سوال:
آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ۔ اس حدیث شریف میں ایمان کی بات تو واضح ہے لیکن احتساب سے کیا مراد ہے؟
جواب:
ایمان تو بالکل واضح چیز ہے کیونکہ ہر زبان میں ایمان کا مطلب یہی ہے۔ البتہ احتسابًا کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اپنا احتساب کرے دو وجوہات سے۔ ایک تو انسان عمل کس طرح کرتا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ انسان کس ارادے سے عمل کرتا ہے۔ یہ دو چیزیں اہم ہوتی ہیں، جیسے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ۔‘‘ (بخاری شریف: 1)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
لہذا اگر نیت میں خرابی ہو گی یعنی نیت دنیا کے لیے ہو گی یا ورزش کی نیت ہو گی یا کوئی اور نیت ہو گی تو پھر اس کو وہی ثواب ملے گا جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے، اور اگر اس کی نیت یہ ہو گی کہ اللّٰہ پاک مجھ سے راضی ہو جائے تو پھر عمل کا نتیجہ اس کی نیت کے مطابق مرتب ہوگا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ انسان اس عمل کو کیسے کرتا ہے یعنی سنت کے مطابق کرتا ہے یا سنت کے خلاف؟ اس میں کوشش اور ہمت کرتا ہے یا اس میں سستی کرتا ہے؟ تو یہ مطلب ہے احتساباً کا کہ احتساب میں انسان کو اپنی نیت اور اپنے عمل کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تو بس یہی بات ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص صحیح نیت کے ساتھ آپ ﷺ کے طریقے پر ہمت کے ساتھ، خوش دلی کے ساتھ رمضان مبارک کا مہینہ گزارے جس طرح کہ فرمایا گیا ہے تو اس کے گزشتہ گناہ اللّٰہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔ اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔