اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبی ﷺ کے حصہ ششم میں صفحہ نمبر 723 پر اسلامی آدابِ معاشرت کے بارے میں فرماتے ہیں:
”اسلام نے ان آداب میں بڑی لچک رکھی ہے یعنی ان میں جو اصلی اور بنیادی باتیں ہیں ان کی تو قرآن اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری تاکید کی ہے اور اسی تاکید سے ان کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے لیکن ان میں بعض ایسے امور ہیں جو وقتی مصلحت، عرب کی ملکی معاشرت اور زمانے کے حالات کے بدلنے سے بدل سکتے ہیں اسی لٸے ان کے متعلق کوٸی ایسی تاکید نہیں کی جس سے ان کا شعار اسلامی ہونا ظاہر ہو یا ان کے چھوڑنے پر کوٸی وعید فرمائی گئی ہو۔ یعنی اگر ان میں کوٸی ایسا تغیر کیا جاٸے جس سے اصل مقصد فوت نہ ہو بلکہ اس کی خوبی اور بڑھ جاٸے تو وہ بُرا نہیں۔ لیکن اس اجازت کے با وجود ایک مرتبہ عشق و محبت کا ہے، جو لوگ اس راہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کا عزم رکھتے ہوں ان کے لٸے زمانہ کچھ ہی بدل جاٸے مگر ان کے لٸے وہی ادائیں محبوب ہیں جو محبوب سے نسبت رکھتی ہیں“۔
یہاں حضرت نے شریعت پر چلنے کا عام مسلمانوں کا طریقہ الگ بیان فرمایا ہے اور عشق و محبت والوں کا الگ طریقہ فرمایا ہے۔ ان میں فرق کیسے ہے جبکہ شریعت ایک ہی ہے اور ہر ایک نے اس پر عمل کرنا ہے چاہے وہ عشق و محبت والا ہے یا عام مسلمان ہے؟
جواب:
در اصل یہ عزیمت اور رخصت والے پہلو کی بات ہے۔ رخصت کی گنجائش ہے لیکن عزیمت مستحسن ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص میں عزیمت کی اہلیت نہیں ہوتی، اس کو اس درجہ عشق و محبت نہیں ہوتی کہ وہ اس عزیمت کو برقرار رکھ سکے کیوں کہ اس کے ساتھ کچھ مشکلات ہوتی ہیں، اس کے کچھ مخصوص حالات ہوتے ہیں۔ عزیمت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بس آپ کو تھالی میں سجا کر دے دیا جائے کہ یہ لے لو۔ عزیمت کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ بعض لوگ مذاق بھی اڑاتے ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ان کے اندر برداشت کرنے کی قوت ہے یا نہیں ہے۔ جن لوگوں میں برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ایسے لوگ ٹوٹ جاتے ہیں بلکہ یہ معاملہ اتنا مشکل ہے کہ بعض لوگ جو کر سکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پاتے، پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے رخصت پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔
البتہ کچھ حضرات کی تحقیق یہ ہے کہ رخصت پر اس لیے عمل کیا جائے کہ دین سے لگاؤ زیادہ ہو اور آسانی کے ساتھ شکر کے جذبات ابھریں۔ رخصت کا پہلو اختیار کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھی نیت ہے۔ البتہ رخصت کے لیے یہ ضروری ہے کہ مزاج اتنا صالح ہو کہ رخصت کے پہلو کو اختیار کرنے کے لیے اباحیت کی طرف نہ چلا جائے، کیونکہ ایک طرف اباحیت ہے دوسری طرف عزیمت ہے اور درمیان میں رخصت ہے۔ بعض دفعہ رخصت کو حکمتاً اختیار کیا جاتا ہے کہ کہیں آدمی عمل سے بالکل ہی نہ رہ جائے اور چلتا رہے۔ بعض حضرات رخصت اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ شوق بڑھے اور عمل میں کمی نہ ہو، آسانی کے ساتھ شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ یہ بھی مستحسن ہے۔ لیکن اباحیت سے بچنا ضروری ہے، اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں رخصت اباحیت کی طرف نہ چلی جائے۔ بعض لوگ تو بس ”ہر چیز جائز ہے“ پر عمل کرتے ہیں۔ عیسائیوں کی طرح جو چیز معمول بن جائے چاہے بری ہی کیوں نہ ہو اس کو مذہب کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہ اباحیت ہے اور یہ بہت خطر ناک بات ہے۔جرمنی میں ایک مرتبہ میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا: کیا تم روزے رکھتے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں! ہمارے مذہبی لوگ روزے رکھتے ہیں۔ گویا وہ لوگ خود کو آزاد سمجھتے تھے۔
یہ اباحیت والا پہلو بہت جلدی عام ہو جاتا ہے۔ ویڈیو بنانے والے مسئلہ میں اباحیت کا پہلو ہی ہے جو عام ہو گیا ہے اور اس طرح عام ہو گیا کہ لوگوں نے ہر طرح کی ویڈیو بنانے کو جائز سمجھ لیا۔ جن حضرات نے فتوی دیا تھا انہوں نے صرف رخصت کے پہلو کا فتویٰ دیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ آج کل کے حالات کے مطابق اس طریقے سے دین کی Projection (صحیح طریقے سے پیش کرنا) بہتر انداز میں کی جاسکتی ہے، مگر لوگوں نے اس کو اباحیت بنا دیا۔ یہ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مثال ہے کہ انسان کیسے رخصت سے اباحیت کی طرف چلا جاتا ہے۔
یہ اباحیت کا معاملہ ہر چیز میں ہو سکتا ہے۔ لوگ شادی بیاہ میں ڈھول وغیرہ کے بارے میں دف والی روایت کو بنیاد بنا کر موسیقی کی باقی ساری چیزوں کو جائز قرار دیتے ہیں اور اباحیت کی طرف چلے جاتے ہیں۔
میں نے اس کے بارے میں دار العلوم دیوبند کا فتویٰ دیکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے:
"کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں؛ کیا شادی میں دف بجانے کی اجازت ہے؟ اگر ہے تو اس کی کیا قیود و شرائط ہیں؟ کیا چاروں ائمہ کے نزدیک شادی پر دف بجانا جائز ہے؟ کیا بالغ مرد اور بالغ عورتیں دف بجا سکتی ہیں؟ کیا شادی کے موقع پر خاندان کے لوگوں اور دوسرے احباب کو مدعو کر کے ایسی تقریب کا انقاد کیا جاسکتا ہے؟ کیا شادی کے علاوہ بھی دف بجانے کی اجازت ہے؟ ایک اشکال یہ بھی ہے کہ دف بھی چونکہ موسیقی ہی ہے لہذا اگر دف بجانا جائز ہے تو دوسری موسیقی کی اقسام بھی جائز ہونی چاہئیں۔ برائے مہربانی اگر مفصل جوابات معہ حوالہ جات مل سکیں تو عین نوازش ہو گی۔
جواب:
اعلانِ نکاح کے لیے دف بجانا بشرطیکہ اس میں جلاجل نہ ہو، نیز ہیئتِ تطرب پر نہ بجایا جائے محض اعلانِ نکاح اور تشہیر کے لیے بجایا جائے تو مذکورہ بالا حدود و قیود کے ساتھ گنجائش ہے۔
قَالَ فِی الشَّامِیْ: لَا بَأْسَ بِالدُّفِّ فِی الْعُرْسِ لِیَشْتَھِرَ وَ فِی السِّرَاجِیَّۃِ: ھٰذَا اِذَا لَمْ یَکُنْ لَّہٗ جَلَاجِلُ وَ لَمْ یُضْرَبْ عَلٰی ہَیْئَۃِ التَّطَرُّبِ (شامي: ۹/۵۰۵)
دف ڈفلی کو کہتے ہیں یہ ایک ہاتھ سے بجانے کا تھال نما ایک باجا ہے، عرب میں شادی کے موقع پر اس کو بجانے کا رواج تھا۔ مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دف موسیقی سے خاص ہے، نیز دف بجانے سے مقصود اعلان ہوتا تھا کہ کچھ دھبدھباہٹ ہو جائے تاکہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہو جائے۔
آج کل جو تشہیر کرتے ہیں وہ بھی دف بجاتے ہیں۔ وہ بھی اعلان کے لیے ہوتا ہے اس میں موسیقی نہیں ہوتی وہ صرف اعلان کے لیے ہوتا ہے اس کی دھن بھی الگ ہوتی ہے۔
آج کل کی موسیقی میں بالعموم دف والی چیزیں نہیں پائی جاتیں، ان میں جلاجل ہوتے ہیں اور ہیئت تطرّب پر ان کو بجایا جاتا ہے اور بذاتِ خود موسیقی مطلوب ہو جاتی ہیں، محض اعلان مقصود نہیں رہتا ایسی موسیقی کا بجانا اور اس کو سننا سب ناجائز و حرام ہیں۔ قرآن وحدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے:
قَالَ فِی الْبَزَّازِیَّۃِ: اِسْتِمَاعُ صَوْتِ الْمَلَاہِیْ کَضَرْبِ قَصَبٍ وَ نَحْوِہٖ حَرَامٌ لِّقَوْلِہٖ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ: ”اِسْتِمَاعُ الْمَلَاہِیْ مَعْصِیَۃٌ وَالْجُلُوْسُ عَلَیْھَا فِسْقٌ وَالتَّلَذُّذُ بِھَا کُفْرٌ“ اَیْ بِالنِّعْمَۃِ (در مختار مع شامي: ۹/ ۵۰۴) وَالتَّفْصِیْلُ فِیْ اَحْکَامِ الْقُرْاٰنِ تَحْتَ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ۔۔۔ الْآیَۃِ"
دار العلوم دیوبند کے مندرجہ بالا فتوی سے پتا چلا کہ لوگ اس قسم کی رخصت اور گنجائش کو بہت جلدی اباحیت کی طرف لے جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں نفس با قاعدہ فعال ہوتا ہے، جب بھی کوئی بات ہوتی ہے وہ تھرکنے لگتے ہیں۔ یقین جانیے میں نے اس قسم کی چیزیں دیکھی ہیں کہ بعض دفعہ ڈھول بجتا ہے تو اچھے اچھے شرفاء لوگ جن کے اندر یہ جراثیم ہوتے ہیں وہ تھرکنے لگتے ہیں اور بعض لوگ میدان میں بھی آ جاتے ہیں۔ اب اللّٰہ پاک نے جن پہ پردہ رکھا ہے ان پہ پردہ رہنے دینا چاہیے ان لوگوں کا پردہ کیوں اٹھایا جائے جن کا پردہ اللہ تعالیٰ نے ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ ان چیزوں میں اباحیت کی طرف جانا بالکل خطر ناک ہے اور اس سے بچنے کے لیے پہلے اپنی تربیت ہو پھر گنجائش کو استعمال کیا جائے ورنہ عزیمت پر ہی عمل کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے سے ہی تربیت ہو جائے۔
اباحیت سے بچنے کے لیے ہمیں پہلے اپنی تربیت کرانا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ مجاہدے کے ذریعے اپنے نفس کو زیر کر لیا جائے تاکہ وہ اباحیت کی طرف نہ جا سکے۔ پھر رخصت کا پہلو شوق کے لیے اختیار کرنا بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اس سے پہلے تربیت ضروری ہے۔ اور جو عزیمت اختیار کرتے ہیں، اسی عزیمت کے ذریعے ان کے نفس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ یہی طریقہ کار کا فرق ہمیں تصوف کے سلسلوں میں بھی نظر آتا ہے۔ مختلف سلاسل میں یہ چیز موجود ہے۔ اگر دیکھا جائے تو نقشبندی سلسلے میں یہی طریقہ ہوتا ہے کہ پہلے جذب حاصل کیا جاتا ہے جو کہ عشق و محبت ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے، پھر حالتِ جذب میں عزیمت پر عمل کرنا ممکن ہوتا ہے۔ پہلے عشق و محبت کے ذریعے جذب حاصل کیا جاتا ہے پھر اس جذب کے ذریعے عزیمت اختیار کی جاتی ہے پھر عزیمت کے ذریعے نفس کی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ وہ مجاہدات جو سالک کو عزیمت کی صورت میں پیش آتے ہیں وہی مجاہدات نفس کی تربیت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اب اگر کوئی جذب حاصل کر لے لیکن عزیمت کا پہلو اختیار نہ کرے تو پھر نتیجہ مرتب نہیں ہو گا۔ عشق و محبت سے جذب حاصل ہو سکتا ہے وہ تو حاصل ہو جائے گا لیکن اگر اس سے آگے نہیں بڑھے، اس کے ذریعے عزیمت کو اختیار نہیں کیا اور اس کے ذریعے اپنے نفس کا علاج نہیں کیا اور سلوک طے نہیں کیا تو پھر جذب کا کوئی فائدہ نہیں، اسے وہ مراتب حاصل نہیں ہو سکتے، وہ محروم رہ جائے گا۔ اسی موضوع پر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مکتوب نمبر 287 میں مفصل اور مکمل کلام فرمایا ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن