عارفانہ کلام

اک کیف اک حقیقت


دل میں شوق ابھرا جو دید کا تو طواف کعبہ کا کر لیا

یہ مجازی صورت ناز ہے اسے اپنی آنکھوں میں بھر لیا


یہ غلاف کعبہ سیاہ جو ہے کہاں نور اس کی چھپا سکے

اس نے حسن اس کا بڑھا دیا ہم نے دل پہ اس کا اثر لیا


یہ چکر لگاتے جو ہم ہیں یاں دل سے پہلے ہی تو لگاتے تھے

یہاں جسم و جان جو مل گئے دل پہ اس کا کیف نَظر لیا


یہاں کیا ہے کون بتا سکے یہ تو کل جہاں میں جہاں ہے اک

دل کو چھوڑ کے لے یہاں عقل جو اس نے رستہ اک پُرخطر لیا


یہ ہے حسن ازل کا ہی پرتو اک یہاں رحمتوں کا نزول ہے

اس سے عشق بہت ہی قبول ہے خوب اس سے حصہ اگر لیا


جو ادب سے اس کے ناآشنا ہو جو یہاں عمل کرے بے محل

اس نے چھوڑا عشق شبیر ہے اس نے خیر میں حصہ شر لیا