مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 11



اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مقالاتِ قدسیہ اور مقاماتِ قطبیہ میں زہد اور عشق کے بارے میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جو بیان چل رہا تھا، اس کا جتنا حصہ گذشتہ درس میں بیان ہو گیا تھا، آج کے درس میں ان شاء اللہ، اس سے آگے کا حصہ بیان ہو گا۔

چنانچہ کاکا صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

متن:

جو عاشق کمال اور انتہا کو پہنچ جائے، تو وہ اللہ تعالیٰ کی کبریائی حجاب کے بغیر اور کسی مقام میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جماعت کے بارے میں رمزیہ طور پر فرمایا ہے کہ: "لِيْ وَقْتٌ لَّا یَسَعُنِیْ فِیْہِ غَیْرُ رَبِّیْ عَزَّ وَ جَلَّ" (الرسالۃ القشیریۃ: ص:190) ”اللہ تعالیٰ کے ہاں مجھے ایک وقت میسر ہوتا ہے کہ جس میں ںہ کسی مقرب فرشتہ اور نہ کسی رسول پیغمبر کی گنجائش ہوتی ہے“۔ یہ وہ مقام ہے کہ نبیِ مرسل اور ملکِ مقرب کو بھی اس کی خبر نہیں۔

لیکن یہ بات اولیاء اللہ نہیں کہا کرتے، کیوں کہ وہ اولیاء ہوتے ہیں، (نبی نہیں ہوتے) وہ جو فرمایا گیا ہے کہ "إِنِّيْ أَعْرِفُ رِجَالًا مِّنْ أُمَّتِيْ فِيْ لَیْلَۃِ الْمِعْرَاجِ مَنْزِلَتُھْمْ بِمَنْزِلَتِيْ عِنْدَ اللہِ تَعَالٰی"۔ ”میں اپنی امت کے اُن آدمیوں کو پہچانتا ہوں، جن کی منزل اور مقام اللہ تعالیٰ کے نزدیک معراج کی رات میں میری منزل اور مقام کے برابر تھا“۔

اے برادرِ عزیز! عشق تمثیلی لباس رکھتا ہے اور اگر تمثیل نہ ہوتی، تو سالک اور راہِ طریقت کے راہ رو کافر ہو جاتے، کیوں کہ اگر ہر چیز کو مختلف اوقات میں ایک شکل پر ہی دیکھتا رہے، تو اس سے انسان نفسیاتی طور پر سیر ہو جاتا ہے، جو کہ باعثِ ملال ہوتا ہے۔ اور جب ہر لحظہ اور ہر آن جمال و حسن میں زیادتی اور اضافہ دیکھتا ہے، تو عشق بھی زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ دید کا اشتیاق اور ملاقات کا شوق مزید بڑھتا جاتا ہے۔ پس ﴿یُحِبُّھُمْ﴾ (وہ اُن کے ساتھ محبت کرتا ہے) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کے ساتھ محبت کرتا ہے، ہر وقت ایک تمثیل کا حامل ہوتا ہے، جو ﴿یُحِبُّوْنَہٗ﴾ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اسی طرح ﴿یُحِبُّوْنَہٗ﴾ ؂1 بھی۔ پس اس حالت میں محبوب کو انتہائی کمال کے ساتھ کمالِ عشق و محبت اور پورے شوق کے ساتھ دیکھنا ہوتا ہے۔

ابیات:

ہر روز بعشق تو بجمال و گرم

و ز حسن تو در بند جمال و گرم

تو آیت حسن را جمال دیگرے

من آیت حسن را کمال دگرم

ترجمہ: ”تمہارے عشق میں ہر روز جداگانہ قسم کے جمال سے آشنا ہوتا ہوں اور تمہارے حسن کی نیرنگیوں سے نرالے حسن و جمال کا اسیر ہوتا ہوں۔ تم حسن و جمال کی ایک جداگانہ نشانی ہو اور میں حسن کے کمال کی ایک علیحدہ علامت ہوں“۔

(حاشیہ: ؂1 اُس کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔ سورۂ المائدہ آیت 54 پوری آیت شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: "اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا، تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کر دے گا، جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مؤمنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں، خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ خدا کا فضل ہے، جسے چاہے دیتا ہے۔ اور خدا بڑی کشائش والا (اور) جاننے والا ہے"۔)

پس اے بھائی! معشوق کا رزق اور حصّۂ لطف کس چیز میں ہے اور عاشق کس چیز سے اپنا نصیب حاصل کرتا ہے اور خود عشق کس چیز سے زندہ ہے؟ لیکن عشق کے بارے میں کیا بیان کیا جائے اور کیا ظاہر کیا جائے؟ اس کے بارے میں رمز اور مثال کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔

ورنہ اس رمز و مثال اور اشارت کے علاوہ عشق کے متعلق کیا کہا جائے اور کیا کہنا چاہئے؟ اگر عبادت میں عشق کی تفصیل اور حال بیان ہو سکتا اور اشارات میں اس کی حقیقت سما سکتی، تو زمانے سے فارغ دل اور عالَمِ عقبیٰ کے طلب گار لوگ اپنے دورِ حیات میں عشق کے معنیٰ کے جسم سے فارغ نہ ہوتے اور عشق کے جمال و حسن سے محروم نہ ہوتے اور حجاب میں نہ ہوتے۔

تشریح:

واقعی عشق کی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اس لئے اس کو سمجھنے کے لئے کچھ اشارات و رموز ہوتے ہیں، جن کے ذریعے سے انسان تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگتا ہے۔ ورنہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان ان باتوں کو محسوس کر سکے۔

اس لئے فرماتے ہیں: جو عاشق کمال اور انتہا کو پہنچ جائے یعنی اس کا عشق بہت زیادہ ہو جائے اور کمال تک پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کی کبریائی سے حجاب ہٹتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آپ ﷺ نے رمزیہ طور پر ارشاد فرمایا: ’’میرے لئے اللہ پاک کے ساتھ ایک وقت ہے جس میں کوئی ملکِ مقرب اور نبیِ مرسل میرے درمیان میں نہیں آتا‘‘۔ یعنی یہ وہ مقام ہے کہ جس کی نبیِ مرسل اور ملکِ مقرب کو بھی خبر نہیں ہوتی۔

میانِ عاشق و معشوق رمزی است

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

ترجمہ: ’’عاشق اور معشوق کے درمیان کچھ ایسے رموز ہوتے ہیں کہ کراماً کاتبین کو بھی ان کی خبر نہیں ہوتی‘‘۔

اصل میں عاشق اپنے عشق کی بدولت ترقی کرتا رہتا ہے اور اس کے اوپر محبوب کے حسن کے پردے کھلتے رہتے ہیں اور معشوق جب قدرت والا ہو تو اس کا حسن روز بروز بڑھتا رہتا ہے۔ ایک نئی شان کے ساتھ وہ آتے ہیں۔ ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن: 29)

ترجمہ: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے‘‘۔

یہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے اپنے بارے میں فرمایا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی شان روز بڑھتی رہتی ہے اور بلند ہوتی رہتی ہے۔ اب ایک طرف محبوب کا شوق اس لئے بڑھتا ہے کہ اس کے اوپر اللہ جل شانہ کے جمال کا پرتو پڑتا رہتا ہے اور ترقی کی وجہ سے مزید پرتیں کھلتی ہیں اور دوسری طرف ادھر سے بھی شان میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے۔ اس لئے یہ شوق مسلسل بڑھ رہا ہوتا ہے۔ اس شوق کی کوئی انتہا نہیں ہے۔

الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے کہ کچھ ہماری کتابیں ہیں، ان کتابوں میں سے ایک ’’شاہراہِ محبت‘‘ ہے جو حاجیوں کے لئے احتیاط کے بارے میں ہے۔ اور دوسری کتاب ’’پیغامِ محبت‘‘ ہے جس میں دل کی باتیں ہیں اور تیسری کتاب ’’فکرِ آگہی‘‘ ہے۔ اس کتاب میں فکر کے بارے میں لکھا گیا ہے یعنی انسان صحیح فکر کیسے حاصل کرے۔ جب یہ تین کتابیں مکمل ہو گئیں تو گویا ایک ہی چیز کی تشریح تین طرح سے ہو گئی۔ اس لئے دل میں خیال آیا کہ اب مزید نہیں کہنا چاہئے۔ جتنا اس موضوع پر کہنا تھا، وہ پورا ہو گیا۔ کیوں کہ شاعری بذاتِ خود تو مقصود چیز نہیں ہے۔ اب دوسری مقصودی چیزوں کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اس کام کو روکنا چاہئے۔ یہ صرف دل میں خیال آیا تھا۔ میں نے باقاعدہ اس بات کا کسی سے اظہار نہیں کیا تھا۔ لیکن جب 2012 میں حج پر جاتے ہوئے میں نے احرام باندھا، تو پہلا شعر یہ وارد ہوا۔

زبانِ عشق کی انتہا نہیں ہے

دیکھنا! رکنا اس سے اچھا نہیں ہے

روک لے اس کو یہ کیا کہتے ہو؟

یہ کسی اور کا ہے، تیرا نہیں ہے

ان دو شعروں میں پورا میسج تھا۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان میں تو صاف بات کہہ دی گئی تھی۔ مطلب یہ ہے کہ تو کیسے عشق کی زبان کو روک سکتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے، کیوں کہ اس کی انتہا نہیں ہے۔ اور یہ جو تو رکنے کا ارادہ کر رہا ہے، یہ بھی اچھا نہیں ہے اور تو اس کو روک بھی نہیں سکتا۔ اگر تو روکنا بھی چاہے گا، تب بھی نہیں روک سکے گا۔

روک لے اس کو کیا کہتے ہو؟

یہ کسی اور کا ہے، تیرا نہیں ہے

یعنی جس طرف سے آ رہا ہے، وہ تیرا کام تو نہیں ہے۔ وہ تو خود ہی بھیج رہا ہے۔ اس موقع پر مجھے بالکل پیغام مل گیا تو میں نے اپنا ارادہ ترک کر لیا اور الحمد للہ اس کے بعد پھر اسی غزل میں اگلی کتاب کا عنوان بھی آ گیا کہ اگلی کتاب کون سی ہو سکتی ہے۔

بہر حال یہ میں عرض کر رہا تھا کہ عشق کا کمال اور اس کی انتہا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس میں تشنگی ہی ہے، بے آرامی اور بے چینی ہے۔ یہ نا ممکن ہے کہ عاشق آرام کر لے اور عاشق کو چین حاصل ہو جائے۔ عاشق کے ساتھ بے چینی لگی ہوئی ہے۔ لیکن یہ بے چینی سو اطمینانوں سے بڑھ کر ہے۔ بالخصوص جب یہ بھی پتا ہو کہ ادھر سے بھی جواب ملتا ہے، پھر تو بات ہی الگ ہوتی ہے۔ اس میں پھر انسان تمام چیزوں کو بھول جاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے لطیف اشارے کے ذریعے سے اس میں کلام فرمایا ہے۔ حضرت نے فرمایا: اگر کسی کو محبوب زور سے کھینچے اور پھر اسے کہے کہ اگر تم چاہو تو چھوڑ دوں؟ یعنی اگر تکلیف ہو رہی ہو تو چھوڑ دیتا ہوں، تو مُحِب کیا کہے گا؟ مُحِب تو کہے گا کہ نہیں، بلکہ اور بھی کھینچئے، بے شک تکلیف ہو رہی ہے۔ لیکن یہ تکلیف؛ تکلیف نہیں ہے، یہ تکلیف بھی ما شاء اللہ سو اطمینانوں سے بڑھ کر ہے۔ یہی بات اصل میں بنیاد ہے۔ میں نے حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ بتایا تھا کہ ایک دفعہ حضرت کے پاس ایک صاحب تشریف لائے تھے اور ایک مہمان اس کو دیکھ رہے تھے۔ حضرت نے اس صاحب کو گریبان سے پکڑا اور نیچے گرا کر اس کی جیب سے پیسے نکالے اور ساتھی سے کہا: جاؤ، اس کی مٹھائی لے آؤ۔ جب وہ ساتھی مٹھائی لے آیا، تو حضرت نے مٹھائی سب کے درمیان تقسیم کر دی۔ وہ مہمان حیران تھا کہ یہ تو بڑے بزرگ ہیں اور یہ ان کی شان کے لائق تو نہیں ہے۔ یہ انہوں نے کیا طریقہ کر لیا! اس کو بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ انہوں نے اپنے دوست سے جو ان کے ساتھ آیا تھا، پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا: چل کر انہی سے پوچھ لیتے ہیں جن کے ساتھ یہ معاملہ ہو رہا ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں ان کے پاس چلے گئے، ان سے کہا کہ یہ کیا مسئلہ ہے؟ یعنی ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا، آپ کے ساتھ تو مولانا نے بڑا ظلم کیا۔ انہوں نے کہا: میں اسی کے لئے تو آتا ہوں، تاکہ میرے ساتھ یہی معاملہ ہو۔

یہ وہ چیز ہے کہ جسے انسان نہیں سمجھ سکتا، اس لئے اس معاملے میں عشّاق کی بات مان لی جائے۔

جب تک نہ لگی ہو کسی دل میں آگ

پرائی لگی، دل لگی سوجھتی ہے

مطلب یہ ہے کہ واقعی جب تک کسی کو عشق حاصل نہ ہو تو دوسرے کی کیفیت کو انسان نہیں سمجھ سکتا۔ بلکہ ممکن ہے کہ دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق شروع کر دے اور ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا بھی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’تم اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ لوگ تمھیں پاگل کہیں‘‘ یعنی والہانہ انداز میں ذکر کرو۔ جب ایسا ہو گا تو لوگ تمھیں پاگل کہیں گے۔

بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ ہر خاندان کے اندر ابتدا میں اگر کوئی شخص اللہ کی طرف آتا ہے۔ تو اس کی تیزی کو دیکھ کر سب لوگ اس پر پاگل ہونے کا فتوی لگاتے ہیں۔ بعد میں بے شک وہ کنٹرول ہو جائے اور ساری چیزیں سمجھ میں آ جائیں۔ لیکن ابتدا میں تو اس کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے۔

حضرت مولانا حامد میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے اجازت دی۔ تو ان کے اوپر سکر اور استغراق کی کیفیت طاری تھی۔ اکیس بائیس سال کے نوجوان آدمی تھے۔ ان کے والد صاحب اگرچہ بڑے عالم تھے اور وہ خود بھی حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ مولانا محمد میاں صاحب گھبرا گئے کہ یہ کیا ہو گا؟ اس طرح تو بیٹا میرے ہاتھ سے چلا گیا۔ انہوں نے حضرت مدنی رحمہ اللہ سے اس کا ذکر کیا، حضرت نے فرمایا: اس وقت آپ کا ان کے اوپر خرچ کرنا بہترین صدقہ جاریہ ہے۔ یعنی اس وقت اگر آپ اس پر انفاق کرتے ہیں۔ اس کو نہیں چھیڑتے اور آپ اس کی کفالت کرتے رہتے ہیں تو یہ بہترین صدقہ جاریہ ہے۔ بعد میں حضرت حامد میاں صاحب ایک عالم متوکل بن گئے اور پورے مدرسے کو چلاتے تھے۔ میں حضرت کے درس میں بیٹھا ہوں۔ قرآن پاک کا بڑا عجیب درس ہوتا تھا۔ اس لئے انتہاء میں تو یہ بات حاصل ہو جاتی ہے، لیکن ابتدا میں جو کیفیت ہوتی ہے، اس سے واقعی لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ مگر جو لوگ سمجھ دار ہوتے ہیں، اس راستے سے گزرے ہوئے ہوتے ہیں، وہ اس کی وجہ سے پریشان نہیں ہوتے۔

اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ اللہ جل شانہ کے عشق کا معاملہ تو واقعی باقی عشاق و معشوقوں سے مختلف ہے، کیوں کہ اللہ تعالی شان اور قدرتوں کے مالک ہیں اور اللہ جل شانہ کی شان کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ﴿كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمٰن: 29)

ترجمہ: ’’وہ ہر روز کسی شان میں ہے‘‘۔

ایک تو اللہ تعالیٰ کی شان ما شاء اللہ ہر لحظہ بڑھتی رہتی ہے اور دوسرا اللہ کے عاشق کی طلب روز بروز بڑھتی رہتی ہے، کیوں کہ اس پر مزید اللہ کی شان کُھلتی ہے، اور مزید کُھلتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے عاشق کی طلب اور شوق بڑھتا جاتا ہے۔ اب دونوں طرف سے ہونی والی بات ہے کہ ادھر سے اظہار ہو رہا ہوتا ہے اور ادھر سے فنائیت کا عالم ہو رہا ہوتا ہے۔

بہر حال! یہ ساری باتیں انسان سمجھ نہیں سکتا، اس لئے حضرت نے یہ اشعار ذکر فرمائے ہیں:

متن:

اشعار:

ہر روز بعشق تو بجمال و گرم

و ز حسن تو در بند جمال و گرم

تو آیت حسن را جمال دیگرے

من آیت حسن را کمال دگرم

ترجمہ: ”تمہارے عشق میں ہر روز جداگانہ قسم کے جمال سے آشنا ہوتا ہوں، اور تمہارے حسن کی نیرنگیوں سے نرالے حسن و جمال کا اسیر ہوتا ہوں، تم حسن و جمال کی ایک جداگانہ نشانی ہو اور میں حسن کے کمال کی ایک علیحدہ علامت ہوں“۔

پس اے بھائی! معشوق کا رزق اور حصّۂ لطف کس چیز میں ہے اور عاشق کس چیز سے اپنا نصیب حاصل کرتا ہے اور خود عشق کس چیز سے زندہ ہے؟ لیکن عشق کے بارے میں کیا بیان کیا جائے اور کیا ظاہر کیا جائے؟ اس کے بارے میں رمز اور مثال کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے‘‘۔

تشریح:

اصل میں یہی بات ناسمجھ لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔ سمجھ دار لوگ چاہے کسی بھی رخ سے سمجھ دار ہوں، ان کی بات اور ہوتی ہے، لیکن ناسمجھوں کو اس سے پریشان کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اعتبارات، اشارات اور رموز، یہ سب مجبوراً ہیں، کیوں کہ ان کو انسان محسوس تو کر سکتا ہے، اعتراف بھی کر سکتا ہے، لیکن ان کا احاطہ نہیں کر سکتا اور کبھی ان کو سمجھ بھی نہیں سکتا۔ جب یہ حالت ہو، تو اس صورت میں پھر رموز اور اشارات ہی کی زبان چلتی ہے اور جن لوگوں کے اوپر اللہ پاک نے جتنی بات کھولی ہوتی ہے، وہ اسی حد تک کے رموز و اشارات بیان کر سکتے ہیں۔ اب جن لوگوں میں ان کی جتنی سمجھ ہوتی ہے، وہ اتنا ان کا ادراک کر سکتے ہیں۔ اگر کسی کے اشارات اور رموز اونچے level (درجے) کے ہوں اور کسی کا ادراک نیچے level (درجے) کا ہو، تو اس صورت میں پھر پریشانی اور بے اطمینانی ہوتی ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی بڑے اکابر گزرے ہیں، جن میں حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ہیں، انہوں نے عوام کی زبان میں نیچے آ کر بات کی ہے، کیوں کہ اللہ پاک نے ان کو ایک خاص پیغام دیا تھا. اس پیغام کو پہنچانے کے لئے حضرت نے بہت نیچے آ کر اس کو بیان کیا اور کوشش کی کہ وہ باتیں لوگوں کو سمجھا دیں. لیکن بعض حضرات اپنے مقام کے مطابق بات کر دیتے ہیں تو ان کی باتوں کو سننے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ رموز و اشارات دو دھاری تلوار ہیں، جو دونوں طرف کاٹ سکتی ہے۔ یعنی اس سے اچھائی بھی حاصل ہوتی ہے اور اگر کسی کو سمجھ میں نہ آئیں، تو ان کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی ان رموز و اشارات کو نہ سمجھتا ہو تو پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جائے۔ حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے، حضرت وہ شاعر تھے کہ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ان کے بارے میں ارشاد فرماتے تھے کہ اگر شریعت اجازت دیتی، تو میں وصیت کرتا کہ ان کو میرے ساتھ دفن کیا جائے۔ حضرت نظام الدین اولیاء کی اس بات کا مطلب تو ظاہر ہے کہ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا کسی کو کہتا، تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ لفظ ’’اگر‘‘ سے جو بات کہی جاتی ہے، اس میں حکم تو اپنی جگہ قائم رہتا ہے، لیکن کسی بات کی intensity (شدت و اہمیت) سمجھانے کے لئے ’’اگر‘‘ سے بات کہی جاتی ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے بیوی پر شوہر کے حق کی intensity (شدت و اہمیت) کو سمجھانے کے لئے مذکورہ بالا بات ارشاد فرمائی۔ اسی طرح خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے تعلق کو سمجھانے کے لئے یہ بات فرمائی تھی۔ اب اگر امیر خسرو رحمہ اللہ کے مقام کو دیکھتے ہوئے ان کا یہ شعر سمجھ میں نہ آئے تو کیا کریں؟

کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست

میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی نہیں چاہئے۔ اس مفہوم کو دوسرے الفاظ میں یوں کہتے ہیں:

ہر رگِ من تار گشتا حاجتِ زنار نیست

یعنی میرا تو ہر تار زنار ہے، مجھے زنار کی حاجت نہیں ہے۔ اب اس شعر کا کیا مطلب لیا جائے؟ اس وجہ سے جب تک کوئی شخص رموز کی زبان نہ جانتا ہو تو اس کو ایسے اشعار سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔ اگر کوئی رموز کی زبان کو جانتا ہو، تو اس کو پھر فائدہ ہوتا ہے۔

اب اس شعر میں کافرِ عشق کا مطلب فنائیت ہے، یعنی حضرت اس میں اپنی فنائیت کو بیان فرما رہے ہیں کہ مجھے فنائیت چاہئے، مجھے اپنا ہوش نہیں چاہئے۔ اب حضرت تو یہ فرمانا چاہ رہے ہیں، لیکن لوگ پتا نہیں اس کا کیا مطلب مراد لیں گے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس کا بہت بڑا ذوق عطا فرمایا تھا۔ حضرت کے مواعظ میں جا بجا ان حضرات کے اشعار پائے جاتے ہیں۔ ہر دوسرے تیسرے صفحہ پر دو تین اشعار ہوتے ہیں۔ بالخصوص حضرت علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار، حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے وہ اشعار، جو حضرت کی زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان سے تو پتا چلتا ہے کہ ان کے اندر جذب ہے وہ جذب بہت اہم ہے، کیوں کہ ویسے تو سلوک کا راستہ بہت محفوظ ہے اور اس میں انسان آہستہ آہستہ چلتا ہے، لیکن محفوظ طریقے سے چلتا ہے۔ مگر ظاہر ہے کہ پہنچنا بھی ہوتا ہے۔ تو پہنچنے کے لئے پھر کیفیتِ جذب کی ضرورت ہوتی ہے۔ گذشتہ سلاسل میں پہلے سلوک طے کرایا جاتا تھا، بعد میں جذب حاصل ہوتا تھا۔ حضرت نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے اس طریق کو تبدیل کر دیا اور انہوں نے پہلے جذب قرار دیا اور پھر اس کے بعد سلوک طے کراتے، ان کا طریقہ کار یہی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے اس کو غلط سمجھ لیا اور وہ جذب پر ہی کفایت کر کے بیٹھ گئے، آگے سلوک طے نہیں کراتے، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کے ساتھ دوسری بہت ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ لہذا اگر نفس کی اصلاح نہ ہو، تو لوگ ان کو اپنے نفس کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں، اس لئے جذب کے ساتھ نفس کی اصلاح بہت ضروری ہے، نفس کی اصلاح کے بغیر جو جذب حاصل ہو، وہ بہت خطر ناک ہے۔

اس لئے حضرت نے فرمایا:

متن:

ورنہ اس رمز و مثال اور اشارت کے علاوہ عشق کےمتعلق کیا کہا جائے اور کیا کہنا چاہئے؟ اگر عبادت میں عشق کی تفصیل اور حال بیان ہو سکتا اور اشارات میں اس کی حقیقت سما سکتی، تو زمانے سے فارغ دل اور عالَم عقبیٰ کے طلب گار لوگ اپنے دورِ حیات میں عشق کے معنیٰ کے جسم سے فارغ نہ ہوتے اور عشق کے جمال و حسن سے محروم نہ ہوتے اور حجاب میں نہ ہوتے۔

تشریح:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایک موقع پر ارشاد فرمایا ہے:

با مدعی مگوید اسرار عشق و مستی

یعنی جو شخص انکار کر رہا ہو، اس کے سامنے عشق و مستی کے اسرار بیان نہ کرو۔ اس کے لئے یہی سزا کافی ہے کہ وہ ان سے محروم ہے۔ واقعتاً یہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے کہ اگر کوئی شخص انکار کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہ ان سے محروم ہوتا ہے۔ دیکھیں! ہمارے جو بڑے ہیں، مثال کے طور پر صحابہ کرام؛ ان کے عشق کا کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟ اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ ہم لوگ بعض چیزوں کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہماری مثال مرغابی کے بچوں کی طرح ہے کہ جیسے مرغابی کو پانی میں ڈبکی دی جاتی ہے، پھر جب وہ باہر آتی ہے، تو خشک ہی خشک ہوتی ہے۔ ہم صحابہ کے واقعات پڑھتے ہیں، لیکن ان میں سے چیزوں کو نہیں پا سکتے، حالاں کہ صحابہ کا عشق کمال تھا۔ سبحان اللہ!

ایک دفعہ بعض مجاہدین کی ایک جماعت میں سے ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ ہم میں سے بعض ساتھیوں کو یہ خیال ہو گیا کہ شاید ہمارے اوپر جتنے مصائب، تکالیف اور مجاہدات آئے ہیں، شاید ان کی وجہ سے ہم نے صحابہ کے level (سطح) کو چھو لیا ہے۔ ایسا وہم ہو جاتا ہے، یہ خیال غلط تھا۔ لیکن غلط خیال بھی تو انسان کے ذہن میں آ سکتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے ذہن میں جب یہ بات آئی، تو ایک ساتھی نے خواب دیکھا، خواب میں دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ جیپ میں تشریف فرما ہیں۔ دوسرے بعض حضرات بھی اس میں موجود ہیں اور جیپ پہاڑ کے اوپر چڑھ رہی ہے۔ اچانک جیپ پیچھے ہونا شروع ہو جاتی ہے، تو اس کو روکنے کے لئے ہم لوگوں نے چھلانگ لگائی اور پتھروں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تاکہ جیپ کے ٹائروں کے نیچے رکھ دیں، جیسا کہ ایسے موقع پر گاڑی کو روکنے کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ جب ہمارا ساتھی پتھر لے کے آیا، تو دیکھا کہ صحابہ نے اپنے سر ٹائروں کے نیچے رکھے ہوئے تھے، ان کے سروں سے خون بہہ رہا تھا۔ کہنے لگے کہ جب ہم جاگ گئے، تو اس ساتھی نے کہا: ’’اف ہو، اس خواب سے تو ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تم کہاں اور صحابہ کہاں؟‘‘۔

صحیح بات یہ ہے کہ ہماری صرف باتیں ہیں اور باتوں سے تو صرف باتیں بنتی ہیں، لیکن ان کے پکے حالات تھے۔ آپ ﷺ نے جب چندے کے لئے فرمایا، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کیا؟ عمر رضی اللہ عنہ کی ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مسابقت تو چلتی رہتی تھی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوچنے لگے کہ شاید آج میں کچھ اچھے حال میں ہوں۔ اس لئے آج میں ان سے جیت جاؤں گا۔ نصف مال اٹھا کر لے گئے، نصف اپنے گھر کے لئے چھوڑ دیا۔ وہ نصف بہت زیادہ تھا۔ جب نصف لے کر گئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے کہا: نصف یہاں لایا ہوں اور نصف چھوڑ دیا ہے۔ فرمایا: ٹھیک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول فرما لیا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے۔ تو آپ ﷺ نے ان سے بھی پوچھا کہ اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے اللہ اور اللہ کے رسول کا نام کافی ہے، گھر والوں کے لئے وہی چھوڑ کر آیا ہوں۔ گھر میں جھاڑو دے کر اپنا سارا مال آپ کی خدمت میں لے آیا ہوں۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ آدمی ذرا غور تو کرے! حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا کہ حضرت! آپ لشکر کے اندر مطمئن ہو کر گھس جاتے ہیں۔ آپ کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ کسی وقت تلوار آپ کے اوپر چل سکتی ہے نیزہ آپ کے اوپر آ سکتا ہے یا تیر آپ کے اوپر آ سکتا ہے؟ فرمایا: کیوں نہیں، یہ خوف تو ہوتا ہے، لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ جو تلوار میرے لئے بنی ہو گی، وہ کسی دوسرے پر نہیں چلے گی، جو تیر میرے لئے بنا ہو گا، وہ کسی دوسرے کو نہیں لگے گا اور جو نیزہ میرے لئے بنا ہو گا، وہ کسی دوسرے کے جسم پر نہیں چلے گا۔ یہ اصل میں بڑی بات ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کو نقل فرمایا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو اختیار دیا جاتا کہ آپ بچپن میں فوت ہو کر محفوظ طریقے سے جنت میں چلے جائیں (کیوں کہ مسلمانوں کے بچے تو جنتی ہوتے ہیں، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں) یا پھر جوانی میں امتحان میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو گرفتار کروا دیں تو آپ کون سی بات اختیار کرتے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں دوسری بات اختیار کرتا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا عشق کی وجہ سے کہا ہے۔

بلکہ اللہ پاک نے انسان کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں نے جو چیز پہاڑوں کے اوپر پیش کی تھی اور پہاڑوں نے اسے قبول کرنے سے معذرت کر دی تھی، وہ چیز جس وقت میں نے انسان پر پیش کی تو اس نے اسے قبول کر لیا، کیوں کہ انسان ظَلُوْمًا جَھُوْلًا تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بڑی زبردست تشریح فرمائی ہے۔ دیکھیں! الفاظ کو ذرا غور سے دیکھیں، ظَلُوْمًا جَھُوْلًا، ان کی تشریح صرف عشق سے ہی ہو سکتی ہے، اور کوئی اس کی تشریح نہیں ہو سکتی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہ فرمایا کہ یہ انسان کے اندر جو پنہاں عشق تھا، اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ اور شیطان کے بارے میں حضرت رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ چار عین (ع) ہیں، شیطان کے پاس تین عین تھے، چوتھا نہیں تھا۔ وہ عارف بھی تھا، عابد بھی تھا، عالم بھی تھا، لیکن عاشق نہیں تھا۔ اگر یہ عاشق ہوتا، تو کبھی بھی یہ غلطی نہ کرتا۔ حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مجھ سے بعض لوگوں کو عقیدت ہے اور بعض کو محبت ہے، فرمایا کہ عقیدت بھی بڑی چیز ہے، لیکن مجھے محبت پسند ہے، کیوں کہ محبت کے اندر پھر کوئی اشکال نہیں ہوتا۔ محبت ایسی عجیب چیز ہے، جو محبوب کے عیوب کو بھی پسندیدہ بنا دیتی ہے، چہ جائے کہ جو حسن ہو، تو اس کے ساتھ کیا ہی معاملہ ہو گا!

ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تو حسن ہی ہے۔ کوئی دوسری صورت ہے ہی نہیں۔ وہ سُبْحَانْ ہے، پاک ہے۔ اور جس کو اللہ کے ساتھ عشق ہو گا، اس کی کیا بات ہو گی؟ اسی وجہ سے یہ عشق محفوظ ہے۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

یہ کیا چیز ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ عشق اور عقل کو سمجھنے کے لئے غزل ہی مناسب ہے۔ کیوں کہ بعض چیزوں کی تشریح کلام سے ہوتی ہے۔

غزل:



عقل والوں کی رسائی ذہن میں رکھتے ہوۓ، عشق والوں کی رسائی پہ کوئی بات کرے

حسن والوں کی چاہتوں کو سامنے رکھ کر، خرد کی اپنی سست روی پہ کوئی بات کرے

حسن والے تو اتنا چاہیں اتنا عقل تو ہو، ساتھ یہ ہو تو وہ پہچانے تو سب میں جائیں

یعنی حسن والے چاہتے کہ اتنی عقل تو ضرور ہونی چاہئے کہ وہ پہچان لئے جائیں۔ مثال کے طور پر کوئی بہت حسن والا ہے، لیکن اِس میں اتنی عقل ہی نہیں ہے کہ یہ اس کو سمجھ سکے۔ اس لئے اتنی عقل تو ضروری ہے کہ کم از کم اس حسین کو سمجھ تو سکیں اور اس کی صفات کو پہچان لیں۔


حسن والے تو اتنا چاہیں اتنا عقل تو ہو، ساتھ یہ ہو تو وہ پہچانے تو سب میں جائیں

باقی پہچان کے بعد عشق سے ممکن جو ہے، اس کی فطری وارفتگی پہ کوئی بات کرے

لیکن اگر پہچان لئے جائیں، تو اس کے بعد عقل کام نہیں کرتی۔ عقل فیل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد عشق کی وابستگی ہے، وہ اصل کام کرتی ہے۔ جتنے واقعات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اور اسی طرح ہمارے اور اکابر مثلاً: صدیق مرغشی رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں، وہ سب ہماری عقل سے بالا ہیں۔ وہاں پر عقل کام نہیں کر سکتی۔ ان کو سمجھنے کے لئے عقل فیل ہو جاتی ہے۔


عقل جب عقل ہو تو عقل کو سیدھا رکھے، عشق جب عشق ہو تو ہو اصلی معشوق کے ساتھ

عقل تو وہ ہے، جو صحیح جگہ پر پہنچائے یعنی عقل صحیح استعمال ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ عقل کو صحیح استعمال کرنے کی عقل۔ اور وہ عقل تب حاصل ہو گی جب موجودہ عقل کو صحیح استعمال کیا جائے۔ گویا کہ عقل کا جو tool (آلہ) ہے، وہ کیسے استعمال کیا جائے؟ اس کا راستہ وہ عقل بتائے گی، جو اس کی input (یعنی اپنی معلومات) سے بھی بالا ہو گی، کیوں کہ موجودہ عقل نفسانی عقل ہے، جو ہماری آنکھوں، ذہن، زبان، کان وغیرہ ان چیزوں کی حسّوں کے ساتھ متعلق ہے اور ہم نفسانی طور پر جن چیزوں سے متاثر ہوتے ہیں، یہ عقل ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بارے میں بات کرے گی۔ لیکن جو عقلِ ایمانی ہے یعنی ایمان کے ذریعے سے جو چیزیں معلوم ہوں، جو عقل ان کا ادراک کر رہی ہو، تو وہ عقلِ ایمانی ہے۔ وہ پھر عقل کو صحیح استعمال کرنے کے لئے بتائے گی۔

دوسری طرف عشق ہوس بھی ہو سکتا ہے، ہوس تو عشق نہیں ہے۔ ہوس کو عشق کا نام دیا گیا ہے۔ اصل عشق وہ ہے، جو اصل معشوق کے ساتھ ہو۔ یعنی دنیا کے ساتھ جو ہم برت رہے ہیں، وہ صرف اس کے لئے برت رہے ہیں جو ہمارا اصل معشوق ہے یعنی اللہ کے لئے کر رہے ہیں۔ اگر بیوی کے ساتھ بھی محبت ہو، تو اللہ کے لئے ہو، استاد کے ساتھ بھی محبت ہو، تو اللہ کے لئے ہو، اگر والد کے ساتھ بھی محبت ہو، تو اللہ کے لئے ہو، اولاد کے ساتھ بھی محبت ہو تو اللہ کے لئے ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی بیوی، کوئی والد، کوئی بیٹا، کوئی بھائی یا کوئی بہن اس محبت کے درمیان حائل ہونا چاہے گا، تو وہ اس کو خاطر میں نہیں لائے گا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ لڑائی میں اپنے بیٹے کی زد میں آ گئے تھے، جب کہ ان کے وہ بیٹے کافر تھے۔ پھر جب بعد میں ان کے بیٹے مسلمان ہو گئے تو بیٹے نے کہا: ابا جان! فلاں موقع پر کئی دفعہ آپ میری تلوار کی زد میں آئے تھے، لیکن میں نے سوچا کہ میرے والد ہیں، اس لئے میں نے تلوار پیچھے کر لی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اگر تم میری تلوار کے نیچے آتے تو میں ہرگز اپنی تلوار کو پیچھے نہ کرتا۔ اب یہ ایسی چیز ہے کہ گویا تمام چیزوں کے ساتھ ہماری محبت؛ اس اصلی محبت کے لئے ہو۔ اس لئے اگر عشق، صحیح عشق ہو، تو وہ اس اصلی معشوق کے ساتھ ہو۔

عقل جب عقل ہو تو عقل کو سیدھا رکھے، عشق جب عشق ہو تو ہو اصلی معشوق کے ساتھ

عقل جب نفس سے آلودہ ہو تو دل کی پھر، ہے جو ممکن اس میں کجی پہ کوئی بات کرے

یعنی اگر عقل نفس سے آلودہ ہے تو دل میں کجی آئے گی، کیوں کہ یہی عقل نفس سے بھی حصہ لیتی ہے، اگر عقل ایمان سے حصہ لیتی ہے، تو نفس سے بھی حصہ لیتی ہے، مشاہدہ سے بھی لیتی ہے اور ایمان بالغیب سے بھی حصہ لیتی ہے۔ اب اگر عقل نفس سے آلودہ ہو گی، تو پھر دل کے اندر کجی آئے گی، کیوں کہ یہی نفس دل کو بھی متاثر کرے گا۔ اس لئے اس پر کوئی بات ہونی چاہئے۔ اور وہ یہ کہ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران: 8)

ترجمہ: ’’اے ہمارے رب! تو نے ہمیں جو ہدایت عطا فرمائی ہے، اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ پیدا نہ ہونے دے اور خاص اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا فرما۔ بیشک تیری، اور صرف تیری ذات وہ ہے جو بے انتہا بخشش کی خوگر ہے‘‘۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق، عقل ہے محوِ تماشاۓ لب بام ابھی

کہتا اقبال ہے درست پر یہ عشق ملے کیسے؟ اس کے ملنے کی آگہی پہ کوئی بات کرے

یہ علامہ اقبال رحمہ اللہ کے ایک تاریخی شعر کے بارے میں بات ہے اور وہ تاریخی شعر یہ ہے:

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

در اصل اس شعر میں علامہ اقبال نے ایک target (ہدف) بتایا ہے یعنی یہ بتایا ہے کہ یہ حالت ٹھیک ہے اور یہ حالت غلط ہے، یہ ہونا چاہئے اور یہ نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن صحیح کو حاصل کیسے کریں؟ یہ نہیں بتایا۔ یہ تو کوئی بتائے گا تو پھر پتا چلے گا۔ باقی عشق کے بارے میں علامہ اقبال جو بتا رہا ہے، وہ صحیح بات ہے۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی

لیکن اس عشق کو کیسے حاصل کریں؟ اس کے بارے میں مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا ہے۔ اس بارے میں پھر ان کو دیکھنا پڑے گا، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنا پڑے گا، مطلب یہ ہے کہ یہ چیز وہاں سے ملے گی، یہاں سے نہیں ملے گی۔


عقل بن جائے اگر عشقِ حقیقی کا غلام، وہ خواہشاتِ نفسانی کا کرے ٹینٹوا بند

اس کی تائید ہو معشوقِ حقیقی سے پھر، دل کی الہامِ رحمانی پہ کوئی بات کرے

یعنی ہماری عقل اگر عشقِ حقیقی کی غلام بن جائے، تو پھر وہ نفسانی خواہشات کا ٹیٹوا بند کر دے گی، ان کو اٹھنے ہی نہیں دے گی۔ اور پھر اس کے بعد جو جواب ملے گا، اللہ تعالیٰ سے جو الہامِ ربانی آئے گا، اس کی بھی بات ہونی چاہئے۔


ایسا عاشق جب پہنچے اپنے معشوق کے ہاں، اور وہ معشوق ہو باوفا کا بنانے والا

ساتھ وہ معشوق ہو قادر کہ کرے جو بھی کرے، شبیر اس کی مہمانی پہ کوئی بات کرے

یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ پر فدا ہیں۔ جب وہ اپنے معشوق کے پاس پہنچیں گے تو وہ ان کی کتنی قدر کرے گا۔ جنہوں نے اپنی جان قربان کی، اپنی خواہشات کو قربان کیا، اپنا نام قربان کیا۔ اور پھر جو قدر دان ہے، وہ بھی ایسا ہے کہ سارے قدر دانوں کی قدر کرنے والا ہے، با وفا ایسا ہے کہ سارے با وفاؤں کو پیدا کرنے والا ہے، تو اس کا اپنے عاشقوں کے ساتھ کیا ہی معاملہ ہو گا! پھر معشوق کی طرف سے جو مہمانی ہو گی، کوئی شخص اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا، کیوں کہ وہ تمام کاموں پر قدرت والا ہے، جو چاہے، کر سکتا ہے۔ اس وجہ سے یہ بہت ہی زیادہ نفع کا سودا ہے۔


متن:

ابیات:

اے عشق تو دریغا کہ بیان از تو خجال ست

حظ تو ز خود باش و حظ تو محال است

اُنس تو برباد است با زلف سیاه است

قوتت ز خدا ہست حیات تو زخال است

ترجمہ: ”افسوس کہ تیری محبت اور عشق کا حال بیان کرنا باعثِ خجالت ہے۔ (یعنی بیان نہیں کیا جا سکتا۔) تُو خود ہی اپنے آپ مقدر بنو اور تمہارا خود اپنے آپ مقدر بننا نا ممکن ہے، تمہارے ساتھ محبت کرنا اور تہمارے کالے گیسو کی محبت لا حاصل ہے، آپ کی روزی اور خوراک تو خدا کی جانب سے ہے اور تمہاری زندگی کفن سے ہے“۔

یعنی موت کے بعد حیاتِ سرمدی حاصل کرو گے۔ حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مقام یعنی ﴿فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہٖ مَا أَوْحٰی﴾ (النجم: 10) کی تشریح کی ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ: "إِتْمَامُ الْعُبُوْدِیَّۃِ لِلْعَبْدِ أَنْ یَّکُوْنَ عِشْقُہٗ کَعِشْقِ اللہِ تَعَالٰی" یعنی عبودیت کی انتہا اور تکمیل یہ ہے کہ بندہ کی محبت اللہ تعالیٰ کے عشق کی مانند ہو جائے، عبودیت کی انتہا، تکمیل اور اتمام یہی ہے کہ تقصیر اور توقیر ختم ہو کر رہے۔ یعنی کمی بیشی کا حساب نہ رہے۔ میں نے یہ بات اشارے، رمز و کنایہ کے طور پر کہی، ورنہ حقیقت اور اس راز کو واضح طور پر یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو مالک و معبود کے لئے حاصل ہے، وہی بندہ کو بھی حاصل ہو اور جو صفات مالک کی ہوں، مثلًا ہنسنا، دیکھنا، قدرت، ارادت، زندگی، بقا اور کلام و دوام؛ وہی بندہ کو بھی مالک کی صفات کی وجہ سے حاصل ہوں۔ اے عزیز بھائی! ذرا دیکھئے! شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام میں فرماتے ہیں کہ: "فَقَالَ: أَنَا أَقَلُّ مِنْ رَّبِّيْ بِسَنَتَیْنِ" میں اپنے رب سے دو سال کمتر ہوں۔ یعنی وہ مجھ سے دو سال کی سبقت رکھتا ہے اور میں اُس سے دو سال کم ہوں اور یہ ایام اللہ تھے، یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے سال ہوتے ہیں۔ اور اے بھائی! اللہ کے سال میں ہر دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے ﴿وَ إِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ﴾ (الحج: 47) ”اور بے شک تمہارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کے روز سے ہزار برس کے برابر ہے“۔ اے برادر! شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نا سمجھ علماء سمجھتے ہیں کہ ایسا کہنا کفر ہے۔ میں اس کی تشریح کروں گا کہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا، فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253)

”میں ایک پوشیدہ خزانہ اور گنجینۂ مستور تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق پیدا کی تاکہ پہچانا جاؤں“۔

پس اے بھائی! اُس مخفی کا ظہور "فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ" یعنی تخلیقِ روح تک کا زمانہ سات لاکھ بیس ہزار سال (720,000 سات لاکھ بیس ہزار سال) تھا، پس اللہ تعالیٰ کے دو سال سات لاکھ بیس ہزار سال تھے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس اظہار کے بعد کہ میں خلق کی تخلیق کرنا چاہتا ہوں، روح کی تخلیق دو سال بعد ہوئی، اس کے بعد دوسری مخلوق پیدا ہوئی، اللہ کریم کی ابتدائی حالت جس کو وہ "کَنْزًا مَّخْفِیًّا" یعنی گنجینۂ مستور سے مثال فرماتا ہے، ان دو سالوں سے قطعِ نظر اس حالت یعنی کنزِ مخفی کی ابتدا ہی نہیں۔ پس حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ کی بات صحیح ہے کہ وہ مجھ سے دو سال سبقت رکھتے ہیں۔ اب اگر علماء اس بات کو نہ سمجھیں تو کیا کہا جا سکتا ہے۔

جناب حسین منصور (حلاج) اور ابوبکر دقاق فرماتے ہیں اور یہی بات حضرت جنید بغدادی بھی فرماتے ہیں، کہ "اَلْفَقِیْرُ ھُوَ الَّذِيْ لَا یَفْتَقِرُ إِلٰی نَفْسِہٖ وَ لَا إِلٰی رَبِّہٖ" یعنی فقیر وہ ہوتا ہے جو نہ تو اپنی ذات کا محتاج ہوتا ہے اور نہ اپنے پروردگار کا، کیوں کہ احتیاج اور حاجت مندی کمزوری اور نقص ہے اور فقیر جب اُس کمال کو پہنچتا ہے، تو وہ اُس مقام تک رسائی حاصل کرتا ہے کہ "إِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللہُ وَ تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہِ"

”جب فقر درجۂِ کمال کو پہنچ جاتا ہے، تو یہی خدا کا مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق اختیار کرو“۔

عاشق کا اس سے بلند تر مقام اور کوئی نہیں۔ یا اللہ کریم! ہمارا یہی مقصود ہمیں نصیب فرما۔

اے عزیز بھائی! حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص (بہترین قصہ) کہا گیا ہے۔ اس کا سبب بس یہی ہے کہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی نشانی اپنے میں رکھتا ہے۔ اے بھائی! ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) کی خبر تجھے اُس وقت ہو جائے گی کہ تجھے اس آیت مبارک کے معنیٰ نظر میں جلوہ افروزی کریں: ﴿وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَّرَاءِ حِجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِيَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ﴾ (الشوری: 51)

تشریح:

اصل میں وہی بات ہے کہ رمز کی باتیں انسان زیادہ نہیں کھول سکتا، جب تک ان کو وہ چیزیں حاصل نہ ہو جائیں جو ان کے سامنے کھولنے کے لئے ہوتی ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے روح کے بارے میں جو کلام فرمایا ہے، اگر کوئی اسے پڑھ لے یا سن لے تو میرے خیال میں بہت ساری چیزیں اس راستہ کی clear (واضح) ہو جائیں گی، کیوں کہ حضرت نے فرمایا ہے اور حدیث شریف بھی ہے کہ اللہ تعالی کسی چیز میں نہیں سما سکتا، مگر مومن کا قلب، کہ اس میں سما سکتا ہے۔ اب مومن کا قلب کہاں اور اللہ جل شانہ کہاں! یہ کیا بات ہے؟ یہ تصور میں بھی نہیں آ سکتا، لیکن جیسے اللہ پاک ہیں، اسی طرح روح بھی سمجھ میں نہیں آ سکتی، کیوں کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: میں نے اس کا علم بہت کم کسی کو دیا ہے۔ روح کی dimensions (طول و عرض) نہیں ہیں اور روح جب پیدا ہو گئی تو اب ہمیشہ کے لئے رہے گی یعنی روح ختم نہیں ہو گی، جسم ختم ہو جاتا ہے، لیکن روح ختم نہیں ہوتی، روح باقی رہے گی۔ ہاں یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ کسی روح کو جنت میں بھیج دیا جائے گا اور کسی روح کو دوزخ میں بھیج دیا جائے گا، لیکن بہر حال روح باقی رہے گی۔

اب یہ جو اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ ’’میں پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، تو میں نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو اپنے ارادے سے اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے تاکہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اللہ جل شانہ نے اس روح کو جو لا فانی چیزیں عطا فرما دیں، وہ بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادے سے عطا فرمائی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ روح جسم میں آ کر اپنے رب کو بھول جائے تو پھر یاد دہانی کے لئے اس کو کچھ کرنا پڑتا ہے۔ پھر اس کو ذکر، مجاہدات اور ریاضتوں کے ذریعے سے یاد دہانی کرائی جاتی ہے۔ مجاہدات اور ریاضت سے اور کچھ نہیں ہوتا، صرف نفس کے چھلکے اترتے ہیں۔ نفس نے روح کو جکڑا ہوتا ہے تو نفس کے چھلکے اتارے جاتے ہیں۔ ذکر اللہ سے روح کو اس کا سبق یاد دلایا جاتا ہے، مطلب یہ کہ روح کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ میں کیا ہوں اور کس کے لئے ہوں؟ ذکر اللہ سے انسان کو اللہ یاد آتے ہیں، روح کو اللہ یاد آتا ہے اور جو ہم نفس کے خلاف مجاہدات اور ریاضتیں کرتے ہیں، ان سے نفس کی جو رکاوٹیں ہیں اور نفس نے ہمارے تمام حصوں کو جو جکڑا ہوتا ہے یعنی دل کو بھی جکڑا ہوتا ہے، ان مجاہدات اور ریاضتوں کی وجہ سے نفس کی گرفت کمزور ہوتی جاتی ہے۔

اب نفس کی گرفت کو کمزور کر لو اور اس کے ساتھ ساتھ دل کی آنکھیں کھولو۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے دل کی آنکھیں کھولیں اور اپنے نفس کے خلاف مجاہدہ نہیں کیا، نفس کو مجاہدے کے ذریعے سے روح سے نہیں ہٹایا تو ایسی صورت میں وہ پھر نفس کی خواہشات کو پائے گا اور پہلے سے زیادہ محسوس کرے گا، کیوں کہ نفس کا غلام ہو گا، اس لئے زیادہ محسوس کرے گا۔ ایسی صورت میں پھر اس کو مجاہدہ کروانا پڑے گا۔ اس مجاہدہ کے ذریعے سے نفس کے اثرات ختم کرنے پڑیں گے۔ پھر جب وہ نیچے آئے گا، تو اسی کو ’’نزول‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً: انسان کے اندر ایک ترفّع پایا جائے، مثلاً: میں مراقبات کر رہا ہوں اور میرے مراقبات بڑے شان دار ہیں، یہ نظر آ رہا ہے اور یہ نظر آ رہا ہے، ٹھیک ہے کہ سب مشاہدات نظر آ گئے، لیکن اس کا مطلب کیا ہو گا؟ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میں بڑا ہوں! اگر یہ بات پیدا ہو گئی، تو مجھے بتاؤ کہ کیا حاصل ہوا؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لئے مجاہدہ کے ذریعے سے ’’میں بڑا ہوں‘‘ کو ختم کرنا ہے۔ اسی کو ’’نزول‘‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ مجاہدہ کے ذریعے سے اس کو دوبارہ زمین پر لایا جاتا ہے۔ نفس کی طرف سے روح کو جکڑنے کا جو نظام ہے کہ نفس نے روح کو جکڑا ہوا ہے اور یہ دونوں قلب میں موجود ہیں۔ حضرت نے اس کی تشریح فرمائی ہے کہ قلب میں نفس اور روح دونوں آپس میں باہم گتھم گتھا ہیں۔ اب مجاہدات کے ذریعے سے ان کو چھڑانا ہے۔ جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے چھوٹ جائیں گے، تو روح اوپر اور نفس نیچے آ جائے گا، نفس اپنے مقام پر آ جائے گا اور روح اپنے مقام پر چلی جائے گی۔ پھر جب روح اپنے مقام پر چلی جائے گی تو نفس کا اس کے اوپر اثر نہیں ہو گا، جس کی وجہ سے روح اللہ کے ساتھ واصل ہو جائے گی۔ پھر روح کی تشکیل کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے، اس کو ’’منتہی مرجوع‘‘ کہتے ہیں۔ روح جب دوبارہ واپس آتی ہے، تو نفس پر حاکم ہو کر آتی ہے، محکوم ہو کر نہیں آتی۔ اب وہ نفس کی تمام چیزوں کو جانتی ہے کہ اس کے کیا کیا اثرات ہیں۔ ان اثرات کو جاننے کی وجہ سے پھر انسان باقی لوگوں کی تربیت کر سکتا ہے، کیوں کہ اگر وہ جانتا نہ ہو، تو کسی کی تربیت کیسے کرے گا؟ اس لئے روح دوبارہ واپس آ جاتی ہیں، لیکن حاکمانہ طور پر۔ اس وقت روح پر نفس کی جکڑ نہیں ہوتی، البتہ نفس کی حِسّیں موجود ہوتی ہیں، بلکہ پہلے سے زیادہ ہوتی ہیں، کیوں کہ اس صورت میں دو کام ہو جاتے ہیں: ایک تو اس کو ان لوگوں کی تمام چیزیں سمجھ آتی ہیں، جن کی وہ تربیت کر رہا ہوتا ہے کہ ان کے کیا احساسات ہیں، کیا مشکلات اور کیا تکالیف ہیں۔ اور دوسرا کام یہ کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کو میسج (الہام) آتا ہے، اس کو وہ حاصل کر سکتا ہے اور لوگوں کی تربیت کے لئے اس کو استعمال کر سکتا ہے۔ روح کی تشکیل کے بعد روح جب نفس پر غالب ہو کر آ جاتی ہے، تو اس وقت شیخ برزخ کی مانند بن جاتا ہے یعنی اوپر اللہ تعالی سے لیتا ہے اور نفس کے ذریعے سے لوگوں کو دیتا ہے۔ ان کے حال کے مطابق ان کی تربیت کرتا رہتا ہے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا: جب تک کسی کو یہ مقام حاصل نہ ہو، ان کو اجازت نہیں دینی چاہئے۔ یعنی جو شخص صرف اوپر ہی اوپر ہے، اس کو اجازت نہ دو۔ کیوں کہ وہ تو دعویٰ کی کیفیت میں ہے، وہ ابھی نیچے نہیں آیا، اس کو پہلے دعویٰ سے نیچے لانا ہے، پھر پتا چلے گا۔ اسی وجہ سے اصل میں مجاہدات اور ریاضتوں کی ضرورت ہے، ان کے بغیر انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ