اصلاحی بیان



اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا﴾ (البقرۃ: 165)

وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہٗ ھَوَاھَا وَ تَمَنّٰی عَلَی اللہِ (سنن ترمذی: 2459)

وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: اَلَا وَ اِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَ اِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ اَلَا وَ ھِیَ الْقَلْبُ (مشکوۃ: 2762)

وَ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ﴾ (البقرۃ: 197)

صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ

معزز خواتین و حضرات!

حج کی ادائیگی کے سلسلے میں داخلے شروع ہو چکے ہیں اور حج کی وزارت حجاج کے لئے حج پر جانے کے پروگرام بنا رہی ہے۔ حج تک جتنے ایام باقی ہیں ان میں حج کے بارے میں بات ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اعمال معرکۃُ الآرا ہوتے ہیں۔ اُن میں بہت فوائد و ثمرات ملتے ہیں لیکن صرف لا علمی کی وجہ سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ اس لئے صحیح وقت پر ان چیزوں کا جاننا بہت بڑی نعمت ہے۔ چونکہ ان ایام میں لوگ حج پہ جا رہے ہیں اس لئے حج کے بارے میں بات کرنا اُن کے لئے انتہائی مفید ہو گا۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہو گا کہ جن لوگوں پہ حج فرض ہے اور ان کا حج کا پروگرام کبھی سستی کی وجہ سے، کبھی لا پرواہی کی وجہ سے یا حالات کی وجہ سے مسلسل تعطل کا شکار ہے، انہیں حج کا شوق ہو جائے گا، حج کی فکر پیدا ہو جائے گی۔ جب فکر پیدا ہو جاتی ہے اور انسان پوری کوشش کرتا ہے لیکن اس کے با وجود وہ رہ جاتا ہے تو پھر معاملہ اور ہوتا ہے لیکن اگر وہ کوشش ہی نہیں کرتا تو پھر معاملہ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس پہ حج فرض ہو اور وہ حج نہ کرے اور اس کی موت آ جائے تو اللہ جل شانہ کو اس کے بارے میں کوئی پروا نہیں ہوتی کہ وہ یہودی مرتا ہے یا عیسائی مرتا ہے۔

لہٰذا اِن ایام میں حج کی باتیں کرنے کا ایک فائدہ تو ایسے لوگوں کے اندر شوق کو پیدا کرنا ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جو لوگ حج پر جانے والے ہیں انہیں حج کے اعمال کے بارے میں آگاہ کر دیا جائے۔ ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ ان اعمال کے اندر جان ڈالنے والی چیز کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ حدیثِ احسان میں آتا ہے کہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: ”مَا الْاِیْمَانُ“۔ تو آپ ﷺ نے ایمان کے شعبے بتا دیئے۔ پھر پوچھا گیا: ”مَا الْاِسْلَامُ“۔ تو آپ ﷺ نے اسلام کے ارکان بتا دیئے۔ پھر پوچھا گیا: ”مَا الْاِحْسَانُ“۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:

اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“ (بخاری شریف: 50)

ترجمہ: ’’(احسان یہ ہے کہ) اللہ کی عبادت و بندگی تم اس طرح کرو کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو، کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو، پر وہ تو تم کو دیکھتا ہی ہے‘‘۔

حج کے اعمال کرتے ہوئے بھی انسان کے اوپر یہ کیفیت طاری ہونی چاہئے کہ جیسے وہ خدا کو دیکھ کے عمل کر رہا ہے اور اگر اس پر یہ کیفیت طاری نہیں ہو رہی تو کم از کم قلبی طور پر یہ آگاہی ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔

عموماً اس حدیث شریف کے بارے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ اس کا تعلق نماز سے ہے۔ نماز میں ایسی حالت ہونی چاہئے۔ یقیناً وہ تو ہونی ہی چاہئے لیکن حج میں بھی یہی بات ملحوظ رکھی جائے۔

حج میں دورانِ طواف انسان کہتا ہے: ”لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ“۔ یہ ”لَبَّيْكَ“ حاضر کا صیغہ ہے۔ حاضر کا صیغہ اُس وقت بولا جاتا ہے جب مخاطب سامنے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اگر اِس کیفیت کے ساتھ ”لَبَّيْكَ“ کہے کہ جیسے وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے، جیسے اللہ پاک سے مخاطب ہے اور یقین کے کانوں سے محسوس کر رہا ہو کہ اللہ پاک سن رہا ہے تو پھر اس کی بات ہی اور ہو گی۔ اور اگر ہم اسی حالت میں حج کریں تو یقیناً اس حج کی بات ہی اور ہو گی۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب حج کر لیا اور حج سے واپس آ گئے تو فرمایا: ”میں نے اندھوں اور بہروں کی طرح حج نہیں کیا“۔ اس قول سے ان کا مطلب یہ تھا کہ انہیں وہ کیفیت حاصل رہی جو حج میں حاصل ہونی چاہئے۔

ایک ہوتا ہے صرف formality (رسمی کارروائی) پورا کرنا۔ یعنی مکینکل (مشینی) انداز میں اس طرح کے اعمال کر لینا جس طرح کہا گیا ہے۔ یہ بھی حج ہے لیکن وہ حج جو انسان قلب کے ساتھ کر لے، روح کے ساتھ کر لے، عقلِ ایمانی کے ساتھ کر لے، وہ حج مختلف ہے۔ سبحان اللہ! اگر انسان ایسا حج کر لیتا ہے تو وہ حج سے ایسا پاک ہو کر واپس آتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں ہے۔ وہ اس طرح پاک و صاف شمار ہوتا ہے جیسے وہ ابھی پیدا ہوا ہے۔ ورنہ مکینکل (مشینی) انداز میں حج کرنے سے بعض دفعہ انسان کی عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔ اپنے غلط جذبات کی وجہ سے اس کی عقل فیل ہو جاتی ہے اور وہ ایسی حرکات کرنے لگتا ہے جن سے بجائے فائدے کے نقصان ہو جاتا ہے۔ مثلاً حجرِ اسود کو بوسہ دینا حج کے اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ محبت کا تقاضا ہے کہ حجرِ اسود کو بوسہ دیا جائے۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والی بات ہوتی ہے۔ لیکن اگر آدمی اس عمل کے لئے ظلم کرے، کسی کو دھکا دے دے، کسی کو زخمی کرے کسی کو نقصان پہنچائے تو اس طرح حجرِ اسود کو بوسہ دینا اللہ پاک کو قبول نہیں ہے، بلکہ یہ تو اپنے اوپر حجت تمام کرنے والی بات ہے کہ یہ آدمی وہاں جا کر بھی ظلم سے باز نہیں آیا۔ وہاں جا کر بھی اس کو کسی پر رحم نہیں آیا۔ یہ وہاں جا کر بھی خود غرض ہی رہا۔

حجرِ اسود کے سامنے انسان کی جو صورت بنتی ہے، جس حالت میں انسان حجرِ اسود کے سامنے جاتا ہے، اس کے دل پر اسی حالت کی مہر لگ جاتی ہے۔ پھر وہ حالت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ دوبارہ حجرِ اسود کے سامنے نہیں آتا۔ اگر کوئی آدمی آخری بار حجرِ اسود کے ساتھ ظلم کی حالت میں ملتا ہے اور اس کے دل پر اس ظلم کی مہر لگ جاتی ہے تو اب یہ ظالم ہی رہے گا۔ اس لئے بعض لوگ جب حج سے واپس آتے ہیں تو ان کی حقیقت لوگوں پہ کھل جاتی ہے۔ پتا چل جاتا ہے کہ وہ حقیقت میں کیسے ہیں، ان کے اندر کیا ہے۔

ہم لوگوں کو حج سیکھنا چاہئے۔ حج سیکھنے میں دو باتوں کا استحضار ہونا چاہئے۔ ایک ہے حج کے مسائل کا سیکھنا اور دوسرا ہے حج کی روح کو سمجھنا اور اس کے مطابق حج کرنا۔ اعمال کے اندر جس چیز سے جان آتی ہے اگر وہی چیز حج کے اندر بھی ہو تب وہ حج صحیح معنوں میں حج ہوتا ہے۔

ہم نے اس سلسلہ میں ایک کتاب بھی لکھی ہے اور وہ کتاب اس مجبوری کی وجہ سے لکھی ہے کہ حج کی جتنی بھی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں مسائل تو بیان کئے گئے ہیں لیکن حج کی روح والا پہلو بہت کم بیان کیا گیا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ حج میں اس کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب کو بھی ضرور پڑھنا چاہئے۔ لیکن اس کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو اگر سامنے نہ آئیں تو انسان حج کی روحانیت سے محروم رہ سکتا ہے۔ لہٰذا اس چیز کو سامنے لانے کے لئے ایک کتاب لکھنی پڑی جس کا نام ہے ”شاہراہِ محبت“۔

حج کی روح اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی محبت پیدا کرنا ہے جو انسان کی نفسانی عقل کے اوپر ایسی غالب ہو جائے کہ وہ نفسانی عقل کام نہ کر سکے اور انسان اللہ پاک کے حکم پر عمل کے لئے ہر وقت تیار رہے۔ یہ حج کی روح ہے۔ اب یہ کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ ہر چیز مثال سے پہچانی جاتی ہے۔ تھیوری مثال کے ذریعے سمجھائی جا سکتی ہے، بغیر مثال کے اس کا سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ حج کے اندر اس کی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ پاک کے حکم کو ہر چیز پر ترجیح کیسے دی جاتی ہے۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثال، حضرت ہاجرہ علیھا السلام کی مثال، حضرت آدم علیہ السلام کی مثال۔ یہ سب مثالیں ہیں۔ ان مثالوں کو بنیاد بنا کر اعمال بنائے گئے ہیں۔ اگر میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام والا عمل تو کر لوں لیکن میرے عمل میں وہ روح نہ پیدا ہو جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے عمل میں تھی۔ اسی طرح اگر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں سے وہ روح نکال دوں، حضرت حضرت ہاجرہ علیھا السلام کے عمل میں سے اس روحانیت کو نکال دوں تو اس عمل کی کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ حجِ فرض تو ادا ہو جائے گا لیکن وہ چیز نہیں ملے گی جو اس کے اندر ملنی چاہئے تھی۔ اسی وجہ سے حج کو پوری زندگی میں ایک بار فرض کیا گیا ہے۔ صاحبِ استطاعت کے اوپر زندگی میں کم سے کم ایک بار ان چیزوں کا حاصل کرنا ضروری ہے۔

میں اس سلسلے میں پہلے کچھ بنیادی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ دو ترتیبیں ہوتی ہیں: ایک رحمانی ترتیب ہوتی ہے اور ایک شیطانی ترتیب ہوتی ہے۔ رحمانی ترتیب میں عقل جذبات کو قابو کرتی ہے اور اس میں عقل پر شریعت حاکم ہوتی ہے۔ انسان کے اندر جذبات مختلف اعمال کے محرّک ہیں۔ یعنی کسی چیز کو چلانے کی طاقت جذبات ہیں۔ جذبہ نہ ہو تو انسان کام نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ جذبہ کس صورت میں ہے۔ وہ جذبہ عقل کے قابو میں ہو، بے وقوفی کی بات نہ ہو، پھر وہ عقل بھی ایسی ہو جو شریعت کے قابو میں ہو۔ جو عقل شریعت کے تحت نہیں ہے وہ تو بذات خود الحاد کی طرف لے جا رہی ہے۔ لہٰذا وہ عقل جو شریعت کی تابع ہے اس عقل کے ذریعے جذبات کو کنٹرول کرنا، یہ رحمانی ترتیب ہے۔ جبکہ شیطانی ترتیب میں جذبات عقل کو متاثر کرتے ہیں اور آفاقی تعلیمات یعنی شریعت میں تاویلیں کر کے نفس کی غلط خواہشوں کا دفاع کیا جاتا ہے۔ مثلاً جذبہ یہ ہے کہ میں موسیقی سنوں، جذبہ یہ ہے کہ ناچ گانا دیکھوں۔ اب اس جذبہ کو بروئے کار لانے کے لئے تاویلیں کی جاتی ہیں کہ موسیقی جائز ہے، موسیقی روح کی غذا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب باتیں انسان کی عقلِ فاسد سے آتی ہیں۔ وہ عقل جو نفس کے تابع ہے اُدھر سے یہ باتیں آ رہی ہیں۔ جب انسان ایسی عقل کے تابع ہوتا ہے تو پھر انسان انسان نہیں رہتا، وہ اللہ پاک کا باغی بن جاتا ہے۔ وہ ایسا ہی بن جاتا ہے جیسے غیر مسلم مادر پدر آزاد معاشرہ ہوتا ہے۔ اس کی نفسانی خواہشات عقل پر اتنی غالب ہو جاتی ہیں کہ عقل کا کام ہی صرف ان خواہشات کو پورا کرنا رہ جاتا ہے۔ حدیث شریف میں ایسے لوگوں کو بے وقوف فرمایا گیا ہے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا۔ اور بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات پورا کرنے میں لگا دیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے بغیر توبہ کئے مغفرت کی امید کرتا رہا۔ مخالفت کے باوجود مغفرت کی امید رکھنا، یہ بھی نفسانی عقل کا کام ہے۔ عقلِ فاسد سکھاتی ہے کہ جو چاہو کر لو اللہ بڑا غفور و رحیم ہے وہ معاف کر دے گا۔ یقیناً اللہ غفور و رحیم ہے لیکن اللہ پاک کا قانون بھی ہے۔ اللہ جل شانہ نے ہمارے سامنے ایک لائحۂ عمل بھی بھیجا ہے جس کو شریعت کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہے کہ اس پر عمل کرو۔ اب اگر کوئی اس پر عمل نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ اللہ غفور و رحیم ہے تو یہ شخص اللہ تعالیٰ کی صفتِ غفوریت کی بے ادبی کر رہا ہے، نتیجتاً یہ شخص اس صفت سے فائدے کے بجائے نقصان اٹھا رہا ہے۔

پس وہ عقل جو جذبات سے مغلوب ہو کر شریعت کی خلاف ورزی کا سبب بنے، فی الاصل وہ بے وقوفی ہے۔ عقل کی صورت میں اس بے وقوفی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ شرعی فرائض کی کچھ حکمتیں ہوتی ہیں، ان میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ انسان کے اندر اس عمل کی روح پیدا ہو جائے۔ نماز کا مقصد یہ ہے کہ انسان میں نماز کی روح پیدا ہو جائے۔ نماز کی روح عبدیت ہے۔ جب انسان نماز پڑھتا ہے تو انسان کی بندگی کا اظہار ہوتا ہے اس طور پر کہ نماز میں آپ اللہ پاک کے ہر حکم پر فوری عمل کرتے ہیں۔ رکوع میں جو کچھ پڑھنے کا بتایا گیا، وہی پڑھ سکتے ہیں کچھ اور نہیں پڑھ سکتے۔ آپ سجدہ میں وہی پڑھ سکتے ہیں جو بتایا گیا ہے۔ اٹھتے وقت جو بتایا گیا ہے وہی پڑھ سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

”صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ“ (مشکٰوۃ: 683)

ترجمہ: ”اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھو“۔

آپ ﷺ اپنے آپ کو ”عبد“ بتاتے ہیں۔ ”اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ“۔ آپ ﷺ اللہ کے خاص بندے تھے۔ جو شخص آپ ﷺ کی طرح نماز پڑھے گا وہ بھی ”عبد“ بن جائے گا۔ اسی عبدیت کی ٹریننگ نماز کے اندر ہو رہی ہے۔ جب انسان صحیح معنوں میں نماز پڑھتا ہے تو روز بروز اس کی بندگی پختہ ہوتی جاتی ہے۔ نماز کے اندر عبدیت ہے۔ روزہ کے اندر قوتِ بہیمیہ کی مخالفت ہے۔

کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہم انسانوں اور حیوانوں میں مشترک ہیں، مثلاً انسان بھی کھاتا پیتا ہے حیوان بھی کھاتا پیتا ہے۔ انسان بھی سوتا ہے حیوان بھی سوتا ہے۔ انسان بھی مباشرت کرتا ہے حیوان بھی کرتا ہے۔ انسان کی یہ چیزیں حیوان کے ساتھ مشترک ہیں۔ اگر ایک انسان عقل کی پروا نہ کرے شریعت کی پروا نہ کرے تو اس کے اوپر حیوانیت سوار ہے۔ کیونکہ حیوانوں پر کوئی شریعت نافذ نہیں ہے۔ وہ مکلف مخلوق ہی نہیں ہیں۔ ان سے کوئی مطالبہ ہی نہیں ہے۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اپنی جبلت کے مطابق کر رہے ہیں۔ حیوانوں سے کوئی مطالبہ نہیں ہے لیکن انسانوں سے مطالبہ ہے۔ انسان جانوروں کی طرح زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس لئے جو انسان حقیقی معنوں میں انسان نہیں ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ (الاعراف: 178)

ترجمہ: ”یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں“۔

ایسے انسانوں کو ”جانوروں سے بھی گئے گزرے“ اس وجہ سے کہا کہ یہ جانور نہ ہوتے ہوئے بھی جانوروں جیسے کام کر رہے ہیں۔ اس لئے یہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیونکہ یہ مکلف مخلوق ہیں جب یہ اس قسم کی حرکت کریں گے جو جانوروں کی طرح ہو گی تو یہ بہت ہی سخت نقصان میں چلے جائیں گے۔

زکوٰۃ کی حکمت مال کی محبت کو کم کرنا ہے۔ انسان کو مال اللہ نے دیا ہوا ہے۔ اللہ اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ پورا سال گزرنے کے بعد جب نصاب پورا ہو تو اس میں سے چالیسواں حصہ مجھے دو۔ اللہ پاک کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ پاک آپ سے لے رہا ہے تو اپنے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے لئے لے رہا ہے جو اس کا مستحق ہے۔

اگر کوئی شخص کسی کو کہے کہ مجھے چالیس ہزار روپے دے دیں، اور وہ کہے کہ ٹھیک ہے یہ چالیس ہزار لے لو سال بھر میں مجھے صرف ایک ہزار روپے دے دیا کرو باقی تم خرچ کیا کرو۔ تو کیا خیال ہے وہ آدمی خوش ہو گا یا نا خوش ہو گا۔ یقیناً خوش ہو گا۔ اسی طریقے سے اللہ پاک ہمیں چالیس ہزار دے رہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ اس میں سے ایک ہزار مجھے دے دو یعنی مستحق لوگوں کو دے دو۔ اگر کوئی اس پر عمل نہیں کر رہا تو اس کے اندر حبِّ مال ہے اور یہ محبت ہلاک کرنے والی ہے۔ اگر اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو یہ قیامت کے دن سانپ بن کر اس کے گلے کے گرد لپٹ جائے گا اور اس کو ڈستا رہے گا کیونکہ اس شخص نے مال کے ساتھ محبت کی ہے اور اللہ کی محبت کو چھوڑا ہے۔

حج کی روح منفی عقل کو توڑنا ہے۔ جس طرح نماز کے اندر عبدیت ہے۔ روزے کے اندر تقویٰ اور بہیمیت کا مقابلہ ہے اور زکوٰۃ کے اندر حبِّ مال کا توڑ ہے۔ اسی طرح حج کے اندر منفی عقل کا توڑ ہے۔ منفی عقل انسان کو اللہ تعالیٰ سے باغی بناتی ہے۔ حج کے اندر منفی عقل کو ختم کر کے اس عقل پہ لایا جاتا ہے جو اللہ پاک کا محبوب بناتی ہے۔ یہی بات سمجھانے کے لئے کچھ اشعار سنائے جاتے ہیں:

جو عقل نفس سے اثر لے عقل نفسانی ہے

جو ہو ایمان سے منور عقل ایمانی ہے

عقلِ نفسانی کی محدود نظر کیا سمجھے

عقل ایمانی پہ ہوتی اس کو حیرانی ہے

تشریح:

عقلِ نفسانی حیران ہوتی ہے کہ دیکھو اپنے مال میں سے زکوٰۃ دے رہا ہے۔ روزہ رکھ رہا ہے اور پورا دن کھا پی نہیں رہا۔

ایک مرتبہ میں جہاز میں رؤیتِ ہلال کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں کراچی جا رہا تھا۔ میرے ساتھ ایک Polish Engineer (پولینڈ کا انجینئر) بیٹھا ہوا تھا۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ کا بھی روزہ ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: روزہ بڑی اچھی چیز ہے لیکن آپ لوگ جو پانی نہیں پیتے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ پانی تو جسم کے لئے بہت ضروری ہے۔

در اصل عیسائی لوگ روزے کے دوران پانی پیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے روزے میں کافی تبدیلیاں کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں زیادہ پُر آسائش کھانا نہ ہو، بس عام سا کھانا کھا لو تو یہ روزہ ہے۔ ان کا روزہ یہی ہے۔ انہوں نے ہر چیز کے اندر ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ وہ اصل چیز رہی ہی نہیں۔ بہرحال اس نے کہا کہ آپ روزے میں پانی نہیں پیتے، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر اس کو شریعت کی باتیں بتاؤں تو یہ نہیں سمجھے گا۔ میں نے اس سے کہا: ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ جس نے پانی بالکل نہ پیا ہو اگر اسے 72 گھنٹے سے پہلے پہلے پانی مل جائے تو اس پانی کے نہ ملنے کی وجہ سے جو نقصان جگر کو یا گردے کو ہوا ہے یا کسی اور عضو کو ہوا ہے اس کی تلافی ہو جائے گی۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی صحت کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ (یہ بات بالکل صحیح ہے، در اصل یہ 72 گھنٹوں سے زیادہ کی بات ہے، میں نے احتیاطاً 72 گھنٹے کہا) ہمارا روزہ چوبیس گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہوتا لہٰذا پانی نہ پینے سے جو نقصان ہوا وہ قابلِ تلافی ہے۔ اس لئے یہ پانی نہ پینا ایک مجاہدہ ہے اور اس سے کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر اس نے کہا: ”Then it is ok“ پھر تو یہ صحیح ہے۔

لوگوں نے اس قسم کی باتیں اپنے ذہن میں بنائی ہوتی ہیں۔ اصل میں یہ نفس کی باتیں ہوتی ہیں، اور نفس کی خوشی کے لئے ہی کر رہے ہوتے ہیں۔

عقلِ ایمانی کا دل سے ہے تعلق اس لئے

چاہئے اس کو ہمیشہ قلبِ نورانی ہے

تشریح:

عقلِ ایمانی کا تعلق دل سے ہے کیونکہ ایمان دل میں ہوتا ہے۔ ”اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ“۔

لہٰذا جو قلب نورانی ہو گا اس کو عقلِ ایمانی نصیب ہو چکی ہو گی۔

نفس کے جو بھی تقاضے ہوں بے مہار ان کو

دبائیں، ٹھیک ہوں تو اس میں ہی آسانی ہے

تشریح:

اگر ہم نفس کے تقاضوں کو دبا سکیں تو پھر سبحان اللہ نفس قابو میں آ جائے گا۔ جب نفس قابو میں آ جائے گا تو پھر یہ ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ میں اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ شوگر کے مریض کو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میٹھی چیز نہ کھائیں، اس سے نقصان ہو گا۔ ڈاکٹر اس کو سب چیزیں سمجھاتا ہے، اور اس وقت مریض عقل کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ عموماً شوگر کے مریض چالیس سال سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں۔ اب تو بچوں کو بھی شوگر کا عارضہ ہونے لگا ہے لیکن زیادہ تر چالیس سال سے زیادہ کے عمر کے لوگوں کو شوگر کا عارضہ پیش آتا ہے۔ یہ عمر دوسروں کو عقل سکھانے والی ہوتی ہے۔ لیکن جب میٹھی چیز اس کے سامنے آ جاتی ہے تو وہ ساری باتیں بھول جاتا ہے اور میٹھی چیز کھا لیتا ہے۔ اپنے آپ کو نقصان پہنچا لیتا ہے۔ سب لوگ میری بات کی گواہی دیں گے۔ آج کل ہر ایک آدمی چائے پیتا ہے۔ چائے میں چینی بھی ڈالتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بغیر چینی کے چائے پینا چاہے، خواہ اسے پھیکی ہی لگے۔ تو اس کا یہ مجاہدہ صرف ہفتہ دو ہفتہ کا ہو گا، اس کے بعد وہ اس کے ساتھ عادی ہو جائے گا۔ پھر اسے چائے پھیکی نہیں لگے گی اور وہ آرام سے پی لے گا بلکہ اس کو اگر میٹھی چائے دیں گے تو وہ اس کے ساتھ تھوڑا سا اجنبی محسوس کرے گا۔ اب میٹھی چائے اس کے گلے کو لگے گی۔ بس آدمی ایک دو ہفتے مجاہدہ کر لے تو دو ہفتوں بعد آسانی ہو جائے گی اور کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا۔ یہی بات ہمارے روحانی ڈاکٹر حضرات بھی کہتے ہیں لیکن ہم لوگ نہیں سنتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس ہمارے اوپر سوار ہوتا ہے۔

اس طرح نفس کا پھر عقل پہ غلبہ نہ رہے

نہ رہے اس پہ، نفس کی جو حکمرانی ہے

تشریح:

یعنی ہمارا نفس ہماری عقل کے اوپر غلبہ حاصل نہ کر سکے اور جو حکمرانی ہم پہ کر رہا ہے وہ نہ کر سکے۔

نفس مطمئن، قلب سلیم ہو، اور فہم رسا

نصیب میں ان کی پھر زمین کی سلطانی ہے

تشریح:

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ پاک نے زمین پہ جو حکمرانی دی تھی اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کو اپنے نفس پہ پورا قابو تھا۔ وہ نفس کے لئے کام نہیں کرتے تھے۔ وہ صرف اللہ کے لئے کرتے تھے۔ جہاں پر بھی نفس کی بات آ جاتی وہ اس کو چھوڑ دیتے اور اس سلسلہ میں جو حکم اللہ کی طرف سے ہوتا تھا اس کے اوپر عمل کرتے تھے۔ نتیجتاً وہ پوری دنیا کے حکمران بنے۔

عقبیٰ محفوظ ہو، راضی ہو رب اور جنت میں

شبیرؔ ملے گی انہیں رب کی جو مہمانی ہے

تشریح:

اللہ پاک کا قرآن میں وعدہ ہے:

﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ O نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ O نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠﴾ (حم السجدہ: 30-32)

ترجمہ: ”(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے جو تم منگوانا چاہو یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل“۔

یہ بات تو آپ کو سمجھ آ گئی۔ اب یہ سمجھیں کہ حج کے اندر ہمیں کیا کرنا ہے۔ جو عشاق نے کیا ہے وہی ہم نے کرنا ہے۔ جو صحیح معنوں میں اللہ کے عاشق تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ بی بی رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ انہوں نے جو کیا ہم نے بھی ان کی نقل کرنی ہے، ان کی طرح کام کرنا ہے۔ اگر جذبہ وہی ہو جو ان کا تھا اور عمل بھی وہی ہو جو ان کا تھا تو ان شاء اللہ اس کا اثر ہم پہ وہی ہو گا جو ان پہ تھا۔ الحمد للہ یہ ہمارے پاس ایک بہترین ذریعہ ہے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

احرام کی جو دو چادریں باندھی جاتی ہیں اس کی حکمت یہ ہے کہ اس میں انسان اپنی پُر آسائش زندگی کو کم سے کم ضرورت کے تحت لاتا ہے۔ مثلاً اپنے آپ کو کم سے کم کتنے کپڑوں میں چھپایا جا سکتا ہے، اس کے لئے دو چادریں ہی کافی ہیں۔ پھر ہم خانہ کعبہ کا چکر لگاتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے خانہ کعبہ کو اس دنیا میں اپنے بندوں کے لئے سجدہ گاہ بنایا ہوا ہے۔ اس کی طرف سجدہ کیا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کو سجدہ کرنا ایسا ہے جیسے اللہ کو سجدہ کرنا۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینا ایسا ہے جیسے اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دینا۔ ملتزَم شریف کے ساتھ معانقہ کرنا ایسا ہے جیسے اللہ کے ساتھ معانقہ کرنا اور خانہ کعبہ کا طواف کرنا ایسا ہے جیسے اللہ کے ساتھ چکر لگانا۔ یہ سب باتیں اگرچہ حقیقت میں ممکن نہیں ہیں لیکن یہ آپ کو وہ کیفیت ضرور دے سکتی ہیں جو کہ حقیقت میں ایسا ہونے سے حاصل ہوتیں۔ لیکن ایسا تب ہی ہو گا جب آپ کے ذہن میں اس کیفیت کا استحضار ہو۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ بات مستحضر نہ ہو اور آپ مشینی انداز میں سات چکر لگا لیں تو آپ کا طواف ہو تو جائے گا لیکن یہ طواف برائے طواف ہو گا یہ اصل طواف نہیں ہے بس آپ نے ویسے ہی چکر لگا لیا ہے۔ خدا کے بندے تم کہاں پر موجود ہو؟ تم کس کو یاد کر رہے ہو؟ اللہ کو چھوڑ کر اپنے لوگوں کو یاد کر رہے ہو تو پھر تمھیں کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا وہاں سب کچھ بھول جاؤ صرف اللہ کو یاد رکھو۔ ”لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ، لَا شَرِيْكَ لَكَ“۔ یہی ہے حج کی کیفیت۔ یہ ”لَبَّيْكَ“ کے اندر موجود ہے۔ ”لَبَّيْكَ“ کے معنی پہ غور کریں کہ اس میں ہم کہتے کیا ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں عاشقوں کی طرح طواف کرو۔ جب عاشق اپنے محبوب کے پاس جاتا ہے تو اسے کوئی اور یاد نہیں رہتا۔ کیا اسے کوئی یاد ہوتا ہے؟ اسے اپنا باپ یاد ہوتا ہے؟ اپنی ماں یاد ہوتی ہے؟ اپنے دوست یاد ہوتے ہیں؟ اپنا دفتر یاد ہوتا ہے؟ اسے کوئی یاد نہیں ہوتا۔ پس جب تم خانہ کعبہ جاؤ تو تمھاری یہی کیفیت ہونی چاہئے کہ بس مجھے تو اللہ ہی چاہئے۔ اللہ بہت قریب ہے اور اللہ کی رحمت بہت زیادہ ہے، اللہ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے۔ خدا کی قسم اگر ہم ذرا سا بھی اس کی طرف جائیں تو وہ مکمل ہماری طرف توجہ فرمائیں گے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میری طرف جو ایک بالشت آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو بالشت جاتی ہے۔ میری طرف جو ایک ہاتھ آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے۔ میری طرف جو چل کے آتا ہے میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اللہ کی طرف متوجہ ہونا سیکھنا چاہئے۔

حضرت ہاجرہ بی بی رضی اللہ عنہا وہاں پر اپنے بچے کے لئے پانی کی تلاش میں دوڑی تھیں۔ پانی پینا ایک دنیاوی چیز ہے۔ انہوں نے وہاں رہنا اللہ کے لئے قبول کیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ اگر اللہ کا حکم ہے تو پھر ہمیں کوئی پروا نہیں ہے آپ جا سکتے ہیں۔ اللہ نے اس بات کو ایسا پسند فرمایا کہ اب جتنے بھی حج کرنے والے ہیں سب کو دوڑنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کو بھی دوڑنا پڑا، بعد میں آنے والے تمام انبیاء کو دوڑنا پڑا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دوڑنا پڑا۔ جتنے اولیاء کرام ہیں سب دوڑتے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہاں پر ایک عورت دوڑی تھی، لیکن دوڑنے کا حکم مردوں کے لئے ہے۔ ذرا غور تو کریں کہ یہ ہمیں کون سی چیزیں سکھائی جا رہی ہیں۔

پھر عرفات کا میدان ہے۔ سبحان اللہ کیا بات ہے عرفات کے میدان کی۔ وہاں پر تو ایسی کیفیات ہیں کہ انسان الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

ہم نے اس کتاب (شاہرائے محبت) کے اندر ان روحانی کیفیات کو سمویا ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس کے بارے میں کچھ بتا دیا جائے۔ انسان کا عمل اپنا اپنا ہے۔ مجھے ایک بھائی کی بات بہت پسند آئی۔ ہمارے دفتر کے آدمی تھے۔ انہوں نے ایک تکنیکی بات کی، کہنے لگے کہ ذرا حساب لگا لو کہ ہم نے کتنا خرچ کیا ہے۔ آج کل ہم تقریباً گیارہ لاکھ خرچ کر کے وہاں جاتے ہیں اور ان گیارہ لاکھ میں صرف چالیس دن ہم وہاں رہتے ہیں۔ اگر ہم یہ ایام اور یہ اوقات گھنٹے کسی ایسی چیز میں خرچ کرتے ہیں جس میں ہم صرف دو ریال بچائیں، تو کیا یہ دو ریال بچانے کے لئے ہم نے اتنے پیسے لگائے؟ دو ریال کو بچانے کے لئے ہم نے اتنے پیسے نہیں لگائے۔ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

مجھے ایک بہت بڑے بزرگ نے فرمایا: شبیر! جب حج پہ جاؤ تو وہاں پیسوں کے خرچ کی پروا نہ کرو بلکہ وقت بچاؤ، وہ وقت حرم کو دو۔ پیسے نہ بچاؤ۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر ہم لوگ اس جذبے کے ساتھ جائیں گے تو پھر ہمارا حج حقیقی حج ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا حج نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ