اصلاحی بیان

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ (آل عمران: 104)
صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ
معزز خواتین و حضرات!
اس وقت ہمیں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ در پیش ہے کہ گناہوں میں روز بروز ترقی ہو رہی ہے، اللّٰہ جل شانہ سے بغاوت کا سماں ہے، اصلاح کی کوششوں پہ پابندی لگ رہی ہے اور گناہوں اور برائیوں کے فروغ کے لئے نئی نئی چیزیں وجود میں آ رہی ہیں۔ ایسے وقت اور ایسے حالات میں ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک دوسرے کو گناہوں سے روکیں۔ ایک دوسرے کو تنبیہ کریں کہ تم کیا کر رہے ہو، آگے چل کر تمہارے ساتھ کیا ہو گا؟
در اصل اس وقت صورتحال یہ ہے کہ لوگوں نے یہ سمجھا ہوا ہے کہ ہمارے ذمے صرف امر بالمعروف ہی ہے، نہی عن المنکر ہمارے ذمے نہیں ہے۔ نہیں! ایسی بات نہیں ہے۔ ابھی میں نے جو آیتِ کریمہ تلاوت کی ہے اس سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یہ دونوں ضروری ہیں۔ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں:
﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ (آل عمران: 104)
ترجمہ: ”اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں“۔
چنانچہ اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں کا حکم ہے۔ شریعت اوامر و نواہی کا نام ہے۔ اللّٰہ پاک نے کیا کام کرنے کا حکم دیا ہے اور کس چیز سے روکا ہے؟ صرف اوامر پر عمل کرنا مکمل شریعت پر عمل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو نصف شریعت ہے۔ جس وقت اوامر کے ساتھ نواہی بھی شامل ہو جاتے ہیں، تب شریعت پوری ہوتی ہے۔ اچھے کام کے لئے کہنا تو ضروری ہے ہی لیکن برائی سے روکنا بھی ضروری ہے۔
میں آپ حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ اوامر و نواہی کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ شریعت میں دو بنیادی چیزیں ہیں۔ فرض اور حرام۔ حرام سے بچنا فرض ہے اور فرض کا ترک حرام ہے۔ اگر آپ نے فرض کو ترک کر دیا تو حرام میں مبتلا ہو گئے۔ مثلاً نماز پڑھنا فرض ہے اور نماز نہ پڑھنا حرام ہے۔ اسی طرح سود کھانا حرام ہے تو سود سے بچنا فرض ہے۔ یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ ان کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج کل لوگوں نے ان چیزوں کو علیحدہ کر دیا ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اس وجہ سے ہمارے اوپر یہ مصیبت آ پڑی ہے کہ عذابات آ رہے ہیں۔ ذرا غور کریں اس وقت ہماری صورتحال یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک عذاب آ رہا ہے۔ گرمی اتنی ہوتی ہے کہ اس کی شدت سے لوگ مر رہے ہوتے ہیں۔ یا تو بارش نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مر رہے ہوتے ہیں، یا پھر بارش ہوتی ہے تو اتنی شدید ہوتی ہے کہ سیلاب آ جاتے ہیں۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی ناراضگی کی علامت ہے۔ ہمیں اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے بچنے کی کوشش اس طرح ہو گی کہ اللّٰہ پاک نے جس چیز کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرنا ہے۔
آپ ﷺ نے اِس چیز کو سمجھانے کے لئے ایک مثال دی ہے، کیا شان دار مثال ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ایک بحری جہاز میں کچھ لوگ عرشے پہ بیٹھے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ نیچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ چونکہ پانی عرشے کے اوپر پڑا ہے لہٰذا نیچے والے لوگ پانی لینے کے لئے اوپر جاتے ہیں۔ اگر وہ یہ سوچیں کہ ہم خواہ مخواہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، کیوں نہ اس جہاز کے نچلے حصے میں سوراخ کر لیں۔ سمندر تو ہمارے قریب ہی ہے لہذا پانی ہمارے پاس آ جائے گا، اس طرح ہم اوپر والوں کو تکلیف دینے سے بچ جائیں گے۔ بے شک ان کی نیت اچھی ہو لیکن کام تو غلط ہے۔ ایسی صورت میں اگر عرشے والوں نے ان کو نہ روکا تو صرف نیچے والے نہیں ڈوبیں گے بلکہ سارے کے سارے ڈوبیں گے۔
اسی طرح اگر کھلم کھلا گناہ کرنے والوں کو کوئی بھی نہیں روکے گا تو صرف گناہ کرنے والے تباہ نہیں ہوں گے بلکہ وہ لوگ بھی تباہ ہوں گے جو ان کو روک نہیں رہے۔
میں آپ کو اس کی دوسری مثال دیتا ہوں۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا۪ۤۙ O اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا۪ۙ O فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْیٰهَاؕ O فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا O وَ لَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾ (الشمس: 11-15)
ترجمہ: ”قومِ ثمود نے اپنی سرکشی سے (پیغمبر کو) جھٹلایا۔ جب ان کا سب سے سنگ دل شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ تو اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ: خبر دار! اللہ کی اونٹنی کا اور اس کے پانی پینے کا پورا خیال رکھنا۔ پھر بھی انھوں نے پیغمبر کو جھٹلایا، اور اس اونٹنی کو مار ڈالا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے پروردگار نے ان کے گناہ کی وجہ سے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سب کو برابر کر دیا۔ اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے“۔
یہ میں نے سورۂ شمس کے آخری حصہ کی تلاوت کی ہے۔ ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ جب قومِ ثمود کا ایک شقی اٹھا۔ اس نے کہا کہ میں اس اونٹنی کو قتل کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اونٹنی اللّٰہ پاک نے غیب سے معجزانہ طور پر اس قوم کو دی تھی۔ وہ بہت بڑی اونٹنی تھی اور بہت سارا پانی پی جاتی تھی۔ جس چشمے سے لوگ پانی پیتے تھے اسی سے وہ اونٹنی بھی پیتی تھی۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ہمارا پانی بھی پی جاتی ہے۔ اللّٰہ پاک کی طرف سے حکم آیا کہ ایک دن اونٹنی پانی پیے گی اور ایک دن قوم ثمود کی باری ہو گی۔ کچھ عرصہ اسی حکم پر عمل ہوتا رہا۔ قوم ثمود میں ایک بد معاش تھا جس کا تعلق رنڈیوں کے ساتھ تھا۔ ان رنڈیوں نے اسے کہا کہ اونٹنی ہمارا پانی پی جاتی ہے، اس کو مار دو۔ وہ اونٹنی کو مارنے کے لئے جا رہا تھا کہ حضرت صالح علیہ السلام نے اسے روکا اور کہا کہ یہ اللّٰہ کی اونٹنی ہے اور اپنی باری کے دن پانی پیتی ہے اس کو نہ مارو۔ اس نے پیغمبر علیہ السلام کو جھٹلایا اور اس اونٹنی کو مار دیا۔
اب آپ غور کیجئے کہ آگے کیا ہوا۔ چونکہ قوم نے اس شقی کو کچھ نہیں کہا اسے اس برائی سے روکا نہیں۔ اگر قوم اسے روکتی تو وہ شقی مارا جاتا اور قوم بچ جاتی مگر قوم نے اسے نہیں روکا تو اللّٰہ پاک نے اس پوری قوم کے اوپر اپنا عذاب نازل کیا اور ان کو تہس نہس کر دیا۔ اونٹی کو قتل کرنے کا گناہ تو شقی کا تھا لیکن پوری قوم کا گناہ یہ تھا کہ وہ اس قتل پر خاموش رہی، اس وجہ سے اللہ پاک نے ان سب کو تہس نہس کر دیا اور اللّٰہ کو کوئی پروا نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔
معلوم ہوا کہ قرآن میں بھی اس کی مثال موجود ہے، حدیث شریف میں بھی اس کی مثال دی گئی ہے۔ اس کے بعد اور کیا چاہیے۔ الحمد للّٰہ ہم مسلمان ہیں، مومن ہیں۔ ہمارے پاس سیکھنے اور سمجھنے کی صرف ایک ہی صورت بن سکتی ہے اور وہ قرآن و حدیث ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے خواب دیکھا ہے، تم اس کا انکار کر سکتے ہو کیونکہ خواب اس کا ہے اور وہ اس پہ حجت ہو سکتا ہے تم پہ نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے کشف ہوا ہے، آپ اس کا انکار کر سکتے ہیں کہ کشف تجھے ہوا ہے مجھے تو نہیں ہوا۔ لیکن اگر کوئی قرآن سنائے تو تم اس کا انکار نہیں کر سکتے، اگر کوئی حدیث شریف سنائے تو تم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن نہ تیرا ہے نہ میرا ہے، یہ اللّٰہ تعالیٰ کا ہے۔ بتانے والا تو بتا رہا ہے کہ اللہ کا کلام یہ کہہ رہا ہے۔ اگر بتانے والا بہت غریب آدمی ہو جس کی کوئی حیثیت نہ ہو تو تم اس وجہ سے اس کی بتائی ہوئی قرآن کی بات کا انکار نہیں کر سکتے۔ اسے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تیری کیا حیثیت ہے۔ کیونکہ وہ قرآن کی بات بتا رہا ہے۔ قرآن اللّٰہ کی کتاب ہے تم اس سے انکار نہیں کر سکتے ہو بے شک تم بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔ البتہ اگر وہ قرآن کی غلط تشریح کرے، قرآن کی غلط تعلیم کرے پھر تم روک سکتے ہو، بلکہ کوئی ادنیٰ آدمی بھی روک سکتا ہے اور بتا سکتا ہے کہ یہ قرآن نہیں ہے۔
الغرض جب قرآن میں اس کی تعلیم آ گئی، حدیث شریف میں اس کی مثال آ گئی تو اس کے بعد ہمارے پاس صرف یہ کام رہ جاتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھائیں۔
ایک بات اچھی طرح اپنے ذہن میں رکھیں کہ دین میں صرف امر بالمعروف نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ نہی عن المنکر بھی ہے۔ اگر ہم نہی عن المنکر نہیں کریں گے تو اس کی آفات و بلیّات بھگتیں گے۔
آپ ﷺ نے نہی عن المنکر کے بارے میں کئی ارشادات فرمائے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے:
”مَنْ رَّأٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهٖ، فَاِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهٖ، فَاِنْ لَّمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهٖ، وَذٰلِكَ اَضْعَفُ الْاِيْمَانِ“ (صحیح مسلم: 177)
ترجمہ: ”تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے پس اسے چاہیے کہ اس برائی کو اپنی قوتِ بازو سے روک دے۔ پس اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے روک دے، پس اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے“۔
اس حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ جو شخص بھی کسی کو کوئی برا کام کرتے دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے۔ ”فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ“ اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ فَبِلِسَانِهٖ“ پھر اپنی زبان سے اس کو روک دے۔ جیسے کہ اِس وقت میں زبان استعمال کر رہا ہوں۔ اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو پھر زبان کو استعمال کرنا چاہیے۔ کم از کم زبان سے اس کو کہہ دے کہ بھائی جان! اس طرح نہیں کرنا چاہیے یہ بری بات ہے، اس میں آپ کا نقصان ہے۔ احسن طریقے اور حکمت کے ساتھ ”موعظۂ حسنہ کے انداز میں بتانا چاہیے تاکہ وہ بچ جائے۔ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطعْ فَبِقَلْبِهٖ“ اگر وہ اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ کوئی آدمی سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا۔ جیسے ہی آپ نے کسی سے کوئی بات کی، اس نے آپ سے لڑائی کر لی۔ ایسی صورت میں اتنا کافی ہے کہ ہم اپنے دل میں اس چیز کو برا سمجھیں۔ ”وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ اگر کوئی اتنا بھی نہیں کرتا کہ دل سے بھی اسے برا نہیں سمجھتا، پھر تو اس کے اندر ایمان ہی نہیں ہے۔ کیونکہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کم از کم بری چیز کو برا سمجھے۔
میں آپ سے معافی چاہتا ہوں لیکن میں بہت مجبور ہوں، عرض کرنا چاہتا ہوں، ہمیں پارٹی بازی نے تباہ کر دیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اگر میری پارٹی کے لوگ چاہے ننگا ڈانس کروائیں تو وہ غلط نہیں ہے اور دوسری پارٹی اگر تھوڑی سی غلطی بھی کر لے تو وہ غلطی ہے۔ کیا یہ شریعت ہے؟ کیا یہ مسلمانی ہے؟ ہر گز نہیں! خواہ باپ ہو، ماں ہو، بھائی ہو، بیٹا ہو یا کوئی اور ہو، اگر وہ غلط کام کرتا ہے تو وہ غلط ہے۔ جو بھی اللّٰہ کے حکم کی نافرمانی کرے وہ مجرم ہے۔ کم سے کم اس کو مجرم ضرور سمجھنا پڑے گا۔ اگر کوئی یہ بھی نہیں کرتا تو مسلمان کدھر رہا، اس کا ایمان کدھر رہا؟ کم از کم جرم کو جرم سمجھے تو سہی۔
اس وقت صورتحال نازک ہو گئی ہے۔ پارٹی بازی نے ہمیں خراب کر دیا ہے۔ سیاست اپنی جگہ پر ہے، ہم لوگ سیاست کے مخالف نہیں ہیں۔ سیاست اچھائی کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے برائی کے لئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ سیاست جس میں ہماری پارٹی کی ہر بات ٹھیک اور دوسری پارٹی کی ہر بات غلط ہو، وہ صحیح سیاست نہیں ہے۔ وہ شیطانی سیاست ہے۔ ایسی سیاست سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ ہم لوگ حق کو حق کہیں چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو اور باطل کو باطل کہیں چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو۔ اپنی طرف سے اپنی خواہش کو اس میں نہ لائیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”مَا مِنْ رَّجُلٍ يَّكُوْنُ فِيْ قَوْمٍ يَّعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِيْ يَقْدِرُوْنَ عَلٰى أَنْ يُّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَلَا يُغَيِّرُوْا إِلَّا أَصَابَهُمُ اللهُ بِعِقَابٍ قَبْلَ أَنْ يَّمُوْتُوْا“ (سنن ابی داؤد: 4339)
ترجمہ: ”اگر کوئی شخص کسی قوم میں گناہ کرتا ہو اور وہ لوگ اسے روکنے کی طاقت کے با وجود نہ روکیں تو پھر اللہ ان کے مرنے سے پہلے انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کی قوم میں برائی ہو رہی ہو، گناہ کے کام ہو رہے ہوں اور وہ آدمی اس پر طاقت رکھتا ہو کہ اس کو روک دے، اس کو تبدیل کر دے پھر بھی وہ اس کی روک تھام نہ کرے تو موت سے پہلے پہلے اس کی سزا اس کے اوپر آ پڑے گی۔
اس وقت صورتحال یہی ہے کہ زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آدمی با وجود قدرت کے برائی کی روک تھام نہیں کرتا۔ مثلاً میں افسر ہوں اور دفتر میں اپنے ما تحتوں کو روک سکتا ہوں۔ میں بادشاہ نہیں ہوں لیکن دفتر میں افسر ضرور ہوں کم از کم دفتر میں اپنے ما تحتوں کو تو برائی سے روک ہی سکتا ہوں۔ میں گھر میں باپ ہوں یا شوہر ہوں تو اپنی اولاد کو اور اپنی بیوی کو تو روک ہی سکتا ہوں۔ میں محلے میں بڑا ہوں، لوگ میری عزت کرتے ہیں تو میں اپنی عزت کو استعمال کر کے لوگوں کو اچھی بات کہہ تو سکتا ہوں۔ میں سکول میں استاذ ہوں تو کم سے کم اپنے شاگردوں کو خیر کی تعلیم تو کر سکتا ہوں، برائی سے تو روک ہی سکتا ہوں۔ جو کرنے والے لوگ ہوتے ہیں وہ ایسا کر کے دکھا دیتے ہیں۔ ہر آدمی کسی نہ کسی درجے میں قدرت ضرور رکھتا ہے۔ حدیث میں ہے:
ترجمہ: ”ہر آدمی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ امام حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا“۔ (صحیح بخاری: 2558)
نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق تم سب نگران ہو اور ہر ایک سے پوچھا جائے گا۔ تم اپنے اپنے شعبے کے نگران ہو اور تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
لہذا ہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرے کہ میں اس وقت کس چیز کا ذمہ دار ہوں اور کہیں میری ذمہ داری میں گڑبڑ تو نہیں ہو رہی۔ اگر گڑ بڑ ہو رہی ہے تو میں اس کا مداوا کر لوں، اس کے لئے کچھ منصوبہ بندی کر لوں۔
ایک بات عرض کرتا ہوں کہ آج کل مسلمانوں کے اندر ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان خیر کے کاموں میں منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ کہتے ہیں بس دیکھا جائے گا۔ خدا کے بندو! یہ کیا بات ہے۔ ذرا جائزہ لے کر دیکھو کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ باہر ہر چیز کے لئے پچاس پچاس سال پہلے کی پلاننگ ہوتی ہے، اس کے اوپر عمل کیا جاتا ہے اور اس کے مطابق نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہم تو اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم پلاننگ کریں کیونکہ ہمیں قرآن اور حدیث کی رہنمائی بھی حاصل ہے، ان کو یہ رہنمائی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے مطابق planning (پلاننگ) کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ صرف پلاننگ ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کام کے اندر جتنے لوگ شامل ہیں آپس میں coordination کر لیں۔ مثلاً آپ استاذ ہیں اور آپ نے سکول میں شاگردوں کو بہترین اخلاق دینا ہے تو اسکول کے اندر تمام اساتذہ آپس میں coordinate (موافقت) کر لیں اور باقی سکولوں کے اساتذہ کو بھی اس کارِ خیر میں شامل کر لیں کہ وہ آپ کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور آپ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ کیونکہ ایک آدمی سارا کام نہیں کر سکتا۔
اسی طرح معاشرے میں جتنے لوگ اچھے کام کرنا چاہتے ہیں اور الحمد للہ ایسے لوگ ہیں، ان سب کو آپس میں coordinate کرنا چاہیے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر کام نہیں ہوا کرتا۔ جذباتی انداز میں کام نہیں ہوتے کہ میں جذباتی طور پر نعرے بازی شروع کر لوں۔ نعرے بازی سے کام نہیں ہوتے نعرے بازی سے صرف خون گرم کیا جاتا ہے۔ گرم خون کو راستہ بھی تو دینا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کافر کو نیچے گرا دیا اور اسے کہنے لگا کلمہ پڑھو ورنہ چھوڑوں گا نہیں۔ وہ ڈر گیا اور کہا: اچھا ٹھیک ہے کلمہ پڑھا دو۔ پہلا کہنے لگا کہ اوہ وہ تو مجھے بھی نہیں آتا۔ خدا کے بندو! اپنا کام تو سیکھو۔ یہ تو سمجھو کہ تم کسی کو کیا دینا چاہتے ہو۔ کیا بتانا چاہتے ہو۔ اس کے لئے محنت کرنی چاہیے، غور و فکر کرنا چاہیے، آپس میں مشورے کرنے چاہئیں۔ قرآن پاک کے مطابق ان مشوروں میں خیر ہوتی ہے جو خیر کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا آپس میں مشورے ہونے چاہئیں، آپس میں coordination ہونی چاہیے، procedure develop ہونے چاہئیں۔ پھر ان کو چیک کرنا چاہیے کہ ان سے کتنا فائدہ ہو رہا ہے اور کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ نقصان کو کم کرنا چاہیے اور فائدے کو زیادہ کرنا چاہیے یہ ایک طریقۂ کار ہے۔
بہرحال میں یہ عرض کر رہا تھا کہ حدیث شریف کے مطابق برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے والوں پر بھی عذاب آ سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور بات بہت اہم ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
”إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِيْئَةُ فِي الْأَرْضِ كَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَكَرِهَهَا كَمَنْ غَابَ عَنْهَا وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِيَهَا كَانَ كَمَنْ شَهِدَهَا“ (سنن ابی داؤد: 4345)
ترجمہ: ”جب زمین پر گناہ کے کام کئے جاتے ہوں تو جو شخص وہاں حاضر رہا اور اسے ناپسند کیا یا برا جانا اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جس نے اسے دیکھا ہی نہ ہو، اور جو شخص وہاں حاضر نہ تھا لیکن اسے پسند کیا تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو وہاں حاضر تھا“۔
یعنی جب زمین پر کوئی غلط کام ہو رہا ہو اور ایک شخص وہاں موجود ہے لیکن اس برائی کو دل سے برا سمجھ رہا ہے تو وہ ایسا ہے جیسے ادھر نہیں ہے۔ مثلاً کراچی میں کوئی غلط کام ہو رہا ہے اور کراچی والے اس کو نہیں چاہتے اس سے نفرت کرتے ہیں کہ یہ تو غلط کام ہے تو وہ اس کام میں شامل نہیں ہوں گے۔ جبکہ پشاور میں ایک شخص ہے جو اس کام کو چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا ہونا چاہیے تو وہ اس برائی میں شامل ہے۔ اسی طرح اگر پشاور میں کوئی غلط کام ہو رہا ہو اور لاہور والا اسے برا نہ سمجھتا ہو تو وہ اس برائی کے کرنے والوں میں شامل ہے۔
اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ ہم کس کے ساتھ ہیں اور کس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ اس سلسلے میں ہم لوگوں کو دیکھنا پڑے گا کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ اس سلسلے میں آخری حدیث شریف عرض کرنا چاہتا ہوں، میں تو یہ پڑھ کر ڈر جاتا ہوں۔ اللّٰہ پاک معاف فرمائے۔
”قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْحَى اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلىٰ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: أَنِ اقْلِبْ مَدِيْنَةَ كَذَا وَكَذَا بِأَهْلِهَا قَالَ: يَا رَبِّ إِنَّ فِيْهِمْ عَبْدَكَ فُلَانًا لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ۔ قَالَ: فَقَالَ: اقْلِبْهَا عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ فَإِنَّ وَجْهَهٗ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ“ (مشکوۃ المصابیح: 5152)
أَوْحَى اللهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلىٰ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو وحی فرمائی۔ أَنِ اقْلِبْ مَدِيْنَةَ كَذَا وَكَذَا بِأَهْلِهَا: اس شہر کو الٹا کر دو ان لوگوں کے اوپر۔ قَالَ: اس نے عرض کیا۔ يَا رَبِّ: اے میرے رب۔ إِنَّ فِيْهِمْ عَبْدَكَ فُلَانًا: اس میں تو ایک ایسا نیک بندہ ہے۔ لَمْ يَعْصِكَ طَرْفَةَ عَيْنٍ: اس نے ایک لمحے کے لئے بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ فَقَالَ: اقْلِبْهَا عَلَيْهِ وَعَلَيْهِمْ: اس کے اوپر بھی الٹا کر دو اور ان لوگوں کے اوپر بھی الٹا کر دو۔ فَإِنَّ وَجْهَهٗ لَمْ يَتَمَعَّرْ فِيَّ سَاعَةً قَطُّ: اس شخص کی برائی کو دیکھ کر ایک لمحے کے لئے بھی اس کا چہرہ متغیر نہیں ہوا، ایک لمحے کے لئے بھی اس کے چہرے پہ اثر نہیں آیا کہ کوئی برا کام ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی دل سے میرے ساتھ نہیں تھا، نمازیں پڑھ رہا ہے، روزے رکھ رہا ہے، زکوۃ دے رہا ہے، حج کر رہا ہے، دوسرے نیک کاموں میں لگا ہوا ہے۔ بلا شبہ وہ اچھے کام ہیں لیکن برائی کو برائی سمجھنا بھی اچھا کام ہے وہ کام یہ نہیں کر رہا۔ لہٰذا اس کے اوپر بھی بستی کو الٹا کر دو۔
اب بتائیں اور کیا کہنا چاہیے، کیا اور کوئی بات رہ گئی؟ ان سب باتوں کے مدِ نظر ہمیں خود کو اس آئینہ میں دیکھنا چاہیے کہ اس وقت صورتحال کیا ہے، ہم کس چیز کو دیکھ رہے ہیں، کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہو رہا۔ کیا ہم اسی طرح خاموش بیٹھے رہیں؟ کیا ہم اپنا اپنا رسوخ استعمال نہ کریں؟ کیا اپنی دوستی استعمال نہ کریں؟ کیا اپنا قلم استعمال نہ کریں؟ کیا اپنی زبان استعمال نہ کریں؟ اگر ہم میں کوئی طاقت ہے تو کیا وہ طاقت استعمال نہ کریں؟ ہم لوگوں کو اس کی فکر کرنی پڑے گی۔ ایک دن آنے والا ہے جب سب کو اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا۔ ایسی صورت میں مجھے ابھی سے اس کی تیاری کرنی پڑے گی، مجھے ابھی سے اس کی فکر کرنی پڑے گی۔ اللّٰہ ہم سب کو وہاں کے خراب انجام سے بچائے۔ ابھی بیان سے پہلے یہاں کسی کے فوت ہونے کا اعلان ہوا تھا، اللہ ان کی مغرت فرمائے۔ ہم سب نے ایک دن جانا ہے۔ یہ دن سب پہ آنے والا ہے۔ جب کوئی شخص فوت ہو جائے تو سمجھو کہ میں جا رہا ہوں۔
ایک بزرگ راستے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ آیا۔ کسی نے پوچھا یہ جنازہ کس کا ہے؟ اس بزرگ نے کہا تیرا ہے۔ وہ آدمی یہ سن کر غصے میں آ گیا۔ بزرگ نے فرمایا: اگر ناراض ہوتے ہو تو سمجھ لو کہ یہ میرا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اس بات کی کیا فکر کہ کس کا جنازہ ہے، یہ دیکھو کہ یہ تیرے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ تجھے بھی یہی حالت پیش آنے والی ہے۔ لہذا موت سے پہلے پہلے موت کی تیاری کرنا ضروری اور لازم ہے۔ بھائی! جو اچھی حالت میں چلا گیا وہ خوش نصیب ہے۔ اللّٰہ اسے وہاں بہتر درجات نصیب فرمائے اور خدانخواستہ اگر کوئی برے انجام کے ساتھ چلا گیا تو بہت خطر ناک بات ہے۔ کیونکہ پھر واپس آنا نہیں ہے۔
میں آپ کو ایک اپنی ذاتی بات بتانا چاہتا ہوں۔ یقین جانیں اگر اولیاء اللّٰہ فوت ہو جائیں تو مجھے غم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو اپنے اللّٰہ کے پاس چلے گئے اور ان کے مزے کے دن شروع ہو گئے۔ البتہ ہم محروم ہو گئے، یہ ہمارے لئے ضرور محرومی کی بات ہے لیکن ان کے تو مزے کے دن شروع ہو گئے لیکن جب کوئی فاسق و فاجر فوت ہو جائے تو مجھے بڑی پریشانی اور بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ اس کا معاملہ اب ختم ہو گیا اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ تبدیلی کے لئے جو وقت تھا وہ ختم ہو گیا، جو موقع دیا گیا تھا وہ ختم ہو گیا، اب یہ کیا کر سکتا ہے۔ یہ واقعی ڈرنے کی بات ہے۔ لہٰذا ہمیں موت سے پہلے پہلے موت کی تیاری کر لینی چاہیے۔
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا“ ”مر جاؤ اس سے پہلے کہ مر جاؤ“۔ کیونکہ موت تو سب کو آنی ہے۔ دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کو یقین نہ ہو کہ میں مروں گا۔ اگر دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو گا تو وہ پاگل ہی ہو گا۔ ایسا آدمی صحیح دماغ والا نہیں ہو سکتا۔ سب شعور والے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ ہم ایک دن ضرور مریں گے۔ البتہ مرنے کے بعد کیا ہو گا اس پہ اختلاف ہے، مومن کی سوچ الگ ہے کافر کی سوچ الگ ہے۔ مومن کہتا ہے حساب کتاب ہو گا سب کچھ ہو گا لہٰذا ہم لوگوں کو اس حساب کتاب کے لئے تیار رہنا چاہیے اور اس کے لئے طریقہ کار یہ ہے کہ شریعت پر عمل کیا جائے۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ پورے کا پورا دین صحیح سالم موجود ہے۔
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3)
ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا“۔
ہم بہت خوش نصیب ہیں۔ اتنے خوش نصیب کہ ہمارے لئے پوری کی پوری رہنمائی موجود ہے، بس صرف کام لینے کی بات ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو بھی اس سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ