اصلاحی بیان

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ O فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ O
اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ O﴾
قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: اَحْصُوْا ھِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ وَ کَانَ یَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لَا یَتَحَفَّظُ مِنْ غَیْرِہٖ
وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ لَا یَتَقَدَّمَنَّ اَحَدُکُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ یَوْمٍ اَوْ یَوْمَیْنِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ رَجُلًا کَانَ یَصُوْمُ یَوْماً فَلْیَصُمْ ذٰلِکَ الْیَوْمَ
وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ فِیْ ھٰذِہِ اللَّیْلَۃِ یَعْنِیْ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اَنْ یُّکْتَبَ کُلُّ مَوْلَوْدِ بَنِیْ اٰدَمَ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَ فِیْھَا اَنْ یُّکْتَبَ کُلُّ ھَالِکٍ فِیْ ھٰذِہِ السَّنَۃِ وَ فِیْھَا تُرْفَعُ اَعْمَالُھُمْ وَ فِیْھَا تُنْزَلُ اَرْزَاقُھُمْ
وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ اِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوْا یَوْمَهَا فَاِنَّ ﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلیٰ سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: اَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرَ لَهُ؟ اَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَاَرْزُقَهُ؟ اَلَا مُبْتَلًی فَاُعَافِيَهٗ؟ اَلَا کَذَا؟ اَلَا کَذَا؟ حَتّٰی يَطْلُعَ الْفَجْرُ۔
وَ قَالَ صَاحِبُ ”مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّة“: مِنَ الْبِدَعِ الشَّنِیْعَۃِ مَا تَعَارَفَ النَّاسُ فِیْ اَکْثَرِ بِلَادِ الْھِنْدِ مِنْ اِیْقَادِ السُّرُجِ وَ وَضْعِ عَلَی الْبُیُوْتِ والْجُدْرَانِ وَ تَفَاخُرِھِمْ بِذٰلِک وَاجْتِمَاعِھِمْ لِلَّھْوِ وَ اللَّعْبِ بِالنَّارِ وَ اِحْرَاقِ الْکِبْرِیْتِ عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ ذٰلِکَ وَ الظَّنُّ الْغَالِبُ اتِّخَاذُھُمْ رُسُوْمَ الْھُنُوْدِ فِیْ اِیْقَادِ السُّرُجِ لِلدِّوَالِی
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْم
معزز خواتین و حضرات!
گزشتہ اتوار بھی یہی بات چیت ہوئی تھی۔ اصل میں ہمارا مقصد محض تقریر کرنا نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی تقریری مقابلہ نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد محض اس بات کو سامنے لانا ہوتا ہے کہ موجودہ وقت کا تقاضا کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ لہٰذا جب تک شعبان ہے تب تک شعبان کی بات ہو گی۔
آپ ﷺ نے شعبان کے اندر برکت کی دعا فرمائی ہے۔ جب رجب کا چاند دیکھ لیا تو آپ ﷺ نے دعا کی: ”اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ“ ”اے اللہ ہمارے لئے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے“۔ ہمیں بھی یہ دعا کرنی چاہیے کہ شعبان کا مہینہ جتنا باقی ہے اس میں اللہ پاک ہمارے لئے برکت عطا فرمائے اور رمضان شریف تک ہمیں پہنچا دے۔
رمضان شریف ایک رحمتیں برسنے والا مہینہ ہے۔ آپ اللہ پاک کی رحمت کو دیکھیں کہ ماہ رمضان میں نفل فرضوں کے برابر ہو جاتا ہے اور فرض ستر گنا ہو جاتا ہے۔ عموماً کوئی شخص دن میں پانچ فرض نمازوں سے زیادہ فرض نہیں پڑھ سکتا، اگر پڑھے گا تو وہ نفل ہو جائے گی لیکن رمضان شریف میں آپ کو ہر فرض کا ثواب ستر فرضوں کے برابر مل رہا ہے۔ گویا ایک دن میں آپ تین سو پچاس فرض نمازیں پڑھ سکتے ہیں۔ اس ماہ میں ہر چیز کا اجر بڑھ جاتا ہے۔ اس لئے میں یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ رمضان رحمتوں کے برسنے والا مہینہ ہے۔ اس کے لئے تو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شعبان کے مہینہ کی قدر کریں۔ یہاں ایک سوال ہو سکتا ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں شعبان کے مہینے کی قدر کریں تو یہ بتائیں کہ قدر کیسے کریں؟ ظاہر ہے جو سوال آپ کے ذہن میں ہے، وہ سوال میرے ذہن میں بھی ہے۔ ہم سب یہ سوال آپ ﷺ سے پوچھیں گے کیونکہ آپ ﷺ ہی اس کا جواب بتا سکتے ہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی تو آپ ﷺ کے پیچھے چل رہے تھے۔ آپ ﷺ کے بتانے کا انداز قولی، فعلی اور تقریری، تین قسم کا ہوتا ہے۔ کسی چیز کے بارے میں صراحتاً بتا دیں، تو یہ بھی بتانا ہے، کسی پر عمل کر رہے ہوں تو یہ بھی بتانا ہے، کسی چیز سے نہ روکیں، یہ بھی بتانا ہے اور اگر کسی چیز سے روکیں تو یہ بھی بتانا ہے۔
میں دارالعلوم کراچی میں ایک کورس کے سلسلہ میں گیا تھا۔ پندرہ شعبان کی رات وہیں آئی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں کے علماء اِس رات میں کیا کرتے ہیں۔ وہاں پہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مفتی عبد الرؤوف سکھروی صاحب دامت برکاتھم اور ان کے کئی مرید ہیں۔ میں نے دیکھا کہ حضرت عشاء کی نماز پڑھ کے گھر چلے گئے، تھوڑی دیر کے بعد واپس مسجد تشریف لائے اور نماز پڑھنی شروع کی، دو رکعت پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت اور پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت مزید پڑھیں۔ انہیں دیکھ کر ان کے مرید بھی وہی کر رہے تھے۔ یہ فعلی دعوت تھی کہ جو کیا جا رہا ہے وہ تم بھی کرو، کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔
اس وجہ سے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آپ ﷺ نے شعبان کے مہینہ میں کیا کیا؟ تو آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں روزے کثرت کے ساتھ رکھتے تھے، اتنی کثرت کے ساتھ رکھتے تھے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اتنی زیادہ کثرت سے سوائے رمضان کے اور کسی اور مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے۔ شعبان میں اتنے زیادہ روزے رکھتے تھے کہ ایسا لگتا جیسے افطار ہی نہیں کریں گے۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے یہ آپ ﷺ کی استحبابی سنت ہے۔ استحبابی سنت ایسے عمل کو کہتے ہیں جس کی تاکید نہ کی جائے لیکن عملی طور پر ترغیب دے دی جائے۔ یوں تو یہ استحبابی سنت ہوتی ہے لیکن جو آپ ﷺ کے عاشق ہیں ان کے لئے تو اتنی بات کافی ہے کہ آپ ﷺ نے یہ کام کیا ہے۔ ان کے لئے تو یہ پیغام ہی کافی ہے۔
کتنے ہی لوگ ہیں کہ جن سے وہ متاثر ہوتے ہیں ان کی طرح بال رکھتے ہیں، ان کی طرح باتیں کرتے ہیں، ان کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کا دل اِس طرف ہوتا ہے نتیجتاً ان کا عمل بھی اسی قسم کا ہوتا ہے۔ ہم لوگ اگر یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہمیں محبت ہے تو اس محبت کا مظاہرہ شعبان کے مہینہ میں کثرت کے ساتھ روزے رکھ کے کیا جائے گا۔
آپ ﷺ نے شعبان کے مہینہ کے بارے میں ایک قولی حدیث کے ذریعے بھی کچھ فرمایا ہے، میں وہ سنا دیتا ہوں تاکہ بات آپ حضرات کے سامنے آ جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”شعبان کے چاند کا شمار رکھو رمضان کے لئے”۔ جب شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی تو رمضان میں اختلاف کم ہو گا۔
اسی بارے میں ایک قولی حدیث یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے مگر یہ کہ وہ شخص کسی خاص دن کا روزہ رکھا کرتا ہو اور رمضان سے ایک دن پہلے وہ دن ہو“۔ مثلاً ایک آدمی کا ہر پیر کو روزہ رکھنے کا معمول ہے، انتیس شعبان کو پیر کا دن آ گیا تو اس دن بھی روزہ رکھ لے۔ یہ حکم ایک خاص وجہ سے ہے کہ کہیں رمضان میں سستی نہ ہو جائے، رمضان شریف میں کمزوری نہ ہو جائے لہٰذا ایک دن پہلے روزہ نہ رکھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شک کی بنیاد پہ بھی روزہ نہیں رکھنا چاہیے، یقینی بات ہو تب روزہ رکھنا چاہیے۔
آپ ﷺ نے شعبان کی پندرھویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس رات میں وہ سب بنی آدم لکھ لئے جاتے ہیں جو اس سال پیدا ہوں گے اور جو اس سال میں مریں گے اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔ اعمال اٹھائے جانے سے مراد ان کا پیش ہونا ہے اور رزق نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس سال میں جو رزق ملنے والا ہے وہ سب لکھ دیا جاتا ہے۔ اگرچہ سب چیزیں پہلے سے لوح محفوظ میں محفوظ ہیں مگر اس رات کو با قاعدہ لکھ کر فرشتوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
ایک اور قولی حدیث شریف ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدھے شعبان کی رات ہو تو اس رات شب بیداری کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟ کیا کوئی روزی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو روزی دوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ وہ عافیت کی دعا مانگے اور میں اس کو عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا ہے، کیا کوئی ایسا ہے؟ رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے یہاں تک کہ صبح صادق ہو جاتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اس دفعہ حساب لگا لیں۔ اس دفعہ منگل 07 مارچ اور بدھ 08 مارچ کی درمیانی رات شبِ برات ہو گی۔ شعبان کی 13 تاریخ کو پیر کا دن ہے، 14 تاریخ کو منگل کا دن ہے اور 15 کو بدھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی 13، 14 اور 15 کی تاریخیں ایام بیض بھی ہیں۔ اب دیکھیں کہ 13 تاریخ کو پیر کے دن کے روزے کی سنت بھی ادا ہوگی اور ایامِ بیض کے تین روزے بھی پیر، منگل اور بدھ کو ہیں تو گویا پیر کے دن دو سنتیں اکھٹی ہو گئی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان دنوں سے پورا پورا استفادہ کریں۔
حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتهم نے اس پر بیان فرمایا تھا۔ ان دنوں میں بھی اتفاقاً وہیں تھا۔ اتفاقاً تو نہیں کہنا چاہیے۔ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کوئی کام بھی اتفاقاً نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے لکها ہوتا ہے۔ بہرحال میں ان دنوں کراچی میں تھا۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب بیت المکرم مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں، میں نے سوچا کہ حضرت کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں اور ادھر پہنچ گیا، غالباً وہ 14 شعبان کا دن تھا، یا شاید اس سے پہلے کا کوئی دن تھا۔ حضرت نے اُس دن اسی موضوع پر بیان فرمایا۔ چونکہ میں نے یہ بیان اس مجلس میں بیٹھ کر سنا ہوا ہے لہٰذا درمیان میں کوئی اور راوی نہیں ہے، یہ براہ راست نقل کر رہا ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ بھائی یہ نہ کہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس لئے میں اس پہ عمل نہیں کرتا۔ کوئی حدیث ایسی بھی ہوتی ہے جو ضعیف ہوتی ہے لیکن کئی طرق سے مروی ہوتی ہے، اس لئے حدیث شریف کے قانون کے مطابق اس میں قوت آ جاتی ہے۔
میں اس کا عقلی تجزیہ بتاتا ہوں۔ مثلاً میں گاڑی میں سوار راستہ پہ جا رہا ہوں، آگے سے کوئی ہاتھ سے روک کر مجھے بتاتا ہے کہ آگے نہ جانا، ہڑتال کی وجہ سے راستہ بند ہے۔ میں اس شخص کو جانتا نہیں ہوں، اس لئے اس کے اطلاع دینے پر یہ سوچ کر آگے چلا جاتا ہوں کہ ممکن ہے یہ درست نہ کہہ رہا ہو۔ تھوڑا سا آگے گیا تو کسی اور آدمی نے کہا آگے ہڑتال کی وجہ سے راستہ بند ہے۔ اب اطلاع دینے والے دو ہو گئے، میں شش و پنج میں مبتلا ہو گیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ اتنے میں ایک تیسرے آدمی نے بھی کہہ دیا، چوتھے آدمی نے بھی کہہ دیا۔ آپ بتائیں اب میرے پاس اس کے علاوہ کیا چارہ ہو گا کہ میں اس اطلاع کو سچ مان کر واپسی کی راہ لے لوں۔ حالانکہ میں ان میں سے کسی کو نہیں جانتا لیکن میرے لئے ان کی بات یقینی ہو گی۔ حدیث شریف کی حفاظت کے لئے ایک قانون بنایا گیا ہے، اسے اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ بڑی اچھی بات عرض کر رہا ہوں۔ حدیث شریف کی حفاظت کے لئے ایک قانون یہ ہے کہ اگر سند میں ایک راوی بھی مجہول آ جائے تو حدیث شریف ضعیف ہو جاتی ہے۔ (مجہول سے مراد ایسا آدمی جس کو کوئی نہ جانتا ہو، اجنبی ہو، اس کے بارے میں معلومات نہ ہوں)۔ اس کو ہم ضعیف ہی کہیں گی کیونکہ حدیث شریف کی حفاظت اسی میں ہے۔ محدثین حضرات تو کسی کو معاف نہیں کرتے وہ تو اس پر ضعیف کی مہر ہی لگائیں گے۔ ان کی ڈیوٹی بھی یہی ہے ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جو کوالٹی چیکنگ کا کام کرتے ہیں۔ کام کرنے والے بیچارے ڈرتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں یہ ہمارے کام کے بارے میں کیا کہیں گے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہماری تو مجبوری ہے، ہمارا کام ہی معیار کی جانچ کرنا ہے۔ اسی طرح محدثین کی بھی مجبوری ہے۔ یہ میں نے ایک عقلی توجیہ کی ہے۔ جس حدیث کا راوی مجہول ہے، ضروری نہیں کہ وہ جھوٹا بھی ہو، وہ سچا بھی ہو سکتا ہے، وہ مجہول اس لئے قرار دیا گیا ہے کہ اسے کوئی جانتا نہیں ہے، لیکن اگر کئی معتبر قسم کے لوگ اسی حدیث کی روایت میں آ جائیں، ان پر کچھ بڑے لوگوں نے اعتماد بھی کیا ہو تو اس روایت کو طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ جیسے میں جو باتیں بتا رہا ہوں، یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہیں، ان کی بات پر اعتماد ہے، حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب شیخ الاسلام ہیں، انہوں نے اس پر بیان فرمایا ہے، ان کی بات پر بھی اعتماد ہے، ان کے علاوہ جتنے اہل قلوب ہیں وہ سب اس رات کے قائل ہیں، چاہے وہ دلیل دے سکیں یا نہ دے سکیں لیکن وہ عملاً اس کے قائل ضرور ہیں۔ قولاً نہیں فرماتے لیکن ہم نے عملاً دیکھا ہے۔ وہ عملاً اس کے قائل ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی اس موقع کو ضائع نہیں کرتا۔تمام اہل اللہ کے اس عمل میں کچھ اشارہ موجود ہے۔ بے شک ہم بھی اس پر بات نہ کریں لیکن فائدہ تو ضرور اٹھانا چاہیے کیونکہ فائدہ اٹھانے پہ پابندی نہیں ہے۔ مثلاً اس رات کو کسی نے شب بیداری کی تو اس پر کوئی بدعتی ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اس لئے کہ حدیث چاہے ضعیف ہی کیوں نہ ہو، حدیث تو ہے اور فقہا کے نزدیک فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کی گنجائش ہے۔ اور شب برات کی رات میں عبادت کرنا فضائل کی بات ہے مسائل کی بات نہیں ہے۔ اس رات میں ہم جو نماز پڑھتے ہیں، کیا وہ کوئی مختلف نماز ہوتی ہے؟ یا کوئی دعا کرتے ہیں تو کیا وہ کوئی مختلف دعا ہوتی ہے؟ یا کوئی ذکر کرتا ہے تو کیا وہ کوئی مختلف ذکر ہوتا ہے؟ یہی ذکر، یہی دعا، یہی قرآن پاک کی تلاوت ہوتی ہے۔ ان اعمال میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اعمال صحیح احادیث شریفہ سے ثابت ہیں، لہٰذا اس رات میں جو اعمال کیے جا رہے ہیں وہ تو صحیح ہیں ان پہ تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا، صرف فضیلت کی بات ہے۔ اگر فضیلت ہے تو ہمیں مل جائے گی، نہیں ہے تو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ آخرت پر یقین رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مسلمان ہوں، یقین ہے۔
کہنے لگا کہ مجھے تو نہیں ہے۔
فرمایا: تمھاری قسمت ہے، اگر آخرت نہیں ہے، قیامت نہیں ہے تو مجھے قیامت کا کیا نقصان اور تجھے کیا فائدہ؟ اگر تو نے نہیں مانا تو کیا تیر مارا اور میں نے اگر مانا ہے تو کیا نقصان ہوا؟ ہم اس مسئلہ میں برابر رہے لیکن اگر آخرت اور قیامت حق ہیں تو میں تو بچ جاؤں گا مگر تو کیا کرے گا۔
یہی بات یہاں پر بھی کہو کہ بھائی اگر شب برات کی فضیلت ہے تو جس نے کما لیا اس نے تو کما لیا اور اگر نہیں ہے تو اسے نماز کا اجر تو ملا ہی ہو گا، ذکر کا اجر تو ملا ہی ہو گا۔ ایسا تو کسی کتاب میں نہیں لکھا کہ اگر کوئی پندرہ شعبان کی رات کو نماز کے لئے کھڑا ہو جائے تو اس کو ثواب نہیں ملے گا۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے تبلیغی جماعت والے حضرات کہتے ہیں کہ جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اسے انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ میں کہتا ہوں خدا کے بندو! اگر ضعیف حدیث ضعیف بھی ہے تو فضائل میں ہے۔ نماز میں تو کوئی فرق نہیں پڑ رہا، نماز تو وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک نماز کا ثواب ملے گا یا انچاس کروڑ کا ملے گا۔ اگر کسی نے نماز پڑھ لی، اس کو انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب نہیں ملا، لیکن ایک کا تو مل ہی گیا تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا، ہمارا بھی وہی ایک کا ثواب ہے اس کا بھی وہی ایک کا ثواب ہے، اور اگر انچاس کروڑ والی بات صحیح ہے تو پھر اسے انچاس کروڑ کا ثواب مل گیا مگر ہمیں نہیں ملا۔ یہی جواب ہم تبلیغی جماعت کے مخالفین کو دیتے ہیں اور تبلیغی جماعت والوں سے یہ بات کرتے ہیں کہ اللہ کا راستہ صرف تبلیغی جماعت نہیں ہے، اگر کوئی خانقاہ جاتا ہے وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے، اگر کوئی جہاد میں جاتا ہے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے، اگر کوئی پڑھنے جاتا ہے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے، یہ سارے اللہ کے راستے میں ہیں، ان سب کو اجر ملے گا، یہ تمھاری ٹھیکیداری نہیں ہے کہ صرف تمھیں اجر ملے گا۔ اگر کسی اور کے لئے ایسے اجر کا کہیں تو تبلیغی جماعت والے کچھ ساتھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ خدا کے بندو! کیا تم لوگوں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے؟ اجر اللہ پاک دے رہے ہیں تم تو نہیں دے رہے ہو۔ اور تم کیوں بخیل بنتے ہو؟ اللہ کی عطا میں بخیل ہونا صحیح بات نہیں ہے۔ ماشاء اللہ جو لوگ یہاں آتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں تو ہم امید کرتے ہیں کہ اگر یہ انچاس کروڑ نمازوں والی بات درست ہے تو ان کو بھی انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب ملے گا۔
ایک بڑا عجیب اور دلچسپ واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں پشاور سے حسن ابدال آ رہا تھا، بس میں ایک طالب علم سوار ہوا۔ میں پچھلی سیٹ پہ بیٹھا ہوا تھا وہ طالب علم بھی ادھر ہی آ گیا، ہم اکٹھے بیٹھے رہے۔ حسن ابدال اور پنڈی کے درمیان تھوڑا ہی فاصلہ ہے، ہماری گپ شپ ہوئی۔ وہ جماعت میں شب جمعہ کے لئے زکریا مسجد آ رہے تھے۔
مجھ سے پوچھا: جی آپ کہاں رہتے ہیں۔
میں نے کہا: میں الہ آباد ویسٹریج میں رہتا ہوں۔
کہنے لگے: آپ سے شب جمعہ کا مرکز کتنا دور ہے؟
میں نے کہا: پیدل جائیں تو بیس پچیس منٹ لگتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ جائیں گے؟
میں نے کہا کہ آج تو نہیں جاؤں گا کیونکہ آج تو میں باہر سے آ رہا ہوں کچھ کام ہے، البتہ میں کئی بار جایا کرتا ہوں۔
خیر وہ آرام سے بیٹھ گئے۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ نے مجھ پر احسان کیا ہے، مجھے ایک اچھی بات کی دعوت دی ہے، اب میں آپ کے احسان کا بدلہ دینا چاہتا ہوں، میں آپ سے یہ عرض کروں گا کہ آپ تبلیغی جماعت میں ضرور پھریں لیکن دین میں تحریف نہ کریں۔
انہوں نے کہا: بھلا دین میں تحریف کیسے ہو سکتی ہے؟
میں نے کہا: بھائی میں آپ سے بات کروں گا چونکہ آپ طالب علم ہیں آپ میری بات سمجھ جائیں گے، کسی اور سے کہوں گا تو شاید وہ غصہ ہو جائے لیکن آپ سمجھ جائیں گے۔
کہنے لگے کہ کیا بات ہے بتائیں۔
میں نے کہا: دیکھو، بات سنو، آپ گشت میں آداب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو گشت کے لئے نکلتا ہے اس کے سامنے فرشتے اس کے ادب کے لئے پر بچھاتے ہیں۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ حدیث شریف اصل میں کن لوگوں کے لئے ہے؟
انہوں نے کہا: طالب علموں کے لئے۔
میں نے کہا: طالب علموں کے لئے تو اصل ہے اور تبلیغی جماعت والے حضرات کہتے ہیں کہ ہم بھی طالب علم ہیں۔ چونکہ علم کے حاصل کرنے کے لئے جا رہے ہیں، سیکھنے کے لئے جا رہے ہیں لہذا ہمارے لئے بھی یہ حدیث ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ آپ کے لئے بھی یہ حدیث ہے لیکن جن کے لئے اصل ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے ورنہ تحریف ہو جائے گی۔
یہ سن کر کہنے لگے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے، ایسا نہیں کہنا چاہیے۔
میں نے کہا: اچھا یہ بتائیں کہ یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات پہرہ دیا تو اس کا یہ عمل اس کے لئے دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے۔ یہ حدیث شریف بنیادی طور پر کن کے لئے ہے؟
کہنے لگے کہ یہ مجاہدین کے لئے ہے۔
میں نے کہا: اگر تبلیغی جماعت والے کہتے ہیں کہ ہم بھی دینی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں لہذا ہم بھی مجاہد ہیں اس لئے ہمیں بھی پہرہ داری کا اجر مل سکتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اجر ضرور ملے گا، ان شاء اللہ۔ اللہ کرے آپ کو بھی مل جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر آپ لوگوں نے یہ کہا کہ ہمارے لئے تو یہ اجر ہے اور مجاہدین کے لئے نہیں ہے تو پھر یہ دین میں تحریف ہو گی۔
کہنے لگے کہ ہاں یہ بات تو ٹھیک ہے۔
پھر میں نے کہا: دیکھو ہم لوگ جو یہ حدیث سناتے ہیں کہ جو لوگ بیان کے لئے بیٹھتے ہیں فرشتے ان کے گرد ایک دوسرے کے اوپر جمع ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ بہت بلندی تک چلے جاتے ہیں، یہ فرشتے جب بیان ختم ہونے کے بعد یہاں سے رخصت ہو کر بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتے ہیں کہاں سے آئے ہو؟ وہ بتاتے ہیں کہ ہم اس بیان سے آئے ہیں۔ اللہ پاک ان سے کہتے ہیں کہ گواہ رہنا میں نے ان کو بخش دیا۔ پھر وہ فرشتے کسی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ کچھ لوگ تو اپنے کسی کام سے آئے تھے لیکن ویسے ہی ادھر بیٹھ گئے اور انہوں نے بھی سن لیا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ یہ ایسے خوش نصیب لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والوں کو بھی محروم نہیں کیا جاتا، اس لئے میں نے ان کو بھی بخش دیا ہے۔ یہ حدیث شریف اصل میں کن کے لئے ہے؟
کہتے ہیں: ذکر والوں کے لئے ہے۔
میں نے کہا: اب اگر تبلیغ والے کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بیان کے لئے تو ہے لیکن ذکر والوں کے لئے نہیں ہے تو پھر یہ کیا ہو گا؟
انہوں نے کہا کہ یہ دین میں تحریف ہو گی۔
وہ میری باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے جزاک اللہ آپ نے مجھے بہت اچھی طرح نصیحت کی، ان شاء اللہ میں اس کو یاد رکھوں گا اور ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جس سے دین میں فرق پڑے۔
بات بڑی سادہ ہوتی ہے لیکن جب درمیان میں ہمارے جذبات آتے ہیں تو گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ بھائی! دین جذباتیت کا نام نہیں ہے، دین تو با قاعدہ عقل و ہوش کے ساتھ دلائل کے اندر غور کر کے، قرآن اور سنت کو سمجھ کر احتیاط کے ساتھ چلنے کا نام ہے۔ دین کے معاملے میں ہم اس طرح نہیں کر سکتے کہ جو سنا اسے بغیر تحقیق کے آگے پہنچا دیں (بلکہ اس میں تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے)۔
مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مولانا مصطفیٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو تبلیغی جماعت کے بڑے تھے، انہوں نے اپنی ہدایات میں کہا کہ بھائیو بزرگو اور دوستو! جب کوئی بات سنو تو اسے آگے بیان نہ کرنا جب تک اپنے علاقہ کے علماء سے نہ پوچھ لو کہ یہ واقعی اس طرح ہے یا نہیں۔ اگر وہ اجازت دیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اس سے پتا چل گیا کہ ہم لوگوں کو یہ احتیاط رکھنی چاہیے۔
بہرحال بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی، میں یہ عرض کر رہا تھا کہ پندرہ شعبان کی رات میں شب بیداری کرنی چاہیے۔ اب شب بیداری کیسے کریں؟ کیا آپس میں گپ شپ لگائیں؟ نہیں بھائی! گپ شپ نہیں لگانی بلکہ تقریریں بھی نہیں کرنی۔ یہ سب کچھ پہلے کرنا چاہیے۔ دیکھیں اِس وقت میں تقریر کر رہا ہوں، بس یہ کافی ہے، ان شاء اللہ آئندہ جمعہ کا بیان اسی موضوع پہ ہو گا، بس وہ کافی ہے۔ اس کے بعد پندرہ شعبان کی رات میں تقریریں نہیں ہوں گی بلکہ عمل ہو گا۔ جیسے ہی غروبِ آفتاب ہو جائے تو سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ جیسا کہ ابھی آپ نے حدیث شریف سنی ہے کہ پندرہ شعبان کی رات غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی اللہ کی طرف سے سے ندا لگنا شروع ہو جائے گی کہ ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی کو دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا؟ یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ لہٰذا اُس رات آپ صرف اعمال کریں اور اللہ سے مانگیں۔
ہماری سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اللہ ہمیں معاف کر دے۔ کسی آدمی نے ایک بزرگ سے کہا کہ آپ کی کوئی خدمت ہو تو بتا دیں۔
انہوں نے کہا: جو آپ پورا نہیں کر سکتے وہ میں آپ سے کیوں مانگوں اور جو آپ کر سکتے ہیں اس کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔
اس نے کہا: کیا مطلب!
بزرگ نے فرمایا: اگر آپ آخرت میں مجھے بچا سکتے ہیں تو بتائیں، کیونکہ میری وہی ضرورت ہے۔
اس نے کہا: یہ تو ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: پھر میں آپ سے کیا مانگوں میری بڑی ضرورت تو یہی ہے۔
ہماری بھی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ اس وجہ سے ہمیں تہجد کے وقت بھی دعائیں کرنی چاہئیں، نماز پڑھنی چاہیے، استغفار بھی کرنا چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 18)
ترجمہ: ”اور سحری کے اوقات میں وہ استغفار کرتے تھے“۔
یہ استغفار بہت بڑی چیز ہے۔ توبہ کرنا، استغفار کرنا، معافی مانگنا ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ضرورت کو اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے۔ لیلۃ القدر کی رات کے لئے بھی یہی دعا آپ ﷺ نے ارشاد فرمائی۔ آپ میں سے کسی کو یاد ہے؟
”اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی یَا غَفُوْرُ“
ترجمہ: ”اے میرے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے اے معاف کرنے والے۔“
دیکھیں لیلۃ القدر کتنی بڑی رات ہے، (اس کی فضیلت و عظمت) قرآن سے ثابت ہے۔ اتنی بڑی رات میں آپ ﷺنے معافی کی دعا سکھائی۔ لہٰذا شعبان کی پندرھویں رات میں بھی اللہ سے معافی مانگو۔ رو رو کے معافی مانگو، گڑگڑا کے معافی مانگو، اس طرح معافی مانگو جیسے اگر یہ نہ ملی تو تباہی و بربادی ہے اور واقعتاً ایسا ہی ہے۔ اللہ پاک کے سامنے بس گرنا چاہیے کہ اللہ ہمیں معاف کر دے۔ اگر ہمارے لئے یہ (معافی کا) فیصلہ ہو گیا تو خدا کی قسم ہم کامیاب ہو گئے۔ اگر ہم معاف فرما دیئے گئے تو کامیاب ہو گئے۔
اس رات میں کچھ لوگوں کو (بخشش سے) مستثنیٰ رکھا جاتا ہے۔ جن باتوں کی وجہ سے مستثنیٰ رکھا جاتا ہے وہ عرض کرتا ہوں، سب سے زیادہ مشکل باتیں یہی ہیں۔
فرمایا رسول کریم ﷺ نے کہ اللہ تعالیٰ متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرہویں رات میں، پس مغفرت فرما دیتا ہے سب مخلوق کی مگر مشرک اور کینہ والے شخص کی مغفرت نہیں فرماتا۔ یہ ابن ماجہ کی روایت ہے۔
ایک روایت میں ہے: مگر دو شخصوں کو معاف نہیں فرماتا، ایک کینہ رکھنے والا اور ایک قتلِ نا حق کرنے والا۔
اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ نظرِ رحمت نہیں کرتے اس رات میں بھی مشرک کی طرف اور کینہ والے کی طرف اور قطع رحمی یعنی رشتہ داروں سے بلا وجہ تعلق توڑنے والے کی طرف، نہ پاجامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف، اور نہ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف، البتہ اگر کوئی توبہ کر چکا ہو تو رحمت خداوندی اس کی طرف بھی متوجہ ہو جاتی ہے۔
لہٰذا ہمیں سب پہلے توبہ کی طرف توجہ کرنی ہے۔ غروبِ آفتاب سے پہلے ہی ہمیں توبہ کرنی چاہیے تاکہ اللہ پاک کی نظرِ رحمت اگر متوجہ ہو تو ہم اس سے محروم نہ رہ جائیں۔ ؎
یک لحظہ زدن غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہے کند آگاہ نباشی
ایک لمحہ اس بادشاہ کی طرف دیکھنے سے غفلت نہیں کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ وہ رحمت سے دیکھ رہا ہو اور ہمیں پتا نہ ہو۔
اگر کسی آدمی میں یہ باتیں ہیں جو میں نے عرض کیں تو اسے غروب آفتاب سے پہلے پہلے توبہ کرنی چاہیے تاکہ وہ رحمتوں والی رات میں کہیں محروم نہ رہ جائے۔
اس کے علاوہ بعض اور گناہگاروں پر بھی نظرِ رحمت نہیں ہوتی۔ پس سب گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے۔ سب روایتوں پر نظر ڈالنے سے احقر کی فہمِ ناقص میں یہ آتا ہے کہ کبائرِ دنیا بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔
ہمارے لیے اس رات میں اپنے گناہوں کو معاف کروانے کا ایک بہت بڑا موقع ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں، اس وقت سیاست بہت زیادہ موضوعِ بحث ہوتی ہے، ہر ایک اسی میں لگا ہوا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ بری چیز ہے۔ دعا اس کے لئے بھی کرنی چاہیے کہ اللہ پاک ہمیں اچھے حکمران دے دے لیکن بلاوجہ ان چیزوں پہ گفتگو میں رات ضائع نہیں کرنی چاہیے کہ فلاں ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے۔ بھائی ان باتوں کو چھوڑو۔ یہ اللہ سے مانگنے والی رات ہے تو بجائے ان حکمرانوں کی برائیاں کرنے کے اللہ سے یہی مانگو کہ اچھے لوگ دے دے۔ خواہ مخواہ سیاسی گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مثلاً آپ جو باتیں کر رہے ہیں، ان کا کیا وزن ہے؟ سب سے زیادہ باتیں سیاست پر اسلام آباد میں ہوتی ہیں اور جب ووٹ کا وقت آتا ہے تو بہت سارے لوگ اسلام آباد سے اپنے اپنے شہروں میں چلے جاتے ہیں، ووٹ ہی نہیں ڈالتے، اسلام آباد میں بہت کم ووٹ پڑتے ہیں۔ جب فیصلہ کا وقت آتا ہے اُس وقت تو اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں اور بلاوجہ خواہ مخواہ باتیں کرنے کے وقت سب سے آگے ہوتے ہیں۔ خواہ مخواہ بات کرنے سے کیا فائدہ! اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، ہاں جب موقع ہو اس وقت ضرور حق کا ساتھ دینا چاہیے۔ سیاست بھی ایک دین کا شعبہ ہے اسے ہم لوگ نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ایک دن شیخ الحدیث حضرت مولانا زر وَلی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے۔ (حضرت، مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ساتھ تھے، اس مسئلہ میں ہر ایک کی اپنی اپنی affiliation (وابستگی) ہوتی ہے)۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ایک بیان کے بارے میں کہا جو انہوں نے اسمبلی میں کیا تھا کہ اگر اس بیان کا اجر وہ مجھے دے دیں تو میرے جتنے بھی حدیث کے دروس ہو چکے ہیں میں ان سب کا ثواب انہیں دینے کے لئے تیار ہوں۔
اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ سیاست بھی ایک ضروری شعبہ ہے۔ یہ بات درست نہیں کہ ہم لوگ اسے نظر انداز کریں لیکن ہر وقت کی اپنی بات ہوتی ہے کہ اس وقت کیا کرنا ہے۔ اس کے لئے ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ ہم ملکی سلامتی کے لئے دعائیں کریں اور پورے عالم میں بالخصوص اپنے ملک میں دینِ اسلام کے غلبہ کے لئے بات کریں اور یہ دعا مانگیں کہ اس سلسلہ میں ہمیں حق سمجھ میں آ جائے۔ حدیث شریف میں ایک بڑی زبردست دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقّاً وَ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَهٗ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَّ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَهٗ“
چونکہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اس لئے ہم یہ دعا کر سکتے ہیں کہ یا اللہ جو حق ہے وہ حق ہم پر کھول دے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرما اور جو باطل ہے وہ باطل ہم پر کھول دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اس رات میں ہم یہ دعا بھی کر سکتے ہیں۔
اس رات میں شب بیداری کا مطلب یہ ہے کہ انسان عبادات میں مشغول رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو بلا واسطہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے والی ہوتی ہیں اور کچھ بالواسطہ تعلق پیدا کرتی ہیں۔ دین کے تمام شعبے اللہ کے ساتھ بالواسطہ تعلق کا ذریعہ ہیں جیسے میں نے سیاست، خانقاہی سلسلہ، تبلیغی جماعت اور مجاہدین کے کام کی بات کی، یہ سب دینی شعبے اللہ تعالیٰ سے بالواسطہ تعلق کا ذریعہ ہیں۔ اور بلا واسطہ تعلق کا ذریعہ عبادات ہیں، جیسے نماز ہے، فرمایا:
﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ”بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے“۔
نماز اللہ سے تعلق کا براہ راست اور بلا واسطہ ذریعہ ہے، صاف بات ہے، قرآن پاک اس پر گواہ ہے۔
اسی طرح روزے کے بارے میں فرمایا:
﴿لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 183)
ترجمہ: ”تاکہ تمھارے اندر تقویٰ پیدا ہو“۔
روزہ سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ، حج، ذکر، تلاوت اور دعائیں وغیرہ تمام اعمال اللہ پاک سے تعلق کا بلا واسطہ ذریعہ ہیں۔ اگر کسی کا یہ بلا واسطہ تعلق کمزور ہے تو وہ بے شک کسی بھی دینی شعبہ میں ہو اس میں للہیت کم ہو گی، دنیا کا غلبہ ہو گا۔ کیونکہ انسان اپنے نفس سے بھاگ نہیں سکتا، نفس ہمارے ساتھ ہی ہے۔
اب اس بلا واسطہ تعلق کے ذرائع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت پر غور کریں کہ گیارے مہینے عام رکھے ہیں اور بارھواں مہینہ جو رمضان شریف کا ہے، اسے خاص اسی چیز کے لئے، نفس کی اصلاح کے لئے رکھا ہے۔ اس میں تراویح کی نماز ہے، اس میں روزہ ہے، اس میں ذکر و اذکار ہیں۔ چار چیزیں کثرت کے ساتھ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ فرمایا: روزے میں چار چیزیں کثرت سے کرو، ایک کلمہ طیبہ کا ورد، دوسرا استغفار۔ کلمہ اجر بڑھاتا ہے، استغفار آپ کے گناہ گراتا ہے۔ ایک مثبت کو بڑھانے والا اور دوسرا منفی کو ختم کرنے والا ہے۔ پھر ایک اور مثبت چیز ہے جنت، اس کو کثرت سے مانگو اور ایک منفی چیز ہے جہنم۔ اس سے کثرت سے پناہ مانگو۔
یہ چیزیں اللہ سے تعلق بڑھانے کا بلا واسطہ ذریعہ ہیں۔ اللہ پاک نے رمضان شریف کا مہینہ اس کے لئے رکھ دیا کہ ہم میں للہیت آ جائے، ہمارے نفس کی اصلاح ہو جائے اور پھر ہم جو بھی دین کا کام کریں وہ واقعی دین کا کام ہو، اس میں دنیا نہ ہو۔ لہٰذا آپ شعبان کی پندرھویں رات کو شب بیداری، بجائے سیاسی تقریر کرنے اور سننے کے، ان چیزوں میں لگ کر کریں۔
یہاں پر ایک جماعت کے ساتھی تھے، بڑے اچھے آدمی ہیں، انہوں نے مجھ سے رمضان شریف میں اعتکاف سے چند دن پہلے ایک سوال کیا، کہنے لگے: شبیر صاحب دل چاہتا ہے کہ رمضان میں خدا کے راستے میں وقت لگاؤں اور اعتکاف کا وقت بھی ہے، تو کیا کروں؟
میں نے کہا: ایسے اوقات میں آپ ﷺ نے کیا کیا تھا؟
اس نے کہا کہ آپ ﷺ نے تو اعتکاف کیا تھا۔
میں نے کہا: آپ کو آپ ﷺ سے بڑا تبلیغی تو کوئی نہیں ملے گا، دین تو آیا ہی ادھر سے ہے، جب آپ ﷺ نے ایسے وقت میں اعتکاف کیا تو آپ کو بھی اعتکاف کرنا چاہیے کیونکہ دین کا جو بھی کام ہے اس میں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ جس کام کا وقت ہو اُس کام کو ترجیح دی جائے۔ تبلیغی جماعت بھی دین کا کام ہے، آپ مدرسہ میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ بھی دین کا کام ہے، کوئی خانقاہ میں بیٹھا ہے وہ بھی دین کا کام ہے، کوئی سیاست میں لگا ہوا ہے وہ بھی دین کا کام ہے، کوئی مجاہد جہاد میں لگا ہوا ہے تو وہ بھی دین کا کام ہے۔ البتہ جہاد دو قسم کا ہے ایک وہ جو آپ کی منصوبہ بندی سے ہو اور ایک وہ جو آپ کے اوپر مسلط کیا جائے۔ دوسری قسم کے جہاد میں تو باقی ساری چیزیں ثانوی ہو جائیں گی۔ پھر تو نماز بھی نمازِ خوف بن جائے گی، اس وقت تو ایمرجنسی نافذ ہو جائے گی، وہ بات الگ ہے، لیکن عام طور پر دین کے کاموں میں یہ ضابطہ ہوتا ہے کہ اعتکاف کے وقت اعتکاف، نماز کے وقت نماز، روزہ کے وقت روزہ ہو۔ یہ ساری چیزیں اپنے اپنے اس وقت پہ جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مخصوص رکھے ہیں، کرنی چاہئیں۔
اس وجہ سے میں عرض کروں گا کہ یہ رات اللہ پاک کے ساتھ تعلق جوڑنے کی رات ہے اور شیطان و نفس سے تعلق توڑنے کی رات ہے۔ بس آپ اس کو یہی سمجھیں، اس پہ جتنی محنت ہو سکتی ہے وہ کریں۔ وہ محنت یہی ہو گی کہ ہم لوگ دعائیں کریں، ذکر کریں، تلاوت کریں، روئیں، گڑگڑائیں، نفلی نماز پڑھیں، یہ ساری رات ان اعمال میں استعمال ہو تو ان شاء اللہ العزیز اس سے آپ جو روحانی طاقت حاصل کریں گے وہ تمام دینی کاموں کے لئے استعمال ہو گی۔ ہمارے جتنے بھی اللہ والے تھے انہوں نے ان چیزوں کی قدر کی اور ایسے اوقات میں اپنے آپ کو اللہ سے تعلق بڑھانے کے لئے فارغ کیا۔
حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ روزانہ نظام الدین مرکز کے پاس ایک حجرہ میں عصر کی نماز کے بعد ذکر کیا کرتے تھے، اور اس وقت کسی سے نہیں ملتے تھے، صرف حضرت مولانا عمر پالنپوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اجازت ہوتی تھی کہ کوئی ضروری بات ہو تو حضرت کو اطلاع کر دیں اور وہ بھی اندر جا کر نہیں بلکہ باہر سے آواز لگاتے کہ حضرت جی لوگ یہ کہہ رہے ہیں ان کو کیا بتاؤں، حضرت اندر سے جواب دے دیتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے اوپر اگرچہ پوری دنیا کا کام کھلا ہوا تھا لیکن پھر بھی اس چیز کو اتنی اہمیت دیتے تھے۔ ہمیں ان چیزوں کے بارے میں جاننا چاہیے کہ یہ چیزیں کتنی اہم ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے اوقات کو کن چیزوں میں لگائیں۔ اس سلسلہ میں ایک تو یہ عرض کروں گا کہ ان اوقات میں اللہ کی طرف لگ جاؤ اور یہ خلوت میں زیادہ بہتر ہوتا ہے، لیکن بعض دفعہ حالات ایسے ہوتے ہیں کہ خلوت میسر نہیں ہوتی مثلاً گھر میں بچے ہوتے ہیں اور دوسرے کام ہوتے ہیں، اس وقت آپ اللہ کی طرف لگنا بھی چاہیں تو مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر آپ کے پاس کوئی گوشہ تنہائی ہے تو ٹھیک ہے، اگر نہیں ہے تو مسجد میں چلے جایا کریں۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی بات پہ عمل کیا کریں۔ حضرت فرماتے تھے کہ میں جب گشت کے لئے جاتا ہوں تو صلحاء کی جماعت کو ساتھ لے جاتا ہوں۔ اس کے باوجود میرے دل پہ اثر ہو جاتا ہے، پھر میں رائے پور یا سہارنپور کی خانقاہ میں جاتا ہوں، یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔
لہٰذا اگر کوئی گوشۂ تنہائی میسر نہ ہو تو مسجد میں جاؤ یا کسی ایسی جگہ چلے جاؤ جہاں صحبتِ صالحین ہو۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ صحبتِ سوء سے خلوت اچھی ہے اور صحبتِ صالحین خلوت سے اچھی ہے۔ اگر آج کل کے mathematics (ریاضی) کی زبان سے کہہ دوں تو یوں کہوں گا:
Zero is greater than minus and plus is greater than zero
اگر آپ کو صحبتِ صالحین گھر میں نہیں مل رہی تو پھر خلوت میں جائیں، خلوت نہیں مل رہی یا یوں کہہ لیں کہ کہیں اور صحبتِ صالحین مل رہی ہے تو وہاں چلے جائیں۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ یہ ایک قسم کی ہجرت ہے کہ آپ اللہ کے لئے ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جا رہے ہیں صرف اس لئے کہ میں یہ کام کر سکوں، مجھے سعادت مل جائے۔ باقی یہ بات عرض کرتا ہوں کہ اردو میں کہتے ہیں خربوزہ خربوزہ کو دیکھ کے رنگ پکڑتا ہے۔ ماحول کے اثر سے انسان کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ برے ماحول میں جا کر انسان خراب ہو جاتا ہے اور اچھے ماحول میں جا کر کچھ نہ کچھ کرنے کو مل جاتا ہے، اصلاح کا ذریعہ بن جاتا ہے، صحبتِ صالحین میں آدمی کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جاتا ہے۔ خصوصی طور پہ شعبان کی رات میں صحبتِ صالحین کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ رات کے وقت جاگنے کا معمول نہ ہو تو نیند آتی ہے، لیکن اگر آپ دوسروں کو دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، کچھ تلاوت کر رہے ہیں، کچھ ذکر کر رہے ہیں، تو انہیں دیکھ کر آپ میں بھی کچھ نہ کچھ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور اعمال نسبتاً آسانی سے ہو جاتے ہیں۔
بہرحال میں یہ عرض کروں گا کہ آپ لوگ بھی اس کے لئے کچھ راستے بنائیں۔ ہماری کوشش بھی یہی ہوتی ہے کہ ہم بھی اپنا انتظام اس طرح کر لیتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو جائے۔ پہلے ہم مرحبا مسجد میں جایا کرتے تھے لیکن اس دفعہ کرونا وغیرہ کی وجہ سے ہم خانقاہ میں آ جاتے ہیں، جو حضرات یہاں آنا چاہیں بے شک آ جائیں لیکن پہلے سے بتا کے آئیں تاکہ سحری کا انتظام ہو سکے، پہلے سے پتا ہو گا تو انتظام آسان ہو گا۔ پشتو میں کہتے ہیں: ”سل رابللے ځاٸیږی خو یو نابللے نه ځاٸیږی“ یعنی سو بلائے ہوؤں کا انتطام آسان ہے لیکن لیکن ایک بن بلائے کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انتظامی لحاظ سے یہ بات ہے کہ جس نے آنا ہو وہ عبید صاحب کو پہلے سے بتا دیں تاکہ ان کے لئے کچھ انتظام کیا جا سکے کیونکہ اگلے دن ان شاء اللہ لوگ روزہ رکھیں گے، بعض لوگ دور سے آتے ہیں، ان کے لئے انتظام کرنا پڑے گا۔ اس لئے جس نے آنا ہو پہلے سے اطلاع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے یہ بہت قیمتی رات ہے۔ بہت ساری باتیں تو میں شاید عرض بھی نہیں کر سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلا وجہ بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں لیکن جتنا ہم نے دیکھا اور سنا ہے اس کے مطابق اس رات کا تعلق تکوینیات سے ہے، اس رات میں رزق اتارے جاتے ہیں، جن لوگوں نے پیدا ہونا ہے ان کے نام دیئے جاتے ہیں، جنہوں نے اٹھنا ہے ان کے بھی نام دیئے جاتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کسی نے کہا کہ اس رات میں جس نے فوت ہونا ہوتا ہے اس کے نام کا پتا گر جاتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اس آدمی کا کیا حال ہو گا جس نے اپنا پتا خود گرتے ہوئے دیکھا ہو۔ اور اسی سال حضرت فوت ہو گئے۔
اس وجہ سے ایسے وقت میں اللہ کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)
ترجمہ: ”لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا“۔
یہ عام قانون ہے۔ قرآن پاک نے بتایا ہے کہ لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فیصلے اترتے ہیں، اگر لوگوں کے اعمال برے ہوں تو برے اور سخت فیصلے اترتے ہیں اور اگر لوگوں کے اعمال اچھے ہوں تو اچھے اور نرم فیصلے اترتے ہیں۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے، جتنی کوشش آپ کر سکتے ہیں اتنی تو لازمی کریں، اس کا آپ کے اوپر بھی اثر پڑے گا اور پورے ملک بلکہ پورے عالمِ اسلام اور پوری دنیا پر اثر پڑے گا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ والے اور نیک لوگوں کے لئے مچھلیاں دریاؤں میں اور چیونٹیاں بلوں میں دعائیں کرتی ہیں کیونکہ اہل اللہ کی برکت سے ان مخلوقات کے بھی مزے ہوتے ہیں، بارشیں وقت پہ ہونا اور دوسرے تمام فوائد انہی کی برکت سے ہوتے ہیں۔ لہذا ہم لوگوں کو ان راتوں میں اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اللہ پاک کا خوب ذکر کرنا چاہیے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ استغفار کثرت سے کرنا چاہیے، اللہ کو بہت یاد کرنا چاہیے تاکہ اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے۔ یہ رات سال میں ایک دفعہ آتی ہے، اگر اس مرتبہ یوں ہی گزر گئی تو پھر اگلے سال ہی آئے گی۔ اس وجہ سے اس میں ہم جتنا کما سکتے ہیں کما لیں۔
ایک مرتبہ ہم حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف گئے۔ وہاں شب برات کے متعلق بات چھڑ گئی۔ حضرت ذرا قانونی انداز میں بات کرتے تھے۔ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خود ہی بات چھیڑی، فرمایا: یہ رات بہت اونچی رات ہے اس میں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اے اللہ اگر تو نے مجھے بد بخت لکھا ہے تو تُو اس کو مٹا سکتا ہے، مجھے نیک بخت لکھ دے۔ (یہ دعا آخر میں ذکر کی گئی ہے)
اس لئے یہ دعا بھی کر لیا کریں۔ ابھی سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے نصف شعبان کے معمولات کے بارے میں ایک پرچہ آیا ہے، جس کو ابھی ہم تقسیم کریں گے۔ اس میں لکھا ہے کہ ہمیں حضرت مولانا علی میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب کی طرف سے ایک معمول ہمارے بزرگوں سے ملا ہے اور میں اسکی اجازت دیتا ہوں کہ جو بھی اس کو کرنا چاہے کر سکتا ہے، اس پرچہ میں بھی بعینہ اسی دعا کا ذکر ہے۔
ہم کچھ معمولات بتا دیں گے۔ ضروری نہیں کہ لوگ صرف یہی معمولات کریں، (دوسرے معمولات بھی کر سکتے ہیں) یہ صرف ایک تجویز ہے۔ ہم نے بزرگوں کو یہ معمولات کرتے دیکھا ہے اس لئے آپ کو بھی تجویز دے رہے ہیں کہ آپ بھی یہ معمولات کر لیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ آدمی نیک اعمال میں مصروف ہو۔ باقی اس کو اپنے اپنے ذوق کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ مختلف اعمال کا گلدستہ بناتے تھے تاکہ ہر عمل کا فائدہ مل جائے۔ جیسے عشاء کی نماز کے بعد ایک مرتبہ سورۃ الملک کی تلاوت، چار رکعت نماز نفل، آدھا پارہ قرآن پاک کی تلاوت، پانچ سو مرتبہ کلمہ طیبہ، پانچ سو مرتبہ درود شریف، پانچ سو مرتبہ استغفار، ایک دفعہ چہل حدیث شریف اور ایک منزل مناجات مقبول۔ یہ معمولات باری باری دہراتے رہیں، سحری تک یہی معمولات جاری رکھیں، ایک دفعہ صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھ لیں۔ صلوٰۃ التسبیح کے دو طریقے ہیں۔ جو طریقہ احناف کے قریب ہے وہ ہم نے بتایا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ثناء کے بعد اور سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ دفعہ یہ تسبیح پڑھ لیں ”سُبْحَانَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ“ پھر سورۂ فاتحہ اور سورت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے دس دفعہ یہی تسبیح پڑھیں، پھر رکوع میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم“ کے بعد دس دفعہ پڑھیں، پھر ”سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ“ کے بعد دس دفعہ پڑھیں۔ پھر پہلے سجدہ میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ کے بعد دس دفعہ پڑھیں اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس دفعہ پڑھیں، پھر دوسرے سجدہ میں ”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی“ کے بعد دس دفعہ پڑھیں۔ دوسری رکعت میں ثناء تو نہیں ہے لہٰذا سورۂ فاتحہ سے پہلے یہی تسبیح پڑھ لیں۔ اس طرح ہر رکعت میں دہراتے جائیں۔ ایک رکعت میں 75 دفعہ اور چار رکعت میں 360 دفعہ ہو جاتی ہے۔ اس طریقے سے ہمیں صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھنی چاہیے۔ صلوٰۃ التسبیح بہت اعلیٰ نماز ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سکھائی تھی۔ دو چیزیں چلی آ رہی ہیں۔ ایک حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برکت سے صلوٰۃ التسبیح چلی آ رہی ہے اور دوسری حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی برکت سے تسبیح فاطمی چلی آ رہی ہے۔ یہ ان کو عطا ہوئی تھیں اور ان کے لئے صدقہ جاریہ بن گئیں۔ ہم بھی الحمد للہ روزانہ ہر نماز کے بعد تسبیحاتِ فاطمی پڑھتے ہیں۔
حضرت سید نفیس شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے جو دعا آئی ہیں وہ درج ذیل ہے:
”اَللّٰهُمَّ یَا ذَا الْمَنِّ، وَ لَا یُمَنُّ عَلَیْکَ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ، یَا ذَا الطَّوْلِ وَ الْاِنْعَامِ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، ظَهْرُ اللَّاجِئِیْنَ، وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ، وَ اَمَانُ الْخَائِفِیْنَ، اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِي عِنْدَکَ فِي أُمِّ الْکِتٰبِ شَقِیًّا اَوْ مَحْرُوْماً اَوْ مَطْرُوْدًا اَوْ مُقْتَرًا عَلَیَّ فِی الرِّزْقِ فَامْحُ۔ اَللّٰھُمَّ شَقَاوَتِیْ وَ حِرْمَانِیْ وَ طَرْدِیْ وَاقْتَارَ رِزْقِیْ وَ اَثْبِتْنِیْ عِنْدَکَ فِیْ اُمِّ الْکِتَابِ سَعِیْدًا مَّرْزُوْقًا مُّوَفِّقًا لِّلْخَیْرَاتِ فَاِنَّکَ قُلْتَ وَ قَوْلُکَ الْحَقُّ فِیْ کِتَابِکَ الْمُنَزَّلِ عَلٰی لِسَانِ نَبِیِّکَ الْمُرْسَلِ یَمْحُو اللہُ مَا یَشَاءُ وَ یُثْبِتُ وَ عِنْدَہٗ اُمُّ الْکِتَابِ اِلٰھِیْ بِالتَّجَلِّی الْاَعْظَمِ فِیْ لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ الْمُکَرَّمِ الَّتِیْ یُفْرَقُ فِیْھَا کُلُّٗ اَمْرٍ حَکِیْمٍ وَ یُبْرَمُ اَنْ تَکْشِفَ عَنَّا مِنَ الْبَلَاءِ مَا نَعْلَمُ وَ مَا لَا نَعْلَمُ وَ مَا اَنْتَ بِہٖ اَعْلَمُ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ وَ صَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَ اَصْحَابِہٖ وَ سَلَّمَ“
ترجمہ:
” اے اللہ اے احسان فرمانے والے تجھ پر احسان نہیں کیا جاتا۔ اے عزت اور بزرگی والے اے قدرت و انعام والے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پناہ لینے والوں اور امان طلب کرنے والوں اور ڈرے ہوؤں کی پناہ ہے اے اللہ اگر تو نے کتاب تقدیر میں میرا بد بخت ہونا یا نامراد ہونا یا میرا رزق تنگ ہونا لکھا ہے تو اے اللہ اپنے فضل سے میری بد بختی اور میری محرومی اور میری نامرادی اور میرے رزق کی تنگی کے فیصلہ کو مٹا دے (یہ ساری تکوینی باتیں ہیں) اور اپنی کتاب میں میرے نیک بخت ہونے، کشادہ رزق ہونے اور نیکیوں کی توفیق پانے کا فیصلہ لکھ دے کیونکہ تو نے اپنے بھیجے ہوئے نبی ﷺ پر نازل کردہ کتاب میں فرمایا اور تو نے سچ ہی فرمایا کہ ”اللہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ دیتا ہے اور اسی کے پاس کتابِ تقدیر ہے“ اے اللہ تجھ سے اس تجلی کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جو شعبان کی پندرھویں رات، جس میں ہر ایک معاملہ کا فیصلہ کیا جاتا ہے، نازل ہوتی ہے تو ہم سے ہر مصیبت ٹال دے جو ہم جانتے ہیں اور جو ہم نہیں جانتے اور جس کو تو زیادہ جانتا ہے بے شک تو عزت و بزرگی والا ہے۔“
یہ تکوینی کاموں کی رات ہے۔ ان تکوینی کاموں میں اپنے بارے میں اللہ پاک سے بہتر یعنی ایسا فیصلہ جو ہمارے لئے زیادہ فائدہ مند ہو، وہ کروانے کے لئے ہم اچھے اعمال کرتے ہیں۔
تکوینی چیزیں عام نہیں ہوتیں، یہ چھپی ہوتی ہیں۔ اللہ پاک کا ایک نظام ہے اس کی ایک حکمت ہے، اللہ پاک اس حکمت کو چھپاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے تم بھی مبہم رکھو۔ یہ پورا ایک نیٹ ورک ہے، نظام ہے۔ جو اس نظام میں شامل ہیں ان کو تو پوری طرح پتا ہے، ان کو تو علم ہی ہوتا ہے لیکن جن کو پتا نہیں ان کو پتا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، کیونکہ ان سے اس کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا اور اگر ان کو پتا چل جائے تو اس سے ان کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہو گا صرف علم کی حد تک بات ہو گی، باقی اس میں عملی طور پر آنکھیں بند کر کے مان لینا بہتر ہے، ایمان بالغیب کے ساتھ اعمال کرنا بہت بہتر ہے۔
باقی اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ تو قرآن کی آیت سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے جو چاہتا ہے لکھ دیتا ہے۔
ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کچھ حضرات کی بات کی گئی کہ وہ اس قسم کی (تکوینی) باتیں بتاتے ہیں۔ فرمایا: اس طرح باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا: لیکن ہے تو ایسا ہی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی باتیں عوام میں نہیں کرنی چاہئیں، لیکن یہ حق ہوتی ہیں۔ یہ اللہ پاک کا اپنا ایک نظام ہے وہ اس کو چلاتے ہیں، ہم اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے فرشتے مقرر ہیں۔ کچھ کام فرشتوں سے لیے جاتے ہیں، کچھ جنات سے لیے جاتے ہیں اور کچھ کام انسانوں سے لیے جاتے ہیں۔ انسانوں میں بھی اس قسم کے لوگ موجود ہوتے ہیں جن میں بعض ابدال ہوتے ہیں بعض قطب ہوتے ہیں، بعض اور حضرات ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا نظام ہے، ہم لوگوں کو اس کی رِیس نہیں کرنی چاہیے کہ کون کیا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ بہت سارے لوگوں کو معلومات تو بہت ہوتی ہیں لیکن عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلہ میں کئی دوسرے لوگ ایسے ہیں جنہیں کچھ پتا نہیں ہوتا لیکن وہ عمل ایسا کر رہے ہوتے ہیں کہ سبحان اللہ بہت کما رہے ہوتے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ علماء کرام سے پوچھ پوچھ کے عمل کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے مانگتے رہیں اور مانگنے کا طریقہ بتا دیا ہے، بس ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ ان شاء اللہ اس رات کو کمانا ہے، اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن