اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ پر مشتمل دروس کا سلسلہ مکمل ہو چکا ہے۔ الحمد للہ! یہ دروس یوٹیوب چینل پر بھی سنائے جا رہے ہیں۔ مکتوبات شریفہ کے دروس کے بعد اب ہم نے تعلیماتِ مجددیہ پر مشتمل دروس کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس کے لیے ہفتے میں دو دن اتوار اور بدھ مختص کئے ہیں۔ آج اس سلسلہ کا آٹھواں درس ہے۔ اب تک تعلیماتِ مجددیہ میں سے عقائد پر بات چل رہی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب نمبر 207 دفتر اول کے حصہ دوم میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
صوفیائے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے پر چلنے سے مقصود یہ ہے کہ معتقداتِ شرعیہ کا جو کہ ایمان کی حقیقت ہیں زیادہ یقین حاصل ہو جائے اور احکامِ فقہیّہ کے ادا کرنے میں آسانی میسر ہو جائے اس کے علاوہ اور کوئی امر مقصود نہیں ہے۔
تشریح:
یہ بات عقائد کے ذیل میں پہلے بھی آ چکی ہے۔ اب چونکہ اس کا دوسرا حصہ آ رہا ہے اس میں بھی اس کا آنا ضروری تھا۔
معتقداتِ شرعیہ پر یقین آنا پہلے نمبر پر ہے اس لیے ان کا پہلے ذکر کیا گیا ہے۔ ہمیں اہل سنت و الجماعت کے عقائد میں کمالِ استقامت کے ساتھ شرع کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ اس سلسلے میں حضرت کی تعلیمات سامنے لائی جائیں گی۔ ان شاء اللہ۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ ہمارے سامنے کیا ہونا چاہیے۔ ہم نے کام کرنا ہے، اعمال صالحہ کرنے ہیں۔ اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اعمال صالحہ کیا ہیں؟ کس طریقہ سے کرنے ہیں؟ اس سلسلے میں اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا ہے:
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الأحزاب: 21)
ترجمہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے‘‘
الحمد للہ! ہم نے اس مقصد کے لیے صبح کے وقت، فجر کی نماز کے متصل سوال و جواب کی صورت میں، سیرت سے اپنے مسائل اخذ کرنے کے نظام پر بیانات کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جو الحمد للہ روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی سنت کے ساتھ بے انتہا محبت تھی۔ ہر صاحبِ دل کو سنت کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ جتنے بھی مجددین آئے ہیں انہوں نے اس پر زیادہ زور دیا ہے تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس پر کیوں زور نہ دیتے۔
سنت کے ساتھ محبت:
مکتوب نمبر 37 دفترِ اول میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
یہ فقیر اپنے موجودہ حال کی نسبت لکھتا ہے کہ بہت عرصے تک علوم و معارف اور احوال و مواجید ماہِ نیساں کے بادل کی طرح بکثرت و لگا تار وارد ہوتے رہے اور جو کام کہ کرنا چاہیے تھا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی عنایت سے ہو گیا۔ اور اب اس کے سوا اور کوئی آرزو باقی نہیں رہی کہ نبی کریم ﷺ کی سنتوں میں سے کوئی سنت زندہ کی جائے اور احوال و مواجید اہلِ ذوق کے سپرد رہیں۔
آپ کو چاہیے کہ (اپنے) باطن کو (اپنے سلسلہ کے) خواجگان قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کی نسبت سے معمور رکھتے ہوئے (اپنے) ظاہر کو ظاہری سنتوں کی پیروی سے پوری طرح آراستہ و مزین بنائیں۔ ع
کار این ست غیرِ ایں ہمہ ہیچ
( ترجمہ: کام ہے اصلی یہی باقی تو سب کچھ ہیچ ہے)
تشریح:
اس سے پتا چلا کہ حضرت کس بات پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس پر زور دیا ہے کہ عقائد صحیح ہوں۔ دوسرا یہ کہ اعمال شریعت کے مطابق ہوں۔ تیسرے یہ کہ سنت سے سرِ مو انحراف نہ ہو اور متروک سنتوں کو جلد از جلد زندہ کیا جائے۔
افسوس ہے کہ حضرت کے اونچے اونچے معارف کی باتیں تو ممبروں سے سننے میں آتی ہیں، لیکن ان بنیادی باتوں کا تذکرہ نہیں ہوتا اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کو بزرگوں کی باتوں کے محاکمے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ معارف ہر شخص کے اپنے اپنے ہوتے ہیں، لیکن شریعت سب کی ایک ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سالک جس قدر شریعت پر عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اس کی استعداد کے مطابق خود معارف کھولتے رہتے ہیں۔ پس معرفت کا دروازہ تو یہی ہے۔ اگر اس کو بند کیا جائے تو دوسروں کے معارف محض تقلیداً تو سمجھے گا، تحقیقاً ان تک رسائی نہیں ہو سکے گی۔ لیکن اگر اس دروازے سے داخل ہو گا تو اس کو تحقیقاً معارف تک بقدرِ استعداد رسائی دلوائی جائے گی۔ جیسے ’’مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اپنے نفس کو جتنا جتنا کوئی قابو کرے گا، اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کو اسی قدر نصیب ہو گی۔
یہ بہت اہم بات ہے۔ اللہ کرے کہ ہمیں سمجھ میں آ جائے۔ آج اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جو آپ کو اونچی اونچی باتوں کی طرف لاتے ہیں، وہ آپ کو اعمال سے محروم کرتے ہیں اور جو آپ کو چھوٹی چھوٹی باتیں سکھاتے ہیں، وہ آپ کو اعمال کے اوپر لے آتے ہیں۔
بالکل یہی بات ہے۔ اگر میں بچوں کو وہ کام سکھانا شروع کر دوں جو بڑوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، تو نہ وہ بڑوں کے کام کر سکیں گے نہ اپنے بچپن کے کام کرسکیں گے، وہ کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ لیکن اگر میں ان کی اوقات کے مطابق، ان کے حالات کے مطابق ان کو تعلیم دوں تو آہستہ آہستہ وہ اپنے وقت کی باتیں سیکھ لیں گے پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ اپنی عمر کے لحاظ سے مزید باتیں سیکھیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ یہ بچے بڑے ہو کر اچھے اچھے کام کریں گے۔
اسی طرح طریقت کے کام میں بھی یہی ترتیب ہے کہ اگر شیخ مرید کو اس وقت کے حال کے مطابق سمجھا دے تو وقت وقت کے ساتھ وہ مزید سیکھتا جائے گا۔ مثلاً ایک آدمی ابھی مبتدی ہے، اگر آپ اس کو منتہی کے حالات بتائیں تو اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ اس کو سمجھ ہی نہیں آئیں گے۔ دو باتیں ہو سکتی ہیں یا تو وہ ان حالات کو اپنانے کی کوشش کرے گا یا پھر اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھے گا۔ پہلی صورت میں یہ آدمی ان حالات کو نہیں اپنا سکے گا کیونکہ یہ مبتدی اور وہ منتہی کے کام ہیں، لہذا یہ فیل ہو جائے گا اور بد دل ہو جائے۔ دوسری صورت میں چونکہ اپنے آپ کو اس قابل ہی نہیں سمجھے گا اس لئے کچھ کرے گا ہی نہیں۔ دونوں صورتوں میں اعمال سے ہٹ جائے گا۔
لہٰذا یہ بات بہت اہم ہے کہ جس وقت جس کام کی ضرورت ہو اسی میں توجہ اور قوت صرف کی جائے۔ اس سے متعلق جو بنیادی باتوں کے بارے میں تفصیل آگے آئے گی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو باتیں کی ہیں، ہمیں ان سے فائدہ حاصل کرنا ہے۔
بدعت کے ساتھ نفرت:
یہ بات جاننا بہت اہم ہے کہ سنت کے مقابلے میں بدعت ہوتی ہے اس لیے سنت کے ساتھ محبت کا لازمی نتیجہ بدعت سے نفرت ہے۔ نقشبندی سلسلے میں سنت کے ساتھ بقدرِ عزیمت تَمَسُّک ضروری ہے۔ یہی اس سلسلے کا اصل مجاہدہ ہے۔ جس سے وصول بہت جلد ہو جاتا ہے۔ اس لیے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے سنت کے احیاء اور بدعت سے نفرت پر بہت زور دیا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نقشبندی سلسلے میں مجاہدہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ نقشبندی سلسلے میں بہت بڑا مجاہدہ ہے اور وہ یہ کہ عزیمت کے ساتھ سنت پر عمل ہو۔ یہ وہ مجاہدہ ہے جو ہر ایک نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی یہ مجاہدہ بھی نہیں کرتا اور معروف مجاہدات کو اپنے قابل نہیں سمجھتا کہ یہ ہمارے ہاں ہیں ہی نہیں تو وہ بالکل ہی کورا رہ جائے گا کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ جو دوسرے مجاہدے کرتے ہیں، وہ کم از کم کچھ تو حاصل کر لیں گے پھر آہستہ آہستہ سنت کے مجاہدے پر بھی آ جائیں گے۔ ہمارے نقشبندی سلسلے کا طریقہ یہی ہے کہ سنت کے ساتھ بقدرِ عزیمت تَمَسُّک کرنا ہے۔ یہی ہمارا اصل مجاہدہ ہے۔
مکتوب نمبر 54، دفتر دوم میں ارشاد فرماتے ہیں۔
متن:
سعادت مند وہ شخص ہے جو اس غربت کے زمانے میں ترک شدہ سنتوں میں سے کسی سنت کو زندہ کرے اور مروجہ و معمولہ بدعتوں میں سے کسی بدعت کو ختم کر دے۔ یہ وہ وقت ہے کہ حضرت خیر البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو ہزار سال گزر چکے ہیں اور قیامت کی علامتوں نے پَرتو ڈالا ہوا ہے (یعنی علامات قیامت ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں) اور عہدِ نبوت سے دور ہونے کے باعث سنت پوشیدہ ہو گئی ہے اور کذب و جھوٹ پھیل جانے کی وجہ سے بدعت جلوہ گر ہو رہی ہے، اب ایک ایسے شاہباز جوان مرد کی ضرورت ہے جو سنت کی مدد کرے اور بدعت کو شکست دے۔ بدعت کا جاری کرنا دین کی بربادی کا موجب ہے اور بدعتی کی تعظیم کرنا اسلام کو مٹانے کا باعث ہے۔ (آنحضرت ﷺ کا یہ فرمان) آپ نے سنا ہو گا:
’’مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَةٍ فَقَدْ أَعَانَ عَلٰى هَدْمِ الْإِسْلَامِ‘‘
ترجمہ: ”جس نے کسی بدعتی کی تعظیم کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد کی“۔
لہذا پورے ارادے اور کامل ہمت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے کہ سنتوں میں سے کوئی سنت جاری ہو جائے اور بدعتوں میں سے کوئی بدعت دور ہو جائے۔ ہر زمانے میں اور خصوصاً اس ضعفِ اسلام کے زمانے میں احکامِ اسلام کو قائم کرنا سنت کو رواج دینے اور بدعت کی تخریب کرنے پر وابستہ ہے۔ گذشتہ (زمانے کے) لوگوں نے شاید کسی بدعت میں کوئی حسن دیکھا ہو گا جس کی وجہ سے بعض افرادِ بدعت کو انھوں نے مستحسن قرار دیا ہے۔ لیکن یہ فقیر اس مسئلہ میں ان کے ساتھ موافقت نہیں رکھتا اور بدعت کے کسی مسئلہ کو حسنہ نہیں جانتا بلکہ سوائے ظلمت و کدورت کے اس میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔ آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘
(ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اسلام کے اس غربت و ضعف کے زمانے میں جبکہ سلامتی سنت کے بجا لانے پر موقوف ہے اور خرابی بدعت کے ارتکاب میں ہے خواہ کوئی بھی بدعت ہو، ہر بدعت کو پھاوڑے کی طرح جاننا ہے جو بنیادِ اسلام کو گراتی ہے۔ اور سنت کو اس روشن ستارے کی طرح دیکھتا ہے جو گمراہی کی تاریک رات میں ہدایت کا باعث بنتا ہے۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ علمائے وقت کو توفیق دے کہ کسی بدعت کو حسن کہنے کی جرأت نہ کریں اور کسی بدعت پر عمل کرنے کا فتویٰ نہ دیں اگرچہ وہ بدعت ان کی نظروں میں صبح کی سفیدی کی طرح ہی روشن ہو کیونکہ سنت کے ماسویٰ میں شیطان کے مکر و فریب کو بڑا غلبہ و دخل ہوتا ہے۔ گزشتہ زمانے میں جبکہ اسلام قوی تھا اس لیے بدعت کی ظلمات کو برداشت کر سکتا تھا اس وقت شاید نورِ اسلام کی روشنی میں بعض بدعتوں کی ظلمات بعض اشخاص کو نورانی معلوم ہوتی ہوں جس کی وجہ سے ان پر حسنہ کا حکم لگایا ہو، اگرچہ درحقیقت ان میں کسی قسم کا حسن اور نورانیت نہیں تھی۔ مگر اس وقت جبکہ اسلام ضعیف ہے بدعتوں کی ظلمتوں کو برداشت کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں ہے۔ اس وقت متقدمین اور متاخرین کا فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ ہر وقت کے احکام علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ اس وقت پورا عالم ظہورِ بدعت کی کثرت کی وجہ سے بحرِ ظلمات کی طرح نظر آ رہا ہے اور سنت کا نور اپنی غربت و قلت کے باعث اس بحر ظلمانی میں کِرمہائے شب افروز (جگنوؤں کی طرح) محسوس ہو رہا ہے اور بدعت کا عمل اس ظلمت میں اور اضافہ کر رہا ہے اور سنت کے نور کو کم کرتا جاتا ہے۔ سنت پر عمل کرنا ظلمت کے کم کرنے اور نورانیت کو زیادہ کرنے کا باعث ہے۔ پس اب اختیار ہے جس کا دل چاہے بدعتوں کی ظلمات کو بڑھائے یا سنت کے نور کو زیادہ کرے اور جس کا دل چاہے وہ شیطان کے گروہ کو بڑھائے اور جس کا دل چاہے اللہ تعالیٰ کی جماعت میں اضافہ کرے۔
﴿اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ الشَّيۡطٰنِ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴾ (المجادلہ: 19)
(خبردار! بیشک شیطان کا گروہ ہی خسارہ پانے والوں میں ہے)
﴿اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴾ (المجادلہ: 22)
(خبردار! بیشک اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی فلاح و نجات پانے والا ہے)
صوفیائے وقت بھی اگر انصاف سے کام لیں اور اسلام کے ضعف (ضعیف ہونے) اور جھوٹ کے شائع کرنے کو ملاحظہ فرمائیں تو ان کو چاہیے کہ سنت کے خلاف امور میں اپنے پیروں کی تقلید نہ کریں اور اپنے شیوخ کے عمل کا بہانہ بنا کر امورِ مُخْتَرَعَہ (خود ساختہ امور) کو اپنی عادت نہ بنائیں۔ سنت کا اتباع یقیناً نجات دینے والا اور خیرات و برکات بخشنے والا ہے اور سنت کے خلاف امور کی تقلید میں خطرہ ہی خطرہ ہے۔ وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ (قاصد کے ذمہ پہنچا دینا ہے)
تشریح:
حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کے حالات کے مطابق بات فرمائی ہے، لیکن اس پر عمل کرنا آج بھی ضروری ہے۔
اول تو سنت کی اہمیت سمجھی جائے کہ اس کے ساتھ چمٹنا بہت سعادت کی بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جو سنتیں متروک ہو چکی ہیں ان کا احیاء بہت عظیم کام ہے، اس کے لیے کوشش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ جو سنتیں متروک ہو چکی ہیں ہم لوگ ان کو دوبارہ زندہ کریں، اس پر بہت زیادہ اجر ہے۔ کیونکہ ایک ترک شدہ سنت کو زندہ کرنے پر سو شہیدوں کا اجر ملتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جہاں جہاں بدعتیں پھیل گئی ہیں، وہاں بدعتوں کی اتباع نہیں، بلکہ سنتوں کی اتباع کرنی چاہیے۔
یہ بات سمجھ میں آنی چاہیے۔ حضرت نے ایک بہت اہم بات فرمائی ہے۔ شاید اس کی طرف بعض حضرات کا ذہن نہ گیا ہو۔ پہلے وقتوں میں سنت کا نور عیاں تھا، لہذا کوئی ایسی بات جس میں کوئی خوبی تھی، اگر اس پر سنت کی طرح عمل کر لیا جاتا، تو اس پہ سنت کا نور غالب آ جاتا تھا اور اس سے اتنا نقصان نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج کل کے دور میں ایسا نہیں ہے۔ بدعت کی ظلمت اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اس میں مزید اضافے سے بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا چاہے کسی چیز میں کچھ فائدہ بھی نظر آتا ہو، تب بھی اس میں نقصان زیادہ ہے۔ فقہ کا قانون ہے کہ ”دفعِ مضرت، جلبِ منفعت سے زیادہ اہم ہوتی ہے“۔ اگر کسی چیز میں نقصان کا پہلو بھی ہو اور فائدہ کی بات ہو بھی تو نقصان والے پہلو کو غالب رکھنا چاہیے۔ مثلاً ایک expired دوائی میں دوائی ہونے کے لحاظ سے مفید ہونے کا امکان ہے اور expire ہونے کی وجہ سے نقصان دہ ہونے کا بھی امکان ہے۔ ایسی دوائی کو کوئی نہیں کھاتا، ہر کوئی پھینک دیتا ہے چاہے وہ کتنی ہی قیمتی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کی وجہ سے انسان بیمار ہو سکتا ہے۔ بدعت کے معاملے میں بھی اسی بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس وقت بدعت کی کسی قسم کی مدد نہیں کی جا سکتی۔ بدعتوں کو دور کرنا وقت کا بہت اہم کام ہے۔ اِس وقت جو بدعتوں کو دور کرے گا اور سنتوں کا احیاء کرے گا وہ زیادہ اجر کا مستحق ہو گا۔
حضرت نے گویا یہاں پر ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ سنت کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس کے ساتھ چمٹنا ضروری ہے۔ جو سنتیں متروک ہو چکی ہیں، ان کا احیاء بہت ضروری ہے۔ یہ سنتیں آسان بھی ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر ایک کام کئی طریقوں سے ہو سکتا تھا تو آپ ﷺ سب سے آسان طریقہ اختیار کر لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یومِ عرفہ کو آپ ﷺ نے با قاعدہ سب کے سامنے اونٹنی کے اوپر بیٹھ کے دودھ پیا اور لوگوں کو بتایا کہ میرا روزہ نہیں ہے تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ اگر آج بھی کوئی اسی طرح کرے گا تو اس کو بہت فائدہ ہو گا، کیونکہ سنتوں کا احیاء ہو گا۔
میں نے ایک دفعہ عرفہ کے دن روزہ رکھا تھا، مجھے خیال آ گیا کہ پتا نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس دن روزہ رکھا تھا یا نہیں۔ میں نے مفتی ظہیر صاحب کو فون کر کے پوچھا کہ آپ ﷺ نے عرفات کا روزہ رکھا تھا یا نہیں رکھا تھا؟ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے عرفات کا روزہ نہیں رکھا تھا۔ بس میں نے فوراً روزہ کھول دیا۔ ہمیں آپ ﷺ کے طریقے پر چلنا چاہیے، ہم اپنی مرضی پہ نہیں چل سکتے۔ ہم لوگوں کو سنتوں پر چلنا نصیب ہونا آسان بھی ہے۔ سنت پر چلنا اس وقت مشکل ہوتا ہے جب بدعت عام ہو چکی ہو۔ ایسے میں معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے انسان سنت پر نہیں چل سکتا۔ سنت عمل کے لحاظ سے آسان ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کسی ماحول کا عقیدہ خراب ہو جائے تو وہاں پر صحیح عقیدہ مشکل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ عقیدہ کتنا آسان کام ہے، اس میں تو محنت بھی نہیں ہے، لیکن بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ماحول میں بدعتیں عام ہوں تو پھر سنت پر عمل مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک ہوتا ہے خود سنت پر عمل کرنا، یہ تو آسان ہے، اس لیے کہ یہ آپ کا خود اپنے ساتھ معاملہ ہے۔ دوسرا کام سنت کو فروغ دینا ہے، یہ کام مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس میں دوسرے involved (شامل) ہوتے ہیں۔ اس میں بڑی حکمت اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
میں اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کو ابراہیم علیہ السلام کی ترتیب پر دوبارہ تعمیر کروں، لیکن تمہاری قوم یہ سمجھے گی کہ میں خانہ کعبہ میں تصرف کر رہا ہوں، اس لیے میں نے یہ ارادہ چھوڑ دیا ہے۔
آپ ﷺ کی بات بالکل صحیح تھی، نیت بھی صحیح تھی اور کام بھی صحیح تھا، لیکن آپ ﷺ نے ماحول کا خیال رکھا۔
تراویح کا بھی یہی معاملہ ہے۔ آپ ﷺ نے جماعت کے ساتھ نماز تروایح خواہش کے با وجود اس وجہ سے نہیں پڑھی کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو وقت ہی نہیں ملا کہ وہ اس مسئلہ میں کوئی ترتیب بنائیں کیونکہ ان کا زمانۂ خلافت بہت ہی مشکل دور تھا۔ ان کی زیادہ توجہ بنیادی چیزوں پہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی نسبت زیادہ وقت ملا تھا۔ وہ چونکہ مزاج شناسِ رسول تھے، انہوں نے اس بات کا ادراک کر لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز تراویح جماعت سے پڑھانا چاہتے تھے لیکن اس وجہ سے نہیں پڑھائی کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔ اب تو وحی کا سلسلہ بند ہو چکا ہے، لہٰذا اب جماعت سے پڑھ بھی لی جائے تو تراویح فرض نہیں ہو سکتی۔ لہذا نبی ﷺ کی چاہت پہ عمل کیا جانا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کر کے اس پر عمل در آمد کیا۔ اگر وہ اس وقت ایسا نہ کرتے تو بعد میں کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ اس وقت کرنے کا یہ فائدہ ہو گیا کہ سارے اہل الرائے صحابہ موجود تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی موجودگی میں یہ کام کر دیا، کسی نے انکار نہیں کیا اور اجماع صحابہ قائم ہو گیا۔ اجماع صحابہ بھی ہمارا ایک اصول ہے، جس سے احکام ثابت ہوتے ہیں لہذا تراویح کی نماز ثابت ہو گئی۔
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے لغوی طور پر بدعتِ حسنہ کہا، لیکن یہ بدعت ہے ہی نہیں، کیونکہ جس چیز پر اجماع ہو جائے بدعت نہیں ہوا کرتی۔ کیونکہ ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘ کی رو سے ہر بدعت گمراہی ہے۔ لہٰذا اگر اس کو بھی اصطلاحی طور پر بدعتِ حسنہ کہیں گے تو اس کو گمراہی ہونے سے کیسے نکالیں گے۔ الحمد للہ! یہ علم آج ہی اترا ہے۔ گویا اسے اصطلاحی طور پر بدعتِ حسنہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتے۔ جب صحابہ کرام اس پر جمع ہو گئے اور ان میں تین خلفائے راشدین ہیں اور تینوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے، تینوں مجتہد حضرات ہیں، جب تینوں نے مان لیا اور باقی سب صحابہ نے بھی مان لیا ہے، تو یہ اجماع صحابہ سے ثابت ہو گیا۔ لہذا اس کو لغوی طور پر بدعت کہا گیا ہے یعنی نئی بات۔ نئی بات سے مراد یہ ہے کہ اب نئے طور پر ان کو جمع کیا گیا ہے۔
مکتوب 19 دفتر دوم میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
ہماری نصیحت بس یہی ہے کہ احکامِ دین بجا لائیں اور حضرت سید المرسلین علیہ و علی آلہ و علیہم الصلوۃ والسلام کی متابعت اختیار کریں، سنتِ سنیہ کو بجا لائیں اور بدعتِ نامرضیہ سے پرہیز کریں۔ اگرچہ بدعت صبح کی سفیدی کے مانند روشن ہو لیکن حقیقت میں اس میں کوئی روشنی اور نور نہیں ہے اور نہ ہی کسی بیمار کے لیے اس میں شفا ہے اور نہ ہی کسی مرض کی اس میں دوا ہے۔ اور یہ بات اس میں کیسے ہو سکتی ہے جبکہ بدعت دو حال سے خالی نہیں ہے یا تو وہ سنت کو دور کرنے والی ہو گی یا رفعَ سنت سے ساکت ہو گی۔ ساکت ہونے کی صورت میں وہ بالضرور سنت پر ایک زائد چیز ہو گی جو در حقیقت اس (سنت) کو منسوخ کرنے والی ہو گی کیونکہ نص پر زیادتی نص کی ناسخ ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بدعت خواہ کسی قسم کی ہو سنت کو دور کرنے والی اور اس کی نقیض ہوتی ہے اور اس میں کسی قسم کی خیر اور کوئی حُسن نہیں ہے۔ کاش مجھے معلوم ہو جاتا کہ انھوں نے دینِ کامل اور اسلام پسندیدہ میں جبکہ نعمت مکمل ہو چکی بدعتِ محدثہ کے حَسن ہونے کا حکم کس طرح دیا۔ یہ نہیں جانتے کہ کمالِ دین اور اتمام و رضا کے حاصل ہونے کے بعد دین میں بدعت (کوئی نیا کام) پیدا کرنا حسن سے کوسوں دور ہے:
﴿فَمَاذَا بَعۡدَ الۡحَـقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ﴾ (یونس: 32)
ترجمہ: (حق کے بعد گمراہی کے سوا کیا ہے)۔
اگر یہ لوگ (اہلِ بدعت) جانتے کہ دینِ کامل میں امورِ محدثہ (نئے کام) کو حسَن کہنا دین کے کامل نہ ہونے کو لازم آتا ہے اور نعمت کے نا تمام ہونے پر دلالت کرتا ہے تو ہرگز اس قسم کی باتوں کی جرأت نہ کرتے۔
تشریح:
یہ جو باتیں میرے سامنے ہیں اور میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں، ان کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی بدعتی ہو اور اپنے آپ کو مجددی کہتا ہو تو بڑے افسوس کی بات ہے۔ بدعتی کبھی بھی مجددی نہیں ہو سکتا۔ عموماً بدعتی اپنے آپ کو حضور ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والا سمجھتے ہیں۔ میں اس پر بڑا حیران ہوتا ہوں کہ بدعت تو سنت کو دور کرنے والی چیز ہے جبکہ سنت حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ جو حضور ﷺ کا طریقہ دور کر رہا ہو، وہ کیسے آپ ﷺ کے ساتھ محبت کر سکتا ہے اور جس کو کسی کے ساتھ محبت ہو، اسے اس کے طریقے سے نفرت کیسے ہو سکتی ہے، اس کے طریقے سے دوری کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ چیز کم از کم مجھے سمجھ نہیں آتی۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ایک آدمی جو اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والا بھی سمجھتا ہے وہ بدعات میں کیسے مبتلا ہو سکتا ہے۔ غلطی ہو جانا ایک الگ بات ہے، لیکن بدعت میں غلطی نہیں ہوا کرتی، بدعت قصداً ہوتی ہے، بدعت میں با قاعدہ ثواب سمجھا جاتا ہے، اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے، اس کے اوپر لوگ با قاعدہ جِدال اور لڑائیاں تک کرتے ہیں۔ اگر کوئی میلاد النبی کے موقع پر لائٹیں نہ لگوائے تو ان کے ساتھ لڑائیاں کرتے ہیں، ان کو ووٹ نہیں دیتے، ان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے، ان کی مخالفت میں نعرے لگاتے ہیں۔ بھلا یہ آپ ﷺ کے ساتھ کون سی محبت ہے؟ یہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر کوئی اپنے آپ کو نقشبندی کہتا ہے، اس کے با وجود مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ان باتوں کی پیروی نہیں کرنا چاہتا تو وہ سچا نقشبندی اور مجددی نہیں ہے۔ اگر کوئی اپنے آپ کو آپ ﷺ کا مُحِب سمجھتا ہے، لیکن آپ ﷺ کی سنتوں کو ترک کر کے سنتوں کے خلاف بدعتوں کو رواج دے رہا ہے تو اس کی محبت سچی نہیں ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نصیحت فرمائی ہے کہ بدعت چاہے سولہ سنگھار کر کے سامنے آئے، اس کو گمراہی سمجھ کر اس سے اجتناب کیا جائے۔ نیز اگر بدعتِ حسنہ کے نام پر بھی کسی بدعت کو فروغ دیا گیا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔ کیونکہ اس سے سنت کے ترک ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ اس میں گویا سنت پر عدمِ اعتماد پایا جاتا ہے کہ دین کی تکمیل میں ابھی شک ہے، اس لیے اس میں نئی چیزوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے۔
متابعتِ رسول ﷺ کے مختلف درجات ہوسکتے ہیں، ان کے بارے میں مکتوب 54 دفتر دوم میں ارشاد فرماتے ہیں۔ (یہ بہت قیمتی مکتوب ہے۔ اس میں ہمارے بہت سارے سوالوں کے جوابات ملتے ہیں۔)
متن:
پہلا درجہ عوام اہل اسلام کے لیے ہے۔
تشریح:
یعنی سنت سے مطابقت والا۔
متن:
یعنی تصدیقِ قلبی کے بعد اطمینانِ نفس سے پہلے جو کہ درجہ ولایت سے وابستہ ہے۔
تشریح:
اطمینانِ نفس کے بارے میں کہا کہ یہ درجہ ولایت سے وابستہ ہے۔
متن:
احکامِ شرعیہ کا بجا لانا اور سنتِ سنیہ کی متابعت ہے۔ اور علمائے ظاہر عابد اور زاہد حضرات جن کا معاملہ ابھی اطمینانِ نفس تک نہیں پہنچا۔
تشریح:
یعنی ان کا نفس مطمئنہ نہ ہو چکا ہو۔
متن:
سب اسی متابعت کے درجہ میں شریک ہیں اور اتباع کی ظاہری صورت کے حاصل کرنے میں سب برابر ہیں۔ اور چونکہ اس مقام میں نفس ابھی کفر و انکار پر ہی اڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے یہ درجہ متابعت کی صورت کے ساتھ مخصوص ہو گا۔
تشریح:
یعنی یہ متابعت کی صورت ہے، حقیقت نہیں ہے۔
متن:
متابعت کی یہ صورت، متابعت کی حقیقت کی طرح آخرت کی کامیابی و نجات اور خلاصی کا موجب اور دوزخ کے عذاب سے بچانے والی اور جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری دینے والی ہے۔
تشریح:
یعنی اگر کوئی اس طرح نقل ہی کر لے تب بھی اس کا فائدہ ہے۔ یہ نقل بھی نجات کا ذریعہ بنے گی۔ لیکن ابھی اس کو حقیقت حاصل نہیں ہے۔
متن:
اللہ تعالیٰ نے اپنے کمالِ کرم سے نفس کے انکار کا اعتبار نہ کر کے صرف تصدیق قلبی پر کفایت فرمائی ہے اور نجات کو اس تصدیق پر وابستہ کیا ہے۔
میتوانی کہ دہی اشک مرا حسنِ قبول
اے کہ در ساختہ قطرہ بارانی را
اے کہ جو قطرہ بارش کا بنا دے موتی، میرے آنسو کو بھی دے سکتا ہے وہ حسنِ قبول۔
تشریح:
گویا یہ بات عوام الناس کے لئے ہے۔ عوام الناس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے ابھی سیر الی اللہ نہیں کیا۔ بے شک وہ علماء ہی کیوں نہ ہوں۔ ابھی انہوں نے سیر الی اللہ نہیں کیا، گویا نفس کو رام نہیں کیا، نفس کو قابو نہیں کیا۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عقل مند وہ ہے جس نے نفس کو قابو کیا اور قرآن پاک میں بھی آتا ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا﴾ (الشمس: 9)
متن:
متابعت کا دوسرا درجہ آن سرور علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و السلام کے ان اقوال و اعمال کی متابعت ہے جو باطن سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً اخلاق کا درست کرنا اور بری عادتوں کا دور کرنا اور باطنی امراض اور اندرونی بیماریوں کا ازالہ کرنا وغیرہ وغیرہ جو مقام ہیں اور اتباع کا یہ درجہ اربابِ سلوک کے ساتھ مخصوص ہے جو طریقہ صوفیہ شیخِ مقتدا سے اخذ کر کے سیر الی اللہ کی وادیوں اور جنگلوں کو قطع کرتے ہیں۔
متابعت کا تیسرا درجہ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و السلام کے ان احوال و اذواق اور مواجید کی متابعت ہے جو ولایتِ خاصہ کے مقام سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ درجہ ان اربابِ ولایت کے ساتھ مخصوص ہے جو مجذوب سالک یا سالک مجذوب ہوں۔ جب مرتبۂِ ولایت اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو نفس بھی مطمئنہ ہو جاتا ہے اور طغیان و سرکشی سے باز آ جاتا ہے اور انکار سے اقرار میں اور کفر سے اسلام میں آ جاتا ہے۔ اس کے بعد جس قدر متابعت میں کوشش کرے گا وہ متابعت کی حقیقت ہو گی۔ اگر نماز ادا کرے گا تو متابعت کی حقیقت بجا لائے گا اور اگر روزہ ہو گا تو اس کا بھی یہی حال ہے، اور اگر زکوٰۃ ہے تو وہ بھی اسی طریقے پر ہو گی۔ علیٰ ہذا القیاس شریعت کے تمام احکام بجا لانے میں ”حقیقتِ متابعت“ شاملِ حال ہو جاتی ہے۔
تشریح:
ذرا غور فرمائیں یہ انسان جو بغیر اذواق اور مواجید کی متابعت کے سیر الی اللہ طے کر لیتا ہے، وہ آپ ﷺ کے باطنی اعمال کی پیروی کر لیتا ہے اور اعمال کو حاصل کر لیتا ہے۔ جس نے طریقت اختیار کی ہے اس کو یہ چیز حاصل ہو سکتی ہے۔ آگے جا کر اس ذوق والی بات کو بھی تبدیل کرنا ہے، کیونکہ ذوق کا مقام عقل سے بھی آگے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذوق کو اختیار کرنا ہے۔ عقل میں تو آپ Point to point analysis (نقطہ در نقطہ تجزیہ) کرتے ہیں۔ ذوق میں کلی طور پر بات لیتے ہیں۔ جیسے ایک ایک چیز کو صاف کرنا اور پوری چیز کو اکٹھے صاف کرنا، دونوں میں فرق ہوتا ہے۔
پہلے میں ذرا ان تین درجوں کا خلاصہ بتاتا ہوں۔ پہلے حضرت کے الفاظ پر تھوڑا سا غور فرما لیں۔ حضرت فرما رہے ہیں کہ:
’’تصدیق قلبی کے بعد اطمینانِ نفس سے پہلے جو کہ درجۂ ولایت سے وابستہ ہے‘‘۔
یعنی بغیر اطمینانِ نفس کے ولایت نہیں ہے۔ تصدیقِ قلبی ہو سکتی ہے جو ایمان کا شعبہ ہے، کیونکہ ایمان ”اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ“ کا نام ہے۔ لیکن اطمینانِ نفس کے لیے کچھ اور کرنا پڑے گا اور اصل ولایت اطمینانِ نفس کے بعد ہے۔
بعض حضرات پرانے بزرگوں کے ملفوظات کی وجہ سے بعض چیزوں میں غلطیوں میں مبتلا ہیں۔ پرانے حضرات چونکہ نفس کی اصلاح کر چکے ہوتے تھے، اور اس وقت جن بعض مقامات ولایتِ کبریٰ اور ولایت صغریٰ کا تذکرہ کرتے تھے، آج کل لوگ بغیر نفس کی اصلاح کے ان چیزوں کو حاصل سمجھتے ہیں۔ ابھی نفس کی اصلاح نہیں ہوئی ہوتی اور ولایت صغریٰ و ولایت کبریٰ تک پہنچ جاتے ہیں۔ نام کی حد تک حاصل کر لیتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیزیں نام کی نہیں ہیں بلکہ کام کی ہیں۔ یعنی یہ خیال نہیں کرتے کہ نفس کا اطمینان بھی ہے یا نہیں۔ یہ چیز اس کے بعد حاصل ہو سکتی ہے، اس سے پہلے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ ولایتِ صغرٰی، ولایتِ کبرٰی، صرف مراقبات سے حاصل نہیں ہوتیں۔ مراقبات کے ذریعہ سے جذب حاصل ہو جاتا ہے البتہ اگر اطمینانِ نفس ہو گیا تو اس کے بعد آپ کو جو مزید مراقبات کرنے ہیں وہ شرعی مراقبات ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ (الحشر: 18)
ترجمہ: ’’اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ اور یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح با خبر ہے‘‘۔
یہ بھی مراقبہ ہے۔ ہر قرآن پڑھنے والا یہ آیت پڑھتا ہے۔ ان میں علماء بھی ہوتے ہیں، بلکہ عرب حضرات بھی ہوتے ہیں، جن کے بالکل سامنے قرآن کے معانی موجود ہیں، بلکہ بعض لوگ تو با قاعدہ درس دینے والے ہوتے ہیں۔ لیکن سب کے اوپر قرآن کی اس آیت کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کا نفس ابھی فعال ہے۔ نفس اس پہ سوچنے نہیں دے رہا۔
مثلاً ایک شخص کوئی مالی گھپلا کر رہا ہے، اس کو پتا ہے کہ یہ جرم ہے، اس کے با وجود وہ یہ کام کرتا ہے۔ گویا وہ اس آیت سے متاثر نہیں ہو رہا۔ یہ تب متاثر ہو گا جب اطمینانِ نفس حاصل ہو گا۔ اطمینان نفس حاصل کرنے والے کو صرف یہ ایک اطلاع کافی ہے۔
حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کے ساتھ موجود تھے، باہر کسی نے آواز لگائی کہ بفندق (یعنی ایک پیسے) کے بدلے اخیار (ککڑی) لے لو۔ وہ یہ آواز سن کر بے ہوش ہو گئے۔ اخیار کے دو معنی ہیں، ایک معنی خیر والے لوگ اور دوسرا معنی ککڑی۔ ان کا ذہن پہلے معنی کی طرف منتقل ہو گیا انہوں نے سوچا کہ اگر اچھے لوگوں کی قیمت ایک دھیلا ہے، تو ہم جیسے لوگوں کی کیا قیمت ہو گی۔ گویا ان کا ذہن اس طرف چلا گیا، حالانکہ وہ بات نہیں تھی۔ یہی بنیادی بات ہے کہ جو قلب میں رچا بسا ہوتا ہے اس کی ذرا سی بات سے انسان کو تحریک ہو جاتی ہے۔ بہر حال جب کسی کو اطمینانِ نفس نہیں ہوتا، اس وقت تک ان مراقبات سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اور ولایت صغریٰ، ولایت کبری، مراقبات سے حاصل نہیں ہوتیں۔
اللہ پاک نے سورۂ شمس میں زور دے کر فرمایا ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا O وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اسے پاکیزہ بنائے، اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
لہذا آپ جتنے مراقبات کریں گے، اگر اطمینانِ نفس نہ ہو، نفس کی اصلاح نہ ہو چکی ہو تو ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا﴾ سے نہیں بچ سکیں گے۔ آپ کے پاس کوئی اور رستہ نہیں ہے۔ کیونکہ ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا﴾ کی نصِ قرآنی سے یہ ثابت ہے کہ جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہو گی آپ اس تباہی سے بچ ہی نہیں سکتے۔
یہ تین درجے جو بیان ہوئے، سالکین کے اعتبار سے ہیں۔ پہلے درجے میں تصدیقِ قلبی کے ساتھ شریعت کے ظاہر پر عمل ہے۔ دوسرے درجے میں طریقت کے ذریعہ سے شریعت کے باطن پر عمل ہے۔ تیسرے درجے میں نفسِ مطمئنہ کے ساتھ آپ ﷺ کے اذواق و مواجید کی متابعت ہے۔
ایک سالک کو آپ ﷺ کی زیارت ہوئی، وہ آپ ﷺ کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہتا تھا لیکن آپ ﷺ نے اپنے منہ مبارک پر پاؤڈر مل کر اشارہ فرمایا کہ اس کو سونگھو۔
اس خواب کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ آپ ﷺ کا اشارہ اس طرف ہے کہ میرے ذوق کو اپناؤ۔ یہ تیسرے درجہ والی بات ہے۔
اس وقت تو یہ چیزیں آج کل کے مسائل ہیں۔ اس لیے کہ اصطلاحات وقتی ہوتی ہیں۔ کسی بھی چیز سے لوگ جو چاہیں مطلب لیتے ہیں اور یہ اصطلاحات زمانی بھی ہوتی ہیں، مکانی بھی ہوتی ہیں۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک جگہ پہ ایک چیز کا ایک مطلب ہوتا ہے اور دوسری جگہ پہ دوسرا ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں ایک مطلب ہوتا ہے اور دوسرے زمانے میں کوئی اور مطلب ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اصطلاحات تبدیل ہوتی ہیں۔ ہر چیز ایک حال پہ نہیں رہا کرتی۔
ہمارے گاؤں جہانگیرہ میں ساتھ ساتھ دو دریا بہتے ہیں، ایک دریائے سندھ اور دوسرا دریائے کابل ہے۔ دریائے کابل کے دوسرے کنارے پر ہمارے گاؤں کے بالکل سامنے ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، جس کو نیوے کلے کہتے ہیں۔ نیوے کلے کے لوگوں میں ”کمینہ“ ”خاکسار“ کو کہتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں اس کا وہی معنی ہے جس معنیٰ میں اردو میں "کمینہ" کا لفظ مستعمل ہے۔ ان دو علاقوں میں ایک ہی لفظ کے الگ الگ معنی ہیں۔ درمیان میں صرف دریا ہے۔ اب اِن لوگوں کی کچھ رشتہ داری اُدھر ہے، اور اُن کی کچھ رشتہ داریاں اِدھر بھی ہیں۔ چونکہ گاؤں قریب قریب ہیں اس لئے آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔ مجھے ایک صاحب اپنا واقعہ بتا رہے تھے کہ بھائی خان ایک بڑا اچھا آدمی تھا، بڑا مالدار تھا، بہت متواضع اور نیک آدمی تھا۔ ان کا کوئی رشتہ دار اِس گاؤں کا رہائشی تھا، اُس گاؤں کا ایک آدمی ان کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ بھائی خان بہت کمینہ ہے۔ کہنے لگا کہ مجھے تو بہت غصہ آ گیا کہ اس کو کمینہ کہہ رہا ہے۔ قریب تھا کہ میں اس کو کچھ کہتا۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ وہ گاڑی میں آ رہے تھے، انہوں نے میرے لیے گاڑی روکی، مجھے اپنے ساتھ سیٹ پر بٹھا لیا، بڑی اچھی باتیں کیں، بڑا کمینہ آدمی ہے۔ اس سیاق و سباق سے میں سمجھ گیا کہ یہ ”کمینہ“ خاکسار کو کہہ رہا ہے۔
یہ اصطلاح کی تبدیلی مکان کے لحاظ سے ہوئی۔ زمان کے لحاظ سے تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزوں سے پہلے ایک مطلب مراد لیا جاتا تھا اور اب دوسرا مطلب مراد لیا جانے لگے۔ لا محالہ اس کو بدلنے کی ضرورت ہو گی۔
جیسے وحدت الوجود کی اصطلاح ہے۔ اس نام کی وجہ سے لوگ گمراہ ہو رہے تھے اس لئے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا نام تبدیل کر کے وحدت الشہود رکھ دیا۔ وحدت الوجود تمام سلسلوں میں پہلے سے موجود تھا، اس کو وحدت الوجود بدون سکر اور وحدت الوجود بالسکر کہتے تھے۔ جس کو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ وحدت الشہود کہتے ہیں، اس کو وحدت الوجود بدون سکر کہتے تھے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں موجود ہے، دوسری کتابوں میں بھی موجود ہے، وحدت الوجود بدون سکر اور وحدت الوجود بالسکر وہ ہے جسے عمومی طور پر وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔
آگے حضرت نے ایک سوال قائم کر کے خود اس کا جواب دیا ہے۔
متن:
سوال: نماز و روزہ کی حقیقت کے کیا معنی ہیں؟ کیونکہ نماز و روزہ مخصوص افعال ہیں اگر ان افعال کو (شارع علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق) ادا کیا جائے تو ان کی حقیقت ادا ہو جائے گی، اس کی صورت کیا ہے اور اس سے زیادہ حقیقت کیا ہے؟
جواب: مبتدی کا نفس چونکہ امارہ ہے لہذا بالذات آسمانی احکام کا منکر ہے اور اس سے احکام شرعیہ کی بجا آوری ظاہری صورت کے اعتبار سے ہے۔ (یہ سالکین میں پہلا درجہ ہے) اور منتہی کا نفس چونکہ مطمئنہ ہو گیا ہے اور اس میں احکام شرعیہ کے قبول کرنے کی رضا و رغبت پیدا ہو گئی ہے لہذا اس سے احکام کی بجا آوری حقیقت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ مثلاً منافق اور مسلمان دونوں نماز ادا کرتے ہیں۔ لیکن منافق چونکہ باطن میں انکار رکھتا ہے اس لیے وہ نماز کی صرف ظاہری صورت ادا کرتا ہے اور مسلمان باطنی فرمانبرداری کے باعث نماز کی حقیقت سے مزین ہے لہذا صورت اور حقیقت کا اعتبار باطنی انکار و اقرار پر ہے۔ یہ درجہ یعنی اطمینانِ نفس اور اعمالِ صالحہ کی حقیقت کا درجہ ولایتِ خاصہ کے کمالات کے حصول کے بعد جو درجہ سوم سے متعلق ہے حاصل ہو جاتا ہے۔
تشریح:
یہاں ایک بات سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ گڑبڑ ہو جائے گی۔ منافق اور مسلمان کے درمیان تصدیق بالقلب کا فرق ہے۔ کیونکہ منافق میں اقرار باللسان ہوتا ہے تصدیق بالقلب نہیں ہوتی۔ منافق اور مسلمان کا فرق عقیدے میں ہے۔ یہ بات ابھی ابھی عطا ہوئی ہے۔ الحمد للہ!
بہر حال مسلمان کو اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب دونوں حاصل ہیں، لیکن منافق کو تصدیق بالقلب حاصل نہیں ہے۔ منافق اقرار باللسان کی جو ظاہری صورت بنا رہا ہے، وہ قصداً بنا رہا ہے۔ وہ بظاہر نماز پڑھ رہا ہے لیکن اس کو پتا ہے کہ میں نماز نہیں پڑھ رہا۔ وہ ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان دکھانا چاہتا ہے، اس لئے صرف دکھانے کے لئے نماز پڑھ رہا ہے۔
لہذا منافق کی جو مثال دی گئی وہ یہاں فِٹ ہو جاتی ہے۔ جیسے صورت اور حقیقت کی بات کی گئی ہے۔ چونکہ منافق کا عقیدہ درست نہیں ہے لہذا وہ قصداً صورت بنا رہا ہے۔ جب کہ بے عمل مسلمان منافق نہیں ہے، کیونکہ اس میں منافقت نہیں ہے۔ اس کا عقیدہ تو صحیح ہے۔ لیکن نفس اس کو صحیح عمل نہیں کرنے دے رہا، اس کا نفس ابھی قابو نہیں ہوا، نتیجتاً اس کا عمل ابھی حقیقت کے اعتبار سے نہیں ہے۔ کیونکہ اس کا نفس مطمئنہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ منافق کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں۔ جیسے حدیث شریف میں منافق کی تین نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ وہ وعدہ کرے گا تو پورا نہیں کرے گا، جھوٹ بولے گا اور امانت میں خیانت کرے گا۔ اب اگر کوئی مسلمان ہے، اس کے دل میں ایمان ہے، لیکن وہ ان چیزوں میں مبتلا ہے جو منافق کی نشانیاں بتائی گئی ہیں، تو منافق کی نشانیوں کے ہونے کی وجہ سے علمائے کرام اس پر فتوی لگاتے ہیں کہ وہ منافق کی طرح بات کر رہا ہے، منافق کی طرح کام کر رہا ہے۔ اگرچہ وہ منافق ہے نہیں۔ کیونکہ منافق کا تعلق عقیدہ کے ساتھ ہے، اعمال کے ساتھ نہیں ہے۔ لہٰذا وہ منافق تو نہیں ہے، لیکن صورت کے لحاظ سے منافق کی طرح ہے۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں صورت والی بات آ گئی۔ لہذا صورت تو ہے لیکن حقیقت نہیں ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عقیدہ بھی صحیح ہو اور نفس بھی قابو میں آ چکا ہو۔ اور ان دونوں میں سے اگر عقیدہ صحیح نہیں ہے پھر بھی حقیقت حاصل نہیں ہے۔ اگر ظاہری عقیدہ تو صحیح ہے، لیکن اس کا نفس قابو نہیں ہے، تو پھر بھی صورت ہے۔ ان دونوں صورتوں میں صورت والی بات ہو جائے گی۔
جواب بالکل واضح ہے۔ اسی لیے اصلاحِ نفس کو فرض عین کا درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر مکمل تباہی یقینی ہے۔ ﴿وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ میں اسی طرف اشارہ ہے، واللہ اعلم۔
متن:
(متابعت کا) درجہ چہارم پہلے درجے میں اس متابعت کی صورت تھی اور یہاں اس اتباع کی حقیقت ہے۔ اتباع کا یہ درجہ علمائے راسخین شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے ساتھ مخصوص ہے۔
تشریح:
پہلے درجہ میں تو علماء اور عوام دونوں شامل ہیں اگر ان کو نفس پہ قابو حاصل نہیں ہے، انہوں نے ابھی سلوک طے نہیں کیا، تو وہ دونوں ایک درجہ میں ہیں، ان کو علم کا فائدہ ہو گا، اس کا اجر بھی ملے گا، لیکن بہر حال وہ پہلے درجے میں ہیں۔ چوتھا درجہ خاص ہے، اگرچہ عوام تیسرے درجہ میں بھی کامل ہو جاتے ہیں، لیکن جب علماء کامل ہو جاتے ہیں تو ان کو چوتھے درجہ میں ترقی مل جاتی ہے۔ وہ چوتھا درجہ کیا ہے؟ آگے حضرت نے یہی بتایا ہے۔
متن:
اتباع کا یہ درجہ علمائے راسخین شکر اللہ تعالیٰ سعیہم کے ساتھ مخصوص ہے۔ جو اطمینانِ نفس کے بعد متابعت کی حقیقت کی دولت سے متحقق ہیں۔ اولیاء اللہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کو تمکینِ قلب کے بعد اگرچہ ایک طرح کا اطمینانِ نفس حاصل ہو جاتا ہے لیکن نفس کو کمال درجہ اطمینان کمالاتِ نبوت کے حصول کے بعد حاصل ہوتا ہے جو کہ وراثت کے طور پر ان کمالات سے علماء راسخین کو بھی حصہ حاصل ہے۔ پس علماء راسخین نفس کے کمالِ اطمینان کے باعث شریعت کی حقیقت سے جو اتباع کی حقیقت ہے متحقق ہوتے ہیں۔ اور دوسروں کو چونکہ یہ کمالات حاصل نہیں ہوتے اس لیے کبھی وہ شریعت کی صورت سے متلبس اور کبھی اس کی حقیقت سے متحقق ہوتے ہیں۔
اب ہم علماءِ راسخین (عام علماء کی نہیں) کی ایک علامت بیان کرتے ہیں۔ تاکہ ہر ظاہر دان عالمِ راسخ ہونے کا دعویٰ نہ کرے اور اپنے (نفس) امارہ کو مطمئنہ نہ سمجھ بیٹھے۔ عالمِ راسخ وہ ہے جس کو کتاب و سنت کے متشابہات کی تاویل سے بہت حصہ حاصل ہوا اور قرآن کریم کی سورتوں کے اوائل میں جو حروفِ مقطعات ہیں ان کے اسرار سے بھی بہرہ ور ہو۔ اور متشابہات کی تاویل بہت ہی پوشیدہ اسرار میں سے ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ یہ تاویل ”ید“ (ہاتھ) کی قدرت کے مانند ہے اور وجہ (چہرہ) کی تاویل ذات سے کرنے کی طرح ہے، کیونکہ یہ تاویل علم ظاہر سے پیدا ہوتی ہے اس کا اسرار سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ ان اسرار کے جاننے والے تو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات ہیں، اور یہ رموز ان کے معاملات سے متعلق اشارات ہیں یا وہ حضرات ہیں جو تبعیت و وراثت کے طور پر اس دولتِ عظمیٰ سے سرفراز فرمائیں۔ اس درجہ متابعت کا حصول جو نفس کے اطمینان سے وابستہ ہے اور صاحب شریعت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی متابعت کی حقیقت کا وصول ہے کبھی بغیر واسطہ فنا و بقا اور کبھی سلوک و جذبہ کے توسل کے بغیر میسر ہو جاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ احوال و مواجید اور تجلیات و ظہورات میں سے کچھ بھی درمیان میں نہ آئے اور یہ دولت حاصل ہو جائے۔ لیکن دوسرے راستوں کی نسبت ولایت کی راہ سے اس دولت تک پہنچنا بہت آسان اور اقرب ہے۔ اور وہ دوسرا راستہ اس فقیر کے خیال میں سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام و التحیۃ کی متابعت کا التزام اور بدعت کے اسم و رسم (نام و نشان) سے اجتناب کرنا ہے۔ جب تک بدعت حسنہ سے بھی بدعت سیئہ کی طرح پرہیز نہ کریں اس وقت تک اس دولت کی خوشبو اس کی جان کے دل و دماغ میں نہ پہنچے گی۔ آج یہ بات مشکل معلوم ہوتی ہے کیونکہ تمام جہان دریائے بدعت میں غرق ہو چکا ہے اور بدعت کے اندھیروں میں آرام سے ہے۔ کس کی مجال ہے کہ بدعت کو دور کرنے کا دم مارے اور سنت کے زندہ کرنے میں لب کشائی کرے۔ اس زمانے کے اکثر علماء بدعتوں کو رواج دینے اور سنتوں کو محو کرنے میں مشغول ہیں۔ مروجہ بدعتوں کو مخلوق کا تعامل جان کر ان کے جواز کا بلکہ استحسان کا فتویٰ دیتے ہیں اور لوگوں کو بدعت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر گمراہی عام پھیل جائے اور باطل متعارف و مشہور ہو جائے تو تعامل (بتکلف عمل بنا لینا) ہو جاتا ہے۔ مگر (علماء) یہ نہیں جانتے کہ یہ تعامل مطلقاً استحسان کی دلیل نہیں ہے، وہ تعامل معتبر ہے جو صدر اول سے چلا آ رہا ہو یا تمام لوگوں کے اجماع سے حاصل ہوا ہو۔
تشریح:
حضرت نے یہاں ایک غلط فہمی دور کرنے کی کوشش فرمائی ہے کہ سارے علماء اس درجہ میں نہیں آتے۔ بلکہ یہ درجہ علمائے راسخین کے ساتھ مخصوص ہے۔
اختصار کے ساتھ بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ علمائے راسخین کون ہیں؟ جب انسان کا نفس قابو میں آ جائے اور عبدیت حاصل ہو جائے، وہ ردِ بدعات اور سنت کی اتباع محبت کے ساتھ کرنا شروع ہو جائے تو اللہ پاک اس عبدیت کی برکت سے اس پہ معارف کھولتے ہیں۔ اگر وہ معارف کسی اور کے ہیں، مثلاً اس نے کسی کتاب میں پڑھے ہیں تو وہ تقلیدی معارف ہیں۔ ان سے وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی اگرچہ عالم ہے مگر علمائے راسخین میں نہیں ہے۔ جن پہ اللہ پاک خود معارف کھول دے، ان کو وہ اظہر من الشمس نظر آ جائیں، محسوسات میں آ جائیں، اس کو علمائے راسخین کہتے ہیں۔ اللہ جل شانہ ان کے اوپر معرفت کی باتیں روزِ روشن کی طرح کھول دیتے ہیں۔ ایسے علمائے راسخین ہوتے ہیں۔ ان کو یہ درجہ حاصل ہو سکتا ہے۔ چاہے حروف مقطعات ان کو جس طریقے سے بھی سمجھ میں آ جائیں، چاہے متشابہات کے معانی و مفاہیم ان کو حاصل ہو جائیں۔ اس میں اللہ جل شانہ کی منشا کے مطابق جتنی سمجھ کی ضرورت ہے، ان کو حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ زبانی جمع خرچ کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ نفس کے اطمینان کے بعد حاصل ہونے والی قلب کی ایک حالت ہے۔ قلب کی ایک حالت نفس کے اطمینان سے پہلے حاصل ہونے والی بھی ہے اور ایک اس کے بعد والی بھی ہے۔ نفس کے اطمینان کے بعد اس کی جو حالت ہوتی ہے، اس میں معارف کھلتے ہیں، جب ملائے اعلی کے ساتھ روح کا رابطہ ہو جاتا ہے۔ اس وقت اس کے اوپر جو احوال کھلتے ہیں وہ اس قسم کے ہوتے ہیں۔ وہ معارف ہوتے ہیں۔ ان کے ذریعے سے وہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ لوگ استحسان کی بات کر رہے ہیں۔ در اصل وہ اجماع کی طرف بات لے گئے، کیونکہ بہت سارے لوگوں کا عمل اگر ایک ہو جائے تو وہ اجماع بن جاتا ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ کیونکہ جب درمیان سے رشتہ ٹوٹ گیا تو پھر وہ چیز ہی نہیں رہی۔
ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ہمیں اپنے بزرگوں نے ایک بات سکھائی تھی، اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کیوں بتا رہے ہیں۔ فرمایا تھا کہ اس کو رٹ لو، اس کو سمجھ لو، یہ بات کام آئے گی، چاہے اِس وقت سمجھ میں نہ آئے لیکن اس کو رٹ لو، سمجھ لو، کسی وقت کام آ جائے گی۔ وہ بات یہ تھی کہ ”دین متواتر ہے اور تواتر سے ثابت ہے“۔
یعنی صحابہ سے جو چیز آ رہی ہے، درمیان میں اس کی کڑی ٹوٹنی نہیں چاہیے، جہاں کڑی ٹوٹ گئی وہاں معاملہ ویسا نہیں رہا۔ حضرت اس تواتر کے اوپر زور دے رہے ہیں، کیونکہ جس بات پر اجماع صحابہ ہوا ہو یا صحابہ کا تعامل ہوا ہو، اس کے خلاف اجماع نہیں ہو سکتا۔
متن:
جیسا کہ فتاویٰ غیاثیہ میں مذکور ہے کہ ”شیخ الامام شہید رحمہ اللہ سبحانہ“ فرماتے ہیں کہ ہم مشائخِ بلخ کے استحسان پر فتویٰ نہیں دیتے بلکہ ہم اپنے متقدمین اصحاب رحمہم اللہ سبحانہ کے قول پر فتویٰ دیتے ہیں کیونکہ صرف ایک شہر کا تعامل جواز پر دلالت نہیں کرتا، بلکہ وہ تعامل جواز پر دلالت کرے گا جو صدرِ اول سے استمرار کے طور پر چلا آ رہا ہے تاکہ وہ نبی کریم علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و السلام کی تقریر (حدیث) پر دلیل ہو۔
تشریح:
تقریر سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام نے وہ عمل آپ ﷺ کے سامنے کیا ہوتا ہے، اگر وہ غلط ہوتا تو آپ ﷺ روک دیتے، اگر وہ ٹھیک ہوتا تو اس کی اجازت دے دیتے۔ اس کی دلیل ساتھ آنی چاہیے۔ گویا تواتر میں تسلسل ہوتا ہے۔ لیکن اگر درمیان میں تسلسل ٹوٹ گیا تو دلیل ختم ہو گئی، تواتر نہیں رہا۔
متن:
اور لوگوں کے لیے نشانِ راہ ہو، تو یہ حقیقت میں آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و السلام کی شریعت ہو گا۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر لوگوں کا فعل حجت نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر تمام شہروں کے بکثرت لوگ اس پر عمل پیرا ہوں تو یہ ”اجماع“ ہو جائے گا اور اجماع حجت ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر کچھ لوگ شراب کی تجارت یا سود کے رواج پر تعامل کریں تو ان کے حلال ہونے کا فتوی نہیں دیا جائے گا۔
اور اس میں شک نہیں کہ تمام مخلوق کے تعامل کا علم اور تمام دیہات و شہروں کا عمل حاصل کرنا انسان کے احاطہ سے باہر ہے۔ باقی رہا صدرِ اول کا تعامل جو کہ حقیقت میں آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام کی تقریر یعنی ”برقرار رکھا ہوا“ ہے اور آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی سنت کی طرف راجع ہے۔ اس (تعامل) میں بدعت کہاں اور بدعت حسنہ کیسی؟
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بہت باریک بات فرمائی ہے۔ یہ ایک فقہی بات ہے۔ استحسان ایک فقہی اصطلاح ہے اور تواتر بھی ایک فقہی اصطلاح ہے۔ یہاں حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ صحابہ کرام تھوڑے تھے، ان کا اجماع محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہر میں گشت کرتے تھے، کیا آج کا حکمران ایسا کر سکتا ہے؟ اگر کرے گا بھی تو کہاں کہاں کرے گا؟ اُس وقت بات اور تھی، اِس وقت بات اور ہے۔ اس وقت سب لوگوں کے بارے میں جاننا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اتنا جدید ترقی یافتہ زمانہ ہے پھر بھی یہ نہیں ہو سکتا۔ جو مصر میں ہو رہا ہے، وہ یہاں نہیں ہو رہا۔ جو سوڈان میں ہو رہا ہے، وہ یہاں پر نہیں ہو رہا ہے۔ ان سب کو جمع کرنا نا ممکن ہے، لہذا آج کل اجماع قائم کرنا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ حضرت فرما رہے ہیں کہ اگر ایسا اجماع آج بھی قائم ہو جائے تو ہم مان لیں گے۔ چونکہ حدیث شریف میں ہے کہ میری امت گمراہی پہ جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اجماع اگر قائم ہو گیا تو ہم مان لیں گے۔ غلام احمد قادیانی کے کافر ہونے پر اجماع ہوا ہے، اسے الحمد للہ سب نے مان لیا ہے۔ صرف کافروں نے نہیں مانا اور خود قادیانیوں نے نہیں مانا۔ کیونکہ وہ تو مبتلا ہیں۔ بہر حال باقی چیزوں میں اجماع کو حاصل کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
متن:
اصحابِ کرام کو تمام کمالات کے حاصل ہونے میں صحبتِ خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کافی تھی، اور علمائے سلف میں سے جو حضرات بھی رسوخ کی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں وہ صوفیہ کے طریقے کو اختیار کیے بغیر اور سلوک و جذبے کے ساتھ مسافت کو قطع کیے بغیر مشرف ہوئے ہیں اور وہ سنتِ سنیہ علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام و التحیۃ کی متابعت کے التزام اور بدعت نا پسندیدہ سے اجتناب کی وجہ سے اس مرتبہ پر پہنچے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنَا عَلٰی مُتَابَعَۃِ السُّنَّۃِ وَ جَنِّبْنَا عَنِ ارْتِکَابِ الْبِدْعَۃِ بِحُرْمَۃِ صَاحِبِ السُّنَّۃِ عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِیَّۃُ۔ (یا اللہ! تو ہم کو بحرمۃ صاحبِ سنت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی متابعت پر ثابت قدم رکھ اور بدعت کے ارتکاب سے بچا) آمین۔
تشریح:
جن علماء کرام کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہو جائے، ان پر متشابہات اور حروفِ مقطعات کے اسرار بھی کھل جائیں، اس کی برکت سے مزید معارف بھی کھل جائیں تو ان کو یہ درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
متن:
متابعت کا پانچواں درجہ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوٰۃ و السلام کے صرف ان کمالات کا اتباع ہے جن کے حاصل ہونے میں علم و عمل کا کوئی دخل نہیں۔
تشریح:
یعنی چوتھے درجہ تک معاملہ عمل سے اوپر کا ہے۔
متن:
بلکہ ان کا حصول خداوند جل سلطانہٗ کے محض فضل و احسان پر موقوف ہے۔ یہ درجہ نہایت ہی بلند ہے۔ سابقہ درجات کی اس درجے کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہ کمالات اولو العزم انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے ساتھ بالاصالت مخصوص ہیں اور دوسروں کو تبعیت و وراثت کے طور پر حاصل ہیں۔ دیکھئے اس دولت سے کس کو مشرف فرماتے ہیں۔
تشریح:
جب کمالاتِ نبوت کا اتباع کیا جاتا ہے تو اللہ جل شانہ اپنے فضل سے کچھ کمالات عطا فرما دیتے ہیں۔ اگر محبت کا عنصر ہو تو پانچواں درجہ حاصل ہو سکتا ہے جو فضل اور احسان سے اوپر کا درجہ ہے۔
یہ اتباعِ رسول ﷺ کا بہت ہی اعلیٰ درجہ ہے، اس کو علم و عمل سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ محض اللہ تعالی کے فضل سے ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔آمین
آگے چھٹا درجہ بیان فرمایا ہے۔
متن:
متابعت کا چھٹا درجہ آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کے ان کمالات کا اتباع ہے جو آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کے مقامِ محبوبیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ جس طرح پانچویں درجہ میں کمالات کا فیض محض فضل و احسان پر تھا اسی طرح اس چھٹے حصے میں بھی ان کمالات کا فیضان محض محبت پر موقوف ہے جو فضل و احسان سے بالا و برتر ہے۔ متابعت کا یہ درجہ بھی بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ پہلے درجے کے علاوہ متابعت کے یہ پانچ درجے مقاماتِ عروج کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ان کا حصول بھی صعود پر وابستہ ہے۔ یہ درجہ آپ ﷺ کے ان کمالات کا اتباع ہے جو آپ ﷺ کی محبوبیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اور یہ محبت ہی کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے جو احسان سے بھی بڑھ کر ہے، سوائے پہلے کے باقی تمام بیان کردہ درجات کا تعلق عروج کے ساتھ ہے۔
تشریح:
آگے ساتواں درجہ ہے جو آخری درجہ ہے۔
متن:
متابعت کا ساتواں درجہ وہ ہے جو نزول و ہبوط سے تعلق رکھتا ہے۔ اور متابعت کا یہ ساتواں درجہ سابقہ تمام درجات کا جامع ہے۔
تشریح:
جیسے غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا تھا، تو وہ کافر ہو گیا چاہے اس پہ اجماع ہو یا نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے۔ کیونکہ اس کا کفر نصِّ صریح سے ثابت ہے۔ اس کے لیے ہم اجماع کا انتظار نہیں کرتے۔ ہاں البتہ اس کو لاگو کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے منظور کروایا گیا، تاکہ اس کے کفر کا حکم عملی طور پر نافذ ہو جائے اور اس پر قانونی طور پر عمل کیا جا سکے، اس لیے وہ ساری محنت کی گئی ورنہ وہ کافر اس وجہ سے نہیں کہ اس پر اجماع ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے کہ اگر کسی نے جھوٹے مدعی نبوت سے معجزہ بھی طلب کیا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ لہذا (مرزا غلام احمد قادیانی کے کافر ہونے) میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔
متن:
کیونکہ اس مقام میں نزول بھی تصدیقِ قلبی ہے اور تمکینِ قلبیِ بھی ہے اور نفس کا اطمینان بھی اور اجزائے قالب کا اعتدال بھی ہے جو طغیان و سرکشی سے باز آ گئے ہیں۔ پہلے درجے گویا اس متابعت کے اجزا تھے اور یہ درجہ ان اجزا کے کل کی مانند ہے۔ اس مقام میں پہنچ کر تابع کو اپنے متبوع کے ساتھ اس قسم کی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے کہ گویا تبعیت و پیروی کا نام ہی درمیان سے اٹھ جاتا ہے اور تابع و متبوع (کے احکام) کی تمیز دور ہو جاتی ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تابع اپنے متبوع کی طرح جو کچھ حاصل کرتا ہے اصل سے حاصل کرتا ہے گویا دونوں ایک ہی چشمے سے پانی پیتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ہم آغوش و ہمکنار ہیں اور ایک ہی بستر پر شیر و شکر کی طرح ہیں، معلوم نہیں ہوا کہ تابع کون ہے اور متبوع کون، اور تبعیت کس کے لیے ہے، اتحادِ نسبت میں تغایر نسبت کی کچھ گنجائش نہیں۔
تشریح:
اس درجے میں سارے درجے شامل ہیں اور اس میں نزول حاصل ہو جاتا ہے۔ تصدیقِ قلبی اور نفسِ مطمئنہ کے ساتھ اجزائے قالب کا اعتدال بھی اس میں نصیب ہو جاتا ہے۔ یہاں تابع اور متبوع ایک ہی چشمے سے سیراب نظر آتے ہیں۔
متن:
عجب معاملہ ہے کہ اس مقام میں جہاں تک غور کی نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے تبعیت کی نسبت کچھ ملحوظ و منظور نہیں ہوتا اور تابعیت و متبوعیت کا امتیاز ہرگز مشہود نہیں ہوتا البتہ اس قدر فرق معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اپنے نبی علیہ و علیٰ جمیع الانبیاء من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کا طفیلی اور وارث جانتا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تابع اور ہوتا ہے اور طفیلی و وارث اور۔ اگرچہ تبعیت کی قطار میں سب برابر ہیں لیکن تابع میں بظاہر متبوع کا حیلولہ (حائل ہونا) درکار ہے اور طفیلی وارث میں (متبوع کا) کوئی حیلولہ درکار نہیں ہے۔
تشریح:
اس پر حضرت نے مکتوبات شریفہ کے آخر میں ایک مکمل مکتوب بھی لکھا ہے۔
متن:
تابع (اپنے متبوع کا) پس خوردہ کھانا کھاتا ہے اور طفیلی ضمنی طور پر ساتھ بیٹھ کر کھانے والا ہے غرضیکہ جو دولت بھی آئی ہے وہ انبیاء علیہم الصلوات والتحیات کے لیے آئی ہے اور امتیوں کے لیے یہی سعادت ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے طفیل اس دولت سے حصہ پائیں اور ان کا پس خوردہ تناول کریں۔
تشریح:
حضرت نے یہاں ایک مشکل مقام کو سمجھانے کے لیے تشریح فرمائی ہے کہ اس مقام میں چونکہ تابع اور متبوع ایک چشمے سے سیراب نظر آتے ہیں، اس لئے ان میں بظاہر فرق نظر نہیں آتا، بس فرق یہ ہے کہ متبوع کو فی الاصل مل رہا ہے اور طفیلی کو متبوع کے طفیل مل رہا ہے۔ تاہم ملتا سب کو آپ ﷺ کی بدولت ہی ہے۔
متن:
در قافلہ کہ اوست دانم نرسم
ایں بس کہ رسد ز دور بانگ جرسم
قافلے تک کہاں پہنچ ہو گی، ہے غنیمت سنوں جرس کی صدا
کامل تابعدار وہ شخص ہے جو متابعت کے ان ساتوں درجوں سے آراستہ ہو اور جو شخص بعض درجات میں تو متابعت رکھتا ہو اور بعض میں نہ رکھتا ہو وہ درجات کے فرق کے اعتبار سے مجمل طور پر تابع ہے۔ علمائے ظاہر پہلے درجے ہی میں خوش ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ درجہ اول ہی کو سر انجام دے لیتے۔ انھوں نے صرف شریعت کی صورت ہی میں متابعت کو موقوف رکھا ہے اس کے علاوہ کوئی اور امر کا خیال ہی نہیں کرتے۔ اور طریقہ صوفیہ کو جو کہ درجات متابعت کے حاصل ہونے کا واسطہ ہے بیکار تصور کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر علماء ہدایہ اور بزدوی کے سوا کسی اور کو اپنا پیر و مقتدا نہیں جانتے۔
چو آں کرمے کہ در سنگے نہاں است
زمین و آسمان او ہماں است
وہ کیڑا جو کہ پتھر میں نہاں ہے، وہی اس کی زمین اور آسماں ہے۔
تشریح:
حضرت نے تو کتاب میں لکھا ہے، لیکن میرے ساتھ عملی طور پر ایسا ہوا ہے۔ ہم شاہ پور شانگلہ ایک مدرسہ میں گئے تھے۔ میں نے شانگلہ میں ڈیڑھ بجے جمعۃ المبارک کا بیان کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ ان شاء اللہ تین بجے خواتین کے لیے بیان ہو گا۔ وہ بیان ایک پیر صاحب کے گھر میں تھا، ہم وہاں گئے، کھانا بھی اُدھر ہی کھایا۔ تین بجے بیان ہو گیا۔ اس مختصر سی جگہ میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ خواتین جمع ہو گئیں۔ بیان بھی ہو گیا، اس میں خواتین بیعت بھی ہو گئیں، انہوں نے ذکر بھی لے لیا۔ وہ پیر صاحب بھی بیعت ہوئے، تبلیغی جماعت کے امیر صاحب بھی بیعت ہوئے، وہاں کے خطیب صاحب بھی بیعت ہوئے۔ گویا تین درجے پورے ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ قریب ہی پرشٹ نامی ایک گاؤں ہے، وہاں جاتے ہیں۔ وہاں جامعہ فاروقیہ کراچی کے فارغ التحصیل عالم تھے، وہ اور ان کے متعلقین بھی بیعت ہوئے۔ اب سب نے مشورہ کیا کہ ان کو شاہ پور کے مدرسے میں لے جانا ہے۔ تبلیغی جماعت کے امیر اور وہ خطیب صاحب اس کے حق میں نہیں تھے، کیونکہ اس مدرسہ کے لوگ بڑے سخت تھے، وہ کسی چیز کو نہیں مانتے تھے۔ اندیشہ تھا کہ وہاں کوئی فتنہ، لڑائی یا کوئی اور مسئلہ نہ ہو جائے۔ وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن جو مجھے لے جانا چاہتے تھے وہ میرے میزبان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرور جانا ہے۔ میں نے کہا: آپ لوگ آپس میں فیصلہ کر لیں، جو فیصلہ آپ میں ہو گیا وہ مجھے منظور ہے۔ اخیر میں وہ میزبان غالب آ گیا۔ اللہ کی شان کہ اس وقت گاڑی نہیں ملی۔ لہٰذا ہم شام کو تو نہیں جا سکے، اگلے دن صبح فجر کے بعد چلے گئے۔ وہاں کے مہتمم صاحب جنازے میں شرکت کرنے کے لیے کنٹر سے تشریف لائے تھے، وہ مجھے نہیں جانتے تھے، میرے میزبان نے کہا کہ انہوں نے بیان کرنا ہے۔ ان کی آپس میں بڑی بے تکلفی تھی۔ مہتمم صاحب نے کہا کہ سب کو جمع کر لو۔ ایک ہال میں سب کو جمع کیا اور بے تکلفی سے اعلان کر دیا کہ میں ان صاحب کو نہیں جانتا لیکن ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ بیان کریں گے۔ اس طرح بہت سادگی کے ساتھ انہوں نے اعلان کر دیا۔ مجھے ان کا یہ انداز بہت پسند آیا۔ بہرحال میں نے بیان کر لیا۔ بیان کے بعد مجھے دو تین لڑکوں نے پہچان لیا کہ یہ فہم الفلکیات کے مصنف ہیں۔ وہ میرے پیچھے آئے، اور کہنے لگے کہ آپ ہمیں کچھ درس دے دیں تاکہ ہم آپ کی شاگردی میں آ جائیں۔ میں نے کہا کہ میں اساتذہ کو پڑھاتا ہوں، کسی مدرسے میں شاگردوں کو نہیں پڑھاتا، اس میں مسائل ہوتے ہیں۔ مہتمم صاحب نے کہا، کیوں نہیں پڑھاتے؟ میں نے کہا: مسئلہ ہو جاتا ہے، کیونکہ اساتذہ کی وہ بات نہیں رہتی۔
مہتمم صاحب کہنے لگے کہ نہیں! جب لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے تو پڑھانا چاہیے۔ میں نے کہا: پھر ٹھیک ہے، میں پڑھا دیتا ہوں۔ لہذا میں نے ایک دو صفحے پڑھا دیئے۔ اس کے بعد کچھ اور حضرات آ گئے کہ ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، یہ تو اور بھی خطر ناک بات ہے۔ کہتے ہیں: کیوں؟ میں نے کہا: میں مدرسے میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا، یہ مدرسہ ہے۔ وہی مفتی صاحب کہنے لگے کہ آپ بیعت کر لیں، ان کے فائدہ کی بات ہے آپ کیوں انکار کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اگر آپ کی اجازت ہے تو کر لیتا ہوں۔ یوں وہیں پر ساٹھ ستر کے قریب لوگ آ گئے اور اجتماعی بیعت ہو گئی۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے علیحدہ کر کے کہا کہ یہ آپ نے بڑی زیادتی کی ہے کہ آپ صرف ایک دن کے لیے آئے، یہ اجمیر تک علاقہ ہمارا ہے، آپ ایک ہفتے کے لیے آ جائیں تو یہاں بہت کام ہو جائے گا۔ آپ کے تصوف کو میں نے سن لیا ہے یہ قرآن و سنت کا تصوف ہے۔ اس سے ہم انکار نہیں کرتے۔
الحمد للہ بہت اچھی مجلس ہو گئی۔ پھر ہم اجازت لے کے چلے گئے۔ اگلے سال بھی ان کی دعوت پہ گئے۔ اس مرتبہ کچھ لوگ جو ہماری اس چیز کے مخالف تھے، انہوں نے ایک ڈرامہ سا بنایا کہ ایک صاحب سے قرآن پاک کی ان آیات کی تلاوت کروائی جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو قرآن سے اعراض کرتے ہیں، ان کو کہا جائے کہ اب کیوں بھاگتے ہو، اب آ جاؤ۔ اس سے استدلال کر کے انہوں نے یہ کہا کہ اصل میں قرآن ہی پیر ہے کوئی اور پیر نہیں ہوتا۔ گویا انہوں نے اس سے اپنی طرف سے استدلال کر لیا، میں نے سن لیا۔ اس وقت تو میں نے کچھ نہیں کہا کہ کہیں بات بگڑ نہ جائے، کام خراب نہ ہو جائے۔ جتنی بات کر سکتا ہوں، اس کا موقع بھی ہاتھ سے چلا نہ جائے۔ لہذا میں نے اس وقت سنی ان سنی کر دی اور میں نے تقریباً ایک گھنٹہ بیان کیا اور بیان کے آخری پانچ منٹ میں نے تصوف کا مسئلہ بھی بیان کر دیا۔ میں نے کہا کہ آپ حضرات نے کہا ہے پیر قرآن ہی ہوتا ہے۔ اس سے تو کوئی منکر نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ سورۂ بقرہ کی ابتدا میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے، اس پر سب کا یقین ہے، لیکن سورہ فاتحہ میں یہ بھی فرمایا گیا:
﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ 0 صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ (الفاتحۃ: 5-6)
ترجمہ: ”ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما۔ ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا“۔
اور ﴿أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ﴾ کے بارے میں قرآن پاک میں ہی ایک دوسرے مقام پر بتایا گیا ہے کہ اس سے مراد انبیاء، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں۔ یہ سب رجال اللہ ہیں۔ سورہ فاتحہ میں رجال اللہ کی اتباع ہے اور سورۂ بقرہ میں قرآن کی اتباع ہے۔ ہمارا کام رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں اتباعوں کو جمع کرنا ہے۔ چنانچہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جو ان دونوں کو جمع کر لے گا وہ صحیح معنوں میں ہدایت پر ہو گا اور جو ان دونوں میں سے کسی ایک کو لے گا، وہ گمراہ ہو جائے گا۔ اس کی مثال یہ دی کہ جیسے خوارج، صرف کتاب اللہ کو ماننے والے تھے اور فاطمین صرف رجال اللہ کو ماننے والے تھے۔
میں نے بیان میں مزید یہ کہا کہ جب خوارج نے کہا تھا کہ ہم صرف کتاب اللہ کو مانتے ہیں تو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے سامنے قرآن رکھا اور فرمایا: ’’یَا مُصْحَفُ کَلِّمِ النَّاسَ‘‘ ’’اے مصحف لوگوں سے بات کر‘‘۔
انہوں نے کہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں وہی کر رہا ہوں جو آپ لوگ کہنا چاہتے ہیں۔ آپ لوگ کہتے ہیں قرآن کافی ہے، لہٰذا اب قرآن ہی آپ سے بات کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دونوں کو جمع کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں رجال اللہ کو بھی لو، اس میں پیر بھی ہیں اور کتاب اللہ کو بھی لو جس میں علماء شامل ہیں، جو کتاب اللہ کو سکھاتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ گیارہ آدمی اس وقت بھی بیعت ہو گئے۔ بہر حال بعض لوگ اس قسم کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ صرف نا سمجھی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرما دے۔ آمین
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ