اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت النبی ﷺ کے حصہ چہارم ميں صفحہ نمبر 83 پر فرماتے ہیں آپ ﷺ نے بھی دیگر انبیاء کرام کی طرح بار بار فرمایا بلکہ وحی الٰہی نے آپ کی زبان سے یہ اعلان کر دیا کہ کہہ دو کہ میں تو تمہاری ہی طرح ایک آدمی اور بشر ہوں۔ یہ اعلان در حقیقت اس غلط عقیدہ کو مٹانے کے لئے تھا جو انبیاء کی شان الوہیت کے متعلق عیسائیوں کے اثر سے لوگوں ميں پھیل گیا تھا اور افسوس ہے کہ اس قسم کا غلط خیال اس نبی کی اُمت کے ایک گروہ میں بھی پایا جاتا ہے جو دنیا میں خدا کی توحیدِ کامل کا مبلغ بن کر آیا تھا۔ دوسری طرف اس اعلان سے ایک تفریط پسند گروہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ پیغمبر اور عام انسانوں میں کوئی فرق اور امتیاز نہيں اور نہ پیغمبروں کو عام انسانوں پر کوئی بلندی و برتری حاصل ہے اِلّا یہ کہ پیغمبروں کو وحی آتی رہتی ہے اور عام انسان اس سے محروم ہیں۔ گویا اس کا منشاء یہ ہے کہ پیغمبر میں صرف اس لمحہ اور آن میں منصب نبوت کا امتیاز پایا جاتا ہے، جب اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اس سے پہلے اور اس کے بعد وہ عام انسان ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ایک اور مختصر فرقہ نے یہ دعوی کیا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا پیغمبرانہ حکم صرف وہی ہے جو وحی قرآنی کی صورت میں آیا اس کے علاوہ آپ کے تمام احکام جو قرآن سے باہر ہیں وہ صرف حاکمانہ اور انتظامی امور ہیں، جن کی پیروی کرنا نہ اسلامی شریعت ہے اور نہ اسلام کا جُز ہے۔ یہ خیالات حقیقت میں دوسرے فرقہ کے مفرطانہ کے مقابلے میں تفریطانہ ہیں اور یہ دونوں اعتدال کی حد سے باہر ہیں اور حقیقت ان کے بیچ میں ہے۔
یہاں حضرت نے جن دو گروہوں کا فرمایا ہے ان کے خیالات اور نظریات آج کل میڈیا پر کافی پھیلائے جا رہے ہیں اور خصوصاً نوجوانوں کو دوسری قسم کے نظریات والے لوگ گمراہ کر رہے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے انبیاء کرام کا مقام اور دوسرے انسانوں پر ان کی فضیلت واضح فرمائیں۔
جواب:
یہ تو بہت بڑا مضمون ہے، ظاہر ہے اس کو چند الفاظ میں جمع کرنا تو نا ممکن ہے جیسے حضرت نے فرمایا ہے میرا خیال ہے کہ وہ اس موضوع کا ایک بہترین نچوڑ ہے۔ باقی تو اس کو جتنا پھیلایا جائے وہ ایک علیحدہ بات ہے۔ البتہ آج کل جس طریقے سے وہ لوگ کرتے ہیں اس پہ ہماری نظر ہونی چاہیے کیونکہ یہ لوگ پینترے بدلتے ہیں، مختلف طریقوں سے سامنے آتے ہیں۔ لہذا یہ موضوع کہ آپ ﷺ کون ہیں؟ تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ ﷺ رسول ہیں، پھر آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اب یہ خاتم النبین والا جو منصب ہے تو اگر آپ ﷺ پر کسی وقت وحی آ رہی ہے یا کسی وقت نہیں آ رہی تو اس وقت یہان سے واپس تو نہیں ہوتا۔ جیسے بادشاہ جس وقت کھانا کھا رہا ہوتا ہے اس وقت بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ جس وقت سو رہا ہوتا ہے اس وقت بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ جس وقت لوگوں سے مل رہا ہوتا ہے، اس وقت بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ جس وقت خلوت میں ہوتا ہے اس وقت بھی بادشاہ ہوتا ہے۔ اس کی بادشاہی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طریقے سے آپ ﷺ کا جو مقام خاتم النبیین ہونے کا ہے یہ اصل میں آپ ﷺ کا وہ مقام ہے جس تک دنیا کا کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف سلیمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے:
’’ولی را ولی می شناسد
نبی را نبی می شناسد
خاتم النبین را خدا می شناسد‘‘۔
یعنی ولی کو ولی جانتا ہے۔ نبی کو نبی جانتا ہے اور خاتم النبیین کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرا خاتم النبیین ہے ہی نہیں جو ان جیسا ہو اور ان کی طرح ادراک کر سکے۔ تو چونکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ اس لئے ان کی مکمل معرفت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے کسی اور کو نہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ آپ ﷺ کے پاس جو وحی آتی تھی وہ دو قسم کی ہے ایک وحی وہ ہے جو وحی متلو قرار پائی ہے یعنی قرآن اور ایک وہ وحی ہے جو وحی غیر متلو ہے اس کا ثبوت بھی وحی متلو میں موجود ہے۔ کیونکہ قرآن پاک میں ہے کہ آپ ﷺ نہیں کچھ کہتے مگر وہ جو ان کو وحی کی جاتی ہے۔ ’’کچھ کہتے ہیں‘‘ میں سب کا احاطہ ہو گیا کہ جو بھی کہتے ہیں اس وحی کے لحاظ سے ہے۔ اس وجہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی جو باقی باتیں ہیں وہ بھی آپ ﷺ کی نبوت سے ناشی ہیں اور جن کو صرف دنیا کے انتظامی نقطۂ نظر سے کہا گیا تھا ان کے لئے با قاعدہ خصوصی طور پر فرمایا گیا ’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ‘‘ (مسلم، حدیث :6277) ’’تم اپنے دنیا کے کام کو اچھی طرح جانتے ہو‘‘۔
چنانچہ دنیا کے کاموں کو اس سے علیحدہ کر لیا گیا ہے اور جو دین کے کام ہیں اور جس درجہ کے بھی انتظامات ہیں جو آپ ﷺ نے کئے ہیں وہ سب کے سب ہمارے لئے نمونہ ہیں۔ اس وجہ سے دین کی ہر بات کا بنیادی اصل قرآن اور سنت ہے، قرآن وحی متلو ہے اور سنت وحی غیر متلو ہے۔ لہذا یہ دونوں چیزیں چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے سے بھیجی ہیں لہذا جتنا جتنا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ مضبوط ہو گا قرآن کے ساتھ بھی اتنا ہی تعلق مضبوط ہو گا اور وحی غیر متلو کے ساتھ بھی اتنا تعلق مضبوط ہو گا اور وحی غیر متلو یعنی آپ ﷺ کی اتباع چونکہ اللہ پاک نے وحی متلو میں بتا دی ہے جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ﴾ (آل عمران: 31) ’’اے میرے حبیب اپنی امت سے کہہ دیں اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کر لو۔ اللہ پاک تم سے محبت کرنے لگیں گے‘‘۔ اور یہ اتباع شخصیت کی ہوتی ہے کتاب کی نہیں ہوتی۔ کتاب پر تو عمل ہوتا ہے۔ اب جس شخصیت کی اتباع کا قرآن نے حکم دیا ہے تو یہ اتباع دائمی اتباع ہے۔ یہ نہیں کہ کسی ایک چیز میں ہے دوسری میں نہیں ہے۔ آپ ﷺ کی پوری سیرت میں اتباع ہے۔ نماز کے بارے میں فرمایا: ’’صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ‘‘ (سنن دار قطنی، حدیث نمبر: 2) حج کے بارے میں فرمایا کہ اگلے سال شاید میں آپ میں نہ رہوں، لہذا مجھ سے حج کے مسئلے اچھی طرح سیکھ لو۔ اس طرح روزے کے بارے میں، صدقہ و زکوٰۃ کے بارے میں، معاملات کے بارے میں، الغرض تمام چیزوں کے بارے میں آپ ﷺ نے احکام ارشاد فرمائے تھے۔ اب اس میں ایک قانونی اور گُر کی بات میں عرض کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ’’مَآ اَنَا عَلَيْهِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘ (ترمذی، حدیث: 2641) کہ جس طریقے پر میں چل رہا ہوں اور جس پر میرے صحابہ چلیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں آپ ﷺ کی سنت پر چلنا چاہیے یہ ’’مَآ اَنَا عَلَيْهِ‘‘ ہے۔ ’’وَ اَصْحَابِی‘‘ کا مطلب ہے کہ آپ ﷺ کی اس سنت پر چلنے کا طریقہ صحابہ سے سیکھنا چاہیے یعنی سنت کو اپنانے کا طریقہ صحابہ سے لینا چاہیے۔ لیکن بنیاد تو سنت ہے۔ اس وجہ سے قرآن اور سنت بنیاد ہیں۔ صحابہ کرام کے طریقے Case studies ہیں اور فقہاء کی فقاہت اس کی وضاحت کرتی ہے۔ صوفیاء اس پر عمل کرواتے ہیں۔ اس لئے ہر گروہ کی اپنی اپنی افادیت ہے۔ اب جو لوگ ان چیزوں کو نہیں مانتے وہ اصل میں انسان کو اس کی اصل اور حقیقت سے علیحدہ (detach) کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک دوسری بات ہے کہ عیسائیت کی طرح اللہ جل شانہ کی الوہی صفات میں شامل کرنا، اس کا تو خود آپ ﷺ نے رد فرمایا ہے۔ لہٰذا اس میں بھی ’’مَآ اَنَا عَلَيْهِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘ پر عمل ہو گا کہ آپ ﷺ نے خود اپنے بارے میں کیا فرمایا اور آپ ﷺ کے بارے میں قرآن میں اللہ نے کیا فرمایا اور آپ ﷺ کے بارے میں صحابہ کرام نے کیا سمجھا۔ بس ان تینوں سے ہم صحیح صورتِ حال معلوم کر سکتے ہیں۔ باقی لوگوں کے اپنے خیالات ہیں۔ ان کے خیالات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن