مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 06

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
خیبر پختونخواہ میں ایک بہت بڑے بزرگ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں۔ ہمارے جدِ امجد ہیں اور جو حضرات بزرگوں کے مقامات کے بارے میں معلومات رکھتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ خیبر پختونخواہ میں ان کے بعد ان کے درجے کا کوئی ولی اللہ نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا تھا۔ ان کے بارے میں ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حلیم گل بابا کے نام سے معروف ہیں، بہت بڑے شیخ تھے، انہوں نے مقالات لکھے ہیں، مقالہ چہارم اللہ جلّ شانہ‬ کی معرفت کے بارے میں ہے۔
متن:
مقالۂ چہارم، اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں:
یہ بات جان لینی چاہیے کہ معرفت مومن کی روح کا جوہر ہے۔ جس کسی کو معرفت حاصل نہیں وہ خود موجود نہیں۔ صانع یعنی بنانے والے کی پہچان اور معرفت مصنوع سے حاصل ہوتی ہے۔
تشریح:
یعنی جو چیز جس نے بنائی ہے اس سے اس کی معرفت ہوتی ہے۔
متن:
پہلی معرفت یہ ہے کہ تمام چیزوں اور ساری کائنات کو مغلوب، عاجز اور محکوم پہچانا جائے۔
تشریح:
یعنی تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے ارادے کے سامنے عاجز، مغلوب اور محکوم ہیں۔
متن:
اور اپنی نیت سب سے قطع کرے۔
تشریح:
یعنی صرف اور صرف اللہ کی رضا مطلوب ہو۔
متن:
اور یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کی ذات و صفات قدیم ہیں۔
تشریح:
یعنی اللہ جلّ شانہ کی صفات بھی قدیم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات بھی قدیم ہے۔ ازل سے ہے اور ابد تک ہے، اس میں ہمیشگی ہے۔
متن:
﴿لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشورى: 11)
ترجمہ: ’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں ہے، اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘
اور صانع کی معرفت کا دوسرا راستہ یہ ہے کہ جیسا کہ کہا گیا ہے "مَنۡ عَرَفَ نَفۡسَہٗ فَقَدۡ عَرَفَ رَبَّہٗ"
ترجمہ: ’’جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی قدرت کو آسمانوں اور کائنات میں ظاہر فرمایا اور وہ قدرت کاملہ یہ ہے کہ کائنات کی اشیاء کو نیست و ہست اور موجود و فنا کرتا ہے اور مخلوقات کے حالات کو تغیّر دیتا ہے۔ دن رات کا پیدا کرنا اور ان میں کمی بیشی کرنا اور فراخی و تنگی کو اپنی مخلوقات کے درمیان پیدا کرنا اور حکومت کا لینا اور دینا اور جو کچھ کہ دنیا کے حالات ہیں وہ آفاق میں ظاہر کر لیتا ہے۔
تشریح:
اصل میں جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے وہ ہمیشہ لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ جس نے مجھے کوئی بھی نعمت دی ہے وہ واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔ مثلاً گزشتہ دور کے بادشاہوں کے دربار میں جو شخص بادشاہ سے بات کرنا چاہتا تو اس سے پہلے ایک فقرہ ضرور بولتا کہ ”اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟“ کیونکہ اس کو پتا ہوتا تھا کہ بادشاہ کسی بات پہ بھی ناراض ہو کر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ چنانچہ ہر وقت انسان خطرے میں ہوتا تھا۔
اِس دور میں بھی جو لوگ حکومت کے قریب ہوتے ہیں وہ پریشانی میں ہوتے ہیں۔ درمیان میں فرق بہت زیادہ ہے اس وجہ سے ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ پتا نہیں کسی بات پہ ناراض ہو کر میرے بارے میں کیا فیصلہ کر دے؟ اسی طرح جو اللہ جلّ شانہ کی صفات کی معرفت رکھتا ہے وہ ہمیشہ لرزاں و ترساں رہے گا۔
حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ بڑے عارفین میں سے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑا مقام عطا فرمایا تھا۔ سلطان العارفین کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے:
"عدل کرے تاں تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے
فضل کرے تاں بخشے جاون میں جیہے مُنہ کالے"
یعنی اگر اللہ پاک عدل کرے تو اونچی شان والے بھی تھر تھر کانپتے ہیں اور رحم کرے تو مجھ جیسا منہ کالا بھی بخشا جائے گا۔ اور بھی ان کے اشعار ہیں۔ جیسے: ”الف اللہ چنبے دی بوٹی“۔ مقصد یہ ہے کہ ان حضرات نے چونکہ دیکھا، محسوس کیا، سنا، جانا اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ایسا ہو گیا کہ وہ ہر وقت مستحضر رہتی ہیں۔
وقتی طور پہ ایک چیز کا جاننا اور بات ہے اور ایک عمل کے وقت جاننا دوسری بات ہے۔ بعض لوگ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن عین وقت پہ ان کو ادراک اور استحضار نہیں ہوتا، نتیجتاً رہ جاتے ہیں۔ بعض لوگ علم کے لحاظ سے تھوڑا جانتے ہیں لیکن وقت پر ان کو یاد ہوتا ہے تو ما شاء اللہ آگے چلے جاتے ہیں۔
ایک فقیر بادشاہ کے پاس آیا اور کہا: اَلسَّلامُ عَلَيْكُم يَا اَیُّھَا الزّاہِد ”اے زاہد آپ کے اوپر سلام ہو“ بادشاہ نے کہا: خبر بھی ہے کہ میں کون ہوں؟ فقیر نے کہا: آپ بادشاہ ہیں۔ کہتا ہے: بادشاہ زاہد ہوتا ہے؟ فقیر نے جواب دیا: بادشاہ یہ دنیا تھوڑی ہے یا وہ دنیا تھوڑی ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ یہ دنیا تھوڑی ہے۔ فقیر بولا: آپ اس دنیا پہ تکیہ لگائے بیٹھے ہیں یا اس دنیا پہ لگائے بیٹھے ہیں؟ بادشاہ فوراً سمجھ گیا اور کہا: صحیح کہتے ہو -جزاک اللہ۔ یہ زاہد کا استحضار ہے۔ یعنی زاہد کا عرف میں معنیٰ یہی ہے کہ دنیا کو چھوڑ دے لیکن اس بزرگ نے مشاہدہ کر کے بادشاہ کو بتایا کہ حقیقت میں آپ آخرت کو چھوڑ رہے ہیں جو بہت بڑی چیز ہے۔ اس معنی میں آپ زاہد ہیں۔ یہی معرفت ہے۔
متن:
اور جو کچھ کہ دنیا کے حالات ہیں وہ آفاق میں ظاہر کر لیتا ہے۔ تاکہ موحّدین اور توحید پرست لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر معرفت حاصل کریں۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں بھی اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ﴿وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ (‎آل عمران: 27)
ترجمہ: "اور تو ہی بے جان چیز میں سے جاندار کو بر آمد کر لیتا ہے اور جاندار میں سے بے جان چیز نکال لاتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق عطا فرماتا ہے۔"
واقعتاً اللہ جلّ شانہ کی ذات کے بارے میں علم ہوتا رہے تو اس کی پھر اپنی ہی شانیں ہیں۔ اگر صفات اس طرح ظاہر ہو جائیں جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے تو اس وقت انسان اللہ کی محبت میں بے بس ہوتا جاتا ہے اور اگر صفات کا ظہور ایسا ہو کہ جس سے خوف طاری ہو جائے تو اس وقت انسان خوف سے تھر تھر کانپ رہا ہوتا ہے۔ خوف اور محبت دونوں ہی بڑے اونچے مقامات ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ اگر کسی کی آنکھوں سے تنہائی میں خوف یا محبت کی وجہ سے آنسو کا قطرہ نکلے تو اس پر اللہ جلّ شانہ بہت زیادہ نوازتے ہیں۔ یہ سب معرفت کی برکت سے ہوتا ہے۔
متن:
جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ ﴿سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ﴾ (حم السجدة: 53)
ترجمہ: ”ہم انہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے۔“
چونکہ آفاق کا یہ راستہ عارف کے واسطے بہت دراز اور طویل تھا اس لئے ایک چھوٹا اور مختصر راستہ بھی بتلا دیا اور فرمایا ﴿وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاريات: 21)
ترجمہ: ”اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی۔ کیا پھر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟“
آدمی کے نفس کو موجودات کی مثال پر بنایا ہے اور اس کو اپنی معرفت کے لئے ایک سیڑھی بنا رکھا ہے تاکہ اپنے نفس کو پہچان جائے تو وہ صانع کو خود بخود پہچان جائے گا اور وہ معرفت خود اپنے نفس کی تفسیرِ احوال ہے۔ مثلاً بیماری، تندرستی، نیند، بیداری، موت، زندگی، غمی اور شادی اور فِی الْاٰفَاقِ کے معنی ہیں کہ سب مخلوق کا تغیّر و تبدیلی ان کے اختیار و ارادہ کے بغیر اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مدبِّر اور قادر موجود ہے۔
تشریح:
اللہ جلّ شانہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اگر اللہ ایک نہ ہوتا تو یہ سارے انتظامات کیسے صحیح صحیح ہوتے؟ انسان بعض چیزوں کو براہِ راست جانتا ہے اور بعض چیزوں کو براہِ راست نہیں جانتا ہے۔ سائنس کی دنیا میں سب سے زیادہ چیزیں بالواسطہ جاننے کی وجہ سے ہیں۔ اصل میں سائنس دان بیچارے ہوتے ہیں، یہ بہت کچھ جاننے کے با وجود بھی اس لئے محروم ہوتے ہیں کہ اپنے حالات سے تھوڑا سا باہر نکل کے نہیں سوچتے۔ بعض دفعہ تھوڑا سا باہر نکل کر سوچنے کی بات ہوتی ہے۔ اللہ پاک نے جو سارا نظام بنایا ہوا ہے اس میں ہم لوگ سب کچھ بالواسطہ جانتے ہیں۔ سائنس کی دنیا میں بہت ساری دریافتیں ایسٹرو فیزکس کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ ایسٹرو فیزکس سارے کا سارا بالواسطہ ہے۔
ستاروں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے اور یہ اتنا بڑا ستارہ نہیں ہے بلکہ ایسے ستارے موجود ہیں جن میں ایک ارب سورج سما سکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی راکٹ اس کے رخ پہ چلا جائے تو زہرہ تک بھی نہ پہنچ پائے گا اور جل جائے گا۔ ایک راکٹ بھیجا گیا تھا، اس کا چند منٹوں کے بعد سگنل آیا تھا کہ میں پگھل رہا ہوں اور ختم ہو گیا۔ پہلے عطارد ہے اس کے بعد زہرہ ہے اس کے بعد زمین ہے۔ یہاں اتنی گرمی ہے تو اس سے آگے کتنی گرمی ہو گی! پھر باقی بڑے ستاروں کا کیا حال ہو گا؟ وہاں تک پہنچ تو نہیں سکتے لیکن سارے بالواسطہ پیمانے جیسے pyrometry وغیرہ دور سے اس کا با قاعدہ درجہ حرارت معلوم کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت ساری چیزیں جو بالواسطہ پیمائش ہیں، اس سے ہم بھی پہنچ جاتے ہیں۔ مثلاً بجلی کو کوئی دیکھ نہیں سکتا لیکن اس کی معرفت سب کو معلوم ہے کہ پنکھا اس کے ساتھ چلتا ہے، بلب اس کے ساتھ روشن ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں: بجلی آ گئی تو بجلی کو آتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا۔ البتہ بجلی کی وجہ سے روشن چیزوں کو اور بجلی سے چلتی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر آدمی کہتا ہے کہ بجلی آ گئی۔ بعینہٖ اللہ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا لیکن لوگ مظاہرِ قدرت دیکھ رہے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں، پھر کیسے اللہ کو نہیں پہچان رہے؟ سائنس بجلی کو نہیں دکھا سکتی وہ یہ کہتے ہیں کہ بجلی آ گئی۔ تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی ضد کیوں کرتے ہیں؟ جب بجلی کو نہیں دکھا سکتا اور اس کے بارے میں بالواسطہ کہتا ہے کہ بجلی آ گئی، اسی طریقے سے اللہ جل شانہ کے مظاہرِ قدرت سے یہ خود اندازہ لگا کر کیوں نہیں کہتا کہ اللہ ہے؟ دوسری بات اللہ ہے اور اللہ ایک ہے یہ دونوں باتیں عقل سے ثابت ہیں۔ اس لئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کسی جگہ اسلام کی دعوت کسی طریقے سے نہ پہنچی ہو، ویسے تو آج کل یہ محال ہے لیکن اگر کسی طریقے سے نہ پہنچی ہو اور وہاں لوگ ہوں تو آخرت میں ان کا کیا بنے گا؟ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان سے صرف اتنا ہی مطالبہ ہو گا کہ اس نے اپنی عقل کے ذریعے اللہ جل شانہ کی معرفت حاصل کی تھی یا نہیں؟ اگر کی تھی تو اس کی نجات ہو جائے گی۔ بڑے بڑے سائنس دان اسی طریقے سے مسلمان ہوئے ہیں، انہوں نے دیکھا کہ یہ چیز اگر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ ہی کر سکتے ہیں۔ جیسے قرآن پاک کے اندر ہے:
﴿اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌ ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَاۤ اَخْرَجَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَا وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ﴾(النور: 40)
ترجمہ: ’’یا پھر ان (اعمال) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے، کہ سمندر کو ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، اور اس کے اوپر بادل، غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے۔ اگر کوئی اپنا ہاتھ باہر نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ اور جس شخص کو اللہ ہی نور عطا نہ کرے، اس کے نصیب میں کوئی نور نہیں۔‘‘
سمندر کے اندر جانے والے ان کے سائنس دانوں نے جب یہ آیت سنی تو مسلمان ہو گئے۔ کہتے ہیں: محمد ﷺ نے کبھی سمندری سفر نہیں کیا اور یہ جتنی تفصیل بتائی گئی، یہ بغیر سمندر میں جائے معلوم نہیں ہو سکتی۔ یہ محمد ﷺ کا اپنا کلام نہیں ہے بلکہ ضرور یہ کسی اور کا کلام ہے کیونکہ حضرت محمد ﷺ نے کبھی بھی سمندر کا سفر نہیں کیا۔ چنانچہ بالواسطہ اللہ تعالیٰ کی معرفت مظاہرِ قدرت کے ذریعے سے ہو سکتی ہے اور کرنی بھی چاہیے۔
متن:
جس کے قبضۂ قدرت میں یہ ساری کائنات محکوم و مجبور اور اسیر و پابند ہے۔ اصحاب طریقت معرفت کی راہ میں ہمیشہ اپنے آپ سے ابتدا کرتے ہیں اور اپنی فطرت سے ابتدا کرتے ہیں اور تمام کثیف و لطیف اور خشک و تر اشیاء اپنے نفس سے طلب کرتے ہیں اور اپنے خالق و صانع خدا کی نشانیاں اور دلیل اپنے نفس میں پا لیتے ہیں ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ۠﴾ ‎(الزمر: 21)
ترجمہ: یقیناً ان باتوں میں ان لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جو یقین رکھتے ہیں۔“
اور بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ غور و فکر اور نظر کرنے کا کام حوالہ کرتا ہے تاکہ فکر و نظر کے بعد موجودات کے حالات کو دیکھ کر اس کو پہچان جائیں جیسا کہ فرمایا ہے ﴿قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ (یونس: 101)
ترجمہ: (اے پیغمبر) ان سے کہو کہ ذرا نظر دوڑاؤ کہ آسمانوں اور زمین میں کیا کیا چیزیں ہیں؟“
اور بعض لوگوں کو مجاہدات و ریاضت کے راستے معرفت کی منزل تک پہنچایا جاتا ہے ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت: 69)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے۔“
اور بعض کو پیغمبر کسی سبب اور وسیلہ کے اچانک ہدایت کا نور ان کے دل میں داخل کرتا ہے اور معرفت کا دروازہ ان کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔
﴿ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهٖ﴾ (الزمر: 22)
ترجمہ: ”جس کے نتیجے میں وہ اپنے پروردگار کی عطا کی ہوئی روشنی میں آچکا ہے۔“
اور بعض کو معرفت کی حقیقت سے بے نصیب اور محجوب رکھا جاتا ہے اور فرمایا کہ ﴿وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهٖ﴾ (الأنعام: :91) ”اَیْ مَا عَرَفُوا اللهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهٖ“۔ اللہ کی قدر جیسا کہ اس کی قدرت اور حق ہے انہوں نے نہیں کی۔ یعنی جیسا کہ مناسب اور لازم ہے کہ اس کی معرفت کو نہ جان سکے اور بعض لوگوں کو مکمل اور حتمی طور پر اپنی معرفت سے محروم اور بے نصیب کیا گیا ہے اور فرمایا گیا کہ ﴿خَتَمَ اللهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ﴾ (البقرۃ: 7)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے“
تا کہ یہ لوگ اللہ کی معرفت حاصل نہ کر سکیں۔
تشریح:
قرآن و احادیث کو سمجھنے کے لئے اور عارفین کی باتیں سمجھنے کے لئے اپنی حفاظت کے نقطۂ نظر سے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک انسان صرف ایک چیز پر نظر رکھے اور باقی چیزوں سے صَرفِ نظر کر لے تو بعض دفعہ غلطی ہو جاتی ہے اور شیطان اس کو کسی اور طرف لے جاتا ہے۔ مثلاً ﴿خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ﴾ (البقرة: 7) اس آیت کو سن کر بعض کج فہم لوگ کہتے ہیں کہ جب اللہ نے مہر لگا دی تو پھر ہمارا کیا قصور ہے؟ اس طرح وہ لوگوں کو گمراہ کر دیتے ہیں۔ یاد رکھو کہ یہ طریقہ کار ایسا ہے جیسے ہمارے دل کے اندر دو چینل ہیں۔ ایک میں شیطان کی طرف سے الہام آتا ہے جس کو الہامِ شیطانی یا وسوسہ کہتے ہیں اور ایک میں اللہ کی طرف سے الہام آتا ہے جس کو الہامِ رحمانی کہتے ہیں۔ جو الہام ربانی سے متاثر ہو گیا اور الہام شیطانی کو چھوڑ دیا تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص کوئی نیکی کرتا ہے اس نیکی کا فوری اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کے لئے دوسری نیکی آسان ہو جاتی ہے اور جو کوئی برائی کرتا ہے اس کی فوری سزا یہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے دوسری برائی آسان ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر کسی نے الہامِ رحمانی کی بات مان لی اور الہامِ شیطانی کی بات کو پیچھے دھکیل دیا تو دو کام ہو گئے، ایک اس نے اللہ کی بات مانی، یہ نیکی ہے اور دوسرا شیطان کی بات چھوڑی، یہ بھی نیکی ہے۔ معلوم ہوا اس کے لئے نیکی آسان ہو جائے گی کیونکہ اس کے لئے الہامِ رحمانی والا چینل کھل جائے گا اور الہامِ شیطانی والا چینل اس کے مقابلے میں کم ہو جائے گا۔ مثلاً پہلے اگر 50، 50 فیصد دونوں تھے تو یہ 51 فیصد ہو جائے گا اور وہ 49 فیصد ہو جائے گا۔ دوسری دفعہ ایسا عمل کیا کہ الہام رحمانی کی بات مانی اور الہام شیطانی چھوڑ دیا تو یہ 52 فیصد ہو جائے گا اور وہ 48 فیصد ہو جائے گا۔ تیسری دفعہ کیا 53 فیصد اور 47 فیصد ہو گیا۔ اسی طرح ہوتے ہوتے اللہ والا 100 فیصد ہو جائے گا اور شیطانی چینل صفر فیصد ہو جائے گا۔ اللہ پاک نے شیطان سے فرمایا تھا کہ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا۔ یہ سو فیصد والے ہیں، سو فیصد چونکہ اللہ کی طرف ہیں لہٰذا اللہ کے ہیں۔ شیطان کے نہیں ہیں لہٰذا شیطان ان کو گمراہ نہیں کر سکتا۔ تو اگر کسی نے شیطانی الہام کی بات مانی اور رحمانی الہام کی بات چھوڑی تو یہ 51 فیصد ہو جائے گا اور وہ 49 فیصد ہو جائے گا، دوبارہ بات مانی تو 52 فیصد اور 48 فیصد ہو جائے گا۔ اس کے بعد 53 فیصد اور وہ 47 فیصد ہو جائے گا اور ہوتے ہوتے رحمانی چینل صفر فیصد ہو جائے گا اور شیطانی چینل سو فیصد ہو جائے گا۔ ان کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿خَتَمَ اللهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ﴾ (البقرۃ: 7) آخری فیصلہ اللہ ہی کرتا ہے لیکن جس نے جیسا چاہا اللہ نے ویسا کر دیا۔ لیکن اس کے اپنے چاہنے سے ہوا نتیجتاً ﴿خَتَمَ اللهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ﴾ (البقرۃ: 7) کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کفر کو اختیار کرنا چاہا اور اس طرف چلے گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں مجبور کر دیا گیا۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: 286)
ترجمہ: "اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔"
قرآن سب پہ لاگو ہے لہٰذا جو کوئی کر سکتا تھا اس سے کہا گیا۔ ایسا نہیں تھا کہ حکم تو دے دیا اور کر نہ سکتا ہو۔ بلکہ یہاں تک اللہ تعالیٰ نے عمل کروایا کہ کافروں نے بار بار یہ اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ ہم پر فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ ہماری طرف بشر کو کیوں رسول بنا کر بھیجا گیا ہے؟ اللہ جل شانہ کی طرف سے جواب آتا تھا کہ اگر یہ فرشتے ہوتے تو میں فرشتوں کو بھیجتا۔ چونکہ یہ انسان ہیں تو میں انسان کو ہی بھیجوں گا کیونکہ اگر فرشتہ آ جاتا تو ان کا اس سے بھی بڑا اعتراض یہ ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں ان کا تو نفس ہی نہیں ہے۔ اگر یہ گناہ نہیں کرتے تو ان کا کیا کمال ہے؟ ہم انسانوں کے ساتھ نفس لگا ہوا ہے لہٰذا ہم مجبور ہیں۔ اللہ جل شانہ نے ہمارے پاس بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا تاکہ کوئی اعتراض کا موقع نہ ہو۔ لیکن آپ ﷺ انسان ہونے کی وجہ سے بالکل ایسے ہی تکالیف اٹھاتے تھے جیسے کہ ہم اٹھاتے ہیں۔ مثلاً بھوک لگنا، پیاس لگنا، تھک جانا یہ ساری باتیں آپ ﷺ کے ساتھ بھی تھیں۔ بلکہ روایت سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ کو جو آخری تکلیف ہوئی تھی وہ عام لوگوں سے زیادہ تھی۔ اس تکلیف کی شدت کو دیکھ کر حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی زبان سے بے اختیار نکلا: "ہائے میرے ابا جان کی یہ تکلیف"۔ آپ ﷺ نے فرمایا: آج کے بعد تیرے ابا جان کو کبھی تکلیف نہیں ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد پھر دوسری دنیا شروع ہو جائے گی جس میں آپ ﷺ کو تکلیف ہو ہی نہیں سکتی۔
اللہ جل شانہ کا نظام انتہائی انصاف پر مبنی ہے البتہ دینے والی اوسط زیادہ ہے۔ مثلاً کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گناہ اجر ملتا ہے اور کوئی بدی کرتا ہے تو اس کو اتنا ہی گناہ ملتا ہے۔ کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کا اجر فوراً لکھ دیا جاتا ہے اور جو بدی کرتا ہے تو اس کو موقع دیا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے توبہ کر لے یا رجوع کر لے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْـرٍ﴾ (الشوریٰ: 30)
ترجمہ: ”اور بہت سے کاموں سے تو وہ در گزر ہی کرتا ہے“
اس کو لکھتا ہی نہیں لیکن اگر کوئی آدمی مسلسل ہی خرابی کرتا جائے اور بگڑتا جائے اور زوری بھی کرتا جائے، ڈھیٹ پن دکھائے تو پھر اللہ پاک کسی سے مجبور نہیں۔ لہٰذا پھر جب اللہ پاک فیصلہ فرماتے ہیں تو اس کے بعد بہت خطرناک صورتِ حال ہوتی ہے۔ اللہ جل شانہ نے اِس کا نقشہ سورۂ شمس میں یوں کھینچا ہے: ﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَاۤ اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ﴾ (الشمس: 11-13)
ترجمہ: ”قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے (پیغمبر کو) جھٹلایا۔ جب ان کا سب سے سنگدل شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ تو اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ: خبر دار! اللہ کی اونٹنی کا اور اس کے پانی پینے کا پورا خیال رکھنا۔“
اس نے اس اونٹنی کو جو معجزے کے ذریعے سے بر آمد ہوئی تھی کو مارنا چاہا تو رسول نے اسے فوراً منع کر دیا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے اس کو نہ مارو ﴿فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا﴾(الشمس: 14)
ترجمہ: "پھر بھی انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا، اور اس اونٹنی کو مار ڈالا نتیجہ یہ کہ ان کے پروردگار نے ان کے گناہ کی وجہ سے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سب کو برابر کر دیا۔"
﴿وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾(الشمس: 15)
ترجمہ: "اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے۔"
ایک آدمی دریا میں چھلانگ لگانا چاہتا ہے، اس کو بار بار جھٹکے لگتے ہیں کہ مت لگاؤ۔ لیکن ایک دفعہ وہ چھلانگ لگا ہی لے تو کہتے ہیں: اب جاؤ ہم کیا کریں۔ ایک آدمی چھلانگ لگا دے اور کہتا ہے یا اللہ مجھے بچا لینا، یہ بھی غلط ہے۔ مختلف حالات میں مختلف صورتِ حال ہوتی ہے کہ انسان اس طرح کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ فرعون نے بھی اخیر میں یہی کہا تھا: اٰمَنْتُ بِرَبِّ مُوْسٰی۔ چنانچہ جو لوگ جانتے ہیں وہ تھر تھر کانپتے ہیں۔
متن:
چوں جمالش صد ہزاراں روے داشت
بود در ہر ذرہ دیدار دیگر
لا جرم ہر ذرہ را بنمود یار
از جمال خویش رخسار دیگر
یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس انداز سے عبادت کرنا کہ گویا تم خدا کو دیکھ کر اس کی عبادت کرتے ہو اور اگر ایسا تم سے ممکن نہ ہو تو پھر ایسی عبادت کرنا کہ گویا وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔
تشریح:
یہ کیفیتِ احسان ہے۔ حدیث میں آتا ہے: "أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِن لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ" (البخاری، حدیث نمبر: 50)
الجنان: جنان کیا ہے۔ ’’اَلۡجِنَانُ ھُوَ الۡقَلۡبُ الَّذِیۡ یَکُوۡنُ الْمَعۡرِفَۃُ فِیۡہِ‘‘ جنان وہ دل ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہو۔ "وَ الۡقَلۡبُ وِعَاءٌ لَّہٗ" اور معرفت کے لئے قلب یعنی دل ایک برتن ہے "وَ ھُوَ الۡمُشْتَقُّ مِنَ الۡجَنِیۡنِ" اور جنان کا لفظ جنین سے مشتق ہے۔ "وَ الۡجَنِیۡنُ یَکُوۡنُ فِی الرَّحِمِ" اور جنین رحم میں ہوتا ہے۔ "وَ الرَّحِمُ فِی الۡبَطَنِ" اور رحم پیٹ میں ہوتا ہے۔ یعنی "اَلۡبَطَنُ وِعَاءُ الرَّحِمِ" یعنی پیٹ رحم کا برتن اور ظرف ہے۔ "وَ الرَّحِمُ وِعَاءٌ لِّلْجِنَانِ" اور رحم جنین یعنی بچہ کا برتن ہے۔ "یُقَالُ لَہُ الۡاِنۡقِیَادُ" اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے گردن رکھنا اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور رزق پر راضی رہنا اور اللہ تعالیٰ جو بیماری اور مصیبت نازل کرے اس پر صبر کرنا انقیاد کہلاتا ہے۔
شفیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایمان، معرفت، توحید، شریعت اور دین کیا ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے اور معرفت اللہ تعالیٰ کی پہچان بغیر کسی کیفیت اور تشبیہ کے کرنا ہے اور توحید اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور وحدانیت کا ایسا اقرار کرنا کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی ابتدا اور کسی انتہا کے ایک اور واحد ہے۔ اور شریعت اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ماننا اور اس پر عمل کرنا اور اس کے ممنوعہ کاموں یعنی نواھی سے جان بچا کر رکھنا اور دین ان چار امور پر موت کے وقت تک قائم اور ثابت قدم رہنا ہے۔
تشریح:
یعنی جو جو بتایا گیا ہے اس سب کے اوپر موت تک قائم رہنا ہے۔
متن:
بغیر کسی تشبیہ سے کیا مراد ہے یعنی "یَنۡبَغِیۡ لِلنَّاسِ اَن لَّا یُشَبِّہُو اللہَ تَعَالٰی شَیۡئاً مِنَ النُّوۡرِ وَ الظُّلْمَۃِ وَ الشَّجَرِ وَ الۡجَوَاھِرِ" یعنی لوگوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشابہت کسی چیز کے ساتھ نہ کریں، نہ نور سے، نہ ظلمت سے، نہ درخت اور نہ جواہر وغیرہ سے۔
تشریح:
انسان جن چیزوں کو دیکھتا ہے ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ان کے بارے میں خیال پیدا ہوتا ہے۔ عیسائیوں نے اپنے گرجوں کے اندر فرشتوں کی اور پیغمبروں کی تصویریں بنائی ہوتی ہیں، بد بخت لوگ ہیں، بگڑ گئے ہیں۔ میں اس بات سے صرف ایک چیز ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ اصل میں انسان نے فرشتے کو نہیں دیکھا۔ جنہوں نے دیکھا ہے وہ یہ کام نہیں کرتے، جو یہ کام کرتے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ نتیجتاً وہ اپنے خیال میں جو کر سکتے ہیں کر لیتے ہیں۔ مثلاً براق آپ ﷺ کی سواری تھی تو اس کی خوبصورت تصویر اس طرح بنائی کہ اس کا چہرہ حسین عورت کا بنا دیا حالانکہ اس کا چہرہ ایسا نہیں تھا، لیکن انہوں نے سمجھا حسین بس یہی ہوتا ہے۔ یعنی جس چیز کو انہوں دیکھا ہے اسی کو حسین سمجھا۔ اور فرشتوں کو انسانی شکل کا بنایا ہوتا ہے اور ان کے پر بنائے ہوتے ہیں حالانکہ ان کے پر ایسے نہیں ہیں جیسے انہوں نے بنائے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے پر کو جتنا بھی تیز ہلائیں کیا اُتنی رفتار سے جایا جا سکتا ہے؟ جہاز کے پر بھی اس طرح کے نہیں۔ جہاز کے پر اگر اس طرح ہوتے جس طرح پرندوں کے پر ہیں تو جہاز کی رفتار بالکل اس طرح نہ ہوتی۔ چنانچہ جہاز سے بھی زیادہ رفتار والے فرشتوں کے پر کیسے ہوں گے؟ اسی طرح جنات کے پر بھی ایسے نہیں ہوتے ہیں۔ پشتو میں کہتے ہیں ”پیری ته غزني څه دي“ یعنی جن کے لئے غزنی کیا چیز ہے وہ فوراً وہاں پہنچ جاتا ہے۔ تو جنات یا فرشتے یا دیگر مخلوقات چونکہ ہماری سوچ سے باہر ہیں کیونکہ ہم نے نہیں دیکھیں تو جو ہماری سوچ میں ہیں ہم ان پہ منطبق کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ کو بھی کسی نے نہیں دیکھا تو اللہ کی ذات کے بارے میں سوچنے والا شخص اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی تنزیہ کرتا ہے اس کو کوئی نہ کوئی خیال جو آتا ہے وہ اس کا دیکھا ہوا ہوتا ہے۔ نور کو روشنی کی طرح سمجھتا ہے کیونکہ روشنی بھی دیکھی ہوئی ہے۔ تو اللہ کے بارے میں ان تمام چیزوں کی نفی کرنی ہوتی ہے کیونکہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿لَنْ تَرٰنِیۡ﴾ (الأعراف: 143)
ترجمہ: ”تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکو گے۔“
اب سر کے بل الٹا بھی ہو جائے تو بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ چنانچہ تمہاری سوچ میں وہ چیز نہیں آ سکتی۔ اس لئے اللہ کے بارے میں فرمایا کہ جو بھی خیال آ جائے تو فوراً کہہ دو کہ اللہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اللہ جل شانہ کو ہم ان ظاہری آنکھوں سے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ البتہ اللہ جل شانہ کو محسوس کیا جا سکتا ہے، اس کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے جیسے فرمایا: "أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ" (البخاری، حدیث نمبر: 50) "تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے"۔ یعنی نتیجہ ایسا ہونا چاہیے جیسے تو خدا کو دیکھ کر نتیجہ حاصل کرتا تھا۔ یعنی یہ output based ہے Input based نہیں ہے (یعنی نتیجے کے اعتبار سے ہے نہ کہ ابتدا کے اعتبار سے) یعنی اگر اللہ کو تو دیکھتا تو جیسے عبادت کرتا اس طرح عبادت کر۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ذہن میں لا سکیں کہ اللہ پاک کو میں دیکھ رہا ہوں حالانکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اللہ کی موجودگی ثابت ہے، اس موجودگی کے تصور کو اپنے اوپر اتنا طاری کر لو کہ ایسے ہو جیسے دیکھ رہے ہو۔ جیسے ہمارے بچوں کو بچپن میں ڈرایا جاتا ہے کہ "بھاؤ آ گیا"۔ یہ چیز بچوں کے ذہن میں اتنی راسخ ہو جاتی ہے کہ جب بھی اس طرح کہو وہ ڈر جاتا ہے۔ یعنی بھاؤ (خوفناک چیز) کی موجودگی کا احساس اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ بچہ اس سے ڈرتا ہے۔ اسی موجودگی کے احساس کو اپنے اوپر اتنا زیادہ مسلط کرنا چاہیے کہ آپ ایسے ہی کام کرنے لگیں جیسے اس وقت کرتے ہیں جب آپ کو کوئی دیکھ رہا ہو۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ: 115)
ترجمہ: "لہٰذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے، وہیں اللہ کا رخ ہے"۔
اب مثال کے طور پر میں قبلہ رخ بیٹھا ہوں، میں تصور کر سکوں کہ
میں اللہ کے سامنے ہوں اور اگر مشرق کی طرف رخ کر لوں تو میں تصور نہ کر سکوں۔ قرآن میں اسی لئے فرمایا گیا کہ اس بات کو ختم کرو۔ البتہ نماز پڑھو گے تو قبلہ رخ ہو گے کیونکہ وہ حکم ہے۔ جیسے مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سمت میں ہی ہے بلکہ مسجد حرم کی طرف چونکہ رخ کرنے کا حکم ہے لہٰذا ہم اس طرف رخ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہر طرف ہے۔ لہٰذا میرا رخ جس طرف بھی ہو گا اللہ تعالیٰ کی طرف ہو گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اللہ پاک کی موجودگی اتنی کھل جائے کہ میں اس سے ایسے ہی اثر لوں جیسا اثر اس کے دیکھنے سے ہو گا۔ "أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، اور دوسرا درجہ یہ ہے "فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ" اگر تو اس کو دیکھ نہیں پا رہا "فَإِنَّهُ يَرَاكَ" (البخاری، حدیث نمنر: 50) تو یہ یقینی بات ہے اور ایمان کا حصہ ہے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اگر میری دیکھنے کی صفت محدود ہے تو اس کی صفت محدود نہیں ہے بلکہ یقینی ہے، چنانچہ میں اگر نہیں دیکھ رہا تو اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ اس وجہ سے اس دوسری بات سے کوئی بھی خالی نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کو اس کا استحضار نہ ہو۔ اس استحضار کو پیدا کرنا ہے۔ اگر کسی مسلمان سے بھی پوچھو گے جو کسی گہرے کام میں مشغول ہی کیوں نہ ہو کہ کیا اللہ تجھے دیکھ رہا ہے؟ وہ انکار نہیں کرے گا۔ البتہ اس کا استحضار بھی بہت ہونا چاہیے۔ جیسے ہمارے ایک دوست کی فیکٹری تھی، میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ان کے سامنے ایک سکرین لگی ہوئی تھی۔ میں نے کہا: امجد صاحب آپ بھی ٹی وی دیکھتے ہیں؟ کہتے ہیں: یہ ٹی وی نہیں ہے بلکہ میں نے ورکشاپوں میں کیمرے لگائے ہوئے ہیں، میں جب اس کا نمبر سٹ (set) کرتا ہوں تو اس میں مجھے نظر آتا ہے کہ وہ لوگ کام کرہے ہیں یا نہیں؟ پھر اس نے تبدیل کر کر کے دکھایا کہ یہ فلاں ورکشاپ ہے اور یہ فلاں ورکشاپ ہے۔ پھر کہا: چونکہ وہ لوگ بھی جانتے ہیں کہ میرے پاس ایسا کیمرہ ہے تو بے شک میں نہ بھی دیکھ رہا ہوں لیکن وہ کام کر رہے ہوتے ہیں کہ شاید ہمیں دیکھا جا رہا ہے۔ آج کل سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں تو بعض لوگوں کو پتا نہیں ہوتا اور اس کے اندر ویڈیو محفوظ ہو جاتی ہے۔ بعد میں وہ معلوم کر لیتے ہیں کہ فلاں نے کیا کیا تھا؟ ہمارے ساتھ تو ہر وقت کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں ہے۔ ﴿وَ وَجَدُوۡا مَا عَمِلُوۡا حَاضِرًا﴾ (الکھف: 49)
ترجمہ: ”اور وہ اپنا سارا کیا دھرا اپنے سامنے موجود پائیں گے۔“
کہیں گے یا اللہ کیسی عجیب بات ہے نہ تجھ سے کوئی چھوٹی بات بچی ہے نہ کوئی بڑی بات بچی ہے۔ چنانچہ ہمارے اوپر ہر وقت کیمرے لگے ہوئے ہیں، یہ تو مستقبل کے لحاظ سے ہے۔ لیکن فوری طور پر اللہ تعالیٰ خود بھی ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ہماری کوئی چیز اللہ سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ﴾ (الحديد: 4)
ترجمہ: ”تم جہاں کہیں ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔“
اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور اس کے علم میں سب کچھ ہے۔ وہ ہمارے چہروں کو نہیں دیکھتا بلکہ ہمارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ ہم صرف چہروں کو دیکھتے ہیں دلوں کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہمارا انتہائی مکروہ دشمن ایسا خوش نما چہرہ بنا سکتا ہے کہ ہم اس کو اپنا دوست سمجھیں گے۔ کیونکہ انسانوں کے اندر ایک کمزوری ہے کہ وہ خوشامد سے خوش ہوتے ہیں۔ تو تمام احتیاط کو اور تمام سوچ فکر کو بالائے طاق رکھ کر سمجھتا ہے کہ واقعی میں ایسا ہوں۔ عموماً ایسے لوگ جو آپ سے کوئی دنیاوی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہوں بے شک آپ کے دشمن کیوں نہ ہوں وہ خوشامد کا سہارا لیتے ہیں۔ ہوشیار لوگ جو خوشامد کو پسند نہیں کرتے، حقیقت شناس ہوتے ہیں وہ اس خوشامد سے ہی ان کو پہچان لیتے ہیں کہ یہ کوئی گڑبڑ ہے۔ میرے لئے کوئی داؤ بنایا ہے۔ لیکن بیچارے اخلاقی لحاظ سے کمزور لوگ جو اپنی خوشامد چاہتے ہیں ان کے لئے ایسے لوگ ہر قسم کی تدبیر بنا لیتے ہیں جو دھوکہ ہوتا ہے۔ بادشاہوں تک یہ بات جاتی ہے۔ بڑے بڑے عہدوں تک میں نے ایسی صورتِ حال بھی دیکھی ہے کہ جب کسی کا کسی کے ساتھ کوئی کام ہوتا ہے مثلاً کسی افسر کے ساتھ کام ہے تو اس افسر کو بعض دفعہ اپنے رشتے داروں کا پتا نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ میرا فلاں رشتہ ہے لیکن جس کو کام ہوتا ہے اس کو پتا ہو گا اور وہ تعلق بنا دے گا۔ وہ سارا گورکھ دھندا بنا لے گا اور آپ سے اپنا کام کروا لے گا۔ اس قسم کے عوام کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس کی خاص مہارت حاصل ہوتی ہیں وہ کام نکالنے کے لئے ہر گُر جانتے ہیں، تعلق بنا سکتے ہیں، رخ بنا سکتے ہیں، خوشامد کر سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ہمیں کمزور نہیں ہونا چاہیے۔
ہمارے بڑے اللہ والے، صحابۂ کرام خوشامد سے ناراض ہوتے تھے کیونکہ اس سے انسان گمراہ ہوتا ہے۔
متن:
بغیر کسی تشبیہ سے کیا مراد ہے؟
یعنی لوگوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشابہت کسی چیز کے ساتھ نہ کریں۔ نہ نور سے، نہ ظلمت سے، نہ درخت اور نہ جواہر وغیرہ سے۔
بلا تعطیل۔ یعنی "لَا یَنۡبَغِیۡ لِلنَّاسِ اَن یَّعْلَمُوۡہُ بِلَا شُغْلِ کَمَا ظَنَّ الیَہُوۡدُ فِی یومِ السَّبۡتِ بَلۡ ھُوَ عَلٰی شُغْلٍ فِیۡ کُلِّ یَوۡمٍ کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالیٰ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ(الرحمن: 29) وَ قِیۡلَ الۡاِیۡمَانُ ھُوَ الِۡاعۡتِقَادُ بِالۡقَلْبِ وَ اِنَّمَا الۡاِقْرَارُ شَرْطٌ لِإِجْرَاءِ اَحْکَامِ الِۡاسْلَامِ بِلَا تَعْطِیۡلٍ" کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ یہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی شغل کے ہیں جس طرح یہود کہتے ہیں کہ وہ ہفتہ کے دن کچھ نہیں کرتا۔
تشریح:
یہود کے اندر ایک گڑبڑ تھی جو ہمارے لوگوں کے اندر بھی آ رہی ہے۔ ایک یہودی مسلمان ہوئے تھے انہوں نے ہمارے ایک ساتھی کو کہا: جتنے فرقے تمہارے اندر ہیں یہ وہی ہیں جو ہمارے اندر تھے۔ یہود کے اندر یہ گڑبڑ تھی کہ وہ پیغمبروں کو بھی اپنے اوپر قیاس کرتے تھے یعنی جب کوئی غلط کام کرتے وقت ان کا کوئی بڑا پھنس جاتا تو نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِک جھٹ سے پناہ لیتا کہ فلاں پیغمبر نے بھی ایسا کیا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جیسے آج کل کوئی ٹی وی دیکھ رہا ہو اور اس کو کہہ دیں کہ ٹی وی نہ دیکھو، کہتے ہیں: فلاں عالم بھی ٹی وی دیکھتے ہیں۔ اگر عالم دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو خراب کر رہا ہے تم اس کی وجہ سے اپنے آپ کو کیوں خراب کر رہے ہو؟ اس عالم کے کرنے سے وہ کام جائز نہیں ہوتا البتہ وہ عالم خراب ہو جائے گا۔ لوگوں کو دیکھ کر اپنے لئے حکم تبدیل کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہود نے پیغمبروں کے ساتھ اتنی فضول اور غلط چیزیں منسوب کی ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کس دل گردے کے لوگ تھے؟ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ تو نتیجہ بھگت گئے۔ یہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ کسی مسلمان کو کوئی ”او یہودی“ کہہ دے تو وہ بہت زیادہ غصہ ہو جائے گا جیسے کسی کو شیطان کہہ دیں تو غصہ ہو جائے گا۔ حالانکہ یہ سب پیغمبروں کی اولاد ہیں لیکن اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ایسے ہو گئے کہ اب برائی کے نشان ہیں۔ یہ حضور ﷺ کے وقت میں اپنے غلط عقیدے میں اتنے سخت تھے کہ کہتے تھے، جس کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں نازل فرمایا: ﴿وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ﴾ (البقرة: 88)
ترجمہ: ”اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں۔“
تو اللہ پاک نے فرمایا: ﴿بَل لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ﴾ (البقرة: 88)
ترجمہ: ”نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے“
پیغمبروں کے ساتھ غلط باتیں وابستہ کرنے کے بعد آ گے بڑھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی انسانوں والی صفات وابستہ کیں۔ جیسے آرام کرنا، جو انسان کا کام ہے۔ مثال کے طور پر جو آٹھ گھنٹے آرام کر کے 16 گھنٹے کی زندگی چاق و چست بنا لے وہ عام آدمی ہے۔ جو چھ گھنٹے آرام کر کے ایسا کر سکے وہ زیادہ تگڑا ہے۔ جو چار گھنٹے آرام کر کے ایسا کر سکے وہ اس سے زیادہ تگڑا ہے۔ یہ تین گھنٹے والا اور زیادہ ہو گا۔ بھٹو صاحب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ تین گھنٹے آرام کرتے تھے اور تقریباً یہی بات ضیاء الحق صاحب کے بارے میں بھی تھی کہ وہ بھی بہت تھوڑا آرام کرتے تھے۔ یعنی رات کو دو دو بجے تک میٹنگ کی جاتی تھی پھر ضیاء الحق صاحب تہجد کے وقت اٹھے ہوتے تھے۔ یعنی مضبوط اعصاب کے لوگ تھے، یہی مضبوطی کی علامت ہے۔ جو دو گھنٹے آرام کرتے ہوں پھر وہ اور زیادہ، اور جو ایک گھنٹہ آرام کرے وہ اور زیادہ، جو آدھا گھنٹہ وہ ان سے بھی زیادہ اور جو بالکل نہ کرے وہ سب سے زیادہ۔ تو اللہ جل شانہ کو آرام کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ جل شانہ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16)
ترجمہ: ”جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے“
لہٰذا اس کو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کو آرام کی، کھانے پینے کی، شادی کی، کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ سب لوگوں کو اس کی ضرورت ہے اور اس کو کسی کی ضرورت نہیں، وہ جب بھی کسی کے ساتھ محبت کرتا ہے جذبات کی وجہ سے نہیں ارادے سے کرتا ہے۔ اور اگر کسی سے دشمنی کرتا ہے تو وہ بھی ارادے سے کرتا ہے۔ اللہ جل شانہ کی صفات انسانوں والی صفات نہیں ہیں۔ چونکہ ہمارے لوگوں میں بھی ان کے جراثیم آ چکے ہیں تو ایسا طبقہ موجود ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا کہ وہ تجسیم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ یعنی جسم کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ پاک کا ایسا ہی جسم ہے جیسا کہ ہمارا ہے۔ جس کا بھی یہ عقیدہ ہو تو باطل عقیدہ ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے۔ تنزیہ اس کو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزوں سے پاک سمجھا جائے جو مخلوقات کی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لئے ایسی صفات ثابت نہ کریں جو مخلوقات کے لئے ہوں ورنہ ہم صحیح معرفت حاصل نہیں کر سکتے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو حقیقی معرفت نصیب فرمائے۔
(بیان ختم ہونے کے بعد اجتماعی ذکر کی مجلس ہوئی جس کے بعد حضرت نے اجتماعی ذکر بالجھر کے بارے میں کچھ ارشادات فرمائے جو قارئین کے فائدہ کے لیے یہاں لکھ دیے گئے ہیں)
ذکر کے بارے میں آپ حضرات کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جتنا زور سے ہم نے یہ ذکر کیا اس زور سے آپ کوئی اور بات کر کے دیکھیں تو بری حالت ہو جائے گی، برداشت نہیں ہو گا۔ کیونکہ انسان کا جسم اتنی طاقت نہیں رکھتا۔ تقریباً روزہ افطار ہونے والا ہے لیکن آپ سب نے ما شاء اللہ بہت زور کے ساتھ ذکر کیا تو آپ کو کمزوری محسوس نہیں ہوئی، یہ روحانی طاقت ہے۔ اور حق کا ذکر ہم نے کافی پُر زور کیا ہے۔ یہ بہت زور والا ذکر ہے۔ حضرت خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ سہروردیہ کا ذکر ہے اور حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب استغراق کی حالت میں ہوتے تھے تو ان کو استغراق سے نکالنے کے لئے ان کے خادم "حق" "حق" کہتے تھے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے چل پڑتے پھر اس کے بعد "حق" "حق" کہتے تھے تو ان کو اپنی جگہ پہ لے آتے۔ وہ حضرات یہ ذکر ہزاروں کی تعداد میں کرتے تھے۔ چشتی حضرات اللہ کا ذکر ایک ہزار کی تعداد میں کرتے تھے۔ چوبیس ہزار مرتبہ اسم ذات کا ذکر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ بھی کراتے تھے۔ اگر آپ دل پر اس ذکر کو کریں، چاہے وہ "لَا إِلٰهَ إِلَّا الله" ہے، چاہے وہ "ھُو" ہے، چاہے وہ "حَق" ہے آپ کو کچھ نہیں ہو گا لیکن جسم کے کسی اور حصے پر کر لیں تو گڑبڑ ہو جائے گی۔ جس نے سیکھا نہ ہو تو وہ دل پہ نہیں کر پاتا۔ غالباً چند دفعہ آپ حضرات نے ہمارے ساتھ ذکر کیا۔ اللہ کا شکر ہے آپ اس طرح ذکر کرنے لگے جس طرح کرنا چاہیے۔ لیکن اگر یہ ذکر گردن پہ آ جائے تو انسان پاگل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اعصاب کے لحاظ سے یہ جسم کا بڑا نازک حصہ ہے جو متاثر ہو جاتا ہے اور خشکی ہو جاتی ہے۔ جو لوگ بیچارے خراب ہو جاتے ہیں وہ صحیح طور سے ذکر نہ کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ایک جگہ میں ذکر کرانے کے لئے گیا تھا۔ اوپر والی منزل پہ ہم تھے، نیچے کچھ اور لوگ ذکر کر رہے تھے۔ وہ صحیح طور پہ ذکر نہیں کر رہے تھے۔ میں نے وہاں کے لوگوں سے کہا کہ ان سے کہو ذکر نہ کرو اور اگر کرنا ہے تو پھر سیکھ کے کرو ورنہ نقصان ہو جائے گا۔
میرے پاس ایک دفعہ رات کو گیارہ بجے ہمارا ایک پڑوسی آیا سردیوں کی راتیں تھیں۔ کہا: میرے بیٹے کو جھٹکے لگ رہے ہیں آپ مہربانی کر کے آ جائیں۔ ان کا تعلق ایسے لوگوں سے تھا جو ہمیں اچھا نہیں سمجھتے۔ میں نے گھر والوں کو اطلاع کر دی کہ میں فلاں کے گھر جا رہا ہوں، کوئی اور مسئلہ نہ ہو جائے، اس لیے آپ کو بس معلوم ہونا چاہیے۔ ان کی مسجد بھی تھی مسجد کا متولی لڑکے کا دادا تھا اور والد میرے پاس آیا تھا۔ بچہ تقریباً 20 سال کے لگ بھگ تھا جس کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: یہ کس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے؟ انہوں نے بتایا: سبز پگڑی والوں کے ساتھ۔ میں نے کہا: یہ ان شاء اللہ دو تین دن میں ٹھیک ہو جائے گا لیکن میں اس کا علاج اس شرط پر کروں گا کہ یہ پھر ان کے ساتھ نہیں اٹھے بیٹھے گا کیونکہ ان کو ذکر کا طریقہ نہیں آتا ہے، ان کی ضرب گردن پہ لگتی ہے جس سے یہ مسائل ہوتے ہیں۔ اگر آپ وعدہ کرتے ہیں تو میں اس کا علاج کرتا ہوں۔ اس کے والد نے خود ہی کہا ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ نہیں اٹھنے بیٹھنے دیں گے۔ پھر میں نے اس کا علاج شروع کر دیا اور دو تین دن میں اللہ کا شکر ہے کہ ٹھیک ہو گیا، پھر بیعت بھی ہو گیا۔ مقصد یہ ہے کہ یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے کہ شوقیہ کر لیا بلکہ یہ علاج ہے۔ دوائیوں کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں کیونکہ جن کو طریقہ نہیں آتا وہ نقصان کر لیتے ہیں۔
ہمارے ساتھی ڈاکٹر کے بیٹے نے calpol کی پوری بوتل پی لی تھی۔ اس کا "ایل ٹی" لیول دو سو تک پہنچ گیا۔ مقصد یہ ہے کہ بچے بچے ہوتے ہیں ان کو کیا پتا۔ چنانچہ جتنا ذکر بتایا جائے اتنا کریں اس سے آگے پیچھے نہ کریں۔ قادری سلسلے کے ایک بزرگ تھے جو اپنے مریدوں کو کہتے تھے: میں نے جو آپ کو ذکر بتایا اس سے نہ ایک کم ہو نہ ایک زیادہ۔ اگر کر لیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ ذکر دوائی کی طرح ہے، طریقہ بھی بتایا جائے گا اور تعداد بھی۔
مجھے پنجابیوں سے گلہ ہے ابھی تک کوئی ایسا آدمی پیدا نہیں ہوا جو سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کا کلام صحیح پڑھے۔ ڈوموں نے پڑھا ہے صحیح لوگوں نے نہیں پڑھا۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ ”ھو“ صحیح پڑھ ہی نہیں سکتے۔ منہ سے نکالتے ہیں حالانکہ منہ سے نہیں دل سے ہے۔ جو دل سے ھو نہیں نکال سکتا وہ سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ والا ھو نہیں ہے۔ چنانچہ ذکر کے طریقے سیکھنے چاہئیں۔ ذکر کی مجالس میں الحمد للہ انسان بہت جلدی سیکھ لیتا ہے۔ جیسے قاری حضرات قرآن پاک کے مخارج سکھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: آخ تو سارے بچے آخ کہتے ہیں، عق تو سب بچے عق کہتے ہیں۔ سب کو علیحدہ علیحدہ نہیں سکھانا پڑتا بلکہ سارے بچے ایک ہی وقت میں سیکھ لیتے ہیں۔ تو اجتماعی ذکر اسی تعلیم کے لئے ہے کہ سارے ایک ہی وقت میں سیکھیں۔ اس پہ بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اجتماعی ذکر کہاں سے ثابت ہے؟ میں ان کو کہتا ہوں کہ انفرادی ذکر جہاں سے ثابت ہےاجتماعی بھی ادھر سے ہی ثابت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لَا إِلٰهَ إِلَّا الله، إِلَّا الله، اللہُ اللہ اس طرح کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ تعلیمی ذکر ہے، اصلاحی ذکر ہے۔ اگر وہ ثابت ہے تو ساتھ یہ بھی تعلیمی طور پہ ثابت ہے۔ بہر حال اگر آپ یہاں ذکر کریں گے تو پھر آپ کو صرف تعداد بتائی جائے گی جو آپ کے حال کے مطابق ہو گی۔ باقی طریقہ چونکہ آپ سیکھ چکے ہوں گے لہٰذا جہاں پر بھی ہوں گے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِيۡنَ