اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جامع الصفات پیدا فرمایا تھا لہذا آپ ﷺ ہر حیثیت سے بے مثل تھے۔ بعض مسلمان مصنفین نے آپ ﷺ کی پوری سیرت کی بجائے آپ ﷺ کی زندگی کے کسی مخصوص گوشہ پر کتابیں لکھی ہیں۔ جیسے ”آپ ﷺ بحیثیت ایک سپہ سالار“، ”آپ ﷺ بحیثیت ایک حکمران“، ”آپ ﷺ بحیثیت ایک شوہر“، ”آپ ﷺ بحیثیت ایک دوست“ وغیرہ۔ اگرچہ ان مصنفین نے بہت نیک نیتی سے یہ کتابیں لکھی ہوں گی لیکن آپ ﷺ کی سیرت کے صرف ایک حصے کو سامنے لانے سے قاری کی نظر سے آپ ﷺ کی سیرت کے دیگر گوشے اوجھل ہو سکتے ہیں۔ کیا اس قسم کی کتابوں کا مطالعہ مفید ہے یا ان میں نقصان کا اندیشہ ہے؟
جواب:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر صرف ایک گوشہ سامنے ہو تو باقی گوشے نظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں۔ اس طرح سیرت پاک کی ایک نا مکمل صورت ہمارے سامنے آتی ہے، اس سے مبتدیوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کا ایک ایک پہلو محفوظ ہے۔ کسی اور شخصیت کی زندگی کے واقعات و حالات اتنے وسیع پیمانے پر محفوظ نہیں ہیں جتنے آپ ﷺ کے محفوظ ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی وہ باتیں بھی روایات میں موجود ہیں جو خود کوئی اپنے متعلق نہیں بتا سکتا۔ آپ ﷺ کو چونکہ امتیوں کے لئے نمونہ بنایا گیا تھا اس لئے آپ ﷺ کی تمام باتیں منظر عام پر لائی گئیں۔
آپ ﷺ کی سیرتِ پاک ایک وسیع اور مفصل زندگی کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ اگر آپ ﷺ کی پوری سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کرنا ہو تو بڑی ضخیم کتب کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔
کسی خاص شعبے پر تحقیق بھی مفید ہوتی ہے۔ اگر خاص شعبوں پر تحقیق نہ کی جائے تو سیرت کی کتابوں میں خاص موضوعات سے متعلق مواد تلاش کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک سپہ سالار کو دیکھنا ہے کہ میں بحیثیتِ سپہ سالار سنت پر عمل کیسے کروں، اگر وہ اس خاص گوشے کو جامع کتابوں میں ڈھونڈے گا تو کافی مشکل پیش آئے گی، اس خاص موضوع سے متعلق تمام چیزیں ایک جگہ پر نہیں ملیں گی اور مکمل نہیں ملیں گی لیکن اگر کوئی ایسی کتاب موجود ہو جس میں خصوصیت کے ساتھ اس موضوع پر بات کی گئی ہو کہ نبی ﷺ بحیثیت سپہ سالار کیسے تھے، تو پھر اس موضوع سے متعلق معلومات حاصل کرنا آسان ہو جائے گا۔
ہماری رائے یہ ہے کہ سیرتِ مبارکہ کے خاص گوشوں پر الگ سے تحقیق کرنا اور تصنیف و تالیف کا کام کرنا، اس کی خاص ترتیب ہونی چاہیے، نہ تو اس پر مکمل طور پر پابندی لگائی جائے اور نہ ہی اس بارے میں کھلی چھوٹ دی جائے۔ کوئی درمیان کا طریقہ ہونا چاہیے، کوئی اعتدال کا راستہ ہونا چاہیے۔
اگر آپ مختلف دینی کتب کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ فضائل پر تصنیف و تالیف کے معاملے میں بہت سارے علماء نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ مخصوص اعمال کے فضائل پر کتب تصنیف کی ہیں۔ مثلاً فضائلِ تبلیغ، فضائلِ تدریس، فضائلِ تجارت، فضائلِ درود وغیرہ۔
ایسی کتابیں علماء اور محققین کے لیے تو بے حد مفید ہیں، خصوصاً ان لوگوں کے لیے اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے جن کی نظر مجموعی دین پر بھی ہوتی ہے۔ لیکن ایسی کتابوں سے ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ان مخصوص گوشوں کے ہی قائل رہ جاتے ہیں اور ان میں اتنے زیادہ منہمک ہو جاتے ہیں کہ باقی شعبوں کی اہمیت ان کے دل میں گھٹ جاتی ہے۔ یہ نقصان عموماً ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کی نظر مجموعی سیرتِ مبارکہ اور مجموعی دین پر نہیں ہوتی اور ان کے ذہنوں سے دوسرے گوشے مخفی ہوں۔ یہ لوگ جب کسی ایک عمل کے فضائل پڑھتے ہیں، یا سیرتِ مبارکہ کا ایک پہلو دیکھتے ہیں تو بس اُسی پہلو اور اُسی عمل کو مکمل دین اور مکمل سیرت سمجھ بیٹھتے ہیں اور دین کے باقی شعبوں یا سیرت کے باقی پہلوؤں کو ویسا اہم نہیں جانتے بلکہ بعض لوگ تو دوسرے شعبوں اور دوسرے پہلوؤں پر تنقید کے مرتکب بھی ہو جاتے ہیں۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
اس نقصان سے بچنے کا طریقہ اور اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ عوام کو پہلے سیرتِ مبارکہ کی مختصر اور جامع کتابیں پڑھنی چاہئیں تاکہ ان کے ذہن میں پوری سیرتِ نبوی کا ایک مجموعی خاکہ مرتب ہو جائے۔ اس کے بعد وہ دیکھیں کہ ان کا اپنا شعبہ کیا ہے، اس شعبے سے متعلق سیرت کے گوشوں کا خصوصی طور پر مطالعہ کر لیں۔ مثلاً تدریس میں مشغول ہیں تو تدریس سے متعلق سیرت کے پہلوؤں کا مطالعہ کریں، کسی اور شعبے میں ہیں تو اس شعبے کے لحاظ سے سیرت میں اپنے لئے رہنمائی تلاش کریں۔
اگر کوئی مکمل سیرتِ نبوی کا مجموعی مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ”سیرت النبی ﷺ“ بہترین کتاب ہے۔ اسی طرح حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ”نَشْرُ الطِّیْبِ فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ الْحَبِیْبِ“ بھی ایک بے مثال کتاب ہے اور اسی طرح سیرت ابن ہشام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مجموعی طور پر مکمل سیرتِ نبوی کا مطالعہ کرنے کے لئے یہ دونوں کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ ایک بار مکمل سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد سیرت کے کسی بھی خاص گوشے کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بہرحال آپ ﷺ کی سیرت کی کتابوں کو پڑھنا انتہائی مبارک کام ہے اور عمل کی نیت سے پڑھنا اصلاح کا بہت آسان ذریعہ ہے۔ میں نے ایک دفعہ اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا تھا کہ اصلاح کا آسان ترین طریقہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ سیرت کی کتابیں عمل کی نیت سے پڑھو۔
لہٰذا عمل کی نیت سے سیرت کی کتابیں پڑھنا بہت ہی زیادہ مفید ہے اور شیخ کی نگرانی میں ہو تو پھر اور زیادہ مفید ہو جاتا ہے۔ شیخ کی نگرانی میں مطالعہ کرنے کے دو فائدے ہیں۔ ایک تو یہ کہ شیخ آپ کو ترتیب بتا دے گا کہ کس طرح پڑھنا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر بعض باتیں آپ کی رینج کی نہیں ہیں اور آپ کریں گے تو آپکے بعض اہم کام رہ جاتے ہیں تو شیخ آپ کو تنبیہ کر لے گا اور یہ ادب کے ساتھ ہونا چاہیے اور شیخ آپکو ادب بھی سکھا لے گا۔
ایک مرتبہ کسی خانقاہ کے کچھ سالکین نے سنا کہ نبی کریم ﷺ بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھایا کرتے تھے۔ انھوں نے بھی بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھا لی۔ سب کے پیٹ میں درد ہو گیا کیوں کہ پہلے سے ان کا پیٹ بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھانے کا عادی نہیں تھا۔ جو لوگ چھنے آٹے کی روٹی کھانے والے ہیں اگر وہ بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھانا شروع کریں تو ان کے پیٹ کو اس کا عادی ہونے میں کچھ عرصہ لگتا ہے، تب تک پیٹ میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہوتی ہے۔ بہرحال ان لوگوں نے بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھائی تو ان کے پیٹ میں درد ہو گیا۔ انہوں نے اپنی خانقاہ کے بڑے بزرگ کو بتایا تو انہوں نے بڑے ادب کی بات کی۔ فرمایا کہ ہمیں استغفار کرنا چاہیے، ہم بڑے بے ادب ہیں کہ ہم نے آپ ﷺ کی ریس کرنا چاہی، ہم نے سوچا کہ ہم آپ ﷺ کی طرح بن سکتے ہیں حالانکہ ہم ایسے کبھی نہیں بن سکتے لہٰذا ہم توبہ کرتے ہیں، اور عہد کرتے ہیں کہ ہم لوگ وہی کھائیں گے جس کو ہمارا پیٹ ہضم کرنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
دیکھئے ان بزرگ کی سوچ ادب والی تھی اس لیے انہوں نے یہ تشریح فرمائی۔ ورنہ اگر کوئی بے ادب ہوتا تو کہتا کہ سنت پر چلنے سے نقصان ہو گیا۔ یہ بہت بڑی بے ادبی ہوتی اور بڑا نقصان ہوتا۔ لیکن ان بزرگ نے اس نقصان کی نسبت سنت کی طرف کرنے کی بجائے اپنی طرف کی، خود بھی بچ گئے اور دوسرے لوگوں کو بھی بچا لیا۔
مقصد یہ ہے کہ شیخ کی نگرانی میں جو کام بھی ہو اس میں اللہ تعالیٰ برکت ڈال دیتے ہیں اور اس کے نقصانات سے حفاظت فرما دیتے ہیں، لہٰذا سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ بھی شیخ کی نگرانی میں ہو تو بہت بہتر ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے (آمین)
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن