مطالعہ سیرت بصورت سوال




اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

15 شعبان کی رات لوگ قبرستان جایا کرتے ہیں اور اس کو آپ ﷺ کی سُنت سمجھتے ہیں۔ کیا 15 شعبان کی رات کو قبرستان جانا آپ ﷺ کی مستقل سُنت رہی ہے یا آپ ﷺ زندگی میں صرف ایک دفعہ 15 شعبان کی رات قبرستان گئے ہیں؟ کیا آپ ﷺ اکیلے قبرستان تشریف لے گئے یا کوئی اور بھی ساتھ تھا؟ آج کل جس طرح لوگ مجمع کی صورت میں قبرستان جاتے ہیں اس عمل کی شریعت میں کیا حیثيت ہے؟

جواب:

نبی کریم ﷺ کی طرف سے جس چیز کو جس طرح کیا گیا ہو اس طریقے سے کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ اگر کوئی شخص ہر سال بھی جائے لیکن اس کو لازم نہ سمجھے تو اس کی گنجائش ہے لیکن جو لازم سمجھے گا وہ دین میں اضافہ کرے گا۔

یہ سمجھنا چاہیے کہ قبرستان جانا کس لئے ہوتا ہے؟ مُردوں کے لئے فاتحہ، دعا اور ایصالِ ثواب کے لئے جانا ہوتا ہے۔ وہاں چراغاں کرنا، میلا ٹھیلا بنانا یا اجتماعی طور پر جانا درست نہیں۔ آپ ﷺ بذات خود اس حد تک خاموشی سے گئے تھے کہ خود اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو بھی نہیں بتایا۔ چپکے سے اٹھے اور باہر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو خیال ہوا کہ شاید کسی اور زوجہ کے پاس جا رہے ہیں تو وہ دیکھنے کے لئے باہر آئیں اور جنت البقیع پہنچ گئیں کیونکہ وہ قریب ہی تھا۔ دیکھا کہ آپ ﷺ میتوں کے لئے دعا فرما رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا کو بڑی ندامت ہوئی اور جلدی سے بھاگتی ہوئی واپس پہنچ گئیں۔ آپ ﷺ جب تشریف لائے تو ان کا سانس ابھی تک چڑھا ہوا تھا، پوچھا: آپ کا سانس کیوں چڑھا ہوا ہے؟ انہوں نے وجہ بتادی۔ فرمایا: میں اس رات قبرستان کیوں نہ جاؤں کہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کی مغفرتیں ہو رہی ہیں اس لئے میں نے ان کے لئے دعا کی ہے۔

آپ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ آدمی اکیلے، بغیر اطلاع کے خاموشی کے ساتھ قبرستان جائے اور یہی کام (ایصالِ ثواب) کر کے واپس آ جائے۔ آپ ﷺ قبرستان میں ٹھہرے نہیں تھے بلکہ فوراً واپس آ گئے تھے۔

در اصل لوگ ہر چیز کو اپنی نفسانی خواہشات پورا کرنے کے لئے ذریعہ بناتے ہیں، انہیں اگر کسی جگہ سے کوئی جزئیہ مل جائے تو اس کے اوپر اپنا محل کھڑا کر دیتے ہیں۔ Darwin کو بن مانس کا دانت ملا تھا تو اس نے پورا بن مانس کھڑا کر دیا کہ یہ ایسا تھا اور ویسا تھا۔ بھلا دانت سے کہاں پتا چلتا ہے۔ کیا دانت کے اندر کوئی اس کی تصویر تھی؟ یہ بس ان کے ذہن کے شگوفے ہوتے ہیں جو سارے کے سارے سامنے آ جاتے ہیں ورنہ اس بات کی کوئی تُک نہیں ہے۔

میں بھی ایک دفعہ (قبرستان جانے کی) سنت کو پورا کرنے کے لئے الہ آباد کے قبرستان گیا تھا ۔ اس سے پہلے کبھی سنت کو پورا کرنے کے لئے نہیں گیا تھا۔ اکیلے ہی گیا۔ (وہاں دیکھا کہ) ایک مولوی صاحب دس، پندرہ آدمیوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور با قاعدہ ایک کورس پڑھا جا رہا تھا۔ پہلے مولوی صاحب پڑھتے بعد میں وہ پڑھتے۔ میں نے سوچا کہ یہ بھی اب تجارتی کام بن گیا۔ اس میں بھی اب کچھ commercial ground (تجارتی پہلو) شروع ہو گئے۔ جنہوں نے اس کو commercialize کرنا ہے (تجارت بنانا ہے) ان کے الگ ہی معاملے ہیں۔

یہ صرف یہاں نہیں ہوتا بہت ساری جگہوں پہ یہ چیزیں ہیں۔ مدینہ منورہ میں ٹرانسپورٹرز نے مشہور کیا ہوا ہے کہ ایک جگہ ہے جہاں پانی واپس چڑھائی کی طرف چڑھ رہا ہے۔ مجھے بھی میرے ساتھی نے کہا کہ اس طرح کی ایک جگہ ہے۔ میں نے کہا: مجھے لے جاؤ، میں تجربہ کر لوں۔ میں اپنے ساتھ گلاس اور کچھ پیمائش وغیرہ کی چیزیں لے گیا۔ اس سڑک کے اوپر میں نے پیمائش کے لئے نقشہ کھینچا اور اس گلاس سے پانی کی گہرائی دیکھی کہ ایک طرف کتنی ہے اور دوسری طرف کتنی ہے؟ پتا چلا کہ وہ چڑھائی نہیں تھی بلکہ اترائی تھی لیکن وہ چڑھائی اس لئے نظر آ رہی تھی کہ وہاں پہاڑوں کا جغرافیہ اس طرح ہے جس طرح سراب ہوتا ہے، پہاڑوں کی بناوٹ ایسی ہے کہ انسان کا imagination change (دیکھنے کا نظریہ تبدیل) ہو جاتا ہے اور چیزیں مختلف نظر آتی ہیں۔ پھر میں نے اس کے بارے میں انٹرنیٹ پر تحقیق کی تو انٹرنیٹ پر یہ ساری تفصیل دی ہوئی تھی، انہوں نے کئی طریقوں سے اس کو ثابت کیا تھا۔ فضا سے بھی ثابت کیا تھا اور دوسرے کئی طریقوں سے بھی ثابت کیا تھا۔ میں نے اپنی کتاب ”شاہراہ محبت“ میں بھی اس بارے میں لکھا۔

وہاں ٹرانسپورٹرز کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ یہاں زیادہ سے زیادہ آئیں چنانچہ لوگوں کے لئے با قاعدہ بسیں اور ٹیکسیاں کر لیتے ہیں اور جب وہ جگہ آ جائے تو وہاں اپنی گاڑی کو نیوٹرل پہ سیٹ کر کے چابی نکال لیتے ہیں اور لہراتے ہوئے چلاتے ہیں کہ دیکھو اب چابی میرے ہاتھ میں ہے، گاڑی کا انجن بند ہے مگر اس کی رفتار بڑھ رہی ہے کیونکہ درحقیقت وہاں ڈھلوان ہوتی ہے، جس کی وجہ سے رفتار بڑھ جاتی ہے، لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس وقت گاڑی نیچے کی طرف جا رہی ہے۔ گاڑی کی رفتار 100 تک پہنچ جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں: واہ کیا بات ہے اور سارا کا سارا نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔

اصل میں لوگوں نے commercialize (تجارتی کام) کرنا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کو وادئ جن کہنا شروع کر دیا۔ یعنی جنات اس طرح کرتے ہیں، وہ آپ لوگوں کی گاڑیاں چلاتے ہیں۔ ان کو بھی اچھا خاصا شغل ہاتھ آ گیا۔ اس قسم کی باتوں سے لوگ متاثر ہوتے ہیں، سوچتے نہیں ہیں اور اس قسم کے ڈرامے بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہم لوگوں کو ایسی چیزوں سے بچائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ