عارفانہ کلام


نفس و شیطان کی کارگزاری


مرا نفس اُس سے مجھ کو تو کبھی ملنے نہیں دیتا

جو شیطاں ہے مجھے اللہ کا بننے نہیں دیتا

 

اگر میں بات اس کی مان لوں تو اور وہ مانگے

کسی اک بات پہ مجھ کو کبھی ٹکنے نہیں دیتا

 

مگر خوبی جو اس میں ہے کہ مانے جبر سے بھی یہ

ہلاؤ اس کو ہل جائے گو یوں ہلنے نہیں دیتا

 

طریقہ اس کی اصلاح کا ہے کہ مانو نہیں اس کی

بغیر اس کے کسی بھی طرح سنبھلنے نہیں دیتا

 

کوئی ہو رہنما اپنا جو گُر اصلاح کا جانتا ہو

کراۓ اس سے جو ہم کو کبھی کرنے نہیں دیتا

 

دل اپنا بھی منور ہو کہ راستہ جان لے اپنا

کہ ہر گز حق کو گندہ دل کبھی پڑھنے نہیں دیتا

 

اگر ہو نفس گاڑی تو بنے دل اس کا ڈرائیور پھر

ہو ان میں نقص کسی میں آگے وہ بڑھنے نہیں دیتا

 


ذکر سے دل ہو ٹھیک اور نفس کو دینا جہد کی گولی

ہو رہبر ساتھ کہ داؤ شیطان کا وہ چلنے نہیں دیتا

 

چراگاہیں وہ جنت کی ملیں ہم کو چریں ان میں

مگر شیطان کبھی بھی مکر سے چرنے نہیں دیتا

 

جو شر ہے بڑھ رہا ہے خوب رکاوٹ خیر کے واسطے ہے

خدا سے ہم کو وہ ظالم کبھی ڈرنے نہیں دیتا

 

کریمی کا مگر در ہے کھلا رب کا کریں توبہ

کہ مایوسی کا کوئی لفظ وہ سننے نہیں دیتا

 

شبیرؔ پھر فضل رب کا ہو تو مقصد پورا ہوجائے

کبھی شیطاں جو دال اپنی ہے وہ گلنے نہیں دیتا