توضیح المعارف قسط 02

روح کے متعلق حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل رحمہ اللہ کی تحقیق
روح کی حقیقت:
یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ روح جسم کے اندر زندگی پیدا کرنے والی چیز ہے اور اس کی جدائی سے جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ جس وقت آدمی مر جاتا ہے تو آدمی میں موجود حِس و حرکت زائل ہو جاتی ہے اور وہ پتھر کی طرح بے جان بن جاتا ہے۔ وہ چیز جس کی جدائی سے یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی روح ہے۔
اب اِس روح کی حقیقت پر غور کرنا چاہئے۔
روح کے بارے میں کچھ خصوصی باتیں:
تجلی اعظم سے شخصِ اکبر سب سے پہلے عالمِ ارواح کو حاصل کرتا ہے۔
روح مادیت کی آلائشوں یعنی رنگ، شکل، محدود و مقید ہونے یا حسّی اشارے کی قبولیت سے بالکل پاک ہوتی ہے۔
مادیت سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ روح کا ایک خارجی حقیقت ہونا، محض ذہنی چیز نہ ہونا بھی سمجھنا ضروری ہے۔
البتہ ارواح کی پیدائش کا منفرد اور خاص ہونا بھی ایک حقیقت ہے کیوں کہ اس کی تخلیق براەِ راست امر کے مقدس قانون کے تحت ہوتی ہے۔
روح کے اجزاء:
روح تین اجزاء سے مرکب ہے: نسمہ یا بدنِ ہوائی، نفسِ ناطقہ اور روحِ ملکوت۔
نسمہ:
جسم اور روح کا برزخ۔
بدنِ ہوائی:
یہ پاکیزہ ہوا ہے اور ایسی لطیف ہوا ہے کہ جس کو انسان محسوس نہیں کر سکتا، لیکن اس کے اثر کو دیکھا جا سکتا ہے اور اثر وہی ہے کہ آدمی اس سے زندہ ہوتا ہے۔ یہ کئی دفعہ تحلیل ہونے کے بعد عناصر کے لطیف بخارات سے پیدا ہوتی ہے اور غذا، نشو و نما اور ادراک کی قوتوں کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی لطافت اس حد تک ہے کہ پتا بھی نہیں چل سکتا کہ یہ کیسے اندر جاتی ہے اور کیسے باہر آتی ہے حتیٰ کہ وزن میں بھی نہیں آتی۔
نفسِ نباتی:
نباتی نفس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ہم کسی چیز کی گٹھلی زمین میں بوتے ہیں پھر پانی، ہوا اور زمین کے لطیف اجزاء اسے ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں تو وہ گٹھلی اپنی خدا داد قوت سے اجزائے لطیفہ کو اپنی طرف کھینچ کر انہیں ایک دوسری صورت یعنی کونپل میں بدل دیتی ہے۔ پھر اسے ایک باقاعدہ نظام اور مقررہ قاعدے کے مطابق اپنے جسم کی نشو و نما میں صرف کرتی ہے۔ اس باقاعدہ نظام کی تدبیر کا سارا پروگرام اس کے DNA میں محفوظ ہوتا ہے۔ مذکورہ مثال میں گٹھلی کے اندر سے جو کونپل باہر نکلتی ہے، وہ بعد میں اس سے بننے والے پودے کی پوری نمائندہ ہوتی ہے۔
نفسِ حیوانی:
حیوانات اور انسانوں میں جب مرکباتِ ارضیہ کی عفونت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، مثلاً مادہ منویہ اور خونِ حیض رحم میں جمع ہو جاتے ہیں اور والدہ کا نفس اس کو کی گئی وحی کے مطابق اس میں تدبیر کرتا ہے تو اس سے دل، جگر اور دماغ ظاہر ہو جاتے ہیں۔ پھر اس مرحلے پر اس میں روحِ ہوائی پھونک دی جاتی ہے۔ اس سے ہر دو صورتیں آپس میں بدل جاتی ہیں اور اس سے ایک تیسری صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک انقلاب ہے۔ یہ ساری تدبیر اس کے DNA میں محفوظ ہوتی ہے۔ جو جو کام جس جس طرح کسی زندہ جسم نے کرنا ہوتا ہے، اس میں اس کا پورا نظام موجود ہوتا ہے۔ یہ جسم کے کھربوں خلیوں میں سے ہر خلیے میں ہوتا ہے۔ انسان یا جانور کے ہر خلیے میں پورے انسان یا جانور کی نمائندگی ہوتی ہے۔
نفسِ ناطقہ:
نفسِ نباتی اور حیوانی نفس کے مقابلے میں انسانی نفس زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ یہ نفس کلیہ کا قریب ترین مثالی جزو ہے۔ اسی سے سارے لطائف پھوٹتے ہیں۔ اس کے DNA میں وہ خصوصی صفات بھی ہوتی ہیں جو کہ نباتی اور حیوانی نفس میں نہیں ہوتیں۔ انسان کا حیوانِ ناطق ہونے کے لحاظ سے اس میں حیوان کے لئے نفسِ حیوانی کی صفات کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اس میں ناطق ہونے کے اعتبار سے شعور کی وہ صفات رکھ دی جاتی ہیں کہ جن سے انسان ساری مخلوقات میں ممتاز ہے لیکن اب تک صرف مادے کی تیاری ہے۔ اس کو صورتِ مثالی عالمِ مثال سے روحِ ملکوت کی صورت میں عطا ہو گی۔
روحِ ملکوت:
یہ تیسرا جزو ہے۔ جب الله نے نوعِ انسانی کی تخلیق کا ارادہ فرمایا جیسا کہ ارشادِ باری ہے: ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ (البقرۃ: 30)
ترجمہ: ’’اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔
الله پاک نے صرف آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا تھا بلکہ آدم علیہ السلام بمع اولاد کے جو قیامت تک پیدا ہونے والی تھی، سب کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تھا اور جو ایک تھا، وہ سب کا سبب تھا۔ جیسا کہ اگر ایک آئینے میں آفتاب کی صورت ظاہر ہو اور اس کے ارد گرد مختلف رنگوں اور سائزوں کے کئی آئینے رکھ دیئے جائیں تو ہر ایک آئینے میں وہ صورت جلوہ گر ہو گی۔ اب ایک حیثیت سے تو وہ ساری صورتیں اپنا مستقل وجود رکھتی ہیں لیکن دوسری حیثیت سے یہ ساری صورتیں اُسی ایک اجمالی صورت کی مرہونِ منت ہیں، لہذا ان صورتوں میں سے ہر صورت ایک انسان کی روح ہے گویا کہ یہ جو ایک انسان ہے، وہ سارے انسانوں کا پورا ایک نمائندہ نظام ہے جو اپنے اپنے معینہ وقت پر اس صورت کو اُس وقت کے نفسِ کلیہ کے کسی معین جزو یعنی نفس ناطقہ کے ساتھ ملاتا ہے۔ جب اس معین جزو میں روحِ ہوائی پھونک دی جاتی ہے جس سے وہ جزو اپنی مطلوبہ شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور روحانی صورت (روحِ ملکوت) اس کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے تو پھر وہ حظیرة القدس میں حاضر ہوتا ہے کیوں کہ اب تینوں ایک ہو گئے۔ اس سے مکمل انسان بن گیا۔ اب جب مکمل انسان بن گیا تو مکلف بھی ہو گیا۔ اب بلوغ کے بعد یہ اعمال کرتا ہے تو اعمال اچھے ہوں یا برے، نقطوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ اچھا عمل سفید نقطہ اور برا عمل سیاہ نقطہ۔ اور یہ چیزیں اس میں محفوظ ہو رہی ہوتی ہیں اور قیامت میں انسانی جسم کے ساتھ متحد ہو جائیں گی یعنی جس وقت انسان مرے گا اور آخرت میں جائے گا تو یہ چیزیں اُس کے ساتھ مل جائیں گی۔ اب جب مل جائیں گی تو ہاتھ کو ہاتھوں کے گناہ، آنکھوں کو آنکھوں کے گناہ اور زبان کو زبان کے گناہ؛ یہ سارے کے سارے اپنے اپنے طور پر آ جائیں گے اور اپنی اپنی بولی بولیں گے۔ انسانی جسم کی ہر چیز جو کام کر چکی ہے، وہ وہی بتائے گی۔
اس روح کا جب (نفس ناطقہ کے ذریعے) جسم سے ملاپ ہوتا ہے تو اس روح کی مثال گویا کہ صورت کی ہوتی ہے اور نفس ناطقہ کی مثال مادے کی۔ یہ جسم کے ساتھ گھل مل کر ایک متحد وجود (انسان) جنم دیتی ہے۔ جس کے کچھ احکامات (properties) روح سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ جسم سے۔ جیسے ہائیڈروجن، آکسیجن مل کر ایک نئی چیز، پانی بناتے ہیں لیکن اسی پانی سے لیبارٹری میں دونوں کو دوبارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ پانی کی صورت میں گھل مل کر بھی ان کی اپنی اپنی حقیقت برقرار رہتی ہے۔
اس کو ایک دوسری مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ملک میں مختلف عہدے تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ جن کو اسامی (vacancies) کہتے ہیں۔ جب کسی کو ان میں سے کسی اسامی کے لئے چنا جاتا ہے تو وہ شخص اور وہ اسامی یک جان دو قالب ہوتے ہیں پھر جب وہ ریٹائر ہو جاتا ہے تو وہ آدمی اور وہ اسامی پھر اپنی اپنی علیحدہ حقیقت پر واپس چلے جاتے ہیں۔ الطاف القدس میں اس روح کا نام شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے روحِ ملکوتی رکھا ہے۔
نفسِ ناطقہ اور جسم کا تعلق:
نفس ناطقہ ایک جوہر ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ بذاتِ خود نفسِ ناطقہ مادہ سے پاک اور مجرد ہے لیکن جسم کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہے کہ جسم کے ساتھ مل کر اس کے اپنے ذاتی خواص برقرار رہتے ہیں۔ اگر رنگین کپڑوں کے رنگ کا آئینے میں نظر آنے والی صورتوں کے ساتھ مقابلہ کیا جائے تو رنگ کا کپڑوں میں حلول، حلول کی مشہور قسم سریانی سے تعلق رکھتا ہے یعنی جس میں حلول کیا ہے وہ اس میں سرایت کئے ہوئے ہے جب کہ آئینے میں جو صورتیں نظر آتی ہیں ان کا حلول طریانی قسم کا حلول ہے جو آئینے پر طاری تو ہیں، لیکن آئینے میں کسی قسم کی تبدیلی کے روادار نہیں۔ نفسِ ناطقہ کا تعلق بدن سے کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ بدن پر اس حد تک طاری ہے کہ بدن کے سارے عوامل اس کی بدولت ہیں لیکن اس کی وجہ سے جسم میں کوئی مستقل تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگر اس کا تعلق جسم کے ساتھ نہ رہے تو جسم میں کوئی تبدیلی مشاہد نہیں ہو گی۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جیسے بجلی سے جو بجلی کی مشینیں چلتی ہیں، ان پر بجلی کا طاری ہونا ظاہر ہے۔ اگر بجلی چلی جائے تو ساری مشینیں رک جائیں گی لیکن اُن میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آئے گی۔ یہ چوں کہ حلول کی ایک غیر معروف قسم ہے، اس لئے اس کا دوسرا نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ مثلاً اس کو اعتماد کہا جائے۔ پس نفسِ ناطقہ میں بدن سے مجرد ہونے کی شان بھی پائی جاتی ہے اور متعلق ہونے کی بھی۔
روحِ منعقد:
نفس ناطقہ جو جسمِ انسانی کے ساتھ ایک عجیب تعلق رکھتا ہے، جب روح ملکوتی جو مادے سے بالکل پاک ہے، سے ملتا ہے تو اس کو بعض لوگ صرف روح اور شاہ صاحب رحمہ اللہ روحِ منعقد کہتے ہیں۔