِیْبَ الْاَعْظَمَ (اللہ تعالیٰ ہم کو اس مبارک مہینے کی خیرات و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کا بڑا حصہ نصیب فرمائے)۔ (آمین)

تشریح:

ان اقتباسات سے واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ شریعت میں رمضان شریف کا کیا مقام ہے۔ اس کے لئے اللہ پاک نے ایک تکوینی نظام بھی بنایا ہے، آگے حضرت اس کے بارے میں بتائیں گے۔

اس مہینہ کو قرآن پاک کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ قرآن پاک تمام کمالات کا جامع ہے کیونکہ اللہ پاک کا کلام ہے۔ اللہ پاک کا کلام اللہ پاک کی صفت ہے۔ اس صفت کا ہمارے اندر موجود ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ رمضان شریف میں تراویح میں قرآن پڑھا جاتا ہے تو اس کلام کا ظہور ہو رہا ہوتا ہے اور اس کے ظہور کے ساتھ اس کی برکات آ رہی ہوتی ہیں۔ قرآن کی برکات اس ماہِ مبارک کی برکات کے ساتھ مل کر بہت زیادہ باعثِ نورانیت و اطمینان ہو جاتی ہیں۔ رمضان شریف کے مہینہ میں قرآن کی برکات تراویح کے ساتھ منسلک ہیں اس لئے تراویح میں قرآن سننا بے حد اہمیت کا حامل ہے، جو لوگ اس ماہ میں تلاوتِ قرآن و تراویح کا اہتمام کریں گے ان کو اس کی برکات زیادہ سے زیادہ ملیں گی۔

اس ماہ مبارک میں اللہ پاک کی طرف سے نفس کی تربیت کا خصوصی انتظام کیا گیا ہے، اگر نفس پہ پیر رکھا گیا ہو، دن کو روزہ رکھا ہو اور رات کو قرآن سنا جائے تو نورانیت کے وصول کی قابلیت بڑھ جاتی ہے۔

یہاں ایک فقاہت کی بات عرض کرتا ہوں۔ رمضان شریف کے روزوں میں نفس کو بعض چیزوں سے اس طرح روکا گیا ہے کہ روزے کا وجود اور بقا ان چیزوں سے رُکنے پر منحصر ہے۔ مثلاً کھانا پینا اور مباشرت، یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ روزہ کی حالت میں ان میں سے کوئی ایک بھی کی جائے تو روزہ باقی نہیں رہے گا۔ ان کے علاوہ نفس کی باقی خواہشات کو کنٹرول کرنا روزہ کی تکمیل کا باعث ہوتا ہے، اس کے اندر قوت آتی ہے بصورتِ دیگر روزہ کی تکمیل میں کمزوری آتی ہے۔ وہ چیزیں جو روزہ کی حالت میں ممنوع ہیں، اگرچہ ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن روزہ کی نورانیت ضرورت زائل ہو جاتی ہے، جو لوگ رمضان کے مہینہ میں اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچاتے ہیں ان کا روزہ کامل ہوتا ہے، ان کا نفس زیادہ قابو میں آ جاتا ہے، نتیجتاً رات کے وقت قرآن پاک کے سننے کی افادیت بھی بڑھ جاتی ہے۔

اس میں فقاہت کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص دن کو جتنا چاہے سو لے اور رات کو جتنا چاہے جاگ لے۔ رات کے اعمال کا تعلق جاگنے کے ساتھ ہے، روزہ کا تعلق جاگنے کے ساتھ نہیں ہے، دن میں آپ صرف نماز پڑھ لیں، نماز کا وقت ضائع نہ کریں، باقی سارا دن سوتے رہیں، اس سے آپ کے روزے پر فرق نہیں پڑتا، بلکہ روزہ بہتر ہوتا ہے، کیونکہ اگر آپ سو رہے ہیں تو آپ جھوٹ نہیں بولیں گے، بد نظری نہیں ہو گی، غیبت نہیں ہو گی، بری محفلوں میں نہیں جائیں گے، مزید بہت ساری چیزوں سے بچ سکیں گے۔ لہٰذا اگر آپ سو رہے ہیں اور اس سونے میں نیت یہ ہے کہ میں رات کو زیادہ جاگ سکوں، رات کو عبادات زیادہ بہتر کر سکوں تو سبحان اللہ رمضان کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس فقاہت سے انسان بہت کچھ پا لیتا ہے۔

در اصل ہر شخص کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ میں اکثر دیکھا کرتا ہوں کہ بعض لوگ شادی بیاہ کے لئے چھٹی لیتے ہیں، وہ اس کے لئے اپنے آپ کو مستحق اور مجاز سمجھتے ہیں، وہ سیر سپاٹے کے لئے بھی پندرہ دنوں کی چھٹی لے لیتے ہیں، اس کے علاوہ مزید کئی چیزوں کے لیے چھٹی لے لیتے اور اس میں بالکل نہیں جھجھکتے، لیکن رمضان شریف کے لئے چھٹی لینا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا، ان کو سمجھ نہیں ہوتی کہ یہ بھی ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے انسان چھٹی لے سکتا ہے۔ یہ بھی ترجیحات میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ تو سیزن ہے۔ گیارہ مہینے آپ کام کرتے ہیں، ایک مہینہ اپنے نفس کو قابو کرنے، اس کی اصلاح کرنے کے لیے ملا ہے، اس مہینے میں باقی سب کاموں کو ثانوی حیثیت دینا اور اس ماہ کی مصروفیات کو پہلے نمبر پہ رکھنا بھی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ بعض لوگ اس چیز کو نہیں جانتے حتیٰ کہ وہ آخری عشرہ میں بھی بے پروا رہتے ہیں۔ حالانکہ آخری عشرہ میں رمضان کی رحمتیں اور برکتیں اپنی انتہا پہ ہوتی ہیں، اسی عشرہ میں لیلۃ القدر کا امکان ہوتا ہے۔ بعض چیزیں مکمل طور پر سنبھالی جا سکتی ہیں، مثلاً اپنی خریداری وغیرہ رمضان شریف سے پہلے کر لیں تاکہ آپ کو بعد میں نہ کرنی پڑے اور انتظامات ایسے کر لیں کہ آپ کو رمضان شریف میں اپنے آپ کو کسی اور کام میں مصروف نہ ہونا پڑے۔

میں اس کی ایک دلیل اسلاف سے عرض کر سکتا ہوں، اس سے ساری چیزیں وضاحت کے ساتھ ثابت ہوجائیں گی۔

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ جو پہلے مجدِّد گزرے ہیں، اسلام کی تاریخ میں پہلے مجدِّد وہی تھے۔ انہوں نے ایک گورنر کو کہا تھا کہ مجھ سے ملاقات کرو۔ اس کی طرف سے ملاقات کے لیے جانے میں تاخیر ہو گئی یہاں یہاں تک کہ رمضان شریف میں اس کو موقع ملا اور وہ دمشق ملاقات کے لئے آیا۔ اگرچہ انہوں نے خود بلایا تھا لیکن اس پر سخت ناراض ہوئے کہ کیا تمہیں رمضان کے علاوہ کوئی اور مہینہ سفر کے لئے نہیں ملا تھا، رمضان میں کیوں سفر کیا؟

آپ انداز لگائیں کہ خلیفہ کے بلانے پر ہی سفر کر کے ملاقات کے لیے آیا ہے، لیکن اسے صرف اس وجہ سے ڈانٹ پڑ رہی ہے کہ رمضان کا مہینہ آ چکا ہے، رمضان شریف کے معاملہ میں سارے فارمولے تبدیل ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بعض لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا نتیجتاً وہ رمضان شریف کے بہت سارے قیمتی اوقات کو ضائع کر لیتے ہیں۔ یہ میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ آئندہ جب بھی ایسے مواقع آئیں، ان سے خوب فائدہ اٹھایا جائے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب تم جنت کی چراگاہوں میں پہنچو تو وہاں خوب چرو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا کہ جنت کی چراگاہیں کون سی ہیں؟ فرمایا: ذکر کے حلقے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کوئی کام کی چیز وافر مل سکتی ہو، وہاں سستی نہیں کرنی چاہیے، وہاں زیادہ سے زیادہ اس کو حاصل کرنا چاہیے، موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، رمضان شریف کے مہینہ میں بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے، Multiplication factor (ضربی عنصر) بھی بہت ہوتا ہے، اس ماہ میں ایک تو انسان نیکیوں کے انبار لگا سکتا ہے، دوسرا یہ کہ نیکیوں کے کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے اور تیسرا یہ کہ قبولیت بڑھ جاتی ہے۔ یہ تینوں چیزیں ہمارے لئے بے انتہا طور پر مطلوب ہیں۔ رمضان شریف کے مہینے میں یہ خاصیت ہوتی ہے، اس لیے فرمایا:

متن:

اور ماہ رمضان المبارک تمام خیرات و برکات کا جامع ہے اور ہر خیر و برکت جو بھی ہے وہ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف سے فیض پہنچا رہی ہے اور اس ذات کے شیونات کا نتیجہ ہے کیونکہ جو شر و نقص بھی وجود میں آتا ہے اس کی ذات و صفات محدثہ کے منشا سے ہے:

﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾ (النساء: 79)

ترجمہ: ’’جو بھی بھلائی تم کو پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو برائی تم کو پہنچتی ہے وہ تمھارے نفس کی طرف سے ہوتی ہے‘‘۔

نص قاطع ہے۔ پس اس ماہ مبارک کی تمام خیرات و برکات ان کمالاتِ ذاتیہ کا نتیجہ ہیں جس کی جامع شان کلام ربانی ہے۔

تشریح:

یعنی وہ کمالات ذاتی جو کلام ربانی کے ساتھ متعلق ہیں۔

متن:

اور قرآن مجید اس شانِ جامع کی تمام حقیقت کا حاصل ہے۔ لہذا اس ماہِ مبارک (رمضان) کو قرآن مجید کے ساتھ مناسبتِ کلی حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید تمام کمالات کا جامع ہے اور یہ مہینہ ”جامع جمیع خیرات“ یعنی ان تمام نیکیوں کا جامع ہے جو کہ ان کمالات کے نتائج و ثمرات ہیں اور یہی مناسبت اس ماہِ مبارک میں قرآن مجید کے نزول کا باعث ہوئی: ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرہ: 185) (رمضان وہ مبارک مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا)۔ اور شبِ قدر جو اسی ماہ کا خلاصہ اور لبِّ لباب ہے (وہ رات گویا) اس کا مغز ہے اور یہ مہینہ اس کے پوست کی مانند ہے۔

تشریح:

اگر آدمی پورے رمضان میں مستعد رہے مگر اس سے لیلۃ القدر چھوٹ جائے تو اس نے بہت زیادہ حصہ ضائع کر دیا۔ پورا سال عبادت کرتا رہا لیکن رمضان میں عبادت نہ کی تو بہت زیادہ نقصان کر لیا، کیونکہ عام دنوں میں اس کے برابر پہنچ ہی نہیں سکتا۔ ہم لوگوں کو اس نظام کو سمجھ لینا چاہیے۔

متن:

پس جو شخص اس مہینہ کو جامعیت (یعنی تمام فرائض کو بحسن و خوبی) کے ساتھ گزارے گا وہ اس کی تمام خیر و برکت سے مالا مال ہو گا اور (ان شاء اللہ) تمام سال جمعیت (و اطمینان) سے گزرے گا اور خیر و برکت کے ساتھ بہرہ ور ہوتا رہے گا۔

حضرت رسالت خاتمیت علیہ الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ نے فرمایا ہے: ”إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُکُمْ فَلْیُفْطِرْ عَلیٰ تَمَرٍ فَاِنَّهٗ بَرَکَةٌ“ (جب تم میں سے کوئی شخص روزہ افطار کرے تو اس کو کھجور سے افطار کرنا چاہیے کیونکہ اس میں برکت ہے)

تشریح:

افطار تو سب کو کرنا ہی ہوتا ہے، لیکن اس میں برکت زیادہ ہے۔

متن:

آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام کھجور سے روزہ افطار کرتے تھے۔ اور کھجور میں برکت کی وجہ یہ ہے کہ اس کا درخت نخلہ کہلاتا ہے جو اپنی جامعیت اور صفتِ اعدلیت کے لحاظ سے انسان کی طرح مخلوق ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت پیغمبر ﷺ نے نخلہ کو بنی آدم کی عمّہ (پھوپھی) فرمایا ہے کیونکہ وہ طینتِ آدم (آدم کی بقیہ مٹی) سے پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے: ”أَکْرِمُوْا عَمَّتَکُمُ النَّخْلَۃَ فَاِنَّھَا خُلِقَتْ مِنْ بَقِیَّۃِ طِیْنَۃِ آَدَمَ“ (اپنی پھوپھی یعنی درخت خرما کی تعظیم کرو کیونکہ یہ آدم علیہ الصلوۃ و السلام کی بقیہ مٹی سے پیدا کی گئی ہے)۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس کا نام ”برکت“ اسی جامعیت کے اعتبار کی وجہ سے رکھا گیا ہو۔ لہذا اس کے پھل یعنی کھجور سے افطار کرنا صاحبِ افطار کا جزو بن جاتا ہے اور درخت کی حقیقتِ جامعہ اس جزئیت کے اعتبار سے اس کے کھانے والے کی حقیقت کا جزو بن جاتی ہے اور اس کا کھانے والا اس اعتبار سے ان بے شمار کمالات کا جامع ہو جاتا ہے جو اس کھجور کی حقیقت جامعہ میں مندرج ہیں۔

تشریح:

اس حدیث شریف پہ کچھ کلام ہے، چونکہ ہم حدیث شریف پہ بات کرنے کے لائق نہیں ہیں لہذا ہم اس کے بارے میں خاموش رہیں گے، لیکن کم از کم ایک بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ کھجور سے روزہ افطار کیا کرتے تھے، ہمارے لئے یہ بات کافی ہے۔ اس کے اندر کیا حکمت ہے یہ تو اللہ کو پتا ہے لیکن بات تو ثابت ہے کہ آپ ﷺ کھجور سے روزہ افطار کیا کرتے تھے۔

متن:

یہ مطلب اگرچہ اس کے مطلق کھانے میں بھی حاصل ہو جاتا ہے لیکن افطار کے وقت جو روزہ دار کے شہواتِ مانعہ اور لذاتِ فانیہ سے خالی ہونے کا وقت ہے، اس کا کھانا زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔

تشریح:

جب آپ خالی پیٹ دوائی کھاتے ہیں تو بہت زیادہ اثر کرتی ہے کیونکہ اس وقت دوا کے آپ کے جسم کا جز بننے میں کوئی اور رکاوٹ نہیں ہوتی، اس کی purity (خالص پن) پوری ہوتی ہے، وہ پوری طرح آپ کے جسم کو مل جاتی ہے۔ اگر آپ نے پہلی چیز ہی دوائی کھائی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معدہ اس کے لئے تیار ہے، جیسے ہی دوائی معدہ میں پہنچ جائے گی، ہضم ہو جائے گی اور آپ کو اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ مل جائے گا۔

متن:

اور یہ مطلب کامل اور پورے طور پر ظاہر ہو جاتا ہے اور یہ آنسرور عالم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: ”نِعْمَ سُحُوْرِ الْمُؤْمِنِ التَّمَرُ“ (مومن کی بہترین سحری تمر (کھجور ہے)۔ اس اعتبار سے ہو سکتا ہے کہ اس کی غذا میں جو صاحبِ غذا کا جزو بن جاتی ہے اس غذا کی حقیقت کے ذریعے سے اس صاحبِ غذا کی حقیقت کی تکمیل ہے نہ کہ اس کی غذا کی حقیقت اور جب یہ مطلب روزہ میں مفقود ہے تو اس کی تلافی کے لئے تمر (کھجور) کی سحور پر بھی ترغیب فرمائی کہ گویا اس کا کھانا تمام ماکولات کے کھانے کا فائدہ رکھتا ہے۔ اور اس کی برکت جامعیت کے اعتبار سے افطار کے وقت تک رہتی ہے اور غذا کا یہ فائدہ جو مذکور ہو چکا ہے اس تقدیر پر مرتب ہوتا ہے کہ وہ غذا تجویز شرعی کے مطابق واقع ہو اور شرعی حدود سے سرمو تجاوز نہ ہو۔ اور نیز اس فائدہ کی حقیقت اس وقت میسر ہوتی ہے جب کہ اس کا کھانے والا صورت سے گزر کر حقیقت تک جا پہنچا ہو اور ظاہر سے باطن تک پہنچ گیا ہو تا کہ غذا کا ظاہر اس کے ظاہر کو مدد دے اور غذا کا باطن اس کے باطن کو مکمل کر دے ورنہ صرف ظاہری امداد ناقص ہے بلکہ اس کا کھانے والا عین کمی میں ہے۔

سعی کن تا لقمہ را سازی گہر

بعد ازاں چنداں کہ می خواہی بخور

ترجمہ: (بنا لقمے کو کوشش سے تو گوہر

پھر اس کو کھا برابر سیر ہو کر)

جلدی افطار کرنے اور سحری دیر سے کھانے میں حکمت یہی ہے کہ صاحب غذا کی غذا سے تکمیل ہو جائے۔ و السلام۔

تشریح:

اس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے کھجور کی برکات کا ذکر بھی کیا ہے۔

جن چیزوں کا ذکر قرآن میں ہے یا احادیث شریفہ میں ہے اور ان کے اندر برکت بتائی گئی ہے، ان میں بہت زیادہ فوائد ہوتے ہیں، جب ان پر طبی تحقیق کی جاتی ہے تو وہ بہت سارے فوائد سے مالا مال نکلتی ہیں، مثلاً کھجور، شہد، دودھ، انار، زیتون اور انجیر وغیرہ۔ ان میں بہت سارے فائدے ہوتے ہیں۔ بعض فائدے تو انسان دریافت کر چکے ہیں اور ممکن ہے بعد میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دریافت ہو جائیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جن کا ذکر قرآن اور حدیث میں ہے، ان غذاؤں میں بے تحاشا فوائد ہیں، انہی میں سے ایک کھجور بھی ہے، واقعی اس کے بہت سارے فائدے ہیں، اس کے کھانے کے اندر بہت زیادہ غذائیت ہے، اس کے اندر معدنی عناصر (minerals) ہیں اس کے علاوہ مزید کئی ایسی چیزیں ہیں جو انسان کے جسم کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں۔

ہم لوگ Test based calculation کرتے ہیں۔ مثلاً خالص پانی میں جو کچھ ہے وہ شربت میں نہیں ہے اور شربت چینی کا ہو تو مصیبت ہے، اس کے مقابلے میں گڑ کا شربت نسبتاً بہتر ہے۔ سرخ شربت آج کل بہت پسند کیا جاتا ہے، جیسے روح افزا اور جام شیریں، یہ تو زہر ہے، آپ لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے۔

میں نے ایک دن ڈاکٹر سلمان صاحب سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب جب میں یہ سرخ شربت پیتا ہوں، میرے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔ وہ ہنس کے کہنے لگے: آپ کا پیٹ کتنا سچا ہے! میں نے کہا: کیوں؟ کہتے ہیں کہ اس کے اندر جو preservatives (فیکٹری میں تیار ہونے والی خوراک کو دیر تک محفوظ رکھنے کیلئے ڈالے گئے کیمیکلز) ہیں وہ قابل قبول سطح سے بیس گنا زیادہ ہیں، بہت سے لوگوں کو اس کا پتا فوری طور پر نہیں چلتا، جس سے ان کو نقصان ہو جاتا ہے، ان کا اثر جلدی ظاہر نہیں ہوتا مگر آپ کا پیٹ اس کو فوراً ظاہر کر دیتا ہے، اس لئے میں کہتا ہوں آپ کا پیٹ بہت سچا ہے کہ اس نے اس شربت کی شرارت جلدی بتا دی۔

یہ شربت وغیرہ اس قسم کی چیزیں ہیں۔ اگر مزید نقصان چاہتے ہو، خوشنما زہر پینا چاہتے ہو، تو پیپسی کولا اور کوکا کولا بھی پی سکتے ہو۔ اب تو نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ مسلمان تو در کنار، غیر مسلم بھی ان مشروبات کے نقصانات پر بہت زور دینے لگے ہیں۔ آپ اندازہ کر لیں کہ یہ اتنی کڑوی چیز ہے کہ اسے میٹھا بنانے کے لئے ایک گلاس میں 7 چمچ چینی ڈالنی پڑتی ہے۔ اگر آپ ایک بوتل پی لیں تو آپ کی پورے دن کی کیلوریز اسی ایک گلاس سے پوری ہو جائیں آپ کو مزید کیلوریز کی ضرورت نہیں، اب مزید آپ جتنی کیلوریز لیں گے وہ آپ کے اوپر بوجھ ہے۔ غور کریں کہ ان لوگوں نے کیسے تحقیق کی ہے اور کیسی چیزیں بنائی ہیں، پھر ان کا اتنا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ لوگوں کے شعور میں ان کو اس طرح داخل کیا ہے کہ ان کی کوئی چیز اس کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ہمیں ذرا خیال رکھنا چاہیے اور اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔

مکتوب نمبر 4 (جو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شیخ کو لکھا ہے) میں فرماتے ہیں:

متن:

عریضہ: آنجناب کا کمترین خادم گذارش کرتا ہے کہ مدت سے حضور کا کوئی گرامی نامہ صادر نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس بلند بارگاہ کے خادموں کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی، ہر وقت انتظار ہے۔ ماہِ مبارک رمضان شریف کا آنا مبارک ہو، اس مبارک مہینے کو قرآن مجید کے ساتھ جو کہ تمام ذاتی و شیونی کمالات کا جامع ہے

تشریح:

ذات، شیونات، صفات، اسماء اور افعال۔ حضرت درجہ بدرجہ بات کر رہے ہیں۔ اللہ جل شانہ کی ذات بنیاد اور اصل ہے، شیونات ذات کے ساتھ متعلق ہیں، صفات اللہ تعالیٰ کی ذات پہ زائد ہیں لیکن وہ شیونات سے ہی نکلی ہوئی ہیں اور شیونات پہ منحصر اور مرتفع ہیں، پھر صفات پر اسماء مرتفع ہیں۔ مثلاً سچ صفت ہے تو سچا، سچ بولنے والا اسمِ صفت ہے، قوت ایک صفت ہے تو قوی(قوت والا) اسمِ صفت ہے۔ اسماء صفات پر مرتفع ہیں اور پھر افعال اسماء پر مرتفع ہیں، مثلاً سچے آدمی کا فعل سچ بولنا ہے، قوی کا فعل قوت کا استعمال کرنا ہے۔

متن:

اس مبارک مہینے کو قرآن مجید کے ساتھ جو کہ تمام ذاتی وشیونی کمالات کا جامع ہے اور اس دائرہ اصل میں داخل ہے جس میں کسی ظلیت و فرعیت کو دخل نہیں ہے۔ اور قابلیتِ اولی یعنی حقیقتِ محمدیہ (ﷺ) اس کا ظِلّ ہے۔

تشریح:

یعنی اس کلام کا ظِلّ ہے۔

متن:

جس کو کامل مناسبت حاصل ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید کا نزول اسی ماہ مبارک میں واقع ہوا ہے۔ آیۂ کریمہ ﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرة: 185) (رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا) میں اسی بات کا بیان ہے، اور اسی مناسبت کی وجہ سے یہ مہینہ بھی تمام بھلائیوں اور برکتوں کا جامع ہے، جو برکت اور بھلائی تمام سال میں جس کسی شخص کو اور جس راستہ سے بھی پہنچتی ہے وہ اس عظیم الشان ماہ مبارک کی برکتوں کے بے پایاں سمندر کا ایک قطرہ ہے، اور اس ماہ مبارک میں دل جمعی کا حاصل ہونا تمام سال کی جمعیت حاصل ہونے کا سبب ہے اور اس ماہ مبارک کا تفرقہ (انتشار و پراگندگی) تمام سال کے تفرقہ کا سبب ہے۔ پس اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس پر مہینہ اس حالت میں گزر گیا کہ وہ اس سے راضی و خوش ہوا اور اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جس پر یہ مہینہ ناراض ہوا اور وہ شخص اس ماہ مبارک کی خیرات و برکات سے محروم رہا۔ اور ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کا ختم کرنا اس ماہ مبارک میں اسی لئے سنت ہوا ہو تاکہ تمام اصلی کمالات اور ظلی برکات حاصل ہو جائیں۔ پس جس نے ان دونوں (یعنی کمالاتِ اصلی و برکاتِ ظلی) کو جمع کیا امید ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کی برکتوں اور نیکیوں سے محروم نہیں رہے گا۔ جو برکتیں اس ماہ مبارک کے دنوں سے وابستہ ہیں وہ اور ہیں، جو برکتیں اس ماہ مبارک کی راتوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ اور ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ روزہ کے افطار میں جلدی کرنا اور سحری کھانے میں تاخیر کرنا افضل و اولی ہونے کا حکم اسی حکمت کی وجہ سے ہوا، تاکہ دونوں وقتوں کے اجزاء کے درمیان پوری طرح امتیاز حاصل ہو جائے۔

تشریح:

یعنی آپ کو رات کی برکتیں بھی پوری پوری حاصل ہو جائیں اور دن کی برکتیں بھی۔

آج کل کی ریسرچ کے مطابق انسان کا جسم بہت سارے منرلز کا جامع ہے، وہ معدنی عناصر (minerals) انسان کے جسم کے اندر ایک خاص مقدار میں ہونے چاہئیں جیسے میگنیشئم ہے، کیلشئم ہے، میگنیز اور آئرن وغیرہ ہیں، انسانی جسم میں ان سب کی ایک خاص مقدار ہونی چاہیے، اگر یہ اس سے زیادہ ہو جائیں تو نقصان ہوتا ہے اور کم ہو جائیں تو بھی نقصان ہوتا ہے۔

دن کی برکت کو آپ ایک عنصر سمجھ لیں اور رات کی برکت کو دوسرا عنصر سمجھ لیں۔ رمضان شریف میں اگر آپ نے روزہ کھولنے میں تاخیر کی تو آپ نے گویا رات میں دن کو داخل کر لیا، اس طرح دن کا حصہ بڑھ گیا اور رات کا کم ہو گیا، رات کا جتنا ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا اور دن کا جتنا ہونا چاہیے تھا وہ بھی نہیں ہوا، کیونکہ دن کا حصہ کچھ بڑھ گیا اور رات کا کچھ کم ہو گیا، ایک میں کمی رہ گئی دوسرے میں زیادتی ہو گئی۔ بعینہٖ اگر آپ نے سحری کے وقت بہت جلدی سحری ختم کر لی تو رات کا حصہ کم کر لیا اور دن کا بڑھا دیا، گویا آپ نے توازن قائم نہیں رکھا لہٰذا آپ نے پورا پورا نہیں کمایا۔

متن:

اور ہو سکتا ہے کہ روزہ کے افطار میں جلدی کرنا اور سحری کھانے میں تاخیر کرنا افضل و اولی ہونے کا حکم اسی حکمت کی وجہ سے ہوا، تاکہ دونوں وقتوں کے اجزاء کے درمیان پوری طرح امتیاز حاصل ہو جائے۔

تشریح:

یعنی رات اور دن کے دونوں حصے مطلق اعتدال کے ساتھ پورے ہو جائیں۔

مکتوب نمبر 17 دفتر سوم میں فرمایا کہ:

متن:

کیونکہ وہ فرض کی ادائیگی ہے اور یہ نفل کو بجا لانا ہے اور ادائے نفل کی نسبت کا فرض کی ادائیگی کے مقابلہ میں کوئی شمار و اعتبار نہیں ہے۔ کاش کہ اس کو دریائے محیط کے مقابلے میں ایک قطرہ کی نسبت ہوتی۔ یہ شیطان ملعون کی رنگینی ہے کہ لوگوں کو فرائض سے باز رکھ کر نوافل کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور زکوٰۃ سے باز رکھتا ہے۔  اور رمضان المبارک کے روزے بھی واجباتِ اسلام اور ضروریاتِ دین میں سے ہیں ان کی ادائیگی کا بھی اہتمام کرنا چاہیے اور شرعی عذر کے بغیر روزہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ ”روزہ دوزخ کی آگ سے ڈھال ہے‘‘ اور اگر ضروری موانع کی وجہ سے جیسے مرض وغیرہ میں روزہ قضا ہو جائے تو بلا توقف اس کو ادا کرنا چاہیے اور سستی کاہلی کی وجہ سے نہ چھوڑنا چاہیے۔ انسان (اپنے مولیٰ کا) بندہ و غلام ہے خود مختار نہیں ہے۔ اس کو اپنے مولا حق جل و علا کے اوامر و نواہی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے بغیر چارہ نہیں ہے تاکہ نجات کی امید متصور ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ سرکش بندہ ہے اور اس کی سزا مختلف قسم کے عذاب ہیں۔

تشریح:

رمضان شریف کے روزوں کی بات پوری ہو گئی اب زکوۃ کی بات ہو گی۔ حضرت مکتوب نمبر 73 دفتر اول میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اور مال کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی ارکانِ اسلام میں سے ہے اس کو بھی ضرور ادا کرے۔ اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال سے جس قدر فقراء کا حق (زکوٰۃ) ہے ہر سال کے حساب سے علیحدہ کر دے اور زکوٰۃ کی نیت سے محفوظ رکھتے ہوئے تمام سال میں زکوۃ کے مصارف میں خرچ کرتا رہے۔ اس طریقے سے ہر مرتبہ دیتے وقت زکوۃ ادا کرنے کی نئی نیت کرنا ضروری نہیں ہے صرف زکوۃ کا حصہ علیحدہ کرتے وقت ایک دفعہ کی نیت ہی کافی ہے معلوم ہے (یعنی آپ کو اندازہ ہو گا) کہ پورے سال میں فقراء و مستحقین پر کس قدر خرچ کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ زکوٰۃ کی نیت سے نہیں ہے اس لئے وہ زکوٰۃ کے حساب میں شمار نہیں ہو گا اور مذکورہ بالا صورت میں زکوٰۃ بھی ادا ہو جاتی ہے اور بے اندازہ خرچ سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے اور اگر بالفرض سال میں اس قدر (بقدر حصہ زکوٰۃ) فقراء پر خرچ نہ ہو سکے اور کچھ باقی بچ جائے تو اس کو اسی طرح اپنے مال سے علیحدہ محفوظ رکھیں (اور آئندہ سال خرچ کریں) ہر سال اسی طرح عمل کرتے رہیں، جب فقراء کا مال جدا ہو جاتا ہے تو اگر آج اس کے ادا کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی تو شاید کل توفیق ہو جائے۔

اے فرزند! چونکہ نفس بالذات (فطرۃً) بہت بخیل ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے میں سرکش واقع ہوا ہے اس لئے ناچار مبالغہ سے بات کہی جاتی ہے ورنہ فی الحقیقت اموال و املاک سب اللہ تعالیٰ کی ہیں، انسان کی کیا مجال ہے کہ اس (کی ادائیگی) میں دیر کرے۔

تشریح:

بعض لوگ بات کو بہت اچھی طرح سمجھا دیتے ہیں، ایک صاحب نے بہت اچھا تجزیہ کیا تھا۔ فرمایا: آپ کیلے خریدتے ہیں، انہیں کھانے سے پہلے اس کا چھلکا اتارتے ہیں، بعد میں اسے پھینکتے ہیں تو آپ کو اس کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی، حالانکہ وہ کیلوں کی قیمت میں ہی آئے ہیں پھر بھی انہیں پھینکتے ہوئے آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، اسی طرح اخروٹ سے گری نکالتے ہیں اور چھلکے پھینکتے ہیں، مالٹے سنگترے وغیرہ کا پھل کھا لیتے ہیں اور چھلکے پھینک دیتے ہیں، آپ کو اس کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ آپ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ یہ میرے نہیں ہیں، یہ میرے پیٹ میں نہیں جا سکتے، اگر جائیں گے تو نقصان کا باعث ہوں گے۔ اسی طرح زکوۃ کی مثال ہے اس کے ڈھائی فیصد کو ذہن میں ایسا ہی سمجھو کہ یہ میرے لئے نہیں ہے، یہ میرے پیٹ میں جائے گا تو نقصان ہو گا، کوئی مصیبت کھڑی کرے گا۔ اس وجہ سے اس کے بارے میں یہ ذہن بنا لو کہ یہ مال میرا ہے ہی نہیں، اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھو ہی نہیں، پھر آپ کو پریشانی نہیں ہو گی اور ادا کرنے میں مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ نے اپنے آپ کو ایک دفعہ بھی اس کا مالک سمجھ لیا، پھر اس کو دل سے جدا کرنا بڑا مشکل کام ہے، کیونکہ جیسے حضرت نے فرمایا، نفس فطرتاً بخیل واقع ہوا ہے۔

کہتے ہیں، ایک دفعہ ایسے ہوا، ایک صاحب راستہ پہ جا رہے تھے، ان کو ایک شخص روتے ہوئے ملے۔ پوچھا: بھئی کیوں رو رہے ہو؟ کہتا ہے: میرا ایک ٹکا گم ہو گیا ہے۔ ان وقتوں میں ٹکا ہوا کرتا تھا۔ اس نے جیب سے ایک ٹکا نکالا اور کہا جاؤ، اب مت روؤ۔ ایک ٹکا اسے دے کر چلا گیا۔ جب واپس آ رہا تھا تو دیکھا وہ آدمی پھر رو رہا ہے۔ اس نے کہا: بھئی اب کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا: اگر پہلا ٹکا گم نہ ہوا ہوتا تو اب میرے پاس دو ٹکے ہوتے۔

اس کے رونے کی وجہ یہی تھی کہ اس نے اس ٹکے کو اپنے مال میں شامل کر لیا تھا۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عجیب بات فرمائی۔ فرمایا کہ لوگوں کو اگر اچانک کوئی اضافی آمدنی ہو جائے، مال مل جائے تو اس پر شکر کرتے ہیں، لیکن ان کو ہر مہینہ جو تنخواہ ملتی ہے اس پر شکر نہیں کرتے، حالانکہ وہ زیادہ فائدہ مند چیز ہے، اس کے لئے باقاعدہ مینیجمنٹ کر سکتے ہیں، جب کہ اضافی آمدن کے لئے مینجمنٹ نہیں کر سکتے۔

بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اگر اضافی پیسے مل جائیں تو ان کو بھی اپنے مال میں شامل کرتے ہیں، پھر انہیں جدا کرنا ان کے لئے بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ اگر اضافی مال ملا ہے تو تم بھی آگے بڑھ کے کچھ اضافی خرچ کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔

بعض لوگ بڑے ہوشیار ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک پڑوسی تھے۔ ان کا crush مشینیں بنانے کا کارخانہ تھا۔ یہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ ایک ایسا وقت آیا کہ کاروبار میں مندا ہو گیا، کام نہیں چل رہا تھا، کوئی سیاسی وجہ تھی۔ اس نے کہا: مجھے روزانہ تقریباً دس لاکھ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ کیسے برداشت کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں: کمایا بھی تو اسی سے ہے۔ یہ مثبت سوچ ہے۔ جس کے ذہن میں یہ بات ہے کہ میں نے اسی سے کمایا ہے، اب جا رہا ہے تو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں، تجارت ہوتی ہی یہ ہے کہ کبھی جاتا ہے، کبھی آتا ہے۔ تبھی تو تجارت ہے ورنہ تو یہ سود ہو گا۔ بعض لوگوں کی مثبت سوچ ہوتی ہے، ایسے لوگوں کو پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ نفسیاتی باتیں ہیں۔

کہتے ہیں کہ ایک آدمی بڑی پریشانی میں تھا، اس سے پوچھا گیا: کیا بات ہے، مسئلہ کیا ہے؟ کہنے لگا: یار آج ہمارا سیٹ نا مکمل ہو گیا، بچے نے اس میں سے ایک پیالہ توڑ دیا ہے۔ عورتوں کو ایسی چیزوں کا بڑا خیال ہوتا ہے، لیکن بعض مرد بھی عورتوں کی طرح ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک واقعہ ہوا، کچھ دنوں کے بعد ایک اور واقعہ ہوا، ایک آدمی ذرا ذرا سی بات پہ ہنس پڑتا تھا جیسے کوئی بہت خوشی کی بات ہوئی ہے اور وہ اس پر بڑے ہشاش بشاش موڈ میں ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ وہ کہتا ہے: یار آج میرے بچے سے چائے دانی گری ہے اور دو ٹکڑے ہو گئی ہے۔

اس نے اس بات کا لطف لیا۔ دیکھیں بات ایک ہی ہے لیکن ایک اس سے پریشانی میں جا رہا ہے، دوسرا اس سے لطف لے رہا ہے، واقعتاً اس میں لطف لینے کی ہی بات ہے۔

محسن احسان صاحب ہمارے انگریزی کے استاد تھے، انہوں نے ایک شعر کہا تھا:

خدا کا شکر ہے محسن کہ اب میرا بیٹا

قدم ملا کے میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا

وہ اپنے بیٹے کے بڑے ہونے پر خوش تھے۔ کیونکہ اگر بچہ کوئی چیز توڑ لیتا ہے تو آخر وہ اتنا قابل ہو گیا ہے کہ کوئی چیز توڑ سکتا ہے، اس میں بھی ایک خوشی کا پہلو ہے۔ جو لوگ اس چیز سے مالا مال ہوتے ہیں وہ اس سے لطف بھی لیتے ہیں۔

بعض لوگوں کو زکوۃ دینے میں بخل ہوتا ہے۔ اس بات کو اس انداز میں سمجھا جائے کہ اگر مجھے کوئی چالیس ہزار روپے دے دے اور کہہ دے کہ سال میں مجھے صرف ایک ہزار روپے دے دیا کرو۔ باقی تم رکھو تو میں اس کا کتنا شکریہ ادا کروں گا، میں کہوں گا، کمال ہے، پیسہ سارا اس کا ہے اور مجھے کہتا ہے صرف ایک ہزار روپیہ مجھے دے دیا کرو، باقی تم رکھا کرو۔

اسی طرح یہ مال اللہ پاک نے ہمیں دیا ہوا ہے اس میں صرف چالیسواں حصہ مانگتا ہے اور چالیسواں مانگنا بھی ہمارے لئے ہے، ہمارے لئے ہی وہ جمع ہو جاتا ہے جیسے حکومت بھی ہمارے لئے جی پی فنڈ کی شکل میں جمع کرتی ہے، ہم سے لیتی ہے اور پھر ہمیں ہی دے دیتی ہے۔ اسی طرح اللہ پاک اس کو ہمارے لئے جمع فرماتے ہیں۔ اگر ہم اس معنی میں لیں تو پھر کبھی بھی زکوۃ دینے میں بخل نہیں ہو گا اور ہم خوشی خوشی زکوۃ دیں گے۔ ان شاء اللہ۔

متن:

اور اسی طرح باقی تمام عبادات میں اپنے آپ کو کسی وجہ سے بھی معاف نہ رکھے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے میں پوری طرح کوشش کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کا حق اپنے ذمہ نہ رہ جائے، اس جگہ (دنیا میں) اس حق کا ادا کرنا آسان ہے نرمی اور خوشامد سے بھی دوسرے کا حق رفع ہو سکتا ہے، آخرت میں مشکل ہے اس کا کوئی حل نہ ہو گا۔ شرعی احکام علمائے آخرت سے دریافت کرنے چاہئیں، ان کی بات میں بڑی تاثیر ہے شاید ان کے انفاس کی برکت سے اس پر عمل کی توفیق بھی حاصل ہو جائے، اور علمائے دنیا سے جنھوں نے علم کو مال و جاہ کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے دُور رہنا چاہیے لیکن اگر متقی پرہیزگار عالم نہ ملے تو مجبوراً بقدر ضرورت ان کی طرف رجوع کیا جائے۔

تشریح:

دنیا دار علماء کی بجائے دین دار علماء سے بات کی جائے کیونکہ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ ان کی گفتگو کے اثر سے آپ کو عمل کی توفیق ہو گی۔

؏ گفتۂ اُو گفتۂ اللہ بُود

گرچہ از حلقومِ عبد اللہ بُود

”اس کی بات اللہ کی بات ہوتی ہے، اگرچہ وہ اللہ کے بندے کی زبان سے ادا ہوتی ہے“۔

لیکن اگر دین دار علماء میسر نہیں ہیں تو آپ کسی عالم سے بھی معلوم کر سکتے ہیں کیونکہ مسئلہ جاننا ضروری ہے۔

مکتوب نمبر 123 میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

متن:

اس بیان میں کہ نفل کا ادا کرنا اگرچہ حج ہی کیوں نہ ہو اگر وہ کسی فرض کے فوت ہونے کا سبب بنتا ہو تو وہ بھی لایعنی میں داخل ہے۔ میرے نیک بخت بھائی لَا زَالَ کَإِسْمِہٖ طَاھِرًا عَنْ دَنَسِ التَّعَلُّقَاتِ (اپنے نام کی طرح ہمیشہ غیر اللہ کے تعلقات کی آلودگی سے طاہر و پاک رہیں) کا مکتوب شریف موصول ہوا۔ اے بھائی! حدیث شریف میں وارد ہے: عَلَامَۃُ اِعْرَاضِہٖ تَعَالیٰ عَنِ الْعَبْدِ اِشْتِغَالُہٗ بِمَا لَا یَعْنِیْہٖ (بندہ کا لایعنی (بیکار) باتوں میں مشغول ہونا بندہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی رو گردانی کی ایک علامت ہے)۔

تشریح:

یعنی اللہ پاک نے اسے چھوڑ دیا ہے اور اس کو ڈھیل دے دی ہے۔

متن:

فرائض میں سے کسی ایک فرض کو چھوڑ کر نوافل میں سے کسی نفل عبادت میں مشغول ہونا لا یعنی (بیکار باتوں) میں داخل ہے۔ پس اپنے احوال کی تفتیش کرنا (جائزہ لینا) ضروری ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ کس چیز میں مشغول ہے، آیا نفل میں یا فرض میں، ایک نفلی حج کی خاطر اتنے ممنوعات کا مرتکب ہونا اچھا نہیں ہے آپ خود ملاحظہ فرما لیں۔ اَلْعَاقِلُ تَکْفِیْہِ الْاِشَارَۃُ (عقلمند کے لئے ایک اشارہ کافی ہے) وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلیٰ رُفَقَائِکُمْ (آپ پر اور آپ کے احباب پر سلام ہو)۔

تشریح:

اگر کوئی آدمی زیادہ حج کر لے تو بعض اوقات ایک بات بن جاتی ہے کہ فلاں نے اتنے حج کئے ہوئے ہیں، حضرت نے اس چیز سے بچانے کی کوشش فرمائی ہے کہ ایسی چیزوں کے پیچھے نہ پڑو، آپ کے ذمہ جو فرائض لازم ہیں انہیں پورا کرو۔

اگر آپ فرض حج کر چکے ہیں تو نفلی حج کرنا ایک debatable (بحث طلب) بات ہے۔ اس لئے نفلی حج ایک ایسا معاملہ ہے جس کا حکم مختلف لوگوں کے لحاظ سے مختلف ہے، اس کا ہر ایک کے لئے ایک حکم نہیں ہے۔

مجھ سے بہت سارے لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ ہر سال حج پہ کیوں جاتے ہیں، بلکہ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں خدا کے بندو میرا حج تو نفلی ہوا، لیکن اگر میرے نفلی حج کے ذریعہ سے بعض لوگوں کے فرض حج ہو جائیں، یا ان کے بقول ان کے فرض اچھے ادا ہو جائیں، میں خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا۔ لیکن بقول ان کے وہ استحضار میں ہوتے ہیں کہ ہمارا حج اچھا ہو جاتا ہے۔ میرے نفلی حج کا یہ بھی ایک فائدہ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پورے عالمی نظام میں جو نیک لوگ کام کرتے ہیں، ہمارا حج کرنا ان کے ساتھ ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتا ہے، ہم کسی اور طریقہ سے اس طرح آسانی سے سب کے ساتھ نہیں مل سکتے لیکن وہ چونکہ ایک عالمی مقام ہے، وہاں سب دین کے مقصد کے لئے آتے ہیں، لہٰذا جن جن سے ملاقات کرنی ہو، ان سے ملاقات ہو جاتی ہے۔

میں اس کے لئے بطور دلیل امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا عمل پیش کرتا ہوں۔ امام صاحب نے 52 حج کئے تھے، اور ان دنوں حج آسان نہیں تھا، اب تو آپ جہاز میں بیٹھ جائیں، چار پانچ گھنٹوں میں جدہ پہنچ جائیں گے، تب گھوڑوں پہ جانا ہوتا تھا، اونٹوں پہ جانا ہوتا تھا، اگر مہینوں کا نہیں تو دنوں کا سفر ضرور ہوتا تھا۔ کوفہ سے جانا ہوتا تھا۔ میں آپ کے پاس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بڑا فقیہ تو نہیں لا سکتا۔ اگر ان کا عمل یہ بتا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے اس کے اندر کچھ بات ہے، تبھی انہوں نے بھی اتنے حج کئے۔

اس وجہ سے یہ debateable (بحث طلب) بات ہے اور ہر آدمی کے لحاظ سے اس کا حکم الگ ہے، بعض لوگوں کے لئے یہ ٹھیک نہیں ہے، بعض لوگوں کے لئے ٹھیک ہے، بعض لوگوں کے لئے اچھا ہے، بعض لوگوں کے لئے ممنوع ہے، بعض لوگوں کے لئے مکروہ ہے اور بعض لوگوں کے لئے فرضوں کا قائم کرنے والا ہے۔ ہر ایک کے لئے اس کا حکم جدا جدا بنے گا۔

متن:

میرے بھائی خواجہ محمد طاہر بدخشی کا مکتوب شریف موصول ہوا لِلّٰہٖ سُبْحَانَہُ اَلْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ، ایک عرصہ کی جدائی کے با وجود فقراء کے اخلاص و محبت کے نشان والے! جب آپ نے رخصت طلب کی تھی اور حج پر جانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا تو الوداع ہونے کے وقت احتمال کے ساتھ اتنا ذکر ہوا تھا کہ شاید ہم بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ مل جائیں (شاید ماہم بشما دریں سفر ملحق شویم)۔ ہر چند ارادہ کیا لیکن استخارے موافق نہیں آئے اور اس بارے میں کوئی تجویز سمجھ میں نہیں آئی مجبوراً توقف کیا۔ فقیر کی مرضی ابتداء ہی سے آپ کے (سفرِ حج پر) جانے کے بارے میں نہ تھی لیکن آپ کے شوق کو دیکھ کر صاف طور پر منع نہ کیا تھا۔ استطاعت راستہ کی شرط ہے، بغیر استطاعت کے تضییعِ اوقات ہے۔ ضروری کام چھوڑ کر غیر ضروری کام اختیار کرنا مناسب نہیں۔ اس مضمون کے کئی مکتوب آپ کو لکھے جا چکے ہیں۔

تشریح:

یہ اُس دور کی بات ہے، اس دور میں ہندوستان سے باہر جانا محفوظ نہیں تھا، راستے کے مسائل تھے، اب بھی اگر جہاز والا سفر ختم ہو جائے تو بہت مشکل ہو جائے۔ اگر جہاز والا سفر نہ رہے تو ایران سے گزرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اسی طرح راستے کے اور بہت سارے مسائل ہیں۔ میرے خیال میں شاید ایک دو دفعہ ایسا ہوا ہے کہ لوگ اس طرح گئے ہیں، ان کو بڑی پریشانی ہوئی ہے جو گاڑیوں سے گئے تھے۔ جب کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں تو اور بھی زیادہ مسائل تھے، اس لئے اس وقت حج کا سفر ہندوستان والوں کے لئے بہت مشکل تھا۔

مشکل تو ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ حالات کچھ بدل جاتے ہیں تو آسان بھی ہو جاتا ہے، لیکن لوگ پھر اُسی پہ چلتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہی حالات ہیں۔ اس چیز کو ختم کرنے کے لئے ایک مجدد حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے کام کیا تھا، انہوں نے با قاعدہ قافلہ کے طور پر حج کیا تھا۔ حضرت نے دو سنتیں زندہ کی تھیں جنہیں اس وقت کے لوگ چھوڑ چکے تھے، ایک یہ کہ ہندوستان والوں کے لئے حج کو زندہ کیا تھا اور ایک عملی طور پر جہاد کو زندہ کیا۔ حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ عملی لحاظ سے مجدد تھے، اگرچہ انہوں نے علم حاصل نہیں کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ کام لے لیا۔

مکتوب نمبر 250 میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

متن:

نیز آپ نے دریافت کیا تھا کہ آیا زادِ راہ اور سواری ہونے کے باوجود اس پُرفتن زمانے میں مکہ مکرمہ کا سفر فرض ہے یا نہیں۔ میرے مخدوم! اس بارے میں فقہ کی روایات میں بہت اختلاف ہے اور فقیہ ابو اللّیث کا فتویٰ اس مسئلہ میں مختار ہے، انہوں نے کہا ہے کہ’’اگر راستہ میں امن اور عدمِ ہلاکت کا گمان غالب ہے تو اس سفر کی فرضیت ثابت ہے ورنہ نہیں‘‘۔ لیکن وجوبِ ادا کی شرط ہے نفسِ وجوب کی شرط نہیں، یہی صحیح ہے لہٰذا ایسی صورت میں حج کی وصیت واجب ہو گی۔

تشریح:

یعنی اس بات کی وصیت کر دی جائے کہ اگر حالات بہتر ہو جائیں تو میری طرف سے حج کیا جائے۔

متن:

چونکہ وقت نے موافقت نہیں کی اس لئے آپ کے دوسرے سوالات کو کسی دوسرے مکتوب پر موقوف کر دیا۔ والسلام

تشریح:

حضرت نے اعمال میں فرائض، نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کے بارے میں اپنے مکتوبات شریف میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ لیکن اس میں یہ اہم بات ہے کہ چونکہ یہ فقہی باتیں ہیں اور فقہی باتیں ہمیشہ حالات پر منحصر ہوتی ہیں، ایسے مسائل میں وقتی مجدد کا فیصلہ بہت اہم ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ کی باتیں تو اس میں آ گئیں، لیکن آج کے دور کا مجدد جب اس کے بارے میں بات کرے گا تو وہ آج کے لحاظ سے بتائے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان اعمال پہ بات کی ہے۔ حضرت نے ماشاء اللہ مواعظ کا ایک سلسلہ اس کے لئے مختص کیا تھا، اس کو روح کہتے تھے۔ روح الصلوۃ، روح الصیام، روح الزکوۃ، روح الحج پھر روح الارواح۔ یہ سب مواعظ میں نے زمانۂ طالب علمی میں پڑھے تھے۔ الحمد للہ!

ہمارے لئے آج کل کے دور کے لحاظ سے ان کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ