توضیح المعارف قسط 03

انسانی روح کے کمالات
کمالات کے لحاظ سے انسانی روح کی جو درجات (grading) ہیں، اس کو سمجھایا گیا ہے۔
پہلے حصّے میں فرمایا گیا ہے کہ عام طور پر جس چیز کو روح کہا جاتا ہے، اس کے تین اجزاء (components) ہیں: روحِ ملکوتی، نفسِ ناطقہ اور نسمہ۔ روحِ انسانی کے کمالات کے درجات کو سمجھنے کے لئے ان تینوں کی علیحدہ علیحدہ خصوصیات اور ان کے آپس میں تعامل (interaction) کو سمجھنا ضروری ہے۔
روح کا مادے یا جسم سے قریبی تعلق نسمہ سے ہے، جو جسم میں غذا سے بنتا ہے۔ اس کے بعد نفس ناطقہ سے ہے، جو مادے سے تعلق بھی رکھتا ہے، اور اس سے پاک بھی ہے۔ جیسے عکس شیشے سے تعلق بھی رکھتا ہے اور اس کی مادیت سے الگ بھی ہے۔ اگر مادیت کو نیچے تصور کیا جائے، تو ان تینوں اجزاء میں روحِ ملکوتی سب سے اوپر ہے۔
عالمِ ارواح کی حیثیت عالمِ شہادت (محسوس کائنات) سے پہلے کیسی ہوتی ہے، اس کی کئی مثالیں دی گئی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے:
ایک post (عہدہ) مثلاً: وزیرِ اعظم جب مقرر ہوتا ہے، تو اس کی ساری مراعات، اختیارات، دفتر وغیرہ سب مقرر ہوتے ہیں۔ یہ عہدہ اس وقت مادے سے پاک ہونے کے باوجود ایک قسم کا اپنا وجود رکھتا ہے۔ یہ گویا روح کی مثال ہوئی۔ پھر جب ایک مخصوص شخص اس خالی عہدے پر فائز ہو جاتا ہے، تو وہ عہدہ جو ایک concept (ذہنی تخیل) تھا، اب وہ materialize ہو گیا اور ایک نئی چیز وجود میں آ گئی۔ اس شخص کے لئے وہ عہدہ گویا ایک سانچہ تھا، جس میں وہ ڈھل گیا۔
نفسِ ناطقہ در اصل نسمہ کی موجود قوتوں کو استعمال کرنے والا ہے، جس سے خود نسمہ کی تکمیل اور اصلاح ہوتی رہتی ہے۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
شاہ صاحب رحمہ اللہ نے روحِ انسانی کی perfection (کمال) کے مختلف درجات (gradings) اور ہر درجہ کے خواص (properties) بیان فرمائے ہیں۔
نفسِ ناطقہ کے کمالات کا اظہار نسمہ میں ہوتا ہے۔
چوں کہ چیزیں اپنی اضداد (opposites) سے سمجھ آ سکتی ہیں، اس لئے پہلے نقائص کا ذکر کیا۔
نقائص کو سمجھانے کے لئے درج ذیل مثال دی گئی ہے۔
سورج کا عکس ایک آئینہ میں پڑ رہا ہے۔ کامل عکس نہ پڑنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں:
آئینہ کی فطرت (nature) میں irreparable (نا قابلِ ازالہ) خرابی۔
آئینہ میں عارضی (repairable) نقص۔
آئینہ اور سورج کے درمیان رکاوٹ۔ مثلاً: بادل کا آنا، سورج کی پوزیشن۔
اسی طرح نسمہ سے متعلق نقائص یہ ہیں:
عارضی نقائص، جن کی اصلاح شیخِ کامل کی تربیت سے ہو سکتی ہے۔
جبلتی یا فطری نقائص، جن کا ازالہ ممکن نہیں۔
3.کمال کی راہ میں ایسی رکاوٹ، جن کا ازالہ صرف جذبِ وہبی یا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو سکتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے زیادہ ہم پر مہربان ہیں اور اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں فرماتے، اس لئے ہم اپنی اختیاری کوشش اور محنت میں کمی نہ آنے دیں، لیکن اس میں مبالغہ (یعنی دو انتہاؤں؛ وہم اور لا پرواہی) سے بچیں اور استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ سے فضل کی امید رکھیں۔
نسمہ میں موجود مختلف صلاحیتیں
یعنی قوتِ محرکہ (motivity)، حسِ مشترک (Common sense)، قوتِ خیال (visualization/perception) قوتِ واہمہ (imagination)، قوتِ عاقلہ (intellect/reason) اور قوتِ عازمہ (Will-power)؛ ان کو define (بیان) کیا گیا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ان سب کا اپنا اپنا ایک خاص مصرف یعنی استعمال کی جگہ ہے، جہاں انہیں استعمال ہونا چاہئے۔
روحِ انسانی کے تیسرے جزو، نسمہ کی جن پانچ بنیادی قوتوں کا تعارف اوپر گذرا، ان میں سے ہر قوت کے استعمال کا اپنا اپنا میدان (domain) ہے۔ انسانی تاریخ کے تمام ادوار کے تمام عقل مند اس بات پر متفق چلے آ رہے ہیں کہ نسمہ کی قوتوں کی تہذیب یا ان کو organize (منظم) کرنے میں ہی انسان کی اصل کامیابی اور کمال ہے اور یہ تہذیب اور تکمیل اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان میں سے ہر قوت اپنے متعلقہ مصرف (application) میں استعمال ہو۔
نسمہ کی قوتوں کے استعمال کے دو طریقے:
پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان اپنی متفرق ضروریات کے ضمن میں ان قوتوں کا randomly (غیر منظم) استعمال کرتا رہے۔ عام انسانوں کی اکثریت اپنی روز مرہ زندگی میں ان قوتوں کا استعمال اسی طرح کرتی ہے۔
نسمہ کی ان قوتوں کے استعمال کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قوتوں میں سے کسی ایک قوت کے استعمال پر اپنی پوری توجہ مبذول (focus) کی جائے۔ دنیاوی لحاظ سے مختلف fields (شعبوں) کے با کمال لوگوں کا طریقہ یہی ہے۔ نسمہ کی اس مخصوص قوت کے لحاظ سے ایسے خاص لوگوں اور عوام میں بے انتہا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ قوتِ عقلیہ کے لحاظ سے عام عوام کا فلاسفہ اور سائنسدانوں سے جو فرق ہے یا قوتِ محرکہ کے لحاظ سے ان کا جمناسٹک اور کھیلوں کی دنیا کے مشاہیر (celebrities) سے جو فرق ہے یا قوتِ خیال کے لحاظ سے بڑے شاعروں سے جو فرق ہے، یہ سب بنیادی طور پر اس دوسرے طریقے کے اپنانے یا نہ اپنانے کی وجہ سے ہے۔
نوٹ: انہی پانچ اصولی قوتوں کے اپنے اپنے متعلقہ domains (میدانوں) میں استعمال سے قدیم فلاسفہ کے ہاں نسمہ کی تہذیب سے متعلق پانچ فنون وجود میں آئے۔ جس کے لئے قدیم فلاسفہ نے اپنے اپنے دور اور علاقے کے لحاظ سے مختلف اصطلاحات بنائی تھیں، جو کہ ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ گو جدید دور میں علوم و فنون کے پھیلاؤ سے ان علوم کی بہت ساری نئی شاخیں اور تخصصات (specializations) بن گئے ہیں، لیکن اگر غور سے دیکھا جائے، تو یہ تمام علوم بھی نسمہ کی ان مختلف قوتوں کی کار فرمایئوں کا نتیجہ ہیں۔
نسمہ کی تہذیب کی انسانی کوششوں میں افراط و تفریط کی وجوہات:
نسمہ کی تہذیب کے اس دوسرے طریقے میں، جس کو آج کل کی زبان میں specialization (تخصص) کہہ سکتے ہیں، کچھ خامیاں inbuilt ہیں۔
انسانی کمزوریاں (Limitations): انسان اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے محدود ہے. وہ تمام چیزوں کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ اگر ایک field (شعبہ) میں اس کی دل چسپی اور انہماک ایک خاص درجے سے بڑھ جائے، تو دوسری fields (شعبوں) کی اہمیت نظر انداز ہونے لگتی ہے. ان سے نا واقفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ان کے بارے میں اس کی رائے میں غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑے بڑے فلسفی اور سائنس دان جو دماغی کاموں میں مشغول رہتے ہیں، اپنی روز مرہ زندگی کے کاموں میں غائب دماغی کی وجہ سے ان سے مضحکہ خیز حرکات سرزد ہوتی رہتی ہیں۔
بڑائی اور تکبر: قوتِ عقلیہ سے متعلق علوم، مثلاً: ریاضی اور فلسفہ میں انہماک سے انسان کے اندر ایک تعلی (بڑائی) اور دعویٰ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، جو نسمہ کی دوسری قوتوں سے متعلق علوم کے حاصل کرنے میں یا ان کے بارے میں متوازن اور حقیقت پسندانہ (realistic) رائے قائم کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
نسمہ کی تہذیب کے سلسلے میں شریعت کا کردار:
نسمہ کی سعادت کے حصول کے سلسلے میں انسانی کوششوں میں پائی جانے والی مندرجہ بالا کمزوریوں کا علاج، خالقِ کائنات کی طرف سے انبیائے کرام کے ذریعے بھیجے گئے علوم میں موجود ہے۔ یہ علوم معتدل اور unbiased (افراط و تفریط سے پاک) ہوتے ہیں اور ان میں نسمہ میں موجود ہر قوت (faculty ) کی اصلاح کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ شرعی احکام پر (سمجھ کر یا بلا سمجھے) عمل سے ان قوتوں (قوتِ خیالیہ، عقلیہ، وہمیہ، عازمہ اور محرکہ) پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ شریعت مطہرہ پر عمل سے ہی انسان ان میں سے کسی ایک faculty (قوت) میں ایسے غلو سے، جس سے باقی قوتوں میں تعطل پیدا ہو، محفوظ رہ سکتا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب: دنیا میں رہنے والے اربوں انسانوں میں سے ہر ایک نسمہ کی صلاحیتوں کے لحاظ سے اپنی ایک مخصوص استعداد رکھتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر شبہ ہو کہ شریعت کے standardized (معیاری) قوانین سے نسمہ کی ان مختلف قوتوں کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے؟ تو وہ شخص اپنے اس شبہ کا علاج انسانی معاشرے میں رائج انسانوں کے ہی بنائے ہوئے قوانین پر غور کرنے سے کر سکتا ہے۔
اگر انسانی معاشرے کا جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہو گا کہ پیشوں (professions) اور صلاحیتوں کے لحاظ سے انسانوں کے مختلف طبقات، مثلاً: ڈاکٹر، انجنیئر، تاجر، مزدور، کسان اور سرکاری ملازم پیشہ وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی خدمات درکار ہوتی ہیں۔ مثلاً: گھر بنانے کے لئے ڈاکٹر کو سول انجنیئر اور علاج کے لئے انجنیئر کو ڈاکٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان تمام لوگوں کی مختلف ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسہ (money) کا نظام بنایا گیا ہے، جس سے ان سب کی ضرورتیں ایک دوسرے کے ذریعے پوری ہو جاتی ہیں۔
دوسری آسان مثال ٹریفک کے قوانین کی دی جا سکتی ہے۔ اس قانون کو بنانے والے انسان، انتہائی سوچ بچار کر کے بے شمار مصلحتوں اور possibilities (امکانات) کو پیشِ نظر رکھ کر ایک قانون بناتے ہیں، ایسے قوانین میں پیدل چلنے والوں اور گاڑی والوں، سب کا خیال (built-in) ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنی limitations (محدود صلاحیتوں) کے با وجود اپنے قوانین میں ایسا لحاظ رکھ سکتے ہیں، تو خالقِ کائنات سے ایسا کرنے کو کیوں بعید سمجھا جائے!
نسمہ کی پانچ قوتوں، قوتِ عقلیہ، خیالیہ، وہمیہ، عازمہ اور محرکہ کی اصلاح اور ترقی کے لئے انسانی کوششوں اور ان کے نتیجے میں بننے والے علوم کے مختلف شعبوں میں افراط و تفریط کا پیدا ہونا ناگزیر تھا، جس کی وجوہات اوپر بیان کی گئیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انسانوں کو اس confusion (ذہنی الجھاؤ) سے نکالنے کے لئے انبیائے کرام کی زبانی ان میں سے ہر شعبے کے صحیح اور قطعی اصول بیان فرما دئیے، ان کو ’’نصوص‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اصول ان شعبوں کی بنیاد قرار پائے۔ مثلاً: قوتِ عاقلہ کی اصلاح کے لئے صحیح عقائد (توحید، رسالت اور آخرت) بیان فرمائے۔ قوتِ واہمہ کی اصلاح کے لئے مختلف ذکر و اذکار بیان فرمائے۔ قوتِ خیالیہ میں انتشار سے بچنے کے لئے ہدایات دیں۔ مثلاً: بد نظری وغیرہ سے منع فرمایا۔ اسی طرح قوتِ عازمہ، جو قلب سے متعلق ہے اور گویا نسمہ کی قوتوں کی سردار ہے، کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اچھے اور برے اخلاق کی وضاحت کی۔