حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا زہد اور عشق
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
متن:
إِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللہُ وَ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہِ" ”جب فقر درجۂ کمال کو پہنچ جاتا ہے، تو یہی خدا کا مقام ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق اختیار کرو“ عاشق کا اس سے بلند تر مقام اور کوئی نہیں۔ یا اللہ کریم! ہمارا یہی مقصود ہمیں نصیب فرما۔
اے عزیز بھائی! حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص (بہترین قصہ) کہا گیا ہے، اس کا سبب بس یہی ہے کہ ﴿وَ یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی نشانی اپنے میں رکھتا ہے۔ اے بھائی! ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی خبر تجھے اُس وقت ہو جائے گی کہ تجھے اس آیت مبارک کے معنیٰ نظر میں جلوہ افروزی کریں: ﴿وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمہُ اللہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِيَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ۔۔۔﴾ (الشوری: 51)۔
ترجمہ: ”اور یہ کسی بشر کا مرتبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی سے کلام کرے، مگر ہاں یا تو وحی سے یا کسی آڑ پردے سے یا کسی قاصد فرشتے کو بھیج دے، سو وہ وحی پہنچائے اللہ کے حکم سے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے“
اور لفظ طٰہٰ میں سب کچھ تو مشاہدہ کرے گا اور سمجھ جائے گا کہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کیا ہے۔ کیونکہ اے بھائی! شہد، شہد کہنا، یا گڑ، شکر وظیفہ کرنا اور بات ہے اور اس کا دیکھنا دوسری بات ہے اور چکھنا دوسری بات ہے۔ یعنی لیلیٰ ہونا دوسری بات ہے اور لیلیٰ کا نام جپنا دوسری بات ہے اور جب مجنون خود عالَم استغراق میں ہو تو وہ خود کو لیلیٰ دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میں لیلیٰ ہوں اور لیلیٰ مجھ میں ہے۔ بیت:
عشق و عاشق محو گردد زیں مقام
چوں ہماں معشوق ماند والسلام
”اس مقام میں عشق اور عاشق سب محو ہو جاتے ہیں اور معشوق رہ جاتا ہے“
اور بس اے بھائی! ﴿یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کے خلوت خانے میں یہ سب ہم سر برابر اور ہم مشاہدہ ہیں۔ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) ایک دوسرے کے سودا میں نہیں ہوتے بلکہ ہم سر و ہم مشاہدہ ہوتے، اور کہتے ہیں کہ "لَا یَطَّلِعُ عَلَیْنَا مَلَکٌ مُّقَرَّبٌ وَلَا نَبِيٌّ مُّرْسَلٌ" ”ہماری حالت کی مقرب فرشتے اور پیغمبر تک اطلاع اور آگاہی نہیں ہوتی“۔
ہمارے حضرت صاحب یعنی شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ اخلاق حمیدہ، بلند ہمتی، صداقت، مقامات انفاس اور زبانِ حال کے لحاظ سے "مُوْتُوْ قَبْلَ أَنْ تَمُوْتُوْا" ”موت سے پہلے مر جاؤ“ کے مقامِ عالی تک پہنچے تھے، اور اس مقام کی فرحتوں سے لطف اندوز ہو گئے تھے اور اس کے آثار و اسرار آپ کی روح پر ظاہر ہو گئے تھے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے کہ اس میں خود کو ہلاک کیے بغیر منزل تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ جناب علی محمد عطاء صاحب جو کہ طریقت کے راستے کے عطار تھے، فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے ایک درویش صاحب کو دیکھا جو کہ قسم قسم مصائب و آفات میں مبتلا تھا، جب میں نے اسے اس حال میں دیکھا، تو میرا دل اُس کی حالت پر سوزش کرنے لگا، درویش نے مجھے دیکھ کر مجھے زور سے کہا کہ "یَا مُکَلَّفُ مَا دُخُوْلُکَ فِيْ مَا بَیْنِيْ وَ بَیْنَ رَبِّيْ دَعْہُ یَعْمَلْ مَا یَشَاءُ" ”اے ہوشیار اور مکلف شخص! تمہیں میرے اور میرے رب کے معاملات میں دخل اندازی کی کوئی ضرورت نہیں، یہ بات چھوڑیے، وہ جو چاہے اور جو کچھ اس کی مرضی ہو وہ کرتا رہے“ مجھے یہ کہہ کر اس نے کہنا شروع کیا: "إِلٰھِيْ بِعِزَّتِکَ وَ جَلَالِکَ لَوْ قَطَعْتَنِيْ إِرْبًا أَوْ صَبَبْتَ عَلَيَّ مِنَ الْبَلَاءِ صَبًّا مَا ازْدَدْتُّ لَکَ إِلَّا شَوْقًا وَّ حُبًّا" ”اے میرے رب مجھے آپ کی عزت و جلال کی قسم ہے! اگر آپ مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ توڑ ڈالیں اور میری ہر حاجت منقطع کر ڈالیں، تو ایسے حال میں بھی میری محبت اور میرا شوق بڑھتا جائے گا“
فرماتے ہیں کہ اس کی سلطنت میں آگ کے آداب ہیں یعنی آگ بھی اس کے حکم کے ما تحت ہے۔ وہ معاملہ جو کہ ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان گزر چکا اور جس کا بڑا حصّہ لوگوں کو بتلا دیا، وہ کیا تھا؟ "لِیَعْلَمُوْا أَنَّ کُلَّ مَنْ أَحَبَّہٗ لَا یَضُرُّہٗ شَيْءٌ فِي الدَّارَیْنِ وَ لِیَعْلَمُوْا أَنَّ أَھْلَ الْمَعْرِفَۃِ فِي النَّارِ أَطْیَبُ عَیْشًا وَّ أَحْسَنُ حَالًا وَّ أَشَدُّ سُرُوْرًا مَّعَ اللہِ تَعَالٰی مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ فِي الْجَنَّۃِ" ”وہ صرف یہ بات تھی کہ لوگ جان لیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں، دونوں جہانوں میں کوئی چیز بھی اسے ضرر نہیں پہنچاتی، اور یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اہل معرفت کے لیے آگ میں بہت اعلیٰ قسم کی زندگی ہے، اور بہتر حالت ہوتی ہے اور اہل جنت کو جنت میں جتنی خوشی ہوتی ہے، اہل معرفت کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معیت میں اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے“ سلطان العارفین فرماتے ہیں کہ اگر قیامت کے دن اہل جنت سے ملاقات کا مزہ منقطع کیا جائے تو اہل بہشت بھی ویسی ہی فریاد کریں گے جیسا کہ دوزخ کے لوگ دوزخ میں کرتے ہیں۔
تشریح:
جلدی نہیں مچانی چاہئے:
اصل میں اس کلام کو سمجھنے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ جلدی نہیں مچانی چاہئے۔ حوصلے کا مطلب یہ ہے کہ اگر جلدی مچا لی تو محروم ہو جائیں گے اور نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ بزرگوں کے کلام میں کافی گہرائی ہوتی ہے۔ اس میں کافی غور و خوض کر کے اس سے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ وہ اپنے حال میں مست ہو کر گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ جب تک وہ حال حاصل نہ ہو ان کی بات کو سمجھنا دشوار ہوتا ہے۔ لیکن اگر تحمل کیا جائے تو بات (کی تہہ) تک پہنچنا بعض دفعہ ممکن ہو جاتا ہے نیز بعض دفعہ ان کی بعض باتیں بعد میں آنے والے بزرگوں کے لئے رُموز کی صورت میں ہوتی ہیں جن کو وہی حاصل کر سکتے ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں بھی اس قسم کی باتیں کافی ملتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی پہچان:
اصل میں اللہ تعالیٰ نے پوری کائنات کو پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعے اللہ کو جان لیا جائے اور پہچان لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ“
ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں“۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ”لِیَعْبُدُوْنِ“ کی تفسیر ”لِیَعْرِفُوْنِ“ سے کی ہے۔ (جن و انس کو صرف اپنی معرفت کے لئے پیدا کرنا) یہ مشیتِ الٰہی ہے۔ اس مشیتِ الہٰی کے مطابق مخلوق کے جو افراد اللہ تعالیٰ کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں یعنی معرفتِ الہٰی تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کی جماعت سب سے اچھی جماعت ہے۔ کیونکہ یہ جماعت منشاءِ الہٰی کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اس منشا الہٰی کے مطابق عمل کرنے (عبدیت) میں اور اللہ کی پہچان (معرفت) میں جو چیز رکاوٹ ہے وہ ہمارا نفس اور دل کی گندگی ہے۔ جب تک نفس نفسِ امارہ ہے اور دل میں دنیا کی محبت ہے، اُس وقت تک ہم اللہ تعالیٰ کو نہیں پہچان سکتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کا زور ہے اور دنیا کی محبت کا اثر کافی زیادہ ہوتا ہے جسکی وجہ سے معرفت کے رستے آلودہ ہو جاتے ہیں۔ آنکھ بھی آلودہ، کان بھی آلودہ، دل بھی آلودہ اور ذہن بھی آلودہ ہو جاتا ہے۔ یعنی اُس کی آنکھیں کام نہیں کریں گی، شنوائی متاثر ہو گی، دماغ سوچ نہیں سکے گا، دل صحیح بات اخذ نہیں کرے گا، جیسا کہ قرآن پاک میں اس کے بارے میں فرمایا۔
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِهَا وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِهَا﴾ (الأعراف: 128)
ترجمہ: ’’ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے پاس کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں جن مقاصد کے لیے دی ہیں، وہ مقاصد اس سے پورے نہیں ہوں گے۔ ہمارے نفس کی اس آلودگی اور دل کی گندگی کی وجہ سے ہم لوگ صحیح بات تک نہیں پہنچ سکیں گے۔
اس پر قابو کیسے پائیں اور رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے؟
اللہ تعالی کی پہچان میں جو رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اور کوئی رستہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ یہ کیسے دور ہوں گی۔ اِس کے لیے دو (و) رستے دو ہیں۔ ایک راستہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عشق اور محبت کا ہے جو دنیا کی محبت کا توڑ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا عشق و محبت اتنا بڑھ جائے کہ دل دنیا کی محبت سے پاک ہوجائے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ نفس کو زُہد کے ذریعے قابو کیا جائے۔ لیکن اُس کے کچھ اضافی (مضر) اثرات کو برداشت کرنا پڑے گا۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں طریقوں (زہد اور عشق) کو ملایا ہے۔ کیونکہ نفس کی قوت کو توڑنے کے لیے زہد ہے، جو مجاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق کے ذریعہ دل دنیا کی محبت سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق کے حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں، ان کو اختیار کر کے اللہ کی محبت اور عشق کو حاصل کیا جائے گا۔ ان دونوں چیزوں کا مشترکہ نام فقر ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی اپنی خواہش فنا ہو جائے اور اُس کی بھی وہی خواہش ہو جائے جو اللہ کی خواہش ہے۔
فقر کیا ہے؟
جب تک اپنے نفس کی خواہش زندہ ہے انسان فقیر نہیں ہو سکتا۔ اپنے آپ کو فقیر کہہ تو سکتا ہے مگر حقیقتاً فقیر ہو نہیں سکتا۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: 23)
ترجمہ: ’’میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کر دے، میں اس کا فقیر ہوں‘‘۔
اس دعا میں دونوں چیزیں شامل ہیں، محبت کا جذبہ بھی ہے، اور اپنے نفس پر پیر رکھنا بھی ہے۔ ان دونوں کو جمع کرنے سے فقر حاصل ہوتا ہے۔ جب انسان فقر کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے، تو پھر اخلاقِ حمیدہ کی صفات کو حاصل کر لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بے لوث ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کی حاجت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے ان تمام چیزوں سے آزاد ہیں۔ وہ اپنے ارادے سے کام کرتا ہے۔ اس میں کوئی اور چیز شامل نہیں ہے۔ جب انسان بھی اس کیفیت کو حاصل کر لے کہ اُس کی اپنی خواہش ختم ہو جائے، اور اُس کی خواہش وہ ہو جائے جو اللہ کی خواہش ہے۔ تو بات ایک ہو جائے گی، یہی بات حضرت بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے ہارون الرشید سے کی تھی۔ جب ہارون رشید نے ان سے پوچھا کیا حال ہے؟ کہا: اُس شخص کی کیا بات کرتے ہو جس کی مرضی کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔ ہارون رشید نے کہا کہ خدائی کا دعویٰ کب سے کیا ہے؟ یہاں ہارون رشید نے جلدی مچائی اور اُن کی بات کا وہ مطلب لیا جو اُن کے نزدیک نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو خدائی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا۔ ہارون رشید نے کہا: جو بات آپ نے کی ہے اس کا مطلب یہی ہے کیونکہ صرف اللہ کی مرضی کے مطابق ہی سب کچھ ہو سکتا ہے۔ حضرت بہلول رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا، میں نے اپنی خواہش کو اللہ کی خواہش میں فنا کر دیا ہے۔ اب میری خواہش وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہے لہٰذا سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ ہارون رشید کی سمجھ میں بات آ گئی کہ واقعی یہ صحیح کہہ رہے ہیں۔
اللہ والا بننا:
ایسی صورت میں جو اللہ کے ہوجاتے ہیں، اللہ اُن کے ہو جاتے ہیں۔ ”مَنْ كَانَ لِلّٰہِ كَانَ اللهُ لَهٗ“۔ جس کے نتیجے میں یہ انسان عام انسان نہیں رہتا بلکہ اللہ والا ہو جاتا ہے اور اللہ کا ولی کہلاتا ہے۔ ایک حدیث قدسی میں اللہ پاک فرماتے ہیں:
”مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُهٗ بِالْحَرْبِ“
ترجمہ: ”جس نے میرے ولی کو تکلیف دی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے“۔
ایسے شخص (اللہ کے ولی) کے اندر دو چیزیں ہر وقت پائی جاتی ہیں۔ ایک: اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا سب کچھ پیش کرنا۔ دوسرا: اُس کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مدد کا ہونا۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے ارادے کے مطابق اُس کو جو مقامات نصیب فرما دیتے ہیں اُسی قسم کے حالات بناتے ہیں۔ اُن حالات پر وہ دل سے راضی ہوتا ہے اور اس طریقے سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی اللہ کا محبوب ہوتا ہے لہٰذا اللہ کا محبوب ہونے کی وجہ سے، وہ جو عارضی چیزیں ہیں، اللہ تعالیٰ اگرچہ اُس کو بہت وافر دے سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اُس کے لیے وہ چیزیں پسند کرتا ہے جو اُس کے لیے سب سے زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ دوسری طرف، وہ اللہ کا ولی بھی اُس پر دل سے راضی ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ فلاں کے ساتھ یہ ہورہا ہے میرے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ کیونکہ وہ تمام خواہشات کو ختم کر چکا ہوتا ہے۔ اُس کے پاس کچھ باقی رہتا ہی نہیں۔ لہٰذا وہ عین اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو یہاں فرمائی کہ ”یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ“ یعنی اللہ اُن کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ جانبین ایک دوسرے کے محبوب ہوتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہےکہ اللہ اللہ ہے اور بندہ بندہ ہے۔ لہٰذا اللہ اللہ ہونے کے لحاظ سے وہ ایسا نہیں کر سکتا جیسا کہ انسان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جنس کا اختلاف نہیں ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا فرق ہے۔ لہٰذا محبت کی وجہ سے اُس میں فنائیت پائی جاتی ہے لیکن معرفت کی وجہ سے اُس میں تنزیہہ پائی جاتی ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لہٰذا فنائیت کی وجہ سے وہ اگرچہ اپنا سب کچھ لٹاتا ہے، لیکن معرفت کی وجہ سے اللہ کے سامنے دم نہیں مار سکتا اور نیاز کی کیفیت میں رہتا ہے۔ یہ سب معرفت کی وجہ سے ہے۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود:
یہی وہ چیز ہے جس کو حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شہود کہا ہے۔ وحدتُ الشہود کا مطلب یہ ہے کہ یہ بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتنی محبت کرتا ہے کہ اُس کے لیے اپنی تمام خواہشات کو فنا کر دیتا ہے۔ سب کچھ قربان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کی اپنی مرضی کچھ بھی نہیں رہتی۔ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس پر حکمتوں کو کھول دیتے ہیں جس سے معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ جتنا جتنا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے آپ کو ختم کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کو اپنے ساتھ اتنی اتنی بقا عطا کر دیتے ہیں۔ نتیجہ کے طور پر اس کو اللہ تعالیٰ کی جو معرفت ملتی ہے، اُس معرفت کی وجہ سے اُس کو تنزیہہ حا صل ہوتی ہے۔
معرفت کا مطلب کیا ہے؟
اس کو جاننے کے لئے یہ سمجھا جائے کہ مخلوق مخلوق ہے اور اللہ اللہ ہے۔ دونوں ایک نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ ایک جنس کا دوسری جنس کے ساتھ رابطہ ہوتا ہے وہ تو یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں پر انسان محبت کے لحاظ سے اپنے رب کے انتہائی قریب بھی ہوتا ہے اور معرفت کے لحاظ سے انتہائی دور بھی ہوتا ہے۔ محبت کے لحاظ سے قریب ہوتا ہے۔ تنزیہہ کے لحاظ سے بہت دور ہوتا ہے۔ یہی وہ وحدتُ الشہود ہے جس کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ گفتگو فرما رہے ہیں۔ وحدتُ الوجود میں محبت غالب ہوتی ہے لیکن معرفت نہیں آئی ہوتی ہے یعنی علم نہیں آیا ہوتا۔ یہ حالت حالتِ سُکر کہلاتی ہے۔ اِس پُل سے گزرنا تو پڑتا ہے۔ لیکن جب سالک گزر جاتا ہے تو پھر اسے ادراک ہوتا ہے کہ میں کون ہوں۔ اُس پر اپنی بندگی کھلتی ہے کہ میں بندہ ہوں اور اللہ، اللہ ہے۔
مقامِ حیرت:
جب اللہ کی صفات سالک پر کھلتی ہیں تو اسے اللہ کی ذات کی محبت حاصل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مقامِ حیرت میں چلا جاتا ہے۔ کیونکہ دُوری اور قرب کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے۔ جتنی دُوری بڑھے گی اور جتنا قرب ملے گا، اتنا ہی مقامِ حیرت بڑھے گا۔ یہی مقامِ حیرت ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اسی کے بارے میں حضرت نے کلام فرمایا ہے۔ اگر ہم یہاں جلدی کرتے تو ہم اس کلام سے کوئی نتیجہ نہ نکال سکتے۔ یہ ساری چیزیں ہیں لیکن اصل میں ہیں۔ ان کا ادراک قلب کرتا ہے۔ ذہن نہیں کر سکتا۔ ذہن محدود ہے۔ قلب لامحدود ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ کُل کائنات میں اللہ تعالیٰ نہیں سماتے لیکن مومن کے دل میں سما جاتے ہیں کیوں کہ یہ آنا اس طرح نہیں ہے جس طرح ہم انسان کسی چیز کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ آ گئی، یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ آنا اور چیز ہے۔ اور وہ آنا تنزیہہ کے ساتھ ہے۔ اس وجہ سے دونوں چیزوں کو اکھٹا کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام کو مقامِ حیرت کہتے ہیں۔
الفاظ اور ہیں اور حقیقت اور:
حضرت نے یہ جو فرمایا ہے کہ شہد، شہد کہنا یا گڑ، گڑ کہنا اور ہے اور ان کا چکھنا اور ہے۔ جب تک کسی کو شکر حاصل ہو نہیں جاتی وہ اس کو کیسے محسوس کرسکتا ہے؟ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کیفیت الفاظ میں نہیں سموئی جا سکتی، اگر کسی نے گڑ کھایا ہے اور شہد بھی کھایا ہے تو اُسے کسی لفظ کے بغیر ہی گڑ اور شہد کے درمیان فرق معلوم ہو جائے گا۔ وہ بعد میں یہ کہہ سکے گا کہ یہ گڑ ہے اور یہ شہد ہے، چاہے اُس کی آنکھیں بند کر دی جائیں۔ اور اگر کسی نے گڑ اور شہد کھایا ہی نہیں تو چاہے اُس پر کتابیں لکھ دیں یا لائبریری بھر دیں کہ گڑ کی یہ صفات ہیں اور شہد کی یہ صفات ہیں، وہ پھر بھی اُس میں فرق نہیں کر سکے گا۔ جب تک یہ کیفیت کسی کو حاصل نہ ہو اس کے لئے الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جن کے اوپر یہ (مقامِ حیرت) کی حالت گزر رہی ہوتی ہے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ مقامِ حیرت کیا چیز ہے۔ جو اُس کی تنزیہہ کی حالت، اور جو اُس کی کیفیت ہے، اور جو محبت کی حالت ہے، محبت کی وجہ سے جو قرب ہے، اور معرفت کی وجہ سے جو دوری ہے، اسے الفاظ میں جمع کرنا ناممکن ہے۔ آپ الفاظ میں اس کو بیان ہی نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس بات کے سمجھ نہ آ سکنے کی وجہ الفاظ کی تنگ دامنی ہے اور کچھ نہیں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں جتنا کہہ سکتا تھا وہ میں نے کہا، لیکن الفاظ کی تنگ دامنی کی وجہ سے میں یہ نہیں کہتا کہ میں نے صحیح کہا ہے۔ پھر استغفار بھی کرتے ہیں۔ یہ استغفار حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے مکتوبات میں کیا ہے۔ یہ کیفیات اس راہ کے راہروؤں پر گزرتی ہیں۔ ان کیفیات کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ میں نے کیفیات کو الفاظ میں بیان کر دیا۔ یہ غلط ہے کیونکہ ایسا کرنا ناممکن ہے۔ البتہ آپ اشاروں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تھوڑا تھوڑا قریب پہنچ سکتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف الفاظ سے اس حالت کو حاصل بھی کر سکتے ہیں۔
”مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا“۔ ”مر جاؤ قبل اس کے کہ تم مر جاؤ“:
اصل میں یہ وہی نفس کو ہلاک کرنے والی بات ہے۔ نفس کو مارنے کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے ذبح کر دو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس پر قابو پا لو۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ تم اللہ کی ایسے عبادت کرو جیسا کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہو۔ اگر اس طرح نہیں کر سکتے تو وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ یہ بھی ایک کیفیت ہے۔ اس کو کیفیتِ احسان کہتے ہیں۔ جس کو یہ حاصل ہے وہ اسے جانتا ہے اور جس کو حاصل نہیں ہے اُس کو سمجھایا نہیں جا سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حضوری کی کیفیت ہے، وہ آپ نے اس کے ذریعے سے حاصل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں مانع چیز نفس ہے۔ اگر کسی نے اُس پر قابو پا لیا تو وہ اس کے اور اللہ کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا۔ یہ ہے اِس کی کیفیت، کہ ”مر جاؤ قبل اس کے کہ تم مر جاؤ۔“
اصلاحِ نفس کی اہمیت:
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب دیکھا تھا۔ خواب میں اللہ پاک کا دیدار ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے اللہ تجھ تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کون سا ہے؟ فرمایا: ”دَعْ نَفْسَكَ وَ تَعَالَ“ (اپنے نفس کو چھوڑ دے اور آ جا)۔
دیکھیں انسان جہاز یا راکٹ میں، فضا میں ہوتا ہے تو جب تک انسان زمین کی کشش سے آزاد نہیں ہو گا، تب تک اسے چلنے کے لیے مسلسل قوت چاہیے ہو گی، لیکن جس وقت وہ زمین کی کشش سے آزاد ہو گیا اور خلا میں پہنچ گیا تو پھر جو چل رہا ہے وہ چلتا رہے گا اور جو کھڑا ہے وہ کھڑا رہے گا۔ مطلب یہ ہے کہ پھر اسے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ اسی طرح اللہ کی محبت آپ کو اللہ کے قریب کر رہی ہے اور نفس اللہ سے دور کر رہا ہے، آپ ان دونوں کے درمیان لگے رہیں گے۔ یہ سلسلہ مسلسل چل رہا ہوتا ہے۔ جس وقت نفس کو ختم کر دو، یعنی نفس کی رکاوٹوں کو ختم کر دو اُس وقت تھوڑی سی روحانیت بھی آپ کو اللہ کی طرف لے جائے گی، کیونکہ سمت تو وہی ہو گی۔ اور جب تک آپ نفس کو ختم نہیں کر سکے، اُس وقت تک یہ مسلسل مانع ہے۔ یہی نفس کی اصلاح کی اصل بنیاد ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ گزشتہ تمام سلاسل سب سے پہلے نفس کے مانع کو ختم کرتے تھے، محنت کرتے تھے اور مجاہدات کے ذریعے سے نفس کو کالعدم کر دیتے تھے۔ جب نفس کالعدم ہو جاتا، پھر تھوڑا سا ذکر کرتے تو واصل ہو جاتے۔ کیونکہ رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں مسئلہ یہ ہوا کہ لوگوں نے اپنے آپ کو نفس کے مجاہدات کے لیے تیار نہیں کیا۔ کیونکہ مجاہدات کے لیے اپنے آپ کو نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے۔ جب تک نفس تیار ہی نہیں تو اصلاح کیسے ہو؟ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کام بہ امرِ مجبوری کیا تھا۔ لوگ مجاہدات کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے تو انہوں نے یہ کیا کہ پہلے جذب حاصل کر لو۔ جذب حاصل کر لو گے تو نفس مجاہدے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ اس لیے انہوں نے جذب کو مقدم کر دیا اور مجاہدے کو بعد میں کر دیا۔ یہ نہیں کہ بالکل مجاہدہ ہی ختم کر دیا بلکہ ترتیب بدل دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک کشش موجود ہے، بے شک آپ کو کتنی ہی روحانیت حاصل ہو، آپ آگے نہیں جا سکتے، آپ کی گاڑی نہیں چلے گی، ہاں شور بہت ہو گا۔ جیسے کھڈے میں کوئی گاڑی پھنس جائے تو آواز تو بہت ہو گی لیکن وہ چل نہیں رہی ہو گی۔ لہٰذا پہلے جذب کا حصول پھر نفس کے خلاف مجاہدہ اور پھر اُس کے بعد سلوک کی منازل کو طے کرنا ہے۔ یہ لازم و ملزوم تھا۔ اگر آپ نفس کے خلاف مجاہدہ نہیں کریں گے یا اس کی تربیت نہیں کریں گے تو وہ آپ کے افکار پر اثر ڈالے گا، آپ کی سوچ پر اثر ڈالے گا۔ اثر ڈالتے ڈالتے یہاں تک ہوا کہ لوگوں کی نظر میں مجاہدے کی اہمیت ختم کر دی۔ اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ سارا زور اللہ پاک کے ذکر اور مراقبات کے ذریعے روحانیت کو حاصل کرنے میں لگا دیا۔
اس (ذکر و مراقبات) میں مزہ بہت ہے۔ اگر انسان صرف مزے کا عاشق ہو جائے تو اصل چیز حاصل نہیں ہو گی۔ تکلیف ہی تو شریعت ہے۔ کیونکہ انسان مکلف ہے۔ کس چیز کا مکلف ہے؟ ”تکلیف“ کا مکلف ہے۔ تکلیف کیا چیزہے؟ تکلیف یہی شریعت ہے۔ اگر آپ اپنے آپ کو تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے آپ کو شریعت سے بچانا چاہتے ہیں۔ اس لیے نفس کی اصلاح کے لیے جو تکلیف مجاہدہ کی صورت میں اٹھانی پڑتی ہے، وہ لازم ہے اُس کے بغیر کوئی حل نہیں۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو پھر بھی تکلیف رہے گی، اور وہ تکلیف مستقل رہے گی۔ وہ ایسے مستقل رہے گی کہ آپ نے روحانیت کی طرف تو چلنا ہی ہے۔ صبح آپ نے نماز کے لیے ہر صورت اُٹھنا ہے چاہے آپ مریں چاہے جئیں۔ کام تو ہر صورت میں کرنا ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھ سے تو اُٹھا نہیں جاتا۔ یہ بات نہیں چلے گی۔ اُٹھنا تو پڑے گا، نماز تو پڑھنی پڑے گی۔ اسی طرح زکوة تو دینی پڑے گی، حج تو کرنا پڑے گا۔ شریعت کے تمام اعمال پر عمل کرنا پڑے گا۔ معاشرت درست کرنی پڑے گی۔ اس وجہ سے، اگر آپ یہ مجاہدہ نہیں کرتے تو عمر بھر تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ شریعت تکلیف تو ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ وہ مجاہدہ مستقل ہو جائے گا۔ لیکن جب آپ تصوف کے ذریعے نفس کی اصلاح کر لیں گے، نفس کی تربیت کر لیں گے تو پھر مستقل تکلیف نہیں رہے گی، پھر آپ کا نفس ماننا شروع کر دے گا۔ لیکن وہ ماننا اس طرح نہیں ہو گا کہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ محنت تو پھر بھی کرنی پڑے گی لیکن وہ محنت اس طرح ہو گی کہ آپ کا نفس اُس کام کے لئے تیار ہو گا (اس کام میں رکاوٹیں نہیں ڈالے گا)۔ جب گھوڑے کو سدھا لیا جاتا ہے تو سدھانے کے بعد اُس کے اوپر کوئی وزن رکھ دیا جائے تب بھی اس کو وزن محسوس ہوتا ہے، لیکن پھر بھی وہ اُس کے لیے تیار ہوتا ہے۔ لیکن اگر تربیت نہیں کی ہو گی تو پھر وہ اڑی کرے گا اور وزن نہیں اٹھائے گا۔ در اصل مجاہدے کی تکلیف کے ذریعے نفس کی اَڑی کو دور کیا جاتا ہے۔ اگر یہ تکلیف نہیں اٹھائیں گے تو اِس اڑی کو مستقل برداشت کریں گے اور اگر مجاہدے کی تکلیف اٹھا لیں گے تو نفس کی اڑی کے بغیر کام آسانی سے چلتا رہے گا۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے۔
خیر! جب مجاہدات کو ختم کیا گیا تو دو قسم کے لوگ ہو گئے۔ ایک وہ جو مخلص تھے انہوں نے شریعت کے اعمال کرنے میں نفس کی طرف سے ہر وقت کی اَڑی کو برداشت کر لیا۔ ان کا کام تو ہو رہا ہے لیکن مشکل سے ہو رہا ہے۔ اگر یہ حضرات مجاہدہ کرتے تو سیدھے طریقے سے کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ ان دونوں میں سے پہلی قسم کے لوگ زیادہ مشکل میں ہیں۔
نقشبندی سلسلے کے جن حضرات نے مجاہدات سے اپنے آپ کو بری کیا انہوں نے اپنے آپ کو مستقل مشکل میں ڈال دیا، لیکن حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اِس کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ جس نے جذب تو حاصل کیا لیکن سلوک طے نہیں کیا وہ مجذوب متمکن ہے منتہی مرجوع نہیں، نہ خود پہنچا ہے اور نہ دوسروں کو پہنچا سکتا ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کے اوپر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اب اس پر اعتبار کر سکتے ہیں، لیکن کسی بھی وقت یہہ نقصان پہنچائے گا بالخصوص جب اس کا تعلق نظریات کے ساتھ ہو، احساسات کے ساتھ ہو، تب تو ضرور نقصان پہنچائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چیزیں باریک ہوتی ہیں۔ ان کے اندر فرق کرنا مشکل ہوتا ہے آسان نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں معاملہ بہت خراب ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہاں پر نمازیں تو پڑھیں گے۔ روزے تو رکھیں گے، زکوة دیں گے، حج تو کریں گے لیکن کسی جگہ ایسا معاملہ ہو جائے گا کہ گڑبڑ ہو جائے گی۔ اِشرافِ نفس کی مثال لے لیں۔ اس سے بچنا فرض ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ قلبی نہیں بلکہ ذہنی چیز ہے تو وہ اس میں پھنس سکتا ہے۔ مثلاً کسی کو خیال ہوا کہ فلاں مجھے کچھ دے گا۔ اُس کا دل اِس میں مشغول ہوا اور اس شخص کے ساتھ معاملہ بھی اس طرح کیا تو یہ اِشرافِ نفس ہے جو حرام ہے۔ گویا کہ یہ صرف ذہنی خدشہ نہیں رہا بلکہ اس کے تقاضے پر عمل ہو گیا۔ جب اس کے تقاضے پر عمل ہو گیا تو نقصان ہو گیا۔ دیکھئے آپ تو سمجھ رہے تھے کہ میں اپنے مراقبات وغیرہ کے لحاظ سے کامل ہو گیا۔ لیکن در اصل ہوا یہ کہ نفس نے آپ کو اپنے جال میں پھنسا دیا۔
اسی طرح وہ لوگ جو خواتین سے ملنے میں احتیاط نہیں کرتے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ اس کی نظر پاک ہو گئی۔ یہ اس کی ایک ذہنی کیفیت ہے۔ لیکن در حقیقت یہ شخص کسی صحابی سے بڑا تو نہیں ہے۔ اگر صحابی کا رخ نبی کریم ﷺ پھیر سکتے ہیں کہ خاتون کو نہ دیکھو۔ تو آج کل کے اپنے مزعومہ بزرگ کے لئے یہ بات کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ یہ کھری کھری باتیں مجبوراً کرنی پڑ رہی ہیں۔ انسان اس قسم کی چیزوں میں پھنس سکتا ہے۔ نمازیں پڑھے گا، روزے رکھے گا، زکوة دے گا، حج کرے گا، الغرض سب کچھ کرے گا لیکن یہاں آ کر پھنس جائے گا۔ یہ قلبی اور ذہنی چیزیں ہیں آخرت کے متعلق۔ اور اس کی وجہ سےنقصان ہوتا جائے گا۔
سچا فقر:
مخلوق سے استغنا فقر کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ تبھی تو حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فقر بصورتِ استغنا تھا۔ یعنی مخلوق سے استغنا اور خالق کے ساتھ محتاجی۔ اس فقر کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ عشق کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور زہد کا تعلق نفس کے ساتھ ہے۔ جب تک نفس پر قابو نہیں ہے تو زہد کہاں؟ اور زہد نہیں ہے تو بے لوثی کہاں؟ اور دل کا تعلق اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہیں تو لِلہٰیت کہاں؟ اور اس کی غیر موجودگی میں روحانیت کہاں؟ اسی زہد اور عشقِ الٰہی کے اجتماع سے فقر بنتا ہے جس میں انسان صرف اللہ کا ہوتا ہے۔ اور مخلوق سے اس کا تعلق بس اتنا ہوتا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بے بس بچیوں کو پانی دلوا کر یعنی ان کا حق ادا کرکے ان سے کچھ طلب نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف مدد کے لئے متوجہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دکھا دیا کہ جن کی اللہ تعالیٰ کے لئے مدد کی اور ان سے کوئی جزا طلب نہیں کی تھی، انہی کے دل میں اللہ تعالیٰ نے بات ڈالی، ان کو بلایا اور اس طرح دیارِ غیر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے نہ صرف ٹھکانے کا، بلکہ شرفاء کے گھر بسانے کا بندوبست بھی کر لیا۔ فقیروں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی سچا فقر نصیب فرمائے۔
صحیح درویشی:
جیسے فقر کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔ سچا فقر کسی کسی کا ہوتا ہے۔ اسی طرح سچی درویشی بھی کہیں کہیں پائی جاتی ہے۔ زیادہ تر اس کا صرف نام ہی استعمال ہوتا ہے۔ حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ نے جس درویش کی طرف اشارہ کیا کہ وہ مصائب میں مبتلا تھے لیکن اس سے نکلنے کے متمنی نہیں تھے بلکہ جو ان کے لئے فکر کر رہا تھا اس پر ناراض ہورہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہی مصائب اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ تھے۔ اس درویش کو اس کی معرفت حاصل تھی۔ یہ بات تو اس درویش کی طرف سے تھی کہ اس نے ظاہری تکلیف کو اپنے گلے کا ہار بنایا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگوں کو کیا ملتا ہے اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ دیا کہ وہ خلیل اللہ بن گئے۔ اللہ کا بے انتہا قرب ان کو حاصل ہوا۔ اس کے مقابلے میں دوسری نعمتوں کی کیا حیثیت ہے۔ پس جن کی اس قرب پر نظر ہوتی ہے وہ جذب کی حالت میں ایسی گفتگو کرتے ہیں جو دنیا داروں کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی محبت عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن