اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
شوال کے روزوں کے بارے میں جو بتایا گیا ہے کہ ایسا ہے جیسے ساری عمر روزے رکھے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا یہ روزے مسلسل رکھنے چاہئیں یا وقفے وقفے سے بھی رکھ سکتے ہیں؟ کچھ لوگ اکٹھے چھے روزے رکھتے ہیں، اس کے بعد چھوٹی عید منا لیتے ہیں گویا کہ یہ چھ روزے پورے ہو گئے تو پھر بھی ایک خوشی مناتے ہیں تو اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب:
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لیجئے کہ شوال کے روزے نفلی ہیں اور رمضان کے روزے فرض ہیں لہذا شوال کے روزے اور رمضان کے روزے برابر نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ کی ہر چیز کا اجر کم از کم دس گنا زیادہ ملتا ہے تو ایک مہینے کے دس مہینے ہو گئے اور چھ روزوں کے ساٹھ روزے یعنی دو مہینے ہو گئے۔ اور دس اور دو؛ بارہ مہینے یعنی پورا سال ہو گیا۔ تو اگر کوئی ہر سال اس طرح کرتا رہے تو ایسا ہو گا کہ جیسے کہ وہ ساری عمر روزے رکھتا ہے۔ بہر حال! اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ رمضان شریف میں جو روحانیت حاصل ہوتی ہے تو اس روحانیت کے بعد جو عید کی آزادی دی گئی ہے اگر لوگ اس کو غلط (misuse) کر لیں تو اس کی وجہ سے روحانیت ضائع ہو سکتی ہے۔ لہذا عید کے پہلے دن تو روزہ نہیں رکھ سکتے لیکن اگر اس کے بعد آدمی پھر روزے رکھنا شروع کر دے تو وہ چیز برقرار رہتی ہے۔ تو اگر عید کے تین دن زیادہ احتیاط کر لے تو ان شاء اللہ اس کا اثر پورا سال رہے گا۔
میں ایک دفعہ سکردو سے آ رہا تھا تو وہاں گلگت کے پاس ایک پہاڑ ہے جس کے اوپر برف جمی ہوئی تھی حالانکہ اکتوبر کا مہینہ تھا، میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ دیکھو! گرمیاں گزر گئیں لیکن یہ برف نہیں پِگلی۔ اس کا مطلب ہے کہ برف اتنی زیادہ تھی کہ یہ گرمی اس کو پگلانے کے لئے کافی نہیں تھی۔ اب اگلے سال جب سردی شروع ہو گی تو یہ برف بھی موجود رہے گی اور مزید برف بھی آ جائے گی۔ پھر گرمیاں گزر جائیں گی لیکن وہ ختم نہیں ہو گی۔ اس طرح اس میں ہر سال اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور اگر یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہے تو پھر اس میں دباؤ کی وجہ سے گلیشیئر بن جاتا ہے اور اس طرح گویا کہ صاف پانی کا ایک ذخیرہ بن جائے گا جو بعد میں کام آئے گا۔ میں نے کہا اس طرح اللہ پاک نے انتظام کیا ہوتا ہے۔ بعینہٖ اسی طریقہ سے اگر ہم رمضان شریف کے روزے رکھتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے جو روحانیت اور تقویٰ حاصل ہوتا ہے، اگر ہم سال اس طرح گزاریں کہ اس کی روحانیت ابھی ضائع نہ ہوئی ہو کہ وہ رمضان شریف پھر آئے تو دوسرے رمضان شریف میں بھی جب روحانیت حاصل ہو گی تو وہ پہلی روحانیت کے ساتھ جمع ہو جائے گی۔ اس طرح ہماری روحانیت بڑھ جائے گی اور ہر سال ہماری روحانیت اور تقویٰ بڑھتا جائے گا۔ اور اگر ہم جو روحانیت رمضان شریف میں حاصل کر چکے ہیں اسے ہم شوال میں ضائع کر دیں تو یہ بہت محرومی کی بات ہے۔ اس وجہ سے یہ چھ روزے بہت زیادہ مفید ہیں۔ اس لحاظ سے بہتر یہ ہے کہ انسان شروع ہی میں رکھ لے، لیکن یہ حکم نہیں ہے۔ چونکہ یہ نفل روزے ہیں اس لئے آپ ان کو پورے شوال میں کبھی بھی رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ ایک چوتھے دن رکھ لیں، ایک دسویں دن رکھ لیں، ایک پندرہویں دن رکھ لیں، ایک اکیسویں دن رکھ لیں اور ایک اٹھائیسویں دن رکھ لیں۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ یہ سب شوال کے ہی روزے ہیں۔ البتہ اگر آپ اکٹھے رکھ لیں تو اس کا یہ فائدہ ہے کہ وہ مسئلہ اس سے حل ہوجائے گا جو میں عرض کر رہا ہوں۔ باقی اس کی چھوٹی عید منانے میں اگر ثواب سمجھے گا تو پھر بدعت ہو گا کیوں کہ جو چیز شریعت نے نہیں بتائی تو اس کو اپنی طرف سے ایجاد کرنے کو ہی بدعت کہتے ہیں بشرطیکہ اس میں کوئی ثواب سمجھتا ہے۔ تو ایسا کام تو نہیں کرنا چاہیے۔ ہر چیز کو اپنی اپنی حیثیت پہ رکھیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ