اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
گذشتہ درس میں عقیدہ نمبر 19 کا بیان چل رہا تھا، آج ہم اسی کو آگے بڑھائیں گے۔
متن:
سوال:
اگر یہ کہا جائے کہ دنیا میں کافروں کو رحمت سے حصہ حاصل ہے، جیسا کہ تو نے مندرجہ بالا عبارت میں تحقیق کی ہے تو پھر دنیا میں رحمت کی صفت نے ذاتی عداوت کو کیسے دور کر دیا؟
جواب:
میں کہتا ہوں کہ دنیا میں خاص کافروں کو رحمت کا حاصل ہونا ظاہری طور پر اور صورت کے اعتبار سے ہے لیکن حقیقت میں وہ ان کے حق میں اِسْتِدراج اور کَیْد (دھوکہ) ہے، ان کے حق میں آیتِ کریمہ:
﴿اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ﴾ (المومنون: 55-56)
ترجمہ: ”کیا یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اور اولاد دیے جارہے ہیں۔ تو ان کو بھلائیاں پہنچانے میں جلدی دکھا رہے ہیں؟ نہیں، بلکہ ان کو حقیقت کا شعور نہیں ہے“۔
اور آیتِ کریمہ:
﴿سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ وَ اُمْلِیْ لَهُمْ اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ﴾ (الاعراف: 182-183)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے انھیں ہم اس طرح دھیرے دھیرے پکڑ میں لیں گے کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں ان کو ڈھیل دیتا ہوں، یقین جانو کہ میری خفیہ تدبیر بڑی مضبوط ہے“۔
ان ہی معنیٰ پر شاہد ہیں۔ پس سمجھ لو۔
فائدہ جلیلہ:
دوزخ کا دائمی عذاب کفر کی جزا (بدلہ) ہے اور بس۔ اگر پوچھیں کہ ایک شخص ایمان کے با وجود کفر کی رسمیں بجا لاتا اور اہلِ کفر کی رسموں کی تعظیم کرتا ہے، اور علماء اس پر کفر کا حکم لگاتے ہیں اور مرتد سمجھتے ہیں جیسا کہ ہندوستان کے اکثر مسلمان اس بلا میں مبتلا ہیں۔ لہذا چاہیے کہ علماء کے فتوے کے بموجب وہ شخص آخرت کے ابدی عذاب میں گرفتار ہو، حالانکہ اخبارِ صحاح (صحیح احادیث) میں آ چکا ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ سے باہر نکال لیں گے اور دائمی عذاب میں نہ رہنے دیں گے۔ آپ کے نزدیک اس مسئلہ کی کیا تحقیق ہے؟
جواب:
میں کہتا ہوں اگر وہ شخص کافر محض ہے تو دائمی عذاب اس کا نصیب ہے، عِیَاذًا باللہِ سُبْحَانَہٗ مِنْہُ (اللہ سبحانہ کی اس سے پناہ) اور اگر کفر کی رسومات بجا لانے کے با وجود ذرہ برابر ایمان بھی رکھتا ہے تو وہ دوزخ کے عذاب میں مبتلا تو ہو گا لیکن اس ذرہ برابر ایمان کی برکت سے امید ہے کہ ابدی عذاب سے خلاصی ہو جائے گی اور دائمی گرفتاری سے نجات پا لے گا۔
فقیر ایک مرتبہ ایک شخص کی مزاج پرسی کے لئے گیا جس کا معاملہ نزع و موت کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جب فقیر اس کے حال پر متوجہ ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کا قلب ”ظلماتِ بسیار“ (بہت زیادہ ظلمتوں) میں گھرا ہوا ہے، ہر چند ان ظلمتوں کے دور کرنے میں متوجہ ہوا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، پھر بہت زیادہ توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ ظلمات و تاریکیاں ”صفاتِ کفر“ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں جو اس میں پوشیدہ ہیں اور یہ کدورتیں اس کے کفر اور اہلِ کفر کے ساتھ دوستی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں، اور توجہ کرنے سے یہ ظلمتیں دور نہیں ہو سکتیں، بلکہ ان ظلمات کا تنقیہ دوزخ کے عذاب پر وابستہ ہے جو کفر کی جزا ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ ذرہ برابر ایمان بھی رکھتا ہے جس کی برکت سے آخر کار اس کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا، اور جب اس کے حال کا مشاہدہ کر لیا تو اب دل میں آیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے یا نہیں؟ توجہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ نماز جنازہ ادا کرنی چاہیے۔ لہذا وہ مسلمان جو ایمان کے با وجود اہلِ کفر کی رسومات بجا لاتے ہیں اور (ہنود کے) تہواروں کے ایام کی تعظیم کرتے ہیں، ان کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے اور ان کو کفار کے ساتھ نہیں ملا دینا چاہیے جیسا کہ آج کل علماء کا معمول ہے، اور امید وار رہنا چاہیے کہ آخر کار ایمان کی برکت کی وجہ سے دائمی عذاب سے نجات حاصل ہو جائے گی۔
پس معلوم ہوا کہ اہل کفر کے لئے عفو اور مغفرت نہیں ہے۔ آیتِ کریمہ:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ﴾ (النساء: 48)
ترجمہ: ”بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے“۔
اور اگر وہ محض کافر ہے تو ”عذابِ ابدی“ اس کے کفر کی جزا ہے۔ اور اگر ذرہ برابر بھی ایمان رکھتا ہے تو اس کی جزا ”عذابِ مُوَقَّت“ (وقتی عذاب) ہے اور باقی تمام کبیرہ گناہوں کو اگر حق سبحانہ و تعالیٰ چاہے تو بخش دے اور چاہے تو عذاب دے۔ فقیر کے نزدیک "عذابِ دوزخ" خواہ وقتی ہو یا دائمی، کفر اور صفاتِ کفر کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ آگے تحقیق سے معلوم ہو گا۔ اور کبیرہ گناہ والے جن کے گناہ توبہ، شفاعت، یا صرف عفو و احسان کے ساتھ مغفرت کے قابل نہیں ہوتے، یا جن کبیرہ گناہوں کا کفارہ دنیاوی تکالیف یا سختیوں اور سکرات موت سے نہیں ہوا، امید ہے کہ ایسے لوگوں میں سے بعض کو قبر کا عذاب کفایت کرے گا اور بعض کے لئے قبر کی سختی کے با وجود قیامت کا خوف اور اس دن کی تکالیف کافی ہوں گی اور ان کے گناہوں میں سے کوئی گناہ باقی نہیں چھوڑیں گے جس کی وجہ سے دوزخ کے عذاب کے مستحق ہوں۔ چنانچہ آیتِ کریمہ:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ﴾ (الانعام: 82)
ترجمہ: ”(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے“۔
اسی مضمون کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ واللہُ سُبْحَانَہٗ اَعْلَمُ بِحَقَائِقِ الْاُمُوْرِ کُلِّھَا (اور اللہ سبحانہ ہی تمام امور کے حقائق کو بہتر جانتا ہے)۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ کفر کے علاوہ بعض گناہوں کی سزا بھی عذاب دوزخ آئی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیْهَا) (النساء: 93)
ترجمہ: ”اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا“۔
(جو شخص کسی مومن کو قصداً قتل کرے پس اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اخبار (احادیث شریفه) میں ہے کہ جو شخص قصداً ایک نماز فرض قضا کرے تو اس کو ایک حقبہ (یعنی اَسّی سال) دوزخ میں عذاب دیا جائے گا۔ لہذا دوزخ کا عذاب صرف کافروں کے لئے ہی مخصوص نہ رہا (اور تم کہتے ہو کہ دوزخ کا عذاب کافروں کے لئے ہی مخصوص ہے)۔
(جواب میں) میں کہتا ہوں کہ یہ عذاب اس قاتل کے لئے مخصوص ہے جو قتل کو حلال جانے کیونکہ قتل کو حلال جاننے والا کافر ہے۔ جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔ اور کفر کے علاوہ دوسرے گناہوں کے لئے بھی دوزخ کا عذاب آیا ہے۔
تشریح:
عذاب کی دو قسمیں ہیں: (1) لامتناہی عذاب (کبھی نہ ختم ہونے والا)۔ (2) محدود عذاب (کچھ عرصہ کے لئے)۔
لا متناہی عذاب کفار و مشرکین کے ساتھ مختص ہے جبکہ محدود عذاب فاسق و فاجر مسلمانوں کے لئے ہے جو انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے دیا جائے گا۔
جن چیزوں پر ایمان لانا لازم ہے، ان پر ایمان نہ لانا یا ان کا انکار کرنا کفر ہے۔ بالفاظِ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ ضروریاتِ دین یا لوازماتِ ایمان کا انکار کرنا کفر ہے۔ کافر ہونے کے لئے تمام چیزوں کا انکار کرنا ضروری نہیں ہے، کسی ایک کو نہ ماننے سے بھی کفر کا ارتکاب ہی سمجھا جاتا ہے۔
مثلاً تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت پہ ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی ایک نبی کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔ تمام فرشتوں پہ ایمان لانا ضروری ہے کسی ایک فرشتے کا انکار کرنا بھی کفر کا موجب ہے۔
قرآن پاک پر اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہونے کی حیثیت سے ایمان لانا ضروری ہے۔ اگر کوئی آدمی سارے قرآن پر ایمان رکھتا ہو مگر صرف کسی ایک آیت کا انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کفر کے لئے ضروری نہیں ہے کہ تمام چیزوں کا انکار کیا جائے بلکہ کسی ایک چیز پر ایمان نہ رکھنے سے بھی آدمی کافر ہو جاتا ہے۔
شریعتِ مطہرہ نے قتلِ ناحق کو حرام قرار دیا ہے۔ جو آدمی قتلِ ناحق کو حلال جانے وہ کافر ہو جائے گا۔
اسی طرح کفر کی کسی بات کو پسند کرنا بھی کفر ہے۔
بہرحال کفر پر جو عذاب ہو گا وہ لا متناہی عذاب ہو گا، جو کبھی ختم نہ ہو گا اور جو عذاب ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کرنے کی سزا کے طور پہ ہو گا وہ محدود عذاب ہو گا۔ ممکن ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل سے کسی کے وہ گناہ معاف فرما دیں اور بغیر سزا دئیے جنت میں بھیج دیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے ان گناہوں کی سزا کے طور پر محدود عذاب میں رکھا جائے اور سزا پوری ہونے کے بعد جنت بھیج دیا جائے۔
اگر ایمان باقی ہو تو توبہ کے ذریعے گناہ معاف ہو جاتے ہیں چاہے سمندروں کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، لہٰذا توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ جس وقت کسی چیز کی فضیلت سنی جائے تو حتی الامکان اس پہ فوراً عمل کیا جائے، ایسا کرنے سے اس عمل کا نور نصیب ہو جاتا ہے۔ آئیے ہم سب توبہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کی توبہ قبول فرمائے۔ اے اللہ تعالیٰ! ہم توبہ کرتے ہیں تمام گناہوں سے، چھوٹے گناہوں سے بھی، بڑے گناہوں سے بھی، جو ہمیں معلوم ہیں ان سے بھی اور جو ہمیں معلوم نہیں ہیں ان سے بھی، جو قصداً ہوئے ہیں ان سے بھی اور جو خطاءً ہوئے ہیں ان سے بھی، ظاہر و باطن کے سارے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ یا اللہ ہماری توبہ قبول فرما لے۔
متن:
اور کفر کے علاوہ دوسرے گناہوں کے لئے بھی دوزخ کا عذاب آیا ہے۔ وہ بھی صفاتِ کفر کے شائبہ سے خالی نہیں ہے، جیسا کہ اس گناہ کو معمولی سمجھنا اور اس کے ارتکاب کے وقت بے پروائی کرنا اور شرعی اوامر و نواہی کو بے کار و خوار سمجھنا وغیرہ وغیرہ ـــ اور خبر (حدیث) میں ہے:
”شَفَاعَتِيْ لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ“ (سنن ترمذی: 2435)
ترجمہ: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے ہو گی“۔
اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ:
”أُمَّتِیْ أُمَّۃٌ مَّرْحُوْمَۃٌ لَّاعَذَابَ لَہَا فِی الْآخِرَۃِ“ (سنن ابی داؤد: 4278)
ترجمہ: ”میری امت، امت مرحومہ (رحم کی ہوئی) ہے اس کے لئے آخرت میں عذاب نہیں ہے“۔
اور آیتِ کریمہ:
﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ﴾ (الانعام: 82)
ترجمہ: ”(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انھوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے“۔
بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔
اور مشرکوں کے بچوں کے احوال، اور پہاڑوں پر رہنے والے، اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں کا حال، اس مکتوب (دفتر اوّل مکتوب 259) میں جو فرزندی محمد سعید رحمۃ اللہ علیہ کے نام تحریر ہوا ہے، مفصل مذکور ہو چکا ہے وہاں ملاحظہ کر لیں۔
اور ایمان کے کم و زیادہ ہونے میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”اَلْاِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ“ (ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے نہ کم)۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اَلْاِیْمَانُ یَزِیْدُ ویَنْقُصُ“ (ایمان زیادہ اور کم ہوتا ہے) اور اس میں شک نہیں کہ ایمان سے مراد تصدیق اور یقین قلبی ہے جس میں زیادتی و کمی کی گنجائش نہیں، لہذا جو ایمان کہ کمی و زیادتی کو تسلیم کرے وہ دائرۂ ظن میں داخل ہے نہ کہ یقین کے درجہ میں۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اعمال صالحہ کا بجا لانا اس یقین کو جِلا دیتا ہے اور غیر صالح اعمال کا بجا لانا یقین کو مکدّر کر دیتا ہے۔ لہذا (ایمان کی) کمی و زیادتی اعمال کے اعتبار سے اس یقین کو روشن و جِلا کرنے میں ثابت ہوئی نہ کہ نفس یقین میں۔
تشریح:
ایمان کا تعلق ماننے سے ہے۔ اس کی مثال آئین کی سی ہے۔ جو آئین کو نہیں مانتا وہ باغی ہے۔ ہاں اگر آئین میں مذکور کسی چیز پہ عمل نہیں کرتا تو باغی نہیں ہو گا لیکن مجرم ضرور ہو گا۔ اسی طرح جو بالکل ایمان ہی نہ رکھے، وہ تو باغی ہے اور جو دل میں ایمان رکھتا ہو مگر عمل نہ کرتا ہو وہ بد عمل ضرور ہے مگر کافر نہیں۔
در اصل ایمان بنیاد ہے۔ جسے یہ بنیاد حاصل ہو وہ کوئی بھی نیک عمل کرے گا، ایمان کی وجہ سے وہ عمل فائدہ دے گا اور اعمال نامہ میں نیک اعمال میں اضافہ کرے گا۔ اور جسے یہ بنیاد ہی حاصل نہ ہو وہ چاہے ساری زندگی نیک اعمال کر لے اس کا اعمال نامہ آخرت کے لحاظ سے خالی ہی رہے گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ایمان 1 ہے اور کفر 0 ہے۔ جسے 1 حاصل ہے اس کا ہر ِنیک عمل اس ایک میں جمع ہوتا جائے گا اور اس کے 1 کی مقدار بڑھتی چلی جائے گی اور جسے یہ 1 حاصل نہیں، وہ چاہے ہزاروں نیک اعمال کر لے وہ سب 0 (صفر) کے ساتھ ہی ضرب دئیے جائیں گے اور زیرو میں کتنے ہی کروڑ کیوں نہ ضرب کر لئے جائیں حاصل ضرب 0 ہی رہتا ہے۔
میں اپنے طلباء کو سمجھانے کے لئے اکثر یہ فارمولا بتایا کرتا تھا
Q = K(αβγδ)
لہٰذا
الفا (α)، بِیٹا (β)، گیما (γ) اور ڈیلٹا (δ)
یہ سب ایمانیات ہیں۔ ہر چیز پر الگ الگ ایمان لانا ضروری ہے۔ ان سے کوئی Alpha ہے، کوئی Gamma ہے، کوئی Beta ہے اور کوئی Delta ہے۔ مثلاً اللہ پر ایمان Beta، رسولوں پر ایمان Gamma اور کتابوں پر ایمان Delta ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی ایمان نہ رہا تو کفر لازم آ گیا، کسی ایک کی ویلیو بھی زیرو ہو گئی تو سب ختم ہو گیا۔ اگر سب کی ویلیو 1 ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ اسی طرح اگر سب ایمانیات پر پورا پورا ایمان ہے تو تب ہی ایمان قائم رہے گا۔ اگر کسی ایک چیز پر بھی ایمان نہ رہا تو کسی چیز پر ایمان کا رکھنا فائدہ نہ دے گا بلکہ کفر لازم آئے گا۔
اسی وجہ سے احناف کہتے ہیں کہ ”اَلْاِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ“ (ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ ہی کم ہوتا ہے)۔ جو حضرات ایمان میں کمی زیادتی کے قائل ہیں در اصل انہوں نے ایمان کے ساتھ کیفیتِ ایمان کو بھی شامل کر لیا ہے۔ کیفیتِ ایمان کم اور زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا دار و مدار اعمال پر ہے۔ لیکن امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے کہ ایمان میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی۔ کمی زیادتی کیفیت میں ہوتی ہے اور یہ کیفیت ہوتی تو ایمان کی ہے لیکن یہ خود ایمان کا جز نہیں ہوتی۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق بہت گہری ہوتی ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ بعض دفعہ امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ایسے وقت میں کام آتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔
جب میں شفقِ احمر و ابیض پہ کام کر رہا تھا تو یہ بات سامنے آئی کہ شفقِ ابیض کے غائب ہونے کا ایک مخصوص پیمانہ ہے کہ یہ ہمیشہ 18 ڈگری پر ہی غائب ہوتا ہے لہٰذا موسم کیسا بھی ہو، بادلوں کی وجہ سے شفق ابیض نظر نہ بھی آئے تب بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ 18 ڈگری پر شفقِ ابیض غائب ہو گیا ہے۔
در اصل شفقِ ابیض سات روشنیوں سے بنتا ہے۔ لہٰذا اس پہ موسم اثر انداز نہیں ہوتا۔ درجہ حرارت، آب و ہوا کی نمی اور گرد و غبار، ان تمام عناصر کی وجہ سے شفق ابیض مدھم تو ہو سکتا ہے لیکن مکمل طور پر غائب نہیں ہوتا، فضا میں موجود رہتا ہے جبکہ شفقِ احمر پہ موسم اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر humidity (فضا میں نمی) ہو تو شفق احمر زیادہ دیر تک رہے گا اور اگر humidity (نمی) نہ ہو، موسم خشک ہو تو شفق احمر جلدی ختم ہو جائے گا۔
اس تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ شفق احمر کے غائب ہونے کا تعلق ڈگری کے ساتھ ہے وقت کے ساتھ نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ آج ساڑھے بارہ ڈگری پہ غائب ہو اور کل ساڑھے 14 پہ غائب ہو جائے، اس سے اگلے دن 15 پہ غائب ہو جائے اور اس سے اگلے دن 13 پہ غائب ہو جائے۔ ڈگری ہر دن الگ الگ ہو سکتی ہے۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق شفق ابیض کا حساب ممکن ہے، موسم کیسا بھی ہو مخصوص طریقے سے حساب لگا کر شفق ابیض کو معلوم کیا جا سکتا ہے جبکہ شفق احمر کا حساب ممکن نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق با قاعدہ مشاہدہ کے ساتھ ہے۔ لہٰذا یا تو مشاہدہ کیا جائے یا پھر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق پہ عمل کرتے ہوئے شفق ابیض کو سامنے رکھا جائے۔
شفقِ احمر کا مشاہدہ آسان ہے کیونکہ یہ روشنی میں بھی نظر آ جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک رنگ ہے اور رنگ والی چیز کا مشاہدہ آسان ہے لیکن آج کل کوئی مشاہدہ نہیں کرتا۔ مجھ سے اکثر علمائے کرام پوچھتے ہیں کہ شفقِ احمر کی کیا ڈگری ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ اس کی متعین ڈگری کیا ہے، کیونکہ میں نے ساڑھے 12 ڈگری سے لے کے ساڑھے 14 ڈگری تک مختلف اوقات میں اس کا مشاہدہ کیا ہے لہٰذا کسی ایک مخصوص ڈگری کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ جس نے شفقِ احمر پہ عمل کرنا ہو اسے مشاہدہ سے کام لینا ہو گا اور جس نے مخصوص معیار کو سامنے رکھنا ہے وہ شفقِ ابیض والے مسلک پہ عمل کر لے۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے شفقِ ابیض کو ہی اختیار کیا ہے، اس کا فائدہ یہ ہے کہ موسم کوئی بھی ہو، مطلع کی صورت حال کیسی ہی ہو، شفقِ ابیض کا علم ہر حال میں ہو ہی جاتا ہے۔
اس مسئلہ پر جن حضرات نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اختلاف کیا تھا ان میں سے بعض نے یہ فرمایا کہ ہم حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس لئے اختلاف کر رہے ہیں کہ ہم ان کی بات کی گہرائی تک نہیں پہنچ پا رہے۔ اگر گہرائی تک پہنچ جائیں تو اختلاف نہیں رہے گا۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ وہ شام کے علاقے میں گئے اور اپنے ایک محدث استاذ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ استاذ نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ میں کوفہ سے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا: یہ بتائیں کہ کوفہ میں ابو حنیفہ نامی آدمی کون ہے جو دین میں نئی نئی باتیں نکالتا ہے۔ چونکہ یہ محدث، عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ تھے اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے استاذ تھے۔ اس لئے وہ اپنے استاذ کا احترام کرتے ہوئے اس وقت تو خاموش ہو گئے۔ اگلے دن انہوں نے ایک کاغذ پر کچھ معرکۃ الاراء مسائل لکھے، ان مسائل پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے نقل کی، اور امام صاحب کی رائے امام ابو حنیفہ کے نام سے نہیں لکھی بلکہ یوں لکھا ”قَالَ نُعْمَانُ“۔ اور وہ کاغذ اپنے استاذ کی خدمت میں پیش کیا۔ انہوں نے اس پہ لکھے ہوئے مسائل پڑھنا شروع کیے۔ ایک مسئلہ پڑھتے اس پہ ”قَالَ نُعْمَانُ“ کے عنوان سے لکھی ہوئی رائے پڑھتے اور خوب تحسین فرماتے۔ سارے مسائل پڑھنے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ یہ نعمان کون ہے؟ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ وہی ہیں جن کو آپ ابو حنیفہ کے نام سے جانتے ہیں اور جن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ دین میں نئی نئی باتیں نکالتے ہیں، یہ وہی عالم ہیں اور میرے استاذ بھی ہیں۔ یہ نئی باتیں نہیں نکالتے بلکہ تحقیق کر کے بات کرتے ہیں۔ ان محدث صاحب نے فورًا استغفار کیا اور بہت ندامت کا اظہار کیا، فرمایا کہ میں نے اتنے بڑے آدمی کے بارے میں ایسی بات کر کے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا، اللہ کرے میری ان سے ملاقات ہو جائے تاکہ میں ان سے معافی مانگ سکوں۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر مجھے اللہ پاک نے وہ دن بھی دکھایا کہ جب حرم شریف میں حج کے موقع پر میرے ان دونوں شیوخ کی آپس میں ملاقات ہوئی۔ میرے محدث استاذ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بار بار کہہ رہے تھے کہ میں نے آپ کے بارے میں اس قسم کی باتیں کی تھیں، آپ مجھے معاف کر دیں۔
در اصل حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقام علم اور تفقہ کے لحاظ بہت اونچا ہے۔ ہم دوسرے ائمہ کو غلط نہیں کہتے۔ وہ بھی بڑے درجہ کے اولیاء اللہ ہیں اور ہمارے سروں کے تاج ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارا یقین ہے اللہ پاک نے ہمیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے فقہی مذہب کی پیروی نصیب کی ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ کیونکہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات ایسی ہیں کہ جتنا وقت گزرتا چلا جائے گا ان تحقیقات میں مزید وضاحت آتی جائے گی۔
متن:
ایک جماعت جس نے یقین کو جِلا یافتہ اور روشن معلوم کیا تو اس نے اس یقین کی نسبت جو جِلا یافتہ اور روشن نہیں، زیادہ کہہ دیا۔ گویا بعض لوگوں نے غیر متجلی یقین کو یقین ہی نہیں سمجھا اور انہی میں سے بعض نے متجلی کو یقین جان کر غیر متجلی کو ناقص کہہ دیا اور دوسرے گروہ نے جو نظر کی تیزی اور بصیرت رکھتے تھے دیکھا کہ یہ کمی و زیادتی یقین کی صفات کی طرف راجع ہے نہ کہ نفسِ یقین کی طرف۔
جو نظر کی تیزی اور بصیرت رکھتے تھے دیکھا کہ یہ کمی و زیادتی یقین کی صفات کی طرف راجع ہے نہ کہ نفس یقین کی طرف۔
تشریح:
حضرت یہاں یہ فرما رہے ہیں کہ نفسِ یقین میں کمی زیادتی نہیں ہو سکتی بلکہ یقین کی کیفیت میں کمی زیادتی ہوتی ہے۔ اس کی بہترین مثال شفقِ ابیض کے ذریعے دی جا سکتی ہے، کہ شفق تبدیل نہیں ہوتا مگر اس کی روشنی کبھی مدھم ہو جاتی ہے، کبھی بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اسی طرح یقین بذات خود کم یا زیادہ نہیں ہوتا مگر اس کی کیفیت میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔
متن:
اس وجہ سے انہوں نے یقین کو غیر زائد و ناقص کہہ دیا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے دو آئینے جو باہم برابر ہوں لیکن روشنی اور نورانیت میں تفاوت رکھتے ہوں، جب ایک شخص اس آئینے کو دیکھتا ہے جس میں جِلا اور روشنی زیادہ ہے اور وہ نور اور روشنی کی نمائندگی زیادہ کرتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ یہ آئینہ دوسرے آئینے سے زیادہ روشن ہے کیونکہ اُس میں جِلا و روشنی زیادہ نہیں ہے۔ اور دوسرا شخص یہ کہتا ہے کہ یہ دونوں آئینے (کمی و زیادتی میں) برابر ہیں البتہ فرق صرف جِلا کی نمائندگی کا ہے جو ان دونوں کی صفات ہیں۔
تشریح:
آئینے کی صفت اور اس کا کام منعکس کرنا ہے۔ تیز روشنی ہو گی تو آئینہ تیز روشنی منعکس کرے گا، روشنی کم ہو گی تو کم روشنی منعکس کرے گا۔ آئینہ بذات خود وہی رہتا ہے اس پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔
متن:
البتہ فرق صرف جِلا کی نمائندگی کا ہے جو ان دونوں کی صفات ہیں۔ پس دوسرے کی نظر صائب ہے اور شئے کی حقیقت تک رسائی رکھتا ہے اور پہلے شخص کی نظر ظاہر پر ہے لہذا کوتاہ ہے اور صفت سے ذات تک نہیں پہنچی ہے۔
آیتِ کریمہ:
﴿یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ﴾ (المجادلہ: 11)
ترجمہ: ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا“۔
اس تحقیق سے کہ جس کے اظہار کے لئے اس فقیر کو توفیق بخشی گئی، مخالفین کے اعتراضات جو انہوں نے ایمان کے زیادہ اور کم نہ ہونے پر کئے تھے زائل ہو گئے۔
اور عام مومنوں کا ایمان تمام وجوہ میں انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے ایمان کے مثل نہیں ہوا، کیونکہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کا ایمان تمام تر جلا یافتہ و نورانی ہے جو ثمرات و نتائج کئی گنا (زیادہ) رکھتا ہے ان عام مومنوں کے ایمان کے مقابلہ پر جو اپنے اپنے درجات کے فرق کے لحاظ سے بہت سی ظلمتیں اور کدورتیں رکھتا ہے۔ اور اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان جو وزن میں تمام امت کے ایمان سے زیادہ ہے اس کو بھی جِلا اور نورانیت کے اعتبار سے سمجھنا چاہیے اور زیادتی کو صفاتِ کاملہ کی طرف راجع کرنا چاہیے۔
تشریح:
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان اور ایک عام گنہگار کا ایمان برابر ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ در اصل اس قول کا تعلق صفتِ ایمان کے ساتھ ہے جو کہ سب میں برابر ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کو ایک مانتے تھے ہم بھی اللہ کو ایک مانتے ہیں، وہ تمام پیغمبروں کو مانتے تھے ہم بھی تمام پیغمبروں کو مانتے ہیں، وہ تمام کتابوں کو مانتے تھے ہم بھی تمام کتابوں کو مانتے ہیں۔ ایمان کے معاملے میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں ایسا کہا جا سکے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس پر ایمان رکھتے تھے اور ہم نہیں رکھتے۔ کیونکہ اگر کسی ایک چیز کے بارے میں بھی یہ بات پائی گئی کہ وہ تو اس پر ایمان رکھتے تھے اور ہم نہیں رکھتے تو معاملہ کفر تک چلا جائے گا۔ لہٰذا یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ہمارا ایمان نفسِ ایمان کے لحاظ سے تو برابر ہے ہاں کیفیت کے لحاظ سے اس میں فرق ضرور ہو سکتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کیفیتِ احسان سب کو حاصل ہوتی ہے، کیفیت احسان کا مطلب یہ ہے کہ یہ دھیان رہے کہ اللہ ہمیں ہر دم دیکھ رہا ہے، ہر مسلمان کا یہ یقین ہے کہ اللہ اسے ہر وقت دیکھ رہا ہے لیکن اس کی کیفیت میں فرق پایا جاتا ہے، کسی کو یہ بات پختگی کے ساتھ حاصل ہوتی ہے اور کسی میں اس کی کیفیت کمزور ہوتی ہے۔
نبی کریم ﷺ سے تین سوال کئے گئے تھے ”مَا الْإِيْمَانُ؟ مَا الْإِسْلَامُ؟ مَا الْإِحْسَانُ؟“۔ ”مَا الْإِيْمَانُ“ میں ایمانیات آ گئے، ”مَا الْإِسْلامُ“ میں اعمال آ گئے اور ”مَا الْإِحْسَانُ“ میں کیفیات آ گئیں۔ یہ تین درجے ہیں، ہر اگلا درجہ پچھلے درجے سے اعلیٰ ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص ایسا ہو جو صرف پہلے درجے کا حامل ہو، جسے ایمان تو حاصل ہو مگر اس کا کوئی عمل نہ ہو اور کوئی کیفیت بھی حاصل نہ ہو۔ اس سے اعلیٰ درجے کا شخص وہ ہو گا جس کو ایمان حاصل ہو اور وہ اعمال کا پابند بھی ہو۔ تیسرا اور سب سے اعلیٰ درجہ اس شخص کا ہو گا جسے ایمان بھی حاصل ہو، اس کے اعمال بھی صحیح ہوں اور کیفیتِ احسان بھی حاصل ہو۔ اب ان تینوں درجوں کے حامل لوگوں میں ایمان مشترک ہے چاہے پہلا درجہ ہو یا دوسرا یا تیسرا درجہ ہو، ایمان سب میں برابر ہے۔ بعد والے دو درجوں میں ایمان کی کیفیت زیادہ موثر ہے جس کی وجہ سے ان درجوں کے حامل اشخاص اعمال بھی کرتے ہیں اور ان کو کیفیتِ احسان بھی حاصل ہوتی ہے۔
قرآن پاک میں ولایت کے بارے میں دو آیات آئی ہیں۔ ایک آیت یہ ہے:
﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ﴾ (البقرة: 257)
ترجمہ: ”اللہ ایمان والوں کا دوست ہے، وہ انھیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے“۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ مومنین کا دوست ہے ان کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ یہاں ایمان کے علاوہ اور کسی چیز کا ذکر نہیں فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایمان اور کفر کا تقابل کیا جائے تو محض ایمان بھی اللہ پاک کی دوستی کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ دوستی اس معنی میں ہے کہ کفر اللہ پاک کے غضب کا سبب ہے، اس کے مقابلے میں ایمان اللہ پاک کی دوستی کا ذریعہ ہے۔
ولایت کے بارے میں دوسری آیت یہ ہے:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62-63)
ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور تقوٰی اختیار کئے رہے“۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے دوست وہ ہیں جو نہ صرف ایمان لائے بلکہ انہوں نے ایمان کے ساتھ ساتھ تقویٰ بھی اختیار کیا۔
پہلی قسم کی ولایت، ولایتِ عامہ ہے۔ جبکہ دوسری قسم کی ولایت، ولایتِ خاصہ ہے۔ ولایتِ عامہ کے لئے ایمان کافی ہے، جبکہ ولایتِ خاصہ کے لئے صرف ایمان کافی نہیں بلکہ تقویٰ بھی ضروری ہے۔
دونوں قسم کی ولایتوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ایمان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی، ایمان سب کا برابر ہوتا ہے۔
اس ساری تفصیل سے ہمارا مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ نفسِ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی، بلکہ کیفیتِ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا تمام مثالوں میں یہ بات بخوبی سمجھ لی کہ ایک چیز ہر مقام پر پائی جا رہی ہے اور وہ ایمان ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اپنی جگہ ایک سا ہی برقرار رہتا ہے، جبکہ کیفیت میں کبھی کمی ہو جاتی ہے اور کبھی زیادتی ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایمان کے اثرات میں فرق آتا ہے۔
متن:
کیا تم نہیں دیکھتے کہ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات نفسِ انسانیت میں عام لوگوں کے ساتھ برابر ہیں اور حقیقت و ذات میں سب باہم متحد ہیں لیکن صفاتِ کاملہ کے اعتبار سے ان (انبیاء) کو دوسرے (انسانوں) پر فضیلت حاصل ہے اور جس میں صفاتِ کاملہ نہیں ہیں گویا وہ اس نوع سے خارج اور اس کے فضائل و خصائص سے محروم ہے لیکن اس تفاوت کے با وجود نفسِ انسانیت میں زیادتی و کمی واقع نہیں۔
تشریح:
اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ درج ذیل مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص بالکل مرنے کے قریب ہے، لیکن ابھی مرا نہیں، اگر اس کے بارے میں پوچھا جائے کہ وہ مر گیا ہے یا زندہ ہے؟ تو یہی جواب ملے گا کہ وہ ابھی زندہ ہے۔ دوسری طرف ایک جوان اور صحت مند آدمی کو بھی زندہ کہا جائے گا، نفسِ حیات کے اعتبار سے دونوں زندہ ہیں لیکن دونوں کی زندگی کی کیفیت بالکل الگ الگ ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ آخری وقت میں ان پر غشی طاری ہو گئی۔ ان کے بیٹے سمجھے کہ شاید نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے۔ انہوں نے امام صاحب کو کلمہ کی تلقین شروع کر دی۔ اب یہ تلقین کر رہے تھے اور امام صاحب فرما رہے تھے کہ "ابھی نہیں ابھی نہیں"۔
ان کے بیٹے یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ کہیں یہ سوءِ خاتمہ کی علامت نہ ہو۔ ساری عمر تو امام صاحب متقی، پرہیزگار اور ذاکر و شاغل رہے ہیں لیکن اخیر وقت میں کلمہ پڑھنے کی تلقین پر کہہ رہے ہیں کہ ابھی نہیں۔ یہ کیا ماجرا ہے۔ خیر، تھوڑی دیر بعد امام صاحب کو افاقہ ہو گیا، غشی ختم ہو گئی۔ بیٹوں نے انہیں ساری بات بتائی تو امام صاحب نے فرمایا ’’در اصل شیطان میرے سامنے آیا تھا، اپنے سر پہ خاک ڈال رہا تھا اور مجھے یہ کہہ رہا تھا کہ اے احمد! تو مجھ سے بچ کے چلا گیا۔ میں شیطان کی اس بات کے جواب میں کہہ رہا تھا کہ ابھی نہیں بچا، کیونکہ ابھی میں زندہ ہوں، جب تک زندگی باقی ہے تب تک تیرے جال میں پھنسنے کا خدشہ ہے۔ میں در اصل شیطان کو کہہ رہا تھا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں۔‘‘
اب نفسِ ایمان میں تو سارے مسلمان برابر ہوتے ہیں لیکن کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے کسی کے ایمان کی کیفیت اتنے اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے جیسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی تھی، اور کسی کی ایمانی کیفیت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہونے سے بھی نہیں روک سکتا۔
متن:
اور نہیں کہہ سکتے کہ وہ انسانیت زیادتی و نقصان کے قابل ہے۔ واللہُ سُبْحَانَہُ المُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ صحیح بات کا الہام کرنے والا ہے)۔
اور اسی طرح بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ "تصدیقِ ایمانی" سے مراد ان کے نزدیک تصدیق منطقی ہے جو ظن اور یقین دونوں کو شامل ہے، اس صورت میں "نفسِ ایمان" میں کمی و زیادتی کی گنجائش ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ اس جگہ تصدیق سے مراد یقین و اذعانِ قلبی (دل سے قبول کر لینا ہے) نہ کہ عام معنیٰ میں جس میں ظن بھی شامل ہے۔
امام اعظم ابو حںیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اَنَا مُؤْمِنٌ حَقًّا“ (میں یقیناً مومن ہوں)۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”اَنَا مُؤْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی“ (میں مومن ہوں اگر اللہ تعالیٰ چاہے) حقیقت میں ان کا یہ اختلاف "نزاعِ لفظی" ہے۔ مذہبِ اول (پہلے قول) کا تعلق ایمان حال سے ہے، اور مذہبِ ثانی (دوسرے قول) کا تعلق مآل و عاقبت کار سے ہے۔
تشریح:
متن کی عبارت میں حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس عقیدہ پر گفتگو فرما رہے ہیں کہ ”اَلْاِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَ لَا یَنْقُصُ“ (ایمان نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے)۔ یعنی نفسِ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی بلکہ صفاتِ ایمان اور کیفیتِ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں مختلف دلائل بیان فرمائے اور اب اس عقیدہ پر متفرع ایک جزئیہ بیان فرما رہے ہیں۔ جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب اپنے ایمان کا اقرار کرنا ہو تو یوں کہا جائے ”اَنَا مُؤْمِنٌ حَقًا“ (میں یقیناً ایمان والا ہوں)۔ جبکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یوں کہا جائے: ”اَنَا مُوْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالیٰ“ (میں ان شاء اللہ ایمان والا ہوں)۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں اقوال میں تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پہلے قول کا تعلق موجودہ حالت سے ہے جبکہ دوسرے قول کا تعلق مآل یعنی آئندہ کی حالت سے ہے۔ آئندہ سے مراد موت کا وقت اور قیامت کا دن ہے۔
امام ابو حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ نے جو فرمایا ہے کہ اپنے ایمان کا اقرار تاکید اور یقین کے ساتھ کرنا چاہیے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح کے مطابق اس کا تعلق موجودہ حالت سے ہے۔ یعنی اس وقت ہمارے دل میں ایمان ہے، اور کفر کی ہر بات سے انکار ہے، اعمال صالحہ کی کوشش جاری ہے، گناہوں سے توبہ کا عمل چل رہا ہے، لہٰذا اس وقت ہمیں اپنے بارے میں یقین کے ساتھ کہنا چاہیے کہ الحمد للہ میں یقیناً مومن ہوں۔ جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو مآل پر محمول کیا جائے گا یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی مآل کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ اگر کسی کی یہ نیت ہو کہ ایمان کی یہی حالت مجھے آخر تک نصیب ہو، حسنِ خاتمہ نصیب ہو تو پھر ”اَنَا مُؤْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ“ بھی کہہ سکتا ہے۔ یہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بے انتہا علم اور نکتہ رسی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے اتنے خوبصورت انداز میں دونوں اقوال میں تطبیق دی ہے کہ اختلاف باقی ہی نہ رہا۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی ”اَنَا مُوْمِنٌ اِنْ شَآءَ اللہُ“ اس معنی میں کہتا ہے کہ اسے اپنے ایمان کا یقین ہی نہیں بلکہ شک ہے کہ کیا معلوم میں مومن ہوں بھی یا نہیں، تو اس معنی میں یہ کہنا جائز نہیں بلکہ اس نیت سے کہنے سے تو کفر کا خدشہ ہے۔ ہاں اگر مآل کے اعتبار سے کہتا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
تاتاریوں کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ شہزادہ تیمور شکار پر نکلا، راستے میں ایک بزرگ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ یہ کیا عمل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہمارا ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم لوگوں کو عبادت کے لئے بلایا کرتے ہیں۔ شہزادے نے کہا: یہ بتاؤ کہ تمہاری داڑھی اچھی ہے یا میرے کتے کی دُم؟ اس بزرگ نے جواب دیا کہ اگر میں ایمان کے ساتھ دنیا سے چلا گیا پھر تو میری داڑھی اچھی ہے، اگر ایمان کے ساتھ نہ گیا تو پھر تیرے کتے کی دُم مجھ سے بہتر ہے۔
شہزادے پر اس بات کا بڑا اثر ہوا۔ اس نے پوچھا: ایمان کیا چیز ہے؟ ان بزرگ نے اس سوال کے جواب میں اسے ایمان اور لوازماتِ ایمان کی ساری تفصیل بتا دی۔ اس نے کہا میں ایمان لے آتا ہوں، لیکن ابھی میں حکمران نہیں ہوں، صرف شہزادہ ہوں، اس لئے اپنے ایمان کا اعلان نہیں کروں گا۔ جس وقت میں بادشاہ بن جاؤں اس وقت میرے پاس آ کر مجھے یاد دلا دینا تو میں اپنے اسلام کا اعلان کر دوں گا۔ کافی عرصہ گزر گیا، یہ بزرگ شہزادہ تیمور کے بادشاہ بننے کا انتظار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی وفات کا وقت آ پہنچا، انہوں نے دمِ آخر میں اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ جس وقت شہزادہ تیمور بادشاہ بن جائے، تب اس کے محل کے قریب جا کر اذان دینا، وہ تمہیں اپنے پاس بلوا لے گا، پھر اسے اس کا وعدہ یاد دلانا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ جب انہوں نے محل کے قریب اذان دی تو لوگ انہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے۔ تفتیش کرنے پر بتایا کہ میرے والد نے مجھے ایسا کرنے کی وصیت کی تھی، اور اسے سارا واقعہ یاد دلایا۔ اسے یاد آ گیا۔ بادشاہ نے اپنے مشیر خاص کو ساری بات بتائی اور مشورہ کیا تو عجیب بات ہوئی۔ اس مشیر نے کہا کہ میں تو پہلے سے ہی اسلام قبول کر چکا ہوں، صرف حکومت کے ڈر سے اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرپایا۔
پھر دونوں نے مل کے باقی حکومتی ارکان کو قائل کر لیا اور وہ سب بھی مسلمان ہو گئے۔ پھر اللہ نے ان سے اسلام کے حق میں بہت کام لیا۔
ایسے ہی حالات کے بارے میں علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔
متن:
لیکن صورتِ استثناء سے پرہیز کرنا اولی و احوط ہے۔ کَمَا لَا یَخْفیٰ عَلَی المُنْصِفِ (جیسا کہ منصف لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے)۔
عقیدہ (20):
اور اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں اور ان سے بکثرت خوارق عادات واقع ہونے کی وجہ سے ان کی یہ بات عادت مستمرہ (دائمی) بن گئی ہے، اور کرامات کا انکار کرنے والا علم عادی اور ضروری کا انکار کرنے والا ہے۔ نبی کا معجزہ نبوت کے دعوے سے مقرون (ملا ہوا) ہوتا ہے، اور ولی کی کرامت اس معنی میں خالی ہے بلکہ اس نبی کی پیروی کے اعتراف کے ساتھ مقرون (ملی ہوئی) ہوتی ہے فَلَا اشْتِبَاہَ بَیْنَ المُعْجَزَۃِ و الْکَرَامَۃِ کَمَا زَعَمَ المُنْکِرُوْنَ (لہذا معجزہ اور کرامت کے درمیان کوئی اشتباہ نہیں رہا جیسا کہ منکروں نے گمان کیا ہے)۔
تشریح:
یہاں سے عقیدہ نمبر 20 کا بیان ہے، جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہے:
اولیاء اللہ کی کرامات حق ہیں۔
نبی کا معجزہ اس کی نبوت کی دلیل ہوتا ہے جبکہ ولی کی کرامت بھی در اصل اس کے نبی کا ہی معجزہ ہوتی ہے کیونکہ وہ اس سے صادر ہی اس لئے ہوتی ہے کہ وہ اپنے نبی کی پیروی کرنے والا ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر کسی ایسے آدمی سے خارقِ عادت امر ظاہر ہو جو نبی کی پیروی کرنے والا نہ ہو تو اسے کرامت نہیں کہتے بلکہ شیطانی استدراج کہتے ہیں۔
کرامت کے منکرین یہ خیال کرتے ہیں کہ کرامت کو ماننے سے ولی کو نبی ماننا لازم آتا ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل غلط ہے، کیونکہ معجزہ اور کرامت میں واضح فرق ہے۔ معجزہ نبوت کے وسیلے میں ملتا ہے جبکہ کرامت اتباعِ نبوت کے وسیلے میں ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا اب کوئی اشتباہ نہ رہا۔
متن:
عقیدہ (21):
اور خلفائے راشدین کے درمیان افضلیت کی ترتیب خلافت کی ترتیب کے مطابق ہے لیکن شیخین کی افضلیت صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ اکابرین ائمہ کی ایک جماعت نے جن میں امام شافعیؒ بھی ہیں جنہوں نے اس بات کو نقل کیا ہے کہ "الشیخ الامام ابو الحسن اشعریؒ فرماتے ہیں کہ "حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بقیہ تمام امت پر قطعی ہے" اور امام ذہبیؒ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان کی خلافت و مملکت کے زمانے میں آپ کے متبعین میں سے ایک جم غفیر کے سامنے تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ اِنَّ اَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ اَفْضَلُ اَلْاُمَّۃِ (ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تمام امت میں افضل ہیں)۔ پھر فرماتے ہیں کہ اس روایت کو اسی (80) سے زیادہ راویوں نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے روایت کیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رافضیوں کا برا کرے یہ کیسے جاہل ہیں۔ اور بخاری نے ان (حضرت علی رضی اللہ علیہ) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’خَیْرُ النَّاسِ بَعْدَ النَّبِی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ ثُمَّ رَجُلٌ اٰخَرُ فَقَالَ ابْنُہٗ مُحَمَّدُ بْنُ الحَنَفِیَّۃِ ثُمَّ اَنْتَ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا رَجُلٌ مِّنَ المُسْلِمیْنَ‘‘
(نبی ﷺ کے بعد تمام لوگوں میں بہتر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں پھر ایک اور شخص۔ (اس پر) آپ کے صاحبزادے محمد بن حنفیہؒ نے کہا کہ پھر آپ۔ (اس بات پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں)۔ امام ذہبیؒ وغیرہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ لوگ مجھے ان دونوں (شیخین) پر فضیلت دیتے ہیں، لہذا جو بھی مجھ کو ان پر فضیلت دیتا ہے وہ مفتری (جھوٹا) ہے اور اس کے لئے وہ سزا ہے جو ایک مفتری کی ہوتی ہے اور دار قطنی نے آپ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی ہے کہ میں جس کو پاؤں کہ وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ پر مجھے فضیلت دیتا ہے تو میں اس کو اتنے کوڑے لگاؤں گا جتنے ایک مفتری کو لگنے چاہئیں۔ اس قسم کی اور بہت سی روایتیں خود حضرت علیؓ سے اور آپ کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے اس کثرت اور تواتر سے آئی ہیں جس میں کسی کو انکار کی مجال نہیں حتی کہ عبد الرزاق جو اکابر شیعہ سے ہے کہتا ہے کہ: ’’اُفَضِّلُ الشَّیْخَیْنِ بِتَفْضِیْلِ عَلِیٍّ اِیَّاھُمَا علٰی نَفْسِہٖ وَ اِلَّا لَمَا فَضَّلْتُہُمَا کَفیٰ بِیْ وِزْرًا اَنْ اُحِبَّہٗ ثُمَّ اُخَالِفَہٗ‘‘ (میں شیخین کو اس لئے فضیلت دیتا ہوں کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر ان کو فضیلت دی ہے ورنہ میں ان (شیخین) کو کبھی فضیلت نہ دیتا۔ میرے نزدیک یہ گناہ ہے کہ میں ان (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے محبت کا دعوی کروں اور پھر ان (کے اقوال) کی مخالفت کروں)۔ یہ سب کچھ صواعق سے لیا گیا ہے۔
لیکن اب رہی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت سو اکثر علمائے اہلِ سنت اس مسلک پر ہیں کہ شیخین کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ افضل ہیں پھر اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ۔ اور ائمہ اربعہ مجتہدین کا مذہب بھی یہی ہے۔ اور بعض لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے جو توقف نقل کیا ہے، اس کے متعلق قاضی عیاضؒ نے فرمایا ہے کہ امام مالکؒ نے اس توقف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی طرف رجوع کر لیا ہے اور قرطبیؒ نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہی اصح ہے۔ اور اسی طرح وہ توقف جو بعض نے امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت سے سمجھا ہے کہ مِنْ عَلَامَاتِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ تَفْضِیْلُ الشَّیْخَیْنِ وَ مَحَبَّۃُ الخَتَنَیْنِ (اہل سنت و الجماعت کی علامت میں سے یہ بھی ہے کہ شیخین کو فضیلت دی جائے اور ختنین (دونوں داماد) (حضرت عثمان و حضرت علی سے محبت کی جائے)۔
اس فقیر کے نزدیک اس عبارت کے اختیار کرنے میں ایک دوسرا محل ہے کہ حضرات ختنین کی خلافت کے زمانے میں بہت زیادہ فتنے و فساد پیدا ہو گئے تھے جس کہ وجہ سے لوگوں کے دلوں میں بہت کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ اس لئے امام (ابو حنیفہؒ) نے اس بات کو مد نظر رکھ کر ان کے حق میں محبت کا لفظ اختیار کر لیا ہے اور ان کی دوستی کو علامات اہل سنت سے قرار دیا ہے، بغیر اس امر کے کہ کسی قسم کا توقف ملحوظ ہو، اور کیسے توقف ہو سکتا ہے کیونکہ حنفیوں کی کتابیں ایسے مضامین سے بھری پڑی ہیں کہ ان (خلفائے راشدین) کی فضیلت ان کی ترتیب، ترتیب خلافت کے مطابق ہے۔
مختصر یہ کہ شیخین کی افضلیت یقینی ہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت ان سے کم درجہ کی ہے۔ لیکن زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے منکر کو بلکہ شیخین کی افضلیت کے منکر کے لئے بھی ہم کفر کا حکم نہ لگائیں البتہ ان کو بدعتی و گمراہ جانیں، کیونکہ ان کی تکفیر میں علماء کا اختلاف ہے اور اس اجماع کے قطعی ہونے میں بہت قیل و قال ہے، اس کا منکر بد نصیب یزید کا ساتھی ہے، اسی احتیاط کی بنا پر اس (یزید) کے لعن طعن کرنے میں توقف کیا ہے۔ اور وہ ایذا جو حضرت پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کو خلفائے راشدین کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے وہ ایسی ہے کہ جیسی کہ حضرت امامین (حضرت امام حسن و امام حسین) کو ایذا رسانی کی جہت سے پہنچی ہے۔
تشریح:
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین کی مخالفت بھی نبی کریم ﷺ کے لئے ایسی ہی اذیت کا باعث ہے جیسے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو تکلیف دینا نبی کریم ﷺ کی تکلیف کا موجب ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے درجات بلند فرمائے۔ انہوں نے شیعہ سنی کے انتہائی اختلافات کے زمانے میں ایسا معتدل رویہ اختیار کیا کہ انصاف کا پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ساری عمر اہلِ تشیع کے باطل عقائد کے خلاف جہاد کرتے رہے مگر اہلِ بیت کی محبت کا دامن ایسی مضبوطی سے تھامے رکھا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ آج کل لوگ اعتدال کا رویہ قائم نہیں رکھتے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت میں اہلِ بیت کو بھول جاتے ہیں اور اہلِ بیت کی محبت میں آئیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نظر انداز کر جاتے ہیں۔ حالانکہ صحابہ اور اہل بیت کی محبت یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، ایک دوسرے کی مخالفت کا سبب نہیں ہیں۔ لیکن لوگ اعتدال کا راستہ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ جیسے صحابہ کی حمایت لازم ہے اسی طرح اہلِ بیت کی محبت لازم ہے۔ دونوں کی محبت کے حق میں روایات آئی ہیں۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ اہل بیت صرف اہل بیت ہی نہیں ہیں بلکہ وہ اعلیٰ درجے کے صحابہ بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما نہ صرف نبی کریم ﷺ کے اہل بیت کے سردار ہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں بھی ان کا درجہ بہت اونچا ہے۔
لہٰذا صحابہ و اہل بیت میں کوئی فرق نہیں سمجھنا چاہیے۔ دونوں کی محبت اور عزت اعلیٰ درجہ پر کرنی چاہیے۔ جیسے آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں، قرآن اور سنت چھوڑے جا رہا ہوں، اسی طرح یہ بھی فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں قرآن اور اپنی عترت (اہل بیت) چھوڑے جا رہا ہوں۔ لہٰذا دونوں گروہ ہمارے سروں کے تاج ہیں، دونوں کا احترام و ادب ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
آپ ائمہ اربعہ کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ہر دور کا امام اپنے دور کے اہل بیت کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر کھڑا رہا ہے۔
امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہما امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں: ”لَوْلَا سَنَتَانِ لَھَلَکَ النُّعْمَانُ“ ”اگر یہ دو سال (جو نعمان نے امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ گزارے) نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہو جاتا“۔
جب حضرت امام زید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے وقت کی حکومت کے خلاف خروج کیا تب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے با قاعدہ ان کی مدد کی تھی، کئی سو تولے سونا اور مال و زر ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ زیدی اور فقہ حنفی متعدد مسائل میں بہت قریب قریب ہیں۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام جعفر رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے امام موسٰی کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔
اہلِ بیت کے بارے میں احادیث شریفہ میں سفینۂ نوح کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اہلِ بیت سفینۂ نوح کی طرح ہیں۔ جو اس کشتی میں بیٹھ گیا وہ بچ گیا، اور جو اس سے باہر رہ گیا وہ تباہ و برباد ہو گیا۔
لہٰذا حق اور عدل کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے حضرات کا برابر ادب و احترام کیا جائے۔
مجھے ایک عالم نے عاشوراء کے دن فون کر کے پوچھا کہ آج دس محرم کا دن ہے کیا عمل کیا جائے؟ میں نے کہا آج سارا دن زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھیں اور اس کا ثواب امام حسین رضی اللہ عنہ کو بخش دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اگلے دن فون کر کے کہنے لگے کہ ہم (نعوذ باللہ) یزید زندہ باد کے نعرے لگانے والے تھے، لیکن کل کے دن جو آپ نے درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو ایصال کرنے کا عمل بتایا تو اس سے ہمارے دل بالکل صاف ہوگئے۔
میں نے سوچا کہ ان کی کیفیت کے ذریعے تو اصلاح ہو گئی، اب علمی اصلاح بھی ہونی چاہیے۔ کیونکہ بغیر علمی اصلاح کے کیفیت والی اصلاح کسی وقت واپس بھی ہو سکتی ہے۔ اس لئے میں نے ان سے سوال کیا کہ اگر کسی صحابی و تابعی میں اختلاف آ جائے تو کس کی بات مانی جائے گی؟ انہوں نے کہا: صحابی کی، اس لئے کہ باقاعدہ احادیث شریفہ کی کتابوں میں آتا ہے کہ ”اَلصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ“ (تمام صحابہ عادل ہیں)۔ میں نے کہا تو پھر بتاؤ کہ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے یا تابعی تھے؟ کہتے ہیں صحابی تھے۔ میں پوچھا: یزید تابعی تھا یا صحابی؟ کہنے لگے کہ اس میں کیا اختلاف ہے، وہ تابعی ہی تھا۔ میں نے کہا کہ جب وہ تابعی تھا اور اس کا اختلاف حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ہوا تو ہمارے اصول کے مطابق حق پر کون ہوا؟ ظاہر ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ حق پر ہیں۔ الحمد للہ اس سے ان کا دل اور دماغ دونوں صاف ہو گئے۔
بہرحال صحابہ کرام، اہل بیت اور امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین تینوں گروہ ہی نبی کریم ﷺ کے صحابہ ہیں، لہٰذا ہمیں تینوں گروہوں کی خوبیوں میں ہی زبان کھولنی چاہیے۔ ایسا کلمہ سوچنا بھی نہیں چاہئے جس سے کسی ایک صحابی کی بے ادبی کا شائبہ تک ہوتا ہو۔
متن:
آنحضرت علیہ و علی الہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
’’اللهَ اللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ اللهَ اللهَ فِيْ أَصْحَابِيْ لَا تَتَّخِذُوْهُمْ غَرَضًا بَعْدِيْ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِيْ وَمَنْ آذَانِيْ فَقَدْ آذَى اللهَ وَمَنْ آذَى اللهَ فَیُوْشِکُ اَنْ یَّاْخُذَہٗ‘‘ (مسند احمد: 20548)
ترجمہ: ’’میرے اصحاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ میرے بعد ان کو نشانہ (ملامت) نہ بنانا۔ جس نے ان کو دوست رکھا اس نے گویا میری محبت کے باعث ان کو دوست رکھا۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے گویا میری دشمنی کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔ اور جس نے ان کو ایذا دی اس نے گویا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو ایذا دی (یعنی اللہ تعالیٰ کو ناراض کیا) اور جس نے اللہ تعالیٰ اور رسول (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ایذا دی قریب ہے کہ وہ (اللہ تعالیٰ) اس سے مواخذہ کرے گا‘‘۔
اور اللہ تعالیٰ عزوجل نے فرمایا:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ﴾ (الأحزاب: 57)
ترجمہ: ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے“۔
اور جو کچھ مولانا سعد الدین نے شرح عقائد نسفی میں اس فضیلت کے بارے میں انصاف سمجھا ہے وہ انصاف سے دور ہے اور جو تردید انہوں نے کی ہے وہ سراسر لا حاصل ہے، کیونکہ علماء کے نزدیک یہ بات مقرر ہے کہ اس جگہ افضلیت سے وہ مراد ہے جو خدائے جل و علا کے نزدیک کثرت ثواب کے اعتبار سے ہے، نہ کہ وہ افضلیت جو فضائل و مناقب بکثرت ظاہر ہونے کے اعتبار سے ہو، کیونکہ ایسی فضیلت عقل مندوں کے نزدیک اعتبار کے لائق ہے۔ اور سلف صحابہ و تابعین نے جس قدر فضائل و مناقب حضرت امیر کے نقل کئے ہیں وہ اور کسی صحابی کی نسبت منقول نہیں۔ حتی کہ امام احمدؒ نے فرمایا ”جو فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آئے ہیں وہ کسی اور صحابی کی نسبت نہیں آئے“۔
تشریح:
بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام بہت اونچا ہے، لیکن اس پر امت کا اجماع ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد پوری امت میں سب سے افضل حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف نہیں کرنی چاہیے۔ یقیناً ان کی بہت زیادہ تعریف اور خوبیاں بیان کرنی چاہئیں اور ان کی مدح پر مشتمل روایات کو عام کرنا چاہیے۔ بلکہ جتنا زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف کی جائے گی، حضرات شیخین کا مقام اتنا ہی بڑھتا جائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے نچلے ہاتھ کو جتنا اوپر اٹھائیں اوپر والا ہاتھ مزید اوپر ہوتا چلا جاتا ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بارے میں بڑی عجیب تحقیق کی ہے۔ فرمایا: ”خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ“۔ اس جملہ میں ”قَرْنِیْ“ کے لفظ میں یہ نکتہ ہے کہ ”ق“ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے، ”ر“ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے، ”ن“ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے اور ”قرنی“ کے آخر میں جو ”ی“ ہے اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہے۔ در اصل یہ ترتیب کوئی انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ ہے۔ اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جو کام لینا تھا وہ کوئی اور نہیں کر سکتا تھا، اس کے لئے صدیق ہی بنے تھے، وہ کام پہلے ہونا تھا، بعد میں نہیں ہو سکتا تھا، اس کے لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تشکیل کی گئی تھی۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، تب بیک وقت کئی بڑے بڑے مسائل سامنے آ گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیک وقت تمام محاذوں پہ کام کیا، کسی ایک کو بھی موقوف یا مؤخر نہیں کیا۔ بعض مسئلوں میں کچھ صحابہ کرام متردد ہو گئے تھے، بعض صحابہ کرام کی رائے یہ ہوئی کہ کچھ محاذوں پر ابھی کام نہ کیا جائے انہیں مؤخر کر دیا جائے لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خواہ کچھ بھی ہو جائے ہمیں تمام محاذوں پہ کام کرنا ہے، چاہے مجھے اکیلے ہی کیوں نہ کرنا پڑے میں ضرور کروں گا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم کرے ان کی وجہ سے ہم بچ گئے۔
کچھ بہت بڑے کام تھے جو اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لئے۔ گو ان کی خلافت کی مدت ڈھائی سال ہے لیکن یہی ڈھائی سال اگلی تمام خلافتوں کے لئے بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ بعد کی خلافتوں میں جتنے کام ہوئے ان کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور میں قائم کر کے گئے تھے۔ اگر وہ بنیاد نہ بناتے تو درست عمارت کیسے بنتی۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کام سرانجام دیئے جو دور اندیشی سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کیے گئے تمام کام ایسے ہیں جن میں استقامت، اور یقین محکم درکار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے وہ کام لئے جن کی بنیاد استقامت اور یقینِ محکم کے ذریعے مضبوط ہوتی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ کام لئے جو دور اندیشی کے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ پاک نے ایسی فراست اور دور اندیشی عطا فرمائی تھی کہ آپ نے جو قوانین بنائے وہ آج ترقی یافتہ ممالک میں Umar laws کے نام سے نافذ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی محکمے ایسے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے دنیا میں ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا آپ نے پہلی مرتبہ وہ محکمے قائم کئے۔ ایسے کاموں کی ایک طویل فہرست ہے جو آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مستشرقین کا کہنا ہے کہ اگر ایک عمر اور ہوتے تو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہ رہتا۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اللہ پاک نے بے مثال قربانی لی ہے۔ جب بلوائیوں نے حملہ کیا تو خلیفہ ہونے کے با وجود اپنے حق میں تلوار نہیں چلائی۔ بلوائیوں اور فسادیوں کی ہر شرارت کے جواب میں دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ اے عثمان! اللہ پاک تجھے ایک قمیص پہنائے گا لوگ تجھ سے وہ قمیص اتروانا چاہیں گے مگر تم اسے مت اتارنا۔ اور وہ قمیص خلافت ہے، لہٰذا میں خلافت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان ایک دفعہ تلوار چل گئی تو پھر وہ رکے گی نہیں، چلتی ہی رہے گی۔ لہذا میں نہیں چاہتا کہ میرے ہوتے ہوئے میری وجہ سے مسلمانوں میں تلوار چلے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرات حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی ذمہ داری لگائی کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پہ پہرا دیں، کوئی اندر نہ جانے پائے۔ اس دروازے سے کوئی نہیں جا سکا، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قتال کی اجازت مانگی گئی کیونکہ خلیفہ کی اجازت کے بغیر قتال نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قتال کی اجازت نہیں دی۔ جب داخلی دروازے سے کوئی حملہ آور اندر نہ جا سکا تو وہ بد بخت پیچھے سے دیوار پھلانگ کے آ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حملہ آوروں کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا، اپنے اوپر حملہ کرتے ہوئے دیکھا لیکن فوج کو ایک مرتبہ بھی حکم نہیں دیا کہ ان کو گرفتار کرو اور ان سے قتال کرو۔ آپ حِلم کا پہاڑ تھے۔ اس درجہ کا حِلم اور برد باری اللہ پاک نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ظاہر کروائی۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا بہت اونچا مقام ہے۔ آپ بہت بڑے فقیہ تھے، مشکل سے مشکل مسئلے چٹکیوں میں حل کر دیتے تھے۔ جو فتنہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں آیا، اگر یہ کسی اور کے دور میں آتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی فقاہت تو کسی میں نہ تھی، اس لئے وہ مسئلہ حل نہ ہو پاتا۔ اللہ پاک نے ان کو جس کام کے لئے بنایا تھا ان سے وہی کام لیا، آج بھی مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو تو فیصلہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا تھا تمہیں ابتلا میں ڈالا جائے گا، ایسے ابتلا میں جس میں تم سے پہلے کوئی نہ آیا ہوگا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک شقی (بد بخت) ہو گا جو تیری داڑھی کو تیرے خون سے سرخ کر دے گا۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس امت کا سب سے بڑا شقی وہ ہے جس نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا۔ اس خبیث شقی کا نام ابن ملجم تھا۔ جس وقت اسے قصاص میں مارا جانے لگا تو جب اس کے ہاتھ کاٹے گئے تو اس نے کچھ نہیں کہا، پیر کاٹے گئے تو اس نے کچھ نہیں کہا، کان کاٹے گئے تو کچھ نہیں کہا، آنکھوں میں گرم سلائی ماری گئی، آنکھیں بہہ گئیں تو کچھ نہیں کہا، لیکن جب اس کی زبان کاٹی جانے لگی تو رونے لگ گیا، پوچھا گیا کہ اب تمہیں ندامت ہو رہی ہے؟ کہنے لگا میں اس زبان سے روزانہ ستر ہزار مرتبہ ذکر کرتا ہوں، اس لئے رو رہا ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ خارجیت اتنی بڑی غلاظت ہے کہ ذکر کے ذریعے سے بھی کم نہیں ہو سکتی۔ خارجی کی نظر اپنے اوپر ہوتی ہے کہ میں جو سوچتا ہوں بس وہی ٹھیک ہے، وہ کسی اور کی سوچ کو نہیں مانتا اور خود سے اختلاف کی اجازت نہیں دیتا۔ آج بھی جو لوگ ان کے نقشِ قدم پہ چلتے ہیں ان کا حال ایسا ہی ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن میں بہترین فیصلہ فرمایا ہے۔ سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں حضرت نے لکھا ہے کہ سورۂ فاتحہ میں اللہ پاک نے ہمیں دعا کا طریقہ سکھلاتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اللہ پاک سے سیدھا راستہ مانگو، اور سیدھا راستہ ان لوگوں کا ہے جن پہ اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، اور وہ لوگ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک چاہتے ہیں کہ ہم رجال اللہ یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے نقشِ قدم پہ چلیں اور رجَال الشیطان کی پیروی سے بچیں۔ پھر اس کے فوراً بعد سورۂ بقرہ کی ابتدا میں ہی کتاب کا ذکر فرمایا کہ یہ کتاب متقین کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔
لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ ھدایت کے لئے دونوں چیزیں ضروری ہیں، رجال اللہ بھی ضروری ہیں اور کتاب اللہ بھی ضروری ہے۔ جو لوگ صرف رجال کو لیتے ہیں کتاب کو نہیں لیتے وہ گمراہ ہیں۔ (جیسے فاطمین) اور جو لوگ صرف کتاب اللہ کو لیتے ہیں، رجال اللہ کو نہیں لیتے وہ بھی گمراہ ہیں (جیسے خوارج)۔
ایک مرتبہ میں ایک علاقے میں بیان کرنے کے لئے گیا۔ وہاں کے لوگ ذرا متعصب قسم کی طبیعت کے مالک تھے۔ جب میں بیان کر چکا تو تقریباً پچاس، ساٹھ لوگوں نے بیعت بھی کر لی۔ کچھ عرصہ بعد ان کی دعوت پر میں دوبارہ بیان کے لئے گیا تو ان متشددین نے کچھ شرارت کی کہ قرآن مجید کی ایک آیت کو سامنے رکھ کر کہا کہ دیکھیں اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کو ہی اپنا راہنما بنانا چاہیے، لہٰذا پیر قرآن ہی ہو سکتا ہے کوئی آدمی پیر نہیں ہو سکتا۔
خیر اس وقت میں نے ان کی بات کو نظر انداز کر دیا اور بیان شروع کر دیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ بیان کرنے کے بعد آخری پانچ منٹ میں ان کے اس اعتراض کا جواب دیا۔ اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہی تفسیر عرض کی کہ رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں ضروری ہیں، دونوں میں سے کسی ایک کو چھوڑنے سے گمراہی کا خطرہ ہے۔
خوارج صرف کتاب اللہ کو مانتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ان کی سر کوبی کے لئے گئے تو پہلے بات چیت کے لئے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ بعد میں خود تشریف لے گئے۔ خوارج چونکہ ہر بات کو قرآن سے ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اس لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے قرآن رکھا اور قرآن سے مخاطب ہو کر کہا: ”یَا مُصْحَفُ کَلِّمِ النَّاسَ“ (اے مصحف! لوگوں سے بات کر)۔ خوارج کہنے لگے کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں، بھلا قرآن کیسے بات کرے گا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں وہی کہہ رہا ہوں جو تم چاہتے ہو۔ اگر تم صرف قرآن کو مانتے ہو، کسی اور چیز کو نہیں مانتے تو پھر قرآن ہی تم سے بات کرے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ خوارج کے ساتھ حدیث پہ بات کرنا، قرآن پہ بات نہ کرنا، کیونکہ یہ قرآن کے معنی اپنی مرضی کے ایجاد کر لیں گے، اپنی طرف سے مفہوم گھڑ لیں گے۔
خیر میں نے یہ ساری تفصیل اس درس میں بیان کی تو الحمد للہ لوگ سمجھ گئے اور 11 لوگ مزید سلسلہ میں داخل ہو گئے۔ اس لئے میں ہمیشہ یہ بات کہتا ہوں کہ دین میں تشدد اور تعصب نہیں کرنا چاہیے۔
متن:
اس کے با وجود تینوں خلفاء کی فضیلت کے بارے میں حکم کرتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ افضلیت کی وجہ ان فضائل و مناقب کے علاوہ کچھ اور ہے، اور اس افضلیت کی اطلاع "دولت وحی" کے مشاہدہ کرنے والوں کو میسر ہے جنہوں نے صریح طور پر یا قرائن سے معلوم کیا ہے اور وہ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے صحابہ ہیں۔ لہذا جو کچھ شارح عقائد نسفی نے بیان کیا ہے کہ افضلیت سے مراد کثرت ثواب ہے تو وہ توقف کی گنجائش سے ساقط ہے کیونکہ توقف کے لئے اس وقت گنجائش ہوتی ہے جب کہ اس افضلیت کو صاحبِ شریعت کی طرف سے صراحۃً یا دلالۃً معلوم نہ کر لیا ہو۔ اور جب معلوم کر لیا ہے تو پھر توقف کیوں۔ اور اگر معلوم نہیں کیا تو افضلیت کا حکم کیوں کریں اور جو شخص سب کو برابر سمجھتا ہے اور ایک دوسرے پر افضلیت دینا بے کار سمجھتا ہے وہ فضول اور لا حاصل ہے۔ وہ عجیب احمق ہے جو اہلِ حق کے اجماع کو فضول و بے کار سمجھتا ہے۔
شاید فضل کا لفظ اس کو فضولی کی طرف لے گیا ہے۔ اور جو کچھ صاحبِ فتوحات مکیہ کہتے ہیں کہ ان کی خلافت کی ترتیب کا سبب ان کی عمروں کی مدتوں سے ہے۔ (یہ بات) ان کی فضیلت میں مساوات پر دلالت نہیں کرتی۔ کیونکہ خلافت کا معاملہ دوسرا ہے اور افضلیت کی بحث دوسری ہےـ اور اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے تو یہ اور اس قسم کی دوسری باتیں جو ان (شیخ اکبرؒ) کی شطحیات سے ہیں ان کی شان کے لائق نہیں ہیں، ان کے اکثر کشفیہ معارف جو اہل سنت کے علوم سے جدا واقع ہوئے ہیں وہ صواب سے دور ہیں، لہذا ایسی باتوں کی متابعت وہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل بیمار ہے یا مقلد محض ہے۔
اور صحابہ کے درمیان جو لڑائی جھگڑے واقع ہوئے ان کی اچھے معنوں میں تاویل کرنی چاہیے اور نفسانی خواہش و تعصب سے دور رکھنا چاہیے ـ تفتازانیؒ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی افراطِ محبت کے با وجود فرماتے ہیں "جو مخالفات و محاربات (جنگ و جدال) ان (صحابہ) کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ خلافت کا نزاع نہ تھا بلکہ خطائے اجتہادی کے سبب سے تھاـ اور اس (شرح عقائد) کے حاشیہ "خیالی" میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر نے (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کی اطاعت سے بغاوت کی اور ساتھ ہی اس امر کا اعتراف بھی کیا کہ وہ (حضرت علی رضی اللہ عنہ) تمام اہلِ زمانہ سے افضل ہیں اور وہ امامت کے ان سے زیادہ حق دار ہیں۔ ایک شبہ کی وجہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں سے قصاص نہ لینا تھا اور حاشیہ قرہ کمال (کمال الدین اسمعیل) میں حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "ہمارے جن بھائیوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی وہ فاسق و کافر نہیں ہیں کیونکہ ان کے لئے تاویل ہے" اور اس میں شک نہیں کہ خطائے اجتہادی ملامت اور طعن و تشنیع سے بہت دور ہے۔
حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات کے حقوق صحبت کی رعایت کر کے تمام صحابہ کرام کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا چاہیے اور پیغمبر علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کی دوستی کی وجہ سے ان کو دوست رکھنا چاہیے۔ (کیونکہ) آنحضرت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
’’مَنْ اَحَبَّھُمْ فَبِحُبِّیْ اَحَبَّھُمْ وَمَنْ اَبْغَضَھُمْ فَبِبُغْضِیْ اَبْغَضَھُمْ‘‘ (سنن ترمذی: 3862)
ترجمہ: ’’جس نے ان (صحابہ) کو دوست رکھا اس نے میری محبت کی وجہ سے ان کو دوست رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا‘‘۔
یعنی وہ محبت جو میرے اصحاب سے متعلق کی گئی ہے ایسی ہی محبت ہے جیسی کہ مجھ سے متعلق ہے اور اسی طرح وہ بغض جو ان سے تعلق رکھتا ہے ایسا ہی بغض ہے جیسا کہ مجھ سے کیا جائے۔
تشریح:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ پاک نے خصوصی طور پر نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے دین کے فروغ کے لئے چن لیا تھا۔ اس لئے نبی کریم ﷺ کو بھی ان کے ساتھ محبت تھی اور صحابہ کرام کو بھی نبی کریم ﷺ کے ساتھ محبت تھی۔ اللہ جل شانہ کو بھی صحابہ کرام کے ساتھ محبت تھی اور صحابہ کرام کو بھی اللہ پاک کے ساتھ محبت تھی۔ اس وجہ سے جو صحابہ کرام کے ساتھ محبت رکھتے ہیں وہ نبی کریم اور اللہ پاک کی محبت کے مستحق بن جاتے ہیں اور جو ان کے ساتھ بغض رکھتے ہیں وہ اللہ پاک کے غضب کے مستحق بن جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کی نسبت کا خیال نہیں رکھا اور صحابہ کرام کی صحابیت کی قدر نہیں کی، اور اللہ پاک یہ گناہ معاف نہیں فرماتے۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے انتہائی وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ جنہوں نے ان کے ساتھ محبت رکھی در اصل انہوں نے میرے ساتھ محبت رکھی اور جنہوں نے ان سے بغض رکھا در اصل انہوں نے مجھ سے بغض رکھا۔
متن:
ہم کو حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جنگ کرنے والوں سے کوئی دوستی نہیں ہے بلکہ مناسب ہے کہ ہم ان سے بیزار ہوں، لیکن چونکہ وہ سب پیغبرﷺ کے اصحاب کرام ہیں "کہ ما بمحبتِ ایشاں ماموریم و از بغض و ایذائے ایشاں ممنوع" یعنی ہم کو ان کے ساتھ محبت رکھنے کا حکم ہے اور ان کے ساتھ بغض و ایذا رسانی سے روک دیئے گئے ہیں۔ اس لئے لازماً ہم بھی پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات والتسلیمات کی دوستی کی وجہ سے تمام صحابہ کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بغض و ایذا رسانی سے دور رہتے ہیں کیونکہ ان سے بغض و ایذا کا معاملہ سرور عالم تک پہنچتا ہے لیکن جو محق (حق پر) ہے ہم اس کو حق والا ہی کہیں گے اور مخطی (بلا قصد خطا وار) کو مخطی ـ حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) حق پر تھے اور ان کے مخالف خطا پر۔ اس سے زیادہ کہنا فضول ہے ـ
تشریح:
خطا مختلف وجوہات سے ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی کو پورا علم نہ ہو، یا کسی کو وہ بات پوری طرح سمجھ نہ آئی ہو۔
یہ معاملہ ایسا عجیب اور نازک ہے کہ اگر آپ ایک فریق کی سن لیں تو اسی کو حق پر سمجھیں گے جب تک کہ دوسرے کو نہ سن لیں۔ اگر دوسرے کو پہلے سن لیں تو آپ کو یوں لگے گا کہ وہی حق پر ہے۔
جنہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ اختلاف کیا ان کا کہنا یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاتلینِ عثمان سے قصاص کیوں نہیں لیا۔ دوسرا ان کا یہ کہنا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین میں سے کچھ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں مل گئے ہیں ان کو فوج سے نکال باہر کیوں نہیں کیا۔
اگر آپ کو صرف اتنی ہی بات بتائی جائے اور دوسرے فریق کا موقف سنایا ہی نہ جائے تو آپ کو یہ مطالبات بالکل حق بجانب لگیں گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا موقف یہ تھا کہ اصول یہ ہے کہ حد خلیفہ ہی نافذ کر سکتا ہے، قصاص خلیفہ ہی لے سکتا ہے۔ جب تک آپ لوگ مجھے خلیفہ نہیں مانتے تب تک میں قاتلینِ عثمان سے قصاص کیسے لے سکتا ہوں؟ اگر مجھے خلیفہ بنایا جائے گا تو پھر یہ کام میری ذمہ داری بن جائے گا۔ لہٰذا پہلے مجھے خلیفہ مان کر میرے ہاتھ پہ بیعت کرو پھر اس کے بعد قاتلینِ عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ کرو۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا موقف بالکل درست تھا، دوسری طرف کے حضرات اجتہادی خطا پر تھے۔ دونوں طرف کے حضرات میں سے گناہ گار کوئی بھی نہیں ہے، بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور آپ کے پیروؤں کے لئے دگنا اجر ہے، کیونکہ آپ اپنے اجتہاد میں مُصیب (حق پر) ٹھہرے، جبکہ دوسرے فریق کے لئے ایک اجر ہے کیونکہ وہ اپنے اجتہاد میں مخطی ٹھہرے۔ اور اجتہاد اگر درست نکلے تو دگنا اجر ملتا ہے، اور اگر غلط نکلے تو ایک اجر ملتا ہے۔ گناہ کسی صورت میں نہیں ملتا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اختلاف کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے عام مسائل میں ائمہ کا اجتہادی اختلاف ہوتا ہے۔ جیسے فاتحہ خلف الامام، رفع یدین اور دوسرے اجتہادی اختلافی مسائل ہیں۔ در حقیقت ان مسائل میں دونوں طرف کے لوگوں میں سے گمراہ یا گناہ گار کوئی بھی نہیں ہوتا، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ایک فریق کو دگنا اجر ملتا ہے اور دوسرے فریق کو ایک گنا اجر ملتا ہے۔ دگنے اجر والا فریق کون سا ہے اور ایک گنا اجر والا فریق کونسا ہے، یہ اللہ ہی جانتا ہے۔
ائمہ کرام کے درمیان اجتہادی اختلاف عبادات اور معاملات کے مسائل میں ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے درمیان اُس موقع پر قتال کے بارے میں اختلاف ہو گیا تھا، معاملہ اجتہادی ہی تھا اس لئے دونوں طرف کے حضرات اجر کے مستحق ٹھہرے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو مشاجراتِ صحابہ کے مسئلے میں آگے بڑھنے سے روکا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میرے کسی صحابی کے بارے میں پتا چل جائے کہ اس نے قتل کیا ہے پھر بھی اس کے بارے میں بے ادبی کی بات نہ کرو۔ جب آپ ﷺ نے اس حد تک فرما دیا ہے تو اب ہماری کیسے جسارت ہوتی ہے کہ ہم اس معاملے میں زبانیں دراز کریں۔ لہٰذا جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ہم بھی بالکل اس طرح کریں گے۔ اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ