اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت مولانا عبد الحلیم المعروف گل بابا رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”مقاماتِ قطبیہ اور مقالاتِ قدسیہ“ سے تعلیم جاری ہے، یہ منگل کے روز ہوا کرتی ہے۔ آج اس کتاب میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زہد کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے اس کی تعلیم ہو گی۔ فرماتے ہیں:
فصل
آپ (رحمۃ اللہ علیہ) کے زہد کے بیان میں
متن:
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ تارکین دنیا میں سے تھے، بلکہ ما سوی اللہ کو ترک فرما چکے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ صاحبہ روایت فرماتی ہیں کہ ایک عورت دہی کی ایک مشک اور سوت کے تار لنگر میں نذر کرنے لائی۔ دہی کو تو میں نے لنگر میں صرف کیا، اور سوت کو ان کے حجرے میں خفیہ جگہ چھپا رکھا تاکہ گدڑی یا خرقہ مبارکہ کی مرمت کروں۔ جب حضرت صاحب مسجد سے حجرہ مبارکہ میں تشریف لائے تو حجرے کے دروازے پر کھڑے رہے اور بہت زیادہ محزون و غمگین کھڑے رہے، حجرے میں اندر قدم نہ رکھا۔ میں جلدی سے اُن کے پاس آئی اور ان کو کہنے لگی کہ اے میری آنکھوں کے نور اور ٹھنڈک، اور اے میرے گھر کے چراغ! کیا وجہ ہے کہ محزون و مغموم ہو، اور آپ کا رنگ اُڑ چکا ہے اور حجرہ کے اندر تشریف کیوں نہیں لے جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کہ اے میری مشفقہ و مکرمہ والدہ محترمہ! حجرہ کے اندر سے مجھے کسی مردار اور بد بودار چیز کی سخت بد بو آ رہی ہے، میں نے سوچنے کے بعد عرض کی کہ آپ کے حجرے میں مردار چیز کہاں سے آئی، مگر سوت کے چند تار میں نے اس غرض سے رکھے ہیں کہ آپ کے کپڑوں کو سی کر مرمت کروں۔ اس کے بعد اپنی زبان مبارک سے فرمایا کہ انہی سوت کی تاروں سے بد بو آ رہی ہے، لائیے اور محتاجوں کو صدقہ دیجئے، حاجت کے وقت اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے۔
تشریح:
یہی وہ چیز ہے جسے لوگ نہیں سمجھتے اور ان چیزوں پہ اعتراض بھی بہت کیا کرتے ہیں۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے دونوں نعمتیں عطا فرمائی تھیں، علم اور فقاہت۔ حضرت کو بہت بلند درجہ کا علم بھی حاصل تھا، امامِ وقت تھے، بڑے بڑے اولیاء اللہ ان کے مسلک پر ہیں جیسے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، یہ حضرات مسلکِ حنبلی پہ ہوئے ہیں۔ اس طرح حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بڑے عالم اور امام بھی تھے، اس کے ساتھ ہی فقراء میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو روحانیت کا بہت اونچا مقام عطا فرمایا تھا۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ اُن کے ہاں دونوں قسم کے حضرات آیا کرتے تھے۔ علماء بھی تشریف لاتے تھے، علمی مباحث ہوتے تھے اور فقراء بھی تشریف لاتے تھے، ان کے ساتھ مجلسیں ہوتی تھیں۔ وہ دونوں قسم کے حضرات کا سنگم تھے۔
ایک دن امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک عالم بھی تشریف لائے ہوئے تھے اور ایک صوفی بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ظاہر بین علماء کی اکثر ان فقراء کے ساتھ چھیڑ چھاڑ رہتی ہے، وہ ان کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ اُس دن وہ عالم بھی اس صوفی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے موڈ میں تھے، امام صاحب نے ان کو سمجھا دیا کہ نہ چھیڑا کرو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ مگر ان کو بات سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے اس صوفی سے پوچھا کہ صوفی صاحب کچھ شریعت کے بارے میں بھی جانتے ہو؟
انہوں نے کہا: مثلاً؟
عالم نے کہا: مثلاً زکوٰۃ کو جانتے ہو؟
کہنے لگے: کون سی زکوٰۃ مال داروں کی یا فقراء کی؟
اس پر تو وہ جھوم گئے کہ یہ کیا بات کی، فقراء کی زکوٰۃ کون سی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا: دونوں کے بارے میں بتاؤ۔
صوفی نے کہا: ایک تو یہ ہے کہ جب آدمی صاحبِ نصاب ہو تو اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد اللہ کے راستے میں دینا واجب ہے، یہ تو امراء کی زکوٰۃ ہے۔
عالم نے کہا: فقراء کی؟
صوفی نے کہا: فقیر کی زکوۃ یہ ہے کہ سارا خرچ کر لے اور رکھنے کی معافی مانگے کہ اتنا رکھا کیوں تھا۔
اس پر عالم نے پوچھا: اس کی دلیل؟
انہوں نے کہا: اس کی دلیل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے کہ وہ اپنا سارا مال آپ ﷺ کے پاس لے آئے اور شکریہ کے طور پہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ ﷺ کے نکاح میں دے دیا۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس عالم سے کہا کہ اب بتاؤ، اب کیوں چپ ہو، میں نے کہا نہیں تھا کہ ان کو نہ چھیڑو، لینے کے دینے پڑ جائیں گے؟
واقعتاً بات یہ ہے کہ ہر ایک کے مقام کے لحاظ سے الگ بات ہوتی ہے۔ آپ نبی کریم ﷺ کی زندگی کو دیکھیں، کیا آپ ﷺ نے کبھی مال جمع کیا تھا؟ آپ ﷺ نے زکوٰۃ کے مسئلے تو بتائے ہیں لیکن آپ ﷺ کا اپنا عمل کیا تھا، کیا کبھی آپ ﷺ پر زکوٰۃ فرض ہوئی تھی، کبھی آپ ﷺ نے مال جمع کیا تھا؟ یہاں تک روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ میں نے جو گوشت تقسیم کرنے کے لئے دیا تھا اس کا کیا ہوا؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ حضرت وہ اتنا تقسیم ہو چکا ہے اور اتنا باقی ہے۔ فرمایا: جو تقسیم ہوا (در حقیقت) وہ باقی ہے۔ اب بتائیں کون سا عالِم اس کے بارے میں کہتا ہے کہ جو تقسیم ہوا وہ باقی ہے۔ کبھی اس کے بارے میں کوئی بات کرتا ہے؟ شاید ہی کوئی کرتا ہو، کبھی اس طرف ذہن بھی نہیں جاتا۔ بس گنجائشوں کی طرف ذہن جاتا ہے کہ اِس کی گنجائش ہے، اُس کی گنجائش ہے اور اس کی بھی گنجائش ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ وہ حضرات بھی ان کی نقل کریں، یہ بات تسلیم ہے کہ ہم لوگ کمزور ہیں اور ہمارے لئے کمزوروں کا نصاب ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کمزور نہیں ہیں ہم ان کے اوپر تبصرے کرتے رہیں اور ان کے بارے میں باتیں کرتے رہیں، بلکہ ان کے سامنے ہمارا سر جھکنا چاہیے کہ ہم کمزور ہیں۔ آخر دنیا میں بھی تو ہم ایسا کرتے ہیں کہ اپنی طاقت سے باہر معاملات کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بس کا نہیں ہے، اپنے سے طاقت ور کو دیکھ کر ہم اپنا سر جھکا کے کہتے ہیں کہ آپ ہم سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اسی طرح جو دین میں ہم سے زیادہ طاقتور ہوں ان کے سامنے بھی سر جھکا لینا چاہیے۔ اسی میں خیر ہے، بجائے اس کے کہ ہم ان پر باتیں کریں کہ یہ کہاں سے ثابت ہے اور یہ کہاں سے ثابت ہے۔
میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ کی تو شان بہت زیادہ اونچی ہے، ہم ان کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ تو نبی ہیں اور خاتم النبیین ہیں، ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حالات کو دیکھ لیں، غریب صحابہ کی بات نہیں کر رہا ہوں مال دار صحابہ کو دیکھ لیں، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی دولت کے ساتھ کیا کِیا، کیا اپنے اوپر لگایا؟ ان کا کاروبار تو ایک قسم کی چوکیداری تھی، وہ اپنی دولت کی چوکیداری کرتے تھے اور لوگوں پہ لگاتے تھے، ان کا تو کام ہی یہ تھا۔ اسی طرح حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مال دار صحابہ میں سے تھے۔ البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فقراء صحابہ میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں، وہ امیر تھے لیکن ان کی حالت ایسی تھی کہ ان کی ہر ہر بات سے فقر ظاہر ہوتا تھا۔ پتا نہیں لوگ ان کے واقعات کو کیوں نہیں دیکھتے، اور پھر آج کل کے فقراء پر اعتراض بھی کرتے ہیں۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ”کشف المحجوب“ کو دیکھیں، اس میں حضرت کے کیسے کیسے واقعات ہیں۔
معلوم ہوا کہ اگر ہم لوگ ایک چیز نہیں رکھتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چیز ہے ہی نہیں یا وہ چیز ثابت نہیں ہے۔ متن کی عبارت میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا وہ اپنی شان کے مطابق فرمایا ہے۔ واقعتاً ایسے حضرات کو اللہ پاک بچاتے ہیں۔ ایسے حضرات کے لئے اللہ پاک نے بہت اونچے درجات رکھے ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے ساتھ علمی اور کشفی دونوں طرح کی مدد ہوتی ہے۔ علمی طور پر ان کو علمی باتیں مستحضر ہوتی ہیں اور کشفی طور پر انہیں چیزوں کی حقیقت کا پتا چلتا ہے۔ یہ چیزیں کسی علم سے ثابت نہیں ہوتیں۔ جو حضرت نے فرمایا کہ اس سے بو آ رہی ہے؟ یہ علم کی بات نہیں ہے، نہ ہی علم سے یہ چیز سامنے آ سکتی ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک جگہ پر تشریف نہیں لا رہے تھے کیونکہ تکیہ پہ تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ یہ علمی بات نہیں ہے بلکہ کشفی بات ہے۔ آپ ﷺ کو نظر آ رہا تھا کہ فرشتہ نہیں آ رہا۔ اب جن کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے وہ اس بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں، ان کو خالص علمی باتوں پہ یقین کرنا پڑے گا، وہ اپنے علم پہ عمل کریں گے، لیکن جن کو یہ حیثیت حاصل ہے، ان پر اعتراض نہیں کر سکتے، ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقام دیا ہے، انہیں اللہ تعالیٰ نے بچایا ہے، اللہ تعالیٰ ایسے حضرات کو عین وقت پہ سمجھا دیتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: جو میں دیکھتا ہوں اگر تم دیکھ لو تو تم روتے زیادہ اور کم ہنستے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اللہ جلّ شانہٗ خاص لوگوں کو خاص مقامات میں عطا فرماتے ہیں، انہیں ایسی چیزوں سے آگاہ کر دیا جاتا ہے، لہذا وہ لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں۔ جب یہ چیز ثابت ہو جائے کہ یہ حضرات اس خاص مقام کے حاملین میں سے ہیں، تو پھر ان حضرات کی ایسی باتیں جو وہ اپنی طرف سے فرماتے ہیں، جن کی ہمارے پاس دلیل نہیں ہوتی، ہم ان کے مقام کا لحاظ کرتے ہوئے ان باتوں کو بے دلیل بھی مان لیتے ہیں۔ جیسے فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے دلیل نہیں مانگتے۔ تقلید یہی ہے۔ تقلید کیا چیز ہے؟ تقلید یہی ہے کہ عوام، علماء سے دلیل نہ مانگیں، بس ان کی بات مان لیں۔
ورنہ آپ ذا غور کریں، مثال کے طور پر نماز کو لے لیں، نماز کی کون کون سی چیز کس کس حدیث سے ثابت ہے، یہ بات نہ عوام کو معلوم ہو سکتی ہے نہ ہی عوام اس کے بارے میں پوچھنے کی جرات کر سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اس کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ انہیں حدیث کی قسموں کا پتا نہیں ہے کہ حدیث کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں۔ آپ ان کو بتا دیں گے کہ یہ حدیثِ حَسَن سے ثابت ہے تو وہ کہیں گے، یہ کیا ہے؟
ہر چیز کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے، عوام عوام ہوتے ہیں اور خواص خواص ہوتے ہیں، علماء علماء ہوتے ہیں اور مشائخ مشائخ ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا ایک مقام ہے۔
لہٰذا ایسے حضرات جن کے بارے میں عوام کو دوسرے ذرائع سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں، ان کی باقی چیزیں تمام علمی حالات کے مطابق بالکل صحیح اور مستند ہیں، وہ حضرات ان باتوں کے علاوہ جو کچھ اور بتائیں، عوام تو در کنار، علماء بھی ان کی وہ باتیں مانتے ہیں۔
یہ جس کتاب کا درس ہو رہا ہے، اس کے مصنِّف مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کون ہیں؟ یہ عالم ہیں اور محض عالم نہیں بہت بڑے نَقَّاد عالم ہیں، پہلے بڑی تنقید کیا کرتے تھے لیکن جب ٹھوکریں کھائیں تو پتا چل گیا کہ بات تو اور ہے۔ انہوں نے یہ کتاب حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد لکھی ہے۔ اس میں کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جن پر حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں اِنہوں نے تنقید کی تھی، پھر بعد میں ان کو پتا چلا کہ ان باتوں میں تو والد صاحب صحیح تھے، اس قسم کی مختلف باتیں جمع ہوتی گئیں۔ والد صاحب کی وفات کے بعد انہیں احساس ہوا کہ یہ کیا ہے، تب انہوں نے یہ کتاب لکھی۔
مقصد یہ ہے کہ ہمیں ان چیزوں سے سیکھنا پڑے گا۔ سوت کی تاروں سے جو بد بو آ رہی تھی وہ کشفی تھی علمی نہیں تھی۔ علمی لحاظ سے ان سے فائدہ اٹھانا جائز تھا کیونکہ وہ بطور ہدیہ پیش کی گئی تھیں اور علمی طور پر ہدیہ سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن زہد میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ آپ کس پر بھروسہ کرتے ہیں؟ جو موجود ہے اس پر یا اللہ پر؟ جن کو اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ مجھے جو چیز چاہیے ہو گی وہ عین وقت پہ مل جائے گی، ان کو جمع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان باتوں پہ خوب غور کرنا چاہیے۔ آگے فرماتے ہیں:
متن:
محتاجوں کو صدقہ دیجئے، حاجت کے وقت اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے۔
تشریح:
کیا یہ جواب وہی نہیں جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیا تھا کہ میرے لئے اللہ تعالیٰ کا نام اور آپ ﷺ کافی ہیں۔ یہی بنیادی بات ہے۔
متن:
آپ کی والدہ صاحبہ نے وہ تار باہر نکال کر صدقہ فرمائے اس کے بعد حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ حجرہ مبارکہ کے اندر تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو گئے۔ حضرت صاحب نے اس مقولہ پر عمل کرنا اختیار کیا تھا کہ ”تَرْکُ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ عِبَادَۃٍ“ کہ دنیا کو ترک کرنا ہر قسم کی عبادت گذاری کی اساس ہے اور اس پر عمل فرما کر ہمت کے میدان میں عالی ہمتوں سے سبقت لے گئے تھے اور حق کو مرکزِ نگاہ بنا کر غیرِ حق سے آنکھیں موڑ لی تھیں۔ نہ تو کسی سے کوئی چیز مانگی تھی، اور نہ کسی چیز کو سنبھال کر رکھا تھا۔
تشریح:
نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے اس پر بیعت کی تھی کہ وہ کبھی سوال نہیں کریں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ حالت تھی کہ گھوڑے کے اوپر بیٹھے ہوتے اور کوڑا گر جاتا یا لگام گر جاتی تو گھوڑے سے اترتے، اسے اٹھا کے پھر سوار ہو جاتے، کسی دوسرے سے نہیں کہتے تھے۔ حالانکہ یہ بات جائز تھی وہ کسی دوسرے سے کہہ سکتے تھے کہ مجھے یہ چیز اٹھا کر دے دو لیکن انہوں نے اپنے اوپر سوال نہ کرنے والی بات ایسے نافذ کی کہ اس میں ذرہ برابر بھی سستی نہیں کرتے تھے۔
اصل میں بات یہ ہے کہ ہر شخص کی ایک قلبی حالت ہوتی ہے کہ آپ اس چیز کو کتنے خلوص کے ساتھ دیکھتے ہیں (آج کل کے دور کے لحاظ سے بات کر رہا ہوں) اور کتنی باریکی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے جواز اور ایک محبت کا تقاضا ہوتا ہے، کسی چیز کا جواز بھی ہے اور دوسری طرف محبت کا تقاضا بھی ہے، ان دونوں میں مقابلہ ہوتا ہے۔ علماء کرام جواز کا رخ دیکھتے ہیں کہ جواز کن کن چیزوں میں ہے۔ اور اہل اللہ حضرات محبت کے تقاضوں کو دیکھ لیتے ہیں کہ محبت کے تقاضے کیا ہیں۔ آپ بتائیں کہ ان دونوں میں سے کون غلطی پر ہے؟ غلطی پر کوئی نہیں ہے، نہ علماء غلطی پر ہیں اور نہ ہی یہ حضرات غلطی پر ہیں، علماء جواز کو لیتے ہیں کہ جو چیز اللہ نے جائز کی ہو اسے کون نا جائز کہہ سکتا ہے۔ لیکن دوسرے حضرات نے وہ چیزیں دوسروں کے لئے نا جائز نہیں قرار دیں، بلکہ انہوں نے صرف اپنے اوپر نافذ کیا ہے، وہ دوسروں کے لئے تو بڑے نرم تھے، ہاں! اپنے اوپر انہوں نے ان چیزوں میں سختی کو نافذ کیا تھا، دوسروں کے لئے تو خوب چیزیں دیتے تھے۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید بڑے مفلوک الحال (غریب) تھے۔ ان کو کسی نے کہا: آپ فلاں جگہ چلے جائیں تو آپ کو روزگار مل جائے گا۔ حضرت کو پتا چلا تو حضرت نے ان کو ایک عصاء دیا اور فرمایا کہ جس کے جسم میں کسی بھی قسم کا بادی درد ہو، اس کے اوپر یہ عصاء رکھو، درد ختم ہو جائے گا۔ اور اس کے پیسے لینے کی اجازت عطا فرما دی کہ تم اس پہ پیسے لے سکتے ہو، یہیں رہو، تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ دیکھیے دوسروں کے لئے تو یہاں تک آسانیاں پیدا کیں کہ ان کو اس پر مجبور نہیں کیا کہ آپ نے بھی یہی کرنا ہے جو میں کر رہا ہوں، لیکن خود یہ حال تھا کہ اپنے لئے ان چیزوں کو اختیار نہیں کیا۔ یہ ان کا اپنا ایک مقام تھا۔
متن:
”اَلدُّنْیَا سُوْقُ الْمُسَافِرِ فَلَیْسَ لِلْعَاقِلِ أَنْ یَّشْتَرِيَ مِنْھَا فَوْقَ الْکَفَافِ“ یعنی دنیا مسافر کا بازار ہے، تو کوئی عاقل اور سمجھ دار شخص اُس میں اپنی حاجت سے زیادہ چیز نہیں خریدتا۔ دنیا کو ترک کر کے اُس سے آگے بڑھ کے قرب اور وحدت کے بساط عالی تک پہنچے تھے۔
تشریح:
قرب سے مراد یہی ہے کہ انسان اللہ کے قریب ہو۔ اس طرح کہ اسے قرب کی وجہ سے اللہ پہ بھروسہ ہو، جیسے انسان کسی بھی چیز کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو اس کو جانتا بھی بہت ہے اور اس کے ساتھ تعلق بھی ہوتا ہے۔ اور وحدت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ کا تھا وہ ان کا بھی تھا۔ وہ اللہ جل شانہ سے لے سکتے تھے بایں طور کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب تھے کہ انہیں جو کچھ اس وقت چاہیے ہوتا تھا مل جاتا تھا۔
واقعتاً ان حضرات کو اللہ پاک نے اتنا قرب عطا کیا ہوتا ہے اور اتنی قبولیت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ ان کے لئے تمام مصائب اختیاری بن جاتے ہیں۔ ایسے حضرات پر جو مصائب آتے ہیں، یہ غیر اختیاری نہیں ہوتے۔ نبی کریم ﷺ سے یہ چیز ثابت ہے کہ آپ ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو اُحد پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے اور یہ آپ کے ساتھ چلتا رہے۔ یہ کیسے ہوتا، یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے، جیسے بھی ہوتا بعد میں دیکھتے لیکن اللہ پاک کی طرف سے اس کی پیشکش ہوئی تھی، با قاعدہ فرمایا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم یہ پہاڑ سونے کا بنا دیں اور یہ آپ کے ساتھ چلے۔ آپ ﷺ نے عرض کیا: یا اللہ میرے لئے بس یہی کافی ہے کہ ایک وقت ملے تو شکر کروں دوسرے وقت نہ ملے تو صبر کروں۔ یہ اختیاری زہد ہے غیر اختیاری نہیں ہے۔
اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ آپ ﷺ مجبور تھے تو اس کا خیال غلط ہے، نبی کریم ﷺ مختار تھے، آپ ﷺ کو اللہ پاک نے اختیار دیا تھا، آپ نے اپنی مرضی سے ایک حالت کو اختیار کر لیا تو مختار ہو گئے۔
ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے قمیص نہیں پہنی تھی، جسمِ اطہر پر چٹائی کے نشانات نظر آ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دیکھ کر رونے لگے۔ انہیں نبی کریم ﷺ سے محبت تھی۔ عرض کی: یا رسول اللہ قیصر و کسریٰ تو دنیا کے مزے کریں اور دونوں جہاں کا سردار ایسا ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو نہیں چاہتا کہ اللہ تیرے دوست کو سب کچھ وہاں پر دے۔
ذرا سا غور کریں، اللہ تعالیٰ نے کیا مقام عطا فرمایا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ بعض چیزوں کی ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ تاریخ پڑھتے ہیں، سیرت پڑھتے ہیں لیکن وہ چیزیں سمجھ نہیں آتیں کہ کس پس منظر میں ہوئی تھیں اور کیا باتیں تھیں۔ جب یہ باتیں ہم توحیدی مشائخ سے سنیں گے تب سمجھ آئے گی کہ ان باتوں کا کیا مطلب ہے۔ ورنہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم ان چیزوں سے گزر جاتے ہیں، ہمیں پتا نہیں چلتا۔
جب مکہ مکرمہ فتح ہوا، اس وقت نبی کریم ﷺ نے نو مسلموں کی تالیفِ قلب کے لئے ان میں بہت سارا مال و دولت وغیرہ تقسیم کیا۔ لیکن جو انصار صحابہ مدینہ منورہ سے ساتھ آئے تھے، ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیا۔ کچھ نوجوان انصار صحابہ کی زبان سے یہ بات نکلی کہ جب قربانی کا وقت تھا اس وقت ہم ساتھ تھے، اب عطایا وغیرہ دینے کا وقت آیا تو ہماری طرف توجہ نہیں فرمائی گئی۔ یہ بات اڑتی اڑتی آپ ﷺ تک پہنچ گئی، آپ ﷺ ان چیزوں کے بارے میں بہت فکرمند ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے فوراً اعلان فرمایا کہ خیمہ قائم کرو، میں انصار سے کچھ بات کروں گا۔ تمام انصار صحابہ جمع ہو گئے، بوڑھے بھی آ گئے جوان بھی آ گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے سامنے بیان فرمایا۔ آپ ﷺ کے الفاظ مبارکہ مجھے یاد نہیں ہیں اس لئے مفہوم عرض کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب آپ کو ہدایت حاصل نہیں تھی اللہ نے مجھے آپ کی ہدایت کے لئے ذریعہ بنایا تھا۔ جب یہ چیز نہیں تھی تو مجھے اس کے لئے ذریعہ بنایا تھا۔ اس طرح مسلسل چند باتیں فرمائیں۔ پھر فرمایا: نہیں! تم یوں کہو کہ جب کوئی آپ کا ماننے والا نہیں تھا اس وقت ہم نے مانا، جب یہ نہیں تھا تو ہم نے ایسا کیا، جب یہ نہیں تھا تو ہم نے ایسا کیا۔ اے انصار! کیا تم اس فیصلہ پہ راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم محمد ﷺ کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ اس پر ایک کہرام مچ گیا، بڑے تو روتے روتے ہلکان ہو گئے۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! نوجوانوں کی زبان سے بات نکلی تھی، ہم تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، ہمیں تو آپ چاہئیں، دوسری بات کا تو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اس انداز میں بات پہنچانا آپ ﷺ کا ہی کام تھا، یہ آپ ﷺ کر سکتے تھے کہ کس کو کس چیز کے لئے مختص کیا گیا ہے، دنیا کے لئے کس کو مختص کیا اور اصل نعمت کے لئے کس کو مختص کیا۔ بعینہٖ اللہ تعالیٰ بھی یہی کرتے ہیں مگر لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اب اللہ کے رسول ﷺ اللہ کی طرف سے یہ کر رہے تھے، آپ ﷺ نے اپنی بات ظاہر فرما دی تو انصار کو تسلی ہو گئی اور انہوں نے بات کو سمجھ لیا کہ واقعی فیصلے کے لئے قوانین مختلف ہیں، ان کے لئے الگ قانون ہے ہمارے لئے الگ قانون ہے۔ انہیں پتا چل گیا اور انہوں نے مان لیا۔ فقراء کو اسی چیز کا پتا ہوتا ہے کہ اللہ کا ہمارے لئے الگ قانون ہے، دوسروں کے لئے الگ ہے۔
اگر یہی چیز دوسرے لوگوں کو سمجھ آ جائے تو اس کے بعد ان کی بات کی حیثیت بھی الگ ہو گی، وہ مختلف انداز میں سوچیں گے، وہ اس پر ناراض نہیں ہوں گے۔ حسد تو دور کی بات ہے بلکہ وہ تو اس پر خوش ہوں گے۔ حسد اس وقت ہوتا ہے جس وقت ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے کوئی چیز کمی کر کے لے لی گئی، اللہ کے ولی حسد نہیں کرتے بلکہ وہ تو خوش ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ شکر ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس چیز کے لئے نہیں رکھا۔ جو صحیح معنوں میں فقیر ہوتے ہیں وہ اللہ کے فیصلوں پر خوش ہوتے ہیں۔
لفظ ”فقیر“ بذات خود بہت گہرا لفظ ہے۔ میرے خیال میں لوگ فقیر کا لفظ صحیح معنوں میں نہیں لیتے۔ مجھے پورا شرح صدر نہیں ہے کہ لوگ لفظ ”فقیر“ صحیح معنوں میں لیتے ہیں۔ فقیر، محتاج کو کہتے ہیں، جو کسی چیز کے لئے محتاج ہو، جسے کسی چیز کی طلب ہو، جسے ہم طالب کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ (القصص: 24)
ترجمہ: ”میرے پروردگار! جو کوئی بہتری تو مجھ پر اوپر سے نازل کر دے، میں اس کا محتاج ہوں“۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کو دنیا کے لئے لیا جا رہا ہے یا کسی خاص نعمتِ خداوندی کے لیے لیا جا رہا ہے۔ یہی بات اگر نبی کہتا ہے تو اس کی شان کے مطابق ہو گی، یہی بات اگر صحابی کہیں گے تو ان کے شان کے مطابق ہو گی، یہی بات کوئی ولی اللہ کہیں گے تو ان کی شان کے مطابق ہو گی اور یہی بات ایک عام آدمی کہے گا تو اس کی شان کے مطابق ہو گی۔ لفظ ”فقیر“ ہر ایک کے لئے بدلتا رہے گا۔ نبی کی شان اور ہے۔ یہ جملہ ﴿رَبِّ اِنِّیْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ﴾ موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا، ان کی بات اور ہے لیکن جب صحابی کہے گا اس کی اپنی شان کے مطابق ہو گا، جب ولی اللہ کہے گا اس کی اپنی شان کے مطابق ہو گا اور عام شخص کی اپنی شان کے مطابق ہو گا۔ اس وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ اپنے آپ کو فقیر کہتے ہیں لیکن ہر ایک کا مطلب الگ ہوتا ہے، مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے آپ کو فقیر کہتے تھے، مولانا فقیر محمد دین پوری رحمۃ اللہ علیہ کے سارے مرید و خلفاء اپنے آپ کو فقیر کہتے تھے اور جو راستہ میں بھیک مانگتا ہے وہ بھی اپنے آپ کو فقیر کہتا ہے اور ہم بھی ان کو فقیر کہتے ہیں تو کیا سارے ایک جیسے ہیں؟ ہر ایک کا ایک جیسا مطلب نہیں ہے۔
آگے فرماتے ہیں:
متن:
اور ما سوی اللہ کو ترک کیا تھا۔ ترکِ دنیا سے یہ مطلب نہیں کہ روپیہ اور اشرفی کو نہ رکھا جائے، بلکہ ترکِ دنیا سے مراد یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ کے سوا جو چیز بھی ہو اُس کو ترک کر دیا جائے۔ اے بھائی! خبردار! ایسا نہ ہو کہ تم یہ سمجھو کہ میں نے دنیا اور دنیا والوں کو چھوڑا اس لیے دنیا والے بھی مجھے چھوڑ جائیں گے۔ جو کوئی خدا کی خاطر مخلوق کو چھوڑ رکھے تو مخلوقِ خدا اُس کو نہیں چھوڑا کرتی۔ ایک صحرا میں گڈریا نماز پڑھتا تھا اور بھیڑیا اُس کی بھیڑوں کی رکھوالی کرتا تھا۔ کسی نے اُس سے اس کا سبب پوچھا، تو اُس نے جواب دیا: "کَمَا صَلَحْتُ مَعَ اللہِ صَلَحَ ذِئْبٌ مَّعَ الْغَنَمِ" کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ صلح و مصالحت کر لی ہے، اسی طرح بھیڑیے نے بھیڑوں کے ساتھ مصالحت کر لی ہے۔ قطعہ:
؎ نخشبی گریہ ساز پیشۂ خود
تا جہاں زیر خندۂ تو بود
”اے نخشبی! گریہ و زاری کو اپنا وطیرہ اور معمول بناؤ، تاکہ کل تم دنیا اور دنیا والوں پر ہنس سکو“
؎ گر تو در بندگی نکو باش
ہمہ آفاق بندۂ تو بود
”اگر تم بندگی میں کامیاب اور ثابت قدم ہو جاؤ گے تو تمام دنیا تمہاری غلام ہو جائے گی“
میرے عزیز بھائی! اگر کوئی یہ چاہے کہ اس راستے میں قدم رکھے، تو ایسا اور اس انداز میں رکھے جیسا کہ دین کے مردانِ حق نے رکھا تھا۔ اور یہ قاعدہ تب تک معمول نہیں بن سکتا جب تک کوئی شخص دنیا کی محبت اور دنیا سے لطف اندوزی کا خیال دل سے بالکل باہر نکال کر خالی نہ کرے۔ اے درویش! خیال کیجئے! کہ ابلیس اور تم دنیا کی محبت کی وجہ سے جنت سے محروم رہے، اور دنیا کی محبت میں آلودہ ہو کر جنت میں جاؤ گے، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ سعادت اور نیک بختی کی نشانی یہ ہے کہ عبادت کیجئے اور خوف کھائیے کہ بخشش ہو گی یا نہیں۔ اور شقاوت اور بد بختی کی علامت یہ ہے کہ گناہ کر کے اُمید رکھے کہ آخر وہ بخشا جائے گا۔ اے درویش! مردانِ حق نے ہمیشہ یہ کام اس انداز سے کیا ہے کہ اپنے آپ کو ہر گھڑی اپنی اور لوگوں کی نظروں میں خوار و ذلیل رکھا ہے۔ کسی وقت میں ایک طائفے نے یحییٰ بن معاذ سے کہا کہ ہم کو نصیحت کریں، تو آپ نے فرمایا کہ "کُوْنُوْا عِبَادًا بِأَفْعَالِکُمْ کَمَا کُنْتُمْ عِبَادًا بِأَقْوَالِکُمْ" ”اپنے افعال و کردار میں ایسے بندے بن جاؤ جیسا کہ تم اپنے قول و گفتار سے بندے بنے پھرتے ہو“
تشریح:
اپنے قول و فعل کو ایک کر لو۔ تم جیسے اپنے آپ کو کہتے ہو اس طرح خود بن جاؤ۔ ؎
قال را بگزار مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملِ پا مال شو
متن:
ہاں ایسے رہو جیسے کہ تم دکھائی دے رہے ہو، اور ایسے دکھائی دو جیسے کہ رہتے اور زندگی بسر کرتے ہو۔ اور ایسا کرنا بہت بڑا کام ہے۔ حکماء نے فرمایا ہے:
"کَانَ النَّاسُ عَلٰی أَرْبَعَۃِ فِرَقٍ: اَلْفِرْقَۃُ الْأُوْلٰی کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ لَا یَقُوْلُوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ یَفْعَلُوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ یَقُصُّوْنَ ثُمَّ صَارُوْا یَقُوْلُوْنَ وَ لَا یَفْعَلُوْنَ"
”لوگ چار قسم کے تھے: پہلی قسم وہ ہے جو عمل کرتے تھے مگر کچھ نہیں کہتے تھے،
تشریح:
خاموشی کے ساتھ۔ Acting silence
متن:
پھر وہ ایسے ہوئے کہ کہتے تھے اور کرتے تھے،
تشریح:
جو کہتے تھے وہ کر بھی جاتے تھے۔
متن:
پھر وہ ایسے ہوئے کہ کہتے تھے لیکن افسانے بناتے تھے، پھر ایسے ہوئے جو کہتے تھے مگر کرتے نہیں تھے“
ہمارے شیخ صاحب ہمیشہ بھوکے رہا کرتے تھے اور پیٹ بھر کر نہیں کھاتے تھے "لَمَّا خَلَقَ اللہُ الدُّنْیَا جَعَلَ فِي الْجُوْعِ الْعِلْمَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ جَعَلَ فِي الشِّبَعِ الْجَھْلَ وَ الْمَعْصِیَۃَ" یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی ہے، تو علم و حکمت کو بھوک میں پیدا کیا ہے اور جہل و معصیت کو بھرے پیٹ میں تخلیق کیا ہے۔ بھوک کا ثمرہ رحمانی ہے اور بھرے پیٹ کا نتیجہ شیطانی ہے۔
تشریح:
ہم لوگ اس پہ تھوڑا سا مذاکرہ کر لیں۔ یہ جو فرمایا کہ ”بھرے پیٹ میں شیطانیت ہے اور خالی پیٹ میں رحمانیت ہے“، ذرا اس کی وضاحت ہو جائے۔ اس کا معنیٰ ہم وہ لیتے ہیں جس کو سائنس کی زبان میں Required output کہتے ہیں۔
اگر ہم input یہ لیتے ہیں کہ بہت کم کھاتے ہیں تو زندہ نہیں رہتے، کیونکہ اتنی روحانیت ہے ہی نہیں کہ اس کے بغیر زندہ رہیں۔ لہٰذا اتنا کم نہیں کر سکتے، تو پھر ہمیں یہ کرنا ہو گا کہ اس کو تھوڑا سا بڑھا لیتے ہیں، تھوڑا سا بڑھا کے دیکھو کہ اب زندہ رہ سکتے ہو یا نہیں، جسم کی طلب اور حالت سے معلوم ہو جائے گا کہ میں اتنا مجاہدہ برداشت کر سکوں گا یا نہیں۔ اگر جسم کا تقاضا یہ ہے کہ ابھی بھی کم ہے، تو اس سے کچھ اور بڑھا لو، اس طرح بڑھاتے جاؤ یہاں تک کہ جسم کہنے لگے کہ اب میں برداشت کر سکتا ہوں۔ اس کے بعد اسی پہ قائم رہو۔
یہ عملی حل ہے، کسی میں پہلے سے روحانیت بالکل ہی موجود نہ ہو تو اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ مجاہدے میں اضافہ کیا جائے۔ جیسے جیسے روحانیت آ جائے گی، مجاہدے کی برداشت شروع ہو جائے گی۔ یہ اختیاری ہے وہ غیر اختیاری ہے۔ یہ جو اختیاری ہے، یہ ہمارا مجاہدہ ہے اور جو غیر اختیاری ہو وہ مجاہدہ نہیں ہے، لیکن چونکہ وہ مجاہدہ کی بنیاد پر ملا ہے اس لئے اس کو مجاہدہ ہی شمار کر لیا جاتا ہے۔ جیسے نفسِ مطمئنہ میں مجاہدہ نہیں رہتا لیکن اجر بہت زیادہ ملتا ہے۔
جب مجاہدہ شروع کیا جاتا ہے تب جسم کا تقاضا زیادہ ہوتا ہے۔ ایک تو زندہ رہنے کا تقاضا ہوتا ہے اور ایک عیش کرنے کا تقاضا ہوتا ہے۔ عیش کرنے کا تقاضا تو کبھی پورا نہیں ہو گا، اس کے بعد ضرورت کا تقاضا ہے، مجھے معلوم ہے کہ ضرورت کا تقاضا کتنا ہے، میں اپنے جسم کا وہ ضروری تقاضا پورا کر دیتا ہوں، اس سے زیادہ تقاضا پورا نہیں کرتا، یہ میرا مجاہدہ بن جائے گا، اس مجاہدہ سے مجھے روحانیت ملے گی، جب روحانیت ملے گی تو چونکہ روحانیت کی وجہ سے میری ضرورتیں کم ہو رہی ہیں، لہٰذا جسم کی ضرورتوں میں بھی کمی آ جائے گی کیونکہ روحانیت کا کچھ حصہ انرجی میں تبدیل ہو چکا ہو گا، جس سے کمی پوری ہو جائے گی، نتیجتاً میری ضرورت کم ہو جائے گی اور کم کھانے پہ گزارا ہو جائے گا۔ اللہ کے ولی بہت کم کھاتے تھے، نا قابل یقین حد تک کم کھاتے تھے، اس کی وجہ یہی تھی کہ مجاہدہ کر کر کے انہوں نے اپنی ضرورت کو اتنا کم کر دیا تھا کہ اب ان کو مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ جب انسان کا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے اور نفس بپھرا ہوا ہوتا ہے تو شیطان کو وسوسہ ڈالنے میں بڑی آسانی ہوتی ہے، وہ نفس کی خواہش کے مطابق وسوسہ ڈال دیتا ہے، نتیجتاً انسان سے گناہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ بھرے پیٹ میں شیطانیت کیسے ہوتی ہے؟
انسان جو مجاہدہ کرتا ہے، اگر آپ وہ مجاہدہ نہ کریں تو آپ روحانی مقامات حاصل نہیں کر سکتے، یہ نا ممکن ہے۔ البتہ جن حضرات نے مجاہدہ کو متروک کیا، انہوں نے جسم کی کمزوری کی بنیاد پر متروک کیا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ برداشت کر سکیں، لہذا انہوں نے مجاہدہ کو متروک کر دیا۔ لیکن میں پورے احترام کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ مشائخ اجتہادی خطا پر تھے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مجاہدہ ترک کرنے کے نتائج بہت خطرناک بر آمد ہوئے ہیں۔ یہ تو کیا جا سکتا تھا کہ جو آپ کی ضرورت ہے اور جو آپ کی خواہش ہے، اس کے درمیان کافی فرق ہے، آپ کو آپ کی ضرورت کے مطابق مطلوبہ قوت حاصل ہے۔ یا تو کوئی یہ کہہ دے کہ ہماری ضرورت اور خواہش میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ ضرورت اور خواہش میں فرق تو ہے۔ آپ کا مجاہدہ یہ ہوا کہ جو خواہش کا تقاضا ہے اسے مت مانو، نفس کو صرف ضرورت کے تقاضے تک محدود رکھو۔ ضرورت کے تقاضے سے کمی مت کرو، اور خواہش کی طرف مت جاؤ، اس طرح مجاہدہ مشکل نہیں ہو گا اور آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اور یہ بات ہم خوب جانتے ہیں کہ ضرورت کا تقاضا کتنا ہے، اور کہاں سے بات خواہش کی طرف جاتی ہے۔
ہمارے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہمارے پروفیسر حضرات اپنا وزن کم کرنے کے لئے سارا دن دو سلائس کھا کر گزارتے ہیں اور بڑے چاق و چوبند رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جسم کی ضرورت ہی اتنی ہے، اس کے علاوہ جو ہم مکھن وغیرہ لگاتے ہیں وہ ضرورت نہیں، خواہش ہے۔ یہ میں نے آپ کو کسی صوفی کی بات نہیں بتائی بلکہ ڈاکٹر کی بات کر رہا ہوں۔ ڈاکٹری نقطۂ نظر سے بات بتائی ہے تصوف کے نقطۂ نظر سے نہیں بتائی۔ معلوم ہوا کہ اگر ڈاکٹری کی ضرورت کے پیش نظر اس چیز کو استعمال کیا جا سکتا ہے تو تصوف جو کہ روحانی ڈاکٹری ہے اس کے لئے اِس کو کیوں نہیں استعمال کیا جا سکتا، بالکل کیا جا سکتا ہے۔
لہٰذا مجاہدہ متروک نہیں ہوا، ہاں اس میں ایسی ترمیم ضرور کی جا سکتی ہے، کہ اتنی قوت بر قرار رہے جو آپ کے لئے ضروری ہے، اتنی قوت نہیں کہ جس سے آپ پہلوانی کر سکیں۔ اس وقت آپ سے پہلوانی کی قوت مطلوب نہیں ہے بلکہ آپ کے لئے اتنی قوت کافی ہے جس سے آپ زندہ رہیں، اپنے نارمل کام کر سکیں، ہم نے پہلوان تو نہیں بننا، اگر بننا بھی ہے تو بعد میں بن جانا، پہلے اتنی روحانیت حاصل کر لو پھر پہلوان بھی بن جاؤ تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن فی الحال کم از کم روحانیت تو حاصل کرو جس سے ضرورت کے تقاضے سے زیادہ نفس کی ماننے سے بچ سکو۔
میں آپ کو ایک روحانی لطیفہ سناتا ہوں۔ ہمارے پاس لوگ آتے ہیں، اچھے بھی آتے ہیں برے بھی آتے ہیں، بوڑھے بھی آتے ہیں نوجوان بھی آتے ہیں۔ جس بچے نے ہمارے ساتھ روحانی تعلق قائم کیا ہو ان کے والدین کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ اب یہ بچہ ٹاپ کرے گا تب تو یہ بزرگ اور پیر ہیں اور اگر وہ سکول میں ٹاپ نہیں کرے گا تو یہ اس سلسلہ کی کمزوری ہے، حالانکہ اگر بچہ ہمارے پاس نہ بھی آتا تو ٹاپ نہیں کر سکتا تھا۔ کیونکہ بچوں کی حدود ہوتی ہیں، ہر کوئی ٹاپ کرنے والا نہیں ہوتا۔ اگر بچہ کے ماں باپ پہلے اس کی درجہ بندی کر لیتے تو شاید اس کے لیے یہاں نہ آتے، مثلاً انہوں نے درجہ بندی کی اور وہ بچہ دو ہزارویں مقام پہ آیا، اب اگر وہ ہمارے پاس آنے کے بعد تین ہزارویں مقام پہ آ جائے تب تو یہ ہماری کمزوری ہوئی لیکن اگر وہ پندرہ سو کے مقام پہ چلا جائے تو یہ بہتری ہو گی یا کمی ہو گی؟ یقیناً بہتری ہو گی لیکن والدین کہیں گے کہ اس نے تو ٹاپ کرنا تھا اب یہ پندرہ سو کے مقام پہ کیوں آ گیا ہے۔ یہ شیطان کا دھوکہ ہے۔ بلکہ لوگ چپ ہی اس لئے ہوتے ہیں کہ ہمارا کام مفت میں ہو جائے گا، پیر کے پاس چلے جاتے ہیں کہ پیر صاحب کوئی پھونک ماریں گے اور بچہ ٹاپ کر لے گا۔ اگر ٹاپ نہیں کیا تو کوئی گڑبڑ ہے۔ ہاں! گڑبڑ تو ہے، لیکن وہ گڑبڑ کون سی ہے، یہ بھی ہمیں اچھی طرح پتا ہے ہم بھی بچے نہیں ہیں۔ یہ چیزیں ہوتی ہیں۔ اللہ کے ساتھ دھوکہ نہیں کر سکتے حقیقت مان لو تو اچھی بات ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ ایک شخص کو اپنے نارمل کاموں کے لیے جتنی انرجی چاہیے، اگر مجاہدہ کے با وجود اتنی انرجی حاصل ہو جائے اور اس مجاہدہ کی وجہ سے اس کو روحانیت بھی حاصل ہو جائے تو وہ فائدے میں جا رہا ہے یا نقصان میں جا رہے؟ یقیناً وہ فائدے میں ہے۔ لہٰذا ہمارا شرحِ صدر یہ ہے کہ آج کل مجاہدہ متروک نہیں ہے، ہاں اس میں ترمیم ضرور کر لینی چاہیے۔ اس طرح کہ مجاہدہ سے جو کمی آتی ہے اسے دوسرے وقت میں پورا کر لو، اس طرح وہ کمی دور ہو جائے گی۔ جیسے Sine wave ہوتا ہے، اس طرح اس کو چلاؤ۔ آپ کا کام ہو رہا ہے، ساتھ ساتھ روحانیت حاصل ہو رہی ہے۔
Sine wave چھوٹا ہوتا جاتا ہے
اسی طریقے سے آپ کی مجاہدے والی کمی تھوڑی ہوتی جائے گی اور آپ stable (مستحکم) ہو کر کام کریں گے۔ یہ تصوف میں انجینئرنگ ہے۔ اس ذریعہ سے ہم روحانیت کے ساتھ مستحکم حالت حاصل کر سکتے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔ علاج یہی ہے۔ بزرگی مطلوب نہیں ہے کیوں کہ شیطانیت سے بچنا ہے۔ نفس بھرا ہوا ہے، پیٹ بھرا ہوا ہے اور نفس کی ساری خواہشیں پوری ہیں تو نفس و شیطان مکمل زور پر ہیں۔ ان سے بچنے کے لئے ہمیں بتدریج ایک stable (مستحکم) حالت پہ آنا ہے۔ جب stable (مستحکم) مقام پہ آ گئے، اب آپ کے اوپر نفس حاوی نہیں رہے گا۔ آپ کے جسم اور نفس کے تقاضے میں توازن آ گیا ہے، یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایڈجسٹ ہو گئے ہیں۔ اب آپ عام زندگی محفوظ گزار سکیں گے۔ جس وقت لائن سیدھی ہو گئی تو نفس مطمئنہ ہو گیا، اب کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ یہی تصوف ہے۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اتنا بڑا علم عطا فرما دیا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی باتیں بھی ہمارے ذہن میں آئیں گی۔ یہ بزرگوں کی برکت ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کر لیں کہ ؎
صحبت صالح ترا صالح کند
صحت طالح ترا طالح کند
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
ان اشعار میں صحبتِ صالحین کی ترغیب دی گئی ہے لیکن فرماتے ہیں کہ صالحین کی کتابیں ان سے ملاقات اور صحبت کی قائم مقام ہوتی ہیں۔ اس دور میں حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہیں ہیں، اگر کوئی ان کے ساتھ ملنا چاہے تو نہیں مل نہیں سکتا۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تو مل سکتی ہے۔ جو ان سے ملنا چاہیں وہ ان کی کتاب کی صحبت میں چلے جائیں، اس سے بھی فائدہ ہو گا۔ اسی طرح حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیں نہیں مل سکتے لیکن ان کی کتابوں کے ذریعے ہم کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں جا سکتے ہیں، اس کا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، جیسا کہ آج اس کا فائدہ محسوس ہو رہا ہے۔
بزرگوں کی صحبت کا فائدہ اٹھانے کے لئے ہمارے ہاں تین مجالس منعقد ہوتی ہیں، مثنوی شریف کا درس، حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مقاماتِ قطبیہ کا درس اور حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات کا درس۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان دروس سے بہت زیادہ برکات نصیب فرمائے۔ آمین۔
آگے فرماتے ہیں:
متن:
جہل و معصیت کو بھرے پیٹ میں تخلیق کیا ہے۔ بھوک کا ثمرہ رحمانی ہے اور بھرے پیٹ کا نتیجہ شیطانی ہے۔ علم و حکمت کی سعادت بھوک میں اور جہل و گنہگاری کی بد بختی اور شقاوت سیری اور شکم پُری میں لکھی گئی ہے۔
سلک سلوک میں لکھا گیا ہے کہ کامل وہ شخص ہے جس کا دنیا میں کوئی حصّہ نہ ہو۔ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے پانچ سو اشرفیاں دجلہ میں پھینک دیں، لوگوں نے پوچھا یہ کیا کیا؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: "مٹی پانی کے لیے بہت بہتر تھی" لوگوں نے کہا کہ کسی کو کیوں نہ دیا؟ فرمایا: "جو چیز اپنے لیے جائز اور پسند نہ ہو، وہ دوسروں کے لیے بھی جائز اور پسند نہ جانو، اگر یہ اچھی چیز ہوتی تو میں اس کو دریا میں نہ ڈالتا"۔ ہاں سوچنے کی بات ہے کہ جس کسی کے پیچھے ملک الموت جیسا دشمن لگا ہو، اگر وہ دنیا کے کاموں میں مشغول رہے تو اس سے زیادہ نادان اور بے سمجھ کون ہو گا۔
تشریح:
یہ ان کا حال تھا۔ جس پر حال طاری ہو وہ شخص معذور ہوتا ہے۔ ابھی جو ضرورت اور خواہش کی بات ہوئی ہے، اِس واقعہ کو اُس کی روشنی میں دیکھیں تو بات مزید واضح ہو جائے گی۔ اگر کوئی سہولت ہو، مال و دولت ہو تو مجاہدے کے لیے اسے ضرورت کے درجے میں تو استعمال کیا جا سکتا ہے، خواہش کے درجے میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اگر شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ان اشرفیوں کو دو ہزار فقیروں میں بانٹ دیتے جس سے ان کی ضرورتیں پوری ہو جاتیں تو خواہش والی بات نہ رہتی، ضرورت کے درجہ میں بات پوری ہو جاتی۔ اس لئے اصل میں تو ان اشرفیوں کو کسی ایسے مصرف پہ خرچ کرنا چاہیے تھا، لیکن اُس وقت اُن کے اوپر حال طاری تھا اور وہ حال بہت اونچا تھا۔ اس اونچے حال کی وجہ سے انہوں نے وہ عمل کیا جو اس حال کا تقاضا تھا۔ بہرحال جب بھی وہ اس حال سے باہر آتے تو یہی کرتے جو میں عرض کر رہا ہوں۔ کیونکہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ درہم و دینار ایمان کو بچاتے ہیں، بعض دفعہ مال نہ ہونے کی وجہ سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے اگر اس واقعہ کو شیخ شبلی کے خاص حال پر محمول کر لیں، تب تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر اس کو علم کی کسوٹی پہ پرکھیں تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہمارے اوپر وہ حال طاری نہیں ہے تو ہمیں اس طرح نہیں کرنا اور اگر حال طاری ہو گا تو وہ اپنے مطابق خود ہی کروا دے گا، ہمیں اس میں سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
متن:
روایت ہے کہ ”خائف“ وہ شخص ہوتا ہے جو کہ ابلیس سے زیادہ اپنے نفس سے ڈرتا رہے۔ کیونکہ ابلیس انسان سے جدا ہوتا ہے اور نفس انسان کے ساتھ متصل ہوتا ہے۔ اور عاقل شخص نزدیک کے دشمن سے دور کے دشمن کی نسبت زیادہ ڈرتا ہے۔ اور اسی لیے جب بادشاہ لوگ کسی کو ہلاک کرنا چاہتے ہوں تو پہلے قریب والے کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔
میرے عزیز! نفس کے مکر و فریب سے اللہ تعالیٰ کی عنایت کے پردے کے بغیر بچا نہیں جاتا۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ درویشی کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو اپنی تکالیف گوشے میں چھپائے رکھے، اور کسی سے شکایت نہ کرے۔
تشریح:
یہ دل کی درویشی ہے کہ اپنی تکالیف پردوں میں چھپائے رکھے اور کسی سے شکایت نہ کرے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ واقعتاً یہ کوئی مغلوب الحال شخص ہی کہہ سکتا ہے ورنہ ایسا کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اپنی تکالیف کو چھپانا آسان کام نہیں ہے۔ چھپانے سے مراد یہ ہے کہ کسی طریقے سے بھی ظاہر نہ کرے، صرف بات کے ذریعے سے ہی نہیں بلکہ کسی بھی طریقے سے، اشارے کنائے سے بھی ظاہر نہ کرے۔ یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر کوئی نفل روزہ رکھے تو اپنے ہونٹوں پر تھوڑی سی چکنائی لگا لیا کرے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ کہتے ہیں نفلی صدقہ ایسے دو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے۔ مشکلات کو بھی اسی طریقے سے چھپانا ہے تاکہ کسی اور کو کسی طریقے سے پتا نہ چلے۔
ہمارے ہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے۔ ایک دفعہ میں سرکاری وزٹ پر کراچی گیا تھا۔ کراچی کینٹ میںJBS ہوٹل ہے، وہاں ٹھہرا۔ وہاں کے سٹاف وغیرہ کو پتا تھا کہ یہاں زیادہ تر سرکاری افسر ہی ٹھہرتے ہیں۔ وہاں ایک بیرا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان لوگوں کے مسائل تو ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تنخواہیں بہت تھوڑی ہوتی ہیں، ان کا زیادہ کام tip پہ چلتا ہے بلکہ بعض اوقات مالک لوگ انہیں کہتے ہی یہی ہیں کہ تنخواہ تو tip ہی ہے۔ میں صبح سویرے نماز کے لئے جا رہا تھا، میں نے دیکھا کہ بیرے نے راہ داری میں مصلیٰ بچھایا ہوا ہے، اور اس پر بیٹھا اونچی آواز میں دعا کر رہا ہے کہ یا اللہ میرا یہ مسئلہ ہے، میرا یہ مسئلہ ہے، میں بے روزگار ہوں مجھے روزگار عطا فرما دے۔ میں یہ دیکھ کر مسکرایا اور سوچا کہ اگر یہ میرے کمرے میں آ کر مجھ سے بات کر لیتا تو زیادہ اچھا تھا، میرے پاس آ کے کہہ دیتا کہ میں بے روزگار ہوں آپ میری مدد کر دیں تو یہ زیادہ بہتر طریقہ تھا۔ مجبوری میں انسان بات کر لیتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر میں مدد کر سکتا تو ضرور کرتا، نہ کر سکتا تو کہہ دیتا کہ نہیں کر سکتا کیونکہ انسان ہر ایک کی مدد تو نہیں کر سکتا، ہر وقت ہر ایک کی مدد کرنا انسان کے بس میں تھوڑی ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری افسر ہو تو وہ اپنی مرضی سے کر سکتا ہے۔ خیر اگر وہ بیرا ایسا کر لیتا تو زیادہ بہتر تھا لیکن اس نے انداز ایسا بنا لیا جیسے خدا سے مانگ رہا ہے لیکن در حقیقت وہ خدا سے نہیں بلکہ انسان سے مانگ رہا تھا۔
جب معاملہ یوں ہے کہ خدا پر ساری چیزیں ظاہر ہیں تو پھر دوسروں پہ ظاہر کیوں کرتے ہو۔ یہ چھپانا نہیں ہے۔ خدا پر تو ساری چیزیں ظاہر ہیں، اگر آپ دوسروں سے چھپا بھی لیں گے تو خدا سے نہیں چھپا سکتے۔ لہٰذا مخلوقِ خدا پر ظاہر نہ کرو۔
متن:
ابو یزید اکثر مریدوں کو مجاہدے (بھوک وغیرہ) کے لیے کہتے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ جواب دیتے کہ اگر فرعون بھوکا ہوتا تو کبھی بھی ﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی﴾ (النازعات: 24) نہ کہتا۔ کسی موقع پر لوگوں نے آپ سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ پانی کی سطح پر چلتے پھرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اس میں کون سی عزت کی بات ہے؟ ایک تنکا بھی تو پانی کی سطح پر تیرتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی نے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک ہزار اشرفی پیش کی تاکہ وہ انہیں قبول کریں۔ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اُس شخص سے پوچھا کہ اس طرح اور بھی تمہارے پاس ہیں؟ اُس نے عرض کیا کہ ہاں بہت ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اِن کا بھی تمہارے پاس ہونا بہتر ہے کیونکہ اس قسم کی چیز تم رکھتے ہو اور میرے لیے ان کا رکھنا اچھا کام نہیں،
تشریح:
آپ اس کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں، میں اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔
متن: کیونکہ میں اس نوع کی چیز اپنے پاس نہیں رکھتا۔ نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پاؤں کی دو انگلیوں پر نماز پڑھی ہے۔ عبد اللہ ضعیف ایک آدمی تھا کہ سنت میں سے کوئی چیز بھی اس سے فوت نہ ہوئی تھی۔ اس نے چاہا کہ وہ بھی اس قسم کی نماز ادا کرے، ایک رکعت تو اُس نے دو انگلیوں کے سِروں کے سہارے ادا کی، جب دوسری رکعت ادا کرنے کا ارادہ کیا تو اُس نے محسوس کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے محراب سے سر باہر نکالا کہ اے ضعیف! یہ میرا خصوصی فعل ہے اس کو نہ چھیڑ۔
تشریح:
کچھ چیزیں آپ ﷺ کے ساتھ خاص تھیں۔ یہ بہت بڑی فقاہت کی بات ہے کہ آپ ﷺ کی خاص چیزوں اور ان چیزوں میں فرق کیا جا سکے جو امت کے لئے ہیں۔ ہر کوئی ایسا نہیں کر سکتا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ یہ جو غیر مقلد ہوتے ہیں، بے چارے احمق لوگ، فقاہت سے بالکل خالی، یہ آپ ﷺ کی ان باتوں کی بھی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آپ ﷺ ہی کے لئے خاص تھیں، مثلاً نیند میں آپ ﷺ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا، تو یہ بھی سو جاتے ہیں پھر اٹھ کر نماز شروع کر دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس طرح وضو نہیں ٹوٹتا۔ بکواس کرتے ہیں، اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔ وہ چیز تو آپ ﷺ کے ساتھ خاص تھی، یہ تمھارے لئے تھوڑا ہی جائز ہے؟
اس کا سب سے بڑا معیار یہ ہے کہ دیکھا جائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کس چیز کو لیا ہے اور کس کو نہیں لیا؟ اگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس کو لیا ہے تو امت اس کو لے سکتی ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے افراد ویسا نہیں کر سکتے۔ جیسے آپ ﷺ نے چار سے زیادہ شادیاں فرمائیں، لیکن کسی صحابی نے چار سے زیادہ شادیاں نہیں کیں۔ اس سے پتا چل گیا کہ یہ کام صرف آپ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ آج اگر کوئی کہہ دے کہ میں بھی چار سے زیادہ شادیاں کرتا ہوں کیونکہ یہ سنت ہے تو اسے پاگل کہا جائے گا۔ جو کام آپ ﷺ کے لئے خاص تھا تم وہ نہیں کر سکتے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ