اصلاحی بیان






اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ!

فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ: 183)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو‘‘۔

’’عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرَ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: يَآ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهٗ «قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ شَهْرٌ مُبَارَكٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ فَرَضَ اللّٰهُ صِيَامَهٗ وَ جَعَلَ قِيَامَ لَيْلِهٖ تَطَوُّعًا، فَمَنْ تَطَوَّعَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِّنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ، وَ مَنْ أَدّٰى فِيْهِ فَرِيْضَةً كَانَ كَمَنْ أَدّٰى سَبْعِينَ فَرِيْضَةً، وَ هُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَ الصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَ هُوَ شَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَ هُوَ شَهْرٌ يُّزَادُ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ فِيْهِ، مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهٗ عِتْقُ رَقَبَةٍ وَّ مَغْفِرَةٌ لِّذُنُوْبِهٖ» قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ قَالَ: «يُعْطِي اللّٰهُ هٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَآءٍ وَ مَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا كَانَ لَهٗ مَغْفِرَةٌ لِّذُنُوْبِهٖ وَ سَقَاهُ اللّٰهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَّا يَظْمَأُ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ وَ كَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْئًا، وَ هُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهٗ رَحْمَةٌ وَّ أَوْسَطُهٗ مَغْفِرَةٌ وَّ آخِرُهٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ، وَ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْكِهٖ فِيْهِ أَعْتَقَهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ‘‘۔ (ابن أبي أسامة، الحارث بن محمد بن داهر، بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، حدیث نمبر: 321)

صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ

ترجمہ: ’’سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں شعبان کے آخری دن میں خطبہ ارشاد فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا ایک مہینہ سایہ فگن ہے، جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینہ کے روزوں کو اللہ نے فرض کیا ہے اور اس کی رات میں قیام کرنے کو نفل قرار دیا ہے، جو شخص اس ماہ میں کسی بھی نیکی کے ساتھ نفل ادا کرے گا، وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اس کے غیر میں فرض ادا کیا، اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے، یہ ہمدردی کا مہینہ ہے اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دیا تو وہ اس کے لیے اس کی گردن کی آزادی ہو گی اور اس کے گناہوں کی مغفرت ہو گی۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر شخص کے پاس ایسی چیز نہیں ہے کہ جس سے وہ روزہ دار کو افطار کرائے! تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ ثواب اللہ اس کو بھی عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ یا ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی کے ساتھ کسی کو افطار کرائے۔ اور جس نے کسی روزہ دار کو سیراب کر دیا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا سبب ہو گا اور اللہ اس کو میرے حوض سے اتنا پانی پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی اور اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر ہو گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر میں کمی کی جائے، اور یہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کا اول حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جھنم سے آزادی ہے، اور جس شخص نے اس مہینہ میں اپنے غلام سے (کام میں) تخفیف کر دی تو اللہ اس کو جھنم سے آزاد کر دے گا‘‘۔

الحمد للہ! اللہ پاک ہم پر بہت بڑا فضل فرمانے والے ہیں، بلکہ اللہ کا فضل ہم پر ہو چکا ہے، کیوں کہ اللہ پاک کے لئے ماضی، حال اور مستقبل برابر ہوتے ہیں۔ اللہ کا فضل یہ ہے کہ اللہ جل شانہ ہمیں بہت جلد ایسا مہینہ عطا فرمانے والے ہیں جو نیکیاں کمانے کے لحاظ سے، اللہ پاک کے قریب ہونے کے لئے، اپنے گناہوں کو دھونے کے لئے اور نفس کی اصلاح کے لئے بہترین مہینہ ہے، جس مہینہ کے لئے آپ ﷺ منتظر رہتے اور جب رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے:

’’اَللّٰهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘۔ (مجمع الزوائد، حدیث نمبر: 4774)

ترجمہ: ’’اے اللہ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما دے اور ہمیں رمضان شریف تک پہنچا دے‘‘۔

رمضان شریف تک پہنچنا آپ ﷺ کی آرزؤں میں سے ایک آرزو ہوتی تھی۔ کیا ہم لوگوں کے دلوں میں بھی آج کل یہ آرزو پائی جاتی ہے کہ رمضان شریف تک ہم پہنچ جائیں؟ آپ ﷺ کی سنتوں پر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی سنتوں پر عمل کیا جائے، ظاہری سنتیں تو یہ ہیں کہ ہم ظاہری اعمال آپ ﷺ کی سنت کے مطابق کریں، نماز آپ ﷺ کے طریقہ پر پڑھیں، روزہ آپ ﷺ کے طریقہ پر رکھیں، زکوٰۃ آپ ﷺ نے جس طریقے پر دینے کا حکم فرمایا ہے، اس طریقہ پر دیں، حج آپ ﷺ کے طریقہ پر ادا کریں، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب چیزیں آپ ﷺ کے طریقہ پر ہوں۔ یہ تو ظاہر کی سنتیں ہیں۔ اور باطن کی سنت یہ ہے کہ آپ ﷺ جن چیزوں کو پسند فرماتے تھے ہم بھی ان چیزوں کو پسند کریں، جن چیزوں سے آپ ﷺ نفرت فرماتے تھے ان سے ہم بھی نفرت کریں۔ اللہ جل شانہ نے ہمیں بہت پیارے نبی عطا فرمائے ہیں اس لیے ہمیں دل و جان سے آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ رمضان کا انتظار کیا جائے۔

رمضان شریف میں کیا ہے؟ یہ میں اور آپ نہیں جانتے۔ ہم لوگوں کی مثال اندھوں کی سی ہے کیوں کہ ہم ایمان بالغیب رکھتے ہیں اور ایمان بالغیب کا معنی یہ ہے کہ جس چیز کو دیکھا نہ ہو، جس چیز کا مشاہدہ نہ کیا ہو، اس کو کسی بتانے والے کے بتانے کی وجہ سے مان لیا جائے۔ بتانے والا کون ہے؟ وہ اللہ پاک کے محبوب، رحمۃ اللعلمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

آپ ﷺ نے رمضان کے بارے میں کیا فرمایا؟ یہ بات میں ابھی عرض کرنے لگا ہوں۔ بتانے والے ایک صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ شعبان کے آخری دن آپ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا، الحمد للہ اس سنت پر بھی عمل ہو گیا، اللہ کا شکر ہے، کیوں آج شعبان کا آخری دن ہے۔ شعبان کے آخری دن میں آپ ﷺ نے خطبہ دیا، اس خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جو مبارک مہینہ ہے اور اس مہینہ میں ایک رات ہے جو لیلۃ القدر کہلاتی ہے، لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر وہ رات ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے یعنی ایک شخص نے لیلۃ القدر میں صرف ایک پارہ پڑھ لیا، وہ ایسا ہے کہ جیسے ہزار مہینے ہر رات کے اندر ایک پارہ پڑھا ہو۔ سبحان اللہ! ستائیسویں کو لیلۃ القدر کا امکان زیادہ ہوتا ہے، یہ نہیں کہ صرف ستائیسویں کو لیلۃ القدر ہوتی ہے، لیلۃ القدر کسی بھی طاق رات میں ہو سکتی ہے بلکہ جفت راتوں میں بھی امکان ہوتا ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ لیلۃ القدر کو طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یہ نہیں فرمایا کہ لیلۃ القدر طاق راتوں میں ہی ہے، البتہ زیادہ امکان طاقوں راتوں میں ہے۔

ستائیسویں رات کو لیلۃ القدر کا سب سے زیادہ امکان ہوتا ہے، پھر باقی طاق راتوں میں اور پھر سب سے آخر میں جفت راتوں میں بھی اس کا امکان پایا جاتا ہے۔

سمجھانے کے لئے عرض کرتا ہوں، ویسے تو اللہ کو معلوم ہے کہ کیا حقیقت ہے؟ صرف سمجھانے کے لئے عرض ہے کہ ستائیسویں رات کو لیلۃ القدر کا سو فیصد میں سے ساٹھ فیصد امکان ہے، باقی طاق راتوں میں تیس فیصد اور جفت راتوں میں دس فیصد امکان ہے۔ اگر لیلۃ القدر جفت رات میں آ گئی تو امکان تو تھا، اگرچہ دس فیصد ہی سہی لیکن امکان تو بہر حال تھا، آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ دس فیصد کا یہ مطلب ہے کہ لیلۃ القدر چھ سالوں میں ستائیسویں رات کو، تین سالوں میں باقی طاق راتوں میں اور ایک سال جفت راتوں میں ہوتی ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے، یہ ممکن ہے۔

اب میں آپ کو یہی بات ایک دنیا کی مثال سے عرض کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ دنیا کی باتیں لوگوں کو بہت جلد سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ ایک شخص کسی جگہ ملازمت کے لئے گیا، اس کو بتایا گیا کہ دس دن نوکری ہے، ہر دن آپ کو ہزار روپے ملیں گے، لیکن ایک دن ایسا ہے کہ جو آپ کو بتایا نہیں جائے گا لیکن اگر آپ نے اس دن بھی کام کر لیا تو آپ کو ایک ارب روپے ملیں گے۔ اپنے دل سے پوچھیں کہ اگر آپ لوگوں کے پاس یہ موقع ہو تو آپ کتنے دن کام کریں گے؟ پورے دس دن۔ کیوں کہ ارب روپے چھوڑنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ اب ایک آدمی کہے کہ میں نے تو نو دن کام کیا تھا، میں نو ہزار روپے کا کیا کروں؟ تو اس کو یہی کہا جائے گا کہ بھائی! آپ کو پہلے بتایا تو تھا، آپ بھی اس دن میں کام کر لیتے، آپ کو کس نے روکا تھا؟ بس یہی بات ہے۔ رمضان کی آخری دس راتوں میں ستائیسویں رات کو بھی لیلۃ القدر کا امکان، طاق راتوں میں بھی امکان اور جفت راتوں میں بھی امکان ہوتا ہے۔ لہذا مطلب یہ ہوا کہ ہم ہر رات میں شب بیداری کریں، کیوں کہ آپ ﷺ کی یہی سنت ہے، آپ ﷺ خود بھی آخری عشرہ میں شب بیداری فرماتے تھے اور باقی خاندان والوں کو بھی جگاتے تھے، یہ بھی سنت ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہمیں یہ کام بھی کرنا چاہیے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں طریقہ یہ تھا کہ آخری عشرے میں جب راتیں لمبی ہوتیں تو تین مرتبہ قرآن ختم کیا جاتا، چھ راتوں میں ایک ختم، ستائیسویں رات کو دوسرا ختم اور اٹھائیسویں اور انتیسویں رات کو تیسرا ختم کیا جاتا۔ اگر ستائیسویں رات جس میں لیلۃ القدر کا امکان سب سے زیادہ ہے یعنی دس سالوں میں چھ مرتبہ لیلۃ القدر ستائیسویں رات میں ہونے کا امکان ہے، ایک قرآن ختم کیا جاتا تو اس کی برکت سے حضرت اور ان کے ساتھیوں کو ہر مہینہ نہیں بلکہ ہزار مہینوں تک ہر رات کے اندر ایک ختمِ قرآن کا ثواب مل رہا تھا۔ سبحان اللہ!

میں حضرت کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ حضرت کے ہاں کا یہ معمول میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، یہ آنکھوں دیکھی چیز کی گواہی دے رہا ہوں، جو لکھی ہوئی چیزیں ہیں وہ تو بہت زیادہ ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کی آپ بیتی پڑھیں، حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ کا رمضان، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا رمضان، حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا رمضان اور حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری رحمۃ اللہ علیہ کے رمضان کا کچھ مطالعہ تو کریں۔

خدا کے بندو! اپنے بزرگوں کی سوانح حیات پڑھا کرو، انہوں نے کیسی عجیب زندگی گزاری ہے، کیا ہم بھی اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں یا ہم صرف سوتے رہیں گے؟ میں آپ کو صحابہ کی باتیں بتاتا لیکن ان کے بارے میں لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ تو بڑے لوگ تھے، ہم ان کی طرح کیسے ہو سکتے ہیں؟ شیطان نے ہمیں بہت آسانی کے ساتھ ڈاج کرنے (دھوکہ دینے) کے لئے ایک بات سمجھا دی ہے کہ وہ تو بڑے لوگ تھے، کہاں وہ اور کہاں ہم؟ ہم کیسے ان کی طرح کر سکتے ہیں؟ لیکن یہ تو میں اِس دور کی بات کر رہا ہوں، اِس دور میں بھی اللہ کا شکر ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں، الحمد للہ! اللہ نے مجھے بڑے عجوبے دکھائے ہیں، حضرت کی بات تو بتا دی ہے، ایک آدمی الحمد للہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جو ایک لاکھ طواف کر چکا تھا، الحمد للہ ایسے پہلوان لوگ موجود ہیں اور وہ بالکل ہشاش بشاش بیٹھے ہوئے تھے، مجھے کہا گیا کہ آپ جا کر ان کو چائے پلا دیں، میں ان کو چائے پلانے کے لئے حرم شریف میں گیا تو ان حضرت کے ساتھ بات چیت بھی ہو گئی، الحمد للہ۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا میں عجیب عجیب لوگ ہیں، کیا ہم ان جیسے نہیں ہو سکتے؟ بل گیٹس ہونا تو بہت سارے لوگ چاہتے ہیں، بھائی! بل گیٹس کی کتنی دولت اس کے کام آئی؟ بتائیں کہ کتنی دولت اس کے کام آ رہی ہے؟ اس کی کتنی دولت ہے؟ یہ میں نہیں کہہ رہا، اگر پوری دنیا بھی اس کی ہو تو میں کیا کروں؟ لیکن اس کے کام کتنی دولت آ رہی ہے؟ یہ بتائیں۔

لیکن جس شخص نے اس رات میں ایک ختمِ قرآن کیا تو یہ رات پوری کی پوری اس کو کام آئے گی، اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں ہو گا، لیکن یہ چیزیں ہم حاصل نہیں کرنا چاہتے، ہمیں حاصل کرنی چاہئیں، یہ ہمارے لئے پیغام ہے کہ ہمیں یہ چیزیں حاصل کرنی چاہئیں۔

اللہ والو! آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ یہ بہت کام آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک قرب بالفرائض ہے اور ایک قرب بالنوافل، قرب بالفرائض کے بارے میں فرمایا کہ اس سے بڑی چیز کوئی نہیں اور قرب بالنوافل کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ذریعے بندہ ترقی کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے، کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، میں اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔

وہ لوگ بھی بیوقوف ہوں گے جو نوافل کے لئے فرض چھوڑ دیں گے، کیوں کہ اس حدیث کا پہلا حصہ بتا رہا ہے کہ قربِ خدا حاصل کرنے کے لیے فرض سے بڑی چیز کوئی نہیں ہے۔ اور وہ لوگ بھی بیوقوف ہوں گے جو فرض کے لئے نفل چھوڑ دیں گے، لہذا وہ شخص محرومی کی طرف جا رہا ہے جو فرض پر قانع ہو کر نفل چھوڑ دے کیوں کہ نوافل کا فائدہ یہ ہے کہ اگر فرضوں میں کمی رہ گئی تو نفل کے ذریعے پوری کردی جائے گی۔ کیا خیال ہے کہ ہمارے سارے فرائض مکمل ہیں؟ کیا فرائض کے معاملے میں اطمینان ہے؟ کیا ہمیں نوافل کی ضرورت نہیں ہو گی؟ ظاہر ہے کہ ہمیں ضرورت ہو گی، اب اگر اسی بنیاد پر میں عرض کروں کہ دن میں جتنے فرائض ہیں، کم از کم اتنے نوافل تو پڑھنے چاہئیں، ان شاء اللہ فائدہ ہی ہو گا، نقصان تو نہیں ہو گا۔ نفل نمازوں کی سردار تہجد کی نماز ہے۔ تہجد کی نماز کیا ہے؟ سبحان اللہ ایسی عجیب نماز ہے کہ اس کے ساتھ ہمارا دین اور دنیا دونوں وابستہ ہیں، تہجد کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ تہجد کے وقت اللہ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ "ہے کوئی تکلیف میں مبتلا شخص کہ میں اس کی تکلیف دور کروں؟ ہے کوئی پریشان حال کہ میں اس کی پریشانی دور کروں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ ہے کوئی ایسا؟ ہے کوئی ایسا؟" مسلسل یہ آواز لگ رہی ہوتی ہے، آج اگر کمی ہے تو ان چیزوں پر اعتقاد کی کمی ہے، میرے پاس لوگ اپنے اپنے مسائل لے کر آتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ ان کی اپنی سمجھ بوجھ ہے۔ میں ان کو کہتا ہوں کہ تہجد کی نماز کے بعد اللہ پاک سے مانگو۔ جب میں یہ کہتا ہوں تو مجھے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے میں نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے، میں گپ شپ نہیں کر رہا، واقعتًا وہ مجھے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے میں نے ان کے ساتھ مذاق کیا ہے یا ان کو ٹال دیا ہے یا ان کو کچھ دینا نہیں چاہتا حالاں کہ صحابہ کا طریقہ تو یہی تھا اور آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’مَآ اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2641) جس راستے پر میں چلا ہوں، جس پر میرے صحابہ چلے ہیں وہی راستہ راہِ نجات ہے۔ آپ بتائیں صحابہ میں کتنے عامل تھے؟ صحابہ کے عاملوں کے کوئی نام معلوم ہیں؟ لیکن تہجد کے وقت نماز میں کھڑے ہونے والے کتنے صحابہ تھے؟ با قاعدہ ان کا ذکر قرآن کی سورۃ مزمل میں آیا ہے۔ لہذا ہم صحابہ کے طریقے پر چلیں کیوں کہ صحابہ کے طریقے کو راہِ نجات بتلایا گیا ہے کہ ’’مَآ اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ‘‘۔ یعنی جس راستے پر میں چلا ہوں، جس راستے پر میرے صحابہ چلے ہیں وہ راہِ نجات ہے۔ اگر یہ بات میں سمجھ لوں تو مجھے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ اللہ کے حضور کھڑا ہونا چاہیے، دعا کرنی چاہیے، مانگنا چاہیے۔ جتنی عاجزی سے مانگو گے اتنی ہی کامیابی ہے، اللہ سے مانگو، سب سے پہلی چیز جو اللہ سے مانگو، وہ ہدایت مانگو کیوں کہ سب سے اعلیٰ اور ارفع چیز جو دنیا میں ہو سکتی ہے وہ ہدایت ہے۔ اور ہدایت کی دعا تو ہمیں اس طرح سکھائی گئی ہے کہ اسے ہر شخص کر ہی لیتا ہے، سورۂ فاتحہ میں ہے: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ 0 صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ﴾۔ (الفاتحہ: 5-6)

ترجمہ: ’’ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما، ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا، نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۔

یہ دعا ہم روزانہ کتنی دفعہ کرتے ہیں؟ ہر رکعت کے اندر یہ دعا کرنی ہوتی ہے، اگر یہ دعا نہیں کی تو نماز ناقص ہو گی۔ اب بھی آپ اشارہ نہیں سمجھے! ہدایت بہت بڑی چیز ہے، اگر یہ چیز رہ گئی تو سب چیزیں رہ گئیں۔ آپ نے ساری عمر بادشاہت میں گزاری لیکن ہدایت نہیں ملی تو سب ختم۔ سارے لوگ آپ کے ہاتھ چوم رہے ہوں، آپ کی عزت کر رہے ہوں، آپ کے آگے پیچھے چل رہے ہوں، اگر ہدایت نہیں ملی تو کچھ بھی حاصل نہ ہوا، سارا کچھ ضائع ہو گیا اور اگر ہدایت مل گئی تو سب کچھ حاصل ہو گیا۔ حدیث شریف موجود ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں جو میلے کپڑوں والے، پراگندہ بالوں والے، پریشان حال، راستے پر چلیں تو کوئی ان کو سلام نہ کرے، اگر کسی کو مشورہ کرنا ہو تو کوئی ان کو مشورہ میں نہ بلائے لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام یہ ہو گا کہ اگر وہ کسی چیز کے لئے اللہ پاک پر قسم کھائیں تو اللہ پاک ان کی لاج رکھتے ہوئے قسم کو پورا کر دے گا۔ یہ ہے ہدایت۔ لہذا اگر ہدایت مل گئی تو بے شک آپ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ ہو، آپ کے پاس ذرّہ بھی نہ ہو، پھر بھی آپ کے پاس سب کچھ ہے کیوں کہ آپ کے پاس اللہ ہے اور اگر ہدایت نہیں ملی تو کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ وقت گزر جائے گا، سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔

اب میں ذرا آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کتنے لوگ ہیں جو سورۂ فاتحہ نماز میں پڑھتے ہیں، اس بات کی طرف کبھی بھی ذہن گیا ہو؟ ’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کے اندر میں کیا مانگ رہا ہوں؟ کبھی ذہن اس بات کی طرف گیا؟ بلکہ اس آیت کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ یاد بھی نہیں ہوتا کہ میں نے کیا پڑھا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ان چیزوں سے غافل ہیں، اس لیے ان چیزوں کے بار بار تذکرے ہونے چاہئیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کو اللہ پاک کے فضل و کرم سے بہت کچھ معلوم تھا لیکن اپنے اعمال کو تازہ رکھنے کے لئے ایک دوسرے سے ان چیزوں کے تذکرے کیا کرتے تھے، ان کے ہاں دنیاوی تذکرے نہیں ہوتے تھے، وہ تو معلوم نہیں کب اور کس وقت دنیاوی باتیں کرتے تھے؟ لیکن ایمان کے تذکرے، اعمال کے تذکرے، آپ ﷺ کی صحبت کے تذکرے اور آپ ﷺ کی فرمائی ہوئی باتوں کے تذکرے آپس میں صبح شام ہوتے رہتے تھے۔ ٹھیک ہے کہ ہم آپ ﷺ کے دور میں نہیں ہیں، یہ صحیح ہے، ہم وہ نہیں ہیں لیکن مجھے بتائیں کہ آپ ﷺ کی احادیث شریفہ موجود ہیں یا نہیں؟ جب احادیث موجود ہیں تو یہ احادیث آپ ﷺ کے تذکرے ہیں، کبھی کبھی ہم آپس میں احادیث شریفہ کے تذکرے کر لیا کریں۔ ابھی ما شاء اللہ تذکرہ ہی ہو رہا ہے۔ حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:

’’فَمَنْ تَطَوَّعَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِّنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ‘‘

رمضان کے مہینہ میں اگر کوئی شخص نفل کام کرے تو ایسا ہے جیسا کہ اس نے فرض کام کر لیا۔ مثلاً: کوئی شخص نفل نماز پڑھ لے تو ایسا ہے کہ جیسے اس نے فرض پڑھ لیے۔ یہ کون فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ فرما رہے ہیں۔

’’وَ مَنْ أَدّٰى فِيْهِ فَرِيْضَةً كَانَ كَمَنْ أَدّٰى سَبْعِينَ فَرِيْضَةً فِیْمَا سِوَاہٗ‘‘

اور جو شخص رمضان میں کوئی فرض کام کر لے تو ایسا ہے جیسے اس نے دوسرے دنوں میں ستر فرض ادا کیے۔ ہم الحمد للہ ہر روز پانچ فرض نمازیں پڑھتے ہیں، اس کے بدلے میں ہمیں پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے، رمضان شریف میں ہمیں سات سو فرض نمازوں کا ثواب ملے گا۔ ان شاء اللہ۔

’’وَ ھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ‘‘

اور یہ صبر کا مہینہ ہے، سبحان اللہ۔ جب رمضان صبر کا مہینہ ہے تو اللہ پاک نے فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ: 153)

ترجمہ: ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔

لہذا جو روزہ دار ہیں، ان کے ساتھ اللہ ہے۔ سبحان اللہ۔

’’وَ الصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ‘‘

اور صبر کا اجر جنت ہے۔

’’وَ ھُوَ شَھْرُ الْمُوَاسَاۃِ‘‘

اور یہ خیر خواہی کا مہینہ ہے، ایک مؤمن دوسرے مؤمن کے ساتھ خیر خواہی کرے، بغض و کینہ اور اس قسم کی دوسری چیزیں رمضان شریف میں ہم اپنے دلوں سے نکال دیں۔

بعض لوگوں نے فرض کر لیا ہے کہ زکوٰۃ رمضان شریف میں نکالتے ہیں حالاں کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے، جس وقت کسی شخص پر پہلی مرتبہ زکوٰۃ فرض ہوئی یعنی سال گزر گیا تو بس وہی تاریخ زکوۃ کی تاریخ ہے، وہ شخص اسی تاریخ کو زکوٰۃ نکالے، رمضان شریف کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن لوگوں نے فرض کر لیا ہے کہ رمضان شریف میں ہی زکوٰۃ نکالتے ہیں۔ خیر! یہ تو علمی بات ہے، اس کی اصلاح فرما دیجئے گا۔

لیکن ابھی میں یہ عرض کرتا ہوں کہ رمضان شریف کے آنے سے پہلے پہلے ہم اپنے دلوں کو کینہ سے، حسد سے اور بغض وغیرہ سے صاف کر لیں۔

’’وَ هُوَ شَهْرٌ يُّزَادُ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ فِيْهِ‘‘

اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔

’’مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهٗ عِتْقُ رَقَبَةٍ وَّ مَغْفِرَةٌ لِّذُنُوْبِهٖ‘‘

جس شخص نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، پہلے خیر خواہی کے بارے میں بتا دیا کہ جس نے کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرایا، اس کو کیا ملے گا؟ آگے اس کے بارے میں فرمایا:

’’كَانَ لَهٗ عِتْقُ رَقَبَةٍ‘‘

اس کی گردن آگ سے آزاد کر دی جائے گی۔

’’وَمَغْفِرَۃٌ لِّذُنُوْبِہٖ‘‘

اور اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ سبحان اللہ یہ کتنے بڑے اجر والے اعمال ہیں!

’’وَ كَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْئًا‘‘

افطار کروانے والے کو جو اجر ملے گا، وہ روزہ دار کے ثواب سے کاٹ کر نہیں ملے گا بلکہ افطار کروانے والے کو الگ سے اتنا ثواب دیا جائے گا جتنا روزہ دار کو ثواب حاصل ہو گا یعنی روزہ دار کے ثواب میں کمی نہیں کی جائے گی کیوں کہ اللہ پاک کے پاس اجر کے بڑے خزانے ہیں۔

اب صحابہ کرام کی زندگی دیکھیں، سبحان اللہ۔ صحابہ کرام کیا پوچھ رہے ہیں؟ افطار کروانے کا اجر تو سن لیا لیکن عاجزی سے کہہ رہے ہیں۔

’’قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ‘‘

کہا گیا: یا رسول اللہ!

’’لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفَطِّرُ الصَّائِمَ‘‘

ہم میں سے تو ہر شخص کی تو یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو روزہ افطار کرائے، اکثر صحابہ غریب تھے، آپ حیران ہوں گے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی غریب صحابہ میں تھے، اتنے غریب تھے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی کے کھیت کے لیے بطور ملازم پانی نکال رہے تھے، ایک ڈول پانی نکالتے تو اس پر ایک کھجور ملتی، جب ایک چلو بھر کھجوریں ہو گئیں تو آپ نے ڈول رکھ دیا، اس نے کہا کہ ابھی تو بہت کام باقی ہے، آپ مزید کما سکتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس میرے لیے یہ کھجوریں کافی ہیں۔ سبحان اللہ۔ کیسے عجیب حضرات تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے حضرات صحابہ بھی غریب تھے، آپ ﷺ سے صحابہ کرام پوچھ رہے ہیں کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کے پاس اتنی استطاعت نہیں ہے کہ ہم لوگوں کو روزہ افطار کرا سکیں، اللہ اکبر اللہ پاک کا فضل دیکھیں، فرمایا:

’’يُعْطِي اللّٰهُ هٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةِ مَآءٍ‘‘

یہ ثواب تو اللہ پاک ان کو بھی عطا فرما دیتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ کے ساتھ یا ایک کھجور کے ساتھ یا تھوڑے سے پانی کے ساتھ کسی کا روزہ افطار کرائیں۔ یہ اللہ پاک کا فضل ہے۔

پھر فرمایا:

’’وَ مَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللّٰهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَّا يَظْمَأُ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ‘‘

جس شخص نے کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلایا تو اس کو میرے حوضِ کوثر سے پانی پلایا جائے گا۔ واہ جی واہ۔ یہ لفظ دل سے کہنا چاہیے، معلوم نہیں کہ کونسا وقت قبولیت کا ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمتیں تقسیم ہو رہی ہوں۔

فرمایا: اس کو میرے حوض سے پانی پلایا جائے گا، اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اس کو پیاس نہیں لگے گی، یہی تو پیاس لگنے کا وقت ہے، اس کے بعد تو پیاس ہے ہی نہیں، جنت میں اگر کوئی داخل ہو گیا تو پھر کیا پیاس؟ اُدھر تو عیش ہی عیش ہے۔ سبحان اللہ۔

آگے فرمایا:

’’وَ هُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهٗ رَحْمَةٌ‘‘

اور یہ وہ مہینہ ہے جس کا اول حصہ رحمت ہے۔

’’وَ أَوْسَطُهٗ مَغْفِرَةٌ‘‘

اور اس کا دوسرا حصہ مغفرت ہے۔

’’وَ آخِرُهٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ‘‘

اور اس کا آخری حصہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم سے خلاصی نصیب فرمائے۔ دیکھیں! یہ دعا ہم نمازوں میں کرتے ہیں: ’’وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘۔ میں علماء کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ کم از کم نماز کا ترجمہ اپنے مقتدیوں کو اچھی طرح سکھائیں بلکہ مستحضر کرا دیں تاکہ ان کو سوچنے کی ضرورت نہ رہے، وہ ان الفاظ کو ایسے پڑھیں جیسا کہ اپنی زبان میں کہہ رہے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ ان کی نمازیں نمازیں ہو جائیں گی، ان کو علم ہو گا کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں، جیسے میں نے سورۂ فاتحہ کے بارے میں عرض کیا کہ سورۂ فاتحہ میں ہے: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ یہ الفاظ کون نہیں پڑھتا؟ جو بھی نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہو رہی، لیکن کس کو علم ہے کہ ہم کیا پڑھ رہے ہیں؟ اور بہت سی باتیں ہم لوگوں کو سکھاتے ہیں، ان کے ساتھ نماز کا ترجمہ بھی سکھا دیں۔

’’وَ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْكِهٖ فِيْهِ أَعْتَقَهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ‘‘

اور جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام، خادم یا باندی کا کچھ بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ اس کو معاف کر دے گا اور اس کو جہنم سے خلاصی عطا فرمائے گا۔

صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ

اب میں اس پوری بات کا لبِ لباب مختصراً عرض کرتا ہوں، رمضان شریف کا مہینہ الحمد للہ بالکل قریب ہے، پہلے سے ہی نیت کر لیں کہ ہم نے اس ماہ میں نیکیاں کمانی ہیں اور اس ماہ میں نیکیاں کمانا کوئی مشکل نہیں، صرف نیت کرنی ہے اور ہمت کرنی ہے۔

اب میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ روزہ تو الحمد للہ ہم سب رکھتے ہیں، پس ہم ان روزوں کو حقیقی روزہ بنا لیں، کیسے بنائیں؟ تین چیزوں سے۔

الحمد للہ تین چیزوں (کھانا، پینا اور مباشرت) سے تو ہم روزہ کی وجہ سے رک جاتے ہیں، صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک وہ تین کام ہم نہیں کرتے لیکن وہ چیزیں جو پہلے سے حرام ہیں، ان کو بھی ہم چھوڑ دیں مثلاً جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، غیبت کرنا، کسی مسلمان کو ستانا، کسی کا مذاق اڑانا۔ یہ ساری چیزیں رمضان شریف کے مہینہ میں ہم چھوڑ دیں، اگر کوئی صاحب آپ کے ساتھ لڑنے لگے تو اس کے ساتھ بھی وقت ضائع نہ کریں بلکہ اس کو کہہ دیں کہ میں روزہ دار ہوں، میرے پاس ان چیزوں کے لئے وقت نہیں ہے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ان کو کہہ دو: ’’اَنَا صَائِمٌ‘‘۔ ’’میں روزہ دار ہوں۔‘‘ اس طریقے سے کیا ہو گا؟ اس طریقے سے یہ ہو گا کہ ان شاء اللہ ہمارا روزہ روزہ ہو جائے گا اور جب روزہ روزہ ہو جائے گا تو خدا کی قسم اس سے نفس کی اصلاح ہو جائے گی کیوں کہ روزہ اللہ پاک نے تقویٰ کے حصول کے لیے فرض کیا ہے۔ اللہ پاک خود فرماتے ہیں: ﴿لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ (البقرہ: 183)

ترجمہ: ’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔

اگر کسی کو ایمان کے ساتھ تقویٰ حاصل ہو گیا تو یہ بات یقینی ہے کہ وہ آدمی ولی اللہ ہے کیوں اللہ پاک نے خود فرمایا ہے: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ (یونس: 62)

ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہو گا، نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقویٰ اختیار کیے رہے‘‘۔

ان کے پاس کیا ہو گا؟ ان کے پاس ایمان اور تقویٰ ہو گا۔ سبحان اللہ۔ ایمان تو الحمد للہ ہمیں حاصل ہے، اس پر ہمیں بہت ہی شکر ادا کرنا چاہیے اور تقویٰ ہم حاصل کر لیں، تقویٰ روزہ سے حاصل ہو جاتا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے، اگر ہم نے صحیح معنوں میں روزہ رکھ لیا، رمضان کی تراویح دل سے ادا کی اور اس کو بوجھ نہ سمجھا تو ہم اس ماہ میں بہت کچھ کما سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی کو سونے کی کان پر لگا دیں اور ان سے یہ کہہ دیں کہ تیس دن آپ اس میں سے جتنا سونا نکال سکتے ہیں، نکالیں، مجھے بتائیں وہ کتنا سونا نکالے گا؟ کیا ایک تولہ نکالے گا؟ یہ ساری چیزیں تو دنیا میں رہ جائیں گی مگر روزہ سے جو آپ کو حاصل ہو گا وہ آپ کے ساتھ جائے گا لہذا رمضان سے جتنا ثواب حاصل کر سکتے ہیں کر لیں، رمضان شریف کا مہینہ سونے کی کان کی مانند ہے۔

آخر میں آپ کو ایک خطرناک بات بتاتا ہوں، بتانا مجبوری ہے اور وہ خطرناک بات یہ ہے کہ اللہ پاک کے فضل سے ہی سب کچھ ملے گا اور جو شخص اللہ کے فضل کی نا قدری کرے تو اس کا کیا بنے گا؟ میں نہیں کہتا کیوں کہ ہمارا تو اتنا منہ ہی نہیں کہ ہم اس بارے میں بات کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے، آپ ﷺ نے ممبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہا، صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ! آج آپ نے ممبر پر چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”جبرئیل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں، آپ اس پر آمین کہیے۔ پہلی دفعہ جبرئیل علیھم السلام نے کہا: جس شخص کو رمضان شریف کا مہینہ نصیب ہوا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی، اللہ اس کو تباہ و برباد کر دے۔ میں نے کہا: آمین۔ دوسری دفعہ جبرئیل علیھم السلام نے کہا: جس شخص کے والدین زندہ ہوں اور وہ ان کی خدمت سے جنت نہ حاصل نہ کر سکے تو اللہ اسے تباہ و برباد کرے۔ میں نے کہا: آمین۔ تیسری دفعہ میں جبرئیل علیھم السلام نے کہا: جس شخص کے سامنے آپ ﷺ کا نام لیا جائے اور وہ درود شریف نہ پڑھے تو وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ میں نے کہا: آمین۔ یہ بات میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ یہ نیکیاں کمانے کے مواقع ہیں، درود شریف کے بہت فضائل ہیں، ماں باپ کی خدمت کے بہت فضائل ہیں، رمضان شریف کے بہت فضائل ہیں، یہ سب اللہ جل شانہ کے فضل کا نظارہ ہیں، اگر کوئی شخص اللہ کے اس فضل کی نا قدری کرے گا تو سزا بھی بہت سخت ہے۔

یاد رکھو سائیکل سے اگر کوئی گرے تو تھوڑی سی خراش آئے گی، کار وغیرہ سے گرا تو شاید بچ جائے اور اگر کوئی شخص جہاز سے گرے تو کیا اس کے بچنے کا امکان ہوتا ہے؟ بس یہی بات ہے کہ رمضان شریف سے فائدہ نہ اٹھانا جہاز سے گرنے کی طرح ہے۔ اس لیے آج پوری ایمانداری کے ساتھ عہد کر لیں کہ اس رمضان شریف کو ہم نے اپنے لیے مغفرت کا ذریعہ بنانا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنانا ہے، تقریریں بہت ہیں، تقریریں ہو جائیں گی، تقریروں سے کیا ہوتا ہے؟ تقریریں صرف یاد دہانی کر سکتی ہیں، اصل تو عمل ہے، عمل سے انسان کو سب کچھ ملتا ہے۔ ’’اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) اگر آپ لوگوں نے عمل کا ارادہ کر لیا تو یہ ارادہ بھی نوٹ ہو جائے گا، ارادہ کا ثواب تو آپ کو ابھی مل جائے گا، اس کے بعد اگر اللہ پاک کی طرف سے توفیق ہو گئی اور عمل نصیب ہو گیا تو اس صورت میں اجر بھی مل جائے گا۔

میں اپنے گزشتہ گناہوں سے تعلق ختم کرنے کے لیے کچھ الفاظ کہتا ہوں، آپ سب بھی میرے ساتھ وہ الفاظ دہرا لیں، ان شاء اللہ العزیز یہ بھی ہمارے لیے نوٹ ہو جائیں گے۔

اے اللہ! ہم تمام گناہوں سے توبہ کرتے ہیں، خواہ وہ چھوٹے ہیں یا بڑے، مجھے معلوم ہیں یا نہیں، مجھ سے قصداً ہوئے ہیں یا خطاء سے، ظاہر کے گناہ ہیں یا باطن کے۔ اے اللہ! مجھے معاف کر دے، آئندہ کے لئے ان شاء اللہ میں گناہ نہیں کروں گا، اگر غلطی سے گناہ ہو گیا تو فوراً توبہ کروں گا۔ اے اللہ! مجھے صالحین میں سے بنا دے، صالحین کا ساتھ نصیب فرما اور صالحین کے ساتھ اٹھا۔ آمین

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ