(ایک میڈیکل یونیورسٹی اور ہسپتال ميں ڈاکٹر حضرات، اساتذہ اور طلبا و طالبات سے فائنل ائیر کے فئیر ویل کے موقع پر بیان، مورخہ 14 دسمبر، 2022)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿الٓمّٓۚ 0 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 1-2)
وَ نَحْنُ نَقُوْلُ فِیْ سُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ: ﴿اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾
وَ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 45)
وَ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 9-10)
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
معزز اساتذۂ کرام، عزیز طلباء اور عزیز ساتھیو! کائنات میں آخرت کے لحاظ سے ہدایت سے بڑی چیز کوئی نہیں ہے اور دنیا کے لحاظ سے عافیت سے بڑی چیز کوئی نہیں ہے۔ ہمیں دنیا میں عافیت چاہیے ہوتی ہے، خدانخواستہ کوئی پوری دنیا کی دولت کا مالک ہو لیکن اس کے پاس عافیت نہ ہو تو وہ روئے گا، پریشان ہو گا، مصیبت میں ہو گا اور اگر کسی کے پاس کچھ بھی نہ ہو لیکن وہ عافیت میں ہو، وقت پر اس کو وہ چیز مل جاتی ہو جو وہ چاہتا ہے تو وہ خوش ہو گا، دعا کرے گا اور شکر کرے گا۔ لہٰذا دنیا کے لحاظ سے عافیت بڑی چیز ہے اور آخرت کے لحاظ سے ہدایت بڑی چیز ہے۔ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں اور اپنی مرضی سے جائیں گے بھی نہیں، آئے بھی اللہ پاک کی مرضی سے ہیں اور جائیں گے بھی اللہ پاک کی مرضی سے۔ پس اگر ہم درمیان کی زندگی بھی اللہ پاک کی مرضی کے مطابق گزاریں تو پھر ہمیں اللہ پاک ان شاء اللہ ایسی جگہ رکھیں گے، جہاں سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہو گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سب سے بڑی صفت یہ بتائی گئی ہے:
﴿رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ﴾ (التوبہ: 100)
ترجمہ: ”اللہ ان سب سے راضی ہو گیا ہے، اور وہ اس سے راضی ہیں“۔
اللہ سے راضی ہو جانا ان کی سب سے بڑی صفت ہے۔ لہٰذا اگر ہم لوگ بھی اللہ پاک کی مرضی مان لیں اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزاریں تو وہاں پر سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہو گا اور اگر ہم اپنے نفس کی خواہشات کے مطابق زندگی گزاریں، اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف زندگی گزاریں تو پھر قیامت میں ہماری کوئی مرضی نہیں چلے گی، پھر بات ایسی ہو گی کہ اگر انسان خون کے آنسو بھی روئے گا تب بھی فائدہ نہ ہو گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت بڑا موقع دیا ہے کہ یہاں کا ایک آنسو جہنم کی آگ کو بجھا سکتا ہے جبکہ وہاں خون کے آنسو رونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے نفس کی خواہش کی وجہ سے غلط کام اور گناہ کرتے ہیں، بعض دفعہ دوستوں کی وجہ سے کرتے ہیں، بعض دفعہ بڑوں کی وجہ سے کرتے ہیں، بعض دفعہ کسی رشتہ دار کی وجہ سے کرتے ہیں اور بعض دفعہ کسی اور کے کہنے پہ کرتے ہیں۔ قیامت کے دن جب حقیقت سامنے آئے گی تو بڑا عجیب منظر ہو گا۔ قرآن پاک میں اس کی با قاعدہ منظر کشی کی گئی ہے۔ روزِ قیامت گناہ کرنے والے اُن لوگوں کو پڑ جائیں گے جن کی وجہ سے گناہ کرتے تھے اور کہیں گے کہ ہم نے تمھاری وجہ سے ایسا کیا تھا، تم لوگوں نے ہمیں ایسا کہا تھا اس لئے ہم نے ایسا کیا، لہٰذا اب ہمیں بچاؤ۔ وہ لوگ کہیں گے کہ ہم خود پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کیسے بچائیں، اور جو تم ہمیں کہہ رہے ہو کہ ہم نے تم سے گناہ کروائے، بات یہ ہے کہ اگر ہم نے تم کو کوئی بات کہی بھی تھی تو تم پہ کوئی زبردستی نہیں کی تھی، تم ہماری بات نہ مانتے۔ شیطان بھی ایسا ہی کہے گا۔
ہم یہاں جن کو اپنا سمجھتے ہیں، اگر ہم غلط راستے پر ہیں تو یقین جانئے یہ سب وہاں ہمیں disown (غیر تسلیم) کریں گے اور یہاں ہم جن کو اپنے آپ سے دور سمجھتے ہیں اگر ان کے مطابق کوئی اچھا کام کیا ہو گا تو وہی ہمارے کام آئے گا۔
سب سے بڑی بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہدایت کو حاصل کرنے کے لئے ہمارے پاس دو ذرائع ہیں۔ پہلا ذریعہ قرآن مجید ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿الٓمّٓۚ O ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ (البقرہ: 1-2)
ترجمہ: ”الۤم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ڈر رکھنے والوں کے لیے“۔
گویا ہدایت کا ایک ذریعہ تو قرآن ہے جبکہ ہدایت حاصل کرنے کا دوسرا بہت بڑا ذریعہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا طریقہ ہے، اس ذریعہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ قرآن بھی اس کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتا، ہم اپنے آپ سے قرآن بھی نہیں سمجھ سکتے۔ آپ ﷺ نے قرآن کی جو تشریح کی ہے، اس کے خلاف کسی اور تشریح کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
آج کل یہ بڑا الحاد پھیلا ہوا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب قرآن موجود ہے تو حدیث شریف کی کیا ضرورت ہے۔ یقین جانیے اگر آپ حدیث شریف کو درمیان سے نکال دیں تو قرآن کی سمجھ ہی نہیں آئے گی۔
نبی کریم ﷺ کے مبارک دور کا واقعہ ہے کہ ایک صحابی (حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ) ماہ رمضان میں اپنے سامنے ایک سیاہ اور سفید دھاگا ساتھ ساتھ رکھا کرتے تھے، تب تک سحری کھانا بند نہیں کرتے تھے جب تک دونوں دھاگوں کے درمیان فرق صاف صاف نظر نہ آتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن پاک میں آیا ہے:
﴿وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾ (البقرہ: 187)
ترجمہ: ”اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہو جائے“۔
اس سے ان صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ اس آیت میں خیطِ ابیض اور خیط اسود کے صاف نظر آنے تک کھاتے پیتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ تب تک کھا پی سکتے ہو جب تک کہ حقیقی دھاگے صاف نظر آنا شروع ہو جائیں۔
جب دوسرے صحابہ کو پتا چلا تو وہ انہیں آپ ﷺ کے پاس لے گئے اور بتایا کہ یہ اس طرح کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ قرآن میں ایسا ہی لکھا ہے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پاک میں خیطِ ابیض اور خیطِ اسود سے مراد دھاگے نہیں بلکہ افق کی سفیدی اور سیاہی مراد ہے، جب یہ سفیدی اور سیاہی ایک دوسرے سے ممتاز ہو جائیں تب فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
اب دیکھئے کہ قرآن پاک کی آیت کی یہ تشریح نبی ﷺ نے فرمائی ہے۔ میں نے یہ صرف ایک مثال دی ہے۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ قرآن آپ ﷺ کے لئے مُفَصَّل ہے اور ہمارے لئے مُجْمَل ہے۔ اگر ہمیں اس کے متعین معانی معلوم نہ ہوں تو ہم اس کے کئی معانی کر سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں صرف وہ معانی لینے ہوں گے جو آپ ﷺ نے بتائے ہیں کیونکہ قرآن پاک آپ ﷺ کے لئے مفصل ہے، آپ ﷺ اس کے صحیح معانی جانتے ہیں، آپ ﷺ کو تفصیل کے ساتھ یہ معانی معلوم ہیں۔
ایک اور اہم بات عرض کرنا چاہوں گا کہ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ قرآن پاک ہدایت کا اولین ذریعہ ہے، جس کے شارح اور مفسِّرِ اوّل نبی کریم ﷺ ہیں، تو اب ہمیں قرآن کے نبی کریم ﷺ سے منقول شدہ صحیح معنوں کو جاننے کے لئے آپ ﷺ ہی کی طرف سے کوئی طریقہ معلوم ہونا چاہیے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ گزشتہ امتوں میں سے یہود میں اکھتر (71) فرقے ہو گئے اور نصاریٰ میں بھتر (72) فرقے ہوئے جبکہ میری امت میں تہتر (73) فرقے ہوں گے جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا: یا رسول اللہ! (ﷺ) جنت میں جانے والے کون ہوں گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
”مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سنن ترمذی: 2641)
ترجمہ: ”(جنت میں جانے والے لوگ وہ ہوں گے جو اس راستے پر چلیں گے) جس راستے پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں“
نبی کریم ﷺ نے اپنے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو دین کے فہم میں شریک کیا۔ یعنی میری بات کی وہ تشریح قبول ہو گی جو میرے صحابہ نے سمجھی ہے، اس کے مطابق چلو گے تو نجات پاؤ گے ورنہ نہیں۔
پس اگر کسی حدیث شریف کی تشریح حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے تو آج کا کوئی بڑے سے بڑا سکالر اس کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ اسی طرح حدیث شریف کی وہی تشریح قابل قبول ہو گی جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے، یا جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کی ہے یا کسی اور صحابی نے کی ہے، ہم صرف اسی کو مانیں گے۔
میں آپ کے سامنے یہ باتیں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ آج کل اس قسم کے الحاد موجود ہیں، آج کل یہ چیزیں معاشرے میں پائی جاتی ہیں، لوگوں کے ایمانوں پہ ڈاکہ ڈالا جاتا ہے۔
بہرحال میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے پاس ہدایت کا دوسرا بڑا ذریعہ نبی کریم ﷺ کا طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
ترجمہ: ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا“۔
﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾ (الاحزاب: 21)
ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے“۔
لہٰذا اگر ہم اپنی زندگی صحیح کرنا چاہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمارے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی میں حضور ﷺ کا طریقہ اپنانے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
اب میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ ہمارا مقصد ہدایت کو حاصل کرنا ہے، اس کے لئے اللہ پاک نے فرمایا کہ ایک تو قرآن ہدایت کے حصول کا ذریعہ ہے، دوسرے نمبر پہ حضور ﷺ کا طریقہ ہدایت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہمیں قرآن پاک اور حضور ﷺ کے طریقہ مبارکہ سے ہدایت حاصل ہو گی۔ اب ان ذرائع سے ہدایت حاصل کرنے میں کچھ رکاوٹیں پیش آتی ہیں، لہٰذا ہمارا اگلا کام ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
مثلاً ایبٹ آباد ہمارے علاقے سے بہت قریب ہے لیکن دونوں علاقوں کے درمیان پہاڑ ہیں، اگر اس پہاڑ کو عبور کر لیں تو ایبٹ آباد قریب ہے، لہٰذا ایبٹ آباد تک پہنچنے کے لیے اس پہاڑ کو عبور کرنا پڑے گا۔ اسی طرح سیدھے راستے (صراطِ مستقیم) پر بھی منزل تک پہنچنے سے پہلے بھی کچھ رکاوٹیں ہیں، اگر ہمیں منزل تک پہنچنا ہے تو ان رکاوٹوں پہ قابو پانا پڑے گا۔ ان میں سے ایک رکاوٹ ہمارا نفس ہے اور دوسری رکاوٹ شیطان ہے۔ یہ شیطان بھی ہمارے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ ایک تو بڑا شیطان ہے، وہ پہلے سے پیدا ہو چکا ہے اور ایک اس کی ذُرِّیَّت ہے، اس میں ہر آدمی کے ساتھ ایک شیطان پیدا ہوتا ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ہر آدمی کے ساتھ شیطان ہے تو آپ ﷺ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ہاں، لیکن میرا شیطان مسلمان ہو چکا ہے۔ لہٰذا راہ حق پہ چلنے میں دو رکاوٹیں ایسی ہیں جو ہر آدمی ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے، ان میں سے ایک شیطان ہے اور دوسری نفسِ اَمّارہ ہے۔
اللہ جل شانہ نے تزکیۂ نفس کی بات سمجھانے کے لئے قرآن پاک میں سورۃ شمس میں اس کی تفصیل نازل فرمائی ہے آپ حضرات اس کو خود پڑھ سکتے ہیں، سورہ شمس میں اللہ پاک سات قسمیں کھاتا ہے، سورج کی قسم، چاند کی قسم، زمین کی قسم، آسمان کی قسم، دن کی قسم، رات کی قسم، نفس کی قسم۔ سات قسمیں کھا کر اللہ پاک یہ بات فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا وہی کامیاب ہو گا۔
غور کریں، اللہ پاک کو تو ایک قسم کھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن ہمارے لئے اللہ پاک سات قسمیں کھا کر ارشاد فرماتے ہیں کہ اس نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں، اس کے فجور اور اس کا تقویٰ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فجور کا راستہ بھی نفس سے گزرتا ہے اور تقویٰ کا راستہ بھی نفس سے گزرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اگر ہم نے نفس کی خواہشات مان لی اور اللہ کا حکم چھوڑ دیا تو یہ فجور ہے اور اگر ہم نے اللہ کے حکم کو مان لیا اور نفس کی خواہش کو چھوڑ دیا تو یہ تقویٰ ہے۔
اس لئے بزرگوں نے ایک عجیب بات فرمائی ہے کہ ”ہماری نفسانی خواہشات ہمارے تقویٰ کے حمام کے خس و خاشاک ہیں“۔ یعنی ہماری نفسانی خواہشات جلیں گی تو تقویٰ پیدا ہو گا۔
مثلاً ایک اندھا آدمی کہتا ہے کہ میں بد نظری نہیں کرتا، تو اس کو بد نظری نہ کرنے کا کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ وہ بد نظری کر ہی نہیں سکتا، البتہ جو آدمی بد نظری کر سکتا ہے لیکن اختیاری طور پر نہیں کرتا، چونکہ یہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بد نظری نہیں کر رہا اس لئے اسے پورا اجر ملے گا۔ اجر تب ملتا ہے جب انسان ایک برائی کر سکتا ہو، اس کے با وجود برائی سے رکا رہے۔ مثلاً نماز کا وقت داخل ہی نہیں ہوا تو اس وقت نماز نہ پڑھنے والا گناہ گار نہیں ہے لیکن جب وقت داخل ہونے کے با وجود نماز نہیں پڑھی تو یہ گناہ گار ہے اور اسے اس گناہ کی سزا ملے گی۔ اسی طرح اگر روزہ ابھی فرض ہی نہیں ہوا تو روزے نہ رکھنے پر کوئی ملامت نہیں ہے لیکن اگر رمضان شریف آ گیا تو ہر بالغ مرد و عورت پہ روزے رکھنا فرض ہو گیا، اگر اب یہ نہیں رکھیں گے تو گناہ گار ہیں۔
جب گناہ کا امکان پیدا ہو جاتا ہے تو ثواب کا امکان بھی پیدا ہو جاتا ہے، جب تک گناہ کا امکان نہیں ہوتا تب تک ثواب کا بھی امکان نہیں ہوتا، یہ دونوں چیزیں نفس کے ذریعے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے نفس کی فہمائش کرنی پڑے گی۔ یہ ”فہمائش“ میں نے ذرا نرم لفظ استعمال کیا ہے، اصل میں اس کے ساتھ کچھ اور بھی شامل ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "عقل مند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا"۔
یعنی انسان کی عقل مندی یہ ہے کہ اپنے نفس کی بات نہ مانے بلکہ اس سے اپنی بات منوائے، لیکن یہ کام دنیا کے لئے نہ ہو بلکہ آخرت کے لئے ہو۔ یہاں پر ”إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ“ کی بات آتی ہے، اس کے عمل کا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی نیت دنیا کی ہے یا آخرت کی ہے۔ مثلاً ایک ڈاکٹر مریض کی خدمت اس لئے کرتا ہے کہ اسے کچھ زیادہ پیسے مل جائیں یا اس کی شہرت اچھی ہو جائے اور لوگ کہیں یہ تو بڑا اچھا ڈاکٹر ہے، تو اس عمل سے مقصود دنیا کا فائدہ ہے، یہ تو حاصل ہو جائے گا، لیکن آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اس کے بر عکس جو آدمی مریض کی خدمت اس لئے کرتا ہے کہ میں ڈاکٹر ہوں، یہ مریض ہے اور اس کی خدمت کرنا مجھ پر اس کا حق ہے، بے شک میں اس سے فیس لے لوں لیکن اس کا مجھ پر حق ہے کہ میں اس کو وقت دوں، اس کی بیماری کی تشخیص کروں اور علاج تجویز کروں، اس کو جتنے وقت اور توجہ کی ضرورت ہے وہ اس کو دوں، میں اس کے کام آ جاؤں اور اس سارے عمل کا مقصد اللہ کی رضا ہو، تو اس کا یہ عمل آخرت کے لئے ہو گا، بے شک ڈاکٹر اپنے پیسے بھی لے لے، پیسے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے وہ تو ڈاکٹر کی فیس ہے، کیونکہ ڈاکٹر نے اپنی تعلیم اور مہارت پر پیسہ خرچ کیا سرمایہ لگایا ہے لہٰذا اس کے لئے اپنی فیس لینا جائز ہے لیکن اس کی نیت چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی ہے اس پر اسے اجر ملے گا۔
یہ آپ کے قریب ہی ڈاکٹر عجب خان صاحب میجر جنرل ریٹائر ہوئے ہیں، یہ میرے دوست تھے، ان کے پاس میں اپنے بچوں کو علاج کے لئے لے جاتا تھا۔ جب میں ان کے پاس جاتا تو یہ اپنے آپ کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے تھے، کہتے کہ مجھ میں اور ایک ہندو ڈاکٹر میں کیا فرق ہے، وہ بھی فیس لیتا ہے میں بھی فیس لیتا ہوں، یہ میں کوئی اچھا کام نہیں کر رہا۔ اس طرح اپنے آپ کو کوسنا شروع کر دیتے۔ ایک مرتبہ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ کیا بات کر رہے ہیں آپ تو بالکل جنت کے دروازہ پہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ کہنے لگے کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا: حدیث قدسی میں اللہ کا فرمان ہے: ”اَنَا عِنْدَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوْبُهُمْ“ کہ میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جن کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ بھلا مریض سے زیادہ دل کس کا ٹوٹا ہوا ہو گا، آپ بے شک اس سے اپنی فیس لے لیں لیکن اس کو مقررہ وقت دیں، اس کو commodity (خرید و فروخت کی کوئی جنس) نہ سمجھیں بلکہ اسے انسان سمجھیں، آپ کے ذمے اس کا جتنا حق بنتا ہے اس حق کو ادا کریں تو ان شاء اللہ اس کے دل سے جو دعائیں نکلیں گی، وہ آپ کے جنت میں داخلے کا سبب بنیں گی۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے کہا: کیا آپ یہ بات مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، یہ تو حدیث شریف ہے۔ میں نے انہیں لکھ کر دے دی، جب اگلی دفعہ ان کے ہاں گیا تو انہوں نے اس حدیث شریف کو بڑا خوبصورت لکھوا کر فریم کروا کے اپنے سامنے لگایا ہوا تھا۔ یہ بات ڈاکٹر عجب خان صاحب کے لئے نہیں ہے بلکہ سب ڈاکٹروں کے لئے ہے۔
ہمیں کوئی بھی کام کرنے کا اختیار ہے لیکن اللہ پاک نے ہر کام کے نتیجے کی رہنمائی بھی کی ہوئی ہے، اگر ہم اس رہنمائی کے مطابق عمل کریں گے تو دنیا و آخرت دونوں کے لحاظ سے فائدے میں رہیں گے۔ وہ رہنمائی یہ ہے کہ فرمایا:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا O وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے“۔
لہٰذا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو رذائل سے پاک کر لیا وہ کامیاب ہو گا جبکہ وہ شخص جس نے اپنے نفس کو ویسے ہی ملیا میٹ رہنے دیا جیسے گند میں وہ پڑا ہوا تھا، اس پہ کوئی محنت نہیں کی وہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
اس سے پتا چلا کہ تقویٰ حاصل کرنے کے لئے محنت کی ضرورت ہے مگر غلطیاں کرنے کے لئے محنت کی ضرورت نہیں ہے وہ خود بخود ہو رہی ہیں۔ آپ کسی بھی گھر کو کھلا چھوڑ دیں، اس میں کوئی صفائی وغیرہ نہ کریں تو وہ کچھ ہی عرصہ میں گندا ہو جائے گا، اسی طرح اگر آپ اپنے اوپر محنت نہ کریں تو کچھ ہی عرصہ میں آپ کی حیثیت کیا سے کیا ہو جائے گی۔ صفائی کے لئے محنت ہے، اچھائی کے لئے محنت ہے، تقویٰ کے لئے محنت ہے، نیک کاموں کے لئے محنت ہے جبکہ برائی کے لئے محنت نہیں ہے، بس یہی کافی ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ ہونے دیں۔ آپ ﷺ نے یہی فرمایا کہ ”عقل مند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور عاجز (بے وقوف) وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اسی طرح کھلا چھوڑ دیا اور جو کرنا چاہتا تھا وہ کرنے دیا، محض تمناؤں سے گزارا کرتا رہا“۔
تمناؤں سے مراد ہے لمبی لمبی امیدیں باندھنا، حقیقت کے خلاف باتیں کرنا، برا عمل کر کے اچھے نتائج کی امید رکھنا۔ جیسے شاعرانہ طبیعت کے لوگ کہتے ہیں کہ اللہ پاک تو بڑا غفور و رحیم ہے وہ اپنے کسی بندے کو جہنم میں جلتا ہوا بھلا کیسے دیکھ سکتا ہے۔
خدا کے بندو! یہ سب باتیں قرآن پاک میں موجود ہیں، کیا قرآن میں دوزخ کا ذکر سارا صفر کے برابر ہے؟ آپ اس کو شاعری سے اڑا دیں گے؟ یہ شاعری نہیں ہے، یہ تو حقائق ہیں، حقائق کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ بلا شبہ اللہ بہت غفور و رحیم ہے، یہ اس کی صفت ہے لیکن یہ صفت کن لوگوں کے لئے ہے یہ بھی اللہ پاک نے بتا دیا ہے، فرمایا:
﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ”کہہ دو کہ: ”اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے“۔
جو توبہ کرتا ہے اس کے لئے اللہ پاک توّاب اور رحیم ہے، اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ مثلاً ایک ساٹھ سال کے گناہ گار آدمی کو احساس ہو گیا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور اس نے توبہ کر لی تو اللہ پاک کے لئے یہ کوئی مشکل کام نہیں کہ اس کے ساٹھ سال کے گناہ ایک ہی لمحہ میں ختم کر دے۔ ایسا کئی مرتبہ ہو بھی چکا ہے، میں آپ کو مثالیں دے سکتا ہوں۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ یہ پہلے ڈاکو ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کہیں ڈاکہ ڈال رہے تھے، جس گھر میں ڈاکہ ڈال رہے تھے اس گھر کا مالک قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا، جب یہ وہاں پہنچے تو ان کے کانوں میں یہ آیت پڑی:
﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ (الحدید: 16)
ترجمہ: ”جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ان کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے لیے اور جو حق اترا ہے اس کے لیے پسیج جائیں؟“۔
اتنا سننا تھا کہ یہ لرز گئے اور واپس جا کر توبہ کر لی، جن لوگوں کے ہاں ڈاکے ڈالے تھے، یاد کر کر کے ان کو ان کے سارے مال واپس کیے اور جن کو واپس نہیں کر سکے ان سے معافی مانگی۔ اس کے بعد اپنے نفس کی اصلاح کے لئے بہت بڑے شیخ کی خدمت میں رہ کر اپنے نفس کی اصلاح کروائی یہاں تک کہ بعد میں خود بہت بڑے شیخ بن گئے۔
اللہ پاک نے دروازے کھلے رکھے ہیں کسی کے لئے بند نہیں کیے لیکن اگر کوئی اس دروازے میں داخل ہونا ہی نہ چاہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ایک ہال میں انواع و اقسام کی نعمتیں ہوں اور آپ کو چابی دے دی جائے کہ یہ اس ہال کی چابی ہے، اس سے دروازہ کھول کے اندر چلے جاؤ اور جو چاہے کھا لو، مگر آپ باہر کھڑے رہیں، اس چابی کو استعمال کر کے اندر نہ جائیں تو ظاہر ہے آپ اس ہال کی نعمتوں سے کچھ فائدہ نہ اٹھا سکیں گے۔ اگر ساری چیزیں موجود ہیں اور آپ کے پاس چابی بھی ہے لیکن آپ اس چابی کو استعمال کر کے اندر نہیں جا رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اندر جانا ہی نہیں چاہتے اور جب اندر نہیں جانا چاہتے تو پھر وہ چیزیں آپ کے لئے نہیں ہیں بلکہ ان کے لئے ہیں جو اندر جائیں گے۔
لہٰذا اگر ہم لوگوں کو حضور ﷺ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق ہو جائے تو ہمارے لیے ہدایت موجود ہے۔
میں نے بیان کے آغاز میں ایک آیت یہ بھی پڑھی تھی:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَی السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ”یقینًا اس میں اس شخص کے لیے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے“۔
دیکھیے، دو باتیں ہیں، یا تو انسان کی آنکھیں ٹھیک ہوں اور وہ از خود دیکھ سکے، دوسری بات یہ ہے کہ وہ خود نہ دیکھ سکتا ہو، ایسے شخص کے لئے یہ طریقہ ہے کہ وہ ان کے پیچھے چلے جو دیکھ سکتے ہیں۔ یہی دو طریقے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اگر انسان بینا ہے تو وہ خود صحیح راستے پہ جائے گا اور اگر خود بینا نہیں ہے تو جو لوگ بینا ہیں ان کے پیچھے پیچھے جائے گا تب ہی بچے گا ورنہ کسی کھائی میں گر جائے گا یا ٹھوکر کھا لے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خود دل والا ہے، اس کو تو قرآن خود ہدایت دے گا، جس وقت وہ قرآن پڑھے گا، قرآن اس پہ اثر کرے گا، نتیجتاً وہ اس سے ہدایت حاصل کر لے گا اور اگر خود دل والا نہیں ہے تو اس شخص سے قرآن کے مضامین اور قرآن پاک کی بات سن لے جس پہ قرآن اثر کر چکا ہے اور ہدایت دے چکا ہے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، ایک مرتبہ ان کے پاس کچھ لوگ گئے تھے، حضرت نے ان پہ تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”افسوس! لوگ خود جانتے نہیں اور جو جانتے ہیں ان کی مانتے نہیں“۔ واقعتاً! یہی بات درست ہے کہ یا تو خود جانو یا پھر جاننے والوں کی مانو۔ میں آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں، آپ سن کر حیران ہوں گے۔ جب میں PIEAS (پیاس یونیورسٹی) میں تھا تو ایک مرتبہ تین پی ایچ ڈی حضرات میرے سامنے بیٹھ گئے، ان میں سے دو میرے اساتذہ تھے۔ بات چیت کے دوران وہ کہنے لگے کہ شبیر صاحب! آئن سٹائن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: وہ بہت بڑے سائنس دان تھے، بڑا نام کمایا، سائنس کی بڑی خدمت کی، لوگوں نے انہیں بڑی عزت دی ہے۔ اب میں آئن سٹائن کی اس سے زیادہ تعریف تو نہیں کر سکتا تھا، میں نے اس کی اتنی تعریف کر دی جتنا وہ مستحق تھا۔ انہوں نے کہا: ہمارا سوال اس بارے میں ہے کہ وہ جنت میں جائے گا یا نہیں؟ میں نے کہا: وہ میری domain (دائرہ کار) نہیں ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اللہ پاک نے جو فرمایا اس کے مطابق میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری معلومات کے مطابق وہ مسلمان نہیں تھا اور جو مسلمان نہ ہو وہ جنت میں نہیں جا سکتا، اگر آپ کو پتا ہو کہ وہ مسلمان ہو چکا تھا تو مجھے بھی بتا دیں مجھے خوشی ہو گی، ایسی صورت میں اس کے جنت میں جانے کا امکان بھی ہو گا۔ پروفیسر صاحبان کہنے لگے کہ کیا جنت جانے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے؟ یہ تین پی ایچ ڈی مسلمان ڈاکٹروں کی باتیں بتا رہا ہوں۔ اس وقت حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مسلمانوں میں ایسی باتیں ہوتی ہیں۔ بہرحال میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اللہ پاک نے جو فرما دیا ہے ہم اسے تبدیل نہیں کر سکتے اور اللہ کا فرمان یہی ہے کہ غیر مسلم جنت میں نہیں جائے گا، جنت تو چھوڑو غیر مسلم خانہ کعبہ میں بھی نہیں جا سکتا، مدینہ منورہ نہیں جا سکتا، بے شک وہ کتنا ہی بڑا سائنس دان کیوں نہ ہو یا مخلوق کی کتنی بڑی خدمت کیوں نہ کر رہا ہو، وہ کچھ بھی کر رہا ہو یہ معاملہ اس پر بند ہے، دنیا میں اسے جتنا مل گیا اس کے لئے وہی ہے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک استاذ کہنے لگے: شبیر صاحب! اپنے ذہن کو تھوڑا سا وسیع کر لیں۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب! مجھے اتنا تنگ نظر رہنے دیں کہ میں مسلمان اور کافر میں فرق کر سکوں، اتنی تنگ نظری میری ضرورت ہے، میں اتنا وسیع النظر نہیں بن سکتا کہ مسلمان اور کافر کی تمیز بھی ختم کر دوں۔
اس وقت یہ صورتِ حال ہے کہ کہ اگر ہم لوگ اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کریں گے تو وہ الحاد کے راستوں میں بھٹک جائیں گے، اس وقت بڑی تیزی سے الحاد کے راستے بن رہے ہیں، لوگ اس طرف جا رہے ہیں اور بڑی خوشی خوشی جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر نفس کی اصلاح نہ ہوئی ہو اور انسان کے سامنے نفس کی کسی خواہش کا تقاضا آ جائے، اب ایک طرف ایک متقی عالم کہے کہ یہ کام نا جائز ہے، دوسری طرف کوئی اور سکالر ہے جو دین دار نہیں ہے وہ کہہ دے کہ یہ کام جائز ہے، اِدھر اس کا نفس بھی چاہتا ہے کہ وہ یہ کام کرے تو ایسی صورت میں وہ آدمی کس کی بات مانے گا، ظاہر ہے اگر نفس کی اصلاح نہیں ہوئی تو دوسری طرف ہی جائے گا اور یہی تباہی ہے۔
آج کل ایسی باتیں چل رہی ہیں، ہم اکثر سنتے ہیں، لوگ بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔ خدا کے بندو! موسیقی روح کی غذا نہیں بلکہ نفس کی غذا ہے۔ آپ ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ میں مزامیر (آلات موسیقی) کو توڑنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ تم نے اس کو کیسے جائز قرار دے دیا۔
اب جو آدمی موسیقی کا شوقین ہے، جب وہ اس طرح کے دلائل سنے گا وہ موسیقی کو جائز سمجھ کر اس گناہ میں پڑ جائے گا۔ دیکھیں ایک آدمی گناہ سمجھتے ہوئے موسیقی سنتا ہے تو اگرچہ وہ گناہ گار ضرور ہے لیکن کم سے کم اس کا ایمان بچا ہوا ہے۔ اور جو آدمی یہ سمجھے کہ موسیقی جائز ہے، اِس کو گناہ ہی نہ سمجھے، اس کا معاملہ خطرناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ اور اللہ کے رسول کے مقابلہ میں بات کر رہا ہے اور یہ بڑا خطرناک معاملہ ہے۔ اگر ایک انسان بڑے سے بڑا گناہ کر رہا ہو مگر اسے گناہ سمجھتا ہو تو کم سے کم اس کا ایمان بچا رہتا ہے لیکن اگر وہ اس گناہ کو گناہ نہ سمجھے، بے شک چھوٹے گناہ ہی کیوں نہ ہوں تو معاملہ خطرناک ہے، اس کا ایمان خطرے میں ہے۔ یہ ہم فتویٰ نہیں لگا رہے بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ اس طرح ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے لہٰذا ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنا ہو گا اور اپنے ایمان کو بچانا ہو گا۔
حضرات و خواتین! بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ سے بات کرنے کا موقع ملا، ہم چاہتے ہیں کہ یہ پیغام نوجوانوں تک پہنچائیں۔ آپ لوگ نوجوان ہیں، یقین جانیے کہ آپ کے پاس زندگی کے بہترین دن اور راتیں ہیں۔ کہتے ہیں:
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبریست
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار
جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے، بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی پرہیزگار ہو جاتا ہے۔
مثلاً اللہ نے ایک شخص کی کل عمر ساٹھ سال لکھی ہے، اس نے بیس سال کی عمر میں توبہ کر لی تو اس کو چالیس سال نیک کام کرنے کا موقع مل گیا۔ دوسرے آدمی کو تیس سال کی عمر میں توبہ کی توفیق ہوئی تو اس کو تیس سال مل رہے ہیں، کسی کو چالیس سال کی عمر میں توبہ کی توفیق ہوئی تو اسے بیس سال مل رہے ہیں، کسی کو بالکل آخری دن توبہ کی توفیق ہوئی تو اس کو ایک دن مل گیا ہے، اگرچہ اس کے گناہ معاف ہو گئے ہیں لیکن وہ ساٹھ سال جو محنت کر سکتا تھا نیکیاں کما سکتا تھا وہ اب نہیں کر سکتا۔ اس سے کم عرصے میں توبہ کرنے والے اس سے مرتبہ میں بڑھ گئے۔ میں آپ کو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ماشاء اللہ آپ نوجوان ہیں، آپ لوگوں کو اللہ پاک نے جو وقت اور ذہن دیا ہوا ہے جو صلاحیتیں دی ہوئی ہیں، جو جوانی کی طاقت دی ہوئی ہے اگر آپ یہ سب صلاحیتیں اللہ کی رضا کے کاموں میں استعمال کر لیں تو آپ لا تعداد نیکیاں کما لیں گے۔ اللہ کا آپ پر یہ بہت بڑا کرم ہے۔
غالباً یہ 1971 کی بات ہے، جب میں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا تو کچھ لوگوں نے کہا: یہاں پر ایک بزرگ ہیں، وہ کچھ دیر بات چیت کیا کرتے ہیں، بہت نیک آدمی ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے اور ان کی مجلس میں جانے لگا، یہ بزرگ پروفیسر مولانا اشرف سلیمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، اگرچہ پاؤں سے معذور تھے اس کے علاوہ اور بہت سارے جسمانی امراض میں مبتلا تھے لیکن دین دار آدمی تھے، بہت اللہ والے تھے۔ میں جب ان سے ملا تو دل نے کہا کہ یہ آدمی بالکل سچ بول رہا ہے، بس ہم نے وہاں آنا جانا شروع کیا، یقین جانیے ”پیر“ کا لفظ بھی ہم نے ان سے کبھی نہیں سنا، اب بھی ہم ان کو مولانا صاحب ہی کہتے ہیں، وہ میرے شیخ تھے لیکن کبھی میری زبان سے ان کے لئے ”پیر“ کا لفظ نہیں نکلا۔ ہم تو ان کو مولانا صاحب سمجھتے تھے، ہر مشورہ حضرت کے ساتھ کرتے تھے۔ چھ سال کے بعد مجھے پتا چلا کہ حضرت تو شیخ ہیں۔ یونیورسٹی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں، برے لوگ بھی ہوتے ہیں، اچھی چیزیں بھی ہوتی ہیں، بری چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے ہمیں ان بری چیزوں کا پتا ہی نہیں چلا۔ بعد میں میڈیکل کالج کے رسالہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ وہاں اس قسم کی چیزیں بھی ہیں لیکن اس سے پہلے ہمیں معلوم ہی نہیں تھا۔ یہ سب ان کی برکت تھی، اگر ہم ان کے پاس نہ جاتے تو ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوتے۔
لہٰذا اپنے لئے ایسی جگہیں چن لو جہاں اللہ والے بستے ہوں۔ اللہ پاک نے بھی قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)
ترجمہ: ”سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو“۔
یعنی جو لوگ قول اور فعل کے سچے ہیں ان کے ساتھ ہو جاؤ، اس کے بغیر کام نہیں بنتا۔ بے شک آپ کتنے ہی قابل ہو جائیں بغیر استاد کے ڈرائیونگ نہیں سیکھ سکتے۔ آپ کا تعلق میڈیکل سے ہے، یہاں پانچ سال آپ کو بڑی محنت سے پڑھایا جاتا ہے، پھر بھی یہاں سے فراغت کے بعد ہاؤس جاب کے بغیر آپ کو پریکٹس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو عملی طور پر نظر آنا چاہیے کہ کام کیسے ہوتا ہے، آپ صرف کتابی علم کو استعمال نہیں کر سکتے۔ لہٰذا کچھ ایسے لوگوں کی تلاش کرنی چاہیے جن کی صحبت کی برکت سے اللہ کا تعلق نصیب ہو جائے۔
میں آپ کو چند نشانیاں بتا دیتا ہوں کہ کس قِسم کے لوگوں کے پاس اصلاح کے لئے جانا چاہیے اور کن کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ آج کل بہت مسائل ہیں، ابھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری بات ہو رہی تھی کہ جو بے دینی دین کے اندر ہوتی ہے وہ بہت خطر ناک ہوتی ہے، جو دنیا داری دین داری میں ہوتی ہے وہ بہت خطر ناک ہوتی ہے، ہمیں دنیا داروں کے پاس نہیں بلکہ دین داروں کے پاس جانا چاہیے۔
یہ آٹھ نشانیاں ہیں انہیں اچھی طرح سمجھ لیں۔ سب سے پہلی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ اگر کسی کا عقیدہ خراب ہے تو اس کے اعمال بے شک کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، کام نہیں آتے۔
دوسری بات یہ دیکھیں کہ اس کے پاس دین کا علم بھی ہے یا نہیں ہے۔ علم کی دو قسمیں ہیں: ایک فرض کفایہ علم، یہ صرف علماء دین کے پاس ہوتا ہے، مدارس میں یہی پڑھایا جاتا ہے۔ دوسری قسم فرض عین علم ہے۔ اسی کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے:
”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ “ (سنن ابن ماجہ: 224)
ترجمہ: ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے“۔
لہٰذا دوسری نشانی یہ ہے کہ کم از کم اس آدمی کے پاس فرضِ عین علم ہونا چاہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ وہ اس علم پر عمل کرتا ہو۔ مثلاً نماز کا وقت ہو گیا ہے، یہ آدمی نماز نہیں پڑھ رہا اور پیر بنا ہوا ہے تو اس کے پاس اصلاح کے لیے نہیں جائیں گے۔ مثلا ایک آدمی آپ ﷺ کا نام بڑی محبت سے لے رہا ہے لیکن آپ ﷺ جیسی صورت نہیں بنا رہا تو اس کے پاس اصلاح کے لیے نہیں جائیں گے کیونکہ اس کو صورت تو کسی انگریز کی پسند ہے اور نام حضور ﷺ کا لے رہا ہے۔
یہ ساری باتیں دیکھنی پڑتی ہیں کہ وہ شریعت پر چلنے والا ہو، فرائض، واجبات، سنن، مستحبات وغیرہ کا خیال کرنے والا ہو۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اس کی صحبت کا سلسلہ حضور ﷺ کی صحبت تک پہنچتا ہو۔ آپ یقین جانیے صحبت سے اونچی نسبت کوئی نہیں ہے۔ آپ ﷺ کا سب سے آخری درجے کا صحابی بھی دنیا کے سب سے بڑے ولی اللہ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے اونچے درجے کا ہے، اس کی وجہ یہی صحبت ہے، کیونکہ اسے نبی کریم ﷺ کی صحبت کی سعادت حاصل ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ اس کے پاس اجازت ہو۔ مثلاً کوئی میڈیکل کا علم حاصل کر لے لیکن اس کے پاس ڈگری نہ ہو تو وہ پریکٹس نہیں کر سکتا، بے شک اس کے پاس میڈیکل کا علم ہو اس کو حکومت اجازت نہیں دے گی۔ اسی طرح شیخ وہ ہو جس کے پاس با قاعدہ اجازت ہو۔
چھٹی بات یہ ہے کہ جیسے ڈاکٹر بہت سارے ہوتے ہیں لیکن آپ اس کے پاس جاتے ہیں جس کی شہرت اچھی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی شہرت جاننے والوں میں اچھی ہونی چاہیے۔
ساتویں بات یہ ہے کہ وہ اصلاح کے معاملے میں کسی رو رعایت اور مروت سے کام نہ لیتا ہو۔ بہتر ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جو علاج میں مروت سے کام نہیں لیتا دوا چاہے کڑوی ہو، علاج چاہے سخت ہو وہ سختی کے ساتھ مریض سے اس پر عمل کرواتا ہے، مروت والے کے پاس نہ جاؤ، مروت والا آپ کا علاج نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر حضرات جب آپریشن کرتے ہیں تو مریض کے رشتہ داروں کو باہر نکال دیتے ہیں ان کے سامنے آپریشن نہیں کرتے۔ لہٰذا مروت والوں کے پاس علاج کے لیے نہ جاؤ۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ ان سات باتوں کی وجہ ان حضرات پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہوتا ہے کہ ان کی مجلس میں بیٹھ کے آپ کو اللہ یاد آتا ہے، اگر آپ کو کسی کی مجلس میں بیٹھ کے اللہ یاد آتا ہے تو سمجھو کہ وہ اللہ والا ہے اور اگر کسی کی مجلس میں بیٹھ کے دنیا یاد آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا دار ہے۔ کرکٹ والوں کے پاس بیٹھ کے آپ کو کرکٹ ہی یاد آئے گا، پراپرٹی ڈیلر کے پاس بیٹھ کر آپ کسی پلاٹ کا سودا ہی کریں گے، اسی طرح جو اللہ والوں کے پاس بیٹھے گا اسے اللہ ہی یاد آئے گا۔
یہ آٹھ نشانیاں ہیں جس شخص میں آپ یہ دیکھیں ان کے پاس بیٹھیں ان سے فیض حاصل کریں اور اپنی اصلاح کروا لیں۔ آپ کے پاس موقع ہے، یقین جانیے آپ کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔
میں آخری بات کر کے بیان ختم کرتا ہوں۔ کشف یقینی نہیں ہے یہ ایک ظنی چیز ہے لیکن ہوتا ضرور ہے۔ ایک آدمی کسی قبر کے پاس سے گزرا تو اس قبر سے تلاوت کی آواز آ رہی تھی، اس نے یہ دیکھ کر کہا: ”سُبْحَانَ اللہ“، قبر میں بھی تلاوت ہو رہی ہے۔ قبر والے نے یہ سن کر کہا: اگر تم سودا کرنا چاہو تو میں تیار ہوں، میں تین سو سال سے قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوں، اس کا اجر تم لے لو اور جو ”سُبْحَانَ اللہ“ تم نے ابھی کہا اس کا اجر مجھے دے دو۔ یہ آدمی بڑا حیران ہوا کہ یہ کیسی بات ہے کہ تین سو سال تلاوتِ قرآن کا اجر مجھے ایک ”سُبْحَانَ اللہ“ پہ دے رہا ہے۔ قبر والے نے کہا: در اصل میری اس تین سو سال کی تلاوت کا کوئی اجر نہیں ہے کیونکہ میں اب دار الابتلاء میں نہیں ہوں، میں اس وقت دار الجزاء میں ہوں، یہ تلاوت تو میں شوق سے کر رہا ہوں، اس پر مجھے کوئی اجر نہیں مل رہا، لیکن آپ نے ”سُبْحَانَ اللہ“ کہا اس پہ آپ کو اجل مل رہا ہے، اگر آپ کو وہ اجر نظر آتا تو آپ یوں حیران نہ ہوتے۔
آپ سب کہیں ”سُبْحَانَ اللہ“۔ آپ نے ”سُبْحَانَ اللہ“ کہا، اس پہ آپ سب کو اجر مل گیا۔ الحمد للہ۔
اس کے ساتھ یہ بھی بتا دوں کہ ابھی آپ سب کو ”سُبْحَانَ اللہ“ کہنے پر جتنا اجر ملا ہے، اتنا مجھ اکیلے کو ملا ہے، کیونکہ میں آپ کے ”سُبْحَانَ اللہ“ کہنے کا ذریعہ بن گیا ہوں۔
جو باتیں میں نے عرض کی ہیں اگر آپ ان پر عمل کریں گے تو یہ میرے لیے صدقہ جاریہ ہو گا، اور در اصل میرے یہاں حاضر ہونے کی یہی وجہ ہے۔ آپ لوگوں نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے یہاں پر بلایا کیونکہ میرا یہاں آنا صدقہ جاریہ کا ذریعہ بن گیا۔ اس وجہ سے میں عرض کرتا ہوں کہ آپ کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، آپ اس ایک لمحہ میں ذکر کر سکتے ہیں، کما سکتے ہیں، درود شریف پڑھ سکتے ہیں، قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہیں، کسی کو نیکی کی بات بتا سکتے ہیں، اسی طرح اس وقت میں آپ کسی کو گالی بھی دے سکتے ہیں، کوئی نقصان بھی کر سکتے ہیں، کوئی غلط بات بھی کر سکتے ہیں، اختیار تو سب چیزوں کا ہے لیکن ہم لوگوں کو اچھی چیزیں لینی چاہئیں اور بری چیزوں سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ