اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الحمد للہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی عقائد کے بارے میں تعلیمات گزشتہ ہفتوں میں بیان ہو چکی ہیں۔ اب اعمال کے بارے میں بات ہو گی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ کے اندر بہت سارے علوم ہیں، لیکن بعض دفعہ زبان پر ایک بات چل پڑتی ہے کہ یہ چیزیں مشکل ہیں۔ پھر بعض دفعہ صرف اس بات کی وجہ سے کہ یہ مشکل ہیں، کوئی ان کو ہاتھ نہیں لگاتا اور اگر ہاتھ لگاتا ہے تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ لہذا حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے کو حضرت کے مکتوبات شریفہ کی مدد سے سمجھنے کی بڑی ضرورت ہے، یعنی جو باتیں کسی بھی اچھے طریقے میں غلطی سے شامل ہو چکی ہوں اور ان سے نقصان ہو رہا ہو، ان کی نشان دہی کی جائے اور حضرت نے جو مفید باتیں کی ہیں، ان سب سے استفادہ کیا جائے۔ ابھی الحمد للہ اعمال کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔
اللہ پاک کا فرمان ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللّٰـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول للہ ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔“
اس لئے اہلِ حق کے ہاں سنتوں پر عمل اور سنت کی دعوت یقینی امر ہے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں کیوں نہ ہوتا؟ ورنہ بدعت جو سنت کے مقابل ہوتی ہے، اس سے بیزاری کیوں نہ ہو؟ اب حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ان تعلیمات کے بارے میں بتایا جائے گا جو بدعت کے رد میں ہیں۔
الحمد للہ! ایک درس پہلے ہو چکا ہے جس میں سنت کے بارے میں بات ہو چکی ہے۔ آج بدعت کے رد کے بارے میں ان شاء اللہ بات ہو گی اور یہ کہ حضرت کو بدعت سے کتنی بیزاری تھی۔ اس وجہ سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نام لیواؤں میں جو بدعتی ہیں، ان کو تو کم از کم سمجھنا چاہیے، جو سمجھتے ہیں کہ ہم مجددی ہیں، اپنے نام کے ساتھ نقشبندی مجددی لکھتے ہیں اور بدعات میں مبتلا ہیں۔ کم از کم ان کو تو اس چیز کے بارے میں احساس ہونا چاہیے کہ وہ بدعات میں مبتلا نہ ہوں۔ اس کے بارے میں حضرت نے بڑی زبردست تشریحات فرمائی ہیں۔ حضرت نے ہر قسم کی بدعت سے بیزاری کا اظہار کیا، یعنی کوئی کسر نہیں چھوڑی تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ حضرت نے اس بدعت کے بارے میں نہیں فرمایا اس لئے میں یہ کر رہا ہوں۔
تعلیمات مجددیہ اعمال کے بارے میں۔ ہر قسم کی بدعت سے بیزاری:
مکتوب نمبر 186 میں حضرت اپنی اس بیزاری کا کھل کر اظہار فرماتے ہیں۔
متن:
(یہ فقیر) حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں نہایت تضرع و زاری التجا، مسکینی، عاجزی اور انکساری کے ساتھ پوشیدہ اور ظاہر طور پر دعا کرتا ہے کہ جو کچھ دین میں نئی نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیں اور (لوگوں نے) ایجاد کر لی ہیں جو حضرت خیر البشر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفائے راشدین علیہ و علیہم الصلوات والتسلیمات کے زمانے میں نہ تھیں اگرچہ وہ چیز صبح روشن کے مانند ہو۔ اس ضعیف کو اس جماعت کے ساتھ جن کے لئے وہ (بدعات) مستند ہیں اس نئے کام کے کرنے میں گرفتار نہ کیجیو اور اس نئی چیز (بدعت) کی خوبی کا دیوانہ نہ بنائیو، بحرمۃ سید المختار و آلہ الابرار علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام۔
تشریح:
دیکھئے! حضرت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور یہ دعا فرما رہے ہیں کہ یا اللہ جو بھی دین میں نئی بات شامل کرنے والے ہیں ان میں مجھے شامل نہ کرنا۔
متن:
بعض علماء کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم کی ہے حسنہ اور سیئہ (یعنی نیک اور بد)۔ بدعت حسنہ اُس نیک عمل کو کہتے ہیں کہ جو آنحضور علیہ و علیہم الصلوات اتمہا و من التحیات اکملہا اور آپ کے خلفائے راشدین کے بعد ظاہر ہوا ہو اور رافع سنت نہ ہو (یعنی سنت کو دور کرنے والا نہ ہو)۔ اور بدعت سیئہ وہ ہے جو رافع سنت ہو (یعنی سنت کو دور کرنے والا ہو)۔ مگر یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت میں حسن اور نورانیت مشاہدہ نہیں کرتا اور سوائے ظلمت و کدورت کے کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ اگر بالفرض کوئی نیا عمل (بدعت) آج اپنی ضعف بصارت کی وجہ سے تازہ اور خوش نما معلوم ہوتا ہے تو کل (یعنی روز قیامت) جب نظر تیز ہو جائے گی تو سوائے نقصان اور ندامت کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ بیت:
بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت
کہ با کہ باختہ عشق در شب دیجور
صبح محشر روز روشن کی طرح رات تیری سب عیاں ہو جائے گی۔
حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات فرماتے ہیں: "مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ"
ترجمہ: ”یعنی جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں ہے تو وہ قابل رد ہے) (یعنی مردود ہے)۔“
بھلا جو چیز کہ مردود ہو اس میں حُسن (بھلائی) کہاں سے آئے گی؟ اور آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللہِ وَ خَیْرَ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَّ شَرَّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وَ کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ"
ترجمہ: ”یعنی اس کے بعد واضح ہو کہ بہترین کلام، کلام اللہ ہے اور بہترین طریقہ و سیرت حضرت محمد ﷺ کا طریقہ و سیرت ہے اور سب سے بد ترین چیز (دین میں) نئی باتیں (بدعتیں) ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
نیز آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللہِ وَ السَّمْعِ وَ الطَّاعَۃِ وَ اِنْ کَانَ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعْشِ مِنْکُمْ بَعْدِی فَسَیَرٰی اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَکُّوا بِھَا وَ عَضُّوا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ وَ اِیَّاکُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ"
ترجمہ: ”یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اور (اپنے حاکم کی بات) سنو اور اس کی تابعداری کرو اگرچه تمهارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ عنقریب بہت اختلافات دیکھے گا پس تم میری اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس کو (ہاتھوں سے) بہت مضبوط تھامو اور دانتوں سے مضبوط پکڑو اور نئے پیدا شدہ امور سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی و ضلالت ہے۔“
تشریح:
اصل میں دین اوپر سے آیا ہے یہ کوئی نہیں بنا سکتا بلکہ اس کو اپنانا پڑتا ہے۔ اس وجہ سے اگر میں نے اپنے ذہن سے کوئی بات نکالی ہو کہ یہ اچھی بات ہے تو یہ میرے ذہن کی بات ہو گی، دین کی بات نہیں ہو سکتی۔ میں اپنے ذہن کو دین کی بات سمجھنے کے لئے استعمال کر سکتا ہوں لیکن دین میں کوئی بات نکالنے کے لئے نہیں البتہ میں دین کی بات پر آنے کے لئے ذریعہ کے طور پر کچھ سوچ سکتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اور اس وقت لیپ ٹاپ سے درس دے رہا ہوں۔ آپ ﷺ اور صحابہ کے وقت میں لیپ ٹاپ نہیں تھا۔ اگر کوئی کہہ دے کہ یہ تو بدعت ہے، ہم کہیں گے کہ بدعت نہیں ہے۔ کیونکہ بدعت اسے کہتے ہیں کہ دین کی باتوں میں نئی بات نکالنا۔ میں جو پڑھ رہا ہوں اس میں جو لکھا ہوا ہے، میں وہ تبدیل نہیں کر سکتا۔ یعنی قرآن و حدیث کو میں تبدیل نہیں کر سکتا۔ لیکن قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے میں کوئی بھی ذریعہ استعمال کر سکتا ہوں۔ چاہے میں براہ راست کسی عالم سے سنوں، چاہے اس کی کتاب میں پڑھوں، چاہے ٹیلی فون پر اس سے پوچھوں، چاہے ریڈیو پر اس کا درس سنوں، چاہے لیپ ٹاپ پر اس کے بارے میں پڑھوں، یہ بدعت نہیں ہے بلکہ یہ ذرائع ہیں، ذرائع پر پابندی نہیں ہے۔ آگے حضرت اس بات کو صاف کر رہے ہیں۔ دین کے اندر کوئی نئی بات نکالنے پر پابندی ہے۔ اگر نکالتے ہیں تو وہ دین نہیں ہو گا وہ آپ کا خیال اور آپ کی اپنی بات ہو گی۔
متن:
لہذا جب دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی و ضلالت ہے تو پھر بدعت میں حُسن (بھلائی) تلاش کرنے کے کیا معنی؟ نیز احادیث شریفہ سے جو کچھ مفہوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر بدعت سنت کی رافع ہے۔
تشریح:
مثال کے طور پر کوئی بات جو سنت کے ذریعہ سے کی جا سکتی ہے۔ مثلاً نماز میں ہم ثنا پڑھتے ہیں، یہ سنت ہے۔ اگر میں اپنی طرف سے کوئی ثنا ایجاد کر لوں تو وہ سنت کو اٹھانے والی ہو گی۔ گویا کہ دین میں جو بھی بدعت ہو گی، اپنی حیثیت کے مطابق سنت سے محروم کرے گی۔ یعنی ایک وقت میں آپ کو سنت ایک حکم دے رہی ہے، اسی وقت اس جگہ پر آپ کوئی اور چیز ڈال رہے ہیں، بدعت اختیار کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ دین ہے تو اس حصۂ دین سے آپ محروم ہو گئے۔
متن:
بعض کی کوئی تخصیص نہیں (یعنی یہ بدعت حسنہ ہے اور یہ سیئہ) لہذا ہر بدعت سیئہ ہے۔ حضور اکرم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: "مَا اَحْدَثَ قَوْمٌ بِدْعَۃً اِلَّا رُفِعَ مِثْلُھَا مِنَ السُّنَّۃِ فَتَمَسُّکٌ بِسُنَّۃٍ خَیْرٌ مِّنْ اِحْدَاثِ بِدْعَۃٍ"
ترجمہ: ”جب کوئی قوم بدعت جاری کرتی ہے تو اس سے اس جیسی ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے پس سنت کو مضبوط پکڑنا بدعت کے جاری کرنے سے بہتر ہے۔“
اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: "مَابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَۃً فِی دِیْنِھِمْ اِلَّا نَزَعَ اللہُ مِنْ سُنَّتِھِمْ مِثْلَھَا ثُمَّ لَا یُعِیْدُھَا اِلَیْھِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ"
ترجمہ: ”یعنی کوئی قوم اپنے دین میں بدعت جاری نہیں کرتی مگر اللہ تعالیٰ اسی جیسی ایک سنت ان میں سے اٹھا لیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس سنت کو قیامت تک ان کی طرف نہیں لوٹاتا۔“
تشریح:
لہذا بدعت کو کہیں بھی رائج نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ جب قیامت تک وہ چیز ہوتی رہے گی تو اس کا ذمہ دار وہی شخص ہو گا جس نے اس کو شروع کیا تھا۔ لہٰذا بدعتوں کے فروغ سے بہت زیادہ بچنا چاہیے۔ شیطان اس میں پیش پیش رہتا ہے، اس پر اکساتا ہے کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ عوام زیادہ تر ان چیزوں میں مبتلا ہوتی ہے، ان کے مولوی حضرات جانتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ لیکن اس سے انہوں نے دنیا حاصل کرنی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کی بات کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ کوئی عالم جو یہ نہیں جانتا کہ یہ بدعت ہے، میرے خیال میں جاہل ہی ہو سکتا ہے عالم نہیں ہو سکتا۔ وہ بس دنیا کے لئے ان کے ساتھ چمٹا ہوتا ہے۔ جیسے جو علماء حکمرانوں کے سامنے خوشامد کرتے ہیں۔ اس لئے پرانے زمانے میں کسی عالم کا کسی حکمران کا درباری ہونا، اس کے لئے گالی کی طرح ہوتا تھا۔ اگر کسی کو کہہ دیں او درباری! تو یہ گالی سمجھی جاتی تھی۔ لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ آج کل خوانین اور چودھریوں نے اپنی طرف سے دین بنایا ہوتا ہے۔ اس دین کے لئے وہ کوئی راستہ اور کوئی دلیل نکال لیتے ہیں۔
ایک نواب تھا۔ نوابوں کے ہاں بڑے نخرے ہوتے تھے۔ اس نے ایک آدمی کو اس ڈیوٹی پہ رکھا تھا کہ میری زبان سے اگر کوئی غلط بات نکلے تو اس کے لئے فوراً آپ نے تاویل بنانی ہے۔ وہ آدمی اس میں بڑا ماہر تھا۔ ایک دفعہ نواب صاحب بڑھک مار رہے تھے۔ کہتے ہیں: میں نے جو شست باندھا تو گولی ہرن کے سُم (پاوں) کو چیرتی ہوئی اس کے ماتھے میں گھس گئی۔ لوگ حیران ہو گئے کہ سُم (پاوں) کہاں ہوتا ہے اور ماتھا کدھر ہوتا ہے! اس کی تو کوئی تُک نہیں بنتی۔ اس آدمی نے فوراً کہا: وہ اس وقت اپنا ماتھا کھجلا رہا تھا۔ یعنی ظاہر ہے سُم (پاوں) کے ساتھ ہی کھجلا رہا ہو گا۔ اسی وقت گولی اس کو لگی اور سُم (پاوں) کو چیرتی ہوئی ماتھے میں گھس گئی۔ چنانچہ اس قسم کے جو لوگ ہوتے ہیں وہ اس فن کے طاق (ماہر) ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہماری حفاظت فرمائے۔ منسٹریوں میں یہ چیز ہوتی ہے، یعنی وہاں بیٹھ کر آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ بڑی مشکل زندگی ہوتی ہے، ان کو اس کے لئے کوئی نہ کوئی دلیل بنانی ہوتی ہے۔ ان کو ذمہ داری دی جاتی ہے کہ بھئی اس کے لئے کوئی دلیل بناؤ، بس پھر وہ دلیل بناتے ہیں۔ تو آدمی کا بچنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
متن:
جاننا چاہیے کہ بعض بدعتیں جن کو علماء و مشائخ نے اچھا (حسنہ) سمجھا ہے جب ان کو اچھی طرح ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سنت کی رافع ہیں۔ مثلاً میت کے کفن میں عمامہ کو بدعت حسنہ کہتے ہیں حالانکہ یہی بدعت رفع سنت ہے کیونکہ عدد مسنون یعنی تین کپڑوں پر زیادتی نسخ ہے اور نسخ عین رفع ہے۔ اور اسی طرح مشائخ نے شملہ دستار کو بائیں طرف چھوڑنا پسند کیا ہے حالانکہ شملہ کو دونوں کاندھوں کے درمیان چھوڑنا سنت ہے ظاہر ہے یہ بدعت رافع سنت ہے۔ اور ایسے ہی وہ امر ہے جو علماء نے نماز کی نیت میں مستحسن جانا ہے با وجود دل کے ارادہ کے زبان سے بھی (نماز کی) نیت کہنی چاہیے۔ حالانکہ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام التحیۃ سے کسی صحیح حدیث یا ضعیف روایت سے ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی اصحاب کرام و تابعین عظام سے کہ انھوں نے زبان سے نیت کی ہو بلکہ جب اقامت ہوتی تھی تو وہ ساتھ ہی تکبیر تحریمہ کہتے تھے لہذا زبان سے نیت کرنا بدعت ہے اور اس بدعت کو حسنہ کہا ہے۔ اور یہ فقیر جانتا ہے کہ رفع سنت تو بجائے خود رہا، یہ تو فرض کو بھی رفع کرتی ہے کیونکہ اس تجویز میں اکثر لوگ زبانی نیت پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور دل کی غفلت پر کچھ نہیں ڈرتے کہ اس ضمن میں نماز کے فرضوں میں سے ایک فرض جو کہ نیت قلبی ہے، متروک ہو جاتا ہے اور نماز کے فاسد ہونے تک پہنچا دیتا ہے۔
تشریح:
اس مسئلہ میں چونکہ دوسری طرف بھی آراء موجود ہیں اور علمائے کرام کے دلائل بھی موجود ہیں، حضرت بھی ایک عالم تھے اور ان کی اپنی ایک رائے ہے، یقیناً وہ رائے بڑی محترم ہے۔ لیکن دوسرے علمائے کرام و فقہائے کرام کی رائے بھی محترم ہے۔ اگرچہ میں خود کبھی بھی زبان سے نیت نہیں کرتا۔ الحمد للہ میں حضرت کے مسلک پہ ہی چلتا ہوں، یاد نہیں ہے کہ کبھی میں نے زبان سے نیت کی ہو۔ لیکن جو زبان سے نیت کرتے ہیں، ان کو غلط نہیں کہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عوام نیت کو حاضر کرنا نہیں جانتے، تو کم از کم الفاظ کے ذریعہ وہ نیت حاضر کر لیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو کوئی نیت کو لمبا چوڑا کرتا ہے، اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔ بالخصوص جنازے کی نیت لمبی چوڑی نہیں ہوتی۔ جو باتیں پہلے سے معلوم ہیں ان کے کہنے کی ضرورت نہیں، مثلاً پیچھے اس امام کے، کیا اس وقت کسی اور کے پیچھے بھی ہو سکتا ہے؟ اس امام کے پیچھے ہی ہو گا۔ اور قبلہ رخ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ قبلے کے علاوہ کسی اور طرف رخ نہیں ہوتا۔
جنازے میں سب سے اہم چیز یہ دیکھنا ہے کہ بچے کا جنازہ ہے یا بڑے کا؟ اگر بچہ ہے تو لڑکا ہے یا لڑکی ہے؟ بس یہی فرق ہے جنازے کی نیت میں۔ باقی ساری باتیں پہلے سے واضح ہیں۔ آپ اس امام کے پیچھے نماز پڑ رہے ہیں۔ ثواب مردے کے لئے ہوتا ہے، اور آپ سنت طریقے پہ چل رہے ہیں اور اللہ پاک کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ میرے خیال میں کچھ زیادہ ہی تفصیلی بتا دیتے ہیں۔ بہر حال یہ مجبوری اور معذوری کی وجہ سے ہے۔ عذر میں مسئلہ کچھ تبدیل ہو جاتا ہے اور کچھ گنجائش نکل آتی ہے۔ میرے خیال میں علمائے حق الفاظ سے نیت نہیں کہتے۔ کیونکہ ان کو مسئلے کا پتہ ہے کہ اصل نیت تو دل کی ہے۔ لیکن عوام کو یہ اس لئے سکھایا جاتا ہے کہ وہ اس چیز کو نہیں کر سکتے۔ یعنی ان کا استحضار نہیں ہوتا اور نیت کا استحضار لازمی ہے۔ نیت کو حاضر کرنے کے لئے ان کو الفاظ بتائے گئے ہیں۔
البتہ بعض علمائے کرام جو فرماتے ہیں کہ اس پر عمل ہو جائے تو پھر عوام کے لئے بھی زبان سے نیت نہ کرنے کی گنجائش نکل آئے۔ وہ یہ ہے کہ عرف میں نیت یہ ہے کہ اگر وہ نماز پڑھ لے اور اس کے بعد کوئی اس سے پوچھے کہ آپ نے کون سی نماز پڑھی؟ اگر اس نے کہا: مغرب کی اور مغرب ہی پڑھ رہا تھا تو اس کی نیت ٹھیک تھی۔ یعنی پہلے سے اس کے دل میں یہ بات تھی تبھی اس نے فوراً جواب دیا کہ میں نے مغرب کی نماز پڑھی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی سو کر اٹھا وہ عصر کے وقت اٹھا ہے اور سمجھ رہا تھا کہ یہ فجر کا وقت ہے، اس نے فجر کی نیت کی عصر کی نہیں کی تو اس کی نماز نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس کو غلط فہمی ہے اور اس نے واقعتاً دل سے بھی نیت نہیں کی چنانچہ اس کی نماز نہیں ہوئی۔ لیکن اگر وہ آیا اور نماز میں شامل ہو گیا، بعد میں کسی نے پوچھا کہ کون سی نماز پڑھی ہے؟ اس نے کہا: میں نے عصر کی نماز پڑھی ہے۔ لہٰذا گنجائش کی حد تک اس پر یہ بات چلائی جا سکتی ہے اور حضرت کی بات پر عمل ہو سکتا ہے۔
متن:
یہی حال تمام مبتدعات و محدثات کا ہے کیونکہ وہ سنت پر زیادتی ہے خواہ کسی طرح کی ہو اور زیادتی نسخ ہے اور نسخ رفع (سنت) ہے۔ لہذا آپ پر لازم ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی متابعت پر کمر بستہ رہیں اور اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اقتدا پر کفایت کریں کیونکہ "فَاِنَّھُمْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ"
ترجمہ: ”وہ ستاروں کے مانند ہیں جن کی اقتدا کرو گے هدایت پاؤ گے۔“
لیکن قیاس اور اجتہاد کوئی بدعت نہیں کیونکہ وہ نصوص کو ظاہر کرتے ہیں کسی زائد امر کو ثابت نہیں کرتے۔ فَاعْتَبِرُوا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِ ”پس داناؤں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے“ اور اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کے راستہ پر چلے اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کو لازم پکڑے۔
تشریح:
بدعت چونکہ دین میں اضافے کو کہتے ہیں جبکہ بعض چیزیں عبادت کے طور پر نہیں کی جاتیں بلکہ عادت کے طور پر ہوتی ہیں۔ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے مکتوب نمبر 231 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
حضرت سے پوچھا گیا کہ ذکر بالجہر بھی بدعت ہے؟ فرمایا کہ:
متن:
میرے مخدوم! آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام کا عمل دو قسم کا ہے: ایک عبادت کے طریقہ پر ہے اور دوسرا عرف و عادت کے طور پر، وہ عمل جو عبادت کے طریقے پر ہے اس کے خلاف کرنا بدعتِ منکرہ جانتا ہوں اور اس کے منع کرنے میں مبالغہ کرتا ہوں کہ یہ دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرنا ہے اور وہ مردود ہے۔ اور وہ عمل جو عرف و عادت کے طور پر ہے اس کے خلاف کرنا بدعت منکرہ نہیں جانتا اور اس کے منع کرنے میں مبالغہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تعلق دین سے نہیں اور اس کا ہونا نہ ہونا عرف و عادت پر موقوف ہے نہ کہ دین و ملت پر جس طرح کہ بعض شہروں کا عرف دوسرے شہرں کے عرف کے خلاف ہے، اسی طرح ایک شہر میں زمانے کے تفاوت کے اعتبار کی وجہ سے عرف میں تفاوت ظاہر ہے۔ البتہ عادی سنت کی رعایت بھی بہت سے فائدوں اور سعادتوں کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت سید المرسلین علیہ و علیہم وعلیٰ تابعی کل من الصلوات افضلها و من التسلیمات اکملها کی متابعت پر ثابت قدم رکھے۔
تشریح:
یہ بات بتائی کہ اصل میں نقشبندی حضرات کے ہاں ذکر بالجہر نہیں تھا۔ کسی بزرگ نے اگر اس کو بدعت کہا ہے تو انہوں نے اپنے طریقے کی بدعت کہا ہے۔ گویا کہ ہمارے طریقہ میں کوئی نئی چیز لا رہے ہیں، یہ نہیں کہ وہ شرعی بدعت ہے۔ شرعی بدعت دین کے اندر کوئی نئی بات لانے کو کہتے ہیں۔ یہ دین نہیں ہے بلکہ دین پر آنے کا طریقہ اور ذریعہ ہے۔ آپ مراقبہ کرتے ہیں اس کا انداز بھی ثابت نہیں ہے، لطائف بھی ثابت نہیں ہیں۔ لطیفہ روح، لطیفہ سر، لطیفہ خفی۔ اس کو بدعت نہیں کہیں گے، کیونکہ یہ دین نہیں ہیں، بلکہ دین پر آنے کے لئے اسباب اور ذرائع ہیں۔ اس طرح ذکر بالجہر بھی بدعت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ذریعہ ہے۔ آپ ایک ذریعے سے کام لیتے ہیں، وہ دوسرے ذریعے سے کام لیتے ہیں۔ یعنی جیسے بعض لوگ جی ٹی روڈ سے جاتے ہیں اور دوسرے موٹر وے سے جاتے ہیں اور دونوں لاہور پہنچ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ ذریعہ تبدیل ہو سکتا ہے لیکن دین تبدیل نہیں ہو سکتا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی امر میں سنت اور بدعت دونوں کا احتمال ہو تو کیا کرنا چاہیے؟ اس کے لئے مکتوب نمبر 313 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
عقلمندوں کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ نقصان کے احتمال کی وجہ سے بہت زیادہ منافع کو چھوڑ سکتے ہیں۔ اسی مقولہ کے قریب قریب وہ امر ہے جو علماء شَکَرَ اللہُ تَعَالیٰ سَعْیَہُم نے فرمایا ہے کہ "اگر کوئی امر سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو اس سنت کے بجا لانے کی نسبت ترکِ بدعت بہتر ہے" یعنی بدعت میں نقصان کا احتمال اور سنت میں منافع کی توقع ہے تو ضرر کے احتمال کو منافع کی توقع پر ترجیح دے کر بدعت کو ترک کر دینا چاہیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ سنت کے بجا لانے میں دوسری راہ سے نقصان پیدا ہو جائے۔ اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سنت گویا کہ اس (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے) زمانے کے ساتھ ملی ہوئی ہے چونکہ ایک جماعت اس کی باریکی اور پوشیدگی کی وجہ معلوم نہ کر سکی اس لئے اس کی تقلید کرنے میں سبقت کی، اور دوسری جماعت نے اس کو موقت (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے ساتھ مخصوص) جان کر اس کی تقلید اختیار نہیں کی۔ واللہُ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمُ بِحَقِیقَۃِ الحَالِ۔
تشریح:
گویا کہ اگر کوئی ایسی بات ہو جس میں علم نہ ہونے کی وجہ سے سنت کا بھی احتمال ہو اور بدعت کا بھی احتمال ہو تو ایسی صورت میں اگر وہ کوئی ایسا امر نہیں ہے جس کا حکم ہے تو پھر چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے والی بات ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی راستے سے جانا ضروری نہیں تو پھر اس پہ جا کر کیوں Risk (خطرہ) لیا جائے، اگر اس راستے پہ شیر کھڑا ہو تو جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسی طریقہ سے مجھے اپنے آپ کو بچانا چاہیے کہ میں کسی نقصان میں نہ پڑوں۔ یہ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے کہ جلب منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ ضروری ہے۔
بدعتی کی صحبت سے بچنے کے لئے دفتر اول مکتوب نمبر 54 میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
یقین جانئے کہ بدعتی کی صحبت کا فساد کافر کی صحبت کے فساد سے بھی زیادہ ہے اور تمام بدعتی فرقوں میں سب سے بُرا وہ فرقہ ہے جو پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے اصحابؓ کے ساتھ بُغض رکھتا ہے۔
تشریح:
واللہ اعلم! لیکن آپ یہ بات سن کر حیران ہوں گے، میں اپنے طور پہ دعوی نہیں کر سکتا لیکن بہت سارے لوگ کہتے ہیں اور میرا بھی تجربہ ہے کہ صحابہ کرام کے دشمنوں سے جو بو آتی ہے وہ بعض اوقات کافروں سے بھی نہیں آتی۔ یہ کوئی خاص بات ہے، اس پہ آدمی کچھ کہہ نہیں سکتا، لیکن بہرحال ہے۔ حضرت نے یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ بدعتی کی صحبت کا فساد، کافر کی صحبت کے فساد سے بھی زیادہ ہے۔ گویا کہ اللہ تعالی ہمیں اس کی صحبت سے بچانا چاہتا ہے۔
متن:
اور تمام بدعتی فرقوں میں سب سے بُرا وہ فرقہ ہے جو پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحابؓ کے ساتھ بُغض رکھتا ہے، اللہ تعالی خود قرآن مجید میں ان کو کفار کے نام سے موسوم فرماتا ہے: ﴿لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ﴾ (الفتح: 29)
ترجمہ: ”تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔“
قرآن مجید اور شریعت کی تبلیغ اصحابِ (کرام) ہی نے کی ہے، جب ان پر طعن کیا جائے گا تو قرآن و شریعت پر طعن لازم آئے گا۔ قرآن مجید کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جمع کیا ہے، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مطعون ہوں گے تو قرآن مجید بھی مطعون ہو گا۔ "اَعَاذَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَعْتَقِدُ الزَّنَادِقَةُ" ”اللہ تعالی ہمیں ان زندیقوں کے اعتقادات سے بچائے۔“
تشریح:
حضرت کو بہت سارے میدانوں میں کام کرنا پڑا۔ اس وقت جو علمائے سوء تھے، ابو الفضل اور فیضی جیسے لوگ، انہوں نے بہت فساد اور بہت نقصان پھیلایا ہوا تھا۔
علمائے سوء کی مذمت
مکتوب نمبر 33 دفتر اول میں اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
علماء کے لئے دنیا کی محبت اور اس میں رغبت کرنا ان کے جمال کے چہرہ کا بد نما داغ ہے۔ مخلوقات کو اگرچہ ان سے بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں لیکن ان کا علم ان کے اپنے حق میں نفع بخش نہیں ہوا اگرچہ شریعت کی تائید اور ملت کی تقویت انہی کی وجہ سے قائم ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دین کی یہ تائید و تقویت فاجر و فاسق لوگوں سے بھی واقع ہو جاتی ہے جیسا کہ سید الانبیاء علیہ و علیہم و علی آلہ الصلوات والتسلیمات نے اس فاجر شخص کی دینی تائید کے بارے میں خبر دی ہے اور فرمایا ہے: "اِنَّ اللہَ لَیُؤَیِّدُ ھٰذَا الدِّیْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ"
ترجمہ: ”البتہ اللہ تعالیٰ ضرور اس دین یعنی اسلام کو ایک فاجر آدمی کے ذریعہ سے بھی مدد دے گا۔“
یہ (علماء سوء) پارس پتھر کی مانند ہیں کہ تانبے اور لوہے کی جو چیز بھی اس کے ساتھ رگڑ کھاتی ہے سونا ہو جاتی ہے اور وہ خود اپنی ذات میں پتھر ہی رہتا ہے۔
اور اسی طرح وہ آگ جو پتھر اور بانس میں پوشیدہ موجود ہے، دنیا کو اس آگ سے بہت سے فائدے حاصل ہیں لیکن وہ پتھر اور بانس اپنے اندر کی موجودہ آگ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ علم ان (علمائے سوء) کی اپنی ذات میں مضر ہے کیونکہ اس علم نے حجت کو اس پر پورا کر دیا "اِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ عَالِمٌ لَّمْ یَنْفَعْہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ"
ترجمہ: ”بیشک قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ عذاب کا مستحق وہ عالم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے علم سے کچھ نفع نہیں دیا۔“
وہ علم جو اللہ تعالیٰ جل شانہ کے نزدیک معزز ہے اور موجودات میں اشرف ہے وہ ان کے لئے مضر کیوں نہ ہو جبکہ انھوں نے اس علم کو کمینی دنیا یعنی مال و جاہ و ریاست کے حاصل کرنے کا وسیلہ بنا لیا ہے حالانکہ دنیا حق تعالیٰ کے نزدیک ذلیل و خوار اور مخلوقات میں سب سے بدتر ہے۔ پس خدائے تعالیٰ کی عزت دی ہوئی چیز کو ذلیل کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ذلیل کی ہوئی چیز کو عزت دینا نہایت برا ہے، اور حقیقت میں حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ اور تعلیم دینا اور فتوے لکھنا اس وقت فائدہ دیتا ہے جبکہ خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور جاہ و ریاست کی محبت اور مال و مرتبہ کے حاصل کرنے کی آمیزش سے پاک و خالی ہو اور اس کی علامت دنیا میں زہد و پرہیز گاری اختیار کرنا اور دنیا و مافیہا سے بے رغبت رہنا ہے۔ جو علماء اس بلا میں مبتلا اور اس کمینی دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں وہ علمائے دنیا میں سے ہیں، یہی لوگ علمائے سوء اور لوگوں میں سب سے برے اور دین کے چور ہیں حالانکہ یہ لوگ اپنے آپ کو دین کا پیشوا جانتے ہیں اور اپنے آپ کو مخلوقات میں سب سے بہتر خیال کرتے ہیں۔ ﴿وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ عَلٰی شَيْءٍ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ 0 اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطٰنُ فَاَنْسٰھُمْ ذِکْرَ اللہِ اُوْلآئِکَ حِزْبُ الشَّیْطٰنِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطٰنِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ﴾ (المجادلہ: 18-19)
ترجمہ: ”اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں کوئی سہارا مل گیا ہے۔ یاد رکھو یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں۔ ان پر شیطان نے پوری طرح قبضہ جما کر انہیں اللہ کی یاد سے غافل کر دیا ہے۔ یہ شیطان کا گروہ ہے۔ یاد رکھو شیطان کا گروہ ہی نا مراد ہونے والا ہے۔“
اکابرین میں سے ایک بزرگ نے شیطان ملعون کو دیکھا کہ فارغ (بیکار) بیٹھا ہے اور گمراہ کرنے اور بہکانے سے بے فکر ہو چکا ہے۔ اس بزرگ نے اس سے اس فراغت کی وجہ دریافت کی۔ اس نے جواب دیا کہ اس زمانے کے برے علماء نے خود ہی اس کام میں میری بہت بڑی مدد کی ہے اور انھوں نے مجھے اس اہم کام سے فارغ کر دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں شرع کے کاموں میں جو سستی اور سہل پسندی و نفاق پیدا ہو گیا ہے اور دین و ملت کے رواج دینے میں جو خلل و سستی ظاہر ہوئی ہے وہ سب برے علماء کی نحوست اور ان کی نیتوں کے خراب ہو جانے کے باعث ہے۔ ہاں وہ علماء جو دنیا سے بے رغبت ہیں اور جاہ (عزت) و مال اور بلندی (سرداری) کی محبت سے آزاد ہیں وہ علمائے آخرت میں سے ہیں اور انبیائے عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں، اور مخلوقات میں سے بہتر یہی علماء ہیں کہ کل قیامت کے دن ان کی سیاہی کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے والوں کے خون کے ساتھ وزن کریں گے اور اس سیاہی کا پلہ بھاری رہے گا۔ اور "نَوْمُ الْعُلَمَاءِ عِبَادَۃٌ"
ترجمہ: ”علماء کی نیند بھی عبادت ہے۔“
ان ہی کے حق میں ثابت ہے۔ یہی وہ حضرات ہیں جن کی نظروں کو آخرت کا جمال پسند آیا ہے اور دنیا کی برائی اور اس کی خرابی ان کو ظاہر ہو چکی ہے۔ انھوں نے اس (آخرت) کو بقا کی نظر سے دیکھا اور اس (دنیا) کو زوال کے داغ سے داغدار پایا۔ اسی لئے اپنے آپ کو باقی کے سپرد کر دیا اور فانی سے اپنے آپ کو باز رکھا۔ آخرت کی عظمت کا مشاہدہ حق تعالیٰ کی عظمت کے مشاہدہ کا ثمرہ ہے اور دنیا و ما فیہا کو ذلیل رکھنا آخرت کی عظمت کے مشاہدہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ "لِاَنَّ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ضَرَّتَانِ اِنْ رَضِیَتْ اِحْدٰھُمَا سَخِطَتِ الْأُخْرٰی"
ترجمہ: ”کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں سوکنیں ہیں (یعنی دو عورتیں ایک مرد کے نکاح میں ہونے کی مانند ہیں) اگر ان میں سے ایک راضی ہو گی تو دوسری نا راض ہو جا ئیگی۔“
اگر (کسی شخص کو) دنیا عزیز ہے تو آخرت ذلیل ہے اور اگر دنیا ذلیل ہے تو آخرت عزیز ہے ان دونوں کا جمع ہونا دو ضدوں کے جمع ہونے کی قسم سے ہے، ع
مَا اَحْسَنَ الدِّیْنَ وَالدُّنْیَا لَوِ اجْتَمَعَا
کیا ہی اچھا ہے کہ ہوں دین اور دنیا جمع
ہاں بعض مشائخ نے جو کہ اپنی خواہش اور ارادے سے پوری طرح نکل چکے ہیں بعض نیک و درست نیتوں کے ساتھ اہل دنیا کی صورت اختیار کی ہے اور بظاہر دنیا میں رغبت کرنے والے معلوم ہوتے ہیں وہ حقیقت میں (دنیا سے) کوئی تعلق نہیں رکھتے اور سب سے فارغ و آزاد ہیں۔ ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللہِ﴾ (النور: 38)
ترجمہ: ”جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے۔“
تشریح:
حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ایک دفعہ میں نے مکہ مکرمہ میں دیکھا کہ ایک صاحب نے تھوڑی سی دیر میں بہت سے دینار کا سودا کیا۔ لیکن میں نے جب ان کے دل کی طرف دیکھا تو وہ اللہ تعالی کے ساتھ لگا ہوا تھا، دنیا کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ اسی طرح کسی شخص کے بارے میں کہا کہ وہ خانہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر مسلسل رو رہا تھا۔ جب اس کے دل کی طرف دیکھا تو وہاں دنیا ہی دنیا تھی۔ اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے۔ یہاں پر بھی بعض لوگ بظاہر دنیا دار ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے نواب قیصر صاحب رحمۃ اللہ تعالی ما شاء اللہ نواب خاندان کے بھی نواب تھے اور ویسے بھی نواب تھے، بہت مال دار تھے۔ ان کا اسلام آباد میں بہت بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور تھا۔ ہم کبھی کبھی حضرت کے پاس جایا کرتے تھے، حضرت کے ہاں بیٹھ کر پتا نہیں چلتا کہ حضرت ایسے ہیں۔ ایک دفعہ حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے، ان کے ہاں بھی نواب صاحب تشریف لائے تھے۔ اس وقت حکیم اختر صاحب نے کہا کہ بھئی نواب صاحب کی مرسڈیز کو نہ دیکھو۔ جس وقت برف پانی بن جاتا ہے تو پھر وہ برف کے حکم میں نہیں رہتا۔ برف جب پانی بن جائے تو پھر اس کو برف نہیں کہتے پھر اس کو پانی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب ان کی ہیئت تبدیل ہو جائے، یعنی دل اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے تو پھر دنیا دار نہیں ہیں۔
متن:
اور تجارت و بیع ان کو ذکر خدا سے نہیں روکتی اور ان امور کے ساتھ عین تعلق کی حالت میں ان امور سے بالکل بے تعلق ہیں۔ (اللہ ہمیں ایسا ہی کر دے) حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ العزیز نے فرمایا ہے کہ میں نے منٰی کے بازار میں ایک تاجر کو دیکھا کہ اس نے کم و بیش پچاس ہزار دینار کی خرید و فروخت کی اور اس کا دل ایک لمحہ بھی حق سبحانہ وتعالیٰ سے غافل نہیں ہوا۔
اہل اقتدار کو خیر کی طرف متوجہ کرنے اور اہل شر سے دور کرنے کی ضرورت کے بارے میں مکتوب 47 دفتر اول میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
آج جب کہ دولت اسلام کی رکاوٹوں کے زوال کی خوشخبری اور بادشاہ اسلام کی تخت نشینی کی بشارت خاص و عام کے کانوں تک پہنچی ہے تو اہل اسلام نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے کہ وہ بادشاہ کے معاون و مدد گار ہوں۔
تشریح:
اس وقت یہ نہیں دیکھنا ہے کہ یہ تو بادشاہ ہے ہم اس کے قریب نہیں جائیں گے۔ بادشاہ کو کچھ دینے کے لئے جانا چاہیے، بادشاہ سے کچھ لینے کے لئے نہیں جانا چاہیے۔ بادشاہ کو دِین دینے کے لئے جانا چاہیے۔ پھر فائدہ ہے۔
متن:
اور شریعت کے رواج دینے اور مذہب کو قوت پہنچانے میں اس کی رہنمائی کریں خواہ یہ امداد دینا اور قوت پہنچانا زبان سے ہو سکے یا ہاتھوں سے میسر ہو۔ سب سے بڑھ کر امداد یہ ہے کہ کتاب و سنت اور اجماع امت کے مطابق مسائل شرعیہ کو بیان کیا جائے اور کلامیہ عقائد کو ظاہر کیا جائے۔
تشریح:
کیونکہ اس وقت کلامیہ عقائد کا مسئلہ تھا۔
متن:
تاکہ کوئی بدعتی اور گمراہ شخص درمیان میں آ کر راستے سے نہ ہٹا دے، اور کام خراب نہ کر دے۔
تشریح:
کیونکہ اس وقت وہاں یہی لوگ تھے جو فساد ڈال رہے تھے۔
متن:
اس قسم کی امداد علمائے حقانی کے ساتھ مخصوص ہے جو کہ آخرت کی طرف توجہ رکھتے ہیں۔ دنیا دار علماء جن کا مقصد کمینی دنیا حاصل کرنا ہے ان کی صحبت زہرِ قاتل ہے اور ان کا فساد متعدی ہے (یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والا ہے)؎
عالم کہ کامرانی و تن پروری کند
او خویشتن گم است کرا رہبری کند
(عالِم جو کامرانی و تن پروری کرے
بھٹکا ہوا ہے آپ وہ کیا رہبری کرے)
علمائے سو کی وجہ سے جو خرابی آتی ہے اس کے بارے میں مکتوب نمبر 47 دفتر اول میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
گزشتہ صدی میں جو بھی مصیبت اسلام اور اہل اسلام کے سر پر آئی وہ اسی جماعت کی بدبختی و بیباکی کی وجہ سے تھی یہی لوگ (علمائے سوء) بادشاہوں کو راہ راست سے بھٹکاتے تھے بہتّر (72) فرقے جنھوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کیا ہے ان سب کے مقتدا و پیشوا یہی برے علماء ہوئے ہیں بہت کم لوگ ہیں جو علماء کے بغیر گمراہ ہوئے ہوں اور ان کی گمراہی کا اثر دوسرے لوگوں تک پہنچا ہو اور اس زمانے کے اکثر صوفی نما جاہل لوگ علماء سوء (برے علماء) کا حکم رکھتے ہیں ان کا فساد بھی متعدی ہے (یعنی اس کی برائی بھی دوسروں تک پہنچتی ہے) اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص امداد کی طاقت کے با وجود کسی قسم کی مدد میں کمی کرے اور اسلام کے کارخانے میں خلل واقع ہو جائے تو وہ امداد میں کوتاہی کرنے والا شخص معتوب (یعنی سزا کا مستحق) ہو گا۔ اسی لئے یہ کم سرمایہ حقیر فقیر بھی چاہتا ہے کہ اپنے آپ کو دولت اسلام کے مدد گاروں کے گروہ میں داخل کرے اور اس بارے میں کوشش کرے "مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ"
ترجمہ: ”جس نے کسی قوم کی جمعیت کو زیادہ کیا وہ انہی میں سے ہے۔“
کے موافق امید ہے کہ اس بے استطاعت کو بھی اس بزرگ جماعت (مدد گاران اسلام) میں داخل کر لیں۔
تشریح:
حضرت نے اپنے بارے میں گویا کہ بڑی کم مائیگی کے ساتھ فرمایا کہ بہت بڑا اونچا گروہ ہے جو دین اسلام پر چلنے والوں کی مدد گیری فرماتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی ان میں سے ہو جاؤں، اللہ تعالیٰ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ (اللہ ہمیں بھی کر دے آمین)
بدعتی گروہ سے تنفر کا اظہار مکتوب نمبر 80 دفتر اول میں یوں فرماتے ہیں:
متن:
اگرچہ تہتر فرقوں میں سے ہر ایک فرقہ شریعت کی اتباع کا دعوٰی کرتا ہے اور اپنی نجات کا یقین رکھتا ہے (جیسا کہ آیت شریفہ) ﴿كُلُّ حِزۡبٍۢ بِمَا لَدَيۡهِمۡ فَرِحُوۡنَ﴾ (الروم: 32)
ترجمہ: ”ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر مگن ہے۔“
ان کے حال کے مطابق لیکن پیغمبر صادق علیہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا نے ان متعدد فرقوں میں سے ایک "ناجیہ" (نجات پانے والا) فرقے کی تمیز کے لئے جو دلیل بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے: "اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِی" یعنی فرقہ ناجیہ وہ ہے جو اس طریق پر ہو جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں۔ صاحب شریعت علیہ الصلوۃ و التحیۃ کا ذکر (جس طریقے پر میں ہوں) کافی ہونے کے با وجود اس مقام پر اصحاب کرام کا ذکر اسی لئے ہو سکتا ہے تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ "جو میرا طریقہ ہے وہی میرے اصحاب کا طریقہ ہے۔
تشریح:
واقعتاً جیسے حضرت نے فرمایا ویسا ہی ہے لیکن ایک بات اور بھی ہے کہ بعض باتوں کی تشریح صحابہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی ایک حالت تھی اور اس کو وہ تبدیل نہیں فرما سکتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مرد تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم عورت نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شہری تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم دیہاتی نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اونچے خاندان کے تھے، نیچے خاندان کے نہیں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فصیح اللسان تھے، گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تو بہت اونچی صفات تھیں۔ باقی لوگوں کے لئے یہ ایک عذر بن جاتا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح ہیں ہی نہیں تو ہم کیسے عمل کریں؟ مثلاً عورتوں کے لئے کیا ذریعہ ہوتا؟ چنانچہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ایک پوری جماعت مبعوث فرمائی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس جماعت کی تربیت فرمائی۔ حدیث تین قسم کی ہے، قولی، فعلی اور تقریری۔ قولی، فعلی احادیث کم ہوں گی، جبکہ زیادہ تر تقریری ہیں۔ کیونکہ جو اعمال صحابہ کرام نے کئے، ان میں سے کسی کو کرنے دیا، کسی کو روک دیا۔ اب یہ احادیث شریفہ ساری کی ساری جمع ہو چکی ہیں، سارا دین ان چیزوں سے عبارت ہے۔ اس وجہ سے صحابہ کرام کی جماعت دین کی اشاعت کے لئے بنیاد کا کام کرتی ہے۔ دین اس کے بغیر سمجھ میں نہیں آ سکتا، فرمایا: "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ"
ترجمہ: ”جس پر میں ہوں، جس پر میرے صحابہ ہیں۔“
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بات فرمائی، اب صحابہ نے اس سے کیا مراد لیا، یہ ہمارے لئے دلیل ہے۔ میں اگر اس بات کی تشریح کر لوں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے جب صحابی نے اس کی تشریح کی ہوتی ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے، فلاں صحابی نے اس کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا۔ اب دیکھو قرآن پاک میں جو کچھ بھی ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمایا ہو تو اب وہ چیز fix (طے شدہ) ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کی کوئی اور تشریح نہیں ہو سکے گی۔ پھر صرف وہی ہو گی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوپر قرآن پورا کھلا تھا۔ جب کہ ہم پر اجمالی طور پر کھلا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم اس اجمال سے تفصیل میں تب جا سکتے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریح کو دیکھتے ہیں۔ اس لئے جیسے قرآن کے پہلے مفسر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر کے مقابلے میں کوئی اور تفسیر نہیں آ سکتی۔ اسی طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کی تفسیر کو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل کی تشریح کو، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احوال کے سمجھانے کی تشریح کو، صحابہ کرام کی جماعت سے ہی ہم اخذ کر سکتے ہیں۔ اگر کسی صحابی نے کسی بات کے بارے میں فرما دیا کہ یہی ہے اور کسی اور صحابی نے اس کا رد نہیں کیا تو بس پھر وہی ہے۔ اگر کسی اور صحابی نے کچھ فرمایا اور دوسرے نے کچھ اور فرمایا یعنی صحابہ میں اختلاف ہو گیا، جس کی وجہ سے مجتہدین نے ان کی بات میں غور کیا کہ کس کی بات کو لیں اور کس کی بات کو نہ لیں۔ پوری دلیل کے ساتھ یہ سب کام ہوتا ہے کہ میں کون سی بات لیتا ہوں اور کون سی نہیں لیتا اور کیوں لیتا ہوں اور کیوں نہیں لیتا؟ کیونکہ یہ دین کی بات ہے، اپنی طرف سے نہیں ہے، خود صرف سمجھنا ہوتا ہے۔ جیسے ایک صحابی مجتہد ہیں اور دوسرے صحابی اس حیثیت کے نہیں ہیں تو مجتہد صحابی کا قول لیا جائے گا۔ کیونکہ عام صحابہ بھی مجتہد صحابہ سے لیتے تھے۔ دوسری ناسخ و منسوخ والی بات ہے کہ کوئی بات پہلے ہوئی ہے، کوئی بعد میں ہوئی ہے۔ بعد والی بات پہلی بات کی ناسخ ہوتی ہے۔ ان ساری باتوں کو مجتہد سامنے رکھتا ہے، مجتہد کے ذریعہ وہ معلوم کرتے ہیں کہ وہ کیا ہے؟
"فکر آگہی" ہماری ایک کتاب ہے جس میں ہم نے اپنے بزرگوں کی تحقیقات بیان کی ہیں، یعنی ہم کیسے بزرگوں کی تحقیقات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس میں اختلاف کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ اگر اختلاف واقع ہو جائے تو اس میں فیصلہ کیسے کریں گے؟ یہ بہت بڑا topic ہے۔ سوال و جواب کی صورت میں ہے۔
اختلاف
مرے استاد بتا یہ کہ اختلاف کیا ہے؟
اس اختلاف میں طریقٔہ انصاف کیا ہے؟
میں نے ارد گرد یہاں مختلف فرقے دیکھے
باہمی دست و گریبان اور لڑتے دیکھے
اس طرح توڑ کے امت میں سلسلے دیکھے
اس طرح کرتے جو ہیں ان کو صحیح کیسے کہوں؟
اور اگر ہے یہ غلط اس پہ میں چپ کیسے رہوں؟
کوئی شافعی ہے مالکی ہے یا پھر حنفی ہے
کوئی حنبلی ہے جعفری ہے یا پھر سلفی ہے
توڑنا امت کا ٹکڑیوں میں کام منفی ہے
ان میں کوئی بھی محمد ﷺ کا پیروکار نہیں
محمدی کہلوانے کو جو تیار نہیں
جس طرح ایک خدا ہے اور قرآن بھی ہے ایک
ایک کعبہ ہے اور رسول آخر زمان بھی ہے ایک
دیکھ لیں ہم ذرا آیا کہ مسلمان بھی ہے ایک؟
تفرقے کو تو کرتے خدا پسند نہیں
تو کیوں یہ سارا اختلاف بھی ہو بند نہیں؟
اس میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے بڑے پرزور دلائل ہیں۔ اگر اس کا جواب نہ دیا جائے تو عام لوگ اس میں اٹھ جائیں گے۔ واقعی اٹھتے ہیں، ان چیزوں میں لوگ ایسے ایسے زبردست طریقے سے دلائل دیتے ہیں کہ اگر اہل حق کے دلائل ان کے سامنے نہ ہوں تو گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس چیز کو سمجھانے کا پورا ایک شعبہ ہے کہ اہل حق کی بات کیسے سمجھ میں آجائے؟
استاد کا جواب
میرے بیٹے ترا جذبہ ہے یقیناً بہتر
لیکن اس میں کھلا نہیں ہے ابھی حق تجھ پر
جواب دینے کا انداز یہ ہے کہ پہلے آپ اس کے ساتھ ہو جائیں یہ "نعم" کا طریقہ ہے، یعنی پہلے انکار نہ کرو کہ تو غلط کہتا ہے۔ کیونکہ اگر آپ نے "نہیں" کہہ دیا تو آپ نے اس کو اپنا مخالف بنا لیا۔ ﴿تَعَالَوْا إِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُم﴾ (آل عمران: 64) قرآن نے بھی دلیل بتائی ہے کہ پہلے ان کو ملاؤ، اپنے ساتھ کر لو، پھر ان کو سمجھاؤ۔ یہ پہلا اصول ہے۔
میرے بیٹے ترا جذبہ ہے یقیناً بہتر
لیکن اس میں کھلا نہیں ہے ابھی حق تجھ پر
جوں کے مارنے کو جلاتا نہیں کوئی بستر
مخالفت اور اختلاف کا فرق جان لینا
اس میں جو حق ہو، سمجھتے ہوئے وہ مان لینا
وہ بھلائی ہی ہے جو دین کی فقاہت ہے
حدیث شریف سے ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
یہی ہے خیر، اسی میں عوام کو راحت ہے
سمجھ کی ان کو بغیر اس کی کہاں طاقت ہے
کوئی تو ان کے لئے سادہ طریقے ڈھونڈیں
عمل کے واسطے کچھ سادہ سے نسخے ڈھونڈیں
اب یہاں اس کو پہلی بات کیا بتائی؟ چیزیں بکھری ہوئی ہیں۔ قرآن میں ہیں، احادیث شریفہ میں ہیں، اقوال میں ہیں، ان سب کو جاننا سب کے لئے ممکن نہیں ہے اور پھر ان سے اخذ کرنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ تو کوئی ہو جو ان سب کو جمع کر کے اس میں سے نسخے بنا لے۔ طریقہ کار بنا لے اور عام لوگ بھی اس پہ عمل کر سکیں۔ یہ بنیاد ہے۔
یہی تو فقہ ہے دین پر عمل کے نسخہ جات
سمجھ سکیں عوام کیسے صرف نصوص کی بات؟
جو مانے اس کو نہیں، دن کو کہے شاید رات
یہ نسخہ جات جو ہیں کیسے یہ ترتیب پائیں؟
تو اس کے واسطے مجتہد کی ضرورت جانیں
ہم کو ہے حکم صحابہؓ کی پیروی کرنا
جن پہ اجماع صحابہؓ ہو، تو وہی کرنا
دیکھو اس پہ نص مل گئی اور وہ یہ ہے "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ"
جب اختلاف ہو تو پھر اپنی تسلی کرنا
اگر ان میں اختلاف آ جائے، پھر اس میں اپنی تسلی کرنی پڑے گی۔
کہ کس کے پیچھے چلیں کس سے ہوں معذور عمل
بچیں ہم کیسے اس سے جو ہے اپنے نفس کا دجل
دو کام اس میں کرنے ہیں۔ پہلے یہ کہا ہے کہ ہم کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں؟ دوسری بات اپنے نفس کے شر سے بچیں نفس کی نہ مانیں۔
کیا ہم یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ رکھیں
یا جو ہے دور فتن، اس کے استادوں پہ رکھیں
یا پھر قرون اولیٰ کے ہم اماموں پہ رکھیں
جو تھے فقیہ، متقی شب بیدار بھی تھے
دَورِ قربت میں حقیقت سے خبر دار بھی تھے
ان کی دو صفات ایسی ہیں، جو ہم میں نہیں ہیں۔ ایک وہ قریب تھے، لہذا زمانے کے لحاظ سے deviation (فرق) کم آئی تھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے دل روشن تھے، یعنی کہ شب بیدار تھے، ذکر اذکار کرنے والے تھے، اللہ سے ڈرنے والے تھے۔ اس لحاظ سے ان کے دل پہ جو بات آتی تھی، وہ ہمارے دلوں پہ نہیں آ سکتی۔
حنفی شافعی اور مالکی محمدی ہی ہیں
ابن حنبل کے حنبلی محمدی ہی ہیں
سارے تقلید کے داعی محمدی ہی ہیں
راہ سنت کے سمجھنے کا صحابہؓ واسطہ
تو صحابہؓ کے طریقے کا فقہاء واسطہ
جو ہو قرآن سے ثابت تو بات ختم ہوئی
پہلا قانون کیا ہے؟ قرآن سے ثابت ہو تو بس ٹھیک ہے۔
جس میں دلیل ہو سنت تو بات ختم ہوئی
جس پہ اجماع ہو حجت تو بات ختم ہوئی
جو صحابہؓ میں کوئی بات اختلافی رہے
تو اجتہاد ہی پھر اس کا علاج شافی رہے
یعنی اجتہاد کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب صحابہ میں کسی بات میں اختلاف ہو۔
جو اجتہاد میں خطا ہو ملے پھر بھی ثواب
اور دگنا ہو یہ جب اجتہاد ہو با صواب
جو صرف خود کو کہے ٹھیک، یہ دعویٰ ہے خراب
یعنی دوسروں کے اجتہاد کا بھی خیال رکھنا ہے، اس کو بھی گنجائش دینی ہے۔
اس طرح مسلکِ حنفی و مالکی سب ٹھیک
ساتھ پھر مسلکِ شافعی و حنبلی سب ٹھیک
جان لو کس طرح غلط ہے تشدد کی راہ
جو خوارج تھے صحابہؓ کے بنے تھے بد خواہ
بس صرف خود کو ہی کہتے تھے ٹھیک وہ ہر گاہ
اپنے اعمال میں شدت تھی دین پر نہ رہے
تیر چھوٹے کماں سے، اس طرح نکل وہ گئے
یعنی حدیث شریف پر عمل سے وہ نکل گئے۔
اب اگر کام ہو کوئی اک صحابیؓ کا عمل
اور ہو دوسرے صحابیؓ سے کوئی دوسرا نقل
اس میں پھر جانے کوئی کیسے کہ کون سا ہے اصل
اب اگر کہہ دوں صحابہؓ کا اختلاف ہے یہ
ٹھیک دونوں مرے نزدیک ہیں انصاف ہے یہ
اگر میں کہہ دوں کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے تو بات بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ دونوں طرف صحابہ ہیں۔
ہاں مگر ممکن تو ہے ایک کے پیچھے چلنا
ہاں ادب یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ہے ٹھیک کہنا
کہ صحابہؓ کو غلط کہنے سے جو ہے ڈرنا
یہ خطر ناک فیصلہ کیوں نہ امام کرے
وہ اس قابل ہے احتیاط سے کلام کرے
پس ایک امام اگر قولِ صحابیؓ لے لے
اور کسی دوسرے صحابیؓ کا بھی کوئی لے لے
کیا غلط ہے کوئی تحقیق جو ان کی لے لے
تو یقیناً پھر ائمہ میں اختلاف ہو گا
لیکن ہر ایک کا ٹھیک ہونا ہی انصاف ہو گا
کیونکہ ہر طرف صحابہ ہیں، ہر ایک کے پاس دلیل ہے۔
پس محمد ﷺ کی پیروی سارے حنفی بھی کریں
یہ مالکی بھی کریں اور حنبلی بھی کریں
اس طرح سچ ہے کہ اس طرح شافعی بھی کریں
کہ ہیں قرآن و سنت پر یہ سب امام عامل
اور جو ان کے پیروکار ہیں وہ بھی شامل
اپنی تحقیق ہی پہ اس میں فیصلہ گر کریں
ہم جیسے لوگ نفس کی خواہشوں کے پیچھے چلیں
یا دو رکعت کے امام کو امام مانیں
اس طرح نفس ہی میرا اصل امام ہو گا
اسی خامی سے مرا کام ہر اک خام ہو گا
بات بنتی ہے تبھی ایک کو امام مانوں
جو مجھے اس سے ملیں میں وہی احکام مانوں
اور اپنے نفس کی تحقیقات کو میں خام مانوں
اور دوسرے جو ہیں امام ان کو ٹھیک کہوں
یہ اولیاء ہیں ان کے بارے خدا سے میں ڈروں
یعنی سب کی میں اپنے دل میں قدر کروں کہ یہ اولیاء ہیں۔ البتہ بات تو میں صرف اپنے امام کی مانوں گا، اسی میں فائدہ ہے۔ اب آگے شاگرد اعتراف کرتا ہے۔
شاگرد کا اعتراف
جزاک اللہ! کہ آپ نے مجھ کو سمجھدار کیا
میری غفلت سے آپ نے مجھے بیدار کیا
ان ائمہ کی محبت سے جو سرشار کیا
کرتا توبہ ہوں خدایا میں غلط خیالوں سے
شکر ہے بچ گیا شیطان کی ان چالوں سے
اب میں حنفی ہوں اور اس پر نہیں شرماتا ہوں
یہی طریق عافیت ہے یہ بتاتا ہوں
اب میں ایماں کی حلاوت بھی دل میں پاتا ہوں
ان اولیاء کے لئے میرے دل میں زیغ نہ رہا
اور اپنے آپ پہ وہ ظلم بے دریغ نہ رہا
ظاہر ہے ان کے خلاف بات کرنے میں نقصان تو اپنا ہی تھا۔ اب دوسروں کو نصیحت کرتا ہے۔
وہ مرے بھائی جو تقلید نہیں کرتے ہیں
بے مہار کرتے گفتگو ہیں، نہیں ڈرتے ہیں
نفس گرفتہ ہیں اور اس سے نہیں نکلتے ہیں
کاش کچھ سوچ لیں اور اپنی کچھ اصلاح کریں
اور اللہ کے حضور زاری بہ الحاح کریں
اور ہاں پھر بھی وہ تقلید پہ گر آ نہ سکیں
سوچتے سوچتے حقیقت کی گرہ پا نہ سکیں
خود کو آئینۂ فطرت اگر دکھا نہ سکیں
تو آئمہ کی بہر حال مخالفت نہ کریں
بد گمانی نہ کریں گر موافقت نہ کریں
یہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے۔ ان سے کچھ اہل حدیث حضرات بیعت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت ہم اب اپنا مسلک چھوڑ دیں، تقلید اختیار کریں؟ فرمایا: آپ اپنی تحقیق پر عمل کرتے رہیں، میں درمیان میں نہیں آنا چاہتا۔ البتہ اتنا کہہ دوں گا کہ کسی امام کی مخالفت نہ کرو، ان کو برا نہ کہو۔ ان کے بارے میں کوئی غلط بات دل میں نہ رکھو۔
استاد
اپنے شاگرد پہ مجھے فخر ہے سبحان اللہ
ایسی تحقیق عظیم شاندار ہے کیا اللہ
بس مرے دل سے یہ نکلے ہے کہ ما شاء اللہ
یہ چند اشعار ہیں شبیرؔ کے ایک درسِ عظیم
سب سمجھ جائے اگر تھوڑا سا ہو قلب سلیم
گویا کہ ہم لوگوں کو حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ کار سمجھ میں آ جائے کہ 72 فرقے جو اپنے آپ کو حق پر کہنے والے ہیں وہ صرف ایک فرقہ ناجیہ کے پیچھے چلیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کے پاس کوئی دلیل ہو گی، کیونکہ علماء ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت نے فرمایا کہ ہر فرقہ کے ساتھ علماء ہیں، لیکن حق ایک کے ساتھ ہے۔
متن:
(یعنی فرقہ ناجیہ وہ ہے جو اس طریق پر ہو جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں)۔ صاحب شریعت علیہ الصلوۃ والتحیۃ کا ذکر (جس طریقے پر میں ہوں) کافی ہونے کے با وجود اس مقام پر اصحاب کرام کا ذکر اسی لئے ہو سکتا ہے تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ "جو میرا طریقہ ہے وہی میرے اصحاب کا طریقہ ہے۔ لہذا نجات کا طریقہ ان حضرات کے اتباع پر موقوف ہے جیسا کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ﴾ (النساء: 80)
ترجمہ: ”جس نے رسول کی اطاعت کی تو یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔“
پس رسول ﷺ کی اطاعت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آنحضرت ﷺ کی اطاعت کے خلاف کرنا سراسر اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہے۔
جن لوگوں نے حق تعالیٰ و تقدس کی اطاعت کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تصور کیا ہے حق سبحانہ و تعالیٰ ان کے کفر کی اطلاع دیتا ہے اور ان پر کفر کا حکم لگاتا ہے چنانچہ فرماتا ہے: ﴿یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوا بَیْنَ اللہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا 0 اُوْلآئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ (النساء: 150-151)
ترجمہ: ”یعنی یہ لوگ ارادہ رکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان فرق ڈالیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کے درمیان کا راستہ اختیار کر لیں، یہی لوگ در حقیقت پکے کافر ہیں۔“
پس مذکورہ بالا صورت سے واضح ہو گیا کہ اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے کی پیروی کئے بغیر آنسرور عالم علیہ الصلوۃ و السلام کی اتباع کا دعوٰی کرنا باطل اور جھوٹ ہے۔ بلکہ حقیقت میں وہ اتباعِ رسول اللہ ﷺ کی عین نا فرمانی ہے پس اس (صحابہ کرام سے) مخالفت کے طریقے میں نجات کی کیا گنجائش ہے۔ (حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے) ﴿وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ عَلٰی شَيءٍ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ﴾ (المجادلہ: 18)
ترجمہ: ”اور یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ کسی اچھی حالت (حقیقت) پر ہیں خبردار ہو جائیے بے شک یہی لوگ بڑے ہی جھوٹے ہیں“
ان کے حال کے مطابق ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ فرقہ جس نے آنسرور علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب کرام کی متابعت کو لازمی طور پر اختیار کیا ہے اہل سنت و الجماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے۔ پس یہی لوگ فرقہ ناجیہ ہیں۔
تشریح:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود فرمایا جو میرے طریقے پر اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہے۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اور جماعت صحابہ۔ جو جماعت صحابہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی لے رہے ہیں وہ اہل سنت و الجماعت ہیں۔ اس کے علاوہ جو دوسرے طریقے پر ہے وہ اہل سنت و الجماعت نہیں ہے۔
متن:
اور کیونکہ پیغمبر خدا ﷺ کے اصحاب کرام کو طعن کرنے والے لوگ خود ان (صحابہ کرام رضي الله عنهم أجمعين) کی اتباع سے محروم ہیں جیسا کہ شیعہ اور خارجی اور معتزلہ جو خود نیا پیدا شدہ مذہب رکھتے ہیں۔ ان (معتزلہ) کا سردار واصل بن عطا، حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہے جو ایمان اور کفر کے درمیان واسطہ ثابت کرنے کے باعث امام (موصوف) سے جدا ہو گیا اور امام نے اس کے بارے میں فرمایا "اِعْتَزَلَ عَنَّا" ”ہم سے جدا ہو گیا۔“ باقی تمام فرقوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیجئے۔
اور اصحاب کرام رضي الله عنهم أجمعين کے حق میں طعن کرنا فی الحقیقت پیغمبر خدا ﷺ کے حق میں طعن کرنا ہے "مَا آمَنَ بِرَسُوْلِ اللہِ مَنْ لَّمْ یُوَقِّرْ اَصْحَابَہٗ" ”جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کی عزت و تعظیم نہیں کی وہ رسول اللہ ﷺ پر بھی ایمان نہیں رکھتا۔“ اس لئے کہ ان حضرات کے ساتھ خباثت کرنا ان کے صاحب (یعنی پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام) کے ساتھ خباثت کرنا ہے۔ اللہ تعالےٰ ہم کو اس برے اعتقاد سے بچائے۔ اور نیز جو شرعی احکام قرآن و حدیث کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں وہ سب انہی (صحابہ کرام رضي الله عنهم أجمعين) کی نقل و روایت کے وسیلے سے ہیں۔ جب وہ (اصحاب کرام) مطعون ہوں گے تو ان کی نقلیں اور روایتیں بھی مطعون ہوں گی۔ اور یہ نقل و روایات ایسی نہیں کہ بعض کے سوا بعض کے ساتھ مخصوص ہوں بلکہ تمام اصحاب کرام عدالت (تقوٰی)، صدق اور (احکام شریعت کی) تبلیغ میں برابر ہیں۔ پس ان میں سے کسی ایک (صحابی) کو بھی طعن و تشنیع کرنے سے دین میں طعن کرنا لازم آتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بچائے۔ اور اگر طعن لگانے والے یہ کہیں کہ ہم اصحاب کرام کی متابعت کرتے ہیں (لیکن) یہ ضروری نہیں کہ ہم سب اصحاب کی متابعت کریں، بلکہ ان کے اجتہادوں کے متضاد اور ان کے مذہبوں کے مختلف ہونے کے باعث ان سب کی متابعت ممکن بھی نہیں ہے۔ تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ بعض اصحاب کی متابعت اس وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب کہ بعض دوسرے اصحاب کا انکار اس کے ساتھ شامل نہ ہو، کیونکہ مثلاً حضرت امیر (علی بن ابی طالب) نے خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی عزت و تکریم کی ہے اور ان کے مقتدا ہونے کی شان کو جانتے ہوئے ان سے بیعت کی ہے، پس خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا انکار کرنے کے با وجود حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی متابعت کا دعوی کرنا محض افترا و بہتان ہے بلکہ وہ (خلفائے ثلاثہ کا) انکار در حقیقت حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار ہے اور ان کے اقوال و افعال کا صریح رد ہے۔
تشریح:
یہ بہت بڑا عجیب نکتہ بیان فرمایا ہے کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلفائے ثلاثہ کے ساتھ با قاعدہ مشیر کے طور پر رہے ہیں بلکہ کچھ لوگوں نے جب امیر رضی اللہ تعالی عنہ پر اعتراض کیا کہ ان کے وقت میں بڑی اچھی حالت تھی، فتوحات ہو رہی تھیں، دین پھیل رہا تھا اور آپ کے دور میں فتنہ فساد ہے۔ حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ میں ان کا مشیر تھا اور میرے مشیر تم ہو، یہ جو ہو رہا ہے اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ تم میرے مشیر ہو یہ تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔
متن:
اور تقیہ کے احتمال (شک) کو حضرت اسد اللہ (شیر خدا یعنی حضرت علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بیان کرنا بھی عقل کی کمی (بے وقوفی) کی وجہ سے ہے۔ صحیح عقل ہرگز اس بات کو جائز نہیں سمجھتی کہ حضرت اسد اللہ (شیر خدا) کمال معرفت و شجاعت کے با وجود خلفائے ثلاثہ کے بغض کو تیس سال تک پوشیدہ رکھیں اور ان کے خلاف کچھ ظاہر نہ کریں اور ان کے ساتھ منافقانہ صحبت رکھیں۔ اس قسم کا نفاق کسی ادنیٰ درجے کے مسلمان سے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔
تشریح:
اس کا بہت آسان جواب ہے کہ اگر تقیہ دین کی کوئی ضروری بات تھی تو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کیوں نہیں کیا؟ اگر آپ اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے تیس سال تک تقیہ کیا اور اپنی بات کو ظاہر نہیں کیا تو تیس مہینے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ تقیہ نہیں کر سکتے تھے؟ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ یہ تقیہ نہیں تھا۔
متن:
اس فعل کی برائی کو معلوم کر لینا چاہیے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کسی قسم کی برائی اور کس طرح کا فریب و نفاق منسوب ہو جاتا ہے۔ اور اگر بفرضِ محال حضرت اسد اللہ کے حق میں تقیہ جائز بھی ہو تو حضرت پیغمبر خدا ﷺ خلفائے ثلاثہ کی جو عزت و تعظیم کرتے تھے اور ابتدا سے انتہا تک ان کو بزرگ جانتے رہے ہیں، یہ لوگ اس کا کیا جواب دیں گے وہاں تقیہ کی گنجائش نہیں ہے، حق بات کی تبلیغ پیغبر پر واجب ہے تقیہ کو وہاں داخل کرنا (الحاد و کفر) تک پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَآ اَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللہُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدہ: 67)
ترجمہ: ”اے اللہ کے رسول! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس کو (لوگوں تک) پہنچا دیجئے۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو رسالت کا حق ادا نہ کیا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا۔“
کفار کہا کرتے تھے کہ "محمد (ﷺ) اس وحی کو جو اس کے موافق ہوتی ہے ظاہر کر دیتا ہے اور جو وحی اس کے خلاف ہوتی ہے اس کا اظہار نہیں کرتا (بلکہ) اس کو چھپا لیتا ہے۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ نبی کو خطا پر قائم رکھنا جائز نہیں ہے ورنہ اس کی شریعت میں خلل اور نقص پیدا ہو جاتا ہے پس جب آنحضرت ﷺ سے خلفائے ثلاثہ کی تعظیم و توقیر کے خلاف کچھ بھی ظاہر نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ ان (خلفائے ثلاثہ) کی تعظیم و توقیر کرنا خطا سے مامون اور زوال سے محفوظ تھی۔
تشریح:
حضرت نے یہاں پر اسی آیت کو مستدل بنایا ہے جو ان کی مستدل ہے۔ وہ یہی آیت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اگر آپ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولایت کو ظاہر نہیں کریں گے تو پھر نعوذ باللہ آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔ حضرت نے اسی کو اپنی دلیل کا ذریعہ بنایا ہے۔ فرمایا: جب اللہ پاک نے ان کو یہ فرما دیا تو پھر رسالت نہیں رہتی ہے۔ اگر تیس سال اپنی زندگی میں حضرت نے چھپایا ہے اور تقیہ کیا ہے۔ تو نعوذ باللہ ان کی رسالت پر شک کرو گے کہ انہوں نے اپنی رسالت کا حق ادا نہیں کیا؟ اور اگر حق ادا کیا ہے تو پھر آپ کی یہ بات غلط ہو جاتی ہے۔ آنحضرت نے انہیں کی دلیل کو ان کے منہ پر بڑی آسانی کے ساتھ مار دیا۔
متن:
اب ہم اصل بات کی طرف رخ کرتے ہیں اور ان کے اعتراض کا جواب زیادہ صاف و واضح طریقے پر دیتے ہیں کہ اصول دین میں تمام اصحاب کرام کی متابعت لازم ہے اور وہ (صحابہ) اصول کے اندر آپس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔ اگر (کچھ) اختلاف ہے بھی تو وہ صرف فروع میں ہے۔ اور جو شخص ان میں سے بعض کو طعن کرتا ہے تو وہ سب کی متابعت سے محروم ہے۔ ہر چند ان (اصحاب کرام) کا کلمہ متفق ہے (یعنی اصول دین میں سب کے سب ایک ہی ہیں) لیکن بزرگان دین کے انکار کی بد بختی (دوسرے لوگوں کو) اختلاف میں ڈال دیتی ہے اور متفق ہونے سے خارج کر دیتی ہے بلکہ قائل کا انکار اس کے کلام کے انکار تک پہنچا دیتا ہے۔ اور نیز شریعت کے پہنچانے والے سب کے سب اصحاب کرام ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے "لِاَنَّ الصَّحَابَۃَ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ" ”کیونکہ تمام صحابہ عادل (متقی) ہیں۔“ ہر ایک (صحابی) سے کچھ نہ کچھ شریعت ہم تک پہنچی ہے اور اسی طرح قرآن کریم کو بھی ہر ایک (صحابی) سے ایک آیت یا زیادہ آیتیں لے کر جمع کیا گیا ہے۔ لہذا کسی صحابی کا انکار کرنا اس کی تبلیغ کا (اور اس سے منقول شدہ آیات کا) انکار ہے۔ پس جب اس منکر کے حق میں پوری شریعت کا بجا لانا نا ممکن ہوا تو اس کی نجات اور کامیابی کس طرح ہو سکتی ہے۔
تشریح:
بہت بڑی دلیل دی ہے۔ بہت آسانی کے ساتھ دلیل دے رہے ہیں لیکن ہم لوگ قدر نہیں کرتے ہیں کہ حضرت نے کیا بات بیان فرمائی ہے۔ حضرت نے بہت بڑی بات بیان فرمائی ہے کہ قرآن صحابہ سے جمع ہوا ہے جس کے لئے با قاعدہ کمیٹی بنی تھی۔ اور اصل میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے وقت میں جمع ہوا ہے اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے وقت میں اس کا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ یعنی ایک مصحف پر سب متفق ہوئے تھے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جمع کیا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی مدد سے۔ ان کو کمیٹی کا امیر بنایا اور انہوں نے با قاعدہ اس کے اصول وضع فرما دیئے اور اس پہ گواہی لیتے تھے کہ یہ قرآن کی آیت ہے۔ اس طریقے سے سارا قرآن پاک جمع ہو گیا۔ ان کا اپنا اصول ہے کہ صرف معصومین کے ذریعے دین ہم تک پہنچا ہے۔ اس وقت معصومین میں ان کے نزدیک صرف فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے کچھ ہمنوا تھے۔ مکمل تعداد گیارہ بنتی ہے۔ کیا سارا قرآن ان کے ذریعہ سے جمع ہوا؟ باقی حصہ جو جمع ہوا ہے وہ کیا ہے؟ کیا اس کو قرآن نہیں کہیں گے؟ اگر قرآن نہیں کہیں گے تو قرآن کا انکار ہو گیا اور قرآن کہیں گے تو صحابہ کرام صحیح ثابت ہوئے۔ بہت آسانی کے ساتھ حضرت اتنی زبردست دلیل دیتے ہیں جس سے وہ بھاگ نہیں سکتے۔ کیونکہ اس وقت فتنہ تھا جس کو دبانے کے لئے اللہ پاک نے حضرت کو کلامی موضوعات میں بہت زیادہ فقاہت عطا فرمائی تھی۔
متن:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰی اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ (البقرہ: 85)
ترجمہ: ”یعنی کیا تم کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لاتے ہو اور بعض حصہ کا انکار کرتے ہو پس تم میں سے جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان کی جزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں اور آخرت میں سخت عذاب کی طرف دھکیل دیئے جائیں“
اس کے با وجود ہم کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے بلکہ فی الحقیقت قرآن کریم کے جمع کرنے والے حضرت صدیق و حضرت فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کا جمع کیا ہوا قرآن اس قرآن کے علاوہ ہو گا۔ پس سوچنا چاہیے کہ ان بزرگوں کا انکار حقیقت میں قرآن کریم کے انکار تک پہنچاتا ہے عِیَاذًا بِاللہِ سُبْحَانَہُ (اللہ سبحانہ کی پناہ)۔
ایک شخص نے اہل شیعہ کے کسی مجتہد سے سوال کیا "یہ قرآن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے آپ کا اس قرآن مجید کے متعلق کیا اعتقاد ہے؟ اس نے جواب دیا: میں اس کے انکار میں مصلحت نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے انکار سے تمام دین درہم برہم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عقلمند آدمی ہرگز کبھی اس کو جائز نہیں سمجھتا کہ آں سرور عالم ﷺ کے اصحاب کرام آنحضرت ﷺ کی رحلت کے روز ہی باطل امر پر اجتماع کر لیں۔ اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی رحلت کے دن آپ ﷺ کے تینتیس ہزار اصحاب حاضر تھے اور انہوں نے اپنی رضا و رغبت سے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے ہاتھ پر) بیعت کی۔ رسول اللہ ﷺ کے ان سب اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا گمراہی پر جمع ہونا محالات میں سے ہے حالانکہ آنحضرت علیہ الصلوۃ و التحیۃ نے فرمایا ہے: "لَا تَجْتَمِعُ اُمَّتِی عَلَی الضَّلَالَۃِ"
ترجمہ: ”میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی۔“
تشریح:
ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک فتنہ پھیلایا تھا۔ اس نے اتنی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے وقت مدینہ منورہ میں ایک لاکھ کے لگ بھگ صحابہ موجود تھے اور سوائے 11 صحابہ کے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جنازہ نہیں پڑھا۔ ایک عالم نے انہیں کی کتابوں سے اس کو جواب دیا۔ ان کی "اصول کافی" ایک کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ جتنے انصار و مہاجر صحابہ کرام تھے، سب نے جنازہ پڑھا۔ ان کے ہاں اصول کافی سے زیادہ کوئی اور معتبر کتاب نہیں ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ 33 ہزار تھے۔ بہر حال جتنے تھے سب نے پڑھی، چاہے وہ انصار تھے، چاہے مہاجرین تھے۔ ان کو پتا ہے کہ ہماری کتابوں میں کون دیکھے گا؟ اور وہ اتنے دھڑلے کے ساتھ جھوٹ کہہ دیتے ہیں کہ چلو جی دیکھا جائے گا۔ مثال کے طور پر کوئی انکار کرے گا تو انکار کہاں تک پہنچے گا۔ آج کل مناظرے کا یہ ایک آرٹ ہے۔ غامدی بھی ایسا کرتا ہے پوسٹ لگا دیتا ہے۔ اس کی بات تو لوگوں تک پہنچ گئی شک تو پیدا ہو گیا۔ اب شک رفع کرنے والے کی بات کن تک پہنچتی ہے اور کتنی دیر بعد پہنچتی ہے؟ اس کا کسی کو پتا نہیں۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ جب تک سچ آتا ہے جھوٹ نے گاؤں کے گاؤں برباد کر دئیے ہوتے ہیں۔ بات بالکل صحیح ہے کہ جب تک سچ آئے گا تب تک جھوٹ نے بہت سے لوگوں کے ایمان کو خراب کر دیا ہو گا۔ اصل میں آج کل سوشل میڈیا کا ایک آرٹ ہے کہ کسی بات کو چھپانا ہو، کسی حق کو چھپانا ہو، تو اتنی information storm کر لو (یعنی غلط معلومات اتنی پھیلا دو) کہ اس میں حق نظر ہی نہ آئے، آگے پیچھے، ادھر ادھر، سارا کچھ ختم۔ آپ کس پر یقین کریں کس پر نہ کریں۔ مثال کے طور پر آپ کسی گروپ میں اچھی بات کر لیتے ہیں، کسی کو وہ اچھی نہیں لگتی تو وہ ایک دم ادھر ادھر فضول چیزیں ڈال دے گا اور حق بات دور چلی جائے گی وہ کون دیکھے گا پھر؟ اس وجہ سے ہمیں بڑا ہوشیار رہنا پڑے گا اور آج کل کی Information techniques کو جاننا پڑے گا کہ آج کل information (معلومات) کی کون سی techniques (تکنیک) ہمیں گمراہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور کس طریقے سے ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟
متن:
اور جو توقف ابتداء میں حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے واقع ہوا ہے وہ اس وجہ سے تھا کہ اس مشورہ میں حضرت امیر کو نہیں بلایا گیا تھا چنانچہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا "مَا غَضِبْنَا اِلَّا لِتَاَخُّرِنَا عَنِ الْمَشْوَرَۃِ وَ اِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَیْرًا مِّنَّا" ”ہم اس لئے ناراض ہوئے ہیں کہ ہم کو مشورہ میں نہیں بلایا گیا ورنہ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بے شک ابو بکر ہم سے بہتر ہیں۔“ اور ان (حضرت امیر) کو مشورہ میں نہ بلانا بھی کسی مصلحت پر مبنی ہو گا۔ مثلاً اہل بیت نبوی کی تسلی کے لئے اس مصیبت کے اول صدمہ کے وقت میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کے پاس موجود ہونا وغیرہ ذالک۔ اور وہ اختلافات جو رسول ﷺ کے اصحاب کرام کے درمیان واقع ہوئے تھے وہ نفسانی خواہشات کی وجہ سے نہیں تھے۔
تشریح:
میرے دل کی ایک بات ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن بہر حال عرض کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اس دنیا سے تشریف لے جانا معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ بہت بڑا واقعہ تھا اور خلیفہ کا زمین پر موجود نہ ہونا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور صحابہ کرام اس کو جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کتنی بڑی بات تھی، لیکن تاخیر اس وجہ سے ہوئی کہ خلافت قائم ہو جائے اور بیعت کا التزام مقصود تھا۔ آج کتنا وقت لگتا ہے الیکشن پر؟ اس وقت بیعت وغیرہ ہو رہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے تاخیر کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو اہل بیت اور اہل خانہ تھے۔ اہل خانہ کا غم بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ان کو اس وجہ سے نہ بلایا جائے کہ وہ یہ محسوس نہ کر لیں کہ یہ کون سا وقت ہے جو آپ لوگ خلیفہ چن رہے ہیں؟ کیونکہ ان کا دل زخمی تھا۔ لیکن دوسرے حضرات کو پتا تھا کہ اس وقت یہ کام بہت زیادہ اہم ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر روک بھی نہیں سکتے، لیکن ان کا دل رکھنے کے لئے ان کو بتانا بھی نہیں تھا۔ بہر حال اصل بات تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے، لیکن ہمیں اچھا گمان رکھنا چاہیے۔
متن:
کیونکہ ان کے پاکیزہ نفس تزکیہ حاصل کر چکے تھے اور امارگی (کے درجہ سے) (نکل کر) اطمینان (کے درجہ) تک پہنچ چکے تھے ان کی تمام خواہشات شریعت مقدسہ کے تابع ہو چکی تھیں بلکہ وہ اختلاف اجتہاد اور حق بلند کرنے پر مبنی تھا پس ان میں سے (اجتہادی) خطا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک درجہ رکھتا ہے اور صحیح اجتہاد کرنے والے کو تو دو درجے (دوہرا ثواب) حاصل ہوتے ہیں پس اپنی زبان کو ان کی شان میں گستاخی کرنے سے روکنا چاہیے اور ان سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ "تِلْکَ دِمَاءٌ طَھَّرَ اللہُ عَنْھَا اَیْدِیْنَا فَلْنُطَھِّرْ عَنْھَا اَلْسِنَتَنَا" ”یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے پس ہمیں اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھنا چاہیے۔” اور نیز امام شافعی نے فرمایا ہے: "اِضْطَرَّ النَّاسُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّے اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ فَلَمْ یَجِدُوا تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ خَیْرًا مِّنْ اَبِی بَکْرٍ فَوَلَّوْہُ رِقَابَھُمْ" ”رسول اللہ ﷺ (کی وفات) کے بعد لوگ بے چین ہو گئے پس انھوں نے آسمان کی چھت کے نیچے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کسی کو نہ پایا تو ان کو اپنی گردنوں کا والی بنا لیا (یعنی) ان کو خلیفہ مقرر کر لیا اور ان کی اطاعت کو لازم جانا۔“ یہ قول (حضرت امیر کے) تقیہ کی نفی اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت پر حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رضا مندی کی صراحت کرتا ہے۔
طریق نقشبندی میں متابعت سنت پر زور کے بارے میں مکتوب 210 دفتر اول میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
اور (میں نے) اپنے رسائل و کتابوں میں اس معنی کی تحقیق میں لکھا ہے اس غرض کو حاصل کرنے کے لئے طریقہ عالیہ نقشبندیہ کا اختیار کرنا تمام طریقوں سے زیادہ اولیٰ و انسب ہے کیونکہ ان بزرگوں نے سنت کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا ہے اور بدعت سے اجتناب کرنے کے لئے فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو متابعت کی دولت حاصل ہو جائے اور احوال کچھ نہ رکھتے ہوں تو خوش ہیں اور اگر احوال حاصل ہونے کے با وجود متابعت میں فتور و کمی محسوس کریں تو ان احوال کو پسند نہیں کرتے۔ حضرت خواجہ احرار قدس اللہ تعالیٰ سرہ نے فرمایا ہے کہ اگر تمام احوال و مواجید ہم کو دے دیئے جائیں اور ہماری حقیقت کو اہل سنت و الجماعت کے اعتقادات سے نہ نوازیں تو ہم سوائے خرابی کے اور کچھ نہیں جانتے۔ اور اگر اہل سنت و الجماعت کے اعتقادات ہم کو عطا کر دیئے جائیں اور حال و احوال سے کچھ نہ ملے تو پھر کچھ غم نہیں ہے۔
تشریح:
اصل میں نقشبندی سلسلہ واقعی با کمال اور مختصر طریقہ ہے۔ لیکن اس کو حاصل کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر سخت ضروری ہیں۔ مختصر طریقے میں احتیاطی تدابیر زیادہ ہوتی ہیں، ورنہ سارے لوگ اختیار کر لیں۔ اب احتیاطی تدابیر کون سی ہیں؟ مثلاً اس میں مجاہدہ عام مجاہدہ نہیں ہے جس کو ہم لوگ مجاہدہ سمجھتے ہیں بلکہ اس میں مجاہدہ اس چیز پر ہے کہ لوگوں کے درمیان رہ کر لوگوں میں نہ ہونا۔ ”خلوت در انجمن“ یہ کوئی معمولی مجاہدہ نہیں ہے۔ سنت پر راسخ رہنا، ذرا بھی آگے پیچھے نہ ہونا، یہ بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اس پہ آپ عام حالات میں قائم نہیں رہ سکتے۔ تیسری بات یہ ہے کہ عزیمت پر عمل کرنا، رخصت نہ لینا۔ عزیمت پر عمل کرنا بذات خود بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اب مجھ میں تین چیزیں نہ ہوں اور میں کہتا ہوں کہ میں نقشبندی ہوں تو سارے معاف ہی معاف ہیں، کیونکہ سب سے اونچا طریقہ یہی ہے۔ بھائی اونچا طریقہ ہونے کے لئے جو ذرائع تھے وہ آپ نے کاٹ دئیے، اس کے بعد پھر کون سا اونچا طریقہ آپ کے پاس رہ گیا؟ ہر چیز کی بنیاد ہوتی ہے، اس کی بنیاد کو لے لو تو پھر ٹھیک ہے، ہم بھی مبارک باد دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن اگر آپ ان میں سے کسی اصول کو توڑتے ہیں، بدعتوں سے بھی نہیں بچتے اور رخصت سے بھی نہیں بچتے۔ اتنی رخصت کہ عورتوں کے ساتھ آزادانہ ملنا، خلوت میں ملنا اور پھر بھی بہت بڑے بزرگ بنے ہوتے ہیں۔ یہ کیسے بزرگ ہیں؟ کہاں رخصت اور عزیمت اور کہاں مالی گھپلوں میں مبتلا ہو جانا! ان چیزوں کی کوئی پرواہ نہ کرنا، یہ طریقہ نقشبندیہ نہیں ہے۔ یہ کوئی بگاڑ ہے۔ نقشبندی طریقہ سب سے اونچا طریقہ ہے۔ میری اپنی نسبت نقشبندی ہے، میں اپنے طور پر کچھ نہیں کہہ رہا، مجھے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ تمہاری نسبت نقشبندی ہے۔ لیکن اس پر عمل کرنے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو اس کے مطابق بنانا پڑے گا۔
نمبر 1: کوئی رخصت نہ ہو بلکہ عزیمت کا پہلو ہو۔
نمبر 2: سنت ہو بدعت بالکل نہ ہو
نمبر 3: ”خلوت در انجمن“ یعنی ہم لوگوں کے درمیان رہ کر بھی لوگوں میں نہ ہوں۔
یہ چیزیں اگر ہمارے پاس ہیں تو سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر یہ چیزیں ہمارے اندر نہیں تو ہم نے نام بڑا اونچا پایا، کام کچھ بھی نہیں کیا۔ پدرم سلطان بود والی بات اس میں بھی چلتی ہے حالانکہ نہیں چلنی چاہیے۔
متن:
منقول ہے کہ حضرت مہدی اپنی سلطنت کے زمانے میں جب دین کی ترویج کریں گے اور احیائے سنت کا حکم دیں گے تو مدینہ کا عالم جس نے بدعت پر عمل کرنا اپنی عادت بنا لی ہو گی اور اس (بدعت) کو اچھا سمجھ کر دین کے ساتھ ملا لیا ہو گا وہ تعجب سے کہے گا کہ اس شخص (امام مہدی) نے ہمارے دین کو ختم کر کے ہماری ملت کو مار ڈالا ہے حضرت مہدی اس عالم کے قتل کا حکم فرمائیں گے اور اس کے حسنہ (اچھائی) کو سیئہ (برائی) خیال کریں گے: ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ وَاللهُ ذُوالۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ ﴾ (الجمعہ: 4)
ترجمہ: ”یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے
اور اس دولت عظمیٰ کے حاصل کرنے کے لئے قریب ترین راستہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالےٰ اسرارہم ہے، کیونکہ ان بزرگواروں نے اپنے سیر کی ابتدا عالمِ امر سے کی ہے اور قلب سے مُقَلِّبِ قلب( قلب کے پھیرنے والے) کی طرف لے گئے ہیں اور انہوں نے دوسروں کی ریاضتوں اور مجاہدوں کے بجائے سنت کو لازم پکڑا ہے اور بدعت سے پرہیز کیا ہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں "طریقِ ما اقربِ طرق است اما التزامِ سنت کارِ مشکل است" یعنی ہمارا طریقہ سب طریقوں سے قریب ترین ہے لیکن سنت کا التزام کرنا بہت مشکل کام ہےـ
تشریح:
حضرت خود فرماتے ہیں یہ آسان کام نہیں ہے کہ اس پر اَڑ جانا اور اس سے آ گے پیچھے نہ ھونا۔ بلکہ یہ با قاعدہ ایک مستقل مشکل کام ہے۔
مکتوب 87 دفتر دوم میں اہم نصیحت کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
ایک نصیحت جو سعادت مند دوستوں کے لئے ہے سنتِ سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی اتباع اور بدعت نا پسندیدہ سے اجتناب کرنا ہے۔ اور جو شخص سنتوں میں سے کسی سنت کو جس پر عمل کرنا متروک ہو گیا ہو، زندہ کرے اس کے لئے سو شہیدوں کا ثواب ہے تو پھر اندازہ کیجئے کہ جو شخص فرائض میں سے کسی فرض کو یا واجبات میں سے کسی واجب کو زندہ کرے گا تو اس کو کس قدر ثواب ملے گا۔ پس نماز میں تعدیل ارکان (ارکان کو اطمینان سے ادا کرنا) جو اکثر علماء حنفیہ کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے اور بعض علماء حنفیہ کے نزدیک سنت ہے، اکثر لوگوں نے اس امر کو ترک کر دیا ہے۔ اس ایک عمل کا زندہ اور جاری رکھنا بھی فی سبیل اللہ سو شہیدوں کے ثواب سے زیادہ ہو گا۔ باقی احکام شرعیہ یعنی حلال و حرام و مکروہ کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ایک دمڑی اس شخص کو واپس دے دینا جس سے غیر شرعی طریقے سے ظلم پر حاصل کی ہو دو سو درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ نیز علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کے نیک عمل پیغمبر کے عملوں کے مانند ہوں اور اس پر کسی شخص کی آدھی دمڑی جتنا حق باقی رہ گیا ہو تو اس شخص کو اس وقت تک بہشت میں نہ لے جائیں گے جب تک اس نیم دمڑی کو ادا نہ کر دے گا۔ غرض اپنے ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کر کے باطن کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ غفلت کے ساتھ آلودگی نہ رہے۔ اور باطن کی امداد کے بغیر احکام شرعیہ سے آراستہ ہونا مشکل ہے۔ علماء فتوی دیتے ہیں اور اہل اللہ کام کرتے ہیں۔ باطن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ظاہر کا اہتمام بھی ہو۔ اور کوئی باطن ہی کی درستی میں لگا رہے اور ظاہر کی پرواہ نہ کرے وہ ملحد ہے اور اس کے باطنی احوال استدراج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باطنی حالات کے درست ہونے کی علامت یہ ہے کہ ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ ہو۔ استقامت کا طریقہ یہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔
تشریح:
معلوم ہوا حضرت نے با قاعدہ ساری باتیں جمع کی تھیں، اس وقت کے فتنے بہت زیادہ تھے۔ ان تمام فتنوں کے رد کے لئے حضرت نے بڑی پکی باتیں کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ پکی بات ہے کہ جیسے اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ﴾ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے" اس لئے اہل حق کے ہاں سنت کی دعوت یقینی امر ہے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کے ہاں کیوں نہ ہوتی؟ اور بدعت جو سنت کے مقابل ہے اس سے بیزاری کیوں نہ ہو؟
و اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِین