مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 07

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پہلے رویتِ ہلال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ چمن وغیرہ کے بعض ساتھیوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ ہم چاند کے بارے میں کیا کریں، چاند نظر آ سکتا ہے یا نہیں؟ صورت حال یہ ہے کہ میں تو اعتکاف میں ہوں اس لیے ان چیزوں سے دور ہوں لیکن ان کے لئے مجھے دیکھنا پڑا۔ چنانچہ چاند کا نظر آنا مشکل ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ چاند افق سے آٹھ درجہ بلند ہے اور غروب آفتاب سے آٹھ درجہ دائیں طرف ہے۔ ان حالات میں چاند سورج کی سرخی میں آ جاتا ہے اور اس کا نظر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ اتفاق ایسا بنتا ہے کہ چاند نظر بھی آ جاتا ہے۔ جیسے بادل کے دو ٹکڑے درمیان میں آ کر سرخی کو ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت کچھ آسانی ہو جاتی ہے اور رویتِ ہلال ممکن ہو جاتی ہے۔ لہٰذا چاند کا نظر آنا نا ممکن تو نہیں ہے البتہ مشکل ضرور ہے۔
اعتکاف والے حضرات اپنے انتظام کو رویتِ ہلال کے مطابق ہی سمجھیں۔ ایسا نہ ہو وہ تیار بیٹھے ہوں کہ مغرب ہوتے ہی ہمیں چھٹی ہو جائے گی۔ اگر چاند نظر آ بھی گیا تو اعلان میں کافی دیر لگے گی کیونکہ ایسے حالات میں شہادتیں بھی مشکل سے آتی ہیں۔ ایسے حالات میں عموماً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ حتمی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان شاء اللہ ہم لوگوں نے ڈٹ کے یہاں پر رہنا ہے، کہیں اور نہیں جانا۔ ہم نے خدا کو چھوڑ کے کہاں جانا ہے۔ یہ ہماری عیش کی رات ہے۔ میں اسے عیش کی رات اس لئے کہتا ہوں کہ الحمد للہ ختمِ قرآن ہو چکا ہے۔ تین ختم ہو چکے ہیں۔ پانچ قاری صاحبان ہمارے ساتھ ہیں۔ ہم ان سے فرمائشی کلام سنیں گے۔ کبھی ان سے کہیں گے سورۂ رحمٰن سناؤ، کبھی کہیں گے سورۂ یٰس سناؤ، کبھی کہیں گے کہ سورۂ کہف سناؤ۔ اس طریقے سے ہماری رات ان شاء اللہ العزیز اچھی گزرے گی۔ ہم تو اس رات کے انتظار میں ہوتے ہیں کہ ایسی رات ہمیں مل جائے۔ لہٰذا ہم کلام پاک سنیں گے، اگر اس دوران اطلاع آ گئی تو دعا کر لیں گے اور مسجد کی حرمت اور صفائی کا خیال رکھتے ہوئے یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
جو ساتھی پہلے بھی ہمارے ساتھ اعتکاف بیٹھتے رہے ہیں ان کو ہمارے مزاج کا پتا ہے، یہاں کی حالت کا پتا ہے لہذا ان کو تو کوئی مسئلہ نہیں لیکن پہلی مرتبہ اعتکاف میں بیٹھنے والے حضرات ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے ہاں اعتکاف میں کوشش کی جاتی ہے کہ دنیا کی نمود و نمائش کم سے کم ہو۔ دنیا کی نمود و نمائش مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوتی لیکن ہمیں یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ یہ چیز کم سے کم ہو۔ لہٰذا ہمارے ہاں اعتکاف سے اٹھنے والے حضرات کو پھولوں کے ہار چڑھانا منع ہے۔ اسی طرح اِس موقع پر لوگوں کا گلے ملنا بھی منع ہے۔
الحمد للہ! اللہ تعالیٰ نے سنتِ کفایہ کی توفیق بخشی پھر اصلاحی اعتکاف نصیب فرما دیا، اب اس کو ان چیزوں سے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری یہی خواہش ہونی چاہیے کہ ہمارا یہ عمل بچ جائے۔ بہت سارے حاجی ایسی چیزوں کی وجہ سے اپنے حج کو Take off سے پہلے ہی ضائع کر لیتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنا حج بچا کر ایئر پورٹ تک لے آتے ہیں، کچھ لوگ اپنے گھر تک لے آتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مستقل طور پر اپنا حج بچا کر اپنے ساتھ قبر میں اور پھر حشر میں بھی لے جائیں۔ کیونکہ نمود و نمائش بہت ہو رہی ہوتی ہے، کہیں ٹیلی فون کئے جا رہے ہوتے ہیں، کہیں دعوتیں کی جا رہی ہوتی ہیں، لوگ بلائے جا رہے ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور آ کر دیکھیں کہ حاجی صاحب حج سے تشریف لے آئے ہیں۔ خدا کے بندے! کیا آپ نے حج اس مقصد کے لئے کیا ہے؟ اگر آپ نے اللہ کے لئے کیا ہے تو بس اتنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ قبول فرما لے، باقی لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی معاملہ نہیں۔ اسی طرح ہم نے اعتکاف بھی اللہ کے لئے کیا ہے، لوگوں کے ساتھ اس کا کوئی معاملہ نہیں۔ اس سلسلہ میں اپنے آپ کو لوگوں سے جدا رکھو۔
یہ تین دن اور تین راتیں ہمارا امتحان ہیں۔ اگر ان تین دنوں اور تین راتوں میں ہم ماحول میں رگڑے گئے تو پھر سارا ثواب ضائع ہو گیا۔ اگر ہم نے مزاحمت کی، اپنے آپ کو صحبتِ صالحین کا پابند کیا، غلط صحبتوں سے، ویڈیو اور ٹیلی ویژن سے، موسیقی سے اور غلط جگہوں پر جانے سے اپنے آپ کو بچایا تو پھر امید ہے کہ ہمارا اعتکاف ان شاء اللہ پورے سال کے لئے کافی ہو جائے گا۔ پورا سال ہمیں اس کے انوار و برکات محسوس ہوتے رہیں گے۔ لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو ڈھیل دی اور ان لہو و لعب کی چیزوں میں رنگے گئے تو پھر کافی خطر ناک صورتحال بن سکتی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو اس سے محفوظ فرمائے۔
اب ہم پہلے آپ کو شجرہ کے بارے میں بتائیں گے۔ اس کے بعد کلام پڑھا جائے گا۔ ہمارے بائیں طرف یہ شجرہ لگا ہوا ہے۔ اس پہ آپ ذرا غور کریں، اس میں کئی زنجیریں ہیں۔ اوپر سے نیچے کی طرف جو زنجیر آ رہی ہے اس کو دیکھیں۔ یہ سلسلہ آپ ﷺ سے شروع ہو رہا ہے، پھر چند صحابہ کرام سے ہوتا ہوا آگے چل رہا ہے۔ ان صحابہ کرام میں چار خلفاء راشدین شامل ہیں، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سیدنا عبد العزیز، حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن سلمان، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شامل ہیں۔ ان صحابہ کرام سے زیادہ تر سلسلے چلے ہیں۔ پھر ان میں سے بھی زیادہ تر سلسلے دو حضرات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت نقشبندی سلسلہ کے ساتھ کی جاتی ہے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باقی تمام سلاسل سے۔ اگر تحقیقی طور پر دیکھا جائے تو نقشبندی سلسلہ بھی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت کا سلسلہ یا صحبت کا سلسلہ در اصل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا بعد میں حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت بھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی۔
لہٰذا اگر یوں کہا جائے تو بالکل درست ہو گا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تمام سلسلے چلے ہیں۔ ان میں ایک ترتیب تو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ سے جاری ہوئی ہے۔ یہ ترتیب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے سید جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچی پھر حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ، احمد ابو علی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتی ہے۔ اس سے دائیں طرف سہروردی اور کبروی سلسلے وجود میں آئے اور بائیں طرف حضرت ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے نقشبندی اور قادری سلسلے آتے ہیں۔ اس میں ایک جگہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتا ہے وہاں سے نقشبندی سلسلہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نسبت شامل ہوئی ہے۔
اس شجرہ میں جو سلسلہ سبز رنگ سے لکھا گیا ہے یہ سارا قادری سلسلہ ہے۔ جامنی رنگ میں جو سلسلہ نظر آ رہا ہے یہ کبروی سلسلہ ہے۔ نیلے رنگ میں سہرودی سلسلہ کے حضرات کے اسمائے گرامی لکھے گئے ہیں اور سرخ رنگ چشتی سلسلے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
آگے جا کر چشتی سلسلہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ حضرت صابر کلیری رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ۔ اس سلسلہ میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پردادا سید نادر رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد اور خلیفہ تھے۔ اس طرح چشتیہ سلسلہ کی نسبت بھی حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں شامل ہو گئی۔ اسی وجہ سے سید نادر رحمۃ اللہ علیہ کو مست بابا کہتے ہیں، کیونکہ چشتی حضرات اپنی شان میں مست رہتے ہیں۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان میں یہ سلسلہ آگے اس طرح چلا کہ حضرت سید نادر رحمۃ اللہ علیہ سے یہ سلسلہ ان کے بیٹے سید بہادر رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا پھر ان کے بیٹے سید کستیر گل کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا، پھر انہوں نے چشتیہ سلسلہ میں خوشحال خان خٹک کے بڑے بھائی جمیل بیگ رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت دی۔ ان کا نام بعد میں فقیر بابا پڑ گیا تھا۔ پھر انہوں نے ابو اسماعیل یحییٰ اٹکی رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت دی تھی۔ ان کو حضرت جی بابا کہتے ہیں۔ ان کا مزار شریف بالکل اٹک پل کے پاس ہی ہے۔ اس کے بعد یحيیٰ اٹکی رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت سعدی بلخاری لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت دی ۔ اس سعدی سلسلہ میں یحيیٰ اٹکی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد قاری جنید پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے ہمارے پاس نقشبندی سلسلہ آیا ہوا ہے۔
گویا ہم تک کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت حضرت مولانا یحییٰ اٹکی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ پہنچی ہے۔
تمام سلاسل ابتداءً الگ الگ تھے لیکن بعد میں الگ الگ نہیں رہے، ایک دوسرے سے مل جل گئے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیں یہ نقشبندی سلسلہ کے بڑوں میں ہیں لیکن چاروں سلسلوں میں مجاز ہیں۔ ان کو پہلی نسبت اپنے والد صاحب سے چشتیہ سلسلہ میں حاصل ہوئی۔ بعد میں حضرت سکندر کیتلی رحمۃ اللہ علیہ نے قادری سلسلہ میں اجازت دی۔ عبد الغفار رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو کبروی سلسلہ میں اجازت دی۔ لہٰذا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ چاروں سلسلوں میں مجاز ہیں اس لئے آپ کو ان میں چاروں رنگ نظر آئیں گے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے جو سلسلہ چلا اگرچہ وہ نقشبندی مجددی کہلاتا ہے لیکن اس میں چاروں رنگ ہیں، اس میں چاروں سلسلے شامل ہیں۔ لوگ سلسلوں کے بارے میں الجھتے رہتے ہیں کہ فلاں سلسلہ افضل ہے فلاں کم افضل ہے۔ ہمیں ان معاملوں میں نہیں الجھنا چاہیے۔ یہ سارے چاروں سلسلے مسلسل چلے آ رہے ہیں اور بزرگ حضرات چاروں سلسلوں کے قدر دان تھے۔
یہ کتاب ہے ”مقامات قطبیہ اور مقالات قدسیہ“۔ اس میں حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ (جو کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادے تھے اور عالم تھے انہوں) نے حضرت کے ملفوظات اور مقالات کو جمع کیا ہے۔ ماشاء اللہ اس کے اندر بہت نور ہے۔
متن:
چوتھا باب
حضرت صاحب کی محبت اور درد کے حالات میں
حضرت صاحب کی خاص صفت محبت اور دردِ حق تھی۔ وہ اللہ سے محبت کرتے تھے اور معرفتِ الٰہی کی علامات میں سے ایک علامت محبت ہے۔ "لِأَنَّ مَنْ عَرَفَہٗ أَحَبَّہٗ وَ أَلْزَمَ بَابَہٗ، وَ قِیْلَ: اَلْمَحَبَّۃُ مَیْلُ الْقَلْبِ إِلَی اللہِ وَ إِلٰی مَا أَحَبَّ اللہُ" ”کیونکہ جس کو معرفت حاصل ہوئی، وہ اُس کے ساتھ محبت کرنے لگتا ہے اور اُس کے دروازے پر پڑ کر سرِ مو انحراف نہیں کرتا۔ اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ محبت دل کے میلان کو کہتے ہیں، جو کہ خدا کی جانب پورا میلان ہو اور اُن اشیاء کی طرف بھی جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوں“
تشریح:
آپ ﷺ نے محبت کے لئے جو دعا فرمائی ہے میرے خیال میں وہی جامع دعا ہے۔
”اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُّحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِيْ يُبَلِّغُنِيْ حُبَّكَ“
ترجمہ: ”یا اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ہر اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت رکھتا ہو اور ہر اس چیز کی محبت مانگتا ہو جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے“۔
گویا اس دعا میں اللہ کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کے تمام ذرائع بھی مانگ لیے۔ سارے انبیاء اور سارے اولیاء کرام اللہ سے محبت کرنے والے ہیں، لہذا سب کے ساتھ محبت مانگ لی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے تمام ذرائع بھی مانگ لئے۔
متن:
حضرت سمنون رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ محبت کیا ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا: "مَا خَلَقَ اللہُ شَیْئًا وَّ الْمَحَبَّۃُ أَلْطَفُ مِنْہُ فَکَیْفَ أُعَبِّرُ عَمَّا لَا عِبَارَۃَ لَہٗ؟" ”اللہ تعالیٰ نے جتنی اشیاء تخلیق فرمائی ہیں، محبت اُن سب سے لطیف ترین چیز ہے۔ تو میں کس طرح وہ چیز عبارت اور الفاظ میں بیان کروں جس کے لیے الفاظ اور عبارت نہیں؟“
تشریح:
محبت کو الفاظ کے ذریعے بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جن کو واقعتاً محبت ہو جاتی ہے وہ محبت کو جان لیتے ہیں اور جن کو نہیں ہوتی وہ اس کو نہیں سمجھ سکتے۔ وہ محبت والوں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں، یا تو نخرے کر رہے ہیں یا پتا نہیں کیا کر رہے ہیں۔ وہ اس چیز کو جان نہیں پاتے۔ اسی وجہ سے محبت والے چھپے رہتے ہیں۔
متن:
عشق کے کوچے کے درد مند کہتے ہیں کہ "اَلْمَحَبَّۃُ عِلَّۃٌ فِیْھَا کُلُّ شِفَاءٍ" ”محبت ایسی بیماری ہے، جس میں سراسر شفا ہی شفا ہے“
اے میرے عزیز! یہ عجیب درد ہے کہ تمام دارو اور دوائی اُس میں موجود ہے اور اس درد کی کوئی دوا نہیں سوائے دردِ محبت کے۔
تشریح:
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
کیونکہ دردِ محبت عجیب لطیف چیز ہے۔
متن:
پس اُس درد کا درد مند فریاد نہیں کرتا، اور اپنے درد کو ہزار دوا و درمان سے فروخت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، اور اپنے دوست کے علاوہ کسی دوسرے کے دیکھنے سے آنکھیں ایسی بند کر لیتا ہے کہ دل کے اندھے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ اندھا ہے۔ اور خدا سے محبت کرنا خدا کی فرمانبرداری اور اطاعت کرنا ہے ورنہ اس بندۂ خاکی کی اُس ذات پاک سے محبت کی کیا تُک ہے؟ آخر بندہ کیا کرے گا جب وہ اپنے خداوند سے محبت نہ کرے۔ اُسے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا بندے سے محبت کرنے لگے۔
ایک دفعہ ایک آدمی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں نہیں چاہتا کہ خدا کو چھوڑ کر کوئی مجھ سے محبت کرے۔ "فَإِنَّ أَبِيْ أَحَبَّنِيْ فَطَرَحَنِيْ إِخْوَتِيْ فِي الْجُبِّ وَ إِنَّ امْرَأَۃَ الْعَزِیْزِ أَحَبَّتْنِيْ فَأَلْقَانِيْ خُدَّامُھَا فِي السِّجْنِ" ”میرے باپ نے میرے ساتھ محبت کی تو میرے بھائیوں نے مجھے کنویں کی تاریکی میں پھینک دیا، اور عزیز کی بیوی (زلیخا) نے میرے ساتھ محبت کی تو اُس کے نوکروں نے مجھے قید خانے میں ڈال دیا“ اے عاشق! محبت کو لکڑی سے سیکھ کہ اس کے سر پر آرا چلاتے ہیں مگر وہ زکریا علیہ السلام کی طرح سر تک نہیں ہلاتی، اور اُسے آگ میں ڈالا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح دم نہیں مارتی، حضرت یحییٰ علیہ السلام کو خلوت کی لذت اُس دن ہو گئی تھی جب وہ آرا کشی کی کشمکش میں تھے۔ جب اُس ثابت قدم ذات کے سر پر آرا رکھا گیا تو کسی نے ان سے پوچھا کہ تم کیا چاہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میرا آدھا حصّہ مشرق میں اور آدھا مغرب میں گر پڑے تاکہ دنیا کے لوگ یہ جان لیں کہ جس راہ پر ہم نے قدم رکھا ہے، وہ ایسی مشکل اور عجیب راہ ہے کہ اُس میں ازخود قدم نہیں رکھ سکتے۔
ہمارے حضرت صاحب فقر کی صفت سے مزین تھے، گویا کہ دریائے فقر کے نہنگ تھے۔ پس صادق طبیب یعنی سچے فقیر جو کہ فسق کی بیماری کا علاج کر سکتے ہیں، وہ یہ بات کہتے ہیں کہ "اَلْعَالِمُ طَبِیْبُ الدِّیْنِ وَ الدَّرَاھِمُ دَاءٌ، فَإِذَا کَانَ الطَّبِیْبُ یَجُرُّہُ الدَّاءُ إِلٰی نَفْسِہٖ فَکَیْفَ یُدَاوِيْ غَیْرَہٗ؟" ”عالم، دین کا طبیب ہے، اور زرِ دنیا (روپیہ پیسہ) بیماری ہے۔ جب طبیب خود اپنی جان کے لیے بیماری کے حصول کے لیے کوشاں رہے تو پھر بھلا علاج کون کرے گا؟“ اے بھائی! سب سے پہلے جس اشرفی پر دنیا میں مہر لگائی گئی، تو ابلیس علیہ اللعنۃ نے اُسے اُٹھا کر بوسہ دیا اور سر آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ اے دینار! تمہاری دوستی کی وجہ سے لوگ میرے دوست بن جائیں گے۔
تشریح:
یعنی مال کی محبت کی وجہ سے بہت سارے لوگ شیطان کی بات ماننے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔
متن:
فقیر لوگ ہمیشہ علماء کی اقتدا کرتے رہتے ہیں، اور دنیا کے ترک کرنے کے سلسلے میں علماء کو چاہیے کہ فقیہ اور دین شناس فقیروں کی اقتداء کریں۔ فقیہ ابو اللیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب عالم لوگ حلال مال کے جمع کرنے میں لگ جائیں تو عوام مشتبہ کی دولت کے حصول میں منہمک ہو جاتے ہیں۔
تشریح:
جب عالم لوگ حلال مال جمع کرنے میں لگ جائیں تو قوم مشتبہ چیزوں میں منہمک ہو جاتی ہے۔
متن:
اور جب اہل علم مشتبہ مال کے اکھٹا کرنے میں لگ جائیں تو عوام حرام خوری کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اور جب اہل علم حرام خور ہو جائیں تو عوام کافر ہو جاتے ہیں۔
تشریح:
یعنی عوام اہل علم سے آگے چلتے ہیں۔
کہتے ہیں بادشاہ نے انڈا لے لیا تو عوام نے ساری مرغیاں ختم کر دیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر حکامِ بالا رشوت خور ہوتے ہیں تو ان کے ما تحت سارا محکمہ رشوت خور بن جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کے ساتھ بھی نفس ہے۔ جب انہیں مجبور کیا جاتا ہے تو ابتدا میں وہ مزاحمت کرتے ہیں لیکن جب دباؤ ڈالا جاتا ہے تو پھر لے لیتے ہیں، پہلے تو مجبوراً لیتے ہیں بعد میں ان کا نفس مزہ محسوس کرنے لگتا ہے پھر خود اپنی مرضی سے لینا شروع کر دیتے ہیں۔
ہمارے پاس بجلی کے محکمہ کا آدمی دوسرا میٹر لگانے کے لئے آیا۔ مجھے کہنے لگا کہ شاہ صاحب ہم تو آپ سے نہیں لیں گے لیکن اوپر والوں کو تو کچھ دینا پڑے گا، اس لئے آپ کچھ کریں۔ میں نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ میں نے سوچا اگر اس کے ساتھ مزید بات کرتا ہوں تو مجھے خراب کرے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی تنگی میں مبتلا ہوئے میٹر لگوا دیا۔
1992 کے لگ بھگ کی بات ہے کہ ہم اپنے گھر کے ساتھ ملحقہ زمین میں سے دو مرلہ زمین لے رہے تھے۔ کچہری میں ایک ٹائپسٹ سے بات ہو گئی۔ اس نے کہا تین سو روپے میں ٹائپ کروں گا۔ جب ٹائپنگ ہو گئی تو کہنے لگا رجسٹری منظور کروانی ہے؟ میں نے کہا جی کروا دیں۔ اس نے کہا آٹھ سو روپے لگیں گے۔ میں نے کہا کہ بات تو تین سو روپے کی ہوئی تھی۔ کہنے لگا کہ اگر آپ نے رجسٹری منظور کروانی ہے تو پھر آٹھ سو دینے پڑیں گے۔
میں نے کہا: آپ یہ بتائیں رجسٹری کی اصل فیس کتنی ہے؟
اس نے بتایا کہ اصل فیس 80 روپے ہے۔
میں نے کہا: یوں کرو کہ 380 روپے لے لو۔
کہنے لگا: اگر آپ آٹھ سو نہیں دیں گے تو آپ کی رجسٹری Turn down (یعنی مسترد) ہو جائے گی۔
میں نے کہا: ہونے دیں کوئی مسئلہ نہیں۔
جو آدمی زمین بیچ رہا تھا وہ بھی گھبرا کر کہنے لگا: شاہ صاحب اس کی بات مان لیں ورنہ بڑی ٹھوکریں کھانی پڑیں گی، بڑے مسائل ہو جائیں گے۔ مگر میں نہیں مانا۔ کاغذات جمع کروا دیے۔ انہوں نے ہمیں تاریخ دے دی کہ پرسوں آ جائیں۔
جب ہم واپس آ رہے تھے تو بیچنے والا سارے راستے مجھے بتاتا رہا تھا کہ اس طرح کیسے کیسے مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ تیسرے دن میں کچہری گیا۔ میرے ذہن میں یہی تھا کہ یہ مجھے کہیں گے کہ آپ کی رجسٹری منظور نہیں ہو سکی اس میں یہ مسائل ہیں لہٰذا آپ دوبارہ جمع کروائیں، یا پھر مجھے عدالت والے بلا لیں گے، پتا نہیں کیا کریں گے و اللہ اعلم۔ کیونکہ میں ان معاملات میں تجربہ کار تو تھا نہیں۔ خیر میں اندر چلا گیا۔ وہاں لوگوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ چونکہ میں عمومی درخواست گزاروں میں شامل نہیں تھا اس لئے میں لائن توڑ کے سیدھا کلرک کے پاس چلا گیا اور اسے بتایا کہ یہ میرا نمبر ہے، مجھے رجسٹری کب ملے گی؟
اس نے کہا: آپ بیس منٹ کے بعد آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا: جی بالکل آ سکتا ہوں؟
میں باہر آیا، کچھ چکر وغیرہ لگا کر بیس منٹ کے بعد دفتر پہنچا تو انہوں نے مجھے منظور شدہ رجسٹری دے دی۔ اللہ کا شکر ہے۔ دوسرے لوگ لائن میں لگے رہے ہوں گے اور مجھے مل بھی گئی۔
بعض دفعہ یہی مسئلہ ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اوپر والے لوگ جج یا اعلیٰ افسران وغیرہ رشوت نہ لے رہے ہوں لیکن نیچے والے ملازمین نے یوں ہی مشہور کر دیا ہو کہ سب اوپر والے رشوت لیتے ہیں اس لیے آپ کو دینی پڑے گی۔ لہٰذا ان مسائل سے بچنے کے لئے ہمیں خود بھی کچھ تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ ہم لوگوں کی بھی سستی ہوتی ہے کہ ہم کہتے ہیں تھوڑا سا لائن میں لگنا پڑے گا، کھڑا ہونا پڑے گا، انتظار کرنا پڑے گا، چلو کچھ دے دلا کر کام کرا لیتے ہیں۔ یہ ”چلو“ ہی مسئلہ خراب کرتا ہے کہ چلو دے ہی دو۔ اسی سے نقصان بڑھتا ہے۔
متن:
''نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْھَا''۔ اے میرے عزیز! عالم کو چاہیے کہ وہ درویش ہو، اور درویش کو چاہیے کہ وہ عالم ہو۔ اور جس عالم میں فقر کی چاشنی نہ ہو تو وہ ایک ضرر رساں درندہ ہے،
تشریح:
یہ میری بات نہیں ہے بلکہ اس کی بات ہے جس نے یہ کتاب لکھی ہے اور وہ بہت بڑا عالم ہے۔
متن:
اور جس فقیر میں علم کی حلاوت اور شیرینی نہ ہو تو وہ فقط ایک عامل ہے اور وہ بھی بے کار۔
تشریح:
در اصل جس کو چلنا ہے اسے علم چاہیے اور جس کے پاس علم ہے اسے چلنا چاہیے۔ دونوں باتیں اکٹھی ہوں گی تو کام بنے گا۔ چونکہ صاحبِ کتاب ہمارے دادا ہیں، شاید ان کی میراث میں مجھے یہ نعمت ملی ہے کہ میں جب خانقاہوں میں جاتا ہوں تو وہاں علم کی باتیں کرتا ہوں اور جب مدرسوں میں جاتا ہوں تو وہاں ذکر کی باتیں کرتا ہوں۔ جس کی وجہ سے دونوں طرف کے لوگ مجھے اپنا سمجھنے لگتے ہیں۔ لہٰذا مجھے بالکل فرق نہیں پڑتا۔
متن:
بیت:
؎ نخشبی فقر بے علوم نکو
شہد بے منفعت وہم زہر است
”اے نخشبی! بغیر علم کے فقر ایک بے فائدہ شہد بلکہ زہر ہے“
؎ آنچہ در آدمی بکار آید
فقر با علم و علم با فقر است
”جو چیز آدمی کے لیے ضروری ہے، وہ علم کے ساتھ فقیری اور فقیری کے ساتھ علم ہے“
عبودیت محتاج تعارف چیز نہیں، اللہ کے بندے جانتے ہیں کہ بندگی کیا ہوتی ہے لیکن حریت آزادی کے بارے میں سنو کہ حریت کیا ہوتی ہے۔ "قِیْلَ: اَلْحُرِّیَّۃُ الْإِعْرَاضُ عَنِ الْکُلِّ وَالْإِقْبَالُ إِلٰی مَن لَّہُ الْکُلُّ" یعنی حریت سب سے منہ موڑنا ہے، اور اُس کی طرف رُخ کرنا ہے جس کا یہ کُل ہو یعنی ہر چیز کا مالک ہو۔
تشریح:
در اصل حریت چیزوں اور نفس سے آزادی ہے، اللہ سے آزادی نہیں ہے۔ جیسے قلندر سب چیزوں سے آزاد ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ قلندر کے بارے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شریعت سے آزاد ہے حالانکہ وہ شریعت سے نہیں بلکہ لوگوں سے آزاد ہوتا ہے، لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ ایک عام عالم لوگوں کے حال کے مطابق بات کرتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی میں برداشت کی قوت نہیں ہے تو عالم اس کے سامنے وہ چیز ظاہر نہیں کرتا۔ جب کہ قلندر لوگوں کی پروا نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے بھاڑ میں جائے باقی سب کچھ۔ جو صحیح چیز ہو وہ بتا دیتا ہے، اس کو کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ قلندر لوگوں سے باغی ہوتا ہے، لوگوں سے آزاد ہوتا ہے لیکن شریعت سے آزاد نہیں ہوتا۔
پانی پانی کر گئی قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
میرے سامنے بہت سارے لوگ بیٹھے ہوں اور میں ان سے کہوں نہ تن تیرا نہ من۔ تو ہو سکتا ہے میں اس طرف صاف الفاظ میں نہ کہہ سکوں۔ لیکن جو قلندر ہو گا وہ کسی کی پروا نہیں کرے گا۔میری شاعری کی کتاب ہوشِ دیوانگی میں اس پر ایک غزل بھی ہے:
قلندری
جو جھکا نفس کے آگے کیا قلندری جانے
بندۂ نفس کیا اللہ کی بندگی جانے
باتیں بے باکی سے کرنا قلندری نہیں ہے
ہے قلندر جو اس کی بات ہی صحیح جانے
قلندری میں شریعت سے نکلنا نہیں ہے
ہے وہ قلندر جو کامیابی اس میں ہی جانے
فسق سے بھرپور دمادم قلندری کیسے
فسق میں غرق جو ہے وہ کہاں مستی جانے
لعل شہباز قلندر خواجہ عثمان ہی تھے
متشرع تھے حقیقت کون ان کی جانے
یہ جو شیطان کے چیلے ہیں تف ہے ان پہ شبیر
جو شریعت پہ چلنے سے خود کو بری جانے
متن:
حسین منصور رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو بندہ مقامِ عبودیت کو بالکل طے کر لے، اس کو حر کہتے ہیں۔ "وَ ذَالِکَ مَقَامُ الْأَنْبِیَاءِ وَالصِّدِِیْقِیْنَ" ”یہ انبیاء اور صدیقین کا مقام ہوتا ہے“ حضرت جنید صاحب سے کسی نے پوچھا کہ اگر کسی سالک پر دنیا سے اس قدر باقی رہ چکا ہو کہ سات کنکریوں پر گنا جائے، تو اُسے حر کہتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ "اَلْمُکَاتَبُ عَبْدٌ مَّا بَقِيَ عَلَیْہِ الدِّرْھَمُ" کہ مکاتَب اُس وقت تک غلام ہوتا ہے جب تک کہ اُس پر مکاتبت کی رقم کا ایک درہم واجب الاداء ہو۔
تشریح:
”مکاتبت“ ایک شرعی اصطلاح ہے۔ جو غلام اپنے مالک کے ساتھ سودا کر لیتا ہے کہ اگر میں آپ کو اتنے پیسے دے دوں تو آپ مجھے آزاد کر دیں گے۔ اگر وہ بھی یہ مان لے تو اس معاہدہ کو لکھ دیا جاتا ہے۔ اس معاہدہ کو مکاتبت جبکہ اس غلام کو مکاتَب کہتے ہیں۔ پھر وہ غلام مزدوری کر کے اتنے پیسے مہیا کرتا ہے۔ جب پیسے پورے ہو جاتے ہیں وہ آزاد ہو جاتا ہے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مکاتب اس وقت تک غلام رہتا ہے جب تک اس پر کل رقم کا ایک درہم بھی واجب الادا ہو۔ جب وہ آخری درہم بھی ادا کر لے گا، اس کے بعد آزاد ہو جائے گا۔
متن:
اے میرے عزیز! جو کوئی عبودیت اور طریقت کو کما حقہٗ ادا کرے حقیقت میں حر (آزاد) وہی ہے۔ "قَالَ الْحَسَنُ: مَنْ أَرَادَ الْحُرِّیَّۃَ فَلْیَعْمَلِ الْعُبُوْدِیَّۃَ" ”جو شخص کہ حریت چاہے، تو اس کو چاہیے کہ عبودیت پر عمل کرے“ قطعہ:
؂ نخشبی ہم جو بندگان مے باش
ورنہ آفاق بہ تو خندہ کند
کار احرار کار احرار ست
بندہ باید کہ کار بندہ کند
”اے نخشبی! بندوں کی طرح رہا کرو ورنہ تم پر ہنسائی ہوگی۔ احرار کا کام احرار کا عمل ہوتا ہے، بندہ کو چاہیے کہ بندگی کا عمل انجام دیتا رہے“
اور جو کوئی لغو اور ہنسی مذاق کی باتیں بکتا رہے، وہ بندگی سے آگاہ نہیں اور اگر اپنے آپ کو حُر کہے تو اُس کی بات میں کوئی تُک نہیں۔ اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی خاصیتوں میں ایک صفت شکر گزاری کی تھی کہ وہ دائمی طور پر رضا و بلا میں شاکر اور شکور رہتے تھے اور کسی محنت اور مشقت کے وقت کسی قسم کا شکوہ شکایت نہیں فرماتے تھے۔ اور کسی قسم کی تکلیف و شدید رنج میں اُن کی حالت میں تغیر اور فرق نہیں آتا تھا،
تشریح:
جیسے حضرت مولانا غلام محمد دین پوری رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ میں نقل کیا کرتا ہوں کہ انہیں اتنی شدید تکلیف لاحق ہو گئی تھی کہ ایک مرتبہ گھوڑے سے گر پڑے۔ اب تکلیف سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ یہ کہہ رہے تھے:
لطف سجن دم بدم جورِ سجن گاہ گاہ
ایں وی سجن واہ واہ اوں وی سجن واہ واہ
ان کو اس وقت میں بھی یہ بات یاد تھی کہ اگر اِس وقت یہ تکلیف آئی ہے تو اللہ نے اس سے کہیں زیادہ نعمتیں بھی دی ہیں۔ اس لئے ہر حالت پہ شکر ہے۔
ہم لوگ بڑے بھولے ہیں ہم لوگ جانتے ہوئے بھی نہیں جانتے، آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مثلاً اگر میری اس آنکھ میں تکلیف ہو۔ (اللہ بچائے، تکلیف سے تو امن ہی چاہیے لیکن کبھی ہو بھی سکتی ہے) اب میری دوسری آنکھ تو درست ہے، کان بھی درست ہیں، دل بھی درست ہے، دماغ بھی درست ہے، ہاتھ پاؤں بھی درست ہیں، جسم کے باقی سارے اعضاء درست ہیں، صرف ایک آنکھ میں تکلیف ہے۔ اب اگر میں اس پر ناشکری کروں تو یہ کتنی عجیب بات ہو گی۔ لیکن جب ہم تکلیف میں ہوتے ہیں تو ہمارا دھیان اس طرف نہیں جاتا۔
بعض دفعہ جب عارفین کو کوئی تکلیف پیش آتی ہے تو وہ اس کو معرفت کے نور سے دیکھتے ہیں۔ ان کی بات بالکل سچی ہوتی ہے لیکن اس سچ تک پہنچنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر باقی لوگوں کو ان کی بات سمجھ آتی ہے۔
ہم لوگوں کو کوئی تکلیف ہو رہی ہو تو اس کی حفاظت کے لئے ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں۔ جس ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں وہ فیس الگ لیتا ہے اور اس کا اکرام ہم الگ کرتے ہیں، اس کی تعریفیں الگ کرتے ہیں۔ مثلاً میرے جسم کا دس فیصد حصہ بیمار ہے اس دس فیصد بیماری کو درست کرنے کے لئے ڈاکٹر پوری محنت کر رہا ہے، میں اس کو فیس بھی دے رہا ہوں، میں اس کا شکر گزار بھی ہوں اور جو ذات باقی نوے فیصد کو قائم رکھے ہوئے ہے، کیا میں اس کا شکر بھی ادا کر رہا ہوں؟ جسم میں صرف وہی چیز تو نہیں ہے جس میں بیماری آ گئی ہے، بہت ساری دوسری چیزیں بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہی ہیں، لیکن میں ان کا شکر ادا نہیں کر رہا۔
انسان حیران ہو جاتا ہے کہ ہم لوگ کیسے بھول جاتے ہیں۔ یہی معرفت ہے کہ انسان کو معلوم ہونا چاہیے کہ عین تکلیف کے وقت میں بھی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے پر شکر کا کلمہ پڑھنا ہے۔ شکر کرنے میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا“۔
میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ جیسے مختلف قسم کی تھیراپیز ہیں، ہم نے بھی ایک تھراپی ایجاد کی ہے اور وہ ہے ”شکر تھراپی“۔ اس میں یہ کرنا ہوتا ہے کہ جب کسی کو کوئی تکلیف ہو تو وہ دیکھے کہ جسم میں کون سی چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی تکلیف نہیں ہے پھر ان پر شکر ادا کرے۔ شکر سے نعمت بڑھتی ہے۔ جتنی صحت اس کو حاصل ہے اس پر شکر ادا کرے گا تو صحت مزید بڑھے گی۔ صحت بڑھے گی تو بیماری کم ہو گی۔ یہ شکر تھراپی قرآن سے ثابت ہے۔ لہٰذا جتنی صحت حاصل ہے اس پہ شکر کر لو، اللہ وہ صحت بھی عطا فرما دیں گے جو حاصل نہیں ہے یعنی بیماری کم کر دیں گے۔
اللہ والے لوگ بعض دفعہ بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں لیکن ان کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی تکلیف ان بیماریوں سے دوسرے لوگوں کو ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شاکر رہتے ہیں۔ شکر کی برکت سے ان کی نفسیاتی اور اعصابی تکلیف بے حد کم ہو جاتی ہے۔
مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حالات کو اگر طبی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اتنے بیمار رہتے تھے کہ ان کو کسی کے ساتھ بات بھی نہیں کرنی چاہیے تھی، چہرے پر مسکراہٹ سجانا تو بہت بڑی بات ہے۔ میرے سامنے ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جس کو فالج ہو اور وہ آخری دنوں میں خود کروٹ تک نہ بدل سکتا ہو، جس کو دمہ ہو، جس کو السر ہو، جس کو کانوں کی تکلیف ہو، جس کو بلڈ پریشر ہو، جس کو شوگر ہو، جس کو اس طرح کی مزید کئی بیماریاں ہوں، کیا وہ کسی سے بات کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا، اگر کرے گا بھی تو بہت زیادہ مشکل ہو گی۔ لیکن کئی بار ایسا ہوا کہ ہم حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو وہ بیمار ہوتے اور گرمی کے نمونیے میں مبتلا ہوتے۔ حضرت کو اکثر گرمی کے موسم میں بھی نمونیا ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوتے۔ ہم ان سے ملنے جاتے اور اس سے پہلے کہ ہم حضرت سے پوچھیں کہ آپ کا کیا حال ہے، خود حضرت ہم سے کہہ دیتے کہ السلام علیکم بھائی خیریت تو ہے طبیعت ٹھیک ہے؟
ہم حیران ہوتے کہ ہم حال پوچھنے آئے ہیں اور الٹا حضرت ہم سے پوچھ رہے ہیں۔ کوئی پوچھتا کہ حضرت کیا حال ہے تو فرماتے: الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے۔ دیکھنے والے اور جاننے والے حیران رہ جاتے تھے۔
میں کہتا ہوں کہ حضرت کا فیضِ اول ہر ایک کو ملتا تھا۔ وہ فیض یہ تھا کہ اگر کوئی تکلیف زدہ شخص ان کے پاس آ جاتا تو اس کی تکلیف میں کمی ہو جاتی تھی۔ وہ حضرت کو دیکھتے کہ حضرت اتنی ساری تکلیفوں میں مبتلا ہو کر بھی نارمل ہیں تو ہم کیوں ان تکلیفوں پہ چیخیں۔ انسان کو حیا آ جاتی کہ مجھے بھی تو کچھ نہ کچھ خیال رکھنا چاہیے۔
الغرض ان حضرات اولیاء اللہ کو تمام تکالیف ہونے کے با وجود ایک بشاشت حاصل ہوتی ہے۔ یہ من جانب اللہ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ یہ کسی عام آدمی کو حاصل نہیں ہوتی۔ ہمارے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب تشریف لائے تھے تو ان کو چار آدمی اٹھاتے تھے۔ چار آدمی تلائی پہ بٹھاتے، چار آدمی اٹھاتے اور حضرت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لاتے۔ حضرت نے اسی حالت میں آخری پانچ سال گزارے۔ حضرت کا حال یہ تھا کہ روز بروز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ اس کے با وجود مختلف جگہوں پہ چالیس چالیس دن اعتکاف کیے اور وہ بھی دوسرے ممالک میں۔ جنوبی افریقہ، برما، انگلینڈ اور انڈیا وغیرہ میں اعتکاف فرمائے۔ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی استقامت عطا فرمائی ہوتی ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔
متن:
اللہ تعالیٰ کی رضا کو اختیار کیے ہوئے تھے اور اپنی رضا اور نفس کے فائدہ کی پروا نہ کرتے ہوئے حق تعالیٰ کی رضا جوئی کے متلاشی رہتے، اور اپنی رضا کو پس پشت ڈال کر راضی برضائے ایزدی تھے۔ محققین سے نقل ہوا ہے کہ شاکر اور شکور میں فرق یہ ہے کہ "اَلشَّاکِرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الرَّخَاءِ وَالشَّکُوْرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْبَلَاءِ" یعنی شاکر وہ ہے جو کہ نعمت، خوشی اور راحت پر شکر کرے، اور شکور وہ ہے جو کہ مصیبت پر شکر کرے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ "اَلشَّاکِرُ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْمَوْجُوْدِ وَ الشَّکُوْرُ الَّذِيْ مَنْ یَّشْکُرُ عَلَی الْمَفْقُوْدِ" وَ قَالَ بَعْضُ أَھْلِ الْمَعْرِفَۃِ: "الشَّاکِرُ خَوْفُہٗ أَبْلَغُ وَ الشَّکُوْرُ رَجَاءُہٗ أَبْلَغُ" ”شاکر وہی ہوتا ہے جو کہ موجود پر شکر ادا کرے، اور شکور وہ ہوتا ہے جو کہ مفقود پر شکر ادا کرے۔ اور بعض اہل معرفت نے فرمایا ہے کہ شاکر وہ ہے جس کا خوف زیادہ ہو اور شکور وہ ہے جس کی اُمید زیادہ ہو“ بلکہ حضرت شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اکثر مریدان مراتب اعلیٰ تک پہنچے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے شیخ صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید اپنا حال بیان فرماتے تھے، اور اللہ کے نام کی قسم اٹھا کے بیان کرتے تھے کہ جس رات کہ میرے گھر میں کچھ بھی نہ ہو اور میرے اہل و عیال بھوکے سو جائیں، تو میں اُس رات بہت خوش اور راضی رہتا ہوں اور بھوک و ننگ سے اُن کو کچھ غم اور رنج نہ ہوتا۔
تشریح:
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ چشتی سلسلہ کے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ فرماتے ہیں: فاقہ کی قدر تو ہم سے پوچھو، ہم نے اس کے لئے بادشاہی چھوڑی ہے باقی لوگ فاقہ کی قدر کیا جانیں۔
بات تو صحیح ہے۔ یہ حضرات واقعتاً ایسے ہوتے ہیں۔ حضرت اسحاق رحمۃ اللہ علیہ شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی تھے۔ بچپن میں کسی عالم کے ساتھ پڑھ رہے تھے۔ ایک دن بڑے خوشگوار انداز میں آپس میں باتیں کرنے لگے جیسے کوئی بڑا خوشگوار واقعہ پیش آیا ہو جس کی وجہ سے بار بار چہرے پہ مسکراہٹ آ رہی ہو۔ ان کے استاذ کو بڑی حیرت ہوئی کہ شاید کوئی خط وغیرہ آیا ہے۔ استاذ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ بیٹا کیا بات ہے کوئی خط وغیرہ آیا ہے؟
عرض کیا: جی ہاں خط آیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ ہماری ایک جائداد تھی جو حکومت نے ضبط کر لی ہے۔
استاذ نے پوچھا: پھر اس میں خوشی کی کیا بات ہے؟ یہ تو غم کی بات ہے۔
انہوں نے کہا: بات یہ ہے کہ پہلے ہماری نظر جائداد پہ ہوتی تھی کہ اس سے کھائیں گے۔ لیکن اب جائداد نہیں رہی لہٰذا اب اللہ پہ نظر جائے گی، ان چیزوں پہ نظر نہیں جائے گی، اس لئے ہم خوش ہیں کہ اس سے خلاصی ہوئی۔
مال کا ضائع ہونا کوئی ہنسنے کی بات نہیں ہے کیونکہ نیک آدمی مال ضائع نہیں کر سکتا لیکن اگر اللہ جل شانہ خود اس کو تلف کر دے تو وہ مال آدمی کی ذمہ داری سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کتابوں کی تصحیح کا کام کرتے تھے، جس کی تنخواہ دس روپے تھی۔ اس میں سے پانچ روپے خرچ کرتے تھے، پانچ روپے اللہ کے راستے میں دے دیتے۔ تو ان کے شاگردوں نے ان کے لئے بارہ سو روپے کی ایک نوکری تلاش کی اور انہیں لکھا کہ حضرت آپ اس کے بارے میں سوچ و بچار کریں۔
اُس زمانے کے بارہ سو روپے کا حساب لگا لیں کہ اس وقت کے بارہ سو روپے آج کل کے کتنے روپے کے برابر ہوں گے۔ جب میں نے ملازمت شروع کی تھی تو گریڈ 17 کی تنخواہ 900 روپے تھی جبکہ آج کے وقت میں گریڈ 17 کی تنخواہ تقریباً 35 ہزار روپے ہیں۔ اور میں جس ملازمت کی بات کر رہا ہوں وہ 1979 کا زمانہ تھا۔ 1979 سے لے کر 2016 تک اتنا فرق پڑا ہے تو ذرا حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت کا حساب لگا لیں کہ ان کے وقت کا 1200 روپیہ آج کل کتنا بنے گا۔ میرے اندازے کے مطابق کوئی سات آٹھ لاکھ روپے ہو سکتا ہے۔
خیر ایسا ہوا کہ حضرت نے اس ملازمت کو منظور نہیں فرمایا اور جواب ہی نہیں دیا۔ اس شاگرد نے اضطراری انداز میں دوبارہ خط لکھا کہ حضرت بڑی مشکل سے اس کا انتظام ہوا ہے آپ جلدی کوئی جواب دے دیں تاکہ میں انہیں مطمئن کر سکوں، ورنہ یہ ملازمت ہمارے ہاتھ سے چلی جائے گی۔
حضرت نے جواب میں لکھا کہ میری تنخواہ دس روپے ہے۔ پانچ روپے میں اپنے خرچ میں لاتا ہوں۔ پانچ روپے اللہ کے راستے میں دیتا ہوں۔ ان کے لئے مجھے سوچنا پڑتا ہے کہ کس کو دوں کس کو نہ دوں، کیونکہ اس طرح پھینک تو نہیں سکتا۔ اگر 1200 آ گئے تو پھر میں 1195 روپے کے لئے سوچوں گا کہ کس کو دوں اور کس کو نہ دوں۔ میرے لیے یہ سوچنا آسان نہیں ہے، بڑے مسئلہ کی بات ہے۔ اس لیے میں ملازمت قبول نہیں کر رہا۔
یہ حساب کتاب کا ایک نیا انداز ہے جو کم از کم آج کل معروف نہیں ہے۔ یہ بنیادی باتیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ دیتے ہیں اور ان کے ذریعے لوگوں کو سکھاتے اور بتاتے ہیں کہ دیکھو یہ ہیں میرے دوست۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے کروڑ پتی تھے۔ ان کی وفات کے موقع پر ان کے شاگرد حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ فقرہ کہا: دنیا نے سولہ سنگھار کر کے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر حضرت نے اسے منہ بھی نہیں لگایا۔
ہمارے جتنے بھی اللہ والے گزرے ہیں ان سب کے حالات ایسے ہی ہیں۔ یہ باتیں ہمیں بڑی عجیب لگتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں یہ تو صوفیوں کی باتیں ہیں لیکن جب ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں اور عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں سنتے ہیں وہ تو صوفیوں والی باتیں نہیں ہیں، وہ تو صحابہ و تابعین کی باتیں ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باتیں تو صحابہ کی باتیں ہیں، کم سے کم ان پہ تو عمل کر سکتے ہیں۔
اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ جوان مرد لوگ دنیا کے ساتھ محبت نہیں کیا کرتے۔ کسی نے دنیا سے پوچھا: تیرا کیا حال ہے؟َ اس نے کہا برا حال ہے کیونکہ جوان مرد میری طرف دیکھتے نہیں اور جو میرے پیچھے بھاگتے ہیں وہ سب نا مرد ہیں۔
یہی بنیادی باتیں ہیں۔ اللہ پاک کہاں سے کیا کچھ نصیب فرما دے۔ یہ قبولیت کی گھڑیاں ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی یہ معرفت نصیب فرما دے، اللہ تعالیٰ اپنا تعلق نصیب فرما دے، دنیا کی محبت ہمارے دلوں سے نکال دے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کو حاصل کرنا چاہیے۔ بے شک اس وقت سمجھ میں نہ بھی آئیں پھر بھی حاصل کرنا چاہیے۔ بہت ساری چیزیں جن کو ہم سمجھتے نہیں لیکن وہ ہماری ضرورت کی ہوتی ہیں اس لیے انہیں اللہ سے مانگتے ہیں۔ یہ بھی ہماری ضرورت ہے۔ یہ کوئی قصے کہانیاں نہیں ہیں۔
متن:
اور اُن سے کچھ خوف اور ہیبت نہیں ہوتی۔ حضرت صاحب کے مریدوں میں سے ایک مرید نے ایک لوٹا حضرت صاحب کے دربار میں لٹکایا اور معلق باندھ کر چھوڑ دیا۔ اور اُس سے اس کی مراد اور مطلب یہ تھا کہ میں دنیا میں اس لوٹے کی مانند خوار اور ذلیل ہو جاؤں اور دنیا کی نعمتوں سے بے بہرہ اور بے نصیب ہو کے رہوں تو میں اس بات پر راضی ہوں۔ پس ان کے لیے دنیا کی محنت اور تکلیف نعمت کے مانند تھی اور اس کی خواہش اور رغبت رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی رضا میں سر گرداں رہتے تھے اور اس کی طلب کرتے رہتے تھے۔ شیخ فتح خٹک جو حضرت صاحب کے مرید تھے اُن کی خلوت گاہ میں سانپ آیا کرتے تھے اور اُن کو کاٹتے تھے۔ اُن سانپوں کو نہ تو خود مارتے تھے اور نہ کسی کو اُن کے مارنے کے لیے کہتے تھے۔ اُن سانپوں کے ڈسنے کی وجہ سے قے کرتے تھے۔ اور اُن کو بہت تکلیف ہوا کرتی تھی۔ وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تصور کرتے تھے اور تیوری پر بل نہیں لاتے تھے۔ وہاں سے نہیں بھاگتے اور اس کے لیے اپنے آپ کو امادہ رکھتے۔ بیت:
؎ گر گزندت رسد ز خلق مرنج
کہ نہ راحت رسد ز خلق نہ رنج
”اگر لوگوں سے تجھے کچھ نقصان پہنچے تو رنج نہ کر۔ کیونکہ لوگوں سے نہ تکلیف پہنچتی ہے اور نہ راحت‘‘۔ اللہ والوں کا یہی طریقہ ہے“ بیت:
؎ ہر چہ رود بر سرم چوں تو پسندی رواست
بندہ چہ دعویٰ کند حکم خداوند راست
”جو حادثہ مجھ پر آئے جب آپ کو پسند ہو تو وہ جائز ہے۔ غلام اور بندہ کیا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے لیے حکم و امر ہے“
ایک وقت ایسا آیا کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک کالا ناگ آپ کے خلوت خانے سے باہر آیا اور آپ کے سجدے کی جگہ پر کنڈلی مار کر سر رکھ دیا۔ اس حقانی فقیر نے بغیر کسی جھجھک کے، بغیر کسی خطرے کے سجدے کے وقت سجدے کی جگہ اپنا سر رکھ دیا۔ سانپ نے یہ دیکھتے ہوئے اپنے سر کو اٹھا کر جگہ چھوڑ دی۔ پھر جب وہ جلسہ کے لیے بیٹھ گئے تو سانپ نے دوبارہ اُسی جگہ اپنا سر رکھ دیا۔ پھر اس مردِ حق نے سجدہ کے لیے اپنا سر سجدہ گاہ پر رکھنا چاہا تو سانپ نے اپنا سر وہاں سے ہٹایا اور اپنے بل کی طرف چلتا بنا اور اپنے بل میں گھس کر نظر سے اوجھل ہو گیا۔ جو لوگ غیر سے نہیں ڈرتے، غیر کی جانب نگاہ نہیں اٹھاتے، تو وہ ان کی مانند ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی روایت ہے کہ شیخ فتح کے پاس چیتے اور پہاڑی درندے آیا کرتے تھے اور اس کی زیارت کر کے اپنے ٹھکانوں کو واپس جاتے تھے۔ غرض یہ ہے کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کا یہ حال تھا کہ ہر حال پر راضی اور خوش تھے۔
حکماء کا قول ہے کہ خداوند کریم کی نعمتیں قسما قسم اور متنوع ہیں، فقط یہ کھانا پینا اس کی نعمت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی نعمت متنوع ہے تو ہر نوع پر شکر کرنا واجب ہے۔
تشریح:
یہ بات صحیح ہے۔ نعمتیں بے شمار ہیں، ان کا اندازہ انسان نہیں کر سکتا۔ بعض نعمتیں ایسی ہوتی ہیں جو کچھ لوگوں کے لیے تو نعمت ہوتی ہیں لیکن کچھ کے لئے نعمت نہیں ہوتیں۔ مثلاً ایک عام آدمی کو ساری نعمتیں حاصل ہیں لیکن علماء کی محفل حاصل نہیں۔ وہ اس کی کمی بہت محسوس کرتا ہے اور علماء کی صحبت کو اپنے لیے بڑی نعمت سمجھتا ہے۔ کہیں اچانک دو تین علماء آ جائیں اس کی مجلس میں بیٹھ جائیں یا اسے ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع مل جائے تو وہ اتنا خوش ہوتا ہے کہ جیسے ساری دنیا اسے مل گئی ہو۔ اب اس کی نعمت یہ ہوتی ہے۔ اسی طرح مختلف نوع کی نعمتیں ہیں۔ ہر شخص کی اپنی اپنی نعمت ہے جس پر اسے شکر ادا کرنا چاہیے۔
متن:
ایک دن حضرت آدم علیہ السلام نے دربار الٰہی میں مناجات کی کہ اے بار الٰہی! میں آپ کی نعمتوں کا شکر کس طرح ادا کروں؟ فرمان صادر ہوا کہ جب تم کوئی نعمت جو تم کو حاصل ہو گئی ہو، اُس کو ہماری جانب سے خیال کرو تو مکمل طور پر شکر نعمت ادا کرو۔ آپ نے شکر گذاروں کے مناقب بہت سنے ہوں گے، اب ناشکروں کی حکایت بھی سن لیجیے۔ نمرود علیہ اللعنۃ کے سات بڑے شہر تھے، اور ہر شہر میں حکیموں نے عجیب و غریب طلسم بنائے تھے۔ پہلے شہر کے دروازے پر ایک بطخ کا بت بنایا تھا، جب شہر کے دروازے پر کوئی مسافر آتا تو بطخ کے اس بت سے ایک آواز نکلتی جو کہ تمام شہر میں سنی جاتی، لوگ تفتیش کے طور پر پوچھتے تھے کہ کون آیا ہے۔ دوسرے شہر کے دروازے پر ایک طنبورہ بنایا تھا، جب کسی کی کوئی چیز گم ہوتی تو اس طنبورے پر ڈھول بجایا جاتا تو طنبورے سے آواز نکلتی کہ تمہاری گم شدہ چیز فلان شخص لے گیا ہے اور فلاں جگہ پڑی ہے۔ تیسرے شہر کے دروازے پر ایک آئینہ بنایا گیا تھا کہ جو مسافر مفقود اور غائب ہو جاتا، تو اس آئینے میں دیکھا جاتا، اور اس مفقود مسافر کا حال خواہ کسی شہر میں ہوتا، اس کا حال معلوم ہو جاتا۔ چوتھے شہر میں ایک حوض بنایا تھا کہ نمرود ہر سال اس حوض کے کنارے ایک جشن مناتا، جو کوئی آتا تو شراب کی کوئی قسم اپنے ساتھ لاتا، اور اس حوض میں ڈالتا۔ کوئی گلاب لاتا، کوئی شربت، کوئی شراب لاتا۔ جب اس حوض کو بھر دیتے، اور جب حوض سے واپس آتے تو ہر کوئی وہی واپس لے جاتا جو وہ لایا ہوتا۔ پانچویں شہر میں ایک تالاب بنایا تھا، اس تالاب کے پانی کے پاس کوئی شخص بیٹھا کرتا اور لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرتا۔ جب دو آدمی دعویٰ کر کے آتے تو دونوں پانی کے اندر چلے جاتے، جو شخص باطل پر ہوتا تو وہ پانی میں غرق ہو جاتا، اور دوسرا بچ جاتا۔ چھٹے شہر میں ایک درخت تھا، اگر کوئی آدمی اس کے نیچھے کھڑا ہوتا تو درخت اس پر سایہ کرتا حتیٰ کہ ہزار آدمی اس کے زیر سایہ ہوتے اور اگر ہزار سے ایک بھی زیادہ ہوتا تو تمام دھوپ میں ہوتے اور کسی پر بھی سایہ نہ ہوتا۔ ساتویں شہر میں ایک حوض بنا تھا، اس کے کنارے پر تمام شہروں کی تصویریں بنی تھیں، اگر کسی شہر میں جو اُس کی مملکت میں ہوتے، اگر اس میں بغاوت یا نافرمانی کے آثار ہوتے تو اگر وہ چاہتا کہ اُن کو سزا دے تو اس حوض میں سے ایک نہر اُس شہر کی جانب کھول دیتا تو وہ شہر اسی وقت پانی میں ڈوب جاتا۔ حق تعالیٰ نے اُس کو ایسی نعمتوں سے نوازا تھا، مگر اس نے نعمت کی قدر کر کے شکر ادا نہ کیا، بلکہ دوسرا بڑا دعویٰ کیا۔ پس اُس نے وہی چکھا اور دیکھا جو کہ اُس کے ساتھ ہوا یعنی اُس کے لشکر کو مچھروں سے ہلاک کیا گیا۔ اور آدھا مچھر اُس پر مسلط کیا گیا جو اُس کی ناک میں چلا گیا، اور اُس کو ھلاک کر ڈالا۔
تشریح:
ناشکروں کی بھی بڑی قسمیں ہیں۔ ناشکرے بھی بڑے عجیب ہیں۔ آج کل کے دور میں تو ناشکرے بہت زیادہ تعداد میں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں جتنی زیادہ نعمتیں دیتے ہیں ہم اتنے ہی زیادہ ناشکرے ہوتے جاتے ہیں۔ دوسری طرف بے صبرے بھی ہیں۔ چھوٹی سی تکلیف آ جاتی ہے تو بے صبری کی وجہ سے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ دونوں چیزیں انتہا پر ہیں۔ اللہ پاک بچائے، اس بے صبری اور ناشکری کی وجہ سے ایمان بھی غرق ہو سکتا ہے۔
اس وجہ سے صحبت صالحین بہت ضروری ہے۔ صحبتِ صالحین کی برکت سے انسان محفوظ رہتا ہے۔ ورنہ چاہے اس کو بے صبری ہلاک کر دے چاہے ناشکری ہلاک کر دے، کسی نہ کسی طریقے سے انسان ہلاک ہو ہی جاتا ہے۔ یہ بالاکوٹ میں جو زلزلہ آیا تھا۔ اس وقت بڑی خوفناک صورت حال بن گئی تھی، لوگوں کے ایمان تک داؤ پر لگ گئے تھے۔ حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ ان کے لئے اناج لے کے آتے، امداد لے کے آتے یہ انہی کو لوٹ لیتے تھے اور قہقہے لگاتے تھے۔
جب قیمتی ساز و سامان اور سونے وغیرہ کی دکانیں ڈوب رہی ہوتیں، عین اسی وقت بعض لوگ لوٹ مار کر رہے ہوتے تھے اور کئی لوٹ مار کرنے والے خود بھی دھنس جاتے تھے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس درجہ کی پستی تک پہنچ چکے ہیں، دنیا کی محبت ہمارے اندر کس قدر گھر کر چکی ہے۔
ایک واقعہ ایسا بھی سننے میں آیا کہ ایک آدمی سائیکل پر کوئی تھیلی لے جا رہا تھا، اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی تھیلی کے اندر کٹے ہوئے ہاتھ ہیں جن میں سونے کی چوڑیاں ہیں۔ عبرت کا مقام ہے کہ اتنا ظلم کیا مگر وہ بھی اسے راس نہ آیا، آخر کار وہ خود بھی ختم ہو گیا۔
یہ چیزیں انسان کو جگانے کے لئے کافی ہیں۔ اس قسم کے حالات میں ہمیں بزرگوں کی باتوں پہ عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات اور بھی بلند فرمائے یہ تو تھے ہی بزرگ، ہم کم از کم انسان تو بن جائیں۔ کم از کم انسانیت کے مقام سے نیچے تو نہ گریں۔ اتنا شکر تو ہم سب پر واجب ہے کہ گناہ گار نہ ہوں۔ اتنا صبر تو ہم سب پر واجب ہے کہ اپنے ایمان کو نقصان نہ پہنچائیں۔ یہ تو ہم سب پر لازم ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ’’انفاسِ عیسیٰ‘‘ میں فرماتے ہیں: میں فتویٰ دیتا ہوں کہ آج کل صحبتِ صالحین فرضِ عین ہے کیونکہ اس کے بغیر ایمان بھی نہیں بچتا۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فتویٰ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حضرت ان چیزوں کے ماہر تھے، مجدد تھے، بہت بڑے شیخ تھے۔ انہوں نے بے شمار لوگوں کا علاج کیا ہے، ایک جم غفیر کی اصلاح کی ہے۔ وہ ان ساری چیزوں سے گزرے ہوئے تھے۔ لہٰذا انہوں نے یہ فتویٰ یوں ہی نہیں دیا اس کے پیچھے خاص مصلحت اور بڑی حکمت ہے۔
لہٰذا آج کل کے دور میں صحبتِ صالحین کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر انسان کا ایمان نہیں بچ سکتا۔ جہاں پر بھی صحبتِ صالحین میسر ہو، کم از کم اپنے آپ کو اس کے ساتھ متعلق کر دو۔ تربیت اپنے شیخ سے ہی کرواؤ لیکن جہاں پر بھی ہو، وہاں شیخ کے مشورے سے صحبتِ صالحین سے استفادہ کرنے کی کوشش کرو۔ شیخ کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے، لیکن آدمی ہر وقت تو شیخ کے ساتھ نہیں ہوتا۔ خاص طور پر وہ لوگ جو دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں، وہ تو ہر وقت شیخ کے ساتھ نہیں رہ سکتے، وہ لوگ شیخ کے مشورے سے اپنے اپنے علاقوں میں صحبتِ صالحیں تلاش کریں اور ان سے استفادہ کیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو خیر نصیب فرما دے، ہر شر سے محفوظ فرما دے۔ آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ