اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
ہمارے ہاں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے درس کا سلسلہ چل رہا ہے۔ آج بھی ان شاء اللہ اس پر بات ہو گی۔
نقشبندی سلسلے میں اتباع سنت کی جو اہمیت ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ ان کے ہاں عزیمت کے ساتھ سنت پر عمل کرنے کو ہی مجاہدہ کہتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں کا ایک بڑا حصہ اتباعِ سنت پر زور دینے اور ردِّ بدعات پر مختص ہے، کیونکہ بدعات سنت کے مقابلے میں ہوتی ہیں۔
دفتر اول کے مکتوبات 25، 37، 41، 42، 44، 74، 75، 78، 114، 152، 165، 171، 178، 237 اور 249 اور دفتر دوم کے مکتوبات نمبر 19، 23، 32 اور 54 اور دفتر سوم کے مکتوب نمبر 13 میں اتباع سنت کی پُر زور تعلیم دی ہے۔ اس لئے جو بھی اپنے آپ کو مجددی کہتے ہیں ان پہ لازم ہے کہ اتباع سنت کو ہمہ وقت سینے سے لگائے رکھیں اور بدعات سے کوسوں دور رہیں اور اگر اس میں کوئی ناکام ہو اور صرف یہی نعرہ لگاتا ہو کہ نقشبندی سلسلہ سب سے افضل ہے، ہم مجددی ہیں اور ہم فضلی ہیں، تو یہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کا نعرہ عوام میں تو مقبول ہو سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں ہے۔
یہ بات میں اس لئے پُر زور طریقہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نقشبندی سلسلہ میں واقعی بہت کمالات ہیں، یہ طریقہ بہت مختصر ہے اور بہت طاقت ور ہے۔ لیکن اس کے ڈانڈے سنت کے ساتھ ملتے ہیں، بدعت کو قریب نہیں آنے دیتا۔ پس اگر بدعت اس کے ساتھ مل گئی تو اس کی وہ افادیت نہیں رہے گی۔ تو یقیناً اس میں سب سے بڑا مجاہدہ سنت کی اتباع ہے۔ باقی مجاہدات سے اس کا تعلق اس لئے زیادہ نہیں ہے کیونکہ اس کا اصل مجاہدہ یہی ہے۔ اس مجاہدے میں اگر ناکامی ہو تو پھر دوسرے مجاہدات کی ضرورت پڑتی ہے۔ دوسرے سلاسل میں بھی مجاہدات اسی وجہ سے ہیں کہ اگر کوئی یہ مجاہدہ پہلے نہیں کر سکتا تو اس کے لئے ابتدا میں وہ مجاہدہ ہو جو اس مجاہدے کے لئے انسان کو تیار کر لے اور جب وہ تیار ہو جائے تو پھر سارے سلسلوں میں اصل مجاہدہ یہی ہے، انتہا میں سب کا یہی حال ہے۔ لیکن جس بنیاد پر اپنے آپ کو ان مجاہدات سے الگ رکھا گیا ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھی گئی ہے، وہ بنیاد یہ ہے کہ اتباعِ سنت ہو۔ اگر اتباعِ سنت بھی نہ ہو اور وہ مجاہدات بھی نہ ہوں تو پھر وہ صرف نعرہ ہی نعرہ ہو گا۔
متن:
مکتوب نمبر 37 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن: یہ فقیر اپنے موجودہ حال کی نسبت لکھتا ہے کہ بہت عرصے تک علوم و معارف اور احوال و مواجید ماہِ نیساں کے بادل کی طرح بکثرت و لگا تار وارد ہوتے رہے اور جو کام کہ کرنا چاہئے تھا حق سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت سے ہو گیا۔ اور اب اس کے سوا اور کوئی آرزو باقی نہیں رہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی جائے اور احوال و مواجید اہلِ ذوق کے سپرد رہیں۔
آپ کو چاہئے کہ (اپنے) باطن کو (اپنے سلسلہ کے) خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی نسبت سے معمور رکھتے ہوئے (اپنے) ظاہر کو ظاہری سنتوں کی پیروی سے پوری طرح آراستہ و مزین بنائیں۔ ع
کار این ست غیرِ ایں ہمہ ہیچ
( ترجمہ: کام ہے اصلی یہی باقی تو سب کچھ ہیچ ہے)
تشریح:
یہ کتنی واضح بات فرمائی ہے۔ خدا کی شان کہ یہ دفتر اول کا مکتوب نمبر 37 ہے، اس کے با وجود کچھ حالات ایسے بنے کہ پہلے اس مکتوب کا بیان نہیں ہو سکا تھا اور اس دفعہ رمضان شریف میں ستائیسویں کو جب مکتوبات شریفہ بالکل پورے ہو رہے تھے تو سب سے آخر میں یہی مکتوب شریف پڑھا گیا۔ اندازہ کریں کہ حضرت کی جو آخری بات ہے وہی اس میں آ گئی۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ مکتوبات نمبر 113 اور 114 جو دفتر سوم کے بالکل آخر میں آتے ہیں، ان میں بھی یہی مضمون ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دیکھیں کہ وہ کیسے چیزوں کو ملاتا ہے اور اللہ پاک نے اس کے لئے رمضان کی ستائیسویں کو چن لیا۔ الحمد للہ! ہمارے سلسلہ پر اللہ تعالیٰ کی بڑی کرم کی نظر ہے اور نقشبندی سلسلہ کے انوارات اور برکات الحمد للہ ہمارے سلسلہ کو بہت وافر ملے ہیں۔ اگر ہم اس کو نہ سمجھیں تو نا شکری ہو گی اور اگر کوئی اور اس کو نہیں جانتا تو اس سے گلہ نہیں ہے؛ کیونکہ نظر نظر کی بات ہے۔ جن کو بھی اللہ تعالیٰ نے نظر عطا فرمائی ہو ان کو نظر آ جاتا ہے اور جن کو نظر نہیں آتا ان سے گلہ نہیں ہے۔
اس میں حضرت نے فرمایا ہے کہ بہت عرصے تک علوم و معارف اور احوال و مواجید بکثرت وارد ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر لوگ بڑا ناز کرتے ہیں۔ میں نے اکثر نقشبندی حضرات کو دیکھا ہے کہ بس وہ علوم و معارف اور احوال کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہ راستے کی چیزیں ہیں۔ جب میں نے کچھ اس قسم کی باتیں عرض کیں تو الحمد للہ میرے شیخ نے فرمایا کہ یہ راستہ کے کھیل تماشے ہیں۔ لہذا یہ مواجید اور احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے حضرت بھی فرما رہے ہیں۔
متن:
علوم و معارف اور احوال و مواجید ماہِ نیساں کے بادل کی طرح بکثرت و لگا تار وارد ہوتے رہے اور جو کام کہ کرنا چاہئے تھا حق سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت سے ہو گیا۔ اور اب اس کے سوا اور کوئی آرزو باقی نہیں رہی۔
تشریح:
اب آخری بات صرف یہی ہے کہ
متن:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی جائے اور احوال و مواجید اہلِ ذوق کے سپرد رہیں۔
تشریح:
یعنی اصل بات سنتوں کو زندہ کرنا ہے۔
متن:
آپ کو چاہیے کہ اپنے باطن کو اپنے سلسلے کے خواجگان قدس سرہ کی نسبت سے معمور رکھتے ہوئے ظاہر کو ظاہری سنتوں کی پیروی سے پوری طرح آراستہ و پیراستہ کر لیں۔ اصل کام یہی ہے باقی سب ہیچ ہے۔
دفتر اول مکتوب نمبر 41 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم تمام جہانوں کے پروردگار (حق تعالیٰ) کے محبوب ہیں۔ جو چیز عمدہ اور پسندیدہ ہے وہ مطلوب و محبوب کے لئے ہے۔ اسی لئےحق سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ﴿اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم: 4) (ترجمہ: بے شک (اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) آپ البتہ بڑے اخلاق والے ہیں) اور نیز حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ 0 عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (یٰسٓ: 2۔3) (ترجمہ: بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں اور سیدھے راستہ پر ہیں) اور حق سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْهُۚ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ ﴾ (الأنعام: 153) (ترجمہ: بے شک یہ میرا راستہ سیدھا ہے پس تم اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو)۔ حق سبحانہ و تعالیٰ نے (اس تیسری آیتِ کریمہ میں) آنحضرت علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ملّت کو صراطِ مستقیم فرمایا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقوں کو (محض) راستوں میں داخل فرمایا اور ان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آنسرور عالم علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی حق سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ظاہر کرنے، مخلوق کو خبر دار کرنے اور ان کو ہدایت کرنے کے طور پر فرمایا ہے: ’’خَیْرُ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ‘‘ (سب ہدایتوں سے بہتر ہدایت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے)۔ نیز آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے یہ بھی فرمایا: ’’اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبِیْ‘‘ (ترجمہ: میرے رب نے مجھے ادب سکھایا پس مجھ کو بہت ہی اچھا ادب سکھایا)۔ اور باطن ظاہر کی تکمیل کرنے والا ہے، اور اس کو مکمل کرنے والا ان دونوں میں بال بھر بھی مخالفت نہیں رکھتا۔ مثلاً زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل میں جھوٹ کا خیال بھی نہ آنے دینا طریقت و حقیقت ہے (یعنی) اگر یہ خیال کا نہ آنے دینا تکلّف اور مشقّت سے ہے تو طریقت ہے اور اگر تکلّف کے بغیر حاصل ہے تو حقیقت ہے۔
تشریح:
سبحان اللہ! کیا عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے۔ تصوف باب تَفَعُّلْ سے ہے۔ باب تَفَعُّلْ تکلّف کا باب ہے۔ یعنی زبردستی ایک کام کو کرنا۔ جیسے تقرب کا معنیٰ ہے کہ قریب ہونے کی کوشش کرنا۔ اس طرح تکلم ہے، یعنی بات کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا۔ تعلم کا معنی ہے تعلیم عام کرنا۔ اس طرح تصوف باب تَفَعُّلْ سے ہے، جس میں تکلف پایا جاتا ہے۔ جبکہ جو حقیقت ہوتی ہے اس میں کوئی تکلف نہیں پایا جاتا۔ حقیقت حقیقت ہوتی ہے، چاہے کوئی مانے یا نہ مانے، وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہوتی ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ اگر تکلفاً، مشقتاً اس کا خیال نہ آنے دے تو یہ طریقت ہے اور اگر تکلف کے بغیر یہ حاصل ہو جائے تو پھر یہ حقیقت ہے۔
متن:
پس در اصل باطن جو کہ طریقت و حقیقت کہلاتا ہے ظاہر کو جو کہ شریعت ہے پورا اور کامل کرنے والا ہے۔
تشریح:
چونکہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ شریعت کا ظاہر تو آپ کر لیں گے۔ لیکن اس کا باطن جب تک نہ ہو تو شریعت مکمل نہیں ہو گی۔ مثلاً میں نے یہ دیوار تو بنا لی۔ لیکن اس دیوار میں جان نہیں ہے، کیونکہ میں نے روئی کی بنائی۔ اب روئی کے اوپر میں چھت تو نہیں ڈال سکتا۔ جیسے آج کل سڑکوں پر جو stoppers رکھتے ہیں ان کا رنگ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے یہ لوہے کے ہیں، ان کے ساتھ گاڑی ٹکرائے گی تو گاڑی پر ڈینٹ آ جائے گا۔ حالانکہ تھوڑی سی تیز ہوا چلے تو وہ اس کے ساتھ اڑ جاتے ہیں۔ پہلی دفعہ جب یہ گھڑیاں آئی تھیں تو ان کا رنگ بھی تانبے کا ہوتا تھا اور بھاری ہوتی تھیں، پہلے ایسی گھڑیاں ہوتی تھیں جو لکڑی کی ہوتی تھیں، لوہے کی ہوتی تھیں، تانبے کی ہوتی تھیں، ایلومینیم کی ہوتی تھیں۔ لہذا وہ بھاری ہوتی تھیں، ان کو ہاتھ لگاتے ہوئے آدمی اپنے آپ کو پہلے تھوڑا سا تیار کر لیتا تھا کہ اس کے اوپر اتنا بوجھ آئے گا۔ لیکن جب یہ آج کل والی گھڑیاں آئیں تو ان کو وزنی سمجھتے ہوئے لوگ اسی طرح ہاتھ کرتے تھے جیسے یہ بہت وزنی ہوں۔ اسی طرح یہ جو چائنیز چپل ہے، تھوڑی سی بے احتیاطی کے ساتھ پاؤں سے نکالو تو دور چلی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کی ساری ملمع سازی ہے، اس میں جان نہیں ہے۔ اس میں جان ڈالنا بھی حقیقت ہے۔ لہذا شریعت کے ظاہر پر عمل کرنا اور پھر شریعت کے باطن پر بھی عمل کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آپ جو بات کر رہے ہوں، آپ کا دل بھی وہی کہہ رہا ہو، سبحان اللہ! تو پھر بات بنے گی۔ لیکن آپ ظاہر میں کچھ کہہ رہے ہیں اور باطن میں کچھ ہو، پھر تو آپ تکلفاً ہی کر رہے ہوں گے اور یہ غلط بات ہے۔
متن:
پس اگر طریقت و حقیقت کے راستوں پر چلنے والوں کو اثنائے راہ میں ایسے امور پیش آئیں جو بظاہر شریعت کے خلاف ہوں تو وہ سُکرِ وقت (مستی) کی کیفیت اور وجد و حال کے غلبہ کے باعث ہوں گے۔ اگر اُن کو اس مقام سے گذار کر صحو (ہوش) میں لے آئیں تو یہ شریعت سے مخالفت بالکل رفع ہو جاتی ہے اور وہ متضاد (ایک دوسرے کے مخالف) علوم سب کے سب دُور ہو جاتے ہیں۔
مثلاً صوفیائے کرام کی ایک جماعت سُکر کی وجہ سے احاطہ ذاتی کی قائل ہوئی ہے اور حق سبحانہ و تعالیٰ کو بالذات (بلا کیف) عالم کا محیط جانتے ہیں۔ اور یہ حکم اہلِ حق علمائے کرام کی آراء کے مخالف ہے کیونکہ وہ (علمائے حق) احاطۂ علمی کے قائل ہیں۔
تشریح:
یعنی اللہ جل شانہ نے تمام چیزوں کا علمی احاطہ کیا ہوا ہے۔
متن:
حقیقت میں علماء کی آراء درستی کے زیادہ قریب ہیں۔ جب کہ یہی صوفیائے کرام اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ ذاتِ حق تعالیٰ و تقدس کسی حکم کی پابند نہیں ہوتی اور کسی علم سے معلوم نہیں ہوتی تو اس میں احاطہ و سریان (سرایت کرنا) کا حکم لگانا اس قول کے مخالف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات بیچون و بیچگون (بے مثل و بے کیف) ہے کسی حکم کو اس ذات کی طرف راہ نہیں، وہاں صرف حیرت و نا دانی ہے اور اس مقام میں خالص جہل اور محض حیرانی و پریشانی ہے۔ اس پاک بارگاہ میں احاطہ و سریان کی کیا مجال۔ مگر یہ کہ ان صوفیائے کرام کی جانب سے جو اِن احکام کے قائل ہیں یہ عذر کیا جائے کہ ذات سے ان کی مراد تعین اول ہے۔ اور چونکہ وہ اس (تعین اول) کو متعین پر زائد نہیں جانتے اس لئے اس تعین کو عینِ ذات کہتے ہیں اور وہ تعین اول جس کو وحدت سے تعبیر کیا گیا ہے تمام ممکنات میں جاری و ساری ہے تو (اس لحاظ سے) احاطۂ ذاتی کا حکم کرنا درست ہے۔
تشریح:
اسی کو تاویل کہتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے وہ نہ تو سمجھ میں آ سکتی ہے اور نہ ہی کوئی سمجھ سکتا ہے۔ اس کا قرب اس طرح کا قرب نہیں جس طرح ایک چیز کا دوسری چیز کے ساتھ قرب ہوتا ہے۔ یعنی احاطے اور contact والی بات نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے۔ اس طرح نہیں ہے جیسے ہم لوگ ان چیزوں کے بارے میں جانتے اور دیکھتے ہیں کہ فلاں قریب اور فلاں دور ہے۔ ایک طرف اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق: 16) ترجمہ: ’’ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘ اور دوسری طرف فرمایا: ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشورٰی: 11) ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے۔‘‘ گویا کوئی اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا۔ ان تمام باتوں کو جب ہم ملاتے ہیں تو حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کو آپس میں نہیں ملا سکتے۔ کیونکہ ایک چیز دور بھی ہے، قریب بھی ہے، ظاہر بھی ہے باطن بھی ہے، اول بھی ہے آخر بھی ہے۔ چونکہ ہم اپنے ذہن سے یہ نہیں سمجھ سکتے تو حیرت ہی ہو گی۔
متن:
یہاں ایک دقیقہ (باریک نکتہ) ہے، جاننا چاہئے کہ حق تعالیٰ کی ذات علمائے اہلِ حق کے نزدیک بے چون و بے چگون (بے مثل و بے کیف) ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس پر زائد ہے، وہ تعین بھی اگر ان کے نزدیک ثابت ہو جائے تو زائد ہی ہو گا اور اس کو حضرت بیچون (بے مثل) کی ذات سے باہر ہی جانیں گے اس لئے اس کے احاطہ کو احاطۂ ذاتی نہیں کہیں گے۔ پس علماء کی نظر ان صوفیوں سے بلند ہوئی، اور اُن صوفیوں کے نزدیک جو ذاتِ حق ہے وہ ان علماء کے نزدیک ما سوا میں داخل ہے۔
تشریح:
اب علماء کی بات کیوں سچ ہے اور صوفیوں کی بات کیوں ان سے پیچھے ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء اپنی طرف سے بات نہیں کرتے اور نہ ان کا دعویٰ ہے کہ میں نے یہ چیز دیکھی ہے، وہ قال سے چلتے ہیں، قرآن کو پڑھتے ہیں، حدیث کو پڑھتے ہیں۔ یہ قال کس کا ہے؟ قرآن اللہ کا قال ہے اور حدیث آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا قال ہے۔ اب بتائیے! کون ہے جو اس قال کے مقابلے میں اپنا قال لے آئے؟ کوئی نہیں لا سکتا۔ چاہے کوئی کتنا بڑا صوفی کیوں نہ ہو وہ اس قال (بات) کے مقابلے میں قال نہیں لا سکتا۔ اب میں ایک چیز کو دیکھ رہا ہوں یعنی دور سے مجھے ایک چیز نظر آ رہی ہے میں اس کو ایک چیز سمجھ رہا ہوں جب کہ وہ دوسری چیز ہے تو میرا دیکھنا غلط ہو گیا۔ یہی حساب کشف کا ہے کہ آپ کو کشف ہو گیا تو کشف میں غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن وحی میں غلطی نہیں ہو سکتی۔ وحی اللہ پاک کے محفوظ نظام کے ساتھ آئی ہوئی ہے۔ تو جو چیز قرآن و حدیث میں ہے اس کا جو قائل ہو گا اس کا قول اولیٰ ہو گا بمقابلہ اس کے جو دیکھ کر کہہ رہا ہے۔ جب کہ اس کا دیکھنا بھی کامل نہ ہو، کیونکہ اللہ پاک کے دیکھنے سے زیادہ کامل کسی کا دیکھنا نہیں ہو سکتا۔ اور تمام مخلوقات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیکھنے سے زیادہ کامل کسی کا دیکھنا نہیں ہو سکتا۔
اس وجہ سے قرآن اور حدیث کے مقابلہ میں کسی کی بات نہیں چلے گی۔ قرآن و حدیث شریعت ہیں۔ اس وجہ سے اس مسئلہ میں ظاہری علوم قرآن و حدیث سے آتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کا کشف ان ظاہری علوم کے عین مطابق ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بڑا پہنچا ہوا ہے کیونکہ اس نے اپنے کشف سے اس چیز کو پا لیا جو علماء قال سے حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح ما شاء اللہ وہ تقلیدی علوم سے آگے تحقیقی علوم تک پہنچ گیا۔ تو اس مسئلہ میں پھر وہ آگے ہوتے ہیں، لیکن ہمارے لئے کم از کم ایک پیغام تو ہو گیا کہ ہم اس کو تحقیقی تب کہیں گے جب وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو گا، یعنی اس کے ساتھ ملا ہو گا، اس کے ساتھ فرق نہیں ہو گا۔ چنانچہ ہم نے اپنے کشف اور اپنے حال کو قرآن و سنت پر پیش کرنا ہے، اگر ان کے مطابق ہے تو فَبِہَا، ٹھیک ہے، اور اگر اس کے مطابق نہیں ہے تو پھر رد ہے، کسی کام کا نہیں ہے۔ ہاں معذوری ضرور ہو سکتی ہے لیکن وہ کسی کام کا نہیں ہو گا۔
متن:
پس علماء کی نظر ان صوفیوں سے بلند ہوئی، اور اُن صوفیوں کے نزدیک جو ذاتِ حق ہے وہ ان علماء کے نزدیک ما سوا میں داخل ہے اور قرب و معیتِ ذاتی بھی اسی قیاس پر ہے۔ اور باطنی معارف اور شریعت کے ظاہری علوم کے درمیان اس حد تک پورے کامل طور پر موافقت کا ہونا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں میں بھی مخالفت کی مجال نہ رہے صدیقیت کے مقام میں حاصل ہوتی ہے۔
تشریح:
یعنی جب انسان صدیقیت کے مقام تک پہنچ جائے تو وہ بات جو باقی لوگوں کو کشف سے حاصل ہوتی ہے وہ اس کو صدیقیت کے مقام سے حاصل ہوتی ہے۔ مثلاً عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں، ان سے ایک بہت بڑے محدث بیعت ہوئے تو ان کے ساتھیوں نے کہا کہ آپ کیسے ان سے بیعت ہوئے؟ یہ تو پڑھے ہوئے نہیں ہیں، بالکل ان پڑھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے با قاعدہ امتحان لیا ہے۔ امتحان ایسے لیا ہے کہ میں نے ایک لفظ عام عربی کا، ایک قرآن کا، ایک حدیث کا، ایک حدیث قدسی کا لیا، ان کو ملا کر ایک فقرہ بنا لیا پھر حضرت کے سامنے پیش کیا کہ حضرت یہ کیا چیز ہے؟ تو جو قرآن سے لیا گیا تھا اس پہ ہاتھ رکھ کر انہوں نے کہا کہ یہ قرآن ہے، جو حدیث سے لیا گیا تھا اس کے بارے میں کہا یہ حدیث ہے، جو حدیث قدسی سے لیا گیا تھا اس کے بارے میں کہتے ہیں: یہ میں نہیں جانتا کہ قرآن ہے یا حدیث ہے، لیکن درمیان میں کوئی چیز ہے۔ یعنی اتنے ان پڑھ تھے کہ وہ حدیث قدسی کا نام نہیں جانتے تھے۔ صرف یہ فرمایا: درمیان درمیان میں کوئی چیز ہے۔ اور جو عربی والا حصہ تھا، اس کے بارے میں فرمایا: یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔
حالانکہ عالم کے سامنے بھی اگر ایسا فقرہ رکھ دیا جائے تو وہ بھی اس میں فرق نہیں کر سکتا۔ مثلاً فرعون کا لفظ آپ قرآن سے لے لیں اور ایک بہت اچھا لفظ آپ عام عربی سے لے لیں اور پھر کوئی اور لفظ حدیث شریف سے لے لیں۔ اب وہ عالم فرق نہیں کر سکے گا کہ یہ قرآن ہے اور یہ حدیث ہے اور یہ عام عربی کا لفظ ہے۔ اور یہ فرق ظاہری علم کی بنیاد پر تو نہیں کر سکتے۔ یہ محدث بڑے حیران ہو گئے اور انہوں نے کہا: یہ تو کسی عالم کو بھی پتا نہیں چل سکتا، آپ کو کیسے پتا چل گیا کہ یہ اس طرح ہے۔ فرمایا بیٹا میں تو نہیں جانتا ہوں مجھے صرف قرآن کے نور کا پتا ہے حدیث کے نور کا پتا ہے اور وہ درمیان والی چیز تھی جو نہ قرآن تھا، نہ حدیث تھی لیکن درمیانی قسم کا نور تھا، اس کا نور قرآن و حدیث کے درمیان کا نور تھا۔ اور جو عام عربی کا لفظ تھا اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔
اب یہ ان کا اتنا زبردست مقام تھا کہ صحیح چیز سامنے آ رہی تھی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ چیز صدیقیت کے مقام میں حاصل ہوتی ہے۔
متن:
جو ولایت کے مقامات میں سب سے اعلیٰ مقام ہے اور صدیقیت کے مقام کے اوپر مقامِ نبوت ہے، جو علوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے پہنچے ہیں وہ صدیق (رضی اللہ عنہ) کو الہام کے ذریعہ منکشف ہوئے ہیں۔ ان دونوں علموں (علمِ نبی و علم صدیق) میں وحی اور الہام کے فرق کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہے تو پھر دونوں میں مخالفت کی کیا مجال ہو گی۔ اور مقامِ صدیقیت سے نیچے جو مقام بھی ہو گا اس میں ایک قسم کا سُکر پایا جائے گا، کامل صحو ( پوری طرح ہوش) مقامِ صدیقیت میں ہے اور بس۔
تشریح:
در اصل ان مقامات کے اپنے انوارات ہوتے ہیں۔ ان انوارات میں انسان کا ہوش ختم ہو جاتا ہے۔ جب تک کوئی مقامِ صدیقیت تک نہ پہنچا ہو وہ اپنے ہوش کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ صبح کے وقت جب سورج مسلسل چڑھ رہا ہوتا ہے تو کوئی اس کی طرف چھ منٹ تک دیکھ سکے گا، کوئی سات منٹ تک دیکھ سکے گا، کوئی آٹھ منٹ تک، کوئی دس منٹ تک، کوئی بارہ تک۔ ہر ایک کا مختلف وقت تک دیکھ سکنا نظر کے فرق کی وجہ سے ہے۔ اگر انسان کی اپنی نظر6x6 ہے تو یہ کافی دیر تک دیکھ سکے گا، اگر اس سے کم ہے تو تھوڑی دیر کے لئے دیکھ سکے گا، کیونکہ انسان کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ جیسے کم نظر والا آدمی جو عینک نہ پہنے ہوئے ہو اور رات کے وقت گاڑی چلائے تو اسے روشنیاں پھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ پوائنٹ نظر نہیں آتا بلکہ ایک Diffused light نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی نظر میں جتنی پختگی ہے وہ نور کو اتنا زیادہ برداشت کر سکتا ہے۔ لہٰذا جو مقامِ صدیقیت پر ہو گا اس کے اندر بڑی پختگی ہو گی اس لئے وہ انوارات کو برداشت کر سکتا ہے، نتیجتاً وہ ہوش میں رہتا ہے اور جو نہیں برداشت کر سکتا وہ جوش میں آ جاتا ہے تو جوش میں آنا اور ہوش میں رہنا بہت ہی مشکل بات ہے، اس کو یوں سمجھیں جیسے مثال کے طور پر نور کم ہو تو کم نظر والا بھی کافی دیر تک دیکھ سکے گا، اور نور بہت زیادہ ہو تو اس کو تیز نظر والا بھی بہت کم دیکھ سکے گا۔ اسی طرح اگر انوارات کم ہوں تو عام لوگ بھی ہوش میں رہیں گے اور اگر انوارات بہت زیادہ ہوں تو بڑے بڑے لوگ بھی ہوش سے نکل جائیں گے۔ اور جو بہت بڑے مقام کے حامل لوگ ہیں وہی stable (مستحکم) رہیں گے۔
کہتے ہیں چُلو بھر پانی میں تنکا بھی تیرنے لگتا ہے اور بہہ جاتا ہے لیکن آبشار کے سامنے ہاتھی بھی نہیں ٹھہر سکتا اور اس میں بہہ جاتا ہے کیونکہ آبشار کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔
متن:
اور ان دونوں علموں کے درمیان دوسرا فرق یہ ہے کہ وحی کا حکم قطعی ہے اور الہام کا ظنّی، کیونکہ وحی فرشتے کے واسطے سے آتی ہے اور فرشتے معصوم ہیں اور ان میں خطا کا احتمال نہیں ہے، الہام اگرچہ بلند مقام رکھتا ہے جو کہ قلب ہے اور قلب عالم امر سے ہے لیکن قلب کا عقل اور نفس کے ساتھ ایک قسم کا تعلق ثابت ہے اور نفس اگرچہ تزکیہ کے ساتھ مطمئنہ ہو گیا ہو لیکن، بیت
ہر چند کہ مطمئنہ گر دد ہر گز ز صفاتِ خود گردد
(ترجمہ: نفس گو مطمئنّہ ہو جائے خاصیت اپنی چھوڑتا ہی نہیں)
اس لئے اس مقام میں خطا کی گنجائش ظاہر ہو گئی۔
تشریح:
چونکہ وحی فرشتے کے ذریعے سے آ رہی ہے اس لئے اس میں خطا کا احتمال نہیں ہے۔ کیونکہ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب پہ آیا اور باقی لوگوں نے اس کو لکھ لیا تو یوں document (تحریر) ہو گیا۔ اب میں بھی اس کو پڑھ سکتا ہوں، مجھے بھی اس پر اتنا یقین کرنا پڑے گا، جتنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یقین کرنا پڑا، کیونکہ یہ اصل چیز ہے اور اس کی حفاظت ہوئی ہے، لیکن جو میرے قلب پر وارد ہوا ہے تو میرے قلب کا وہ مقام نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب کا ہے اس لئے مجھ سے خطا ہو سکتی ہے، کیونکہ میرا قلب حقیقتِ جامعہ ہے جس میں نفس کا بھی دخل ہے، عقل کا بھی دخل ہے اور روح کا بھی دخل ہے تو حقیقتِ جامعہ ہونے کی وجہ سے اس میں ظن کا پہلو پایا جائے گا۔ میں اس کو final (حتمی) بات نہیں سمجھ سکتا، final (حتمی) بات وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب مبارک پر نازل ہوئی۔ میں اپنی بات کو اس کے ساتھ tally (مطابق) کروں گا اگر tally (مطابقت) ہو گئی تو سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ نہیں ہوا تو بالکل رد ہے۔
متن:
جاننا چاہئے کہ نفس کے مطمئنہ ہو جانے کے با وجود اس کی صفات کے باقی رکھنے میں بہت سے فائدے اور منافع ہیں، اگر نفس کو اس کی اپنی صفات کے ظہور سے بالکل روک دیا جائے تو ترقی کا راستہ بند ہو جائے گا اور روح فرشتے کا حکم پیدا کر لے گی اور اپنے (ایک ہی) مقام میں بند ہو کر رہ جائے گی (کیونکہ) اس (روح) کی ترقی نفس کی مخالفت کے سبب سے ہے اگر نفس میں مخالفت نہ رہے تو (روح کو) ترقی کہاں سے ہو گی۔
تشریح:
جیسے راستے میں اگر موٹے موٹے پتھر پڑے ہوں تو آپ گاڑی چلا نہیں سکیں گے، گاڑی چلانے میں بڑی مشکل ہو گی۔ اور جب آپ کو یہ پتا چل گیا تو بڑے بڑے پتھر آپ نے نکال دئیے اور راستہ ہموار کر دیا۔ اب اگر آپ اس کو اتنا ہموار کر دیں کہ بالکل شیشہ ہی بن جائے تو یہ خوبی نہیں ہے۔ جیسے مری میں جب برف باری ہو جائے بالخصوص جب سردی کی وجہ سے سڑک پر پانی جم جائے تو گاڑی چلانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے، انجن کی ضرورت نہیں ہو گی اور بریک بھی نہیں لگے گی۔
اس کا مطلب ہے کہ بالکل آئینے کی طرح بنانا بھی ٹھیک نہیں ہے، تو آپ نے نفس کو tame تو کر لیا (یعنی سدھار تو لیا) لیکن اگر اس کی وہ صفات جو باقی رہنی چاہئیں وہ بھی آپ نے ختم کر دیں تو پھر مخالفت ہی نہیں ہو گی، نتیجتاً اجر نہیں ملے گا۔ لہذا جبلت والا حصہ قائم رہتا ہے۔ آپ انسان ہیں، انسان کو انسان ہی رہنا ہوتا ہے۔ آپ فرشتے نہیں ہیں اور آپ کی عظمت اسی میں ہے کہ آپ فرشتے نہیں ہیں۔ ورنہ آپ کے عمل کی کوئی value (قیمت) نہیں ہو گی۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ کسی ملازمت پہ جائیں تو ابتداءً آپ کو کام سکھایا جاتا ہے، کام سکھانے والا بھی آپ کے ساتھ کام کرتا ہے، تاکہ آپ سیکھ جائیں، لیکن کیا یہ اس طرح مستقل طور پر رہ سکتا ہے؟ اگر وہی سب کچھ کر لے تو آپ کو کیا ملے گا؟ آخر آپ سے کہا جائے گا جناب آپ چلے جاؤ۔ جب کام میں نے ہی کرنا ہے تو آپ نے کیا کرنا ہے؟ آپ گھر میں بیٹھ جائیں۔ لہذا کام تو خود کرنا ہو گا۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ میرے سارے کام خود بخود ہی ہونے لگیں۔ نماز بھی خود بخود ہی ہوتی رہے، روزے بھی خود بخود ہی ہوتے رہیں، گرمی کے دن آ گئے تو کہیں گے دعا کرو کہ بس مجھے فجر کی نماز مل جائے۔ بھئی دعا کرنا تو ضروری ہے لیکن کیا آپ کو خود اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے یا نہیں کرنی چاہئے؟ اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر دعا کرو کہ میں کھانا کھا لوں اور اپنے سامنے سے لقمہ نہ اٹھاؤ، پتہ چل جائے گا۔ وہاں تو کسی کو دعا کے لئے نہیں کہتے۔ اس کا مطلب ہے کہ گڑبڑ ہے، آپ کام دوسرے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
اس وقت پیری مریدی جو بد نام ہوئی ہے، اسی وجہ سے ہوئی ہے کہ سارے لوگ پیر سے ایسی توقع کرتے ہیں کہ جو بھی میرا نقصان ہے در اصل وہ میرے پیر کا نقصان ہے اور جو فائدہ ہے وہ میرا ہے۔ یعنی میں ایسا با کمال آدمی ہوں۔ اب بے چارہ پیر کیا کرے۔ یعنی اگر مجھ سے گناہ ہو گیا تو یہ پیر کا قصور ہے، پیر نے مجھے کیوں نہیں پکڑا؟ حالانکہ یہ غلط سوچ ہے۔ پیر آپ کی صرف رہنمائی کر سکتا۔ باقی کام آپ نے خود کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا ہے تو باقی لوگوں کی کیا value (حیثیت) ہے۔ فرمایا: ہم نے آپ کو ان کے اوپر داروغہ نہیں بنایا، آپ تو صرف بتانے والے ہیں، بشیر و نذیر ہیں، سمجھانے والے ہیں، اس کے بعد یہ لوگ کام کریں گے تو ٹھیک ہے، نہیں کریں گے تو ﴿فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ﴾ (یونس: 102) ترجمہ: ’’اچھا تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں‘‘۔ یعنی آگے ان کو پتا چل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بڑی کھری کھری باتیں بتائی ہیں۔ لہذا پیری مریدی اس سے مستغنی نہیں ہے۔ اس لئے کام تو خود کرنا پڑے گا۔ ہاں یہ بات ہے کہ پیر کا کام ہے طریقہ سکھانا اور طریقہ بھی آسان سکھانا۔ یعنی کئی طریقوں میں جو سب سے آسان طریقہ ہو وہ سکھانا۔ کیونکہ اس کا تجربہ ہوتا ہے اور تجربے کی اپنی ایک اہمیت ہے۔
فرض کریں اگر آپ software کے کام سے متعلق لوگ ہیں، کوئی آدمی پھنس جائے اور آپ کے پاس مسئلہ لے آئے تو آپ ان کو ایک آسان طریقہ بتا دیتے ہیں۔ ایک آسان حل دے دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کام دوسروں کو خود کرنا ہے۔ تو پیری مریدی میں بھی یہی بات ہے کہ آپ کو آسان حل مل جائے گا۔ لیکن کام خود ہی کرنا پڑے گا۔
ایک صاحب جو کسی فوج میں انجینئرنگ کے کاموں کے کنٹرکٹ پہ تھے، انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا۔ ان کے افسر ان سے بات کر رہے تھے کہ یہ فلاں سڑکیں ہیں یہ بنا لیں گے تو اگر فلاں وادی پہ قبضہ ہو جائے تو پھر کیا کریں گے؟ تو انہوں نے کہا: سر آپ ادھر سے اس دوسری سڑک کو استعمال کر سکیں گے۔ اس نے کہا: وہاں پر بھی اگر قبضہ ہو جائے؟ انہوں نے کہا: پھر دریا میں یہاں Shallow path (کم گہرے پانی والی جگہ) ہے تو یہاں سے پھر آپ ایڈوانس (پیشرفت) کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہاں پر بھی اگر رکاوٹ آ جائے تو؟ انہوں نے کہا: Sir, then you have to fight پھر کچھ تو کرنا پڑے گا، یعنی یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میں پہلے سے ہی سارا کچھ بندوبست کر لوں بس آپ کو خود کچھ کرنا ہی نہیں پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگوں کو کچھ تو کرنا پڑے گا۔ طریقۂ کار بتایا جا سکتا ہے. جتنا ممکن ہو سکتا ہے بتایا جائے گا؛ لیکن بہرحال کچھ تو قید و بندشیں ہوں گی اور یہ limitations (قید و بندش) ہی کمال ہے۔ امتحان اسی limitations (قید و بندش) میں ہے۔ آپ کا پیپر ان limitations پہ محدود ہے۔
آرمی میں جو I.S.S.B میں selection (انتخاب) ہوتی ہے تو وہ obstacles (رکاوٹیں) ڈیزائین کرتے ہیں اور انہی میں آپ نے رستہ نکالنا ہوتا ہے۔ اب اگر آپ انہیں کہہ دیں کہ میرے لئے یہ obstacles (رکاوٹیں) نہ لگاؤ تو پھر آپ کا کیا ٹیسٹ لیا جائے گا؟ یہی تو ٹیسٹ ہے، نتیجتاً وہ کہیں گے obstacle لگانا ہمارا کام ہے اور اس سے نکلنا تمہارا کام ہے۔ بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر ایک کو اپنا اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔
متن:
سرورِ کائنات علیہ من التحیات اتمها و من التسلیمات اکملہا جب کفار کے جہاد سے واپس تشریف لاتے تو فرماتے ’’رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ‘‘ (یعنی ہم نے جہادِ اصغر (قتال بالکفار) سے جہادِ اکبر (جہادِ نفس) کی طرف رجوع کیا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد میں نفس کے جہاد کو جہادِ اکبر فرمایا۔
تشریح:
جہاد اکبر کیوں فرمایا؟ اس پر لوگ بہت تلملا اٹھتے ہیں کہ وہ لڑائی جہاد اکبر نہیں ہے تو نفس کے خلاف جہاد اکبر کیوں ہے؟ در اصل وجہ یہ ہے کہ لڑائی کتنی دیر ہوتی ہے؟ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کی کتنی جنگیں ہوئیں، چھوٹی موٹی ملا کر چھ یا سات۔ تو باقی سارے وقت میں کیا ہوا ہے؟ باقی وقت میں ٹریننگ ہے، محنتیں ہیں اور تیاری ہے۔ اسی طریقہ سے application (اطلاق) کا وقت تو تھوڑا ہوتا ہے اور اس کی prepareation (تیاری) کا وقت زیادہ ہوتا ہے، alertness (چوکنا پن) ہوتی ہے۔ مثلاً ایک چوکیدار کھڑا ہے، پورا دن اس کو watch (مشاہدہ) کریں وہ کچھ بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ اس سے پوچھیں آپ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کہے گا میں دیکھ رہا ہوں بس، اور یہ دیکھنا ہی اس کا کام ہے۔ اب جب کوئی واقعہ ہونے والا ہو تو آنے والا اس کو بتا کر تو نہیں آئے گا کہ میں آ رہا ہوں تم چوکنے ہو جاؤ۔ وہ تو کسی وقت بھی آ سکتا ہے، اگر یہ اس وقت چوکنا نہیں ہو گا تو یہ مجرم بن جائے گا، اس سے پوچھا جائے گا: تم چوکنے کیوں نہیں رہے؟ وہ کہتا ہے جی سات گھنٹے میں چوکنا تھا درمیان میں ایک گھنٹہ کے لئے گیا ہوں تو کیا ہو گیا؟ وہ کہیں گے: یہی تو کام ہے آپ کا۔ یہ جہاد اکبر ہے، کیونکہ آپ نے مسلسل alert (چوکنا) رہنا ہے، Subject to condition (حالات کے مطابق)۔
میں اس کی دوسری مثال دیتا ہوں۔ آپ نے وزن اٹھانا ہے۔ پانچ منٹ کے لئے 20 کلو وزن آپ نے اٹھا لیا۔ آپ نے اس کو سر پر رکھا، یہ ممکن ہے، کوئی مسئلہ نہیں ہے، دس منٹ کے لئے بھی رکھ سکتے ہیں، پندرہ منٹ رکھ سکتے ہیں، آدھا گھنٹہ بھی رکھ سکتے ہیں، یہ سب ہو جائے گا۔ لیکن دو کلو کا وزن جب آپ دس کلو میٹر لے جائیں گے تو آپ کس چیز سے زیادہ تنگ ہوں گے؟ اس 20 کلو وزن سے یا دو کلو وزن سے؟ یقیناً دو کلو وزن سے۔ کیونکہ continous ہے۔ اس میں آپ کے لئے وقفہ نہیں ہے۔ تو یہ نفس کے ساتھ مقابلہ ہر وقت کا ہے یہ اصل مقابلہ اور کام ہے۔ اس میں کسی بھی وقت وقفہ نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ایک زبردست قسم کی مثال آئی ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِیْثُ اَصْلِحْ لِیْ شَانِیْ کُلَّہٗ وَ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ‘‘۔ اس میں ’’یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ‘‘ تو اللہ پاک کے پاک نام ہیں۔ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِیْثُ تیری رحمت کے واسطہ سے میں تجھ سے مدد مانگتا ہوں۔ اَصْلِحْ لِیْ شَانِیْ کُلَّہٗ میری ساری حالتوں کو درست کر دے۔ وَ لَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اور ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے میرے نفس کے حوالے نہ فرما۔ واقعی ایک لمحہ کے لئے بھی اگر کوئی نفس کے حوالہ ہو گیا تو کچھ بھی کر سکتا ہے، قتل بھی کر سکتا ہے، زنا بھی کر سکتا ہے، دھوکا بھی کر سکتا ہے، ظلم بھی کر سکتا ہے، پتا نہیں کیا کیا کر سکتا ہے۔ وہ ایک لمحہ ہی ہوتا ہے، اس لمحہ میں انسان بہک جاتا ہے، پھر بعد میں بے شک واپس آجائے، لیکن وہ جو بہکا ہوتا ہے اس کے consequences تو ہوتے ہیں، وہ تو اپنے اثرات رکھتے ہیں آپ ایک آدمی کو تھپڑ ماریں اور کہہ دیں کہ معذرت! غلطی ہو گئی۔ وہ آپ کو تھپڑ مار کے کہتا ہے مجھ سے بھی غلطی ہو گئی۔ لہذا سارے consequences تو اس کے ہوں گے۔ جو چیز آپ کریں گے تو اس کے مقابلہ میں کوئی کچھ تو کرے گا۔ چنانچہ مسلسل alert رہنا اور مسلسل اپنے آپ کو جرم سے اور گناہ سے بچانا، یہ بڑا کام ہے، اس کو جہاد اکبر کہا گیا ہے۔
متن:
اور اس مقام میں نفس کی مخالفت عزیمت اور اولیٰ کے ترک کرنے میں ہے بلکہ حتی الامکان اس ترکِ عزیمت کا ارادہ کرنے میں ہے کیونکہ اس مقام میں نفس کی مخالفت ترکِ عزیمت کے تحقق و ثبوت سے نا ممکن ہے اور اسی ارادہ کی وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی بارگاہ میں اس قدر ندامت و پشیمانی، التجا اور آہ و زاری حاصل ہوتی ہے کہ ایک سال کا کام اس کو ایک گھڑی میں حاصل ہو جاتا ہے۔
اب ہم اصل بات بیان کرتے ہیں، یہ بات (شرعی اور عقلی طور پر) مقرر و ثابت ہے کہ جس چیز میں محبوب ﷺ کے اخلاق و عادات پائے جائیں محبوب کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ چیز بھی محبوب ہو جاتی ہے اور آیتِ کریمہ ﴿فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ﴾ (آل عمران: 31) (یعنی تم میری پیروی کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے) میں اس رمز کا بیان ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت میں کوشش کرنا مقامِ محبوبیت تک لے جانے والا ہے پس ہر عقل مند سمجھ دار شخص پر واجب ہے کہ ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوۃ و السلام کی کامل طریقے پر اتباع کرے۔
تشریح:
یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع ہی مطلوب ہے اور نفس کی مخالفت اسی اتباع کے کرنے میں ہے، کیونکہ نفس اتباع کرنے سے روکتا ہے، تو اپنے نفس کے اوپر پیر رکھ کر آپ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کرنی ہے۔
متن:
مکتوب نمبر 44 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن: حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے سردار ہیں اور قیامت کے روز آپ ﷺ کے تابع و فرماں بردار تمام انبیائے کرام کے تابع و فرماں برداروں سے زیادہ ہوں گے، اور آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب اولین و آخرین سے زیادہ بزرگ و معزز ہیں آپ ﷺ قیامت کے روز سب سے پہلے قبر مبارک سے باہر تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ ہی سب سے اول شفاعت کریں گے اور سب سے پہلے آپ ﷺ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی اور آپ ﷺ ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے لئے جنت کا دروازہ کھول دے گا اور آپ ﷺ ہی قیامت کے روز لواء حمد (اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کا جھنڈا) اٹھانے والے ہیں حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء علیہم السلام اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور وہ آپ علیہ الصلوۃ و السلام ہی کی ذات گرامی ہے جس نے فرمایا: ’’نَحْنُ الْآخِرُوْنَ وَ نَحْنُ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ (الحدیث) یعنی قیامت کے دن ہم ہی (وجود و ظہور کے اعتبار سے) آخرین ہیں اور ہم ہی (مرتبہ و روز قیامت قبر سے اٹھنے کے اعتبار سے) سابقین و اولین ہیں)۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا یہ بات بغیر کسی فخر کے کہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور میں تمام انبیاء و مرسلین کا قائد و پیش رو ہوں اور بلا فخر کہتا ہوں کہ میں تمام نبیوں کا خاتم (مہر اور آخری نبی) ہوں اور میں بلا فخر کہتا ہوں کہ میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ بے شک جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھ کو سب سے بہتر مخلوق (یعنی انسان) میں پیدا کیا پھر ان کو دو گروہ (عرب و عجم) بنایا اور مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں بنایا پھر ان کو قبیلوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلے میں بنایا پھر ان کو گھروں میں تقسیم کیا تو مجھے ان میں سے بہترین گھر میں پیدا کیا پس میں ذات و گھر کے لحاظ سے سب مخلوق سے بہتر ہوں اور جب قیامت کے روز لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں (قبر سے) باہر نکلوں گا اور جب تمام بنی آدم حق تعالیٰ کے سامنے گروہ در گروہ پیش ہوں گے تو میں ان سب کا قائد و رہنما ہوں گا اور جب وہ سب خاموش ہوں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا اور جب وہ (جنت میں داخل ہونے سے میدان حشر میں) روک دیئے جائیں گے تو میں ان کا شفیع ہوں گا اور جب وہ (دیگر انبیاء علیہم السلام کے جوابوں سے) نا امید ہو جائیں گے تو میں ان کو (شفاعت کی) بشارت دینے والا ہوں گا اور اس دن کرامت (رحمت و بزرگی) اور جنت (کے دروازوں) کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور لواءِ حمد بھی میرے ہاتھ میں ہو گا اور میں اپنے رب کے نزدیک تمام اولادِ آدم میں سب سے بزرگ ہوں ہزار ایسے خادم (حور و غلمان) میرے گرد طواف کریں گے جو خوشنما آبدار سفید صدف کے اندر چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہوں گے اور جب قیامت کا دن ہو گا تو میں تمام انبیائے کرام علیہ السلام کا امام اور ان کا خطیب اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور مجھے اس بات پر فخر نہیں ہے۔
تشریح:
کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
متن:
اگر حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات گرامی صفات نہ ہوتی تو حق سبحانہ و تعالیٰ خلقت کو پیدا نہ فرماتا اور اپنی ربوبیت (رب ہونے کو) ظاہر نہ فرماتا اور آپ ﷺ اس وقت نبی تھے جب کہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھے (یعنی آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے پتلے کے لئے کیچڑ تیار ہوئی تھی)۔
نماند بعصیاں کسے در گرو
کہ دارد چنیں سید پیشرو
نہیں ہے خوف کچھ عصیاں کا اس کو
محمد ﷺ پاک جس کا پیشوا ہو
پس بلا شک و شبہ سید البشر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تصدیق کرنے والے تمام امتوں سے افضل ہیں۔ آیت: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۔۔﴾ (آل عمران: 110) (یعنی تم اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام امتوں سے بہتر ہو جو عالم میں بھیجی گئیں)۔ ان پر صادق آتی ہے اور اس پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے جھٹلانے والے بنی آدم میں سب سے بد تر ہیں۔ آیت: ﴿اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا۔۔۔﴾ (التوبہ: 97) (یعنی صحرا نشین لوگ کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں) ان کے حال کا پتہ دیتی ہے۔ دیکھئے کس خوش نصیب کو آنحضرت ﷺ کی روشن و بلند سنت کی پیروی نصیب فرماتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پسندیدہ شریعت کی پیروی سے سرفرازی بخشتے ہیں۔
تشریح:
میں نے الحمد للہ بغیر کسی تشریح کے کافی ساری عبارت پڑھ لی اور میرے خیال میں آپ سب نے سن اور سمجھ بھی لی ہے۔ اس میں کوئی تشریح کی بات نہیں ہے۔ بالکل واضح بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف ہو رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا تعارف ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اور اس کے لئے کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ پاک کے محبوب ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے ہی پیدا فرمایا۔
اب دیکھو ایک طرف پوری زمین ہے لیکن خانہ کعبہ والا تھوڑا سا حصہ تمام جگہوں سے سجدہ کے لحاظ سے اہم ہے؛ کیونکہ اس کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک طرف پوری زمین ہے لیکن جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم دفن ہیں وہ زمین عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ حالانکہ اس زمین نے کچھ نہیں کیا، محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم دفن ہیں۔ لہذا جب اللہ پاک کسی چیز کو کسی خاص طریقہ سے بنا دیں تو اس کے بعد پھر اس میں کوئی سوال نہیں رہتا کہ اس کے بارے میں ہم بحث کریں کہ ایسا کیوں ہے؟ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے۔ یہاں پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ فرمایا بالکل ایسا ہی ہے۔
اب اصل بات کیا ہے؟ اس سے ہم نتیجہ کیا نکالتے ہیں؟ نتیجہ یہ نکالیں گے کہ یہ اللہ پاک کے اتنے محبوب نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) ہیں تو ان کا قول، ان کا فعل، ان کا طریقہ اللہ کو کتنا محبوب ہو گا۔ جب یہ بات سمجھ آ گئی تو جس کو ہم سنت کہتے ہیں، جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کا طریقہ ہوتا ہے۔ وہ باقی تمام اعمال سے کتنا محبوب ہو گا؟ اس کے مقابلہ میں باقی کام کیسے فضول ہوں گے! اب ان چیزوں کو سمجھتے ہوئے ہم کوئی اور کام کیوں کریں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت موجود ہو۔
اگر میں کہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت مشکل ہے پھر تو آپ کو بولنے کا موقع مل سکتا ہے۔ اگرچہ وہ بھی غلط ہو گا۔ لیکن بہر حال تھوڑا بہت آپ بول لیں گے۔ لیکن اگر وہ طریقہ سب سے زیادہ آسان بھی ہو تو پھر کیا وجہ ہے؟ کیونکہ سنت میں یہ خاصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب کوئی کام کرنا ہوتا تھا تو اس کے جتنے بھی راستے ہوتے ان میں سب سے آسان راستے کو چن لیتے۔ لہذا وہ سب سے آسان کام ہوتا ہے۔ ایک تو یہ روش ہے کہ کام ہی نہیں کرنا، اس میں تو کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کام کرنا ہے تو اس کام کے کرنے میں جتنے بھی راستے ہوں گے اور طریقے ہوں گی، ان میں سب سے آسان طریقہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہو گا۔
مثلاً شادی کو لے لو، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق شادی کرو یا اپنی رسومات کے مطابق کرو، کون سا آسان ہو گا؟ سنت کا طریقہ آسان ہو گا۔ اسی طرح کپڑوں کو لے لو، بیٹھنے کو لے لو، سونے کو لے لو، ملنے کو لے لو۔ لہذا جو بھی طریقہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے وہ سب سے زیادہ آسان ہو گا۔ اگر کوئی مشکل ہے تو وہ ہمارے رواج کی مشکل ہے، understanding کی مشکل ہے۔ اس کی میں آپ کو بہترین مثال یہ دے سکتا ہوں کہ پہلے زمانے میں Teddy fashion ہوا کرتا تھا۔ اس میں اتنے تنگ و چست کپڑے ہوتے تھے کہ پورا جسم بالکل ایک تیر کی طرح بنتا تھا اور بوٹ نوک دار ہوتے تھے۔ مرد و عورت سب اسی میں مبتلا تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم نے اس کو بالکل نہیں اپنایا تھا۔ ہم ایسے ہی تھے جیسے اب ہیں۔ لیکن بہر حال ایک وقت میں لوگ اس میں مبتلا تھے اور جب وہ فیشن گزر گیا تو یقین جانئے، وہ پہلے والے جوتے اور کپڑے بالکل چوڑھوں کے جوتے نظر آتے تھے۔ لوگ اس سے اتنی نفرت کرتے تھے کہ یہ بھی کوئی چیز ہے جسے ہم پہنتے تھے؟ اب یہ کیا چیز تھی؟ ایک رواج تھا، فیشن تھا۔ بس فیشن ایسی عجیب چیز ہے کہ مثلاً اگر انسان پر کجی طاری ہو جائے تو اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جیسے dirt (گند) یا dirty (گندہ) پسندیدہ الفاظ نہیں ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر دیکھ لیں یہ جو شیطانی لوگ ہیں، وہ اپنے آپ کو خود dirty (گندے) کہتے ہیں، گندی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ اب اس کی کیا logic (تُک) ہے؟
آپ یقین کریں کہ شرابی کی اتنی بدبو ہوتی ہے کہ جو شرابی نہ ہو وہ شرابی کے قریب سے گذر بھی نہیں سکتا، لیکن جو پیتا ہے وہ اسی میں غرق ہوتا ہے۔ ہم بڑے suited booted لوگوں کو جرمنی میں دیکھتے تھے، جب ہم صبح کے وقت نماز کے لئے جاتے تھے، تو وہ صبح کے وقت pub (شراب خانے) سے آ رہے ہوتے تھے اور نشے کی حالت میں ہوتے تھے اور کوئی نہ کوئی ان کے ساتھی ان کے ساتھ ہوتے تھے، کوئی خود اپنے آپ کو نالی میں ڈال رہے ہوتے تھے اور کے ساتھی ان کو بچا رہے ہوتے تھے۔ کبھی ٹرین میں جا رہے ہوتے تو ایک آدمی نشہ میں ہے، دوسرا آدمی اس کے ساتھ ہے، تو وہ جو حرکتیں کرتا تھا ساتھ والا بھی اسے انجوائے کرتا تھا، لیکن باقی لوگ اسے Sorry he is sick, sorry he is sick کہتے تھے۔
عقل اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا تحفہ اور یہ شراب انسان کی عقل کو ہی ختم کرتی ہے۔ جو شراب پیتا ہے گویا وہ از خود اپنی عقل ختم کرتا ہے۔ شرابی کے الفاظ بھی عجیب و غریب ہوتے ہیں۔ چلنے پھرنے کا سٹائل، بولنے کا سٹائل بھی عجیب ہوتا ہے۔ آدمی ایک عجیب الخلقت بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے با وجود وہ اس کو پسند کرتے ہیں۔
اگر ایسی بات ہے تو پھر میں کہوں گا کہ یہ تو ابھی کجی ہے۔ لیکن اگر آپ صحیح فطرتی انداز میں دیکھیں تو سنت آپ کو انتہائی پسندیدہ ملے گی۔ اس میں صفائی بھی ہے، ستھرائی بھی ہے، پاکی بھی ہے، اچھائی بھی ہے، آسانی بھی ہے، خوبصورتی بھی ہے، سب کچھ ہے۔ پھر بھی اگر کوئی نہ لے تو وہ بد بخت ہے۔ اس کو بد بخت نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔
متن:
آج آنحضرت ﷺ کے دین کے بر حق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تھوڑا سا عمل بجا لانا بھی عمل کثیر کے برابر شمار ہوتا ہے۔ اصحاب کہف (رضی اللہ عنہم) نے یہ اعلیٰ درجات صرف ایک ہی نیکی کے ذریعے سے حاصل کئے ہیں اور وہ نیکی یہ تھی کہ وہ دشمنانِ دین کے غلبہ کے وقت نورِ ایمان و یقین کے ساتھ حق تعالیٰ کے دشمنوں (کے مقام) سے ہجرت کر گئے تھے۔ مثلاً دشمنوں اور مخالفوں کے غلبہ کے وقت اگر سپاہی تھوڑا سا بھی تردد کرے تو وہ اس قدر نمایاں اور معتبر ہوتا ہے کہ امن کی حالت میں اس سے کئی گنا تردد بھی معتبر نہیں ہوتا۔
نیز چونکہ آں سرور عالم ﷺ رب العالمین کے محبوب ہیں اس لئے آپ کی متابعت کرنے والے بھی آپ کی متابعت کے باعث محبوبیت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والا (محب) جس شخص میں اپنے محبوب جیسے اخلاق و عادات دیکھتا ہے اس شخص کو بھی اپنا محبوب ہی جانتا ہے اور مخالفوں کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہئے۔ شعر
محمد ﷺ عربی کا بروئے ہر دو سرا است
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
محمد ﷺ عربی دو جہاں کی عزت ہیں
جو منکر آپ کے ہیں مبتلائے ذلت ہیں
اگر ظاہری ہجرت میسر نہ ہو سکے تو باطنی ہجرت کو پوری طرح مد نظر رکھنا چاہئے مخلوق کے درمیان رہ کر ان سے الگ رہنا چاہئے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور امر (راستہ) پیدا فرما دے گا۔
تشریح:
اس کے لئے حضرت نے ’’خلوت در انجمن‘‘ کا لفظ فرمایا ہے، یعنی لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے لوگوں میں نہ رہنا۔
متن:
دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے مطلوب ہونے کے ساتھ آپ ﷺ کی متابعت کی اہمیت کے بارے میں مرزا بدیع الزماں کو مکتوب نمبر 74 میں نصیحت فرماتے ہیں۔
متن: باقی نصیحت یہ ہے کہ صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت لازم پکڑیں کیونکہ آخرت کی نجات آپ کی متابعت کے بغیر محال ہے۔ اور دنیا کی زیب و زینت کی طرف التفات و توجہ نہ کریں اور دنیا کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کو کوئی اہمیت نہ دیں (یعنی ان دونوں حالتوں کو یکساں جانیں) کیونکہ دنیا اللہ تعالٰی کی مبغوضہ (نا پسندیدہ و مکروہ) ہے۔ حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر و منزلت کچھ بھی نہیں۔ پس بندوں کے نزدیک اس کا عدم (یعنی نہ ہونا) اس کے وجود (یعنی ہونے) سے بہتر ہونا چاہئے اور اس کی بے وفائی اور جلدی جاتے رہنے (یعنی دولت کے زوال) کے قصے مشہور ہیں بلکہ مشاہدہ میں آ چکے ہیں۔ پس اہلِ دنیا کے حال سے عبرت حاصل کریں جو پہلے گذر چکے ہیں۔
تشریح:
میں صحیح بات عرض کرتا ہوں کہ جن چیزوں پہ ہم بڑا فخر کرتے ہیں کہ دنیا کی وہ چیزیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ حالانکہ وہ ہمارے ہاتھ میں ہیں ہی نہیں۔ جب اللہ رکھے تو ہوں گی اور جب نہ رکھے تو نہیں ہوں گیں۔
بالا کوٹ کا اور آزاد کشمیر کا جو سخت زلزلہ آیا تھا۔ میں ادھر گیا تھا اور میں نے اپنی آنکھوں سے وہ حالات دیکھے تھے۔ یہ حالات تھے کہ پانچ منٹ پہلے ایک آدمی ارب پتی ہے اور پانچ منٹ کے بعد اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اس کے پلازے، سٹور، ساری چیزیں گر گئیں۔ سب ختم ہو گیا۔ خود بچ گیا یہ بھی بڑا شکر ہے۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ عزت کیا ہے؟ کسی کی عزت کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے۔ دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔
متن:
ان ہی کو مکتوب نمبر 75 میں ارشاد فرماتے ہیں!
متن: دونوں جہان کی سعادت کی دولت سید کونین علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت پر وابستہ ہے (جب کہ وہ متابعت) اس نہج (طریق) پر ہو جس کو اہل سنت و الجماعت کے علماء نے بیان فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ان کو ان کی کوششوں کی جزائے خیر عطا فرمائے۔ سب سے پہلے اپنے عقیدوں کو ان بزرگوں کی صحیح آراء کے مطابق درست کرنا چاہئے۔ پھر حلال و حرام، فرض و واجب، سنت و مستحب اور مباح و مشتبہ کا علم حاصل کرنا چاہئے (یعنی علم فقہ حاصل کرنا چاہئے) جو ان سب امور کا متکفل ہے، اور اس علم کے مطابق عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ ان اعتقادی و عملی دو بازوؤں (پروں) کے حاصل ہو جانے کے بعد اگر سعادت ازلی مدد فرمائے تو عالم قدس کی طرف پرواز حاصل ہو جاتی ہے وَ بِدُوْنِھَا خَرْطُ الْقِتَادِ (ورنہ بے فائدہ رنج اٹھانا ہے) اور کمینی دنیا اس لائق نہیں ہے کہ اس کو اصلی مطالب میں سے شمار کریں اور اس کے مال و جاہ کے حاصل ہونے کو اصلی مقاصد سے خیال کریں بلند ہمت ہونا چاہئے اور حق سبحانہ و تعالیٰ سے بوسیلہ یا بے وسیلہ اسی کو طلب کرنا چاہئے۔ ع
کار این ست و غیر ایں ہمہ ہیچ
(ترجمہ: کام اصلی ہے یہی باقی ہیچ ہے)
تشریح:
اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ خط کشیدہ حصے (ان اعتقادی و عملی دو بازوؤں (پروں) کے حاصل ہو جانے کے بعد اگر سعادت ازلی مدد فرمائے تو عالم قدس کی طرف پرواز حاصل ہو جاتی ہے) میں معرفت کا بیان ہے۔
متن:
اور عروج کو عقائد کی درستگی اور شریعت پر عمل کے ساتھ مشروط فرمایا ہے پس ان دو چیزوں سے غافل معرفت کے دہلیز پر کبھی قدم نہیں رکھ سکتا، اس لئے کم از کم مبتدی کو تو ان چیزوں کے علاوہ کسی اور طرف دیکھنا نہیں چاہئے. جب اللہ تعالیٰ کسی کے ان مساعی کو قبول فرمائے گا تو خود بخود معرفت کے دروازے اس کے لئے کھل جائیں گے۔
تشریح:
یعنی جس وقت وہ عبدیت اختیار کرے گا، اللہ کی بندگی اختیار کرے گا تو بندگی کے ساتھ ہی اس کے قلب کی آنکھیں روشن ہونے لگتی ہیں. پھر اس کے بعد وہ دیکھنا شروع کر دیتا ہے. اس کو نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نفس کی گندگی دور ہونے سے ہی دل کی آنکھیں کھلتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو دل کی آنکھیں بند ہوں گی. آپ کے سامنے بیشک بہت ساری چیزیں آ جائیں تو آپ کیا کریں گے آپ کے لئے تو کچھ بھی نہیں. اگر اندھے کو چمن میں لے جائیں تو اس کو تو چمن میں کچھ نظر نہیں آئے گا۔
متن:
مکتوب نمبر 78 میں اس بات کو مزید بڑھاتے ہیں ’’سفر در وطن‘‘ جو ایک نقشبندی اصطلاح ہے، اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
متن: "سفر در وطن" مشائخ خاندان نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے اکابرین کے مقررہ اصولوں میں سے ہے۔ اس سفر کی چاشنی اس طریق میں ابتدا ہی میں میسر ہو جاتی ہے اور اندراج النہایت فی البدایت (ابتدا میں انتہا کے درج ہونے) کے طریق پر حاصل ہو جاتی ہے۔ (کارکنان قضا و قدر) اگر اس گروہ میں سے کسی جماعت کو مجذوب سالک بنانا چاہتے ہیں تو بیرونی (یعنی آفاقی) سیر میں ڈال دیتے ہیں اور اس سیر آفاقی کے تمام (مکمل) ہونے کے بعد سیر انفسی میں کہ جس سے مراد سفر در وطن ہے کچھ آرام دیتے ہیں۔ مصرع
ایں کار دولت است کنوں تا کرار سد
(ترجمہ: بڑی اعلیٰ ہے دولت دیکھئے اب کسی کو ملتی ہے) مصرع:
ھَنِیْئًا لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
(ترجمہ: مبارک نعمتیں جنت کی ہوں ارباب جنت کو)
اس نعمت عظمٰی تک پہنچنا سیدِ اولین و آخرین علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التحیات اکملہا کی اتباع سے وابستہ ہے جب تک اپنے آپ کو پوری طرح شریعت میں گم نہ کریں اور اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے رک جانے کے ساتھ پوری طرح آراستہ نہ ہو جائیں اس دولت و نعمت کی خوشبو جان کے دماغ تک نہیں پہنچ سکتی۔
شریعت کی مخالفت کے باوجود اگرچہ بال برابر ہی ہو، احوال و مواجید حاصل ہو جائیں تو (وہ سب) داخل استدراج ہیں۔
تشریح:
اگر کسی کو توجہ کی قوت مل جائے اور پوری مسجد کو ہلا دے تو کچھ بھی فائدہ نہیں۔ اگر وہ شریعت پر نہیں چلتا تو یہ استدراج ہے۔ شریعت پر چلے اور کچھ بھی حاصل نہ ہو، پھر بھی اس کے پاس سب کچھ ہے۔ یہی اصل میں بنیادی باتیں ہیں، جن کی طرف آج کل لوگوں کا دھیان نہیں۔
متن:
آخر کار اس کو رسوا و ذلیل کریں گے۔ محبوب رب العالمین علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التحیات اکملہا کی اتباع کے بغیر خلاصی (عذاب آخرت سے رہائی) ممکن نہیں ہے چند روزہ زندگی کو حق سبحانہ و تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں میں مشغول رکھنا چاہئے۔ یہ کیا زندگی اور کون سا عیش ہے کہ اس شخص کا مولیٰ (آقا) اس کے فعل سے ناراض ہو۔ حق سبحانہ و تعالیٰ اس کے تمام کلی و جزئی حالات پر مطلع اور حاضر و ناظر ہے، شرم کرنی چاہئے۔
مکتوب نمبر 114 میں اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
آپ ﷺ کی پسندیدہ متابعت کا ایک ذرہ تمام دنیاوی لذات اور اخروی تنعمات سے مرتبہ میں کہیں زیادہ بڑھ کر ہے، تمام فضیلت آنحضرت ﷺ کی روشن سنت کی تابع داری پر وابستہ ہے، اور تمام بزرگی احکامِ شریعت کی بجا آوری پر منحصر ہے۔ مثلاً دوپہر کا سونا (قیلولہ) اگر اتباعِ سنّت کی نیت سے ہو کروڑوں شب بیداریوں سے، جو آنحضرت ﷺ کی متابعت میں نہ ہوں، اولیٰ و افضل ہے اسی طرح عید الفطر کے دن میں کھانا (یعنی روزہ نہ رکھنا) جس کا کہ شریعتِ مصطفوی میں حکم ہے، خلافِ شریعت تمام عمر روزے رکھنے سے افضل ہے اور شارع علیہ السلام کے حکم کے مطابق ایک چیتل (دام، پیسہ) دینا اپنی خواہش سے، سونے کے پہاڑ خرچ کرنے سے بہتر و افضل ہے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک روز صبح کی نماز با جماعت ادا کرنے کے بعد صحابہ کی طرف دیکھا تو ان میں ایک شخص کو حاضر نہ پایا، دریافت کرنے پر حاضرین نے عرض کیا کہ وہ شخص تمام رات عبادت کرتا ہے شاید اس وقت آنکھ لگ گئی ہو۔ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر وہ شخص تمام رات سوتا رہتا اور صبح کی نماز با جماعت ادا کر لیتا تو (اس کے لئے تمام رات عبادت کرنے سے) بہتر تھا۔ گمراہ لوگوں (اہل ہنود وغیرہ) نے اگرچہ ریاضتیں اور مجاہدے بہت کئے ہیں لیکن چونکہ وہ شریعتِ حقہ کے موافق نہیں ہیں اس لئے بے اعتبار اور بے حیثیت ہیں۔ اگر ان (گمراہ لوگوں کے) اعمالِ شاقہ پر کچھ اجر ثابت بھی ہو تو وہ صرف بعض دنیوی منافع پر منحصر ہے، جب پوری دنیا ہی کچھ حیثیت نہیں رکھتی تو اس کے کسی منافع کا کوئی کیا اعتبار کرے۔ ان کی مثال ایسے خاکروب کی طرح ہے جس کی محنت سب سے زیادہ اور مزدوری بہت کم ہے اور شریعت کے تابع داروں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو قیمتی جواہرات اور عمدہ عمدہ ہیروں کے ساتھ کام کرتے ہیں کہ ان کا کام بہت تھوڑا اور مزدوری بہت زیادہ ہے، (سنّت کے موافق) ایک ساعت کا عمل ہو سکتا ہے کہ اجر میں ایک لاکھ برس کے نیک عمل کے برابر ہو۔ اس میں راز یہ ہے کہ جو عمل شریعت کے موافق ہوتا ہے وہ حق تعالیٰ کا پسندیدہ ہوتا ہے اور جو خلاف شریعت ہوتا ہے وہ حق تعالیٰ کا نا پسندیدہ۔ پس نا پسندیدہ اعمال کی صورت میں ثواب کی کہاں گنجائش ہے بلکہ عذاب متوقع ہے۔ اس حقیقت کی عالمِ مجاز میں نظیر موجود ہے جو تھوڑی سی توجہ سے واضح طور پر سجمھ میں آ جاتی ہے۔ بیت
ہرچہ گیرد علّتی علّت شود کفر گیرد کاملے ملت شود
(ہر چیز ہے مضر جو کبھی ساتھ دے مریض
کافر ولی ہے اس کو پکڑ لے اگر ولی)
پس تمام سعادتوں کا سرمایہ سنّت کی پیروی میں ہے اور تمام فسادات کی جڑ شریعت کی مخالفت کرنا ہے۔
تشریح:
اس میں حضرت سمجھا رہے ہیں کہ سنت پر عمل چاہے کتنا ہی آسان ہو وہ ان مشکل اعمال کے مقابلے میں پسندیدہ ہے جو کہ مسنون نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہم سے عبدیت چاہتے ہیں، محض ہماری تکلیف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا وابستہ نہیں۔
رسول ﷺ کی اطاعت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے لیکن بعض دفعہ سُکر میں بعض بزرگوں سے ایسے کلمات سرزد ہوئے ہیں جن سے ان دونوں میں فرق محسوس ہوتا ہے تو حضرت مکتوب نمبر 152 میں اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں
متن:
ہاں بعض مشائخ کبار قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے سُکر اور غلبۂ حال کی وجہ سے ایسی باتیں کہی ہیں جو ان دو اطاعتوں کے درمیان تفرقہ ظاہر کرتی ہیں اور ایک کی محبت کو دوسرے کی محبت پر ترجیح دینے کی خبر دیتی ہیں (جیسا کہ) منقول ہے کہ سلطان محمود غزنوی کا اپنی بادشاہت کے دوران "خرقان" کے نزدیک ٹھہرا ہوا تھا۔ وہاں سے اس نے اپنے وکیلوں کو حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں بھیجا اور خواہش ظاہر کی کہ حضرت شیخ اس (سلطان) کی ملاقات کو آئیں۔ اور اپنے وکیلوں سے کہہ دیا کہ اگر شیخ سے اس معاملہ میں توقف محسوس ہو تو یہ آیت: ﴿یآ أَیُّها الَّذِیْنَ آمَنُوا أَطِیْعُوا اللهَ وَ أَطِیْعُوا الرَّسُوْل وَ أُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ﴾ (النساء: 59) (اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول اللہ ﷺ کی اور ان کی جو تم میں سے حکمران ہوں) ان کے سامنے پڑھیں۔ (چنانچہ) جب وکیلوں نے شیخ کی طرف سے توقف محسوس کیا تو آیت کریمہ ان کے سامنے پڑھی۔ شیخ نے جواب میں فرمایا کہ أَطِیْعُوا اللهَ میں اس قدر گرفتار ہوں کہ أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کی اطاعت سے شرمندہ ہوں اور اطاعت اُوْلِی الْاَمْرِ کے متعلق کیا بیان کروں۔ حضرت شیخ نے اطاعتِ حق سبحانہ و تعالیٰ کو اطاعتِ رسول ﷺ کے علاوہ جو سمجھا، یہ بات (سکر کی بنا پر ہے (یہ ہوش کی بات نہیں ہے) اور استقامت سے بعید ہے، مستقیم الاحوال مشائخ نے اس قسم کی باتوں سے پرہیز کیا ہے۔ اور شریعت و طریقت اور حقیقت کے تمام مراتب میں حق سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت کو رسول ﷺ کی اطاعت میں جانتے ہیں اور حق تعالیٰ کی وہ اطاعت جو آنحضرت ﷺ کی صورت میں نہ ہو اسے عین ضلالت و گمراہی خیال کرتے ہیں۔
شریعت کی عظمت اور اہل شریعت علماء کے اکرام کے بارے میں مکتوب نمبر 165 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن: پس لازم ہے کہ ہمیشہ اپنی ہمت کو احکامِ شرعیہ کی بجا آوری سے صرف کیا جائے اور اہلِ شریعت علماء و صلحا کی تعظیم و توقیر کرنی چاہئے اور شریعت کو رواج دینے میں کوشاں رہنا چاہئے۔ اور گمراہ و اہل بدعت کو ذلیل و خوار رکھنا چاہئے۔ ’’مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ‘‘ (جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں اس کی مدد کی)۔
اسلامی معاشرت کے اہم نکتے پڑوسی کے حقوق کی طرف مکتوب نمبر 178 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن: جو حضرات اخلاق نبوی علیہ الصلوٰۃ و السلام سے متخلق ہیں ان کو اس بات کی طرف توجہ دلانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ کسی کے ساتھ احسان اور حسنِ معاشرت سے پیش آئیں بلکہ بہت ممکن ہے کہ ایسی رہنمائی و دلالت سوء ادبی میں داخل ہو جائے۔ مختصر یہ کہ آدمی ضرورت کے وقت ہر معمولی سے معمولی چیز کا سہارا تلاش کرتا ہے اور ہر کمزور لاغر سے اپنی تسلی حاصل کرتا ہے اس بنا پر فقیر آپ کے سامنے سائلوں اور محتاجوں کی تسلی اور دستگیری کا مسئلہ پیش کرنے کا باعث بنا۔
میرے مخدوم و مکرم! احسان ہر جگہ اور ہر موقع پر لائق تحسین ہے خاص طور پر اس جماعت کے ساتھ احسان کرنا بہت ہی اچھا ہے جو ہمسائیگی کا حق رکھتے ہیں۔ حضرت رسالت خاتمیت علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی میں اس قدر مبالغہ فرماتے تھے کہ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو یہ گمان ہونے لگتا کہ شاید آپ پڑوسیوں کو میراث میں بھی داخل فرما دیں گے۔ مثنوی
چوں چنیں بایک دگر ہمسایہ ایم
تو چو خورشیدی و ماچوں سایہ ایم
چہ بدے اے مایہ بے مایگاں
گر نگهدار ی حق ہمسایگاں
(جبکہ ہم سب ایک ہے ہم سایہ ہیں تم ہو سورج اور ہم سب سایہ ہیں
کیا ہو اے مایہ بے مایگاں گر ہو ملحوظ اب حق ہم سایگاں)
مکتوب نمبر 237 میں نقشبندی سلسلے میں سنت کی پیروی اور عزیمت کے اختیار کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔
تشریح:
یہ بہت اہم بات ہے۔ میں اس لئے اس کو بہت زیادہ بیان کرتا ہوں کہ آج کل اسی میں لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ عزیمت سے بھاگ رہے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے نقشبندی سلسلہ میں مجاہدہ نہیں ہے۔ خدا کے بندو! عزیمت سے بڑھ کر مجاہدہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ حضرات عزیمت پر آ جاؤ، آپ کو کسی اور مجاہدہ کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن اگر آپ عزیمت پر نہیں آتے، پھر آپ کو مجاہدہ کی ضرورت ہے، پھر مجاہدے کرنے پڑیں گے ورنہ آپ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نقشبندی ہیں، ہم مجددی ہیں، ہم فضلی ہیں۔ خدا کے بندو! اسی لئے فضلی اور مجددی ہیں کہ آپ ان کے طریقے پر چلیں، آپ ان کے طریقے پر نہیں چلتے اور کہتے ہیں ہم مجددی ہیں، ہم فضلی ہیں۔ ایسے نہیں ہوتا۔ ان کے طریقے پر چلنا پڑے گا۔ پھر آپ یہ بات کہہ سکتے ہیں۔
متن:
میرے سعادت مند بھائی! طریقہ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم کے بزرگوں نے روشن سنت کی پیروی کو لازم و ضروری قرار دیا ہے اور عمل کو عزیمت پر اختیار فرمایا ہے۔ اگر اس التزام و اختیار کے ساتھ ان کو احوال و مواجید سے بھی مشرف کر دیں تو نعمت عظیم جانتے ہیں۔ اور اگر احوال و مواجید ان کو بخش دیں اور اس التزام و اختیار (سنت سنیہ) میں کوئی فتور واقع ہو تو وہ ان احوال کو پسند نہیں کرتے اور ان مواجید کو نہیں چاہتے اور اس فتور میں اپنی خرابی کے علاوہ کچھ نہیں جانتے۔ کیونکہ ہندوستان کے برہمنوں، جوگیوں اور یونان کے فلاسفہ اور حکماء تجلیات صوری اور مکاشفات مثالی اور علومِ توحیدی بہت رکھتے ہیں لیکن ان کو ان (علوم) سے سوائے خرابی اور رسوائی کے کچھ نتیجہ حاصل نہیں ہوتا، اور ان کے وقت کی دولت سوائے بُعد و حرمان کے کچھ نہیں۔
مکتوب نمبر 249 میں ہر قسم کا کمال اتباع سنت میں سمجھنے پر یوں زور دے رہے ہیں۔
متن:
آخرت کی نجات اور دائمی فلاح حضرت سید الاولین والآخرین علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات اتمہا واکملہا کی متابعت پر وابستہ ہے لہٰذا آنحضرت کی متابعت کی وجہ سے (آپ کی امت کے برگزیدہ) حق جل سلطانہ کی محبوبیت کے مقام پر پہنچتے ہیں، اورآپ ہی کی متابعت سے تجلی ذات تعالیٰ و تقدس سے مشرف ہوتے ہیں، اور آپ ہی کی متابعت کی وجہ سے عبدیت کے مرتبہ پر جو تمام کمالات کے مراتب میں فوق ہے اور محبوبیت کے مقام حاصل ہونے کے بعد ہے سرفراز ہوتے ہیں، اور آپ ہی کی کامل پیروی کو بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند فرمایا ہے۔ اور پیغمبرانِ اولو العزم بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی متابعت کی آزرو رکھتے تھے۔ اور اگر حضرت موسی علیہ الصلوۃ و السلام، حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں زندہ ہوتے تو ان کو بھی آپ کی متابعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ اور حضرت عیسیٰ روح اللہ کے نزول اور حضرت حبیب اللہ علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کا قصہ معلوم اور مشہور ہے۔ اور آپ کی امت آپ ہی کی متابعت کی برکت سے ’’خیرالامم‘‘ قرار دی گئی، اور ان میں سے اکثر اہلِ جنت میں سے ہیں اور کل بروز قیامت آپ ہی کی متابعت کی بدولت تمام امتوں سے پہلے بہشت میں داخل ہوں گے اور وہاں کی نعمتیں حاصل کریں گے۔ اسی طرح اور اسی طرح ہو گا۔ (یہ فضائل و خصائص صرف اسی امت کے لئے مخصوص ہیں)۔ پس آپ کے اوپر لازم ہے کہ آنحضرت علیہ وعلیٰ جمیع اخوانہ من الصلوات افضلہا ومن التسلیمات اکملہا کی متابعت اور سنت کو لازم جان کر شریعتِ حقہ کے احکام بجا لائیں۔
اتباع شیخ کے لئے رابطہ یعنی ’’تصور شیخ‘‘ کی اہمیت کے بارے میں ایک سالک کی غلط فہمی دور فرماتے ہیں۔
متن:
خواجہ محمد اشرف نے نسبت رابطہ (تصور شیخ) کی مشق کے بارے میں لکھا تھا کہ اس حد تک غالب ہو گئی ہے کہ نماز میں اس کو اپنا مسجود جانتا اور دیکھتا ہے اور اگر بالفرض اس کی نفی کرنا چاہے تو وہ رابطہ نفی نہیں ہوتا۔ اے محبت کے نشان والے! طالبانِ حق جل و علا اسی دولت کی تمنا کرتے ہیں مگر ہزاروں میں سے کسی ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کیفیت والا شخص صاحبِ استعداد اور کامل مناسبت والا ہوتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ شیخ مقتدا کی تھوڑی سی صحبت سے اس کے تمام کمالات کو جذب کر لے۔ اور رابطہ (شیخ) کی نفی کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ تو مسجود الیہ ہے نہ کہ مسجود لہ۔ محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے۔ اس قسم کی دولت کا ظہور سعادت مندوں کو حاصل ہوتا ہے
تشریح:
یعنی محراب کی طرف جو آپ سجدہ کر رہے ہیں یہ اللہ کو ہی کر رہے ہیں، محراب کو تو نہیں کر رہے ہیں۔ تو حضرت نے یہ کتنی زبر دست دلیل دی ہے کہ محراب کی طرف سجدہ محراب کو سجدہ نہیں ہے بلکہ اللہ کو ہی ہے، البتہ اس نے آپ کو اس طرف سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، بلکہ خانہ کعبہ کو جو ہم اور آپ سجدہ کرتے ہیں، وہ خانہ کعبہ کو کرتے ہیں یا اللہ کو کرتے ہیں؟ خانہ کعبہ کو کرنے کے لئے حکم ہے، یعنی اس طریقہ سے سجدہ کرو۔ اسی طرح آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا، تو اس وقت اللہ ہی کو سجدہ تھا، کیونکہ حکم اللہ کا تھا، اللہ کا حکم پورا کرنا تھا۔ تو شیخ آپ کو اللہ کی طرف بلاتا ہے، آپ اس کا جو ادب اور احترام کرتے ہیں، وہ اللہ پاک کا کر رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ کی طرف جانا چاہتے ہیں۔
متن:
تاکہ وہ تمام احوال میں صاحبِ رابطہ (مرشد) کو اپنا وسیلہ جانیں اور تمام اوقات میں اسی کی طرف متوجہ رہیں۔ نہ کہ ان بد بخت لوگوں کی طرح جو اپنے آپ کو مستغنی (رابطہ شیخ سے بے نیاز) جانتے ہیں اور اپنی توجہ کے قبلہ کو اپنے شیخ کی طرف سے ہٹا لیتے ہیں اور اپنے معاملے کو خراب کر لیتے ہیں۔
تشریح:
جب کسی پر یہ بات کھل گئی کہ میں زیادہ جانتا ہوں تو بس پھر وہ گیا، پھر وہ جانے اور اس کا کام جانے۔ لیکن جب تک وہ کہتا ہے کہ مجھے اس دروازہ سے مل رہا ہے، اور اس دروازہ سے مجھے جو ملے گا میں لوں گا اور اپنے آپ کو اس کا محتاج سمجھتا ہے تو وہ اپنے آپ کو شیخ کا محتاج نہیں سمجھتا، بلکہ اللہ کا محتاج سمجھتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو اس دروازہ سے دے رہے ہیں۔
متن:
اتباعِ سنت اور اتباعِ شیخ کی اہمیت کے بارے میں مکتوب نمبر 13 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن: اگر ان دو باتوں میں استحکام ہو جائے تو پھر کوئی غم نہیں ہے۔ (۱) صاحبِ شریعتِ علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی متابعت اور (۲) شیخِ طریقت سے عقیدت و محبت۔ ان دونوں کا خیال رکھیں۔ اور ملتجی و متضرع رہیں کہ ان دونوں دولتوں میں سُستی نہ ہونے پائے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سہل ہے اور اس کی تلافی ممکن ہے۔
تشریح:
یعنی ایک تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پکڑو اور دوسرے شیخ کا طریقہ پکڑو۔ بس آپ کے دونوں کام ہو جائیں گے، اسی سے آپ کی کامیابی ہو جائے گی۔ ان میں سستی نہ کرو۔
اللہ پاک نے ہمیں ایسی ایسی چیزیں دکھائی ہیں کہ میں اگر بیان کروں تو لوگ یقین نہیں کریں گے۔ اس وجہ سے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں جو حضرت نے بتا دیا، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں بتاتا۔ کیونکہ میری آنکھوں دیکھی چیزیں اس سے زیادہ اچھی نہیں ہیں، لیکن اللہ پاک نے دکھایا ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلق خاص نصیب فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔