اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰی مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ﴾ (البقرہ: 185)
ترجمہ:
’’اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کر لو اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو اور تاکہ تم شکر گذار بنو‘‘۔
وَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ’’مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيْدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلّٰهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهٗ يَوْمَ تَمُوْتُ الْقُلُوْبُ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1782)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہو جائیں گے“۔
وَ مِنْھَا صَدَقَۃُ الْفِطْرِ وَ ھِیَ صَاعٌ مِّنْ بُرٍّ اَوْ کُمْحٍ عَنْ کُلِّ صَغِیْرٍ اَوْ کَبِیْرٍ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ، ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی۔
وَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: ’’فَرَضَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِّنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِّنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَ الْحُرِّ وَ الذَّکَرِ وَ الْاُنْثٰی وَ الصَّغِیْرِ وَ الْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اَمَرَ بِھَا اَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلٰوۃِ‘‘۔ (بخاری، حدیث نمبر:1503)
ترجمہ: ’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لئے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے‘‘۔
وَ مِنْھَا الصَّلٰوۃُ وَ الْخُطْبَۃُ وَ قَدْ کَانَ یَخْرُجُ یَوْمَ الْفِطْرِ وَ الْاَضْحٰی اِلَی الْمُصَلّٰی وَ اَوَّلُ شَیْئٍ یُبْدَأُ بِہِ الصَّلٰوۃُ ثُمَّ یَنْصَرِفُ مِنَ الصَّلٰوۃِ قَابِلَ النَّاسِ وَ النَّاسُ جُلُوْسٌ عَلٰی صُفُوْفِھِمْ فَیَعِظُھُمْ وَ یُوْصِیْھِمْ وَ یَأْمُرُھُمْ۔
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
معزز سامعینِ کرام! ہمیں اللہ پاک کا بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے کہ جس نے ہمیں اتنا عظیم مہینہ عطا فرمایا ہے کہ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہے۔ یہ مہینہ اللہ پاک نے ہمیں عطا فرمایا ہے اور اس میں روزے رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ چوں کہ شکر سے نعمت بڑھتی ہے اس لئے اگر ہم شکر کریں گے تو ان شاء اللہ رمضان شریف کی برکات ہم پر پورا سال چھائی رہیں گی۔
جن لوگوں کو اللہ پاک نے اعتکاف کی توفیق عطا فرمائی تھی، ان کے لئے بھی بہت زیادہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ پاک نے ان کو اتنی اہم عبادت ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی، جو اصلاحِ نفس کے لئے انتہائی مفید ہے اور سنت بھی ہے۔ اس عبادت کو اصلاحِ نفس کے فرض کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رمضان شریف کا اجر الگ چیز ہے اور اس کا اثر الگ چیز ہے، رمضان شریف کا اثر تقویٰ بتایا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ: 183)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
رمضان شریف کے روزوں کا بلکہ تمام روزوں کا اثر تقویٰ کا حصول ہے یعنی روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے، ہر چیز کی اپنی ایک فطرت ہوتی ہے، روزے کی فطرت تقویٰ کا حصول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کی اصلاح مجاہدہ میں ہے اور مجاہدہ نفس کی مخالفت کو کہتے ہیں یعنی نفس جن چیزوں کی خواہش کرتا ہے، نفس کو ان سے روکنا؛ یہ مجاہدہ ہے۔ روزے میں نفس کو تین بڑی خواہشوں (یعنی کھانے، پینے اور مباشرت) سے روکا جاتا ہے۔ نفس کے اندر اللہ پاک نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ جب اس کو اس کی کسی خواہش سے روکا جاتا ہے تو اس کے لئے خواہش پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے گویا کہ اس کو ایک تجربہ حاصل ہو جاتا ہے جس کے ساتھ اپنے آپ کو وہ ڈھال لیتا ہے، پھر آئندہ اس کو اس خواہش سے رکنے کے لئے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں رہتی، کم محنت سے بھی وہ اس خواہش سے رکنے پر قابو حاصل لیتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ نفس کو اس کی خواہش سے فوری طور پر روکنے سے گھبراتا ہے کیوں کہ نفس اس وقت پوری طرح جوبن پر ہوتا ہے اس لئے اسے قابو کرنا آدمی کو بہت مشکل معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر انسان ہمت کر کے نفس کی بات نہ مانے اور اس پر عمل نہ کرے تو آئندہ کے لئے اسے تجربہ بھی ہو جاتا ہے اور نفس بھی ڈر جاتا ہے، نتیجتًا انسان کے لئے دوبارہ نفس کو قابو کرنا اتنا مشکل نہیں رہتا جتنا کہ پہلی دفعہ میں مشکل تھا اور اگر تیسری مرتبہ بھی نفس کو قابو کر لیا تو نفس مزید دب جائے گا اور چوتھی مرتبہ میں اور زیادہ ڈر جائے گا، چنانچہ نفس کو جتنا زیادہ دبایا جائے گا اتنا ہی انسان کے لئے نفس پر قابو پانا آسان ہوتا جائے گا اور یہی اصلاح ہے۔
رمضان شریف کے تیس روزے تو اس مقصد کے لئے استعمال ہو ہی جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ انسان کو اس کے ذریعے سے جو تجربہ حاصل ہو چکا ہوتا ہے، اگر اس کو عید کے دنوں میں ضائع نہ کیا جائے تو انسان مستقل طور پر تقوٰی سے متصف ہو سکتا ہے، مگر لوگ اسے عید کے دنوں میں ضائع کر لیتے ہیں کیوں کہ عید کے دنوں سے متعلق لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ہم آزاد ہو جاتے ہیں اور آزادی کا تصور انسان میں بے احتیاطی پیدا کرتا ہے، بے احتیاطی کی وجہ سے انسان ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے، نتیجۃً وہ اپنے سب کئے کرائے پر پانی پھر دیتا ہے، چنانچہ عید کے دنوں میں احتیاط نہ کرنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو رمضان شریف کے (مطلوبہ) فوائد حاصل نہیں ہوتے۔
اس بارے میں ایک بات عرض کروں کہ خوشی کی دو قسمیں ہیں ایک دل کی خوشی ہوتی ہے اور دوسری نفس کی خوشی ہوتی ہے۔ آج اللہ پاک نے آپ لوگوں کی برکت سے ایک بہت بڑا علم عطا فرمایا، آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، یہ بات میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، تاہم اب دوبارہ عرض کرتا ہوں۔
دل اور نفس کی خوشی میں سے دل کی خوشی پائیدار ہوتی ہے جب کہ نفس کی خوشی وقتی ہوتی ہے، کیوں کہ دل چیزوں کو سٹور کرتا ہے اور نفس چیزوں کو سٹور نہیں کر سکتا، نفس کی مثال مشین کی طرح ہے، جس طرح مشین چیزوں کو باہر نکال دیتی ہے، اسی طرح نفس بھی کسی چیز کو اپنے اندر نہیں رہنے دیتا، جب کہ دل کی مثال سٹور جیسی ہے کہ سٹور میں اگر کوئی چیز رکھ دی جائے تو پھر وہ سٹور میں پڑی رہتی ہے، پس نفس کی خوشی عارضی اور وقتی ہوتی ہے اور دل کی خوشی پائیدار ہوتی ہے کیوں کہ دل کی خوشی نے دل پر اثر کیا ہوتا ہے تو جب تک وہ اثر موجود رہتا ہے، اس وقت تک خوشی باقی رہتی ہے۔
اب یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دل کی خوشی ذکر کے ذریعے سے، اللہ کو یاد کرنے کے ذریعے سے اور اچھے اعمال کرنے کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے اور نفس کی خوشی اس کی خواہش پوری کرنے سے حاصل ہوتی ہے، چنانچہ جتنے وقت میں آپ نے نفس کی خواہش پوری کی، اتنی دیر تک نفس خوش رہے گا، جیسے ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ ہماری قوتِ ذائقہ ہونٹوں سے لے کر حلق تک ہے، تو کتنے سیکنڈ تک مزا محسوس ہو گا؟ اگر زیادہ چبانے کا آپ کو فائدہ ہو جائے تو پانچ سات سیکنڈ لگ جائیں گے، پانچ سات سیکنڈ میں کھانا نیچے اتر جاتا ہے پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟
اس وجہ سے نفس کی خوشی ایک عارضی اور وقتی چیز ہے، کچھ وقت تک آپ کو اس کا مزہ حاصل ہو گا، پھر بعد میں آپ اس کو بھگتیں گے، اگر وہ خراب ہے تو اسے بھگتیں گے چاہے وہ physically (جسمانی) طور پر خراب ہو یا spiritually (روحانی) طور پر خراب ہو، دونوں صورتوں میں آپ بھگتیں گے۔ مثلاً شوگر کا مریض میٹھا کھائے گا تو اسے بھگتنا پڑے گا، گلے کا مریض آئیسکریم کھائے گا تو وہ بھی بھگتے گا، اسی طرح کی اور چیزیں بھی ہیں، مثلاً پیپسی کولا، کوکا کولا۔ تھوڑی دیر کے لئے آپ نے ان کا ذائقہ لے لیا پھر بعد میں اسے بھگتنا ہو گا۔ یہ تو جسمانی چیزیں ہیں اور روحانی چیزوں کی بھی یہی حالت ہے، اگر کسی نے کوئی ایسی خوشی حاصل کی جس کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے تو وہ اسے آخرت میں بھگتے گا، دل پر گناہ کی ظلمت آئے گی اور دل کا اطمینان بھی رخصت ہو گا۔
اس سے پتا چلا کہ فوری مزے کو عقل سے کنٹرول کر لو اور پھر اس کے physical (جسمانی) نقصان سے بھی بچ جاؤ اور اس کے spiritual (روحانی) نقصان سے بھی بچ جاؤ۔
نیز اس سے یہ بھی پتا چلا کہ ہم لوگوں کے لئے عید کے دن میں ان خوشیوں پر کنڑول کرنا جن کا تعلق نفس کی ان خواہشات کے ساتھ ہے جو گناہ پر آمادہ کرتی ہیں، ضروری ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ کہیں فوری طور پر ہم کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو جائیں اور دوسرا اس وجہ سے بھی کہ رمضان شریف میں ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے، وہ کہیں ضائع نہ ہو جائے کیوں کہ عید کے دنوں میں گناہ کی چیزیں (peak) عروج پر ہوتی ہیں، بعد میں تو نارمل انداز میں رہتی ہیں لیکن اس وقت عروج پر ہوتی ہیں، پورا معاشرہ ان میں مبتلا ہوتا ہے اور غلط ماحول میں انسان اپنی احتیاطیں بھول جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں سٹوڈنٹ تھا تو ہم ٹوورز وغیرہ پر جاتے تھے، کبھی ٹیکنیکل ٹوور پر اور کبھی ویسے ہی سیر سپاٹے کے لئے، لوگ کالج اور یونیورسٹی سے ٹوور پر جاتے تھے تو بالکل typical (عام سی) بات ہوتی تھی کہ جیسے سٹوڈنٹس کے ساتھ شیاطین کی مکمل تشکیل ہو جاتی اور سٹوڈنٹس اپنے آپ کو نارمل لوگ نہیں سمجھتے، بعد میں بہت افسوس کرتے تھے لیکن اس وقت وہ اتنے منہمک ہوتے تھے کہ کسی کی نصیحت کام نہیں آتی تھی، نصیحتیں ہوا میں اڑائی جاتی تھیں اور جس شخص سے نصیحت کی توقع ہوتی، اس سے ادھر ادھر گزرتے تھے۔ یہ زمانہ بھی ایسا ہوتا ہے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ ٹوورز وغیرہ، اس قسم کی چیزوں میں ماحول ہی ایسا بن جاتا ہے یعنی جو لوگ کسی گناہ کا تصور کرنے سے بھی گھبراتے ہیں، ماحول میں آنے کی وجہ سے وہ بے فکری کے انداز میں اس طرف چل پڑتے ہیں، یہ observation (مشاہدہ) ہے۔ اسی طرح عید میں بھی ایک ماحول بن جاتا ہے اور وہ ماحول عموماً بے احتیاطی کا ماحول ہوتا ہے مردوں کے لحاظ سے بھی اور عورتوں کے لحاظ سے بھی، عید میں مہمان داری بھی ہوتی ہے، لوگ آتے ہیں، ان میں محرم بھی ہوتے ہیں اور غیر محرم بھی ہوتے ہیں اور بعض مرتبہ محرم اور غیر محرم ایک ساتھ بھی آ جاتے ہیں، مثال کے طور پر اگر دو مرد محرم ہیں تو تیسرا کوئی شخص ان کے ساتھ غیر محرم بھی ہوتا ہے اور وہ رشتہ دار ہوتے ہیں۔ مثلاً شوہر محرم ہے تو اس کا بھائی غیر محرم ہے، یہ دونوں ایک ساتھ بھی آ سکتے ہیں، شوہر بھی آ سکتا ہے، اس کے ساتھ اس کا بھائی بھی آ سکتا ہے، ایسی صورت میں محرم کے ساتھ محرم والا برتاؤ کرنا ہوتا ہے اور غیر محرم کے ساتھ غیر محرم والا۔ لیکن کیا اس طرح ہوتا ہے؟ سب کے ساتھ ہاتھ بھی ملاتے ہیں، بات چیت بھی کرتے ہیں۔ یہ تو میں نے صرف ایک مثال دی ہے جو بہت واضح مثال ہے، جس کو سب لوگ جانتے اور مانتے ہیں، اس قسم کے اور بھی بہت سارے معاملات پیش آتے ہیں، چنانچہ ایسی چیزوں سے پھر احتیاطیں ٹوٹ جاتی ہیں اور پھر گھروں میں شیطان کے ڈبے بھی موجود ہوتے ہیں، مثلاً ٹیلی ویژن، ڈیک وغیرہ۔ اگر عید کے دن ایسی چیزوں کو نہ چلائیں تو عید پوری نہیں ہوتی بلکہ عید کمزور پڑ جائے گی۔ نہیں، بھائی! اپنے دل کو جگائیں، پھر پتا چل جائے گا کہ ٹی وی سے کیا خوشی ملتی ہے اور دل سے کیا خوشی ملتی ہے۔ یہ بات میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ لوگ ان چیزوں کو بہت اونچی آواز میں بجاتے ہیں گاڑیوں میں بھی اور سیر سپاٹے کے موقع پر بھی۔ ہمارے ’’زیارت کاکا صاحب‘‘ کا جو عرس ہوتا ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہاں کیا ہوتا ہے! شیطان ہر اچھی چیز کو خراب طور پر استعمال کر سکتا ہے، جب عرس کی ابتدا ہوئی تھی تو اس وقت یہ بزرگوں کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کا ایک ذریعہ تھا، ان دنوں ذرائع نقل و حمل بہت تھوڑے تھے لہذا عرس کے موقع پر لوگ آ کر اپنے بڑوں سے ملاقات کرتے تھے اور ان سے نصیحتیں حاصل کرتے تھے تو ان کو ایک تازگی حاصل ہو جاتی تھی، اس مقصد کے لئے عرس شروع ہوا تھا لیکن اب وہی عرس میلے بن گئے ہیں، کم از کم ’’زیارت کاکا صاحب‘‘ کے عرس کو تو میلہ ہی کہا جاتا ہے یعنی اس کے عرس ہونے کا شاید ہی لوگوں کو پتا ہو لیکن بہرحال چراغاں اور میلہ، یہ دو چیزیں ہوتی ہیں، اس عرس میں بے حیائی اور فسق و فجور نے اس وقت اس حد تک قبضہ کیا ہوتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا یہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد ہے! کیا یہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پہ حاضر ہونے والے زائرین ہیں! مثلاً قبروں کے اوپر ناچ رہے ہوتے ہیں، راستے میں قبرستان ہے، وہاں سے جو سڑک جاتی ہے، اس پر اپنے ساتھ ڈیک رکھے ہوتے ہیں، اُدھر وہ ناچ رہے ہوتے ہیں۔ خدا کے بندو! یہ کیا کر رہے ہو؟ شریف آدمی تو اس کو دیکھ بھی نہیں سکتا لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے عرس کے دنوں میں آدمی وہاں نہ ہی جائے تو اچھا ہے، یہی ہم سے ہو سکتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ جو چیزیں چل پڑتی ہیں، لوگوں کی نفسانی خواہشات کی وجہ سے جگہ پکڑ لیتی ہیں اور اپنا ایک وجود قائم کر لیتی ہیں تو پھر وہ آوازیں جو ان کے خلاف اٹھتی ہیں، وہ اجنبی ہو جاتی ہیں اور یہ چیزیں مانوس ہو جاتی ہیں، سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، عید بھی ایسی ہی ایک چیز ہے۔ عید میں بھی انسانی اقدار دب جاتی ہیں، ماہِ رمضان شریف کے اثرات مضمحل ہو جاتے ہیں، انسان کے نفسانی تقاضے ابھر آتے ہیں اور ان کا ماحول بننے کی وجہ سے ان پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے خواہ بعد میں کچھ بھی ہو۔ اس لئے میں یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ ان تین دنوں میں آپ ایمرجنسی بنیادوں پر اپنے آپ کو بچائیں، کسی ایسی جگہ پر نہ جائیں جہاں اس قسم کے حالات ہوں اور اپنے گھروں کو بھی ان چیزوں سے پاک رکھیں۔ صاف کپڑے پہننے سے کس نے روکا ہے؟ اچھا کھانا کھانے سے کس نے روکا ہے؟ جائز طریقے سے ملنے ملانے سے کس نے روکا ہے؟ مبارکباد دینے سے کس نے روکا ہے؟ یہ چیزیں ممنوع نہیں ہیں لیکن ان کے ساتھ نفسانی خواہشات اور اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں، وہ غلط ہیں، ان سے اپنے آپ کو بچائیں، اس کے لئے ہر ایک اپنے طور پر انتظام کر سکتا ہے، ہر ایک کے حالات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ مثلاً مجھے بعض ساتھی کہتے ہیں کہ ہم اپنے گھر والوں کو سیر کرائیں اور آؤٹنگ کے لئے نکالیں تو کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ مثلا مری ہے، اس کا بازار بھی ہے لیکن بازار کے علاوہ اس میں ارد گرد بہت سارے پہاڑ بھی ہیں جو بالکل خالی ہوتے ہیں تو اگر آپ کسی ایسی جانب نکل جائیں جہاں پر لوگ نہ ہوں تو ٹھیک ہے، وہاں پیدل چلیں، نیچے اتریں، اوپر جائیں، اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لے جا کر وہاں پر کھائیں۔ عرب حضرات کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے کہ اپنی گاڑی میں کھانے پینے کا سامان لے کر ویرانوں میں نکل جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر دن بھی مناتے ہیں، ریسٹ بھی کرتے ہیں، یہ ان کے لئے طبعی چیز ہے۔ آپ بھی اس طرح کر سکتے ہیں، اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی ویرانے کی طرف نکل سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ رش کی جگہوں میں جائیں گے جیسے بازار یا ہاسٹل وغیرہ یا اس طرح کی کسی دوسری جگہ میں جائیں گے تو وہاں پر تو پھر دمادم والی بات ہو گی یعنی ایسے مقامات پر اپنے آپ کو بچانا بہت مشکل ہے لہذا اس قسم کے پروگرامز موقوف رکھنے چاہیں۔
یہ بات میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ یہ چیزیں آج کل سوسائٹی کا حصہ ہیں کہ جس میں اس قسم کے احتمالات ہوتے ہیں تو ہم لوگوں کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے کہ رمضان شریف کی روحانیت کو ضائع نہ ہونے دیں کیوں کہ یہ بڑی محنت سے حاصل کی گئی ہے اور پورے سال کے لئے ہے، ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں سکردو گیا تھا، سکردو سے واپسی کا راستہ یہ ہے کہ سکردو سے انسان پہلے گلگت کے نواح میں اس کے پہاڑوں کے پاس پہنچتا ہے، وہاں سے بائیں مڑتا ہے، وہاں ریشم روڈ ہے، وہاں سے بائیں مڑ کر واپس آتے ہیں تو گلگت کے پاس سے گزرتے ہیں تو گلگت کے پاس وہاں پر ایک پہاڑ ہے، اکتوبر کا مہینہ تھا، ہم وہاں سے گزر رہے تھے اور اس پہاڑ کے اوپر کافی موٹی برف جمی ہوئی تھی تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ پوری گرمی گزر گئی، اب تو سردی آنی شروع ہو گئی، اکتوبر کے بعد نومبر میں تو پھر سردی پڑنا شروع ہو جاتی ہے، کم از کم ان علاقوں میں تو ایسا ہی ہوتا ہے تو میں نے کہا کہ اب یہ برف مزید نہیں پگلے گی، جو پگلنی تھی پگل گئی، اب یہ مزید نہیں پگلے گی بلکہ اب اس پر دسمبر جنوری وغیرہ میں مزید برف باری ہونی ہے، جس کی وجہ سے یہ برف مزید موٹی ہو جائے گی پھر اس کے بعد گرمیاں اس پر گزریں گی، جتنی گرمی سے پگل سکی، پگلے گی لیکن چوں کہ ساری برف اب بھی نہیں پگلی تو بعد میں بھی ساری برف نہیں پگلے گی لہذا اُس موسم میں برف کی تہہ اس سے بھی موٹی ہو گی، رفتہ رفتہ یہ برف بڑھتی جائے گی حتیٰ کہ گلیشیر میں تبدیل ہو جائے گی، گلیشیر بہت بڑا بنتا ہے تو وہ پانی حاصل کرنے کا ایک مستقل ذریعہ بن جاتا ہے، میں نے کہا کہ اسی طرح رمضان شریف کا مہینہ ہے کہ رمضان شریف کے مہینہ میں ہم لوگ نیکیاں کماتے ہیں اور باقی دنوں میں گنواتے ہیں، اگر گنوانے کی سپیڈ کم ہو اور رمضان شریف میں کمانے کی سپیڈ اچھی خاصی ہو تو وہ نیکیاں پورے سال میں ختم نہیں ہوں گی، وہ باقی رہیں گی، پھر رمضان شریف آ جائے گا پھر آپ اس میں مزید نیکیاں کما لیں گے، پھر پورے سال میں آپ کی نیکیاں باقی رہیں گی، اس طرح گویا کہ ہر رمضان شریف میں آپ ترقی کر رہے ہوں گے، آپ کی روحانیت بڑھتی جائے گی ورنہ پھر یہ ہو گا کہ کمائی ہوئی نیکیاں ضائع ہو جائیں گی اور آپ کی ترقی نہیں ہو سکے گی۔
یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ فطرتی بات ہے کہ انسان ایک حالت پر نہیں رہتا، کبھی حاصل کرتا ہے تو کبھی گنواتا ہے، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت! کب ہماری مکمل اصلاح ہو گی؟ خانقاہ آ جاتے ہیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں پھر گھر پر چلے جاتے ہیں تو خراب ہو جاتے ہیں پھر خانقاہ آتے ہیں تو ٹھیک ہو جاتے ہیں پھر گھر پر جاتے ہیں تو پھر خراب ہو جاتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ بھائی! مجھے بتاؤ، آپ صاف کپڑے پہنتے ہیں، پھر وہ میلے ہو جاتے ہیں، پھر دھوبی کو دیتے ہیں، وہ دھوتا ہے تو پھر پاک صاف ہو جاتے ہیں پھر آپ اس کو پہنتے ہیں تو پھر میلے ہو جاتے ہیں پھر دھوبی کو دیتے ہیں، تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟ سلسلہ تو اس طرح چلتا رہتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میلا ہونے کا نظام برقرار ہے تو صفائی کا نظام بھی برقرار رہنا چاہئے اور جب میلا ہونے کے نظام کو برقرار رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا تو یہ تو نفسِ امارہ ہے، نفسِ امارہ تو انسان کے ساتھ داؤ کرے گا، اس لئے یہ تو ہو گا لیکن کوشش اس بات کی جاتی ہے کہ آپ نفسِ امارہ کے شر سے کم سے کم متاثر ہوں، اور ایسا ہمت ہی کے ذریعے سے ہوتا ہے، انسان ہمت کرتا ہے تو وہ بچتا ہے، انسان بچتا رہے، بچتا رہے، بچتا رہے، تب بھی کچھ نہ کچھ لگتا رہتا ہے تو جو لگتا رہتا ہے اس کو دوبارہ نکالو، اس طریقے سے آپ اپنے لئے کچھ ذخیرہ کر سکتے ہیں ورنہ پھر یہ ہو گا کہ نقصان میں جائیں گے، خسارے میں جائیں گے، مسائل ہوں گے، خرچ زیادہ ہو گا اور کمائی کم ہو گی تو نتیجۃً جب ہم یہاں سے جائیں گے تو معاملہ الٹا ہو گا، اس وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ہم اس نظام کو اپنے حق میں مفید کریں یعنی گناہوں کی طرف کم سے کم رجحان کریں اور اچھائی کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کریں، کوشش کر کے ہم زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائیں، زیادہ سے زیادہ اپنے نفس کی اصلاح کریں تو اس طریقے سے ان شاء اللہ العزیز ہمارا معاملہ درست ہو جائے گا، یہ میں پریکٹیکل باتیں کر رہا ہوں۔ سوچ کی بات تو یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بزرگ سمجھتا ہے، سوچتا ہے کہ اب تو مجھ سے گناہ ہو گا ہی نہیں، پھر پتا چلتا ہے کہ اوہ! یہ کیا ہو گیا؟ بھائی کیا ہو گیا! وہی ہو گیا جو انسان کے ساتھ ہوتا ہے، پریکٹیکل بات تو یہی ہے کہ انسان سے گناہ ہوتے رہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’كُلٌّ خَطَّاءُوْنَ وَ خَيْرُ الْخَطَّائِيْنَ التَّوَّابُوْنَ‘‘۔ (الابانۃ الکبری، حدیث نمبر: 1076)
ترجمہ: ’’سب خطا کار ہیں اور بہتر خطا کار وہ ہیں جو توبہ کر نے والے ہیں‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا توبہ کا نظام درست ہو اور خطاؤں کے نظام پہ گہری نظر ہو کہ خطائیں کم سے کم ہوں، ان کو کم سے کم کیا جائے۔ اس طریقے سے ماشاء اللہ یہ نظام کچھ بہتر ہو سکتا ہے اور ہم لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
عید کے دن اور بالخصوص چاند رات میں بڑی بڑی چیزیں ہل جاتی ہیں، ہم ایک دفعہ لاہور میں چاند دیکھنے گئے تھے، لاہور بھی ایک شہر ہے اور وہاں بھی لوگ جاتے ہیں تو ہم بھی لاہور شہر میں چاند دیکھنے لئے گئے تھے، چاند نظر آیا تو جن لوگوں نے ہمارے لئے کھانے کی دعوت کی تھی، ہم وہاں جا رہے تھے تو اس کا راستہ ایک بازار سے گزرتا تھا، اس بازار میں کھچا کھچ رش لگا ہوا تھا، میں نے کہا کہ بھائی! کیا مسئلہ ہے؟ کیا ہو گیا؟ کہنے لگے کہ اس کو ٹرو کہتے ہیں، لوگ جوتے خرید رہے ہیں ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ جوتے خریدنے کے لئے عید کی رات چُنی ہے، بھائی! کیا پہلے جوتے نہیں خرید سکتے؟ لیکن یہ مردہ دلانِ لاہور، یہ لوگ مردہ دل ہوتے ہیں۔ دل تو وہ ہوتا ہے جو بیدار دل ہوتا ہے جس کو گناہ کا پتا ہوتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا اور وہ اس سے توبہ کرتا ہے، وہ بیدار دل ہوتا ہے۔ تو مردہ دلانِ لاہور نے عید کی رات میں اپنے لئے ایک چکر بنایا ہوا ہے کہ جس میں لوگ جوتے خریدتے ہیں اور اس میں پھر بڑے واقعات بھی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ مقصد یہ ہے کہ لوگوں نے اس قسم کی جو رسومات بنائی ہوئی ہیں، ان میں شیطانی چکر ہوتے ہیں اور یہ شیطان کی طرف سے بنائے گئے منصوبے ہیں، شیطان ہمیشہ آہستہ آہستہ وار کرتا ہے، ایسے طریقے سے وار کرتا ہے کہ آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ مجھے گھیرا جا رہا ہے، اس کے لئے اس طرح کے راستے بنا لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر قانون بنایا گیا کہ اٹھارہ سال سے پہلے شادی نہیں ہو سکتی۔ اب قانون بن گیا ہے، ٹھیک ہے لیکن ہے تو شیطانی بات، بھائی! کیا آپ کسی کو اٹھارہ سال تک بالغ ہونے سے روک سکتے ہیں؟ یہ جسم کے نظام کی ایک چیز ہے اس کو کون روک سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی نہیں روک سکتا۔ تو بالغ تو ہو جاتے ہیں، پھر اس کے بعد اٹھارہ سال تک آپ شادی نہیں کر سکتے، مطلب یہ ہے کہ گناہ کریں، تو یہ ساری باتیں شیطانی نظام کے چکر ہوتے ہیں۔ شیطانی نظام ایک پلاننگ کے ساتھ نافذ کیا جاتا ہے۔ یورپ میں اور کم از کم امریکہ میں یہ بات ہے کہ وہاں آپ اپنے بچوں کو ڈرا نہیں سکتے، یہ بھی ایک شیطانی قانون ہے۔ کیونکہ پھر تربیت کیسے کریں؟ ترغیب اور ترہیب یہ تربیت کے دو راستے ہیں، ترغیب یعنی لالچ دینا، جس کو انگریزی میں motivation کہتے ہیں اور ترھیب یعنی ڈرانا۔ بشیر و نذیر؛ یہ دونوں باقاعدہ آپ ﷺ کے نام ہیں، بشیر کا مطلب بشارت دینے والا اور نذیر کا مطلب ڈرانے والا۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں اب آپ اگر صرف بشارت کو رہنے دیں اور ڈرانے کو ممنوع قرار دیں تو بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو بشیر سے قابو میں نہیں آتیں، ان کے لئے نذیر کی ضرورت ہوتی ہے تو نتیجۃً ان کے لئے کھلی چھٹی مل گئی، اس وجہ سے وہاں صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو ڈراتے ہیں اور وہ ایک ٹیلی فون کال کر لیتے ہیں تو آپ جیل میں جائیں گے اور پھر بچوں کو اس بات کا پتا بھی ہوتا ہے، سکولوں میں ان کو معلوم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے بچے پھر بڑوں کو ڈراتے ہیں، وہ باقاعدہ دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک پاکستانی صاحب وہاں پر مقیم تھے، وہاں اس قسم کی بہت ساری چیزوں سے ان کو گزرنا پڑا، تو جس وقت وہ پاکستان ایئر پورٹ پر اترے تو ادھر ہی سے اپنے بچے کو مارنا شروع کر دیا اور اس سے کہہ رہے تھے کہ اب تک تو نے مجھے بہت تنگ کیا، اب میں تجھے دیکھتا ہوں یعنی باپ بہت جلا ہوا تھا۔ تو وہاں پر یہ مسئلہ ہے، وہاں پر شیطانی نظام قائم ہے، ہماری بچی تھی تو مائیں بعض دفعہ زور سے بھی کہہ دیتی ہیں کہ یہ کام کیوں نہیں کیا؟ تو ہمارے مکان کے اوپر والے حصے میں رہنے والی ایک عورت تھی، اس نے ہمارے لیٹر بکس میں خط پھینکا، ہم نے دیکھا تو اس نے لکھا تھا کہ ہم نے یہاں سے ایک چیخ کی آواز سنی ہے، کیا وجہ ہے؟ میں نے گھر والوں سے کہا کہ آئندہ احتیاط کرو، یہاں پر یہ مسئلے ہوتے ہیں، رپورٹ ہو جائے گی تو پھر انکوائری شروع ہو جائے گی اور پھر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں وہاں پر اس طرح بنی ہوئی ہیں اور اس کے نقصانات ہم دیکھتے ہیں۔ وہاں پر کیا نہیں ہو رہا؟ سب کچھ ہو رہا ہے، ان کو روکنے والی کوئی چیز نہیں، وہاں مرضی سے جو کچھ کرو، اجازت ہے اور زبردستی منع ہے حالاں کہ شریعت میں زبردستی بھی منع ہے اور رضا مندی سے بھی منع ہے۔ بہر حال یہ ان کا قانون ہے، اب شیطان نے کیسے زبردست طریقہ سے پلاننگ کی ہے اور اس پلاننگ سے یہ ساری چیزیں چل رہی ہیں۔
اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ ہمارے جو نظام چل رہے ہیں اور اس وقت خراب سے خراب تر ہو رہے ہیں، پچھلے سال ان کی حالت اس وقت سے کچھ اچھی تھی اور اب وہ پچھلے سال کی بنسبت خراب ہیں اور اگلے سال شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہوں اور اس سے اگلے سال شاید اس سے بھی زیادہ خراب ہوں، یہ معاملات خرابی کی طرف جو جا رہے ہیں تو کیوں؟ آخر وجہ کیا ہے کہ خیر کے پھیلانے کی جو صورتیں ہیں، وہ کمزور پڑ رہی ہیں اور شر کے پھیلانے کی صورتیں مزید زورآور ہو رہی ہیں تو نتیجہ کیا ہو گا؟ نتیجہ یہی ہو گا کہ برائی مزید آئے گی، پھر سسٹم کے اندر خیر کا کام کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی اور شر کے کرنے کی صلاحیت مزید بڑھ جائے گی تو یہ ایک سلسلہ چل رہا ہے، اسی کو ہم دجالیت کہتے ہیں اور اسی دجالیت کے اندر ہی پھر ایک دجال آ جائے گا، جو بڑا دجال ہو گا لیکن موجودہ دجالیت نے اس کے لئے میدان اتنا ہموار کیا ہو گا کہ اس کو کام کرنے کی ضرورت بہت کم ہو گی، لوگ خود ہی اس کی طرف بھاگیں گے کہ ہمیں بھی گمراہ کرو۔ آپ دیکھں! لوگ nationality (قومیت) حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے، اپنا سب کچھ اس کے لئے قربان کر دیتے ہیں حالانکہ ان کو پتا ہے کہ اگر مجھے امریکہ کی nationality (قومیت) مل بھی گئی تو میں اگر مضبوط مسلمان ہوں تو میں بچ جاؤں گا ان شاء اللہ، میری اولاد بھی شاید کسی حد تک بچ جائے لیکن ان کی اولاد کا کوئی پتا نہیں ہے، اس وقت جو بورس جانسن ہے جو برطانیہ کا وزیراعظم ہے، اس کی چوتھی پشت اوپر یعنی باپ دادا، اس کے پردادا یا پردادا کے والد ماشاء اللہ ترکی کے راسخ العقیدہ مسلمان تھے، اور یہ باقاعدہ ادھر گیا بھی ہے اس نے اس جگہ کا وزٹ بھی کیا ہے لیکن یہ بہت ہی راسخ العقیدہ عیسائی ہے، بہت خطرناک آدمی ہے لیکن اس کے آباء و اجداد مسلمان تھے۔ چنانچہ انسان جب وہاں پر جا کر اپنی شناخت کھو دیتا ہے تو پھر بعد میں اس قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، لیکن ابھی ہم جو nationality (قومیت) حاصل کرتے ہیں تو بڑے خوش ہوتے ہیں، ایک دفعہ ہمارے PIEAS میں ایک صاحب کو nationality (قومیت) ملی تھی، میرے خیال میں کچھ چیزیں موقع کا چانس بھی ہوتی ہیں، اس کو nationality (قومیت) مل گئی، مجھے تو پتا نہیں تھا، میں تو بے خبر آدمی ہوں، خیر ایسا ہوا کہ ایک دن میں نے ویسے ہی پوچھا کہ کیا حال ہے؟ تو اس کی آنکھوں میں ایک روشنی سی آئی اور کہا کہ آپ کو پتا نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ مجھے امریکہ کی nationality (قومیت) مل گئی ہے۔ اس کو تو میں نے کچھ نہیں کہا لیکن دل میں بہت افسوس ہوا کہ اس بیچارے کو بڑی خوشی ہے لیکن اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے اس کا اس کو پتا ہی نہیں ہے۔ لوگ nationality (قومیت) ملنے پر بہت خوشیاں مناتے ہیں، یہی دجالیت ہوتی ہے کہ آپ گمراہی کی طرف خود لپک کے جائیں، آپ اس کو خود قبول کریں تو یہ مسئلہ ہے۔ بہرحال اب یہ چیزیں مزید بڑھ رہی ہیں، اس لئے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
عید سے بات چلی تھی تو عید اللہ تعالیٰ نے ہمیں خوشی کے لئے دی ہے، عید الفطر یعنی روزہ افطار کرانے والی عید، اس میں خوشی تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ خوشی روحانی ہونی چاہئے، جسمانی خوشی وہ ہو جو روحانیت کے ذریعے سے آئے، بہت سارے لوگ ہیں جو بڑی ٹینشن میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی ٹینشن کی وجہ سے ان کو بیماریاں بھی لاحق ہوتی رہتی ہیں، کبھی ہارٹ، کبھی بلڈ پریشر، کبھی شوگر، کبھی کیا اور کبھی کیا، یہ بیماریاں ٹینشن کے اثر سے ہوتی ہیں پھر ان کو ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ آپ صحت افزا مقامات کی طرف جائیں اور یہ کریں اور وہ کریں، یہ ان کے اپنے طریقہ کار ہیں جو ان لوگوں نے معلوم کئے ہیں، یہ ان کے مطابق چلتے ہیں۔
لیکن ہماری پشاور یونیورسٹی میں یہ حال تھا کہ جو لوگ بہت تنگ ہو کر ٹینشن میں آ جاتے چاہے وہ پروفیسر ہوں، چاہے کوئی اور، ان کو لوگ کہتے کہ مولانا صاحب کی مجلس میں چلے جاؤ، مولانا صاحب کی مجلس میں چند دن جانے سے ان کی پریشانی ختم ہو جاتی۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے، ایسا ہر جگہ ہو سکتا ہے، روحانیت بذات خود اپنا کام کرتی ہے، جس چیز نے آپ کو ڈسا ہے یعنی دنیا کی محبت، آپ اس کو تھوڑا کم کر کے تو دیکھیں، یہ اثرات ختم ہونے شروع ہو جائیں گے، حسد، کینہ اور اس طرح کی ساری چیزیں دنیاوی چیزیں ہیں، دنیا کی چیزوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں تو اگر آپ کی یہ چیزیں کسی ماحول کی وجہ سے کم ہو جائیں تو اس کے اثرات بھی کم ہو جائیں گے۔ مولانا صاحب کی مجلس سے ما شاء اللہ لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا حالاں کہ بعض لوگ مولانا صاحب کو مانتے بھی نہیں تھے لیکن بیماری کی وجہ سے چلے جاتے تھے۔
ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ہمارے مخالفین کو بھی جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو پھر ہم سے رجوع کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے دل میں بھی یہ بات ہے کہ یہ ٹھیک ہے کیوں کہ جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو پھر تو وہ مانتے ہیں لیکن عام حالت میں وہ اپنی نفسانی خواہشوں کی وجہ سے انکار کرتے ہیں اور لوگوں میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔
بہرحال؛ یہ صرف میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ روحانیت جسمانی خوشی کا بھی انتظام کرتی ہے لیکن اس کے لئے آپ کو تھوڑا سا انتظار کرنا ہوتا ہے، صبر سے کام لینا ہوتا ہے کیوں کہ یہ چیزیں ایک مستقل طریقے سے یعنی ایک نظام کو تبدیل کرنے سے حاصل ہوتی ہیں، یہ چیزیں وقتی اور عارضی نہیں ہوتیں۔ اس لئے اچھی مجلس میں بیٹھنے سے آپ کو فائدہ ہو گا، کسی بھی اچھی محفل میں جا کر انسان کو فائدہ ہوتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک کیپٹن صاحب آئے تھے، ان کا واقعہ میں نے آپ میں سے بہت سارے لوگوں کو سنایا ہے، وہ سائکاٹری part-I مکمل کر چکے تھے اور part-II میں تھے، وہ نفساتی بیمار ہو گئے تھے اور جب میرے پاس آ ئے تو مجھے کہا کہ شبیر صاحب! کیا میں رو سکتا ہوں؟ میں نے کہا کہ یہ آپ کا حق ہے، آپ رو سکتے ہیں تو وہ رو پڑے، پھر انہوں نے مجھے اپنے دفتر، اپنے گھر وغیرہ کے احوال بتائے، بچارے واقعی بڑے مظلوم تھے، بہت سارے مسائل ان کے ساتھ تھے، انہوں نے مجھے سارے بتائے۔ میں نے ان کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب! یہ تو آپ کی فیلڈ ہے، میری فیلڈ نہیں ہے، میں صرف آپ سے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ آپ ایک کام کریں، وہ یہ کہ جو حالات آپ پر گذرے ہیں، وہ بہت منفی ہیں اور آپ کو یاد بھی ہیں لیکن آپ کے مثبت حالات جو بچپن سے لے کر اب تک آپ کے ساتھ ہیں، جن کو آپ مثبت سمجھتے ہیں، کوشش کر کے ان کو لکھ لیں، اور پھر اس کو کبھی کبھار دیکھتے رہیں۔ اخیر میں اس نے کہا کہ شاہ صاحب! آپ کی بات تو سمجھ نہیں آئی لیکن مجھے یہاں سکون مل گیا ہے، کیا میں دوبارہ آ سکتا ہوں؟
اب آپ مجھے بتائیں کہ اس کی statement (بات) میں آپ کو کیا نظر آتا ہے؟ جو چیزیں ان کے ساتھ تھیں، وہ فوراً ختم تو نہیں ہوئیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ مجھے سکون مل گیا ہے۔ یہ سکون کون سا مل گیا؟ کیا وہ چیزیں ہٹ گئیں؟ نہیں، لیکن روحانیت بھی کوئی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے، روحانیت سے ان کو فائدہ ہو گیا یہ بات وہ خود ہی کہتے ہے، پھر واقعی وہ اس پر عمل کرتے تھے یعنی ہر مہینہ ایک دفعہ آتے تھے، ہر بار میں ان کو یہی بات مختلف الفاظ میں بتاتا کیوں کہ ان کا علاج یہی تھا، وہ کہتے تھے کہ مجھے سمجھ تو نہیں آئی لیکن یہاں مجھے سکون ملتا ہے اور چھ مہینہ کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ اب مجھے بات سمجھ آ گئی، میں نے کہا کہ ان شاء اللہ اب آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔
تقریباً ایک مہینہ کے بعد جب وہ آئے تو انہوں نے کہا کہ میں اَسّی (80) فیصد ٹھیک ہو گیا ہوں، اب میں صرف موڈ سٹیبلائزر لیتا ہوں، کوئی اور دوائی لینے کی مجھے ضرورت نہیں ہے، الحمد للہ میں اب کافی حد تک ٹھیک ہوں۔ پھر انہوں نے مجھے کہا کہ آپ میڈیکل کالج آئیں اور ہمیں لیکچر دیں، آپ کے پاس بہت علم ہے، میں نے کہا کہ میں ہرگز نہیں آؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ کیوں؟ میں نے کہا کہ آپ بیمار تھے، لہذا آپ کو فائدہ ہو گیا، اب آپ سمجھتے ہیں کہ اس میں بہت فائدہ ہے لیکن آپ مجھے بتاؤ کہ وہ لوگ میری بات کیسے سنیں گے؟ وہ کہیں گے کہ تم انجینئر ہو، ڈاکٹروں کو کیوں سنا رہے ہو؟ بلا وجہ میری بے عزتی ہو جائے گی، میں آؤں بھی اور بے عزتی بھی کرواؤں؟ ایسا کیوں؟ اس لئے میں نہیں آؤں گا۔
میں نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ جو باتیں میں آپ کو سیکھاتا ہوں، آپ وہاں پر ان باتوں کا لیکچر دے دیں، آپ ڈاکٹر ہیں، آپ لیکچر دے سکتے ہیں، واقعہ تو لمبا ہے لیکن مقصود وہی دو باتیں ہیں جو میں نے عرض کر دیں، ایک بات یہ کہ چھ مہینوں کے بعد انہوں نے کہا کہ اب میں ٹھیک ہو گیا ہوں اور موڈ سٹیبلائزر پر رہتا ہوں، اور دوسری بات یہ کہ ہر دفعہ وہ کہتے کہ مجھے یہاں روحانی سکون ملتا ہے، یہ دونوں باتیں آپ کو سمجھ آ گئی ہیں! تو پھر انہیں یاد رکھنا چاہئے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ اللہ کے ساتھ ہیں اور اللہ آپ کے ساتھ ہے تو آپ دنیا اور آخرت دونوں کے لحاظ سے بہت فائدے میں ہیں اور اگر آپ دنیا کے ساتھ ہیں یا دنیا آپ کے ساتھ ہے تو آپ دنیا اور آخرت دونوں کے لحاظ سے خطرے میں ہیں۔ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے حضرت کو کچھ لکھا، حضرت نے فرمایا: خواجہ صاحب آج کل تارک الدنیا ہونا تو بہت زیادہ مشکل ہے، البتہ جس پہ اللہ فضل فرماتے ہیں اس کو متروک الدنیا بنا دیتے ہیں یعنی لوگ اس کو چھوڑ دیتے ہیں، مقصد یہ ہے کہ دل میں یہ سوچ پیدا ہونا کہ دنیا میرے ساتھ ہے اور میری مدد کر رہی ہے، یہ بھی خطرے کی بات ہے۔ اس لئے ہمارے اکابر اس سے بھاگتے تھے، ہمارے حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا جس جگہ مزار ہے، یہ ایک ویرانہ تھا، یہاں پہلے کچھ بھی نہیں تھا اور حضرت کا گھر جس کو میلہ کہتے ہیں، وہ پہاڑوں میں ہے، اب بھی آپ جائیں تو وہاں کچھ بھی نہیں ہے، ان کا گھر، ان کے والد صاحب کا گھر اور ان کے دادا کا گھر بھی سب ویرانے میں ہیں، اور آج بھی وہاں ویرانہ ہے کیوں کہ ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ حال تھا کہ لوگ ان کے پاس آتے تو وہ ان سے کہتے تھے کہ بھائی! میں پیر نہیں ہوں، میرے پاس کیوں آتے ہو؟ لیکن وہ لوگ پھر بھی آ کر کہتے کہ ہمیں فائدہ ہوتا ہے، حضرت نے لنگر بند کر دیا کہ اب نہیں آئیں گے، لوگ پھر بھی آتے تھے، قرب و جوار میں بسنے والے لوگوں نے ترس کھا کر ان لوگوں کو کھانا پلانا شروع کر دیا، حضرت نے ان کو پیغام بھیجا کہ اگر آپ میرے ساتھ تعلق رکھنا چاہتے ہیں تو ان کو کھانا نہ دیں، وہ کھانا بھی رکوا دیا گیا لیکن وہ لوگ پھر بھی اپنے ساتھ کھانے کے برتن لے آتے، ایک دفعہ ان کے کھانے کے برتن الٹا دیئے گئے لیکن اس کے باوجود لوگ بھوکے وہاں پر پڑے رہتے کہ ہم تو نہیں جائیں گے، پھر حضرت نے فرمایا! اب مجھے شرح صدر ہو گیا ہے کہ اس مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے میری طرف متوجہ کیا ہے، لہذا ان کو نہیں دھتکارنا چاہئے۔ پھر باقاعدہ حضرت نے لنگر بھی شروع کر دیا اور ان کا اکرام بھی شروع کر دیا کہ جب اللہ پاک کی مرضی یہی ہے تو میں کیا کروں؟ اب آپ دیکھیں کہ حضرت اس سے بھاگتے رہے، ایسا بھی ہوتا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ آپ کے پیچھے آئیں تو بھی آپ کے لئے مسائل ہیں اور لوگوں کے پیچھے آپ جائیں پھر بھی مسائل ہیں۔ البتہ اگر اللہ تعالی ساتھ ہے تو پھر کوئی دشواری نہیں۔
اللہ کی توفیق سے ہی اللہ تعالی کے ساتھ ہونے کا بہت آسان طریقہ بتاتا ہوں کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ جب کسی کے ہونٹوں پر میرا ذکر جاری ہوتا ہے تو اس وقت میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، یہ کام آپ کے لئے کون سا مشکل ہے؟ بس ذکر کرتے رہو، ذکر کرتے ہوئے ہونٹ ہلاتے رہو، اللہ ساتھ ہو جاتا ہے۔
عید کے دن کیا کرنا ہوتا ہے؟ ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔ ان کلمات کا ورد کرنا ہوتا ہے۔ عید الفطر کے موقع پر آہستہ آواز سے اور عید الاضحیٰ کے موقع پر بلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے نماز کے لئے ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس آئیں تاکہ ہر راستہ آپ کے بارے میں گواہی دے، عید الفطر کے موقع پر آپ آہستہ آہستہ ان کلمات کا ذکر کریں، ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔ ’’وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ میں زبردست مزہ ہے کیوں کہ یہ خوشی اللہ پاک نے دی ہے، جب آپ ’’وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ کہہ کر اس خوشی کا شکر ادا کریں گے تو نعمت بڑھ جائے گی، وہ نعمت جو آپ کے اندر engraved (پختہ) ہو گئی ہے، وہ سطح پر آنے لگے گی اور آپ کو محسوس ہونے لگے گا کہ واقعی میں خوش ہوں۔
ویسے تو یہ نعمت پہلے سے ہی باطن میں موجود ہوتی ہے لیکن جب بار بار آپ یہ ذکر کرتے ہیں اور ’’وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘ کہتے ہیں تو وہ نعمت باطن سے ظاہر پر آ جاتی ہے پھر وہ بڑھتی بڑھتی اس طرح ہو جاتی ہے کہ ظاہر میں بھی نفس پذیر ہو جاتی ہے، اس کے بعد بھی اگر آپ مزید بڑھانا چاہیں تو بڑھتے رہیں، بڑھتے بڑھتے آپ کی اس کیفیت کو دوسروں تک منتقل کرنے کا راستہ بھی بنا دیا جاتا ہے، پھر دوسرے لوگ بھی آپ کو دیکھ کر خوشی اور اطمینان محسوس کریں گے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے مولانا صاحب کی مثال بیان کی ہے، انہیں دیکھ کر لوگ خوشی محسوس کرتے تھے اور لوگوں کو سکون حاصل ہوتا تھا، ہمیں بھی ایسا ہی بننا چاہئے۔
یہ بھی ایک مستقل دنیا ہے، اگر آپ اس میں لگ گئے تو ان شاء اللہ دوسری چیزیں آپ سے ہٹ جائیں گی یا لوگ آپ کو ہٹا دیں گے، ہمارے قریبی رشتہ داروں کے گھروں میں جب شادیاں وغیرہ ہوتی تھیں تو کچھ لوگ تو شریعت کا احترام کرتے ہیں اور کچھ لوگ احساس کمتری کی وجہ سے اچھے خاصے ملوث ہو جاتے ہیں، رشتہ داری کی وجہ سے ایسے مواقع پر مجھے بھی جانا ہوتا تھا، تو وہ خود مجھے کہتے کہ جلدی سونا چاہئے، میرے لئے پہلے سے بستر وغیرہ کا انتظام کیا ہوتا کہ یہ جلدی سو جائے تاکہ ہمیں منع نہ کرے، میرے ساتھ ایسا ہوتا رہتا تھا۔ جیسا کہ ایک دفعہ سکردو والوں نے مجھے فرنٹ سیٹ پر بیٹھایا، میں سمجھا کہ شاید انہوں نے میری عزت کی ہے اور ادب کی وجہ سے مجھے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا ہے، لیکن بعد میں پتا چلا کہ میرے پیچھے شیطان کا ٹیلی ویژن والا پورا نظام موجود تھا، اگر وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے تو ٹیلی ویژن نہیں دیکھ سکتے تھے، اس لئے یہ متروک سیٹ تھی، یہ متروک سیٹ انہوں نے مجھے دے دی۔
مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو اللہ پاک نے اپنے فضل سے اپنے لئے قبول فرما لیا ہے تو پھر لوگ آپ کو خود ہی دھتکار دیں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص قبول ہو گیا ہے، اس نے داڑھی رکھ لی ہے اور اس کی داڑھی قبول ہو گئی ہے، لوگ اس سے تنگ ہوتے ہیں حالانکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ خوشی کا اظہار کرو کیوں کہ اللہ نے آپ کی داڑھی قبول کر لی ہے، پھر اگر آپ غلط کام کی طرف جائیں گے تو لوگ کہیں گے کہ آپ داڑھی کے ساتھ غلط کام کر رہے ہیں؟ یعنی داڑھی آپ کے لئے بطور چوکیدار ثابت ہوئی کہ اب آپ کو غلط سمت نہیں جانے دیا جا رہا، اب آپ کو اللہ پاک نے ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جو چیزیں انسان میں نہیں ہونی چاہئیں، ان سے آپ کو ہٹا دیا گیا۔ یہ اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔
اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ عید کے موقع پر بھی دل میں اللہ کی یاد اور زبان سے یہ کلمات ’’اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلہِ الْحَمْدُ‘‘۔ جاری رہنے چاہئیں اور تقویٰ اختیار کرنا چاہئے، تقویٰ سے مراد یہ ہے کہ آپ ایسی جگہوں پر نہ جائیں، جہاں گناہ ہونے کا خطرہ ہو، جب آپ ایسی جگہوں پر نہیں جائیں گے تو پھر آپ کے ساتھ اللہ پاک کا پورا ایک نظام ہو گا کیوں کہ صبر اور تقویٰ کے ذریعے سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے، اگر آپ نے صبر اور تقوٰی کو اپنا لیا اور گناہ کے مقامات پر جانے سے اپنے آپ کو بچا لیا تو پھر اللہ تعالیٰ آپ کے لئے راستے بنائیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: 2)
ترجمہ: ’’جو کوئی اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا‘‘۔
بہرحال! ہمیں عید کے دن کا استقبال کرنا چاہئے، یہ ایک فکر ہے کہ ہماری عیدیں کیسی گزریں، اس فکر کے لئے جو کچھ میسر ہو، ہمیں اس کو اخیتار کرنا چاہئے۔
عید سعید
ایک رمضاں کی خوشی اور پھر یہ عیدِ سعید
اللہ بار بار ہمیں دے اور اس پر مزید
اپنا دیدار ہمیں کر دے نصیب جنت میں
ہم ہیں نالائق مگر اس سے یہ رکھتے ہیں امید
تشریح:
اس وقت اصل عید ہو گی جب اللہ کے ساتھ ملاقات ہو گی، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
سارے اعمال ہوئے اس کی ہی توفیق سے ہیں
اب وہ فرمائے قبول، اس کی ملے ہم کو نوید
تشریح:
حدیث میں آتا ہے کہ عید کے دن جو لوگ نماز پڑھنے کے لئے جاتے ہیں تو اللہ اور فرشتوں کے مکالمے کے بعد یہ اعلان ہوتا ہے کہ تم بخشے بخشائے گھروں میں چلے جاؤ۔
ایک افطاری کی لذت ملے روزے سے یہاں
ایک جنت میں وہ فرحت ملے بوقتِ دید
علتِ صوم یعنی تقویٰ ہمیں مل جائے
کیونکہ ایمان سے ملن اس کا ولایت کی نوید
تشریح:
اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (یونس: 62)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہو گا، نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی فرماتے ہیں: ﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 63)
ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کئے رہے‘‘۔
ایمان تو الحمد للہ ہمارے پاس ہے، اب تقویٰ کے ساتھ ہمیں یہ چیز حاصل ہو جائے گی۔
وہ جو دشمن ہے ہمارا، ہماری تاک میں ہے
حملہ کرتا ہے وہ سخت سب پہ اسی لیلۃ العید
اور پھر عید کے دنوں میں کہاں چھوڑے گا
کر دے زہریلا ترے پاس لبن تیرا خرید
تشریح:
دودھ جو تو نے رمضان شریف میں جمع کیا ہے، اس کو زہریلا بنا دے گا، اس کے اندر اپنی چیز ڈال دے گا۔
تو اس میں جاری رکھے صالحین کی صحبت اگر
تو اس کو مل نہ سکے کوئی ترے دل میں چھید
یہی تقویٰ ترا رمضان کا کافی ہو شبیر ؔ
سال پورا رہے باقی، بنے تو اس کا شہید
چوں کہ عید کے دن غیر محرموں سے کافی خطرہ ہے، اس لئے اس پر بھی ایک رباعی سن لیجئے۔
غیر محرم کا اثر
جو کہیں، ان پر غیر محرم کا اثر نہیں تو وہ سمجھے ہی نہیں
دیکھنا ان کا جرم، جب دیکھا تو وہ دیکھنے سے تو بچے ہی نہیں
جو گناہ ہو اور گناہ نہ سمجھے کوئی اس کو، بڑا گناہ ہے یہ
پیروی خواہشِ نفس کی ہے یہ تو وہ اس سے ابھی نکلے ہی نہیں
عید کے دن کیا کریں؟
نورِ تقویٰ سے تو نعمت کی شناخت کر لو
حکم سے اس کے استعمال وہ نعمت کر لو
نور تقویٰ کا ملا تم کو جو رمضان سے ہے
باقی رکھنے کے لئے تھوڑی سی محنت کر لو
لیلۃُ العید میں ناجنس کی صحبت سے بچو
رات اچھی ہے کچھ اس میں بھی عبادت کر لو
تشریح:
الحمد للہ میرا یہ معمول ہے کہ میں اس رات میں اخیر کے دو پارے پڑھ لیتا ہوں، ان دو پاروں کی ہزار آیتیں بن جاتی ہیں اور اگر کوئی شخص کسی رات میں ہزار آیتیں پڑھ لے تو اس کو بہت زیادہ اجر ملتا ہے، تو اس رات میں آپ یہ عمل بھی کر سکتے ہیں۔
لیلۃُ الجائزہ مزدوری کے ملنے کی ہے رات
اس کے لینے کے لئے تھوڑی سی حرکت کر لو
عید روحانی خوشی کا ہے ذریعہ کیا خوب
جائز اعمال سے حاصل اس کی لذت کر لو
نفس کو نفس کی چاہتوں کے حوالے نہ کرو
یہ اگر چاہے تو اس کی مخالفت کر لو
کپڑے اچھے، کھانا اچھا ہو مبارک تم کو
ہاں کسی طرح نہ تم قصدِ معصیت کر لو
لب پہ تکبیر ہو اور دل شکر سے ہو لبریز
واسطے اس کے قبول میری نصیحت کر لو
تشریح:
تکبیر یعنی ’’اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘۔
رشتہ داروں سے ہو ملنا صلہ رحمی کے لئے
دل سے کینے کو اور بغض کو رخصت کر لو
بھول جانا نہیں اس دن مرنے والوں کو بھی
ہو اگر صورتِ امکاں ان کی زیارت کر لو
ہاں مگر عورتوں کا جانا قبرستاں نہیں درست
لازم اپنے پہ پابندی شریعت کر لو
اپنی خوشیوں میں غریبوں کی خوشی یاد رہے
صدقہ فطرانہ سے کچھ ان کی بھی خدمت کر لو
دینا بچوں کو ہو عیدی تو یہ بدلے پر نہ ہو
اس طرح سود سے اپنی محافظت کر لو
تشریح:
علماء نے کہا ہے کہ اگر عیدی دینے میں آپ کی نیت دوبارہ لینے کی نیت ہے تو پھر یہ قرض بن جاتا ہے اور قرض میں بڑھوتری سود ہے۔
تم اگر چاہو کہ دل کی خوشی کو پا جاؤ
یہ چند اشعار تم شبیر کے سماعت کر لو
نورِ تقویٰ سے تو نعمت کی شناخت کر لو
حکم سے اس کے استعمال وہ نعمت کر لو
یعنی نور تقویٰ جس کو حاصل ہوتا ہے تو اس کو واقعی ان نعمتوں کا ادراک ہو جاتا ہے کہ اس دن میں کیا کیا چیزیں پائی جاتی ہیں لیکن اگر تقویٰ نہ ہو تو پھر نفس کی بات ہوتی ہے کیوں کہ اگر تقویٰ نہ ہو تو پھر نفس کی بات چلتی ہے اور نفس آپ کو دوسری چیز دکھائے گا اور وہ اسی چیز کی طرف جائے گا۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو صحیح معنوں میں عید کی خوشیاں نصیب فرما دے۔
البتہ اس موقع پر ایک ضروری بات ہے جو یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ شوال کے چھ روزے ہیں، جن کی باقاعدہ ترغیب ہے، ان کے لئے بھی چند اشعار سن لو۔
شوال کے روزے
روزے چاہے کہ تو کچھ اور رکھے
اسی شوال کے مہینے کے
دس مہینے بنے رمضان کے جب
اور ان کے بھی دو مہینے ہوئے
ایک کے دس ملتے ہیں خدا کے ہاں
گویا رکھے ہیں سال بھر روزے
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ نیکی کا اجر دس گنا ہے، ایک مہینہ کے روزے آپ نے رکھ لئے تو گویا دس مہینہ ہو گئے، اگر مزید چھ روزے رکھ لیں گے تو پورا سال روزے رکھنے کا ثواب حاصل ہوگا کیوں کہ چھ کو دس سے ضرب دیں تو حاصلِ ضرب ساٹھ ہوگا پھر ساٹھ کو تیس سے تقسیم کریں (کیوں کہ ایک ماہ تیس دن کا ہوتا ہے) تو حاصلِ تقسیم دو ہوگا، تو چھ روزے رکھنے سے دو ماہ روزے رکھنے کا ثواب حاصل ہوا، اس طرح گویا پورا سال آپ نے روزے رکھے۔
ہم کو اُمید اس سے یہ بھی ہوئی
اثر اس کا پھر سال بھر ہی رہے
تشریح:
یعنی پہلے دن تو آپ نے روزہ نہیں رکھا لیکن جب عید کے اگلے دن سے آپ نے روزے رکھنے شروع کر لئے تو روزے کی برکت سے آپ گناہوں سے بچیں گے، اس طریقے سے گناہوں سے بچنا آسان ہو جائے گا۔
کیا کوئی حد ہے اس کے دینے کی
لینا چاہو گے تو مزید ملے
یہ بہانے ہیں اس کے دینے کے
شبیر کیوں رہیں پھر ہم پیچھے
تشریح:
اللہ پاک ہم سب کو توفیق نصیب فرمائے۔ اس میں بہت کچھ آ گیا، شوال کے مہینہ کے چھ روزے؛ ضروری نہیں ہے کہ آپ ان کو لگا تار رکھیں، درمیان میں فصل بھی کیا جا سکتا ہے یعنی دو شوال کو روزہ رکھ لیا اور تین شوال کو نہیں رکھا، پانچ شوال کو رکھ لیا اور چھ شوال کو نہیں رکھا، اس طرح بھی آپ چھ روزے پورے کر سکتے ہیں۔ اس کی برکات ان شاء اللہ العزیز اس طرح بھی آپ کو نصیب ہو جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کی صحیح خوشیاں نصیب فرما دے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ