اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ
گذشتہ سے پیوستہ:
پس یہ بنیادی بات تھی کہ جہاں تاویل ضروری ہو وہاں تاویل کرنی چاہیے۔ رہا یہ سوال کہ تاویل کہاں ضروری ہے؟ تو کسی ایسے ضروری کام کے متعلق بات ہو، جس کے بغیر مسئلہ حل نہ ہو سکتا ہو، ایسی صورت میں آپ تاویل کریں گے۔ لیکن جو ضروری نہیں ہے وہاں آپ کے لئے چپ رہنا بہتر ہے۔ اگر کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ہو رہا تو آرام سے گزر جاؤ۔ مثلاً کہیں ایک شیر کھڑا ہو اگر آپ کو اسی راستے سے جانا ہو تو پھر یہ سوچو کہ شیر کھڑا ہے اس کے ساتھ میں کیا کروں گا۔ لیکن اگر آپ کے پاس دوسرے راستے ہیں تو آپ اس دوسرے راستے سے گھوم کے چلے جائیں، خواہ مخواہ ایسے راستے سے جانے کی کیا ضرورت ہے جس میں جان جانے کا خطرہ ہو؟ تو جس طرح وہاں جان جانے کا خطرہ ہے تو اسی طرح یہاں ایمان جانے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا ایسی جگہوں پر آدمی کو محفوظ راستہ تلاش کرنا چاہیے، اسی میں آسانی ہے، اسی میں خوبی ہے اور اسی میں ہی بچت ہے۔ ورنہ اللہ نہ کرے اگر کسی وجہ سے کوئی بات زبان سے نکل جائے تو وہاں معاملہ بہت خطرناک ہے۔ لہٰذا عقیدے کا ایک پہلو بہت آسان ہے اور ایک پہلو انتہائی مشکل ہے۔ آسان پہلو یہ ہے کہ اس میں کوئی عمل نہیں کرنا پڑتا، بس آپ نے کہہ دیا کہ اللہ ایک ہے تو اس کے لئے کتنا وزن اٹھایا؟ کتنے میل چلے؟ اس کے لئے آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس صرف آپ نے ماننا ہے، اس میں کوئی محنت نہیں ہے، اس لحاظ سے عقیدہ بہت آسان ہے۔ لیکن نازک اتنا ہے کہ اگر آپ نے اپنے دل میں بھی اس پہ شک کر لیا تو ایمان جا سکتا ہے۔ جیسا کہ یہ عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ چنانچہ اگر کسی نے کہہ دیا کہ میں نبی ہوں، (اللہ بچائے ایسے امتحان سے) اور کسی نے اس کو جانچنے کے لئے کہا کہ اگر تم نبی ہو تو ذرا اپنا معجزہ دکھاؤ۔ تو یہ پوچھنے کے ساتھ ہی وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے اپنے ایمان پر شک کر لیا۔ یہ فتوٰی امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے حالانکہ وہ اکثر بہت سختی کے ساتھ کسی کے بارے میں کفر کا فتویٰ دینے سے بچتے تھے، ننانوے دلائل اگر کفر کے ہوتے تھے اور ایک کفر سے بچنے کا ہو سکتا تھا تو وہ ایک والا لے لیتے تھے۔ چنانچہ ان کا یہ فتوی ہے کہ وہ کافر ہو گیا۔
اسی طرح ایک بچی پہ اس کے والد نے ظلم کیا تھا کہ وہ اس کی شادی کسی ایسے آدمی سے کر رہے تھے جو اس کو پسند نہیں تھا، جیسا ہمارے ملک میں بچیوں کے ساتھ یہ معاملہ چلتا ہے۔ تو اس نے مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خط لکھا کہ حضرت! والد صاحب میرے ساتھ اس طرح کر رہے ہیں اور اگر انہوں نے اس طرح کر دیا تو میں عیسائی ہو جاؤں گی۔ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا: بد بخت! تو اس طرح کہنے کے ساتھ ہی کافر ہو گئی ہے۔ میں نے صرف تجھے اس پر خبر دار کرنا ہے کہ ظلم تم پر تمہارا والد کر رہا ہے، اسلام تو نہیں کر رہا، تو سزا اسلام کو کیوں دے رہی ہے، بلکہ اپنے آپ کو کیوں دے رہی ہے؟ والد نے تم پر ظلم کیا ہے، کیونکہ والد شریعت کے مطابق نہیں کر رہا، شریعت تو اس کو نہیں کہہ رہی کہ تم پر ظلم کرے، شریعت تو تجھے پورا حق دے رہی ہے کہ تم اپنے بارے میں فیصلہ خود کرو۔ اب اگر وہ اس پر عمل نہیں کر رہا تو یہ شریعت کا قصور نہیں، یہ تو اس کا اپنا قصور ہے، شریعت کے نزدیک وہ مجرم ہے۔ لیکن بہر حال اگر اس نے ایسا کیا ہے تو اس کی سزا تو اسلام کو یا اپنے آپ کو کیسے دے سکتی ہے؟ گویا اس کا ایک رخ بہت سخت ہے کیونکہ اس کے اندر لچک نہیں ہے۔ جیسے ایک شیشہ بہت مضبوط ہوتا ہے وہ نہیں ٹوٹتا لیکن جب ٹوٹتا ہے تو پھر چور چور ہو جاتا ہے جیسے windscreen جب ٹوٹتی ہے تو پھر کچھ نہیں بچتا، صرف جوار کے دانے بچتے ہیں۔ لہذا عقیدے کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ مضبوط تو اتنا ہے کہ جب ایک دفعہ کہہ دیا اور پھر آپ نے اس کے خلاف کوئی بات نہ کی تو وہ موت تک جاری رہے گا، اس میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں آئے گی، بے شک (اللہ بچائے) گناہ کبیرہ بھی کر لے پھر بھی کافر نہیں ہو گا، پھر اگر نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِك سب کو جلا دے تو بہت بڑا مجرم تو ہو گا لیکن کافر نہیں ہو گا۔ لیکن اگر اس میں شک بھی کر لیا تو پھر چاہے کبھی کسی چیونٹی کو بھی نہ مارا ہو، پھر بھی کافر ہو جائے گا، چنانچہ اس کا ایک رخ تو بہت زیادہ آسان ہے اس کے لئے محنت ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔ لیکن دوسرا رخ اس کا بہت زیادہ سخت ہے اس وجہ سے انسان کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ صبح کو انسان مسلمان ہو گا اور شام کو کافر ہو گا، شام کو مسلمان ہو گا تو صبح کو کافر اٹھے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معلومات زیادہ ہو جائے گی اور لوگوں کو شکوک و شبہات ڈالنے والے نظام اتنے زیادہ تیز ہو جائیں گے کہ ان سے بچنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ جیسے کرونا سے لوگ بچتے ہیں کہ کہیں ہمیں کرونا نہ لگ جائے، اس کے لئے کیا کیا جتن کرتے ہیں۔ تو کیا عقیدے کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے؟ اور عقیدے کی خرابی بھی متعدی مرض ہے یہ بھی ایک سے دوسرے کو لگتا ہے، کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے جیسے خوش گپیوں کے موڈ میں دوست بیٹھے ہوئے ہیں، لطیفے سنا رہے ہیں ان لطیفوں میں اگر کوئی کفریہ لطیفہ کہہ دے تو جو اس پر تائیداً ہنس پڑے گا تو وہ کافر ہو جائے گا۔ جیسے آج کل واٹس ایپ اور فیس بُک پر بہت سے کفریہ لطیفے آ جاتے ہیں، تو یہ مرض اور یہ چیزیں پتا نہیں کہاں کہاں پہنچ رہی ہیں۔ لہذا اپنے آپ کو بہت ہی زیادہ محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے، جہاں خطرہ ہو وہاں انسان جائے ہی نہ، وہاں سے اپنے آپ کو بچائے، ایک طرف ہو جائے۔ اور اگر کہیں گیا ہوا ہو اور وہاں اس قسم کے مسائل ہو جائیں تو پھر اپنے ایمان کو مضبوط رکھے، کیونکہ سب سے پہلے اپنے ایمان کو بچانا ضروری ہے، دوسروں کی فکر بعد میں ہے۔ چنانچہ یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ سب سے پہلے اپنے ایمان کو بچانا ضروری ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دوسروں کے جوتوں کی حفاظت میں اپنی گٹھڑی گم نہ کریں، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرتے ہوئے خود درمیان میں بھٹک جاتے ہیں۔ اس لئے اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ جو عقائد حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات شریفہ اور بہشتی زیور میں بھی موجود ہیں ان کو بار بار پڑھیں اور ذرہ بھر بھی ان میں کسی انحراف کا نہ سوچیں۔ اس مسئلے میں انسان بہت rigid (کٹر) ہو، نہ بھائی کی، نہ باپ کی، نہ ماں کی اور نہ دوست کی پرواہ کرے، کیونکہ کوئی بھی آپ کو نہیں بچا سکے گا، ہمارا معاملہ صرف اللہ پاک کے ساتھ ہے، اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس مسئلے میں بہت ہی زیادہ محفوظ رہنا پڑے گا۔ تو ہم نے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں سب سے پہلے عقائد سے ابتدا کی ہے، کیونکہ یہ معاملہ بہت اہم تھا اور حضرت بھی اس مسئلے میں بہت محتاط تھے۔ چنانچہ حضرت فرما رہے ہیں کہ تصوف کا نصف کام یہ ہے کہ معتقدات شرعیہ پر یقین اور اوامر و نواہی پر عمل آسان ہو، تو یہ دو باتیں بتائی ہیں۔ گویا پچاس فیصد کام تو عقیدے کا بیان کیا ہے۔ لہذا اس پر استقامت کی ضرورت ہے اور اعمال کے اندر ہمت کی ضرورت ہے، یعنی جو آپ نے کہہ دیا اس پر ثابت قدم رہنا ہے، جمے رہنا ہے۔ اور عمل کے لئے ہمت کرنی ہے۔ مثال کے طور پر میں کہیں جا رہا ہوں اور میرا وہاں پہنچنا ضروری ہے تو چاہے میں کتنا ہی کمزور ہوں، میں رینگتے ہوئے جاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ میں وہاں پر پہنچ جاؤں یا گاڑی کا بندوبست کروں گا یا کچھ اور کروں گا، بہر حال وہاں پر میں کسی بھی طرح پہنچنے کی کوشش کروں گا، تو وہاں پر ہمت کی بات ہوتی ہے۔ لیکن عقیدہ direction (سمت) کی بات ہے۔ لہذا direction (سمت) اگر آپ نے تبدیل کر لی تو چاہے آپ کتنی ہمت کر لو، وہاں نہیں پہنچو گے جہاں پہنچنا ہے بلکہ کام خراب ہو جائے گا۔ اس وجہ سے عقیدے پہ استقامت کی ضرورت ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا﴾ (الأحقاف: 13) لہذا عقیدے میں استقامت کی اور اعمال کے اندر ہمت کی ضرورت ہے، بے ہمتی کے ساتھ انسان کام نہیں کر سکتا، بے ہمتی انسان کو بالکل ضائع کر دیتی ہے۔ آج کل بے ہمتی بہت زیادہ عام ہے کہ ہر شخص کوشش کر رہا ہے کہ میرا کام کوئی اور کرے، میں خود کچھ بھی نہ کروں، خود بخود میری نمازیں بھی ہوتی رہیں۔ اب اگر نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو پیر کو کہیں گے کہ مجھ سے نماز نہیں پڑھی جا رہی۔ اب یہ بھی کوئی بات ہے۔ تو پھر ڈاکٹر سے کہہ دو کہ مجھ سے دوائی نہیں کھائی جا رہی، تو ڈاکٹر کہے گا میرے پاس اس کا علاج ہی نہیں ہے، دوائی تو آپ کو کھانا پڑے گی، اگر انجیکشن لگانا ہے تو اس کے لئے تیار ہوں گے، دوائی کھاؤ گے تو ٹھیک ہو گے۔ جب کہ آج کل اس کے لئے با قاعدہ ذہن بنے ہوئے ہیں، کہ سارا کچھ خود بخود ہو جائے۔ لوگ پیروں کے پاس اس مقصد کے لئے آتے ہیں کہ ہمارے کام خود بخود ہونے لگیں۔ مجددِ ملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس خناس کو جو لوگوں کے دماغ سے نکالا ہے، اللہ تعالی حضرت کو اجر دے، حضرت نے یہ بہت بڑا کام کیا ہے۔ ایک دفعہ کسی نے پوچھا: حضرت! مجھے اپنے سینہ سے سرمایہ عطا فرما دیں۔ حضرت نے فرمایا: میرے سینے میں تو بلغم ہے۔ در اصل اس سے مقصد یہ سمجھانا تھا کہ سینے سے آپ کچھ نہیں لے سکتے، آپ کو خود عمل کرنا پڑے گا، ہمت کرنی پڑے گی۔ توجہ کی غلط interpretation (تشریح) نے پتا نہیں کتنے لوگوں کو ضائع کر دیا۔ کیا توجہ کا یہ مطلب ہے کہ تم کوئی بھی کام نہ کرو، شیخ ہی تمہارا کام کرے گا۔ چنانچہ شریعت پر خود عمل کرنا پڑتا ہے، شیخ آپ کو آسانی کا طریقہ بتائے گا اگر مشکل ہو گا تو آپ کی مشکل دور کرے گا اور صحیح طریقہ بتائے گا کہ اس طریقے سے کرو گے تو آسانی ہو جائے گی لیکن آپ کو کرنا خود ہی پڑے گا۔ مثلاً کوئی ڈرائیونگ سیکھنا چاہتا ہے اور جو ڈرائیونگ سکھانے والا ہے وہ اس کے اسٹیرنگ پر خود بیٹھ جائے، اس کے لئے گاڑی چلائے تو وہ نہیں سیکھ سکے گا کیونکہ چلانی تو خود ہی ہو گی وہ صرف آپ کو direction (ہدایات) دے گا، عین ممکن ہے کسی وقت سکھانے کے لئے آپ کے ہاتھ کو پکڑ لے، لیکن مستقل طور پہ تو ایسا نہیں کر سکتا، مستقل طور پہ ایسا کرے گا تو تم ڈرائیونگ کیسے سیکھو گے؟ ہر چیز کو سکھانے کا طریقہ کار ضرور ہوتا ہے لیکن کرنا خود پڑے گا۔ حضرت مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے شارح تھے، انہوں نے اپنے ایک شعر میں مجذوبانہ انداز میں اس کو بیان فرمایا ہے کہ:
کہا! سمندر کی سیر کا شوق ہے
کہا! کرو،
کہا! طوفان کا ڈر ہے
کہا! طوفان تو ہو گا
کہا! اونٹ کی سواری کا شوق ہے
کہا! کرو،
کہا! کوہان کا ڈر ہے
کہا! کوہان تو ہو گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو سلوک پہ جانا ہے تو اس پہ مجاہدات، ریاضتیں اور مشقتیں تو آئیں گی، ایسا نہیں ہے کہ سارا کچھ خود بخود ہو جائے گا۔ حضرت نے اس کو اس انداز میں کہا ہے۔ میں نے اس کو ذرا مزید بڑھانے کے لئے کہا ہے:
پڑھنے کا شوق ہے،
کہا! پڑھو،
کہا! امتحان کا ڈر ہے،
کہا! امتحان تو ہو گا۔
یعنی اس میں یہ چیزیں تو ہوں گی، یہ چیزیں تو ساتھ چلتی ہیں۔ لہذا ہمیں تو کام کرنا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔