تعلیمات مجددیہ درس 11




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿وَ الْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ إِلَّا الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر: 1-3) صَدَقَ اللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ

ترجمہ: ’’زمانے کی قسم! انسان در حقیقت بڑے گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں، اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کریں، اور ایک دوسرے کو صبر کی نصحیت کریں‘‘۔

معزز خواتین و حضرات! ابھی میں نے آپ کے سامنے سورۃ العصر تلاوت کی ہے۔ اس میں اللہ جل شانہ زمانے کی قسم کھا کر ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک انسان خسارے میں ہے، مگر وہ انسان خسارے سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں، جنہوں نے نیک اعمال کئے ہیں، جو حق کی وصیت کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔

اس سورت میں اعمال صالحہ کا ذکر ایمان کے بعد دوسرے نمبر پر کیا گیا ہے۔ چوں کہ عقائد کے بارے میں تفصیل کے ساتھ بات ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے اب اعمال صالحہ کی بات چل پڑی ہے۔ اعمالِ صالحہ میں سب سے پہلے نماز کا ذکر آتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات شریفہ میں جس طریقہ سے ان چیزوں کو اپنے متعلقین کے لئے واضح فرمایا تھا اور انہیں تلقین فرمایا تھا، اسی طریقہ سے ان چیزوں کو ہم آج بیان کریں گے ان شاء اللہ۔ ظاہر ہے کہ دین تو سمندر ہے اور علم کے سمندر کا کوئی احاطہ نہیں کر سکتا، لیکن اِس وقت ہم صرف وہ مضامین بیان کریں گے، جو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمائے ہیں۔

ہم حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ کے بیان کردہ مضامین کیوں بیان کرتے ہیں؟ ہمیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اگرچہ یہ مضامین دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً نماز کے بارے میں تفصیل نماز کی کتابوں میں موجود ہے۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ جسے صرف مجدد صاحب رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہو۔

دراصل ہر شخص پر اس کا اپنا مسلک اور طریقہ حجت ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص اپنے آپ کو مجددی کہتا ہے اور پھر اُن غلطیوں میں مبتلا ہے، جن کی تصحیح حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کر چکے ہیں۔ تو اُس کے اوپر مجدد صاحب رحمہ اللہ کا قول حجت ہو گا۔ اُس کے سامنے جب حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی باتوں کو رکھا جائے گا تو وہ انکار نہیں کر سکے گا، بلکہ اپنی اصلاح کرے گا۔ یہ بنیادی بات ہے۔

الحمد للہ! چوں کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بہت بڑا حلقہ ہے، اس لئے مجددی حضرات کے لئے یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کے ذریعہ سے ان کو یہ باتیں پہنچ جائیں۔

اصل میں ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ الحمد للہ ہم تو سارے سلسلوں کی بات کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں تفریق نہیں ہے، اگرچہ الحمد للہ ہماری اپنی نسبت نقشبندی ہے۔ جیسا کہ ہمارے شیخ نے فرمایا تھا۔ لیکن ہم صرف اپنی بات نہیں کرتے، ہم سارے سلسلوں کی بات کرتے ہیں، کیوں کہ ہمارے لئے سارے سلسلے محترم ہیں، اس لئے ہم جس وقت بھی بات کرتے ہیں، کسی خاص سلسلہ کی بات نہیں کرتے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اپنے بڑوں سے جو سیکھا ہے، وہ ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات جو اللہ تعالیٰ نے ہم تک اُن حضرات کی توجہات کی برکت سے پہنچائی ہیں۔ یہ ہمارے پاس مجددی حضرات کی ایک امانت ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہزار سال کے مجدد ہیں۔ لہذا پورے ہزار سال جو آنے والے ہیں، ان کے اوپر حضرت کا فیض پھیلا ہوا ہے۔ گذشتہ چار سو سال سے چلا ہوا ہے اور اگر دنیا کی زندگی رہی اور دنیا باقی رہی، تو مزید چھ سو سال تک بھی جاری رہے گا۔ ان شاءاللہ۔ لیکن اس بات میں ایک بڑا عجیب نکتہ ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو وہ نکتہ سمجھ نہیں آتا۔ وہ نکتہ یہ ہے کہ جب حدیث شریف میں آ گیا کہ ہر صدی کی ابتداء میں ایک مجدد آئے گا۔ دین کے اندر جو نئی چیزیں پیدا ہو چکی ہوں گی، وہ اُن کو نکالے گا۔ یہ حدیث شریف تو قیامت تک کے لئے ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کی تکمیل کر چکے، لیکن اس کے بعد بھی مجدد کی ضرورت ہے تو کیا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد مجدد کی ضرورت نہیں ہو گی؟ بالکل مجدد کی ضرورت ہو گی۔ اس بات کو سمجھنا چاہئے۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی مجدد تھے۔ ان کا اپنا فیض تھا۔ اُس وقت اُس صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ لیکن ان کے ساتھ مجددی نسبت باقاعدہ ملی ہوئی تھی، اگرچہ ان کا اپنا ایک اثر بھی تھا۔ لہذا جن لوگوں کو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مناسبت تھی، ان کے لئے مسئلہ بہت آسان تھا۔ ان کے لئے سمجھنا کچھ مشکل نہیں تھا۔

اسی طرح جب سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ آئے، تو چوں کہ وہ بھی مجدد تھے، اس لئے ان کے ساتھ بھی مجددی نسبت شامل تھی۔ لیکن ان کی اپنی خاص نسبت میں جن لوگوں کو ان کے ساتھ مناسبت تھی، ان کے لئے بہت فائدہ تھا۔

پھر حضرت موالانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی مجددی ہیں، کیوں کہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ بھی پہلے نقشبندی تھے، بعد میں چشتی ہو گئے۔ گویا ان میں دونوں رنگ ہیں اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ انہی کے خلیفہ ہیں۔ اس لحاظ سے مجددی نسبت ان میں بھی شامل ہے، لیکن ان کا اپنا رنگ بھی موجود ہے۔ لہذا آج کل کے دور میں دونوں مجددوں کے ساتھ اپنی مناسبت رکھنی چاہئے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی مناسبت ہو اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی۔ تب بات بنتی ہے۔

لیکن ہمارے بعض مجددی حضرات اس بات کو نہیں سمجھتے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہمارے لئے یہی بات کافی ہے کہ ہم مجددی ہیں۔ یہ تو بالکل وہی بات ہو گئی، جو بعض غیر مقلد کہتے ہیں کہ ہم محمدی ہیں، ہمیں حنفیت کی کیا ضرورت ہے؟ ہمیں شافعیت کی کیا ضرورت ہے؟ نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ ہم سب محمدی ہیں لیکن اس کے ساتھ حنفی بھی ہیں۔ اسی طرح جو شافعی، مالکی یا حنبلی ہیں، وہ بھی محمدی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں جو مجددی تھے، وہ مجددی ہونے کے ساتھ ولی اللّٰہی بھی تھے۔ سید احمد شہید رحمہ اللہ کے دور میں مجددی حضرات، مجددی ہونے کے ساتھ ساتھ احمدی (یعنی سید احمد شہید رحمہ اللہ سے نسبت رکھنے والے) بھی تھے۔ اور اب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں مجددی حضرات تھانوی بھی ہیں۔

اس لئے ہم تو الحمد للہ سب سے نفع اٹھاتے ہیں۔ لہذا درمیان میں کوئی ایسی بات نہیں آتی کہ جس میں ہمارے لئے کوئی اشکال ہو یا کوئی مشکل ہو۔ لیکن بہر حال ہم یہ بات ضرور کریں گے کہ ہمیں اس بات کو جاننا اور سمجھنا چاہئے۔

حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مکتوب نمبر 304 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

حمد و صلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ یہ فقیر مدت تک اس تردد میں رہا کہ اعمالِ صالحہ سے مراد وہ کون سے اعمال ہیں جن پر حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید کی اکثر آیات میں دخولِ بہشت کے وعدہ کو موقوف فرمایا ہے؟ آیا تمام اعمالِ صالحہ مراد ہیں یا ان میں سے بعض ہیں؟ اور اگر تمام اعمالِ صالحہ مراد ہیں، تو یہ امر تو بہت مشکل ہے۔ کیوں کہ تمام اعمالِ صالحہ کے بجا لانے کی توفیق شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔ اور اگر بعض اعمالِ صالحہ مراد ہیں تو یہ بات مجہول اور غیر معین ہے کہ وہ کون سے بعض مراد ہیں۔ آخر محض فضلِ خداوندی جل سلطانہ سے یہ بات دل میں آئی کہ اعمالِ صالحہ سے مراد شاید اسلام کے پانچ ارکان (کلمہ شہادتِ توحید و رسالت، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج) ہیں جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔

تشریح:

’’بُنِيَ الْاِسْلَامُ عَلیٰ خَمْسٍ‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر: 8)

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

متن:

اگر اسلام کے اصولِ پنجگانہ کامل طور پر ادا ہو جائیں، تو امید ہے کہ فلاح و نجات حاصل ہو جائے گی۔ کیوں کہ یہ اپنی ذاتی حدود میں اعمالِ صالحہ ہیں اور تمام برائیوں سے اور منکرات سے روکنے والے ہیں۔

تشریح:

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بڑا عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں نماز پڑھی جائے تو نماز کی صفت ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ لَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔

یہ نافذ ہو جائے گی اور اس کے مطابق اصلاح ہو جائے گی۔ اگر صحیح معنوں میں روزے رکھے جائیں تو تقویٰ نصیب ہو جائے گا۔ صحیح معنوں میں زکوٰۃ دی جائے تو بخل سے نجات حاصل ہو جائے گی۔ صحیح معنوں میں حج کیا جائے تو عشق و محبت بھی حاصل ہو جائے گی۔

الغرض ساری چیزیں ان اعمال کے اندر موجود ہیں۔ لیکن چوں کہ ہم (ان اعمال کی ادائیگی میں) کمی کرتے ہیں، تبھی ان (مقاصد کے حصول) میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اور اصلاح کا نظام ان کمیوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اگر یہ کمیاں نہ ہوں، تو پھر تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں۔ اور یہ (یعنی کمیوں کی اصلاح کرنا) قرآن اور احادیثِ شریفہ سے ثابت ہے۔

متن:

مثلاً: نماز کے متعلق حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’’بیشک نماز تمام بے حیائیوں اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔

یہ آیت اس معنی پر شاہد ہے۔ اور جب اسلام کے ان پنجگانہ ارکان کا بجا لانا میسر ہو جائے، تو امید ہے کہ حق تعالیٰ کا شکر بھی ادا ہو گیا اور جب شکر ادا ہو گیا تو عذاب سے بھی نجات حاصل ہو گئی کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿مَا يَفْعَلُ اللّٰهُ بِعَذَابِكُمْ اِنْ شَكَـرْتُـمْ وَ اٰمَنْتُـمْ (النساء: 147)

ترجمہ: ’’اگر تم اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لے آؤ تو وہ تمہیں کیوں عذاب دے گا‘‘۔

پس ان پنجگانہ ارکان کی ادائیگی میں دل و جان سے کوشش کرنی چاہئے۔ خاص طور پر نماز کے قائم کرنے میں جو دین کا ستون ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس کے آداب میں سے کسی ادب کے ترک کرنے پر راضی نہ ہونا چاہئے اور فرض، سنت، مستحب میں سے کسی کو بھی ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اگر نماز کو کامل طور پر ادا کر لیا تو گویا اسلام کی اصل عظیم نعمت حاصل ہو گئی اور نجات کے لئے حبلِ متین یعنی مضبوط رسّی مل گئی۔ وَ اللّٰہ سُبْحَانَہُ الْمُوَفِّقُ (اور اللّٰہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے)۔

تشریح:

دیکھیں! ما شاء اللہ اعمال صالحہ کی کیسی آسان تشریح فرمائی۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کا ذکر ہے اور اعمال صالحہ میں پہلا نمبر نماز کا ہے۔ اس کے بارے میں مکتوب نمبر 67 جلد دوم میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

عقائد کے درست ہونے کے بعد شرع کے اوامر کی تعمیل اور نواہی سے پرہیز کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ جن کا عمل سے تعلق ہے، ان سے چارہ نہیں ہے۔ پانچوں وقت نماز کو سستی و کاہلی کے بغیر تعدیلِ ارکان کے ساتھ باجماعت ادا کرنا چاہئے، کیوں کہ کفر اور اسلام کے درمیان فرق ظاہر کرنے والی صرف نماز ہی ہے۔ جب مسنون طریقے پر نماز ادا کرنا میسر ہوجائے گا، تو سمجھو کہ اسلام کی مضبوط رسی ہاتھ میں آ گئی، کیوں کہ اسلام کے پنجگانہ اصول میں سے دوسری اصل نماز ہے۔

اصلِ اول اللہ تعالیٰ جل شانہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا ہے۔ اصلِ دوم نماز ہے۔ اصلِ سوم زکوٰۃ کا ادا کرنا ہے۔ اصلِ چہارم ماہ رمضان کے روزے ہیں۔ اصلِ پنجم حجِ بیت اللہ ہے۔

اصلِ اول کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے۔ باقی چار اصول کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے۔ ان میں تمام عبادتوں کو جامع ترین اور افضل ترین طریقے سے ادائیگی (عبادت) کا نام نماز ہے۔ قیامت کے دن حساب کی ابتداء نماز ہی سے ہو گی۔ اگر نماز درست ہوئی، تو باقی دوسری باتوں کا محاسبہ بھی اللہ تعالیٰ سبحانہ کی عنایت سے آسانی سے گزر جائے گا۔ جہاں تک ہو سکے، شرعی ممنوعات سے بچنا چاہئے۔ مولیٰ جل شانہ کی نامرضیات کو زہرِ قاتل سمجھنا چاہئے۔ اپنے قصوروں کے مواد کو ہر وقت نظر میں رکھنا چاہئے۔ اپنی کار گزاریوں پر نادم اور شرمندہ ہونا چاہئے اور ندامت و حسرت اٹھانی چاہئے کہ بندگی کا طریقہ یہی ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُوَفِّقُ (اور اللہ سبحانہ ہی توفیق دینے والا ہے)۔

دفترِ اول، مکتوب نمبر 137 میں نماز کی بلندیِ شان یوں بیان فرماتے ہیں:

متن:

جاننا چاہئے کہ وہ لذت، جو عین نماز کی حالت میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں نفس کا کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ عین اس لذت کے وقت نالہ و فغاں میں ہوتا ہے۔ سبحان اللہ! کیا بلند مرتبہ ہے! مصرع

’’ھَنِیْئًا لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا‘‘۔

ترجمہ: ’’اربابِ نعمت کو نعمتیں مبارک ہوں‘‘۔

ہم جیسے بُو الْہَوَس (حریص آدمیوں) کو اس قسم کی باتوں کا کہنا اور سننا بھی بسا غنیمت ہے۔ مصرع

’’بارے ہیچ خاطرِ خود شاد می کنم‘‘۔

ترجمہ: ’’اسی خیال سے میں اپنے دل کو خوش کر لوں‘‘۔

اور نیز جان لیں کہ دنیا میں نماز کا مرتبہ آخرت میں رؤیتِ باری تعالیٰ کے مرتبہ کی مانند ہے۔ دنیا میں نہایتِ قرب، نماز کے اندر ہے اور آخرت میں نہایتِ قرب، اللہ تعالیٰ کے دیدار کے وقت ہو گا۔

اور یہ بھی جان لیں کہ باقی تمام عبادات نماز کے لئے وسیلہ ہیں اور اصل مقصد نماز ہی ہے۔ وَ السَّلَامُ وَ الْاِکْرَامُ

تشریح:

حضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالی کا قرب، رؤیتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ملے گا اور اس دنیا میں نماز کے ساتھ ملتا ہے، کیوں کہ نماز کے بارے میں فرمایا گیا: ’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُوْمِنِ‘‘۔ (مرقاۃ المفاتیح، ج: 2، ص: 624)

ترجمہ: ’’نماز مؤمن کے لئے معراج ہے‘‘۔

ذرا غور کر لیں! جس وقت ہم تکبیرِ تحریمہ یعنی ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ کہتے ہیں، تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ آدمی اِدھر نہیں رہا، اب یہ اللہ کے پاس ہے اور جس وقت وہ اس حالت سے واپس آئے گا، تو ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ‘‘ کہنے کے ساتھ دوبارہ دنیا میں واپس آئے گا۔ اس وجہ سے فرمایا کہ اس لحاظ سے دنیا میں نماز ایسے ہے، جیسے آخرت میں رؤیتِ باری تعالیٰ ہے۔

نماز کی اہمیت کے بارے میں مکتوب نمبر 20 دفترِ دوم میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

(جاننا) چاہئے کہ اعمال میں بہترین عمل اور عبادات میں بہترین عبادت، اقامتِ صلوٰۃ یعنی نماز کو قائم کرنا ہے۔ جو دین کا ستون اور مؤمن کی معراج ہے۔ اس لئے اس کے ادا کرنے میں بہت اہتمام کرنا چاہئے اور کامل احتیاط برتنی چاہئے۔ تاکہ نماز کے ارکان و شرائط اور سنن و آداب کما حقہ ادا ہو جائیں۔ طمانیت اور تعدیلِ ارکان کے بارے میں بار بار تاکید کی جاتی ہے کہ ان کی اچھی طرح محافظت کریں۔ اکثر لوگ نماز کو ضائع کر دیتے ہیں اور طمانیت و تعدیلِ ارکان کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حق میں بہت سی وعیدیں اور تہدیدیں وارد ہوئی ہیں۔ جب نماز درست ہو جائے، تو نجات میسر ہو جانے کی بڑی امید ہے، کیوں کہ نماز کے قائم ہونے سے دین قائم ہوجاتا ہے اور عروج کا مرتبہ اپنی معراج کو پہنچ جاتا ہے۔

باجماعت نماز کی اہمیت، آدابِ وضو اور آداب نماز کے بارے میں مکتوب نمبر 266 دفترِ اول میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اول، وضو کامل اور پورے طور پر کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے۔ ہر عضو کو تین بار با تَمام و کمال دھونا چاہئے، تا کہ سنت کے طریقہ پر وضو ادا ہو۔ اور سر کا مسح بالاستیعاب یعنی سارے سر کا مسح کرنا چاہئے اور کانوں اور گردن کے مسح میں خوب احتیاط کرنی چاہئے اور بائیں ہاتھ کی خضر یعنی چھنگلیا سے پاؤں کی انگلیوں کے نیچے کی طرف سے خلال کرنا لکھا ہے، اس کی رعایت رکھنی چاہئے۔ اور مستحب کے بجا لانے کو معمولی نہ سمجھیں۔ مستحب حق جل و علا کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب عمل ہے۔ اگر تمام دنیا کے عوض اللّٰہ تعالےٰ کا ایک پسندیدہ اور محبوب فعل معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق عمل میسر ہو جائے، تو غنیمت ہے۔

تشریح:

یہاں پر ایک بہت بڑی بات سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ مستحب کا معنی ہے پسندیدہ۔ مستحب کس کا پسندیدہ ہے؟ اللہ کا پسندیدہ ہے۔ پس جو عمل اللہ کا پسندیدہ ہے۔ اس کو کم سمجھنا انتہائی درجہ کی کمزوری کی بات ہے۔ اس لئے کبھی بھی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج میں مستحبات کو ترک نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن یہ ساری باتیں اپنی ذات تک محدود ہیں کہ انسان اپنے طور پر اپنے اوپر مستحبات کو نافذ کرے۔ دوسروں کے بارے میں ’’ظُنُّوْا بِالْمُوْْمِنِیْنَ خَیْراً‘‘ کا حکم ہے۔ اگر کوئی شخص مستحب ادا نہیں کر رہا تو آپ اس کو ملامت نہیں کر سکتے۔ ملامت کرنے پر پابندی ہے، کیوں کہ جب اللہ نے ملامت نہیں کی، تو آپ کون ہوتے ہیں ملامت کرنے والے؟

یہ ٹھیک ہے کہ مستحب ادا کرنے پر اس کی promotion (ترقی) ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ نے اس کو options (اختیارات) دئیے ہیں کہ چاہو تو کرو اور چاہو تو نہ کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا: اگر چاہو تو مستحب پر عمل کر لو۔ اس لئے مستحب ادا نہ کرنے پر دوسروں کو ملامت نہیں کرنا چاہئے۔

آج کل ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لئے تیز ہوتے ہیں اور اپنے لئے سُست ہوتے ہیں۔ یہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ اپنے لئے تیز ہونا چاہئے اور دوسروں کے لئے یہ خیال کرنا چاہئے کہ ممکن ہے اس کا کوئی عذر ہو۔ بعض دفعہ واقعتًا عذر ہوتا بھی ہے۔ اگر عذر نہ بھی ہو، تو جب اللہ پاک نے اس سے مطالبہ نہیں کیا، تو تم کون ہو مطالبہ کرنے والے؟

اس وجہ سے ترکِ مستحبات پر آپ پکڑ نہیں کر سکتے۔ ہاں شیخ پکڑ کر سکتا ہے۔ شیخ تو مباح عمل کو بھی طریقت کا راستہ بنا سکتا ہے۔ مثلاً: کسی کو کہہ دے کہ بھائی! باہر جو جوتے پڑے ہوئے ہیں، ان کو سیدھا کیا کرو۔ جوتے سیدھے کرنا اس کے لئے مجاہدہ ہو گا۔ اس کے ذریعہ اس کی اصلاح ہو گی۔ ورنہ کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ مسجد کے باہر لوگوں کے جوتے سیدھے کیا کرو؟ کیا کسی کتاب میں لکھا ہے؟ کیا جوتے سیدھے کرنا فرض، واجب، سنت یا مستحب ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ عمل نہ فرض ہے، نہ واجب، نہ سنت اور نہ مستحب ہے۔ لیکن اگر شیخ نے آپ کے لئے اس کو ایک مجاہدہ بنا لیا تو آپ کے لئے اس میں فائدہ ہو گا۔ اگر آپ اس میں چُو چرا کریں گے، تو کام خراب ہو جائے گا۔

حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ہے۔ جسے مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وعظ میں بیان کیا ہے کہ ایک شخص تھا، جس میں تکبر تھا۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ اخروٹوں کا ٹوکرا اپنے سر پر رکھو اور آواز لگاؤ کہ جو مجھے ایک تھپڑ لگائے گا، اسے ایک اخروٹ ملے گا۔ اُس نے کہا: اَللہُ اَکْبَرُ! میں ایسا کام کروں گا؟ حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بد بخت! اَللہُ اَکْبَرُ ایسا کلمہ ہے، جسے کافر پڑھ لے تو مسلمان ہو جائے، مگر تو نے یہ کلمہ پڑھ کے اپنے آپ کو کافرِ طریقت بنا لیا ہے۔ حضرت نے کافرِ طریقت فرمایا، کافرِ شریعت نہیں فرمایا۔ مطلب یہ تھا کہ تو نے اپنی اصلاح کا راستہ روک لیا ہے، اس کام میں تیری اصلاح تھی۔

آپ کو پتہ ہے کہ خود حضرت ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ کی اصلاح کیسے ہوئی تھی؟ شبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے علاقہ کے گورنر تھے۔ کسی مسئلہ پر بادشاہ کے ساتھ اختلاف ہو گیا تو استعفی دے دیا اور حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آ گئے کہ حضرت! میری اصلاح فرما دیں۔ حضرت نے فرمایا: آپ ما شاء اللہ اتنے بڑے آدمی ہیں، ہم کہاں آپ کی اصلاح کر سکتے ہیں! لیکن انہوں نے بڑی منت کی تو حضرت جنید رحمہ اللہ نے کہا: اچھا، ٹھیک ہے۔ اب اگر میں آپ سے مال کا مطالبہ کروں کہ اتنا مال دے دیں، تو یہ تو آپ کر نہیں سکتے، کیوں کہ آپ کے پاس مال نہیں ہے۔ میں آپ کو ایک اور طریقہ بتاتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جس علاقے میں آپ گورنر رہے ہیں، وہاں پر آپ نے ایک سال ریڑھی وغیرہ پر سبزی بیچنی ہے۔ آج کل لوگوں نے پتا نہیں سبزی بیچنے کو کیا سمجھا ہوا ہے! لیکن خیر! شبلی رحمہ اللہ مخلص تھے، تیار ہو گئے۔ پورا ایک سال سبزی بیچ کر پھر آئے۔ حضرت نے امتحان لیا۔ فرمایا: نہیں، ابھی کچھ کسر ہے، ابھی کچھ خُو بُو باقی ہے۔ پھر دو سال مزید سبزی بیچی۔ تین سال پورے کئے۔ پھر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے کچھ سوالات کئے تو انہوں نے ان سوالات کے جوابات صحیح دئیے۔ تب حضرت نے ان کو اجازت دے دی اور ما شاء اللہ شبلی سے شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ بن گئے۔ اور ایسا مقام پایا کہ جنید و شبلی دونوں کے نام باقاعدہ ایک ساتھ آتے ہیں۔ اتنے اونچے مقام پر چلے گئے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ شیخ آپ کے لئے تربیت کے طور پر مباح امر بھی لازم کر سکتا ہے۔ شریعت کے طور پر لازم کرنے کا شیخ کو بھی اختیار نہیں۔ لیکن تربیت کے طور پر بڑی گنجائش ہے۔ مثلاً: کوئی چیز آپ نہیں کھاتے، لیکن جب آپ بیمار ہو جائیں، تو ڈاکٹر آپ کو کھلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیز کھاؤ۔ وہ کوئی کھانے کی چیز نہیں ہوتی، لیکن چوں کہ اس میں علاج ہوتا ہے، اس لئے کھانی پڑتی ہے۔ چنانچہ لوگ کھاتے ہیں اور اس سے صحت ہو جاتی ہے۔

بات یہ ہو رہی تھی کہ اپنے لئے تو مستحبات کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن دوسروں کے معاملے میں کافی احتیاط کرنی چاہئے۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر کسی نے کسی مستحب کے ساتھ واجب جیسا معاملہ کیا یعنی اس کو واجب اور لازمی سمجھنے لگا تو اس کے لئے اس کا ترک کرنا واجب ہو جائے گا۔ تاکہ اس کا دماغ ٹھیک ہو جائے۔ وہ اس کو واجب کیوں سمجھ رہا ہے؟ یہ مسائل ہیں اور ان کو سمجھنا ہوتا ہے۔

متن:

مستحب حق جل و علا کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب عمل ہے۔ اگر تمام دنیا کے عوض اللّٰہ تعالےٰ کا ایک پسندیدہ اور محبوب فعل معلوم ہو جائے اور اس کے مطابق عمل میسر ہو جائے، تو غنیمت ہے۔ اس کا بعینہ یہی حکم ہے کہ کوئی زخرف ریزوں (یعنی ٹھیکروں) سے نفیس جواہر خرید لے اور بے فائدہ جماد (یعنی پتھر) سے روح کو حاصل کرلے۔ کمالِ طہارت اور کمالِ وضو کے بعد نماز کا قصد کرنا چاہئے جو کہ مومن کی معراج ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ فرض نماز باجماعت ادا ہو، بلکہ امام کے ساتھ تکبیرِ اولیٰ بھی ترک نہیں ہونی چاہئے اور نماز کو مستحب وقت میں ادا کرنا چاہئے۔ قرات میں قدرِ مسنون کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ رکوع و سجود میں بھی طمانیت ضروری ہے، کیوں کہ یہ فرض ہے یا بقولِ مختار واجب ہے۔ قومہ میں اس طرح سیدھا کھڑا ہونا چاہئے کہ تمام بدن کی ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر آ جائیں اور سیدھا کھڑے ہونے کے بعد طمانیت درکار ہے، کیوں کہ طمانیت فرض ہے یا واجب یا سنت، علی اختلافِ الاقوال۔

تشریح:

یعنی قومہ میں طمانیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک فرض ہے، بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے۔

متن:

ایسے ہی جلسہ میں جو دو سجدوں کے درمیان ہے، اچھی طرح بیٹھنے کے بعد اطمینان ضروری ہے، جیسا کہ قومہ میں۔ اور رکوع و سجود کی کم سے کم تسبیحیں تین بار ہیں اور زیادہ سے زیادہ سات بار یا گیارہ بار ہیں، علی اختلافِ الاقوال۔ اور امام کی تسبیح مقتدیوں کے حال کے اندازہ کے مطابق ہونی چاہئے۔ شرم کی بات ہے کہ انسان تنہا (نماز) پڑھنے کی حالت میں طاقت ہوتے ہوئے اَقل تسبیحات پر کفایت کرے۔ اگر زیادہ نہ ہو سکے تو کم از کم پانچ یا سات بار تو کہے۔ اور سجدہ کرتے وقت اول وہ اعضاء زمین پر رکھے جو زمین کے نزدیک ہیں۔ پس اول دونوں زانو زمین پر رکھے، پھر دونوں ہاتھ، پھر ناک، پھر پیشانی۔ زانو اور ہاتھ زمین پر رکھتے وقت دائیں طرف سے ابتداء کی جائےـــ اور سر اٹھاتے وقت اول ان اعضاء کو اٹھانا چاہئے جو آسمان سے نزدیک ہیں۔ پس پہلے پیشانی اٹھانی چاہئے۔ اور قیام کے وقت اپنی نظر کو سجدہ کی جگہ پر اور رکوع کے وقت اپنے پاؤں پر اور سجدے میں ناک کی نوک پر اور جلوس کے وقت اپنے دونوں ہاتھوں پر یا اپنی گود کی طرف نظر رکھنی چاہئے۔ جب نظر پراگندہ ہونے سے روک لی جائے اور مذکورہ بالا جگہوں پر جما لی جائے، تو سمجھ لینا چاہئے کہ نماز بجمعیت اور حضورِ دل کے ساتھ میسر ہوگئی۔

تشریح:

اس (عبارت) میں ایک زبرست نکتہ ہے۔ نماز میں مشغول ہونا چاہئے اور نماز میں جمعیتِ خاطر ہونی چاہئے۔ یہ دونوں باتیں آپ نے بہت زیادہ سنی ہوں گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں کیسے حاصل ہوں گی؟

ان (کے حصول) کے لئے حضرت نے فرمایا: جب آپ ان مستحبات میں جو کہ نماز میں continuous (مسلسل) موجود ہیں، مشغول رہیں گے۔ تو یہ نماز ہی میں مشغولی ہے۔ اگر آپ فارغ ہوں گے، تو کبھی کچھ سوچیں گے، کبھی کچھ سوچیں گے۔ لیکن جب آپ ان تمام مستحبات میں مشغول رہیں گے، جیسے مثال کے طور پر آپ کی نظر سجدے کی جگہ پر ہو اور آپ کا خیال ہو کہ نماز میں سجدہ کی جگہ پر نظر ہونی چاہئے اور اسی طرح یہ خیال ہو کہ سجدہ کیسا ہونا چاہئے، رکوع کیسا ہونا چاہئے اور قعدہ کس طرح ہونا چاہئے اور آپ ان تمام چیزوں کے بارے میں متفکر ہیں کہ ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر صحیح ترتیب کے ساتھ ہونی چاہئے۔ تو ان تمام چیزوں میں آپ کو مستقل فکر ہے کہ یہ چیز ایسی ہونی چاہئے اور یہ چیز ایسی ہونی چاہئے۔ اس فکر کے ساتھ آپ نماز میں مشغول ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ نماز ہی میں مشغول ہیں۔

ما شاء اللہ! بذریعۂ مستحبات نماز میں مشغولی کا جو طریقہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرما دیا ہے، یہ بہت بڑی بات ہے۔ آپ نماز کے مستحبات میں مشغول ہو جائیں، تو آپ کو نماز کے اندر مشغولی اور جمعیتِ خاطر نصیب ہو جائے گی۔ ما شاء اللہ! یہ بہت پتے کی بات ہے۔

متن:

اور خشوع کے ساتھ ادا ہوگئی، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے۔ اور ایسے ہی رکوع کے وقت دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کُھلا رکھنا اور سجود کے وقت انگلیوں کا ملانا (سنت ہے)۔

تشریح:

اور نیت میں (تکبیرِ تحریمہ کے وقت بھی انگلیوں کا ملانا)۔ بعض لوگ تو نیت اس طرح کرتے ہیں (کہ ہاتھوں سے کانوں کو پکڑ لیتے ہیں) حالاں کہ اس طرح طریقہ نہیں ہے۔ ہاتھوں کو کانوں کے محاذات تک اٹھانا (سنت) ہے، نہ کہ کانوں کے ساتھ ملانا۔ ہتھیلیوں کا رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے۔ اسی طرح سجدے کی حالت میں بھی (انگلیوں کا ملانا سنت ہے) یعنی دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگر قیام سے بالکل سیدھے آپ نیچے کی طرف آ جائیں، تو سجدے میں چلے جائیں ( یعنی انگلیوں کو کھولنا نہیں ہے)۔ لیکن رکوع میں چوں کہ گھٹنہ پکڑنا ہوتا ہے، اس لئے انگلیاں کھلی ہوتی ہیں۔

متن:

(رکوع کے وقت) دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھلا رکھنا اور سجود کے وقت انگلیوں کا ملانا سنت ہے۔ اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ انگلیوں کا کھلا رکھنا یا ملانا بے تقریب و بے فائدہ نہیں ہے۔ صاحبِ شرع نے اس میں کئی قسم کے فائدے ملاحظہ کر کے اس پر عمل فرمایا ہے۔ نیز صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کے برابر کوئی فائدہ نہیں ہے۔

یہ سب احکام مفصل اور واضح طور پر کتبِ فقہ میں درج ہیں۔ یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ علمِ فقہ کے مطابق عمل بجا لانے میں ترغیب ہو۔

تشریح:

اس (عبارت) میں حضرت نے ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور وہ اشارہ یہ فرمایا ہے کہ میں نے آپ کو فقہ کی باتیں بتائی ہیں اور فقہی مسائل میں اسی بات پر عمل کرنا چاہئے، جو فقہ کی کتابوں میں موجود ہے۔

لہذا اگر کسی بات میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فقہ میں موجود مسئلے سے اختلاف ہو، تو اس میں مفتٰی بہ قول پر عمل کرنا چاہئے، کیوں کہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے۔ طریقت کا مسئلہ نہیں ہے۔

میں آپ کو ایک بہت اہم بات بتاتا ہوں، جس میں ہم سب حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ پر عمل نہیں کرتے، بلکہ فقہ کے مفتیٰ بہ قول پر عمل کرتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے مجددی حضرات (بھی اس مسئلے میں فقہ پر عمل) کرتے ہیں۔ آپ کو ’’رفعِ سبابہ‘‘ کا مسئلہ یاد ہو گا یعنی تشہد میں انگلی اٹھانا! حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ تشہد میں بالکل انگلی اٹھانے کے قائل ہی نہیں ہیں، لیکن اس مسئلے میں ہم حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ والا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ بلکہ ایک بہت بڑے مجددی بزرگ گزرے ہیں یعنی ’’حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ‘‘۔ یہ ’’تفسیرِ مظہری‘‘ کے مصنف قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ کے شیخ تھے۔ اسی لئے (مصنف نے) اس تفسیر کا نام ’’تفسیرِ مظہری‘‘ اپنے شیخ کے نام پر رکھا ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ’’رفعِ سبابہ‘‘ کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو وہ حدیثیں نہیں پہنچی تھیں، جو ہم تک پہنچی ہیں۔ اگر حضرت کو پہنچی ہوتیں تو حضرت اپنی بات سے رجوع فرماتے۔

اب دیکھئے! ہمارے دیوبند کے تقریباً سب بزرگ طریقت میں مجددی ترتیب پر ہیں، کیوں کہ یا تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے طریقے پر ہیں یا پھر نقشبندی سلسلے کے طریقے پر ہیں۔ ہر طرح سے تقریباً مجددی طریقے سے جا ملتے ہیں۔ لیکن اس ’’رفع سبابہ‘‘ کے مسئلہ میں ہمارا فتویٰ اس چیز پر نہیں ہے، جس پر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عمل کرتے تھے۔

حضرت بالکل درمیان درمیان میں ایسی باریک باریک باتیں فرما دیتے ہیں۔ اس لئے فرمایا: ’’یہ سب احکام مفصل اور واضح طور پر کتب فقہ میں درج ہیں۔ یہاں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ علمِ فقہ کے مطابق عمل بجا لانے میں ترغیب ہو‘‘۔

اس عبارت میں حضرت مجدد صاحب نے آپ کو یہ اشارہ دے دیا ہے کہ فقہ کی کتابوں کے مطابق جو مسئلہ ہو، اس پر عمل کرو۔ مثلاً: اگر حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ شافعی ہوتے، تو کیا ہم ان کی طرح نماز پڑھتے؟ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ شافعی المسلک تھے، تو کیا جتنے چشتی ہیں، وہ سارے شافعی مسلک والے ہو جائیں؟ ہمارے ہندستان میں تو کوئی بھی چشتی شافعی مسلک کا نہیں ہے۔

لہٰذا فقہی تحقیق اپنے انداز میں ہے۔ اس میں آپ تصوف کو نہیں لائیں گے، بلکہ تصوف میں فقہ کو لائیں گے۔ اس لئے بنیادی بات یہ ہے کہ ہر چیز آپ کو اس کے ماہرین سے لینا ہو گی۔ فقہ کا مسئلہ آپ فقہ کے ماہرین سے لیں گے اور طریقت کا مسئلہ طریقت کے ماہرین سے۔

اصل میں یہ بہت اہم بات ہے کہ طریقت میں آپ کسی سے علمی کمال نہ مانگیں۔ بہت سارے مشائخ جو بالکل اَن پڑھ تھے، لیکن وہ بڑے بڑے حضرات کے مشائخ تھے۔

حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید بڑے محدث تھے۔ خود ’’حضرت ملا نظام الدین سہالوی رحمۃ اللہ علیہ‘‘ جن کے نام پر ہمارا یہ درس نظامی ہے، لیکن ان کے شیخ شاہ عبدالرزاق ہانسوی رحمۃ اللہ علیہ بالکل ان پڑھ تھے۔ ملا نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ سو کے لگ بھگ علماء کو جمع کر کے یہ درس نظامی بنایا تھا۔ ان علماء نے اعتراض کیا کہ آپ کے شیخ عالم نہیں ہیں۔ ان کو اس کی وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی۔ انہوں نے اپنے شیخ سے اس کا ذکر کیا اور درخواست کی کہ حضرت! اگر آپ ان کے سامنے وعظ کر لیں تو یہ مطمئن ہو جائیں گے، کیوں کہ یہ مجھے تنگ کر رہے ہیں۔ حضرت نے دو رکعت نماز پڑھی اور رو کر دعا کی کہ اے اللہ! ایک بہت بڑے عالم کی عزت کا مسئلہ ہے۔ اپنی عزت کا نہیں کہا، بلکہ کہا کہ ایک بہت بڑے عالم کی عزت کا مسئلہ ہے۔ یا اللہ! مدد فرما دے۔ اس کے بعد جب بیان کے لئے بیٹھے، تو سبحان اللہ! ایسے علوم کے دریا بہا دیئے کہ وہ علماء پہلے تو دور دور بیٹھے ہوئے تھے یعنی سمجھتے تھے کہ یہ تو اَن پڑھ ہے، یہ کیا بیان کرے گا، لیکن حضرت نے جب علوم کے دریا بہائے تو پھر وہ قریب آ گئے۔ اخیر میں حضرت نے کہا: خدا کے بندو! تم نے چھوٹے چھوٹے حروف میں علم پڑھا ہے۔ ہمیں اللہ پاک نے اتنے موٹے موٹے حروف کے ساتھ علم پڑھایا ہے یعنی علمِ لَدُنِّی کی طرف اشارہ کیا۔ اگر اللہ پاک کسی پر یہ علم کھول دے، تو کوئی کیا کہہ سکتا ہے! اللہ کا فضل ہے۔

اس لئے ہمیں کبھی بھی مشائخ سے فقہ کی مہارت کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔ صرف فرضِ عین درجہ کا علم کافی ہے، کیوں کہ یہ علم سب پر فرض ہے۔ اسے جاننا ہر ایک پر لازم ہے۔ لیکن فرضِ کفایہ درجہ کا جو علم ہے، وہ ان سے طلب نہیں کریں گے۔کسی مفتی سے اگر وہ شیخ نہ ہو، آپ اپنی تربیت نہیں کروائیں گے۔ اور شیخ سے اگر وہ مفتی نہ ہو، آپ فتویٰ نہیں پوچھیں گے۔ گڑبڑ خود لوگوں میں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشانی اٹھاتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ مفتی سے اگر وہ شیخ نہیں ہے، تربیت نہ کرواؤ اور شیخ سے اگر وہ مفتی نہیں ہے، فتویٰ طلب نہ کرو۔ ’’لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ‘‘ ہر فن کے لئے مخصوص لوگ ہیں۔ اللہ پاک نے جس شخص کو جس فن کے لئے پیدا کیا ہے، اس فن میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ اگر کوئی انجینئر ہے، تو اس سے انجینئرنگ میں مدد لو۔ اگر کوئی ڈاکٹر ہے، تو اس سے ڈاکٹری میں فائدہ اٹھاؤ۔ اگر scientist (سائنس دان) ہے، تو سائنس میں فائدہ اٹھاؤ۔ یہ کیا بات ہوئی کہ آپ انجینئر کے پاس جا کر کہیں کہ میرے سر میں درد ہے، میں کیا کروں؟ وہ کہے گا: اپنے دماغ کا علاج کراو، کیوں کہ میں ڈاکٹر تو نہیں ہوں۔

بہرحال! حضرت نے جو اشارہ دیا ہے، اس اشارے سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

مکتوب نمبر 69 دفترِ دوم میں نماز کی ہئیت، حقیقت اور برکات کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

چوں کہ اس زمانے میں اکثر لوگ نماز کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں اور طمانیت اور تعدیلِ ارکان میں کوشش نہیں کرتے (یعنی ہر رکن کو اطمینان کے ساتھ ادا نہیں کرتے)، اس لئے اس بارے میں بڑی تاکید اور مبالغہ کے ساتھ لکھا جاتا ہے، غور سے سنیں۔

مخبر صادق علیہ الصلٰوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ چوروں میں سب سے بڑا چور وہ ہے، جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی نماز سے کوئی کس طرح چُراتا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ نماز میں چوری یہ ہے کہ وہ نماز کے رکوع، سجود کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا- (صحیح ابنِ حبان، حدیث نمبر: 1888) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: خدائے جل شانہ اس شخص کی نماز کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، جو رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ کو ثابت (سیدھا) نہیں رکھتا- (مشکوۃ المصابیح، حدیث نمبر: 904) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا کہ رکوع و سجود پوری طرح ادا نہیں کر رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا؟ اگر تو اسی عادت پر مرا تو دینِ محمدی پر تیری موت نہیں ہو گی- (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 791)

تشریح:

میں بہت حیران ہو جاتا ہوں۔ اللہ معاف فرمائے۔ مستحبات میں تو انسان کو ملامت نہیں کرنی چاہئے، کیوں کہ اس میں ہمیں ملامت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن واجبات میں تو بہت خیال رکھنا چاہئے۔ نماز میں قومہ اور جلسہ کے دوران سیدھا ہونا واجب ہے۔ بے شک تھوڑی دیر کے لئے ہی ہو، لیکن اتنا سیدھا ہونا کہ کم از کم ہڈیاں اپنی جگہ پر آجائیں، واجب ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ بہت سارے لوگ نماز پڑھتے ہیں، لیکن ابھی تھوڑے سے اٹھے ہوتے ہیں کہ دوبارہ سجدہ کر لیتے ہیں اور رکوع کی حالت میں بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے باقاعدہ کپڑے بھی سمیٹ لیتے ہیں۔ یہ نماز کے ساتھ کھیل ہے۔ نماز کو خراب کر رہے ہیں۔ ایسے حضرات کو نرمی سے سمجھانا چاہئے۔

حضرت تنظیم الحق حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو خود پٹھانوں کی طرح نماز تیز پڑھتے تھے۔ پٹھانوں کا اپنا ایک سٹائل ہے وہ اس سٹائل سے نماز پڑھتے تھے، لیکن قومہ اور جلسہ میں جو ضروری درجہ ہے، اسے تو وہ پورا کرتے تھے، کیوں کہ نماز تو وہ صحیح پڑھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حج کے موقع پر ایک افغانی نماز پڑھ رہے تھے اور اسی طرح پڑھ رہے تھے، جس طرح میں نے کہا کہ بس تھوڑا سا اوپر اور پھر نیچے۔ رکوع کی حالت میں بھی وہ اسی طرح جلدی کر رہے تھے۔ جب افغانی نے نماز پڑھ لی، تو حضرت نے ان کے سامنے جھولی پھیلائی اور کہا: میں تیرے سامنے جھولی پھیلاتا ہوں، خدا کے لئے بس فرض نماز، واجب نماز اور سنتِ مؤکدہ پڑھو، مگر نفل نہ پڑھو۔ اس نے کہا: وہ کیوں؟ انہوں نے کہا: اس لئے کہ تم قرض دار بن رہے ہو۔ فرض نماز تو جیسے بھی ہو، آپ نے پڑھنی ہی ہے، کیوں کہ وہ وقت کے مطابق فرض ہے۔ اس میں تو اللہ تعالی آپ کے ساتھ جو معاملہ کرے گا، وہ ایک الگ بات ہے۔ سنت مؤکدہ اور واجب نماز بھی پڑھو، لیکن نفل نماز اگر تم غلط پڑھ رہے ہو تو تمہارے اوپر وبال جمع ہو رہا ہے۔ غلط نماز پڑھ کے تم اپنے اوپر وبال جمع کر رہے ہو، اس لئے خدا کے لئے نفل نہ پڑھو، ورنہ دنیا سے قرض دار جاؤ گے۔

یہ بات بالکل صحیح ہے۔ دیکھیں! اگر وقت نہیں ہے، تو مغرب کے وقت صرف دو رکعت سنتیں پڑھ لو اور نماز پوری کر لو۔ اگر لمبی دعا نہیں کر سکتے، وقت نہیں ہے، تو مختصر دعا کر لو۔ ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً‘‘ اتنی دعا بھی کافی ہے، یہی ایک دعا کر لو، لیکن دل سے کرو۔ ایسا نہ کرو کہ جیسے کسی نے کوئی چیز یاد کی ہوتی ہے اور پانچ منٹ دس منٹ جتنا ٹائم ہوتا ہے، اس میں بالکل فر فر پڑھ رہا ہوتا ہے اور یہ ہوش نہیں ہوتا کہ میں کدھر ہوں، دل نہیں لگ رہا ہوتا۔ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح نماز اور دعا کے ساتھ غفلت اور عجلت کا معاملہ نہیں کرنا چاہئے، کیوں کہ نماز اور دعا کرنا اللہ پاک کا حکم ہے۔

متن:

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم میں سےکسی کی نماز اس وقت تک کامل نہیں، جب تک کہ رکوع کے بعد پوری طرح کھڑا نہ ہو اور اپنی پیٹھ کو سیدھا نہ کرلے اور اس کا ہر ایک عضو اپنی جگہ قرار نہ پکڑ لے- (الترغیب و الترھیب، حدیث نمبر: 763) اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جوشخص دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کے وقت اپنی پشت کو سیدھا نہیں کرتا، اس کی نماز کامل نہیں ہوتی- (الترغیب و الترھیب، حدیث نمبر: 763) آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایک نمازی کے پاس سے گزرے، دیکھا کہ وہ احکام و ارکان، قومہ و جلسہ پوری طرح ادا نہیں کررہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اگر تو اسی عادت پر مرگیا، تو قیامت کے دن تجھ کو میری امت سے نہیں کہا جائے گا۔ اور دوسری جگہ (ہے کہ) آپ نے فرمایا: اگر تو اسی عادت پر مرگیا تو دینِ محمدی پر نہیں مرے گا۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 791)

تشریح:

کیا اس (تعدیلِ ارکان) کے واجب ہونے کے لئے یہ دلیل کافی نہیں ہے؟

متن:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کوئی شخص ایسا ہوتا ہے کہ ساٹھ سال تک نماز پڑھتا رہے اور اس کی ایک نماز بھی قبول نہیں ہوتی، کیوں کہ اس شخص نے رکوع و سجود کو بخوبی ادا نہیں کیا ہوتا- (الترغیب و الترھیب، حدیث نمبر: 753) کہتے ہیں کہ زید بن وہب رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور رکوع و سجود پوری طرح ادا نہیں کر رہا تو آپ نے اس شخص کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ کب سے تو اس طرح کی نماز پڑھ رہا ہے؟ اس نے کہا: چالیس سال سے۔ آپ نے فرمایا: اس چالیس کے عرصے میں تیری ایک نماز بھی نہیں ہوئی۔ اگر تو مر گیا تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں مرے گا۔ (سنن النسائی، حدیث نمبر: 1312) (اللہ ہمیں بچائے) منقول ہے کہ جب مومن بندہ نماز اچھی طرح ادا کرتا ہے اور اس کے رکوع و سجود بخوبی بجا لاتا ہے، تو اس کی نماز بشاشت والی اور نورانی ہوتی ہے، فرشتے اس نماز کو آسمان پر لے جاتے ہیں اور وہ نماز اپنے نمازی کے لئے اچھی دعا کرتی ہے اور کہتی ہے: ’’حَفِظَکَ اللہُ سُبْحَانَہٗ کَمَاحَفِظْتَنِیْ‘‘۔ یعنی خدائے عز و جل تیری حفاظت کرے، جس طرح تو نے میری حفاظت کی۔ اور اگر وہ نماز کو اچھی طرح ادا نہیں کرتا تو وہ نماز ظلمت والی رہتی ہے، فرشتوں کو اس نماز سے کراہت آتی ہے اور وہ اس نماز کو آسمان پر نہیں لے جاتے اور وہ نماز اس نمازی کے لئے بد دعا کرتی ہے اور کہتی ہے: ’’ضَیَّعَکَ اللہُ تَعَالیٰ کَمَا ضَیَّعْتَنِیْ‘‘۔ یعنی خدائے عز و جل تجھ کو ضائع کرے، جس طرح تو نے مجھ کو ضائع کیا۔ (الترغیب و الترھیب للمنذری، باب الترغیب فی الصلوۃ لاول وقتھا، حدیث نمبر: 11)

پس نماز کو عمدہ طریقے پر ادا کرنا چاہئے۔ اور تعدیلِ ارکان یعنی رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ اچھی طرح بجا لانا چاہئے اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کرنی چاہئے کہ وہ نماز کو کامل طور پر ادا کریں اور تعدیلِ ارکان کو طمانیت کے ساتھ ادا کرنے میں کوشش کریں، کیوں کہ اکثر لوگ اس دولت سے محروم ہیں اور یہ عمل متروک ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کا زندہ کرنا بھی دین کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص میری کسی مُردہ سنت کو زندہ کرتا ہے، اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے- (مشکاۃ المصابیح، حدیث نمبر: 176)

اور یہ بھی سمجھ لیں کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے وقت صفوں کو سیدھا اور برابر کرنا چاہئے، تاکہ نمازیوں میں سے کوئی شخص آگے پیچھے کھڑا نہ ہو، کوشش کرنی چاہئے کہ سب نمازی ایک دوسرے کے برابر کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پہلے صفوں کو درست فرما کرتے تھے پھر تکبیرِ تحریمہ کہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: صفوں کا برابر کرنا بھی اقامتِ صلوٰۃ میں سے ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 723)

تشریح:

آج کل یہ مسئلہ بھی ہے کہ ائمہ مساجد اپنی ڈیوٹی (ذمہ داری) پوری نہیں کرتے۔ جب تک ان کو اطمینان نہ ہو جائے کہ صفیں صحیح درست ہو گئیں، اس وقت تک ان کو تکبیرِ تحریمہ نہیں کہنی چاہئے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ ایک رواج کے طور پر تو کہہ دیں کہ ’’سَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ‘‘ یعنی صفوں کو درست کر لو اور بس یہ کہہ کر ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کہہ دیں، خواہ صفیں درست ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں۔ نہیں، بھائی! صفیں درست کرانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ پہلے اس کے لئے باقاعدہ ایک جماعت ہوا کرتی تھی جو صفوں کو درست کرواتی تھی۔ اس لئے احکامات ہیں کہ اپنے مونڈھوں کو relax (نرم) رکھو، تاکہ اگر کوئی آپ کو آگے پیچھے کرے، تو اس میں دقت نہ ہو۔ کم از کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ آگے پیچھے دیکھ لیا جائے کہ سب لوگ صفیں درست کر چکے ہیں یا نہیں۔ اس میں بمشکل دو منٹ لگ جائیں گے، لیکن آپ کم از کم اپنی ذمہ داری تو پوری کر لیں گے۔ صرف یہ کہنا کہ ’’صفیں درست کر لو‘‘ کافی نہیں ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے صفیں درست کرنے کا ٹائم تو دیا نہیں۔

بعض لوگ تو یہاں تک کرتے ہیں کہ اقامت کے دوران بیٹھے رہتے ہیں۔ ان کو فقہی مسئلہ کا پتہ ہوتا ہے کہ ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘‘ پر کھڑا ہونا ہے۔ وہ اسی وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ تو ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘‘ اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں کتنا وقت ہوتا ہے؟ ایک منٹ بھی نہیں ہوتا۔ کیا اس دوران صفیں درست ہو سکتی ہیں؟ اس وقت میں تو صفیں درست نہیں ہو سکتیں۔ اگر آپ ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘‘ پر ہی کھڑا ہونا چاہتے ہیں، تو پہلے سے صفیں سیدھی کر کے بیٹھیں، تاکہ جیسے ہی آپ کھڑے ہوں تو صفیں پہلے سے ہی درست ہوں۔ یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ جب کھڑے ہو جائیں، تو پھر دیکھیں کہ صفیں آگے پیچھے تو نہیں ہیں۔ اس وقت صفوں کو درست کر لیں، ورنہ پھر ’’سَوُّوْا صُفُوْفَکُمْ‘‘ والا حکم پورا نہیں ہو گا۔ جس میں آپ خود ہی اعلان کرتے ہیں کہ صفوں کی درستگی کا اہتمام نماز کا حصہ ہے اور پھر خود ہی آپ نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔

مکتوب نمبر 261 دفترِ اول میں اس بارے میں کہ ’’نماز مؤمن کی معراج ہے‘‘ ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

حمد و صلوٰۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی کو معلوم ہو کہ اسلام کے پنجگانہ ارکان میں سے ’’نماز‘‘ رکنِ دوم ہے۔ جو تمام عبادات کی جامع ہے اور ایک ایسا جزو ہے کہ جس نے اپنی جامعیت کی وجہ سے کُل کا حکم پیدا کر لیا ہے اور تمام مقرب اعمال پر سبقت لے گئی ہے اور وہ دولتِ رؤیتِ باری تعالیٰ جو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو شبِ معراج بہشت میں میسر ہوئی تھی، دنیا میں نزول فرمانے کے بعد اس جہان کے مناسب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ دولت نماز میں میسر ہوتی تھی۔ اسی لئے آنحضرت نے فرمایا: ’’بندے کو اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قرب نماز میں ہوتا ہے‘‘۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کامل تابعداروں کو بھی اس جہاں میں اس دولت کا بہت سا حصہ نماز میں ملتا ہے۔ اگرچہ حقیقی رؤیت میسر نہیں ہے، کیوں کہ یہ جہان اس کی تاب و طاقت نہیں رکھتا۔ اگر حق تعالیٰ نماز کا حکم نہ فرماتا تو مقصود کے چہرے سے نقاب کون اٹھاتا؟ اور طالب کو مطلوب کی طرف کون رہنمائی کرتا؟ نماز ہی ہے، جو غم گساروں کے لئے لذت بخش ہے اور نماز ہی ہے، جو بیماروں کو راحت دیتی ہے۔ ’’أَرِحْنِیْ یَا بِلَالُ!‘‘ (اے بلال! مجھے راحت دے) اس حقیقت کا رمز ہے اور ’’قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے) میں اسی آرزو کی طرف اشارہ ہے۔ وہ ذوق و مواجید، علوم و معارف، احوال و مقامات، انوار و الوان، تلوینیات و تمکینات، بیقراری و اطمینان، تجلیاتِ متکیّفہ (کیفیت والی تجلیات) اور بے کیفیت والی تجلیات اور ظہوراتِ متلّوِنہ وغیرہ (رنگارنگ و بے رنگ ظہورات)، ان میں سے جو کچھ نماز کے علاوہ اوقات میں میسر ہوں اور نماز کی حقیقت سے آگاہی کے بغیر ظاہر ہوں، ان سب کا منشاء ظلال و امثال ہے، بلکہ وہم و خیال سے پیدا ہوئے ہیں۔

تشریح:

حضرت نے کیسی واضح بات کی ہے اور حضرت ایسا کرتے رہتے ہیں۔

یعنی اصل چیز یہ نہیں ہے کہ تم تصورات میں کہاں سے کہاں پہنچ جاؤ۔ وہ تصورات اس لئے ہیں کہ تم صحیح جگہ پر آ جاؤ۔ اور صحیح جگہ یہ ہے کہ تمہاری نماز درست ہو جائے، تمہارا روزہ درست ہو جائے، تمہاری زکوۃ درست ہو جائے، تمہارا حج درست ہو جائے، تمہارے معاملات درست ہو جائیں، تمہاری معاشرت درست ہو جائے۔ تصورات اِن چیزوں کے لئے ہیں، یہ چیزیں تصورات کے لئے نہیں ہیں۔

یہ بنیادی بات ہے، جس پر مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت زور دیتے ہیں اور میرے خیال میں آج کل مجددی حضرات میں ہی اس کی زیادہ کمی ہے۔ وہ معارف کا زیادہ تذکرہ کرتے رہتے ہیں، لیکن اس بات کی طرف بہت کم دھیان دیتے ہیں، حالاں کہ یہ اصل ہے۔

متن:

جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہیں، نماز کی ادائیگی کے وقت گویا عالمِ دنیا سے باہر نکل جاتے ہیں اور عالمِ آخرت میں پہنچ جاتے ہیں، لہٰذا وہ اُس وقت اُس دولت سے، جو آخرت کے ساتھ مخصوص ہے، حصہ حاصل کر لیتے ہیں اور اصل سے ظلیت کی آمیزش کے بغیر فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ کیوں کہ عالمِ دنیا کا معاملہ کمالاتِ ظلی تک محدود ہے اور وہ معاملہ، جو ظلال سے باہر ہے، (وہ) آخرت کے ساتھ مخصوص ہے۔

تشریح:

الحمد للہ! اللہ پاک نے اس وقت عجیب علم عطا فرمایا ہے۔ وہ یہ کہ حضرت نے فرمایا: نماز آپ کو اصل تک پہنچاتی ہے اور اصل اس دنیا میں نہیں ہے۔ یہ کائنات تو ظل ہے۔ اصل وہاں ہے۔ نماز آپ کو اصل میں اُدھر پہنچاتی ہے۔ جیسے آپ نے تکبیرِ تحریمہ کہی تو آپ اُدھر پہنچ گئے۔ اب آپ اُدھر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔

یہ ساری باتیں جو حضرت نے فرمائی ہیں کہ نماز کے اندر جو معاملہ ہے، وہ آخرت کا ہے۔ ہم جتنی دیر نماز میں ہیں، گویا ہم عالمِ آخرت میں ہیں۔ ’’مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُُوْتُوْا‘‘ یعنی مر جاؤ اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ۔ نماز کے ذریعے آپ پانچ وقت اِس دنیا سے اُس دنیا میں جاتے ہیں۔

جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ اگر پانچ نہریں کسی کے راستے میں ہوں تو کیا اس پر کوئی میل کچیل باقی رہ جائے گا؟

متن:

پس معراج سے چارہ نہیں ہو گا اور وہ مومنوں کے حق میں نماز ہے۔ اور یہ دولت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت کے سبب، جو شبِ معراج میں دنیا سے آخرت میں تشریف لے گئے اور بہشت میں پہنچ کر حق تعالیٰ کی رؤیت کی دولت سے مشرف ہوئے۔ لہٰذا یہ امت بھی اس کمال کے ساتھ مشرف اور اس سعادت سے فیض یاب ہوئی۔

تشریح:

چوں کہ یہ تحفہ بھی معراج میں ملا ہے۔ در اصل پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں یعنی ہماری اس دنیا کا زیادہ سے زیادہ حصہ اللہ تعالی وہاں کا بنانا چاہتے تھے، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو چوں کہ اپنی قوم سے بڑا تجربہ ہو چکا تھا، اس لئے بار بار آپ ﷺ سے عرض کرتے کہ حضرت! آپ تھوڑا سا اور بھی اللہ پاک سے مانگیں کہ کچھ مزید نمازیں کم ہو جائیں۔ میری امت تین نمازیں نہیں پڑھ سکی تو آپ کی امت کے لوگ اتنی نمازیں کیسے پڑھیں گے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار جاتے رہے۔ آخر میں جب پانچ نمازیں لے کر آئے تو رک گئے کہ اب مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ مزید کچھ کہہ سکوں۔ اس لئے پانچ فرض ہوئیں۔ پھر اللہ کی طرف سے فضل یہ ہوا کہ ہیں تو پانچ نمازیں، لیکن ثواب پچاس کا ہو گا۔

نوافل کے بارے میں مکتوب نمبر 242 میں ارشاد فرماتے ہیں:

(حضرت کا مکتوب پڑھنے سے پہلے) یہاں پر میں حضرت کی تعلیمات کا ایک بہت بڑا نکتہ عرض کرنا چاہوں گا۔

وہ یہ کہ حضرت کے دور میں جو کچھ لوگوں میں ہو رہا تھا، حضرت نے ان چیزوں کی اصلاح فرمائی ہے۔ اس لئے بعض چیزیں جو اس وقت بگڑی ہوئی تھیں، اب بگڑی ہوئی نہیں ہیں، ان کے لئے وہ باتیں valid (درست) نہیں ہوں گی۔ اور جو چیزیں اُس وقت بگڑی ہوئی نہیں تھیں، اب بگڑ گئی ہیں، ان کے لئے ہمیں اپنے طور پر آج کل کے دور کے لحاظ سے سوچنا پڑے گا۔

اُس وقت لوگ نوافل پڑھتے تھے۔ اب تو لوگ سنتیں بھی نہیں پڑھتے۔ اب تو اور مصیبتیں آ گئیں۔ بہت سارے علاقوں میں لوگ سنتیں بھی گول کر لیتے ہیں۔ تو وہ دور ایسا تھا کہ لوگ نوافل پڑھتے تھے، نفلوں کا اہتمام زیادہ تھا۔ اس لئے یہاں اُن باتوں کا ذکر آئے گا جن کی تصحیح حضرت نے اُس وقت کے لحاظ سے فرمائی تھی. لیکن ہمیں آج کل کے وقت کے لحاظ سے کچھ باتوں کو سمجھنا پڑے گا۔ اسی لئے میں نے حضرت کے مکتوبات شریفہ سے چُن چُن کر چیزیں لی ہیں، تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ نفلوں کے دشمن ہو جائیں اور جو آج کل تھوڑی بہت سعادت مل رہی ہے، کہیں یہ بھی ہاتھ سے نہ چلی جائے۔

نوافل کے بارے میں مکتوب نمبر 242 میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بعض اوقات اسمِ ذات عز و جل کا ذکر زیادہ نفع بخش ہے اور بعض دوسرے اوقات میں ذکرِ نفی و اثبات انسب ہے۔ باقی رہا باطن کا معاملہ؛ تو وہاں بھی جب تک غفلت بالکل دُور نہ ہو جائے، ذکر کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ البتہ اس قدر ہے کہ ابتداء میں یہ دو ذکر متعین ضروری ہیں اور وسط و انتہاء میں یہ دونوں ذکر متعین نہیں ہیں۔ اگر تلاوتِ قرآن مجید اور نماز کی ادائیگی سے غفلت دُور ہوجائے، تو گنجائش ہے۔ لیکن قرآن مجید کی تلاوت متوسط حال والوں کے مناسب ہے اور نمازِ نوافل کی ادائیگی منتہی حال والوں کے مناسب ہے۔

تشریح:

یعنی نوافل کے بارے میں بتا دیا کہ منتہی لوگوں کو نوافل کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

اسی کے بارے میں مکتوب نمبر 260 میں اس کی حقیقت بیان فرماتے ہیں:

متن:

اور اسی طرح نوافل کی ادائیگی من جملہ ظلال کے ایک ظل سے قریب کر دیتی ہے اور اصل سے قرب فرائض کی ادائیگی میں ہے، جس میں ظلیت کی آمیزش نہیں ہے۔ مگر وہ نوافل جو فرائض کی تکمیل کے لئے ادا کئے جائیں، وہ بھی قربِ اصل کے لئے مُمِد و معاون اور فرض کے ملحقات سے ہیں۔ لہٰذا لازمی طور پر فرائض کی ادائیگی کا تعلق عالمِ خلق کے مناسب ہے. جو اصل کے ساتھ متوجہ ہے اور نوافل کی ادائیگی عالمِ امر کے مناسب ہے. جس کا چہرہ ظل کی طرف ہے۔ تمام فرائض اگرچہ اصل کی طرف قرب بخشتے ہیں، لیکن ان میں سب سے افضل و اکمل صلوۃ (نماز) ہے۔ ’’اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ‘‘ (نماز مومن کے لئے معراج ہے)۔ اور ’’اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ (بندے کو سب سے زیادہ قرب پروردگار سے نماز میں ہوتا ہے)، تم نے سنا ہو گا۔

اب نوافل کی سردار نمازِ تہجد کے بارے میں مکتوب 31 میں ہدایت فرماتے ہیں:

متن:

پانچوں وقت کی نماز جمعیتِ قلب کے ساتھ با جماعت اور تعدیلِ ارکان کے ساتھ ادا کریں اور نمازِ تہجد کو بھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ صبح کے وقت استغفار کو بھی نہ چھوڑیں اور خوابِ خرگوش سے لذت حاصل نہ کریں۔

اسی کے بارے میں مکتوب نمبر 69 دفترِ دوم میں مزید زیادہ زور دیتے ہیں:

متن:

دوسری نصیحت جو دوستوں کے لئے کی جاتی ہے، وہ نمازِ تہجد کو اپنے اوپر لازم کرنا ہے۔ جو طریقے کی ضروریات میں سے ہے۔ یہ بات بالمشافہ بھی آپ سے کہی گئی تھی۔ اگر یہ چیز دشوار ہو اور بیدار ہونا خلافِ عادت میسر نہ ہو، تو اپنے متعلقین کی ایک جماعت کو اس کام کے لئے مقرر کر دیں، تاکہ وہ وقت پر آپ کو طوعاً و کرھاً بیدار کر دیں اور آپ کو خوابِ غفلت میں نہ پڑا رہنے دیں۔ جب چند روز ایسا کریں گے تو امید ہے کہ اس دولت پر بے تکلف مداومت میسر ہو جائے گی۔

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور فارمولا ہے کہ پہلے تکلف کے ساتھ کام کرو، پھر بعد میں عادت ہو جائے گی، پھر اس سے بڑھ کر عبادت ہو جائے گی۔

مکتوب نمبر 260 میں فرائض کے مقابلے میں نوافل کے حکم کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

وضاحت: اس مکتوب میں حضرت اپنے دور کی بات کر رہے ہیں۔

متن:

اور اس میں شک نہیں ہے کہ نفل کی فرض کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ کاش! اس کو دریائے محیط کے مقابلے میں قطرہ ہی کی نسبت ہوتی، بلکہ سنت کے مقابلے میں بھی نفل کی یہی نسبت ہے، اگرچہ سنت اور فرض کے درمیان بھی قطرہ اور دریا کی نسبت ہے۔ لہٰذا دونوں قربوں (قرب بالنوافل اور قرب بالفرائض) کے درمیانی فرق کو اسی پر قیاس کر لینا چاہئے۔ اور عالمِ خلق کا شرف عالمِ امر پر اسی فرق سے سمجھ لینا چاہئے۔

تشریح:

یہ آج کل بھی بڑا مسئلہ ہے کہ لوگ نوافل سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور نوافل پڑھنے والے کو بزرگ سمجھتے ہیں۔ یعنی اگر آپ تہجد پڑھتے ہیں، اوابین وغیرہ پڑھتے ہیں اور ذکر و تسبیحات کرتے ہیں، تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا بزرگ ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ معاملات میں جو گڑبڑ کرتے ہیں، اس کی طرف لوگ دھیان نہیں دیتے، حالاں کہ وہ فرض ہے۔ حرام سے بچنا فرض ہے یا نہیں؟

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص فرائض پورے نہ کرے اور نوافل پڑھتا رہے، تو آپ اس کو کیا کہیں گے؟ ظاہر ہے کہ جاھل کہیں گے، بے وقوف کہیں گے، کیوں کہ فرائض کا حق نوافل کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

متن:

اکثر لوگ جو اس معنی سے بے نصیب ہیں، اپنے فرائض کو خراب کر کے نوافل کی ترویج میں کوشش کرتے ہیں۔ صوفیائے خام ذکر اور فکر کو اہم ترین ضروریات جان کر فرائض اور سنتوں کی بجا آوری میں سُستی کرتے ہیں اور چلّوں اور ریاضتوں کو اختیار کر کے جمعہ اور جماعت کو ترک کر دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک فرض کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا ان کے ہزاروں چلّوں سے بہتر ہے۔ ہاں آدابِ شرعیہ کی رعایت کے ساتھ ذکر و فکر میں مشغول ہونا بہت بہتر اور اہم ترین کام ہے۔ اور علماء بے سر انجام بھی نوافل کو رواج دینے میں کوشش کرتے ہیں اور فرائض کو خراب و ابتر کرتے ہیں۔

تشریح:

چوں کہ حضرت عالم بھی ہیں اور صوفی بھی ہیں، اس لئے علماء کی اصلاح بھی فرما رہے ہیں۔

متن:

مثلاً نمازِ عاشورہ کو جو حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم سے صحت کے ساتھ نہیں پہنچی، جماعت اور تمام جہت کے ساتھ اہتمام سے ادا کرتے ہیں، حالاں کہ جانتے ہیں کہ فقہ کی روایات نمازِ نفل باجماعت کی کراہت پر ناطق ہیں اور فرض کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں کہ فرض نماز کو مستحب وقت میں ادا کریں، بلکہ اصل وقت سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں اور نماز باجماعت کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرتے۔ ایک یا دو آدمیوں کی جماعت پر قناعت کر لیتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات تنہا پڑھ لینے پر ہی کفایت کرتے ہیں۔ جب اسلام کے پیشواؤں کا یہ حال ہو تو عوام کے بارے میں کیا کہا جائے! اس عمل کی نحوست کی وجہ سے اسلام میں ضعف پیدا ہو گیا اور اس فعل کی ظلمت کی وجہ سے ہوا و ہوس اور بدعت عام ہوگئی۔ ؂

’’اندکے پیش تو گفتم غمِ دل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است‘‘

ترجمہ: ’’غمِ دل مختصر ہی کہتا ہوں دکھ نہ پہنچائے میری بات طویل‘‘۔

مکتوب نمبر 288 میں نفل نماز کی جماعت کی کراہت کو یوں واضح فرماتے ہیں:

متن:

جاننا چاہئے کہ اس زمانے میں اکثر خواص و عوام نوافل کے ادا کرنے میں تو بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور فرض نمازوں میں سستی کرتے ہیں اور ان فرائض میں سنن و مستحبات کی رعایت بھی بہت کم کرتے ہیں۔ نوافل کو عزیز جانتے ہیں اور فرائض کو ذلیل و خوار۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو فرائض کو مستحب وقتوں میں ادا کرتے ہوں۔ جماعتِ مسنونہ کی تکثیر(کثرت) میں، بلکہ نفسِ جماعت کی بھی کوئی پابندی نہیں کرتے اور نفسِ فرائض کو غفلت و سستی کے ساتھ ادا کرنے کو غنیمت جانتے ہیں، لیکن عاشوراء (دسویں محرم) کے دن اور شبِ برأت اور ماہِ رجب کی ستائیسویں شب اور ماہِ مذکور (رجب) کے اول جمعہ کی شب کو جس کا نام انہوں نے لیلۃ الرغائب (ماہ رجب کی پہلی شب جمعہ) رکھا ہے، نہایت اہتمام کر کے نوافل کو بہت بڑی جمعیت کے ساتھ با جماعت ادا کرتے ہیں اور اس کو نیک و مستحسن خیال کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ نوافل کو اہتمام کے ساتھ با جماعت ادا کرنا شیطان کا مکر و فریب ہے، جو کہ سیئات کو حسنات کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ جیسا کہ:

1۔ شیخ الاسلام مولانا عصام الدین ہروی شرح وقایہ کے حاشیہ میں فرماتے ہیں کہ نوافل کو باجماعت ادا کرنا اور فرضوں کی جماعت کو ترک کرنا شیطان کا مکر و فریب ہے۔

2۔ جاننا چاہئے کہ نوافل کو کامل جمعیت اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا مذمومہ و مکروہہ بدعتوں میں سے ہے اور ان بدعتوں میں سے ہے، جن کے متعلق حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے: ’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ دِیْنِنَا ھٰذَا فَھُوَ رَدٌّ‘‘۔

ترجمہ: ’’جس کسی نے ہمارے اس دین میں نئی بات نکالی، تو وہ مردود ہے‘‘۔

3۔ جاننا چاہئے کہ نوافل کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا بعض فقہی روایتوں کی رو سے مطلق طور پر مکروہ ہے اور دوسری روایات میں کراہت کو تداعی و تجمیع (یعنی اعلان و اجتماع) کے ساتھ مشروط کہا گیا ہے۔ اگر تداعی کے بغیر ایک دو آدمی مسجد کے گوشہ میں نفل نماز جماعت سے ادا کریں، تو یہ بغیر کراہت کے جائز ہے۔ تین آدمیوں کی جماعت میں مشائخ کا اختلاف ہے۔ اور بعض روایات میں (ہے کہ) چار آدمیوں کی جماعت بالاتفاق مکروہ ہے اور بعض دوسری روایات میں (ہے کہ) اصح یہ ہے کہ مکروہ ہے۔

4۔ فتاویٰ سراجیہ میں ہے کہ تراویح اور کسوف (سورج گرہن) کی نماز کے علاوہ دیگر نوافل کو باجماعت ادا کرنا مکروہ ہے۔

5۔ اور فتاویٰ غیاثیہ میں (ہے کہ) شیخ الامام سرخسی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ رمضان کے علاوہ نمازِ نوافل کو جماعت سے ادا کرنا جب کہ تداعی (اعلان) کے طریق پر ہو، مکروہ ہے۔ لیکن جب ایک یا دو آدمی اقتدا کریں، تو مکروہ نہیں۔ اور تین میں اختلاف ہے اور چار میں بلا خلاف مکروہ ہے۔

6۔ اور فقہ کی مشہور کتاب خلاصہ میں ہے کہ نفلوں کی جماعت جب تداعی کے طریق پر ہو، تو مکروہ ہے۔ لیکن اگر اذان و اقامت کے بغیر گوشۂ مسجد میں ادا کی جائے، تو مکروہ نہیں۔

7۔ اور شمس الائمہ حلوانی نے کہا ہے کہ جب امام کے علاوہ تین آدمی ہوں، تو بالاتفاق مکروہ نہیں اور چار میں اختلاف ہے اور اصح یہی ہے کہ مکروہ ہے۔ اور فتاویٰ شافیہ میں ہے کہ ماہِ رمضان کے علاوہ نوافل کو جماعت سے ادا نہ کریں اور نوافل کو تداعی کے طور پر یعنی اذان اور اقامت کے ساتھ ادا کرنا مکروہ ہے، لیکن ایک یا دو آدمی اقتدا کر لیں جو تداعی کے طور پر نہ ہوں، تو مکروہ نہیں اور اگر تین (آدمی) اقتدا کریں تو اس میں مشائخ رحمہم اللّٰہ تعالیٰ کا اختلاف ہے اور اگر چار آدمی اقتدا کریں تو بالاتفاق مکروہ ہے۔

اس قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں اور فقہ کی کتابیں ان سے بھری ہوئی ہیں۔ اور اگر کوئی ایسی روایت مل جائے جس میں عدد کا ذکر نہ ہو اور اس سے مطلق طور پر نفل نماز کو جماعت سے ادا کرنا جائز ثابت ہوتا ہو، تو اس کو مقید پر محمول کرنا چاہئے جو دوسری روایات میں واقع ہے اور مطلق سے مقید مراد لینا چاہئے اور جواز کو دو یا تین پر منحصر کرنا چاہئے، کیوں کہ علماء حنفیہ اگرچہ اصول میں مطلق کو اپنے اطلاق پر ہی رکھنے کے قائل ہیں اور مقید پر حمل نہیں کرتے، لیکن روایات میں مطلق کو مقید پر حمل کرنا جائز بلکہ لازم جانتے ہیں۔ اور اگر ہم بفرضِ محال حمل نہ بھی کریں اور اطلاق پر ہی رہنے دیں، جب کہ یہ مطلق قوتِ ثبوت میں مقید کے برابر ہو، تو وہ اس مقید کا معارض ہو گا، حالاں کہ قوت میں مساوات ممنوع ہے۔ کیوں کہ کراہت کی روایتیں باوجود کثرت کے مختار اور مفتیٰ بہا ہیں، بر خلاف اباحت کی روایتوں کے۔ اور اگر دونوں کی مساوات تسلیم کرلی جائے، تو ہم کہتے ہیں کہ کراہت و اباحت کے دلائل باہم متعارض ہونے کی صورت میں کراہت ہی کو ترجیح ہو گی۔

تشریح:

یہ ایک بڑا اہم فقہی اصول بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی چیز کے بارے میں شک ہو کہ بدعت ہے یا سنت، تو پھر اس کو بدعت پر محمول کرنے میں احتیاط ہے، تاکہ اس سے بچا جائے۔ کیوں کہ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے کہ دفعِ مضرت جلبِ منفعت سے اہم ہے۔

حضرت نے اس (عبارت) میں یہ فرمایا ہے کہ اگر کراہت و اباحت کے اقوال مساوی بھی ہوں تو پھر بھی کراہت کو ترجیح ہو گی۔

متن:

جیسا کہ اصولِ فقہ کے جاننے والوں کے نزدیک مقرر ہے۔ پس جو لوگ روزِ عاشوراء اور شبِ برات اور لیلۃ الرغائب (ماہ رجب کی پہلی شبِ جمعہ) میں نمازِ نوافل کو با جماعت ادا کرتے ہیں اور دو دو سو یا تین تین سو یا اس سے کم و بیش آدمی مساجد میں جمع ہوتے ہیں اور اس نماز و اجتماع اور جماعت کو مستحسن خیال کرتے ہیں، ایسے لوگ باتفاقِ فقہاء امرِ مکروہ کے مرتکب ہیں اور مکروہ کو مستحسن جاننا بڑے گناہوں میں سے ہے۔

تشریح:

ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مساجد میں اُس وقت اتنا رش ہو جاتا ہے کہ مسجد میں جگہ نہیں ملتی۔ باہر سڑکوں پر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں، راستے بند ہو جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ایک نفل کی جماعت کے لئے کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ صلوۃ التسبیح (جماعت سے) پڑھتے ہیں جو کہ ایک نفل نماز ہے۔ اس کے لئے لوگ دور دور سے آتے ہیں اور راستوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حالاں کہ راستوں کو بلاک کرنا بذاتِ خود جرم ہے۔ لیکن ایسا ہو رہا ہے۔ اب کیا کریں!

متن:

تداعی سے مراد نفل نماز کے ادا کرنے کے لئے دوسرے کو خبر دینا ہے۔ اور یہ معنی ان جماعتوں میں متحقق ہیں، جو عاشوراء وغیرہ کے دن قبیلہ قبیلہ ایک دوسرے کو خبر کرتے اور بلاتے ہیں کہ فلاں شیخ یا فلاں عالم کی مسجد میں جانا چاہئے اور نفل نماز جماعت سے ادا کرنی چاہئے اور اس فعل کو بطریقِ عادت ادا کرتے ہیں۔ اس قسم کی اطلاع دینا اذان و اقامت سے بھی ابلغ (زیادہ بڑھ کر) ہے۔ پس تداعی بھی ثابت ہو گئی۔ اگر تداعی کو اذان و اقامت پر ہی مخصوص رکھیں جیسا کہ بعض روایات میں واقع ہوا ہے اور اس سے اذان و اقامت کی حقیقت مراد لیں تو پھر بھی جواب وہی ہے، جو اوپر گزر چکا کہ ایسی نماز ایک یا دو مقتدیوں کے ساتھ مخصوص ہے، وہ بھی دوسری شرط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہو چکی ہے (یعنی مسجد کے گوشہ میں ہو)۔

جاننا چاہئے کہ چوں کہ ادائے نوافل کی بنیاد اخفاء و ستر (پوشیدگی) پر ہے، اس لئے کہ نوافل میں ریا و سمعہ کا گمان ہو سکتا ہے اور جماعت اخفاء کے منافی ہے اور فرائض کے ادا کرنے میں اظہار و اعلان مطلوب ہے، کیوں کہ یہ ریا و سمعہ کی آمیزش سے پاک ہے۔ پس ان (فرائض) کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا مناسب ہے۔ علاوہ بریں ہم یہ کہتے ہیں کہ کثرتِ اجتماع فتنہ پیدا ہونے کا محل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لئے سلطان یا اس کے نائب کا حاضر ہونا شرط قرار دیا گیا ہے، تاکہ فتنہ پیدا ہونے سے امن رہے۔ اور ان مکروہہ جماعتوں میں بھی فتنہ پیدا ہونے کا قوی احتمال ہے۔ پس یہ اجتماع بھی مشروع نہ ہو گا، بلکہ منکر اور ممنوع ہو گا۔ حدیث نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و التسلیم میں ہے: ’’اَلْفِتْنَۃُ نَائِمَۃٌ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ اَیْقَظَھَا‘‘

ترجمہ: ’’فتنہ سویا ہوتا ہے، جو اس کو جگاتا ہے، اس پر اللّٰہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے‘‘۔

پس اسلام کے والیوں، قاضیوں اور محتسبوں پر لازم ہے کہ اس طرح کے اجتماع سے لوگوں کو منع کریں اور اس بارے میں بہت ہی زجر و تنبیہ کریں، تاکہ یہ بدعت جس سے فتنہ برپا ہونے کا اندیشہ ہے، جڑ سے اکھڑ جائے۔ ’’وَاللّٰہُ یُحِقُّ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ‘‘ (اور اللّٰہ تعالیٰ ہی حق کو ثابت کرتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے)۔

اذان اور نماز کے اسرار

نماز کے لئے دعوت اذان ہے۔ اور چوں کہ نماز دین کا ستون ہے، اس لئے اس کو قائم کرنے کے لئے جو دعوت دی جاتی ہے، اس کی اہمیت کیا ہو گی! خود سوچنا چاہئیے۔ اذان کے اسرار کے بارے میں (کسی مؤذن کو لکھتے ہوئے) ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

حمد و صلوٰۃ کے بعد جاننا چاہئے کہ "کلمات اذان" سات ہیں:

(1) اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ

(اللّٰہ بہت بڑا ہے)

یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کو کسی عبادت کی حاجت ہو۔ اس مہتم بالشان معنی کی تاکید کے لئے اس کلمہ کو چار بار دہرایا گیا ہے۔

(2) اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ

(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے)

نیز وہ اپنی صفتِ کبریائی کے ساتھ ساتھ ہر عبادت گزار کی عبادت سے مستغنی ہے۔

(3) اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ

(میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے رسول ہیں)

اور حق تعالیٰ کی طرف سے عبادت کا طریقہ ہم تک پہنچانے والے ہیں۔ اور حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے لائق وہی عبادت ہے۔ جو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی تبلیغ و رسالت کے ذریعہ حاصل ہوئی۔

(4) حَیَّ عَلی الصَّلوٰۃِ

(آؤ نماز کی طرف)

(5) حَیَّ علَی الفَلَاحِ

(آؤ فلاح و بہبود کی طرف)

یہ دو کلمے وہ ہیں جن کے ذریعے نمازی کو فلاح و بہبود اور کامبابی کی طرف لے جانے والی فرض نماز کی ادائیگی کی طرف بلایا جاتا ہے۔

(6) اَللّٰہُ اَکْبَرُ

(اللّٰہ تعالیٰ بہت بڑا ہے)

یعنی کسی کی بھی عبادت اس پاک بارگاہ کے لائق نہیں۔ نیز اس کلمۂ مقدسہ کی عظمت و بزرگی ملاحظہ ہو کہ اس کو بطورِ تاکید چھ مرتبہ آذان میں لایا گیا ہے۔

(7) لَآ اِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ

(نہیں ہے کوئی معبود مگر اللّٰہ تعالیٰ)

یعنی صرف اللّٰہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے۔ اگرچہ کسی سے بھی اس کی بارگاہِ قدس کے لائق عبادت ہو نہیں سکتی۔

ان کلمات کی بزرگی سے جو نماز کے اعلان کے لیٔے شارع علیہ السلام نے مقرر فرمائے ہیں، نماز کی بزرگئِ شان سمجھنی چاہئے۔

تشریح:

اب نماز کے اسرار کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

جاننا چاہئے کہ نماز میں تکبیر اولیٰ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ و تقدس عابدوں کی عبادت اور نمازیوں کی نماز سے مستغنی و برتر ہے اور وہ تکبیریں جو نماز کے ہر رکن کے بعد ہیں، وہ اس امر کے رموز و اشارات ہیں کہ یہ رکن جو ادا ہوا ہے، وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کو حق تعالیٰ کی بارگاہِ قدس کی عبادت کے لائق کہا جا سکے۔ رکوع کی تسبیح ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِيْمِ‘‘ (پاک ہے میرا پروردگار، جو بڑی عظمت والا ہے) میں چوں کہ تکبیر کے معنی ملحوظ ہیں، اس لئے رکوع کے آخر میں تکبیر کہنے کا حکم نہیں فرمایا گیا، بلکہ ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ (اللّٰہ تعالیٰ نے اس بندے کی بات سن لی، جس نے اس کی تعریف کی) (کہنے کا فرمایا گیا)۔ بر خلاف دونوں سجدوں کے، کہ ان میں بھی اگرچہ تسبیحات ہیں، پھر بھی اول و آخر تکبیر ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ سجود میں چوں کہ نہایت عاجزی و پستی اور نہایت ذلت و انکساری ہے، اس لئے حقِ عبادت ادا ہو جاتا ہے۔ لہذا اس وہم کو دور کرنے کے لئے سجود کی تسبیح ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ (پاک ہے میرا پروردگار، جو اعلیٰ شان والا ہے) میں لفظ "اَعْلٰی" اختیار کیا ہے اور تکبیر کا تکرار بھی مسنون ہوا۔ اور چوں کہ نماز مومن کی معراج ہے، اس لئے نماز کے آخر میں ان کلمات کے پڑھنے کا حکم صادر فرمایا، جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شبِ معراج میں مشرف ہوئے تھے۔ لہذا نمازی کو چاہئے کہ اپنی نماز کو اپنے لئے آلۂ معراج بنائے اور نماز ہی میں انتہائی قربِ خداوندی ڈھونڈے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِی الصَّلٰوۃِ‘‘ (بندہ کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ قرب نماز میں حاصل ہوتا ہے)۔ اور چوں کہ نمازی اللّٰہ تعالیٰ عز شانہ سے مناجات کرنے والا اور نماز کے ادا کرتے وقت حق تعالیٰ کی عظمت و جلال کا مشاہدہ کرنے والا ہوتا ہے اور حق تعالیٰ کا رعب و ہیبت اس پر چھا جاتا ہے۔ اس لئے اس کی تسلی کے واسطے نماز کو دو سلاموں پر ختم کرنے کا امر فرمایا۔ اور یہ جو حدیث نبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام میں ہر فرض نماز کے بعد سو مرتبہ تسبیح و تحمید، تکبیر اور تہلیل کا حکم ہے، فقیر کے علم میں اس کا راز یہ ہے کہ نماز کی ادائیگی میں جو قصور و کوتاہی واقع ہوئی ہو، اس کی تلافی تسبیح و تکبیر کے ساتھ کی جائے، تاکہ اپنی عبادت کے ناتمام و ناقابل ہونے کا اقرار ہو سکے۔ اور چوں کہ حق تعالیٰ کی توفیق سے عبادت کا ادا کرنا میسر ہوا ہے، تو اس نعمت کا ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہہ کر شکر بجا لانا چاہئے اور حق تعالیٰ کے سوا اور کسی کو عبادت کا مستحق نہیں بنانا چاہئے۔

امید ہے کہ جب نماز اس طرح ان شرائط و آداب کے ساتھ ادا کی جائے اور اس کے بعد تہِ دل سے ان کلماتِ طیبہ کے ساتھ تقصیر و کوتاہی کی تلافی کر لی جائے اور توفیقِ عبادت کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور حق تعالیٰ کے سوا کسی غیر کے مستحقِ عبادت ہونے کی نفی کرلی جائے، تو امید ہے کہ وہ نماز حق تعالیٰ جل شانہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لائق ہو جائے گی اور ایسی نماز ادا کرنے والا فلاح پانے والا ہو جائے گا۔

مکتوب نمبر 305 میں نماز میں حضورِ قلب سے کیا مراد ہے ؟ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

اللہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے! واضح ہو کہ نماز کو کامل طور پر ادا کرنے اور اس میں کمال حاصل ہونے سے مراد؛ فقیر کے نزدیک یہ ہے کہ نماز کے فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات جن کا بیان کتبِ فقہ میں تفصیل کے ساتھ آ چکا ہے، (ان) سب کو احتیاط سے ادا کرنا چاہئے۔ ان چاروں امور کے علاوہ اور کوئی امر ایسا نہیں ہے، جس کو نماز کے کامل کرنے میں دخل ہو۔ نماز کا خشوع و خضوع بھی ان ہی چاروں سے وابستہ ہے۔

بعض لوگ ان امور کے جان لینے کو کافی سمجھتے ہیں اور عمل کرنے میں سستی و کاہلی کرتے ہیں۔ اس لئے لازمی طور پر نماز کے کمالات سے بے نصیب رہتے ہیں۔ اور بعض لوگ حق سبحانہ کے ساتھ حضورِ قلب میں بڑا اہتمام کرتے ہیں، لیکن اعمالِ ادبیۂ جوارح (یعنی ظاہری اعضاء سے تعلق رکھنے والے مستحبات) کی طرف کم توجہ کرتے ہیں، صرف فرائض اور سنتوں پر کفایت کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھی نماز کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں اور کمالِ نماز کو غیرِ نماز سے ڈھونڈھتے ہیں۔ کیوں کہ حضورِ قلب کو نماز کے احکام سے نہیں جانتے۔

اور یہ جو حدیث میں آیا ہے: ’’لَا صَلَوٰۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ‘‘۔ (نماز حضورِ قلب کے بغیر کامل نہیں ہوتی) ممکن ہے کہ اس میں حضورِ قلب سے مراد یہ ہو کہ ان امورِ اربعہ کے ادا کرنے میں دل کو حاضر رکھا جائے۔ تاکہ ان امور میں سے کسی امر کے بجا لانے میں کچھ فتور واقع نہ ہو۔ اس حضورِ قلب کے علاوہ اور کوئی حضور فی الحال اس فقیر کی سمجھ میں نہیں آتا۔

تشریح:

فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات، اگر کوئی ان سب چیزوں کا اہتمام کر لے تو نماز کے اندر واجب درجہ کا خشوع و خضوع نصیب ہو جاتا ہے۔

مکتوب نمبر 305 میں مبتدی اور منتہی کی نماز کے فرق کے بارے میں سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

سوال:

جب نماز کی تکمیل اور اس کا کمال ان چار امور کے بجا لانے سے وابستہ ہوا اور کوئی دوسرا امر کمالِ نماز کے لئے ملحوظ نہ رہا، تو منتہی اور مبتدی بلکہ عامی کی نماز میں کیا فرق ہوا، جو ان چاروں امور کو بجا لانے پر مشروط ہے؟

جواب:

مبتدی اور منتہی کی نماز میں فرق عمل کرنے والے کی طرف سے ہے، نہ کہ عمل کی رو سے۔ ایک ہی عمل کا ثواب عمل کرنے والوں کے تفاوت سے مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً: وہ عمل جو کسی مقبول و محبوب عامل سے وقوع میں آئے، اس کا اجر اس کے اجر سے کئی گنا زیادہ ہو گا جو اس عامل کے سوا کسی غیر کے اسی عمل پر مرتب ہو، کیوں کہ عامل جتنا عظیم القدر ہوتا ہے، اسی قدر اس کے عمل کا اجر بھی عظیم تر ہو گا۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ عارف کا نمائشی عمل مرید کے اخلاص والے عمل سے بہتر ہوتا ہے۔

تشریح:

فرمایا کہ عارف کا نمائشی عمل غیرِ عارف کے اخلاص والے عمل سے بہتر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عارف جو کچھ کرتا ہے، وہ اصلاً تو اللہ ہی کے لئے کرتا ہے یعنی اس کا دل اللہ کی طرف ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ظاہر لوگوں کی طرف ہوتا ہے یعنی اس عمل میں وہ لوگوں کا حق ادا کرتا ہے کہ لوگوں کو اس عمل سے فائدہ پہنچائے۔ لہذا ظاہر ہے کہ اس میں نمائش بھی ہو جائے گی۔ لیکن چوں کہ وہ نمائش اللہ کے لئے ہے، اس لئے لوگوں کو فائدہ بھی ہو جاتا ہے اور اس کو نقصان بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے عارف کی نماز غیرِ عارف کی نماز سے بہتر ہے۔

متن:

عارف کا نمائشی عمل مرید کے اخلاص والے عمل سے بہتر ہوتا ہے۔ پھر کس طرح بہتر نہ ہو! جب کہ عارف کا عمل سراسر اخلاص سے لبریز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے سہو کو اپنے صواب سے بہتر جانتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے سہو کی آرزو کرتے تھے۔

تشریح:

یعنی کہتے تھے کہ وہ سہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا، کاش مجھ سے بھی ہو جائے۔

متن:

جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یَا لَیْتَنِیْ کُنْتُ سَھْوَ مُحَمَّدٍ‘‘۔ (اے کاش! میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا سہو ہو جاتا)۔ گویا ان کی آرزو یہی تھی کہ کلی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سہو ہو جائیں۔ لہذا اپنے تمام اعمال و احوال کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے عملِ سہو سے کم جانتے ہیں اور پوری آرزو کے ساتھ سوال کرتے ہیں کہ ان کی تمام نیکیاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سہو کے برابر ہی ہو جائیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سہو کی مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ آں سرور صلی اللہ علیہ و سلم نے چار رکعت والی (فرض) نماز میں سہو کی وجہ سے دو رکعت پر سلام پھیر دیا جیسا کہ مروی ہے۔ پس منتہی کی نماز پر دنیاوی نتائج اور ثمرات کے باوجود آخرت کا بڑا بھاری اجر بھی مرتب ہوتا ہے۔ بخلاف مبتدی اور عامی کی نماز کے۔

تشریح:

دیکھیں! عجیب بات فرمائی کہ اعمال کی وجہ سے ثواب کا معاملہ اور ہے اور عمل کرنے والے کی وجہ سے ثواب کا معاملہ اور ہے۔ مثلاً: ایک نوکر ہے، وہ چھوٹے قد کا ہے، چھوٹے چھوٹے ہاتھ ہیں، کم طاقت ہے اور دوسرا نوکر اس سے بہت طاقت ور ہے۔ جو کام اِس کے حوالے ہے اور یہ کر رہا ہے، وہی کام دوسرے کے بھی حوالے ہیں اور وہ بھی کر رہا ہے یعنی دونوں ایک ہی کام پر لگے ہوئے ہیں، یہ اینٹیں اٹھا رہا ہے تو وہ بھی اینٹیں اٹھا رہا ہے اور وہ اس میں خیانت نہیں کررہا یعنی وقت ضائع نہیں کر رہا، لیکن ظاہر ہے کہ کمزور نوکر کتنی اینٹیں اٹھا سکے گا؟ اور یہ دوسرا طاقت ور دھڑا دھڑ کام کئے جا رہا ہے یعنی یہ کام کرنے والے کے اوپر منحصر ہے کہ اس کے اندر کتنی طاقت ہے۔ اسی طرح عمل بھی روحانیت پر منحصر ہے کہ اس کے اندر کتنی روحانیت ہے۔ منتہی کے اندر روحانیت زیادہ ہوتی ہے جب کہ مبتدی کے اندر روحانیت کم ہوتی ہے۔ اس لئے اگرچہ مبتدی سارے اعمال کرے گا، لیکن اپنی روحانیت کے مطابق کرے گا، جب کہ منتہی اپنی روحانیت کے مطابق کرے گا۔ اس لئے اجر میں فرق واقع ہو گا۔

یہ حضرت نے بہت زبردست بات ارشاد فرمائی ہے۔

متن:

منتہی کی نماز کی چند خصوصیات بیان کی جاتی ہیں، ان سے قیاس کر لیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ منتہی نماز میں قرأتِ قرآن کے وقت اور تسبیحات و تکبیرات کے اوقات میں اپنی زبان کو شجرۂ موسوی کی مانند پاتا ہے اور اپنے قُوٰی و اعضاء کو آلات و وسائط سے زیادہ نہیں جانتا۔ اور کبھی ایسا محسوس کرتا ہے کہ ادائیگی نماز کے وقت اس کے باطن و حقیقت نے اس کے ظاہر و صورت سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے اور وہ عالمِ غیب سے ملحق ہو گیا ہے اور غیب کے ساتھ مجہول الکیفیت نسبت پیدا کرلی ہے اور جب نماز سے فارغ ہوتا ہے تو پھر اِس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے۔

یا اصل سوال کے جواب میں کہتا ہوں کہ یہ مذکورہ چاروں اعمال (فرض، واجب، سنت اور مستحب) کا اہتمام بتمام و کمال بجا لانا منتہی کا نصیب ہے. مبتدی اور عامی ان امور کو بتمام و کمال ادا کرنے کی توفیق سے دور ہیں. اگرچہ ان کے لئے بھی ممکن اور جائز ہے، لیکن ایسا کم ہوتا ہے، کیوں کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اِنَّـهَا لَكَبِيْـرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ (البقرۃ: 45) (ترجمہ: خاشعین کے علاوہ دوسروں پر نماز بہت گراں ہے)۔

وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَبَعَ الْھُدٰی (اور سلام ہو اس پر، جس نے ہدایت کی پیروی کی)

تشریح:

یوں سمجھ لیجئے کہ حضرت نے ہمیں اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی کے قرب کو حاصل کرنے کا طریقہ سکھایا ہے، جس میں سب سے پہلے نماز کا مقام ہے۔ ان شاءاللہ اگلی دفعہ رمضان شریف کے بارے میں بات ہو گی، پھر زکوٰۃ اور پھر حج کے بارے میں۔

ان باتوں کا جاننا بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ