مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 09

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زہد کے بارے میں ان کے صاحبزادہ حضرت شیخ عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
متن:
فصل
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حزن، عشق، فکر اور معرفت کے بیان میں
حضرت شیخ صاحب معرفت کے شہسواروں میں سے تھے۔ لوگ ایسا کہتے ہیں کہ جو کوئی حق کو پہچانے تو آگ کا عذاب اس پر اثر نہیں کرتا۔ یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی تو وہ آگ کے لیے عذاب ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت کو حاصل نہ کیا تو آگ اس کے لیے عذاب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت خضر علیہ السلام سے پوچھا کہ آخر کس عمل کے طفیل اللہ تعالیٰ نے تم کو علمِ غیب کی نعمت عطا فرمائی؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں نے جو عمل بھی سر انجام دیا میں نے کبھی بھی اس کے اجر کی لالچ نہیں کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے جو کہ عطا کرنے والا ہے، مجھے اتنا کچھ عطا فرمایا کہ جس کا حساب و شمار نہیں۔
تشریح:
یہ کافی مشکل مرحلہ ہے جس کے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ الفاظ تو ہر انسان ادا کر سکتا ہے لیکن اس کی حقیقت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوا کرتی۔ ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اللہ، اللہ ہے اور ہم اس کے بندے ہیں، ہم اس کی مخلوق ہیں۔ اللہ نے ہمیں جو کچھ بھی عطا فرمایا وہ اس نے اپنے فضل سے عطا فرمایا اس میں ہمارا کوئی بھی حق نہیں تھا۔ ہمارے وجود میں آنے میں بھی ہمارا کوئی حق نہیں تھا، ہمیں انسان بنانے میں بھی ہمارا کوئی حق نہیں تھا، ہمیں اچھی صحت دینے میں بھی ہمارا کوئی حق نہیں تھا، ہمیں جو رزق ملتا ہے اس میں بھی ہمارا کوئی حق نہیں ہے۔ جو بھی اللہ دے رہا ہے اپنی طرف سے دے رہا ہے اس میں ہماری کوئی چیز بھی اپنی کمائی ہوئی نہیں ہے۔ اب تین قسم کے لوگ ہیں:
ایک وہ کہ جنہیں اللہ نے کوئی نعمت دی ہے، اس میں خود ان کا کوئی کمال نہیں ہے لیکن وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور دوسروں کو اس بنیاد پر کم مرتبہ سمجھتے ہیں۔ یہ تو پرلے درجہ کے بیوقوف ہیں اور وہ اس بیوقوفی کی سزا بھی بھگتیں گے کیونکہ یہ بے وقوفی اختیاری ہے۔ مثلاً کسی آدمی کو اللہ تعالیٰ نے سادات گھرانے میں پیدا کیا تو اِس میں اُس آدمی کا کوئی کمال نہیں۔ اب اگر وہ سید ہو کر دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم مرتبہ سمجھے تو یہ بیوقوفی ہے۔ اگر اللہ پاک نے کسی کو لمبے قد کا بنایا ہے، بڑا وجیہ بنایا ہے، بڑا خوبصورت بنایا ہے اور دوسرے کو چھوٹے قد کا بنایا ہے، اتنا خوبصورت نہیں بنایا تو جس کو لمبے قد کا خوبصورت بنایا ہے اِس میں خود اُس کا کوئی کمال نہیں، اور جس کو نہیں بنایا تو اس میں اُس آدمی کی طرف سے کوئی کمی نہیں ہے، اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر لمبے قد والا خوبصورت آدمی اس چھوٹے قد والے کو طعنہ دیتا ہے تو بلاشبہ یہ بیوقوفی ہے۔ بھلا یہ چھوٹے قد والے کو کس بات کا طعنہ دے رہا ہے؟ ایک ایسی چیز پر طعنہ دے رہا ہے جو اس کی اپنی ہے بھی نہیں۔ پہلی قسم کے تو یہ لوگ ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر ان پر فخر نہیں کرتے اور کسی کی تنقیص نہیں کرتے، کسی کا نقصان نہیں کرتے۔ ما شاء اللہ! یہ محفوظ لوگ ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو اللہ نے یہ نعمت دی ہے اور وہ اس پہ شکر کرتے ہیں۔ شکر کرنے کی وجہ سے اس چیز کے ملنے کا حق پورا پورا ادا کرتے ہیں اور اسے صحیح جگہوں پر استعمال کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! یہ عارفین ہیں، یہ بڑے لوگ ہیں۔
تو یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ انسان اپنے آپ کو پہچانے کہ میں ان میں سے کس قسم میں شامل ہوں اور اس کے حساب سے اپنا لائحہ عمل طے کرے۔
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر کسی کو اس چیز کی معرفت حاصل ہو جائے تو اس شخص کے ہاتھ سے جو بھی نیکی ہو گی، اگرچہ وہ اس نیکی کو اختیاری طور پر کرے گا، لیکن اسے ادراک ہو گا کہ اس نیکی کے اسباب غیر اختیاری ہیں، اور جب اسے اس بات کا ادراک ہو گا تو وہ اس کا اجر طلب نہیں کرنا چاہے گا۔ کیونکہ وہ جانتا ہو گا کہ اسے ذہن اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، توفیق بھی اللہ نے دی ہے، یقین بھی اللہ نے عطا فرمایا ہے، اچھا ماحول بھی اللہ نے دیا ہوا ہے، ان اسباب کی وجہ سے اگر اس نے ایک اچھا کام کر لیا تو کیا وہ اپنے آپ کو اجر کا مستحق سمجھے گا؟ ہر گز نہیں، بلکہ وہ کہے گا کہ یا اللہ یہ سب تو تیرے دیئے ہوئے اسباب کی وجہ سے ہے، میں تو اس پر شرمندہ ہوں کہ میں نے اس کو خراب ہی کیا ہو گا، جتنا مجھے کرنا چاہیے تھا میں نے اتنا نہیں کیا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو شاکرین ہیں اور اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ہیں۔
یہاں وہ بات قابل ذکر ہے جو حضرت خضر علیہ السلام نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے جو بھی عمل کیا، اس کے اجر کی کوئی بات دل میں نہیں رکھی۔ انہیں اللہ پاک نے دے دیا۔ اس کے ڈانڈے ایک اور چیز کے ساتھ بھی ملے ہوئے ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے لئے آپ جو کچھ بھی کریں گے، اللہ تعالیٰ اسے بہت زیادہ کر کے لوٹائیں گے، کیونکہ اس کو کسی چیز کی کمی تو ہے نہیں۔ مثلاً ایک شخص اللہ کے راستے میں خیرات کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال کو بڑھا دیتے ہیں۔ جو شخص اپنی عزت اللہ تعالیٰ کے راستے میں داؤ پہ لگاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو بڑھا دیتے ہیں۔ جو تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے وقار کو بڑھاتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی زندگی وقف کرتے ہیں، اپنی زندگی قربان کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتے ہیں۔ جب ایسا ہے تو پھر اگر ہم اپنے آپ کو اللہ پاک کے سامنے کوئی مطالبہ کرنے کے قابل نہیں سمجھیں گے، تو اللہ ہمیں خود دے دے گا۔ بے شک ہم اس کے حکم کے مطابق اس سے دعا مانگیں گے لیکن اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھیں گے کہ ہم اس کے حق دار ہیں۔ بس اللہ کا حکم سمجھ کر دعا مانگتے ہیں لیکن ہم اپنے آپ کو اس کا حق دار نہیں مانتے، پھر اللہ تعالیٰ جو دے اس پر دل سے راضی اور شاکر رہتے ہیں۔ جب آپ نے اپنی اختیاری نیکیوں کا حساب نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے حساب دے دیا جائے گا۔ اگر خود مطالبہ کرو گے تو حساب ہو جائے گا اور حساب ہو گیا تو بہت تھوڑا ملے گا کیونکہ در اصل ہم کسی چیز کے حق دار بالکل نہیں ہیں۔ لہٰذا اگر اللہ پہ چھوڑ دیں گے اور کہیں گے کہ یا اللہ میرا کوئی حق نہیں، تُو اللہ ہے میں نے تیرے لئے کیا ہے اور تو ہی بادشاہ ہے، تو پھر اللہ پاک اتنا دے گا جس کا کوئی حساب نہیں ہو گا۔
ایک بات دل پہ وارد ہوئی ہے۔ میں ابھی عرض کر رہا تھا کہ جو شخص اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں لگاتا ہے، پھر میں نے کہا: قربان کرتا ہے۔ پہلے کہا تھا: لگاتا ہے، پھر کہا: قربان کرتا ہے۔ اللہ پاک کے لئے جان قربان کرنے کے بارے میں قرآن پاک کی نص بھی موجود ہے۔ فرمایا:
﴿وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ﴾ (البقرہ: 154)
ترجمہ: ”اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، در اصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا “۔
اپنی زندگی قربان کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں زندگی لگانے کی ایک قسم ہے۔ جو اپنی زندگی کو اللہ کے راستے میں قربان کرتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں خرچ کرتا ہے۔ اور کوئی مسلسل خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا اس کے لئے یہ بشارت نہیں ہو گی؟ لازماً ہو گی۔ اس میں ایک اشارہ سا ہے کہ جو اللہ کے راستے میں اپنا سارا کچھ قربان کر دیں یعنی خرچ کر دیں، اپنے لئے کچھ نہ رکھیں، جان، مال، وقت اور اولاد سب کچھ خرچ کر دیں تو عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہیدوں سے بھی زیادہ اجر دے دے۔
متن:
اے میرے عزیز! جواں مردوں کے نزدیک اگر کوئی شخص کوئی عمل بھی نہ کرے مگر وہ اُس شخص سے بہتر ہے جو عمل کر کے اُس کے اجر کی فکر اور لالچ میں ہو۔ ”اَلْعَامَّۃُ یَتُوْبُوْنَ مِنْ سَیِّاٰتِھِمْ وَالصُّوْفِیُّوْنَ یَتُوْبُوْنَ مِنْ حَسَنَاتِھِمْ“ یعنی عام لوگ تو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور صوفی حضرات اپنی نیکیوں سے توبہ کرتے ہیں۔ اے عزیز! اگرچہ اس دنیا میں نیکی اور بدی کی کئی قسمیں ہیں، مگر تمام نیکیوں کی بنیاد یہی ہے کہ کوئی دل تم سے خوش ہو جائے۔ مردوں کو اس راستے میں ایسی گذر اوقات کرنی چاہیے کہ کسی وقت اُن سے کوئی چیونٹی بھی آزار نہ ہو۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک چیونٹی پر غصّہ ہوئے، تو چیونٹی نے کہا: ”مَا ھٰذَا الصَّوْتُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنِّيْ عَبْدٌ لِّمَنْ أَنْتَ عَبْدُہٗ؟“ ”یہ غصہ اور دبدبہ کیسا؟ تم تو جانتے ہو کہ میں اُسی کا بندہ ہوں، جس کا تو بندہ ہے“۔
حضرت شیخ صاحب اہل فکر کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے، اور اہل فکر کی جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فکر مشتبہ اشیاء سے جان بچانا ہے، اور پاک دامنی کی دلیل ہے۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ فکر دل کے صدق اور عمل کی مقبولیت کا معیار ہے۔ ہاں! فکر ایک آئینہ کی مانند ہے جس میں انسان اپنے اچھے اور برے اعمال کا عینی مشاہدہ کرتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے دنیا کی مخلوق کے بارے میں فکر کی، وہ گروہ جو کہ عدم کے گوشے میں ہے وہ میں نے اس گروہ سے بہتر حالت میں اور خوشی کے عالم میں پایا جو صحرائے وجود میں ہے۔ اہل معرفت کہتے ہیں کہ عاقل وہ شخص ہے کہ دس چیزوں کو دس چیزوں سے تبدیل کریں: بے صبری اور جزع و فزع کو صبر سے، اور نسیان اور بھولنے کو ذکر سے، کفر کو شکر سے، نافرمانی اور عصیان کو فرمانبرداری اور طاعت سے، کنجوسی اور بخل کو جود و سخا سے، شک کو یقین سے، ریا کاری کو اخلاص سے، اصرار اور بار بار گناہ کو توبہ سے، جھوٹ کو سچ اور غفلت کو تفکر سے۔ اے میرے عزیز! اہل نظر جس چیز کو بھی دیکھتے ہیں تفکر سے نگاہ کرتے ہیں۔ قطعہ:
؎ نخشبی فکر کارها درد
غافلان از بلا خدر نکنند
”نخشبی امور کی فکر کرتا ہے اور غافل لوگ مصائب اور بلاؤں سے خوف نہیں کھاتے“
؎ آں عزیزاں کہ چشمِ دل دارند
جز تفکر بہ کس نظر نکنند
”وہ عزت مند لوگ جن کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں، تفکر کے بغیر کسی پر نظر نہیں کرتے“
حضرت ہمیشہ فکر میں ڈوبے رہتے اور تفکر درجۂ عبادت سے اولی اور بہتر ہے۔ دائمی طور پر تفکر کرنا توحید اور معرفت کی اصل اور اساس ہے، اور فکر کی چار اقسام ہیں: ”فِکْرَۃٌ فِيْ اٰیَاتِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الْمَعْرِفَۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ أَمْرِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الْمَحَبَّۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ وَعْدِ اللہِ تَعَالٰی تَتَوَلَّدُ مِنْھَا الرَّھْبَۃُ وَ فِکْرَۃٌ فِيْ فَنَاءِ النُّفُوْسِ تَتَولَّدُ مِنْھَا الْحَیَاۃُ“ یعنی آیات اللہ (اللہ کی نشانیوں) میں فکر کرنے سے معرفت پیدا ہوتی ہے اور امر اللہ (اللہ کے احکام اور افعال) میں فکر کرنے سے محبت جنم لیتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں فکر کرنے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور نفوس کی فنا میں فکر کرنے سے حیات اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اے میرے عزیز! مخلوق میں تفکر کرنا جائز ہے مگر خالق میں تفکر کرنا جائز نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ہر وقت مستی میں ڈوبا رہے تو اسے چاہیے کہ ہمیشہ عبودیت کے اثبات میں لگا رہے۔ اور اثباتِ ربوبیت کے بارے میں فکر و اندیشہ نہ کیا کرے۔
تشریح:
فکر کے بارے میں بات چل رہی ہے۔ سمجھنا چاہیے کہ انسان فکر کیسے کرتا ہے۔ فکر ذہن اور دل کا ایک مجموعی عمل ہے۔ اس میں دل بھی شامل ہے اور ذہن بھی شامل ہے۔ دل کی صفائی ستھرائی سے ذہن صحیح استعمال ہوتا ہے۔ پس صحیح لوگ جن کے دل کی آنکھیں کھلی ہوں ان کے اوپر حقائق کھلتے ہیں۔ ان حقائق کے کھلنے کی وجہ سے وہ ان میں غور کرتے ہیں۔ غور کرنے سے ان پر چیزیں مزید کھلتی ہیں۔ فکر کا درجہ عبادت سے زیادہ ہے۔ ایک لحظہ کی فکر کو ستر سال کی عبادت سے افضل بتایا گیا ہے۔ لہٰذا جو حضرات فکر کرتے ہیں ان کا مرتبہ بہت اونچا ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اِس فکر سے مراد کون سی فکر ہے۔ اس سے مراد وہ فکر ہے جو ذکر کے ساتھ ہو۔ اس فکر سے یہ چیز حاصل ہوتی ہے کہ دل کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ ذکر کے بغیر محض فکر سے یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ ذکر کے بغیر انسان کا دل غافل ہوتا ہے، لہٰذا ایسا آدمی محض ذہن سے سوچتا ہے، اس میں دل کا دخل نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذکر کرنے والے اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ جس کا دل مردہ ہے وہ کیا فکر کرے گا؟ وہ حقیقی فکر نہیں کر سکتا۔ اس کی فکر دل سے ہو کے نہیں آ رہی، صرف ذہن سے ہو کے آ رہی ہے اور ایسی فکر فلسفہ بن جاتی ہے جس سے انسان خود بھی confuse (حیراں و سرگرداں) ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی شکوک و شبہات میں مبتلا کرتا رہتا ہے۔ جو مفکرین و مدبرین اہل اللہ نہیں ہیں، اللہ کے ولی نہیں ہیں، انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیا ہے۔ چاہے وہ مسلمان مفکرین ہوں چاہے غیر مسلم مفکرین ہوں۔
علامہ اقبال مرحوم نے اپنی بہن کو جو آخری خط لکھا تھا، انہوں نے اس میں لکھا کہ کاش مجھے علم ہوتا تو میں اپنا وقت فلسفہ میں ضائع نہ کرتا۔
محض ذہن والا فلسفہ انسان کو شبہات میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ اسے حقیقت نظر نہیں آ رہی ہوتی۔ حقیقت دل کے ذریعے نظر آئے گی۔ بے شک اس میں ذہن کے ذریعے ہی غور کریں۔ مثال سے سمجھیں اور اچھی طرح سنیں۔ یہ بہت اہم بات کر رہا ہوں۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی میں سے کون سی زندگی ہر لحاظ سے زیادہ ہے؟ جواب ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی زیادہ ہے۔ آخرت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے زیادہ ہیں، آخرت کے عذاب و تکالیف دنیا کے عذاب اور تکالیف سے زیادہ ہیں، آخرت کی زندگی لمبی بھی ہے اور آخرت میں جو کچھ ملے گا، اچھا یا برا، وہ زیادہ بھی ہے۔ اب اگر کسی کا دل بیدار ہے تو ان الفاظ سے یہ بات نکل کر اس کے دل میں ایک حقیقت کی صورت میں آ جاتی ہے۔ الفاظ تو ہم بھی کہہ رہے ہیں، الفاظ کہنے میں ہم سب مشترک ہیں لیکن حقیقت کسی کسی پر کھلتی ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر مومن کوئی غلطی کرتا ہے تو اسے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہاڑ اس پہ گر گیا ہے، جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے رو رو کر معافی نہ مانگے اس وقت تک اس کو آرام نہیں آتا اور جب فاسق گناہ کرتا ہے تو ایسا سمجھتا ہے جیسے مچھر آ گیا اور اس کو اڑا دیا۔ دونوں کے رویہ میں یہ فرق کس چیز کی وجہ سے ہے؟ ایمان کی وجہ سے ہے۔ ایمان کہاں پر ہوتا ہے؟ دل میں ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دل کا فعل ہے۔ اگر کسی کا دل بنا ہوا ہے تو اس کے اوپر آخرت کی چیزیں مستحضر ہوں گی۔ اس کے سامنے دنیا کی چیزوں کی حقیقت بھی کھلی ہو گی۔ اسے ادراک ہو گا کہ دنیا کتنی ہے اور آخرت کتنی ہے۔ نتیجتاً اس کی فکر آخرت کی زندگی کے لئے ہو گی۔
معلوم ہوا کہ وہی فکر انسان کو فائدہ دے سکتی ہے جو ذکر کے ساتھ ہو اور دل کی بیداری کے ساتھ ہو۔
﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ O الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ”بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے“۔
فرمایا: ﴿فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾۔ یہ ”عذابِ نار“ آخرت کا عذاب ہے۔ مشاہدہ میں یہاں کی چیزیں ہیں وہاں کی نہیں ہیں۔ یہاں کی ہیں لیکن اللہ پاک نے یہاں کی چیزوں میں غور و فکر کرنے والوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ یہاں کی چیزوں میں غور و فکر کر کے کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں وہاں کے عذاب سے بچا۔ غور کریں کہ یہ سلسلہ یہاں سے وہاں کیسے پہنچا۔ فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ یعنی جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انھیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو یہاں رہ کر ذکر اور فکر کے ذریعے سے اس حالت کو پا لے اس کے لئے وہاں کی کَال‬عَینِ (گویا کہ آنکھوں دیکھی) ہو جائے اس کی فکر بالکل مختلف ہو گی۔
میں بہت اچھی تقریر کر لوں اور میرے دل میں ہو کہ اس پر مجھے کوئی بہت زیادہ پیسے دے، یا میری بہت تعریف کرے۔ تو میری یہ فکر دنیاوی فکر ہے، کیونکہ میں جن چیزوں کے بارے میں سوچ رہا ہوں یہ دنیا کی چیزیں ہیں۔ لہذا یہ فکر معتبر نہیں ہے۔ اگر میری فکر وہاں (آخرت) کی ہو تو پھر مجھے اس کی پروا نہیں ہو گی، میں اس چیز سے مستغنی ہو جاؤں گا کہ کوئی یہاں میری تعریف کرتا ہے یا نہیں کرتا، کوئی مجھے اس پر پیسے دیتا ہے یا نہیں دیتا۔ نتیجتاً میں وہاں (آخرت) کا بن جاؤں گا۔
یہ تو ہو گئی پہلی صورت۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اگر میری فکر صحیح ہو گی تو میں آخرت کے لئے کام اس وجہ سے کروں گا کہ اللہ کا حکم ہے۔ اور میں اس پر کوئی صلہ نہیں مانگوں گا کیونکہ میں اپنی بندگی کو مستحضر رکھوں گا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں میرا اللہ پر کوئی حق نہیں ہے۔
حضرت مولانا اشرف سلیمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں رمضان شریف میں پانچ ختم قرآن ہوتے تھے۔ ان کے ہاں معمول تھا کہ دوران تراویح مخصوص وقفوں کے درمیان چائے پی جاتی تھی۔ جیسے یہاں خانقاہ میں آٹھ رکعت تراویح کے بعد پی جاتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف سلیمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اس کا انتظام ایک سال ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر سیال صاحب نے کیا تھا۔ عید کے بعد حضرت نے فرمایا: بھائی کتنا خرچ ہوا بتاؤ تاکہ میں دے دوں۔ انہوں نے کہا: حضرت خرچ کیا ہوا وہ تو پانی تھا جو میں نے پانی پلایا۔ حضرت نے بہت اصرار فرمایا مگر انہوں نے یہی کہا کہ وہ تو میں نے صرف پانی پلایا، پانی کے پیسے کیسے لوں؟ غور کریں کہ یہ کیا چیز تھی؟ در اصل یہ بات تھی کہ اس کو پتا تھا کہ حضرت کا مجھ پر کتنا حق ہے۔ اسے اپنی وہ خدمت اس حق کے مقابلہ میں ہیچ نظر آ رہی تھی اس لئے وہ بجائے کچھ مانگنے کے شرمندہ ہو رہا تھا۔ یہ تو ایک اللہ کے ولی کے سامنے کا نظارہ ہے۔ کیا خیال ہے اگر ہم کوئی نیکی کریں تو ہمیں اللہ کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے کہ یا اللہ جیسا حق تھا اور جیسا عمل تیری شان کے لائق ہے ویسا ہم نہیں کر سکے۔ یہی اصل چیز ہے اسی کو معرفت کہتے ہیں کہ کس منہ سے کہیں گے کہ یا اللہ میں نے یہ عمل کیا۔ اس کی بجائے یہ سوچ ہو کہ اے اللہ میں نے تو اس کو خراب ہی کیا ہو گا۔ اگر دل میں یہ خیال ہو گا کہ مجھ سے ٹھیک عمل نہیں ہو سکا تو ایسی صورت میں آدمی اللہ سے اور مانگے گا۔ مانگنے کی اجازت ہے، مانگنے کی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن جب انسان کے اوپر اپنی عبدیت منکشف ہوتی ہے تو اجازت ہونے کے با وجود بھی وہ کچھ نہیں مانگ سکتا بلکہ اس پر شرمندہ ہوتا ہے۔ یہ معرفت ہے۔ بہرحال یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ اگر ہم مانگیں بھی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن کم از کم ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک کو ویٹو پاور دے دیں۔ (نعوذ باللہ من ذلک) اللہ کے لحاظ سے یہ بہت چھوٹے لفظ ہیں لیکن محض سمجھانے کے لئے کہہ رہا ہوں کہ ہم اتنا تو کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک کو ویٹو پاور دے دیں کہ جس دعا کو وہ قبول فرمانا چاہے قبول فرمائے، جس کو نہ چاہے قبول نہ فرمائے۔ اللہ کی مرضی پہ اعتراض نہ ہو، دل تنگ نہ ہو۔ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔ عبدیت کی اتنی بات تو ہونی چاہیے۔ ہم مانگیں ضرور، مانگنے میں حرج نہیں ہے، مانگنے کی اجازت ہوتی ہے لیکن یہ بات کم از کم ہم سمجھ لیں کہ فیصلہ وہی کرے گا ہم نہیں کریں گے۔ اب اگر اس کے فیصلہ پر میرا دل تنگ ہو جائے کہ اس نے ایسا کیوں کر دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے زیادہ سمجھ رہا ہوں۔ ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾۔ اپنے عمل کو اللہ تعالیٰ کی عطا سے بڑا سمجھنا کتنی خطرناک بات ہے۔
چیونٹی نے یہی کہا کہ تو جانتا ہے میں اسی کا بندہ ہوں جس کا تو بندہ ہے۔ تو بادشاہ ہے لیکن تو بھی اس کا بندہ ہے میں چیونٹی ہوں لیکن میں بھی اس کا بندہ ہوں۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو دس چیزوں کو دس چیزوں سے تبدیل کرے وہ عقل مند ہے۔ میں کہتا ہوں کہ واقعی درست بات ہے۔ ایک علمی عقل مند ہوتا ہے اور ایک عملی عقل مند ہوتا ہے۔ علمی عقل مند اور ہے عملی عقلمند اور ہے۔ علمی عقل مند تمام چیزوں کو معلومات کی حد تک جانتا ہو گا کہ یہ ٹھیک ہے اور یہ غلط ہے۔ یہ قال ہے۔ عملی عقل مند اس قال کو حال میں بدل دے گا اور جیسا ہونا چاہیے وہ خود اس طرح ہو جائے گا۔ مثلاً عملی طور پر صبر کے ذریعے جزع فزع کو ختم کرے۔ ذکر کے ذریعے سے غفلت و نسیان کو ختم کرے۔ شکر کے ذریعے سے کفر کو ختم کرے۔ ایسا آدمی عملی عقل مند ہو گا۔ فرمایا:
متن:
یعنی آیات اللہ (اللہ کی نشانیوں) میں فکر کرنے سے معرفت پیدا ہوتی ہے اور امر اللہ (اللہ کے احکام اور افعال) میں فکر کرنے سے محبت جنم لیتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں فکر کرنے سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اور نفوس کی فنا میں فکر کرنے سے حیات اور زندگی پیدا ہوتی ہے۔
تشریح:
بالکل صحیح فرمایا۔ جس نے اللہ کے لئے جتنی فنا اختیار کی، اللہ اس کو اتنی بقا عطا فرما دے گا۔ جو جتنا فنا ہوا اللہ نے اس کو اتنی بقا نصیب فرما دی۔ جو فانی فی اللہ ہو جاتا ہے وہ باقی باللہ بن جاتا ہے۔
متن:
اے میرے عزیز! مخلوق میں تفکر کرنا جائز ہے مگر خالق میں تفکر کرنا جائز نہیں۔ اگر کوئی چاہے کہ ہر وقت مستی میں ڈوبا رہے تو اسے چاہیے کہ ہمیشہ عبودیت کے اثبات میں لگا رہے۔
تشریح:
عبدیت کا رنگ صبغۃ اللہ ہے، یعنی اللہ کا رنگ۔
متن:
قطعہ:
؂ نخشبی کہنہ وحدتش کہ رسد
چہ شوی واسطہ کہ مہ گوید
مشرک از سر وحدتش برسد
وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ گوید
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو عشق و محبت کے درد کی وجہ سے اتنا غم و اندوہ اور حزن و ملال ہوتا تھا کہ دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ماتم زدہ ہیں۔ ”قَالَ النَّبِيُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ: أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَی اللہِ تَعَالیٰ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَنْ طَالَ حُزْنُہٗ“ (إحیاء العلوم بتغییر قلیل، کتاب کسر الشہوتین، رقم الصفحۃ: 81/3، دار المعرفۃ، بیروت) ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے قریب ترین وہ شخص ہو گا جس کا حزن زیادہ ہو“ کسی بزرگ سے پوچھا گیا کہ حزن کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ”اَلْحُزْنُ جُزْءُ الرُّوْحِ إِذَا کَانَ لِأَجْلِ الْحَقِّ وَ سُرُوْرُ الْقَلْبِ إِذَا کَانَ لِأَجْلِ الْخَلْقِ“ یعنی حزن روح کا ایک حصّہ ہوتا ہے جب یہ حق کے لیے ہو، اور دل کی خوشی اور سرور ہوتا ہے جب یہ مخلوق (خلق) کے لیے ہو۔ اے میرے عزیز! جس دن تونگر اور مالدار سے غم و اندوہ کو ہٹایا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّي الْحُزْنَ“ یعنی حمد ہے اس ذات پاک اللہ تعالیٰ کی جس نے ہم سے رنج کو ہٹایا۔ اور یہی دعا فقیر کہتا ہے جب اس سے خوشی چھین لی جائے۔
تشریح:
یہ وہی فنا والی بات کی طرف اشارہ ہے۔ فنا اور بقا کو سمجھیں۔ یہ فرق ہے چیزوں کو own (اپنی مِلک) اور disown (غیر مِلک) کرنے کا۔ اگر میں تمام چیزوں کو own کرتا ہوں کہ یہ میری ہیں، اور اس وجہ سے میں باقی لوگوں سے نفرت کرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے چھین نہ لیں، اس چیز پہ قبضہ جماتا ہوں۔ یہ چیزوں کو own کرنا ہے، اپنے آپ کو چیزوں کا مالک سمجھنا ہے، اس کے برعکس اگر میں اپنے آپ کو اپنا بھی مالک نہیں سمجھتا تو یہ disown کرنا ہے۔ جو اپنے آپ کو فنا کرتا ہے وہ دنیا کی عارضی خوشی کو چھوڑتا ہے. دنیا کی خوشی اور راحت و آرام تو دل کا حزن ہے، روح کی پریشانی ہے. اس لئے فرمایا: اَلْحُزْنُ جُزْءُ الرُّوْحِ“۔ روح کی خوشی دنیا کی خوشی سے کنارہ کش ہونے میں ہے۔ روح اور نفس ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفس کی خوشی سے کنارہ کش ہونا روح کی خوشی ہے اور نفس کا حزن روح کا خوش ہونا ہے۔ دنیا دار آدمی کے نفس کو جب خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّي الْحُزْنَ“ جبکہ دین دار اور اللہ والے کو جب روح کی خوشی ملتی ہے تب وہ یہ کہتا ہے۔ لہٰذا روح کی خوشی تب ملتی ہے جب نفس کی خوشی چھین لی جاتی ہے۔ سبحان اللہ یہ بہت بڑا علم ہے کہ نفس کی خوشی چھوڑ دی جائے تو روح کی خوشی ملتی ہے اور مومن اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَذْھَبَ عَنِّي الْحُزْنَ“ کہتا ہے۔
متن:
دونوں جہانوں کی قیمت سے محبت کے راستے درد مندوں کا نالہ و فریاد زیادہ قیمتی ہے۔ ”إِنَّ اللہَ یُحِبُّ قَلْبًا حَزِیْنًا“ اللہ تعالیٰ قلبِ حزین یعنی غم آلودہ دلوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ درد مند سالک جو راستہ ایک دن میں طے کرتا ہے، وہی راستہ بے درد سالک ایک ماہ میں طے کرتا ہے۔
تشریح:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
متن:
پس ہر زمانے میں ایک اندوہ گیں اور غمزدہ ہوتا ہے کہ تمام دنیا اس کے درد کی پناہ میں زندگی بسر کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے اوصاف عالیہ میں سے ایک یہ تھا کہ وہ متواصل الحزن اور دائم الفکر تھے۔ ایک دفعہ دو شخص آپس میں بحث و مباحثہ اور منازعت کرتے تھے، ایک کہتا تھا: ”مَنْ عَرَفَ اللہَ تَعَالٰی زَالَتْ أَحْزَانُہٗ“ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا تو اُس کے غم اور حزن سب زائل ہو گئے اور دوسرا کہتا تھا کہ ”مَنْ عَرَفَ اللہَ تَعَالٰی طَالَتْ أَحْزَانُہٗ“ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی اُس کے غم بڑھ گئے۔ خواجہ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو کہا کہ اے فرزند! تو مجھے یاد کرتا ہے؟ میرے سینے کے تنور میں شوق و اندوہ (حزن) کی آگ بھڑکائی گئی ہے، تم نہیں جانتے کہ ہوا سے آگ زیادہ بھڑک اٹھتی ہے۔ حزن کا یہ راز اور رمز اُس کا حصّہ تھا۔ اے میرے عزیز! محبت اور الفت سے بڑھ کر کوئی اندوہ اور غم ایسا نہیں جو کہ اُس سے زیادہ فرحت افزا اور راحت آمیز ہو۔ ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ دس سال تک میں پانی کے آنسو روتا رہا۔ اور دس سال تک خون کے آنسو روتا رہا، اور دس سال ہوئے کہ میں ہنستا ہوں۔ قطعہ:
؂ شادمانی اندوہ است
دل جز ایں شادمانی طلب نہ کند
آنچہ اندوہ کرد در دل من
در دل دیگرے طرب نہ کند
”دردِ محبت اور غمِ عشق میں سراپا خوشی اور شادمانی ہے، اور دل کو اُس کے سوا کوئی خواہش نہیں۔ یہی غم و اندوہ (محبت) میرے دل میں جو کچھ کرتا ہے، وہ خوشی اور طرب دوسروں کے دلوں میں نہیں کرتا“
تشریح:
میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ یہ باتیں ہم شاعروں کی شاعری میں دیکھتے ہیں وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن وہ زیادہ تر بے موقع باتیں کرتے ہیں۔ وہ جن کے لئے یہ باتیں کرتے ہیں ان پر یہ چیزیں صادق نہیں آتیں۔ ان کے ساتھ صرف ایک کاغذی سا تعلق ہے۔ جو لا فانی کے ساتھ محبت کرتا ہے ان کا درد واقعی درد ہوتا ہے۔ میرؔ بھی کہتا ہے:
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
شاعر بھی غم کی باتیں کرتا ہے لیکن وہ دنیاوی محبت کے غم کی باتیں کر رہا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں تڑپ رہا ہے اس کی بات الگ ہے۔
متن:
”دردِ محبت اور غمِ عشق میں سراپا خوشی اور شادمانی ہے، اور دل کو اُس کے سوا کوئی خواہش نہیں۔ یہی غم و اندوہ (محبت) میرے دل میں جو کچھ کرتا ہے، وہ خوشی اور طرب دوسروں کے دلوں میں نہیں کرتا“
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ عاشقان حق کے زمرہ میں سے تھے۔ اور ایک سوختہ دل عاشق تھے۔ ابیات:
؎ باز تر آمد زجان نعرۂ غوغا ز عشق
باز ازاں کوہ قاف آمدہ عنقائے عشق
سینہ کشادہ سنت فقر جانب دلہائے پاک
در شکم طور بیں طنطنہ ہائے عشق
عشق ندائے بلند کرد بآواز پست
گفت کہ بالائے عرش کنگر بالائے عشق
”روح کے اندر سے عشق کی وجہ سے ایک نعرہ بلند ہوا۔ یعنی کوہِ قاف کی بلندیوں سے عشق کا عنقا بر آمد ہوا۔ فقر نے اپنا سینہ پاک دلوں کے لیے کشادہ کیا ہے۔ کوہ طور کے پیٹ میں عشق کے طنطنے دیکھ لو۔ عشق نے نیچی آواز سے آواز بلند کر کے نعرہ لگایا کہ عرش کی بلندیوں پر عشق کا مینارہ بلند کیا گیا ہے“
پس اے میرے پیارے! لیلیٰ کا جمال مجنون کے عشق سے کہتا ہے کہ اے مجنون کے عشق! اگر میں غمزہ کروں، یعنی آنکھ کا اشارہ کروں تو لاکھوں مجنون صفت لوگ بے ہوش ہو جائیں گے۔ اور ہمارے غمزے، اور آنکھ کے اشارے کے شہید ہو جائیں گے، تو مجنون کا عشق بھی جواب میں کہتا ہے کہ اگرچہ تمہارا غمزہ مجنون کو فنا کرتا ہے، مگر تمہارا وصال و لطف اُس کو عالم بقا تک پہنچاتا ہے۔ اور ہر گھڑی اور ہر آن اُس کو مقام ارفع و اعلیٰ میں نوازتا ہے۔ ابیات:
؎ وصل تو گنج ست پنہاں ہم از خود
ہر کہ فانی شد ز خود مردانہ است
گو مرا در عشق خود فانی کنی
باقیت ہر جان خود شکرانہ است
”تمہارا وصال ایک ایسا خزانہ ہے جو کہ خود ہم سے بھی پوشیدہ ہے۔ جو کوئی عشق میں فانی ہوا وہ مرد ہے۔ اگر تم مجھے اپنے عشق میں فانی کرو گے تو ہماری جان اس نوازش عالی کے لیے شکرانہ ہے“
پس اے برادرِ عزیز! عشق کا متوالا بنا رہ کہ عشق کے محرم لوگ خود جانتے ہیں کہ عشق کی ایک حالت ہوتی ہے۔ نا اہل لوگوں کے لیے عشق ملامت اور بیماری کا سبب ہوتا ہے۔ عشق کی خلعتِ فاخرہ ہر کسی کو نہیں پہنائی جاتی نا مردوں اور مخنث ہیجڑوں کا عشق سے کیا واسطہ۔ بیت:
؎ تا نباشد ہم چوں موسیٰ عاشقے
ہر عصا در دست ثعبان کے شود
در کف گل کاںچ وجود آدمی ست
آنچناں خورشید پنہاں کے شود
”اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح عاشق نہ ہو تو ہر عصا اور چھڑی ہاتھ میں کب سانپ بن جاتی ہے۔ اس مٹھی بھر خاک میں جو کہ انسان کا وجود اور جسم ہے۔ اس طرح کا سورج کب اور کیسے چھپا اور پوشیدہ ہو جاتا ہے؟“
پس اے برادرِ عزیز! جو عشق کرنے کے قابل ہے وہ اعلیٰ مقام کے قابل ہوتا ہے اور جو کوئی عشق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا، وہ مقام عزت میں پذیرائی حاصل نہیں کر سکتا، چنانچہ ایک بزرگ نے نہایت اچھی بات فرمائی ہے کہ اے عاجز! اگر تو عشق کرنے کا خیال اور حوصلہ نہیں رکھتا، پس نادانی اور حماقت اختیار کر، کیونکہ ”أَکْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّۃِ بُلْہٌ“ (إحیاء العلوم، ربع المھلکات، بیان معنی النفس و الروح و القلب و العقل، رقم الصفحۃ: 23/3، دار المعرفۃ، بیروت) ”جنت والوں میں اکثریت نادانوں کی ہے“ جنت طلب کرنے والے کو سرور عالم سید الکونین ﷺ نے ابلہ اور نادان کہا ہے۔ بھلا جو کوئی کہ دُر و گوہر اور لعل و جواہرات کے لیے لایا گیا ہے وہ خرمروں اور کوڑیوں پر قناعت کرے، آخر اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے؟ ابیات:
؎ حضرت حق ہست دریائے قدیم
قطرۂ خورد است جنات النعیم
؎ چوں بدریا مے توانی راہ یافت
سوئے یک شبنم چرا باید شتافت
”اللہ تعالیٰ جل شانہٗ ایک عظیم و قدیم سمندر ہے، اور جنات النعیم اور ساری جنتیں اُس کے آگے ایک چھوٹا سا قطرۂ آب ہے۔ جب تم دریا کے پاس جا سکتے ہو، تو شبنم کے ایک قطرے کے لیے کیوں دوڑ دھوپ میں لگے ہو؟“
تشریح:
یعنی جب تم دریا تک جا سکتے ہو، اللہ نے وہاں تک جانے کا راستہ دیا ہے تو باقی چیزیں بھی اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مشکل نہیں ہیں۔
یہ مشکل مضمون ہے لیکن سمجھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ دیکھیں ذائقہ زبان کی صفت ہے، خوبصورت آواز شناخت ہے، یہ کان کی صفت ہے، خوبصورت خیال دماغ کی صفت ہے اور خوبصورت کلام زبان کی صفت ہے۔ یہ تمام چیزیں فانی ہیں۔ اگر اللہ توفیق دے تو ہم ان سے مزے لیتے ہیں۔ یہ مزے دنیا کے بھی ہوتے ہیں، یہ مزے جنت کے بھی ہوتے ہیں۔ دنیا کے مزوں کو چھوڑنے والے اور جنت کے مزوں کو حاصل کرنے والے زیادہ ہوشیار ہیں۔ ان کے لئے چیزیں استعمال ہو رہی ہیں۔ روح بھی لا فانی ہے۔ اللہ جل شانہ کی ذات کا ادراک، اللہ جل شانہ کی محبت اور اللہ جل شانہ کے قرب سے لطف اندوز ہونا روح کا عمل ہے۔ جس کا نفس جتنا زندہ ہے، وہ نفس سے مغلوب ہو کر سوچتا ہے لہذا وہ ان خوشیوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے نفس خوش ہوتا ہے۔ نفس کو دنیا کی چیزیں زیادہ عزیز ہیں۔ دنیا میں جو کوئی نفس کی خواہش پوری کرتا ہے تو اسے دنیا کی چیزیں ملتی ہیں لیکن اگر کوئی نفس کی خواہش کو پورا نہ کرے اور آخرت میں جنت کی لذات لے لے تو وہاں کی خوشیاں بھی انسان کو اس کے حواسِ خمسہ کے ذریعے ملیں گی، اور جو ان تمام حواس کی اصل اور نچوڑ ہے یعنی روح، اس کو اللہ کے ساتھ جو تعلق نصیب ہو جاتا ہے، جو لذتِ قرب ملتی ہے اسے آپ آنکھ سے نہیں محسوس کر سکتے، کان سے محسوس نہیں کر سکتے، زبان سے محسوس نہیں کر سکتے، سوچ سے محسوس نہیں کر سکتے وہ صرف روح ہی کا ایک کرشمہ ہے۔ جو حضرات اللہ تعالیٰ کے عُشَّاق ہوتے ہیں وہ روح کے تقاضوں پہ چل رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے میں نے کہا کہ یہ مشکل مضمون ہے، آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
یہاں یہ فرمایا کہ انسان جو کچھ جنت میں حاصل کرتا ہے یہ اللہ جلّ شانہ کے سامنے بس ایک قطرۂ آب ہے، جنتوں کے اندر جو کچھ مزے ہیں وہ اللہ پاک کے دیدار اور اللہ جلّ شانہ کے قرب کے مقابلہ میں ایک قطرہ ہیں۔ جو جنت پہ قانع ہو گئے تو وہ اس قطرہ پہ قانع ہو گئے، ان کی پرواز یہاں تک ہی ہے۔ لیکن جو اس سے آگے ہے وہ مرد ہے۔ جو جنت کی نعمتوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے قرب کے مقابلہ میں ہیچ سمجھے وہ اصل مرد ہے۔
اللہ جلّ شانہ نے ہمیشہ مخلوق کے مقام کے مطابق کلام فرمایا ہے، اپنے مقام کے مطابق نہیں فرمایا۔ اگر ایسا ہوتا تو مخلوق اس کو سمجھ ہی نہ سکتی۔ اس وجہ سے حکم دیا کہ مجھ سے جنت مانگو تاکہ سارے لوگ اس میں آ جائیں۔ لیکن عارفین اس سے آگے کا سوچتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں جنت مانگنے کی اجازت تو ہے لیکن یہ اُس اصل کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ پھر وہ اللہ کو طلب کرتے ہیں۔
حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ جن کا نام ہمارے شجرہ میں موجود ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہیں۔ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے جنت ان کے سامنے کر دی۔ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا: اے اللہ! اگر یہ میری ساری عمر کی محنت کا نتیجہ ہے تو میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جنت کو ہٹایا اور ان پر اپنی تجلی فرمائی۔ اسی تجلی کے دوران ان کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف پرواز کر گئی۔ یہ میں کسی عام کتاب کا حوالہ نہیں بتا رہا بلکہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”تذکرہ مشائخ چشت“ میں یہ واقعہ مرقوم ہے۔ کیونکہ حضرت خواجہ سدید الدین حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ چشتیہ سلسلہ کے بڑے حضرات میں سے ہیں۔
متن:
؎ ہر کہ داند گفت با خورشید راز
کے تواند ماند با یک ذرہ باز
ہر کہ کل شد ذرہ را با اوچہ کار
چونکہ جان شد عضو را با اوچہ کار
تشریح:
”جو کوئی سورج کو اپنا رازداں بنا کر اپنا راز کہہ سکتا ہے تو اس کو ایک ذرہ کو بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
تشریح:
اس فقرے میں بھی بہت کچھ ہے۔ ہم لوگوں کو اگر کوئی حال حاصل ہو جائے اور ہم ہر ایک شخص کو کہتے پھریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس کی قدر نہیں ہے، اسی لیے تو سب کے سامنے بیان کرتے پھرتے ہیں۔
متن:
جو کوئی ”کُل“ ہو جائے تو ذرے کا اُس سے کیا کام؟ اور جب جان ہو جائے تو ایک عضو کا اس سے کیا واسطہ؟“
اے پیارے بھائی! جنت کی طلب میں ایک دنیا اُمنڈ آئی ہے اور ایک آدمی بھی عشق کا خواہاں نظر نہیں آتا، یہ اس لیے کہ جنت نفس اور دل کی خواہش کا مقام ہے اور عشق روح کی جائے قیام ہے۔
تشریح:
امید ہے اب بات سمجھ آ رہی ہے۔ یہ الہامی مضامین ہیں۔ ورنہ میں نے یہ پہلے پڑھا ہوا نہیں تھا، ساتھ ساتھ ہی پڑھ رہا ہوں لیکن الہامی طور پر اللہ پاک نے میری زبان سے یہ مضامین ادا کروا دئیے۔
متن:
حقیقت میں ہزاروں لوگ خرمرہ اور کوڑی کے خواہاں ہیں، مگر ایک آدمی بھی دُر و گوہر کا طلب گار نہیں۔ کیونکہ عشق تو جان کے وصال کا واسطہ اور ذریعہ ہے اور ہر کس و نا کس کو اس کی ہمت کیونکر ہو سکتی ہے۔ مثنوی:
؎ عشق جمال جاناں دریائے آتشین است
گر عاشقی بسوزی زیرا کہ روئی ایں است
تور درہ چنانی زیر آنکه مردں را
اول قدم دریں ره بر چرخ هفتمین است
کار قوی ست عالی اندر رہ حقیقت
در ہر ہزار سالے یک مرد راہ بین است
تشریح:
ایک ہزار سال میں کوئی ایک مرد آدمی پیدا ہوتا ہے جو راستے کو جانتا ہے۔
در ہزار سالے یک مرد راہ بین است
متن:
”معشوق کے حُسن و جمال کی محبت آگ کا دریا ہے، اگر تم عاشق ہو تو تم ضرور جل اُٹھو گے، کیونکہ اُصول یہی ہے تم ایسے راهرو ہو اور اس طرح کے راہرو مسافروں کا پہلا قدم ساتویں آسمان پر ہوتا ہے۔ راہِ حقیقت قوی اور عالی ظرف لوگوں کا کام ہے، اس لیے کہیں ہزاروں سالوں میں کوئی راہ شناس آدمی پیدا ہوتا ہے“
قَال النَّبِيُّ ﷺ: ”إِذا أَحَبَّ اللہُ عَبْدًا وَّ عَشِقَ عَلَیْہِ فَیَقُوْلُ اللہُ تَعَالٰی عَبْدِيْ أَنْتَ عَاشِقِيْ وَ مُحِبِّيْ فَأَنَا عَاشِقٌ لَّکَ وَ مُحِبٌّ لَّکَ“ ”اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا“ (شرح تمہیدات، رقم الصفحۃ: 198، طبع حیدر آباد دکن، سنہ 1364ھ) ”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے ساتھ محبت اور عشق کرے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندے! تم میرے عاشق اور محبت کرنے والے ہو، تو میں بھی تمہارا عاشق اور محبت کرنے والا ہوں۔ اے ہمارے خدا ہمیں یہ نصیب فرما“
تشریح:
ہمارا اسی مضمون کا ایک کلام ہے جو میرے خیال میں کافی لوگوں کو ہضم نہیں ہو سکتا۔ وہ سنا دیتا ہوں۔
پلا ساقی ہم کو شرابِ محبت
کہ ہم نے ہے کھولی کتابِ محبت
فضائل کے قصے نہ زاہد سے سننا
اسے کیا ہے معلوم ثوابِ محبت
قیامت میں معلوم ہو گا پھر اس کو
کہ ملتا کیا ہے جوابِ محبت
کتابوں میں ملتا کہاں ہو گا جو ہے
طریقِ محبت نصابِ محبت
غزل ہائے شبیرؔ کو سننا ہے شوق سے
نہیں ہے بس اک یہ ہے بابِ محبت
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن