توضیح المعارف قسط 01

توضیح المعارف: پہلی قسط
روح و روحانیت اور اس کے مراتب

حجۃ اللہ البالغہ کے پانچویں باب میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔ (بنی اسرائیل: 85)

ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے۔‘‘۔

اعمش نے بروایت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ‘‘ کی جگہ ’’وَ مَآ اُوْتُوْا‘‘ بصیغۂ غائب پڑھا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کو تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ پس یہاں سے صاف معلوم ہوا کہ یہ کلام ان یہودیوں کے مقابلہ میں ہے جو آپ سے حقیقتِ روح دریافت کرتے تھے۔ (احقر عرض کرتا ہے کہ اگر ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ‘‘ بھی پڑھا جائے تو اگر ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ‘‘ کو ’’قُلِ الرُّوْحُ‘‘ کا تسلسل سمجھا جائے تو جیسے ’’اَلرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ‘‘ یہودیوں کو خطاب ہے تو ’’وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ‘‘ بھی ان ہی کو خطاب ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم) اور اس آیت سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ امتِ مرحومہ میں سے کسی کو روح کی حقیقت معلوم ہی نہیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس چیز سے بھی شارع نے سکوت اختیار کیا ہو، اس کا علم ہونا کسی کے لئے ممکن ہی نہ ہو، بلکہ بسا اوقات بعض چیزوں کے بیان سے اس لئے سکوت اختیار کیا گیا کہ وہ دقیق الفہم ہیں، ہر شخص ان کو نہیں سمجھ سکتا، چاہے کوئی ان کو سمجھ بھی سکتا ہو۔ (یعنی ان چیزوں کو جن چیزوں سے شارع نے سکوت اختیار کیا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس کی ایک دلیل؛ احادیث شریفہ کی تدوین اور فقہ کی تدوین بھی ہے جو کہ آپ ﷺ کے وقت میں نہیں بلکہ بعد میں ہوئی اور علم کلام کی تدوین تو حسبِ ضرورت اور بھی بعد میں ہوئی ہے)۔

خط کشیدہ حصہ؛ حضرت رحمہ اللہ کی وہ تحریر ہے جس نے اس موضوع پر سوچنے اور سمجھنے کا راستہ کھول دیا۔ خود حضرت رحمہ اللہ نے بھی اس موضوع پر حجۃ اللہ البالغہ میں لکھا اور بعد میں شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس کو مزید بڑھایا اور عبقات میں اس موضوع پر لکھا۔ اس موضوع سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے یہ کتاب ہے۔

انسان روح و نفس کا مرکب ہے۔ جس طرح نفس کے تقاضوں پر عمل کرنے سے جو احوال پیدا ہوتے ہیں، وہ نفسانیت کہلاتی ہے، اسی طرح روح کے تقاضوں پر عمل کرنے سے جو احوال و مقامات پیدا ہوتے ہیں، وہ روحانیت کہلاتی ہے۔ بقول حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ روح اللہ تعالیٰ کی عاشق تھی لیکن جب جسم میں منتقل ہوئی تو نفس نے اس کو اپنے تابع کر لیا۔ اس لئے جب ذکر و فکر سے روح میں نفس سے آزادی کی طلب پیدا ہو جاتی ہے تو روح آزاد ہونے کی کوشش کرتی ہے لیکن نفس اس کو نہیں چھوڑتا۔ روح و نفس کی اس کشمش میں نفس سے روح کو آزاد کرنے کی جو کوشش ہے جو کہ ایک محنت ہے اور اس کے ذریعے نفسانیت سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، یہی روحانیت کے حصول کا ذریعہ ہے، جس کو سیر الی اللہ بھی کہا جاتا ہے یعنی نفس کے اثر سے نکل کر اللہ کا بننا۔ اس کا لازمی نتیجہ عبدیت ہے جو کہ بندے کی معراج ہے۔ اس سے آگے مراتب ہوتے ہیں جو سالکین کی طبیعتوں کے اختلاف سے مختلف ہو جاتے ہیں۔ اس کتاب میں ان مراتب کی کافی تفصیل دی گئی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ حسنِ نیت کی توفیق عطا فرما کر اس کام کو خلوص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کام کو امت کے لئے مفید بنا کر ہمارے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرمائے۔

آمین ثم آمین۔

سید شبیر احمد کاکاخیل حال خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ، راولپنڈی۔

روح جسم ہے یا جوہرِ مجرد؟ اس بارے میں علماء و حکماء کا اختلاف قدیم زمانے سے چلا آتا ہے۔ شیخ عبد الرؤف منادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس میں حکماء کے اقوال ایک ہزار تک پہنچے ہیں مگر سب قیاسات اور تخمینے ہی ہیں، کسی کو یقینی نہیں کہا جا سکتا۔ امام غزالی، امام رازی اور عموماً صوفیاء اور فلاسفہ کا قول یہ ہے کہ روح جسم نہیں بلکہ جوہرِ مجرد ہے، امام رازی نے اس پر بارہ دلائل پیش کئے ہیں۔ مگر جمہور علماءِ امت روح کو ایک جسمِ لطیف قرار دیتے ہیں۔ نفخ کے معنی پھونک مارنے کے ہیں، اگر بقول جمہور روح کو جسمِ لطیف قرار دیا جائے تو اس کو پھونکنا ظاہر ہے اور جوہرِ مجرد مان لیا جائے تو پھونکنے کے معنی اس کا بدن سے تعلق پیدا کر دینا ہو گا۔ (بیان القرآن)

روح اور نفس کے متعلق حضرت قاضی ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق:

حضرت قاضی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر ’’تفسیرِ مظہری‘‘ میں فرماتے ہیں کہ روح کی دو قسمیں ہیں، علوی اور سفلی، روحِ علوی مادہ سے مجرد اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے جس کی حقیقت کا ادراک مشکل ہے، اہلِ کشف کو اس کا اصل مقام عرش کے اوپر دکھائی دیتا ہے کیوں کہ وہ عرش سے زیادہ لطیف ہے اور روحِ علوی بنظرِ کشفی اوپر نیچے پانچ درجات میں محسوس کی جاتی ہے، وہ پانچ درجات یہ ہیں: قلب، روح، سِر، خفی اور اخفیٰ۔ یہ سب عالمِ امر کے لطائف میں سے ہیں جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (بنی اسرائیل: 85)

اور روحِ سفلی وہ بخار ہے جو بدنِ انسانی کے عناصرِ اربعہ یعنی آگ، پانی، مٹی اور ہوا سے پیدا ہوتا ہے اور اسی روحِ سفلی کو نفس کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس روحِ سفلی کو جسے نفس کہا جاتا ہے، ارواحِ علویہ مذکورہ کا آئینہ بنا دیا ہے جس طرح آئینہ جب آفتاب کے مقابل کیا جائے تو آفتاب کے بہت بعید ہونے کے با وجود اس میں آفتاب کا عکس آ جاتا ہے، روشنی کی وجہ سے وہ بھی آفتاب کی طرح چمک اٹھتا ہے اور آفتاب کی حرارت بھی اس میں آ جاتی ہے جو کپڑے کو جلا سکتی ہے، اسی طرح ارواحِ علویہ اگرچہ اپنے مجرد ہونے کی وجہ سے بہت اعلیٰ و ارفع اور بہت مسافتِ بعیدہ پر ہیں مگر ان کا عکس اس روحِ سفلی کے آئینہ میں آ کر ارواحِ علویہ کی کیفیات و آثار اس میں منتقل کر دیتا ہے اور یہی آثار جو نفوس میں پیدا ہو جاتے ہیں، ہر ہر فرد کے لئے ارواحِ جزئیہ کہلاتے ہیں۔

پھر اس روحِ سفلی (جس کو نفس کہتے ہیں، اپنی ان کیفیات و آثار کے ساتھ جن کو ارواحِ علویہ سے حاصل کیا ہے) کا تعلق بدن انسانی میں سب سے پہلے مضغہ قلبیہ سے ہوتا ہے اور اس تعلق ہی کا نام حیات اور زندگی ہے، روحِ سفلی کے تعلق سے سب سے پہلے انسان کے قلب میں حیات اور وہ ادراکات پیدا ہوتے ہیں جن کو نفس نے ارواحِ علویہ سے حاصل کیا ہے، یہ روحِ سفلی پورے بدن میں پھیلی ہوئی ہے، باریک رگوں سے سرایت کرتی ہے جن کو شرائین کہا جاتا ہے اور اس طرح وہ تمام بدنِ انسان کے ہر حصہ میں پہنچ جاتی ہے۔

روحِ سفلی کے بدنِ انسانی میں سرایت کرنے ہی کو نفخِ روح سے تعبیر کیا گیا ہے کیوں کہ یہ کسی چیز میں پھونک بھرنے کے بہت مشابہ ہے۔

آیتِ مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے روح کو اپنی طرف منسوب کر کے ﴿مِنْ رُّوْحِیْ اس لئے فرمایا ہے کہ تمام مخلوقات میں روحِ انسانی کا اشرف و اعلیٰ ہونا واضح ہو جائے کیوں کہ وہ بغیر مادے کے محض امرِ الہیٰ سے پیدا ہوئی ہے۔ نیز اس میں تجلیاتِ رحمانیہ کے قبول کرنے کی ایسی استعداد ہے جو انسان کے علاوہ کسی دوسرے جاندار کی روح میں نہیں ہے۔

انسان کی پیدائش میں اگرچہ غالب عنصر مٹی کا ہے اور اسی لئے قرآن عزیز میں انسان کی پیدائش کو مٹی کی طرف منسوب کیا گیا ہے، لیکن در حقیقت انسان دس چیزوں کا جامع ہے، جن میں سے پانچ چیزیں عالمِ خلق کی ہیں اور پانچ عالمِ امر کی، عالمِ خلق کی پانچ چیزیں؛ چار عناصر یعنی آگ، پانی، مٹی، ہوا اور پانچویں چیز ان چاروں عناصر سے پیدا ہونے والا بخارِ لطیف ہے، جسے روحِ سفلی یا نفس کہا جاتا ہے اور عالمِ امر کی پانچ چیزیں وہ ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے یعنی قلب، روح، سِر، خفی اور اخفیٰ۔

اسی جامعیت کے سبب انسان خلافتِ الہیہ کا مستحق بنا اور نورِ معرفت اور نارِ عشق و محبت کا متحمل ہوا۔ جس کا نتیجہ بے کیف معیتِ الہیہ کا حصول ہے کیوں کہ رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ (مسلم، حدیث نمبر: 2640)

ترجمہ: ’’ہر انسان اس فرد کے ساتھ ہو گا جس سے اس کو محبت ہے۔‘‘

انسان میں تجلیاتِ الہیہ کی قابلیت اور معیتِ الٰہیہ کا جو درجہ انسان کو حاصل ہے، اس کی وجہ سے حکمتِ الہیہ کا تقاضا یہ ہوا کہ اس کو مسجودِ ملائکہ بنایا جائے، چناچہ ارشاد ہوا: ﴿فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۔ (الحجر: 29)

ترجمہ: ’’لہذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔‘‘