اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تعلیمات میں سب سے زیادہ اہمیت عقائد کی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تصوف کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ معتقداتِ شرعیہ پر یقین مضبوط ہو جائے اور شریعت پر عمل آسان ہو جائے۔ سب سے پہلے عقیدے کا نمبر آتا ہے۔ اگر عقیدہ صحیح نہیں ہے تو سب کچھ گڑ بڑ ہے کیونکہ عقیدے کی درستگی کے بغیر کوئی عمل قبول ہی نہیں ہو گا۔ حضرت کے جو دو مکتوبات شریفہ پہلے بیان کئے گئے وہ عوام کے لئے تھے اس لئے حضرت نے ان میں طرز تحریر آسان اور مختصر رکھا جبکہ مکتوب نمبر 266 جس کے دروس جاری ہیں، یہ مکتوب حضرت نے اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادگان کو لکھا تھا۔ اس مکتوب میں حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے ان عقائد پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو تصوف میں زیر بحث آتے ہیں۔ یہ حضرات خود اعلیٰ پائے کے صوفیا تھے اور تصوف کی اصطلاحات اور ابحاث سے خوب واقف تھے اس لئے حضرت نے اس مکتوب میں خوب تفصیلی اور علمی انداز میں بات کی ہے، اس وجہ سے یہ مکتوب شریف کافی طویل ہے۔ آج کے درس کا آغاز ہم عقیدہ نمبر 10 سے کر رہے ہیں۔
متن:
عقیدہ: 10
اور حق تعالیٰ خیر و شر کا ارادہ کرنے والا بھی ہے اور دونوں (خیر و شر) کا پیدا کرنے والا بھی، لیکن وہ خیر سے راضی ہوتا ہے اور شر سے ناراض۔ ارادہ اور رضا کے درمیان یہ ایک بڑا باریک اور دقیق فرق ہے جس کی طرف حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہلِ سنت کو ہدایت عطا فرمائی ہے۔ باقی تمام فرقے اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اسی وجہ سے معتزلہ نے بندے کو اپنے افعال کا خالق کہا ہے اور کفر و معاصی کی ایجاد کو اس (بندے) سے منسوب کیا ہے۔ شیخ محیُ الدین (ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) اور ان کی پیروی کرنے والوں کے کلام سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان و عملِ صالح اسم ”اَلْھَادِیُ“ کے پسندیدہ ہیں اسی طرح کفر و معاصی بھی اسم ”اَلْمُضِلُّ“ کے پسندیدہ ہیں۔ (شیخ کی) یہ بات بھی اہل حق کے خلاف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے جو رضا کا منشا ہوئی ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں کہ آفتاب کا کام ضو فشانی (روشنی پھیلانا) ہے اور اس میں اس کی مرضی شامل ہے۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قدرت و ارادہ عطا کیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے اپنے افعال کا کسب کرتے ہیں۔ افعال کا پیدا کرنا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف منسوب ہے اور ان افعال کا کسب بندوں کی جانب منسوب ہے۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی عادت اسی طرح جاری ہے کہ بندہ جب اپنے فعل کا ارادہ کرتا ہے تو حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس فعل کو پیدا کر دیتا ہے۔ چونکہ بندے کا فعل اپنے اختیار سے صادر ہوتا ہے اس لئے لازمی طور پر اس کی تعریف اور برائی، ثواب اور عذاب بھی اسی سے متعلق ہو جاتا ہے۔
جنہوں نے یہ کہا ہے کہ بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے اگر حق سبحانہٗ کی قوتِ اختیار کے اعتبار سے (اس بندے کے اختیار) کو ضعیف کہا ہے تو مسلّم ہے، اور اگر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ جس کام کے کرنے میں اس کو مامور کیا گیا ہے وہ (قوت و اختیار) کافی نہیں ہے، تو پھر یہ بات صحیح نہیں: ”فَاِنَّ اللہَ سُبْحَانَہٗ لَا یُکَلِّفُ بِمَا لَیْسَ فِی وُسْعِہٖ بَلْ یُرِیْدُ الیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ العُسْرَ“ ”پس بے شک اللہ جل شانہٗ ایسے کام کی تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی وسعت سے باہر ہو بلکہ وہ تو آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور تنگی کا ارادہ نہیں کرتا“۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ”فعل موقت“ (چند روزہ زندگی کے فعل) پر جزائے مُخَلَّدْ (دائمی عذاب) کا مقرر کرنا حق تعالیٰ کے حوالہ ہے اور جس نے ”کفر موقت“ کی سزا اس کے اعمال کے موافق ”عذاب مخلد“ فرمائی اور ”تلذذات دائمی“ (یعنی بہشت اور جو کچھ اس میں ہے) کو ”ایمان موقت“ (زندگی بھر کے ایمان پر وابستہ کر دیا، ﴿ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ﴾ (الأنعام: 96) ”یہ عزیز و علیم کا مقرر کردہ ہے“۔ اللہ سبحانہ کی توفیق سے اس قدر ہم جانتے ہیں کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ جو ظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی بارگاہ اقدس کے لئے ہر قسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے، اس کی نسبت کفر اختیار کرنے کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہیے جو سخت ترین سزاؤں میں سے ہو، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہنا ہے۔ اور اسی طرح اس منعم بزرگ و برتر پر ایمان بالغیب لانا اور نفس و شیطان کی مزاحمت کے با وجود اس کو راست گو جاننے کی جزا بھی ویسی ہی ہونی چاہیے جو سب جزاؤں سے بہتر اور اعلیٰ درجے کی ہو اور وہ دائمی نعمت و لذات میں رہنا ہے۔
بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ ”در حقیقت بہشت میں داخل ہونا محض حق سبحانہٗ کے فضل پر موقوف ہے، اور اس کو ایمان کے ساتھ مربوط کرنا اس وجہ سے ہے کہ اعمال کی جزا لذیذ ترین معلوم ہو“۔ لیکن اس فقیر کے نزدیک حقیقتًا بہشت میں داخل ہونا ایمان کی وابستگی پر موقوف ہے لیکن ایمان بھی اس سبحانہٗ و تعالیٰ کا فضل اور عطیہ ہے، اور جہنم میں داخل ہونا کفر کے ساتھ وابستہ ہے اور کفر نفس امارہ کی خواہشات سے پیدا ہوتا ہے: ﴿مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ﴾ (النساء: 79) ”جو کچھ بھلائی تجھ کو پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو کچھ برائی تجھ کو پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے“۔
جاننا چاہیے کہ بہشت کے داخلے کو ایمان کے ساتھ مربوط کرنا حقیقت میں ایمان کی تعظیم اور تکریم ہے بلکہ ”مُؤمَن بِهٖ“ (جس پر ایمان لایا گیا) کی تعظیم ہے، جس پر اس قدر بڑا اور عظیم الشان اجر مرتب ہوا ہے۔ اس طرح دوزخ میں داخل ہونے کو کفر کے ساتھ وابستہ کرنے میں کفر کی تحقیر ہے اور اس ذات کی تعظیم ہے جس کی نسبت یہ کفر وقوع میں آیا اور اس طور پر دائمی عذاب اس پر مترتب ہوا، بر خلاف اس بات کے جو بعض مشائخ نے کہی ہے وہ اس دقیقہ سے خالی ہے۔ نیز دوزخ میں داخل ہونا بھی انصاف کے تقاضے پر ہے اور کوئی مثال اس طرح پر جاری نہیں ہے۔ کیونکہ جہنم میں داخل ہونا حقیقت میں کفر کے ساتھ مربوط ہے۔ ”وَ اللہُ سُبْحَانَہُ المُلْھِمُ“ ”اور اللہ سبحانہ ہی الہام فرمانے والا ہے“۔ اس کو یاد رکھیں۔
تشریح:
یہ تقدیر کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ اللہ جل شانہ خیر و شر کا ارادہ فرماتا ہے اور خیر و شر کا خالق بھی وہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والا نہیں ہے۔ اللہ پاک کی صفاتِ ثبوتیہ میں سے ایک صفت ”ارادہ“ بھی ہے اور ایک صفت ”خالق“ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ جس طرح انسانوں، جنات اور فرشتوں وغیرہ کا خالق ہے اسی طرح سب کے اعمال کا خالق بھی وہی ہے۔ بندہ جو کچھ کرتا ہے حقیقت میں اس کا فاعل اللہ جل شانہ ہی ہے، مثلًا میں کھانا کھاتا ہوں، یہ میں تب کھا سکوں گا جب اللہ پاک کی طرف سے مجھ سے اس فعل کے صدور کا ارادہ ہو گا، اگر اللہ پاک نہیں چاہے گا تو میں نہیں کھا سکوں گا۔ اگر اللہ پاک کا ارادہ نہ ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی کھا سکے۔ اسی طرح اگر کوئی (نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ) شراب پیتا ہے تو یہ جرم ہے، اگر اللہ پاک قاہرانہ فیصلہ کر لے اور اس کو نہ پینے دے تو وہ نہیں پی سکتا۔
لاہور کے ایک بزرگ کے بارے میں مجھے 8/4-1 کے رہنے والے ان کے ایک مرید نے بتایا کہ ایک شاعر سے حضرت ملنا چاہتے تھے، لیکن اس شاعر نے ملنے سے پہلے ایک شرط رکھی کہ میں اُن سے تب ملوں گا جب وہ مجھے وسکی پلائیں گے۔ حضرت نے منظور کر لیا کہ ٹھیک ہے، میں پلاؤں گا۔ لوگ حیران تھے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ حضرت نے وسکی پلانا قبول کر لیا، یہ کیسے بزرگ ہیں؟ خیر! وہ شاعر ملاقات کے لئے آ گیا اور حضرت نے وسکی کا پیالہ اس کے سامنے رکھ دیا۔ باتیں ہوتی رہیں، آخر میں بزرگ نے کہا کہ وسکی آپ کے سامنے رکھی ہوئی ہے، آپ پیتے کیوں نہیں؟ اس نے غصے سے کہا: حضرت! یہ عجیب بات ہے کہ آپ پلا بھی رہے ہیں اور مجھے گلاس اٹھانے بھی نہیں دے رہے، میں ارادہ کرتا ہوں لیکن اٹھا نہیں پا رہا۔
یہ اس اللہ کے ولی کی کرامت تھی۔ کرامت اللہ کا فعل ہوتا ہے، ولی کا فعل نہیں ہوتا، البتہ ولی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتا ہے۔ اس شاعر کا شراب نہ پی سکنا اس وجہ سے تھا کہ اللہ کا ارادہ نہیں تھا کہ وہ شراب پیے، اس لیے وہ چاہنے کے باوجود شراب نہیں پی سکا۔ معلوم ہوا کہ اگر اللہ جل شانہ نہ چاہے تو ہم نہ کھانا کھا سکیں، نہ پانی پی سکیں اور نہ ہی بات کر سکیں۔
اس حوالے سے ایک بات یاد آئی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک وعظ میں بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے کہ ایک صاحب مرتد ہو گئے، ان کے ایک دوست نے ان کے ارتداد کے با وجود ان سے قطع تعلق نہیں کیا بلکہ اپنے ساتھ ساتھ رکھتے تھے۔ ایک دن مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کو جانے لگے تو اس (مرتد) دوست سے پوچھا کیا آپ چلیں گے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ تمہارا بزرگ ہے میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، میں کیوں جاؤں؟ انہوں نے کہا کہ لوگ سیر و تفریح کے لئے بھی تو جاتے ہیں، آپ سیر و تفریح سمجھ کر ہمارے ساتھ چلیں، آپ کی سیر ہو جائے گی اور ہمارا کام ہو جائے گا۔ وہ صاحب مان گئے لیکن سمجھ بھی گئے کہ مجھے کیوں لے جا رہے ہیں، بعد میں یہ صاحب مسلمان ہو گئے تھے اور ”کفر توڑ“ نامی کتاب بھی لکھی جس میں یہ پورا واقعہ نقل کیا ہے۔ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں راستہ بھر یہ سوچتا رہا کہ حضرت یہ پوچھیں گے تو میں یہ جواب دوں گا، یہ پوچھیں گے تو میں یہ جواب دوں گا اور یہ کہیں گے تو میں یہ جواب دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ گویا انہوں نے پورا گورکھ دھندا بنایا ہوا تھا کہ میں نے یہ کام کرنا ہے۔ جب وہاں پہنچے اور حضرت سے گفتگو کا موقع آیا تو حضرت نے پوچھا ”بھئی کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کس لئے آئے ہو؟“۔ حضرت تیز تیز بولتے تھے جس کی وجہ سے بات کرتے ہوئے تھوڑی سی لکنت ہوتی تھی۔ خیر! وہ مسلسل یہی بات پوچھتے جا رہے تھے اور یہ بالکل گم صم کھڑے تھے۔ کچھ کہہ ہی نہیں پا رہے تھے۔ آخر میں جواب دیا کہ حضرت بیعت ہونے آیا ہوں، مجھے بیعت فرما لیں۔ حضرت نے ان کو بیعت کر لیا اور چونکہ بیعت میں ایمان کے الفاظ ہوتے ہیں اور کلمہ طیبہ بھی پڑھایا جاتا ہے لہذا انہوں نے کلمہ بھی پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے۔ واپسی پر ان کے دوستوں نے پوچھا کہ پہلے تو تم آ ہی نہیں رہے تھے اور جب آئے تو پھر بیعت بھی ہو گئے؟ یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ میں نے بڑی لمبی کہانی بنائی تھی کہ میں ان کے سوالوں کے فلاں فلاں جواب دوں گا لیکن جس وقت میں حضرت کے سامنے گیا تو بالکل ہکا بکا ہو گیا، ایسا لگا جیسے میرے دماغ میں کچھ ہے ہی نہیں، سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے دماغ میں ایک سکرین بن گئی ہے جس پر ایک طرف وہ سب سوال ایک ایک کر کے آ رہے ہیں جو میں نے ذہن میں رکھے ہوئے تھے کہ حضرت سے پوچھوں گا اور دوسری طرف ان کے جوابات آ رہے ہیں۔ آپ لوگ حضرت کی باتیں سن رہے تھے اور میں وہ سوال و جواب دیکھ رہا تھا۔ مجھے میرے سب سوالوں کے جواب مل گئے اور دل میں ایمان آ گیا تو میں نے حضرت سے کہہ دیا کہ میں بیعت ہونے کے لئے آیا ہوں، آپ بیعت فرما لیں، اور بیعت ہو گیا۔ دیکھیے! یہ بھی ولی اللہ تھے، ان کے ہاتھ پہ بھی کرامت صادر ہوئی لیکن اصل فعل تو اللہ تعالیٰ کا ہی تھا، اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا تو وہ صاحب بول ہی نہیں سکے، دلائل دینا تو دور کی بات ہے۔ اور جب بولے تو یہ بولے کہ بیعت ہونے کے لئے آیا ہوں۔ یہ بالکل وہی بات ہے جو سورۃ کوثر کے نزول کے وقت ہوئی تھی۔ کفار اس کا جواب دینے کے لئے کوششوں میں لگے رہے کہ اس جیسی کوئی سورہ بنا لیں لیکن کوئی نہیں بنا سکا، حالانکہ یہ صرف 3 آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورہ ہے۔ کافی عرصہ کوششیں کرنے کے بعد ایک شاعر نے صرف یہ لکھا کہ ”مَا هٰذَا قَوْلُ الْبَشَرِ“ ”یہ بشر کا کلام نہیں ہے“۔ یعنی یہ مِنۡ جانب اللہ ہے۔ اللہ پاک اگر قاہرانہ فیصلہ فرما دیں تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ قاہرانہ فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام کرنا چاہے لیکن اللہ پاک اس کو ہونے نہ دے۔ کبھی کبھار اللہ پاک اپنی قدرت کو ظاہر فرماتے ہیں لیکن اللہ پاک کی حکمت اس میں نہیں ہے۔ اللہ پاک کی حکمت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اختیار دیتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
ترجمہ: ”اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا“۔
اللہ اس اختیار کے بعد ہدایت بھی دیتا ہے، صحیح بات بھی سامنے رکھ دیتا ہے۔ غلط بات تو آدمی کے نفس کے اندر پہلے سے ہی موجود ہے، غلط محبت پہلے سے ہی دل کے اندر موجود ہوتی ہے، تو اس کی وجہ سے غلط سوچیں وغیرہ دماغ کے اندر آتی ہیں، اللہ تعالیٰ اختیار دے کر صحیح بات بھی بتا دیتا ہے، اب بندے کے اختیار میں ہوتا ہے کہ وہ اس ہدایت کو مانتا ہے جو انبیائے کرام، علمائے کرام اور کتابوں کے ذریعے سے اس تک پہنچی ہے یا اپنے نفس کی بات مانتا ہے۔ آپ صبح نماز پڑھنے کے لئے جاگنا چاہتے ہیں یا نہیں جاگنا چاہتے، اس کا آپ کو اختیار ہے، اللہ تعالیٰ زبردستی نماز نہیں پڑھواتا، ہاں جو پڑھ لیتا ہے اس کو اجر دیتا ہے اور جو نہیں پڑھتا اس کو سزا دیتا ہے۔ اسی طرح دوسرے معاملات میں مکمل اختیار دیا ہے کہ حلال بھی کھا سکتے ہو اور حرام بھی کھا سکتے ہو، حلال کھاؤ گے تو فائدہ ہو گا، حرام کھاؤ گے تو سزا ہو گی۔ جھوٹ بھی بول سکتے ہو، سچ بھی بول سکتے ہو، جھوٹ بولو گے تو گناہ ہو گا، سچ بولو گے تو فائدہ ہو گا۔ اللہ خیر سے راضی ہوتا ہے اور شر سے ناراض ہوتا ہے۔
اللہ کے ارادے اور اللہ کی رضا کے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ خیر و شر دونوں کا ارادہ فرماتے ہیں البتہ راضی صرف خیر کے کام سے ہوتے ہیں۔ یہ ارادہ ہے کہ بندہ جو کرے گا وہی ہو گا لیکن اگر وہ غلط کرے گا تو اس پر اللہ راضی نہیں ہوں گے۔
متن:
ارادے اور رضا کے درمیان یہ بہت باریک اور دقیق فرق ہے جس کی طرف حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اہلِ سنت کو ہدایت فرمائی ہے، باقی تمام فرقے اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہو گئے۔ اس وجہ سے معتزلہ نے بندے کو اپنے افعال کا خالق کہا ہے (اور اس کے مقابلے میں جبریہ نے کہا ہے کہ بندہ مجبور محض ہے) اور کفر و معاصی کی ایجاد کو معتزلہ نے اس (بندے) سے منسوب کیا ہے۔ شیخ مُحی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی پیروی کرنے والوں کے کلام سے بھی یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح ایمان و عمل صالح اسم ”اَلْھَادِیُ“ کے پسندیدہ ہیں اسی طرح کفر و معاصی بھی اسم ”اَلْمُضِلُّ“ کے پسندیدہ ہیں" (شیخ کی) یہ بات بھی اہل حق کے خلاف ہے اور ایجاب کی طرف میلان رکھتی ہے۔ جو رضا کا منشا ہوئی ہے۔
تشریح:
رضا سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک اس سے راضی ہے لیکن یہ اس بندے کے اختیار کے بعد کی بات ہے۔
متن:
آفتاب کا کام ضو فشانی (روشنی پھیلانا) ہے اور اس میں اس کی مرضی شامل ہے۔ اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قدرت و ارادہ عطا کیا ہے کہ اپنے اختیار سے اپنے افعال کا کسب کرتے ہیں۔ افعال کا پیدا کرنا حق سبحانہٗ کی طرف منسوب ہے اور ان افعال کا کسب بندوں کی جانب منسوب ہے۔
تشریح:
یعنی کسب بندے کی طرف سے ہوتا ہے چنانچہ فرمایا گیا:
﴿لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ (البقرة: 286)
ترجمہ: ”اس کو فائدہ بھی اسی کام سے ہو گا جو وہ اپنے ارادے سے کرے نقصان بھی اسی کام سے ہو گا جو اپنے ارادے سے کرے“۔
لیکن افعال تخلیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں، ان کو پیدا اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ بندہ تب کسی فعل کا کسب کرتا ہے جب بندے کا ارادہ ہو، اس کے علاوہ ایک ارادہ اللہ تعالیٰ کا بھی ہوتا ہے، وہ بندے کے ارادے سے الگ ہے۔ حضرت نے یہ بات بالکل واضح فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فعل کو بندے کے ارادے کے تابع کر دیا ہے یعنی بندہ جو چاہے گا اللہ تعالیٰ ویسے کر لے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی ایسے شخص کا امتحان لینا ہو جو لکھ نہیں سکتا تو اس کے ساتھ کوئی ایسا آدمی بٹھا دیا جاتا ہے جو لکھ سکتا ہے، یہ اس کو بتاتا رہتا ہے اور وہ لکھتا رہتا ہے۔ ساتھ بیٹھنے والے کا کام محض لکھنا ہوتا ہے، پیپر میں معروضی سوالات ہوتے ہیں، لکھنے والا اس سے پوچھتا ہے کہ میں کون سے آپشن پہ ٹک کروں؟ جس آپشن کو منتخب کرنے کے لئے یہ آدمی کہتا ہے لکھنے والا اسی کو ٹک کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے کیونکہ اس کا امتحان ہو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک بھی جانتا ہے کہ یہ بندہ غلط کر رہا ہے، لیکن چونکہ اس کا امتحان ہے اس لئے وہ جیسے چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ویسے کر لیتا ہے اور اس شخص کو ذمہ دار بنا دیتا ہے۔
متن:
چونکہ بندے کا فعل اپنے اختیار سے ہوتا ہے اس لئے لازمی طور پر اس کی تعریف اور برائی، ثواب اور عذاب بھی اسی سے متعلق ہے۔ اور جنہوں نے یہ کہا ہے کہ بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے اگر حق سبحانہٗ کی قوتِ اختیار کے اعتبار سے کہا ہے تو یہ ٹھیک ہے۔
تشریح:
یہ جو کہا گیا ہے کہ ”بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے“ اگر اس کا معنی یہ ہو کہ اللہ پاک کی طاقت و قوت کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو بندے کا اختیار کمزور اور ضعیف ہے کیونکہ اگر اللہ نہ چاہے تو بندہ کچھ نہیں کر سکتا، تو پھر یہ قول بالکل درست ہے، جیسے حدیث شریف میں ہے کہ اے معاذ! اگر یہ سارے لوگ جمع ہو جائیں اور تجھے کوئی نفع پہنچانا چاہیں اور اللہ کا ارادہ نہ ہو تو یہ نفع نہیں پہنچا سکتے اور اگر یہ سب جمع ہو کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں اور اللہ پاک کا ارادہ نہ ہو تو یہ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ اسی کی طرف اشارہ ہے کہ بندے کا اختیار اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر اس قول کا معنی یہ ہو کہ جس کام کے کرنے کے لئے بندے کو مامور کیا گیا ہے اس کام کے لئے اسے ضرورت کے مطابق قوت و اختیار نہیں دیا گیا تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ پاک کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہمارے محکموں میں یہ قانون ہوتا ہے کہ اگر کسی کو کوئی ذمہ داری ملتی ہے تو اس کے ساتھ اس سے متعلقہ اختیار بھی ملتا ہے۔ اگر کسی کو ذمہ داری دے دی جائے اور اختیار نہ دیا جائے تو وہ شخص کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے تو اس کے ساتھ اس کا اختیار بھی دیتا ہے۔ لہٰذا یہ بات درست نہیں ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کے لئے کافی اختیار نہیں دیا گیا۔
متن:
”فَاِنَّ اللہَ سُبْحَانَہٗ لَا یُکَلِّفُ بِمَا لَیْسَ فِیْ وُسْعِہٖ بَلْ یُرِیْدُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ الْعُسْرَ“ ”پس بے شک اللہ سبحانہٗ ایسے کام کی تکلیف نہیں دیتا جو بندے کی وسعت سے باہر ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ آسانی چاہتا ہے وہ تنگی نہیں چاہتا“۔
تشریح:
اللہ پاک کسی کو ایسے فعل کا مکلف ہی نہیں بناتا جس کی اس کو وسعت حاصل نہ ہو۔
متن:
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ”فعلِ موقت“ (چند روزہ زندگی کے فعل) پر ”جزائے مخلد“ (دائمی عذاب) کا مقرر کرنا حق تعالیٰ کے حوالے ہے جس نے ”کفرِ موقت“ کی سزا اس کے اعمال کے موافق ”عذاب مُخَلَّدْ“ فرمائی۔ اور ”تلذذات دائمی“ (یعنی بہشت اور جو کچھ اس میں ہے) کو ”ایمان موقت“ (زندگی بھر کے ایمان) پر وابستہ کر دیا۔
تشریح:
ایک بات جو الحمد للہ ہمیں پہنچی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ یہ بات حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں بھی ہو گی۔ وہ بات یہ کہ ایمان کی صفت ہے: ”إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِيقٌ بِالْقَلْبِ“۔ جب ایک مرتبہ آدمی زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کر لیتا ہے تو کیا اس کے بعد دوبارہ اور سہ بارہ بھی اقرار و تصدیق کرنا پڑتا ہے؟ ہرگز نہیں، اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ایک ہی بار کافی ہوتا ہے۔ اگر ایمان باقی رہے آدمی اسلام پر قائم رہے تو یہ پہلی بار کا اقرار اور تصدیق موت تک باقی رہے گا۔ حتیٰ کہ موت کے بعد بھی اس کا اقرار اور تصدیق جاری رہے گا، اگرچہ یہ آدمی خود نہیں رہا تب بھی اس کا اقرار اور تصدیق باقی رہے گا۔ چونکہ اس کا اقرار اور تصدیق ہمیشہ باقی رہتے ہیں اس لئے اسے ہمیشہ کی جنت ملتی ہے۔ ہاں اگر اس کے کچھ گناہ تھے تو ان کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے جنت نہیں ملے گی، اور اس کا وقت اس کے گناہوں کے بقدر ہو گا، جب وہ گناہ ختم ہو جائیں گے تو وہ جنت میں چلا جائے گا اور اس سے کبھی بھی نہیں نکلے گا کیونکہ اب ایمان کی وجہ سے اس کے لئے ”خُلُود فِی الجَنۃ“ کا معاملہ شروع ہو گیا ہے۔ دوسری طرف اگر اس نے کفر کیا ہے تو جب تک وہ اقرار نہیں کرے گا اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، اگر اسی حالت میں موت آ گئی تو اس کا کفر کا اقرار بھی ہمیشہ باقی رہے گا۔
یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے۔ اس طرح کی تجزیاتی باتیں حضرت کی طرف سے ہی ہوتی ہیں۔
اعمال میں ہمیشگی کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اعمال وقت کے لحاظ سے ہوتے ہیں، مثلًا رمضان شریف آئے گا تو روزے رکھیں گے اور ظہر کی نماز کا وقت داخل ہو گا تو ظہر کی نماز پڑھیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہر چیز کے لئے الگ الگ وقت ہے۔ اس وجہ سے موت کے ساتھ اعمال ختم ہو جاتے ہیں، ہاں اگر کسی نے صدقہ جاریہ وغیرہ شروع کروایا ہے تو موت کے بعد بھی صدقہ جاریہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک صدقہ جاریہ ابھی تک چل رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی خانہ کعبہ میں ایک صدقہ جاریہ ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اگر صدقہ جاریہ ہو تو اس کا ثواب ملتا رہے گا لیکن اس کے اپنے اعمال کا کھاتہ بند ہو جائے گا جب کہ ایمان کے لئے یہ بات نہیں ہے۔ ایمان اور کفر مسلسل ہیں اِلَّا یہ کہ درمیان میں تبدیل ہو جائیں۔ اگر تبدیل نہیں ہوئے اور موت آ گئی تو وہ گویا کہ چل رہے ہیں لہٰذا اس کی جزا اور سزا بھی اسی کے حساب سے ملے گی۔ اعمال کی جزا و سزا مُوَقَّتْ ہے یعنی جتنا عمل ہو گا اسی حساب سے جزا یا سزا ہو گی۔ البتہ جنت چونکہ ہمیشہ کے لئے ہے اور ایمان بھی موت کے بعد ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس لیے جنت میں مقام تو اعمال کی وجہ سے ہو گا اور خلود ایمان کی وجہ سے ہو گا۔ جیسے ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿اَللهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (البقرة: 257)
ترجمہ: ” اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے“۔
اور دوسری جگہ فرمایا:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ 0 الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (يونس: 62-63)
ترجمہ: ”یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے“۔
پہلی جگہ پر فرمایا کہ اللہ پاک ایمان والوں کا دوست ہے، اس کے لئے تقویٰ کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان والی ولایت ہر مسلمان کو حاصل ہے، جس کا کوئی عمل بھی نہ ہو، پھر بھی اس کو ایمان کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے جنت ملے گی اگرچہ کم سے کم درجہ کی ہو۔ اگر کسی کو اعلیٰ درجے کی جنت ملے گی تو وہ اعمال کی وجہ سے ملے گی اور اس میں ہمیشگی ایمان کی وجہ سے ہو گی۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر طول ایمان کے لحاظ سے ہے تو درجہ اعمال کے لحاظ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اونچے مقامات میں سے اونچا مقام نصیب فرمائے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے آپ ﷺ کے وسیلے سے درخواست ہی کریں گے، اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہیں۔
متن:
اللہ سبحانہ کی توفیق سے اس قدر ہم جانتے ہیں کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ جو ظاہری اور باطنی نعمتوں کا دینے والا اور آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور جس کی بارگاہ قُدْس کے لئے ہر قسم کی بزرگی اور کمال ثابت ہے، اس کی نسبت کفر اختیار کرنے کی سزا بھی ایسی ہی ہونی چاہیے۔
تشریح:
کفر کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ یہ نفس امارہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور سو فیصد درست فرمایا ہے۔ ایک دفعہ غالبًا حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ بیمار ہو گئے۔ وہاں ایک جوگی تھا جو توجہ سے بیماری کو جسم سے الگ کر دیتا تھا۔ جب حضرت بے ہوش ہو گئے تو خادمین حضرت کو اس جوگی کے پاس لے گئے۔ حضرت اگر ہوش میں ہوتے تو اجازت نہ دیتے لیکن خادموں نے سوچا کہ ڈاکٹر کافر بھی ہو تو اس سے علاج کروایا جا سکتا ہے۔ خیر! جب لے گئے تو اس جوگی نے توجہ کر کے بیماری سلب کر لی۔ جب حضرت ہوش میں آئے تو پوچھا میں کہاں ہوں؟ جب پتہ چلا کہ جوگی کی کٹیا میں ہوں تو بہت پریشان ہوئے، مریدوں کے ہاتھ پیر بھی کانپنے لگے کہ اب پتا نہیں کیا ہو گا۔ بہر حال! حضرت نے سوچا کہ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا، اب اس سے کچھ فائدہ اٹھانا چاہیے، چنانچہ آپ نے اس جوگی سے پوچھا کہ یہ زبردست کمال آپ کو کیسے حاصل ہوا؟ اس نے کہا نفس کی مخالفت کی وجہ سے۔ در اصل میں اپنے نفس کی کوئی بات نہیں مانتا۔ پوچھا کیسے مخالفت کرتے ہو؟ جواب دیا کہ نفس کہتا ہے گرم پانی پیو تو میں ٹھنڈا پیتا ہوں اور اگر وہ کہتا ہے ٹھنڈا پیو تو میں گرم پیتا ہوں، وہ اگر کہتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ تو میں بیٹھ جاتا ہوں اور اگر کہتا ہے بیٹھ جاؤ تو میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ واقعی بڑے کمال کی بات ہے، بہر حال! چونکہ آپ نے میرے اوپر احسان کیا ہے اس لئے میں بھی آپ کو کچھ دینا چاہتا ہوں، اس نے کہا ضرور دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ کلمہ پڑھ لو۔ اس نے کہا میں کلمہ تو نہیں پڑھوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اب ذرا اپنی حالت دیکھو ۔ اس نے توجہ کی تو پتا چلا کہ ہر چیز سلب ہو چکی ہے، اس نے کہا آپ نے تو کچھ دینے کا کہا تھا، لیکن آپ نے میرے پاس جو تھا وہ بھی مجھ سے سلب کر لیا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے سلب نہیں کیا، میں نے آپ ہی کے اصول پر بات کی تھی۔ آپ نفس کی مخالفت کر رہے تھے، جب کہ کلمہ پڑھنے سے آپ کو آپ کا نفس ہی روک رہا تھا اور آپ نے اس کی بات مان لی تھی، اس وجہ سے ہر چیز ختم ہو گئی۔ یہ منطقی جواب وہ سمجھ گیا، اس نے کلمہ پڑھ لیا اور حضرت کا مرید ہو گیا۔ میرے خیال میں غالباً شیخ ہندی انہی جوگی کا لقب ہے جو بعد میں بہت بڑے بزرگ بنے تھے۔
یہی حقیقت ہے کہ کفر نفس امارہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فرعون بھی اپنے نفس کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوا تھا۔ ابو جہل کیوں مسلمان نہیں ہوا؟ حالانکہ وہ آپ ﷺ کو جانتا تھا اور آپ ﷺ کی تمام باتوں کو جانتا تھا لیکن مسلمان نہیں ہوا کیونکہ اس کی انانیت اور ”میں“ آڑے آ جاتی تھی۔ ایک بار اس نے یہ بھی کہا تھا کہ محمد نے فلاں کام کیا تو ہم نے فلاں کام کیا، انہوں نے یہ کام کیا تو ہم نے وہ کام کیا۔ اب وہ یہ کہتا ہے کہ میں نبی ہوں تو ہم کیسے اس کی بات مانیں؟ ان باتوں سے معلوم ہوا کہ کفر و شرک سب نفس امارہ کی گمراہیاں ہیں۔
متن:
عقیدہ: 11
اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو مومنین آخرت میں بے جہت، بے کیف اور بے شبہ و بے مثال جنت میں دیکھیں گے۔
تشریح: یہاں سے حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ بیان فرما رہے ہیں۔
متن:
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اہل سنت کے علاوہ تمام اہلِ ملت اور غیر اہلِ ملت سب اس کے منکر ہیں اور بے جہت و بے کیف رؤیت کو جائز نہیں سمجھتے۔ حتیٰ کہ شیخ مُحی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ بھی آخرت کی رؤیت کو تجلّی صوری کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اس تجلّی صوری کے علاوہ کچھ تجویز نہیں کرتے۔
تشریح:
تجلی صوری در اصل عالمِ مثال کی چیز ہے۔
متن:
ایک روز ہمارے حضرت (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) نے شیخ سے نقل کیا کہ اگر معتزلہ رؤیت کو تنزیہ کے مرتبہ میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ کے بھی قائل ہو جاتے اور اسی رؤیت کو تجلّی (صوری) سمجھ لیتے تو ہرگز رؤیت کا انکار نہ کرتے اور محال نہ سمجھتے۔ یعنی ان کا انکار بے جہتی اور بے کیفی کی وجہ سے ہے جو مرتبہ تنزیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ بخلاف اس تجلی کے جس میں جہت اور کیف ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
تشریح:
اس عبارت پہ ذرا غور فرمائیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ ابن العربی سے نقل کیا۔ خود ابن العربی نے کہا کہ اگر معتزلہ رویت کو تنزیہ کے مرتبہ میں مقید نہ کرتے اور تشبیہ مان لیتے تو رویت کا انکار نہ کرتے۔ گویا کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بات کو تشبیہ مان لیا۔ حالانکہ اس میں تو اللہ تعالیٰ کے لئے تشبیہ ہے ہی نہیں بلکہ تنزیہ ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
یہ بات پوشیدہ نہ رہے کہ آخرت کی رؤیت کو تجلی صوری کی طرح بیان کرنا فی الحقیقت خاص رؤیت کا انکار کرنا ہے کیونکہ وہ تجلی صوری اگرچہ دنیاوی تجلیات صوریہ سے مختلف ہے لیکن حق تعالیٰ کی رؤیت نہیں ہے۔
یَرَاہُ الْمُؤْمِنُوْنَ بِغَیْرِ کَیْفٍ
وَ إِدْرَاکٍ وَّ ضَرْبٍ مِّنْ مِّثَالٍ
جنتی کو دید حق کی ہو گی سیر
کیف و ادراک اور مثالوں کے بغیر
تشریح:
وہ تو مثالی رویت ہے جو شبہ و مثال والی بات ہے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ بغیر کسی کیف اور جہت کے ہم رویت کیسے کریں گے؟ تو وہ اللہ کو پتہ ہے، وہاں یہ بات سمجھ بھی آ جائے گی اور وہاں ان شاء اللہ دیدار بھی ہو جائے گا۔
اُف کیا خوب نظارہ ہو گا
سامنے محبوب ہمارا ہو گا
ہم تو مر مر کے جینا چاہیں گے
اذن جینے کا جو پایا ہو گا
اس شعر کے اندر دو چیزوں کو جمع کیا گیا ہے۔ یعنی محبت اور اللہ جل شانہ کی عظمت کے لحاظ سے تو یہ کیفیت ہو گی کہ مارے خوشی کے ہم مر جائیں لیکن چونکہ جنت میں موت نہیں ہے اس لئے اس قدر اعلی ترین حالت کے با وجود جینا ختم نہیں ہو گا۔
اُف کیا خوب نظارہ ہو گا
سامنے محبوب ہمارا ہو گا
وہ کیا مد ہوشی کا عالم ہو گا
ھُو کا عالم ہی جو چھایا ہو گا
یہاں پر ایک لفظ استعمال ہوا ہے جو عمومًا شاعر لوگ استعمال کرتے ہیں تو بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ھُو کا عالم چھایا ہوا ہے، یہ بے ادبی ہے، کیونکہ ھُو سے مراد اللہ پاک کی ذات ہے اس لئے اس کو اس انداز میں بیان نہیں کرنا چاہیے جیسے لوگ بیان کرتے ہیں۔ یہ بے ادبی ہے لیکن وہاں ادب ہو گا کیونکہ وہاں بس اللہ ہی اللہ ہو گا، دوسری طرف نگاہ ہی نہیں جائے گی۔
اُف کیا خوب نظارہ ہو گا
سامنے محبوب ہمارا ہو گا
وقت گزرنے کا تو احساس ختم
چہرہ اپنا جو دکھایا ہو گا
بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک پہلے نعمتوں کی بارش فرما دیں گے کہ جو مانگتے ہو مانگو۔ وہ مسلسل دیتے رہیں گے حتیٰ کہ ہر شخص سوچے گا کہ اب اور کیا مانگوں۔ علاوہ ازیں جنت میں تو ایسی چیزیں ہوں گی جو نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں گی نہ کسی کان نے سنی ہوں گی۔ اس لئے لوگ حیران ہو جائیں گے کہ اب مزید کیا مانگیں، جب کچھ سمجھ نہیں آئے گا تو اپنے علماء سے پوچھیں گے کہ ہم کیا مانگیں تو وہ بتائیں گے کہ ابھی تک دیدار نہیں ہوا اس لئے وہ مانگنا چاہیے۔ جب لوگ مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کا نظام بنا دیں گے۔ دیدار کے دوران وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلے گا، جب ہوش میں آئیں گے تو بہت وقت گزر چکا ہو گا۔ اس کے بعد وہ کہیں گے کہ اصل چیز تو یہی تھی، اس سے پہلے تو ہمیں کچھ بھی نہیں ملا۔
اُف کیا خوب نظارہ ہو گا
سامنے محبوب ہمارا ہو گا
سمجھیں ہم کیا پھر اس عالم کو شبیرؔ
سب کیسے ہوں گے اور کیا ہو گا
یہ وہی بلا کیف و بلا جہت والی بات ہے کہ اب اس کے بارے میں ہم کیا جانیں کہ وہ سب کیسے ہو گا؟ یہ اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے۔
متن:
عقیدہ 12:
انبیاء علیهم الصلوات و التسلیمات کی بعثت عالم (تمام جہاں) کے لئے سراسر رحمت ہے۔ اگر ان بزرگواروں کے وجود کا وسیلہ نہ ہوتا تو ہم جیسے گمراہوں کی ذات و صفات واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی معرفت کی طرف کون هدایت فرماتا اور ہمارے مولا جل شانہٗ کی مرضیات و نا مرضیات والی چیزوں میں کون تمیز کراتا، اور ہماری ناقص عقلیں ان (بزرگواروں) کے نورِ دعوت کی تائید کے بغیر اس کے سمجھنے سے معزول و بے کار ہیں اور ہمارے اَفہامِ نا تمام ان بزرگواروں کی تقلید کے بغیر اس معاملہ میں عاجز و بے بس ہیں۔ بے شک عقل اگرچہ ایک حجت (دلیل) ہے لیکن یہ ایک نا تمام حجت ہے جو مرتبۂ بلوغ تک نہیں پہنچی ہے ”حجتِ بالغہ“ (دلیل کامل) انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی بعثت ہے جس سے آخرت کا دائمی عذاب و ثواب وابستہ ہے۔
تشریح:
عقل واقعی محدود ہے، کیونکہ عقل ان معلومات پر انحصار کرتی ہے جو اس کے پاس ہیں۔ جس چیز کی آپ کے پاس کوئی معلومات ہی نہیں عقل اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں فلاسفہ نے الٰہیات کے ابواب میں عجیب و غریب گل کھلائے ہیں کہ اللہ نے عقلِ اول اور آسمانِ اول بنائے، اس کے بعد عقلِ ثانی بنائی پھر آخر میں عقلِ فعال ہے جو سارے کام کرتی ہے، (نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِکَ) اللہ پاک نے بس عقلِ اول بنا دی، اس کے بعد اللہ پاک کچھ بھی نہیں کرتا۔ یہ انتہائی فضول سوچ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے کچھ مفروضات قائم کئے ہوتے ہیں انہی کی بنیاد پر وہ یہ فیصلے کرتے ہیں۔ جب یہ مفروضے پورے نہیں ہوتے تو وہ پھنس جاتے ہیں، یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ عقل اگرچہ کمپیوٹر کی طرح ایک زبردست چیز ہے لیکن کمپیوٹر کو اگر آپ صحیح اعداد و شمار نہ دیں تو وہ آپ کے لئے بے کار ہے کیونکہ کمپیوٹر بذاتِ خود کچھ نہیں جانتا اسی طرح عقل بھی بذات خود کچھ نہیں جانتی، اس سے کام لینے کے لئے اس کو معلومات دینا پڑیں گی۔ معلومات دو قسم کی ہوتی ہیں: ایک وہ جو دنیا میں بذریعہ مشاہدات و تجربات موجود ہیں وہ معلومات عقل کے پاس جاتی ہیں تو عقل ان کا تجزیہ کر کے کوئی نتیجہ بتاتی ہے۔ مثلاً اگر آپ کوئی زبان سیکھنا چاہیں اور آپ کے پاس اس زبان کے تین لفظ ہوں تو ان کے ذریعے آپ چار پانچ مزید سیکھ لیں گے، اگر آپ کے پاس آٹھ، دس الفاظ ہوں تو ان کے ذریعے آپ پندرہ، بیس الفاظ مزید سیکھ لیں گے۔ اس طرح رفتہ رفتہ آپ پوری زبان سیکھ لیں گے۔ گویا کہ آپ کے پاس جو معلومات ہیں ان کے ذریعے آپ عقل کا استعمال کر کے اس کو مزید ترقی دیں گے، یہ ایک سائنس ہے جو چلتی رہے گی، بنیاد سے آغاز کرتے ہی نظام بناتے ہیں، ارتقاء کا نظام اس سے چل رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر آپ کو کسی چیز کی مکمل معلومات مل جائیں اور کہا جائے کہ اس کے مطابق اس کو سمجھو اور اس کے مطابق کام کرو تو اس کے سمجھنے اور کام کرنے میں جو عقل استعمال ہوتی ہے اس کا شعبہ الگ ہے، اس شعبہ کو ایمانیات کہتے ہیں، عقلیات نہیں کہتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی خبریں عقل کو ملی ہیں جن کی بنیاد پر وہ سوچ رہی ہے۔ یہ ایک الگ چیز ہے، پہلے والی کو سائنس کہتے ہیں اور دوسری کو فقاہت کہتے ہیں۔ سائنس بھی ضروری اور اچھی چیز ہے لیکن وہ فقاہت نہیں ہے، فقاہت کا تعلق ایمانیات یعنی ایمانی خبروں کے ساتھ ہے۔ اگر آپ کے پاس ایمانی خبریں آئی ہیں، ان ایمانی خبروں کا جائزہ لینا اور اس کے بعد صحیح بات پہ عمل کرنا فقاہت ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سب حضرات یہی کرتے تھے۔ اب بھی علمائے کرام یہی کرتے ہیں۔ موجودہ فتاویٰ میں غور کر کے مطلوبہ فتویٰ نکالا جاتا ہے۔ اگر کوئی نئی صورتِ حال آئی ہے تو اس کی کوئی نظیر ڈھونڈیں گے اور گزشتہ کے ساتھ اس کو وابستہ کریں گے کیونکہ دین اوپر سے آیا ہوا ہے اس لئے آپ اس سے کوئی بھی فتویٰ معلوم کر سکیں گے اور یہ فقاہت کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، اسی طرح سائنس کا سلسلہ بھی قیامت تک چلتا رہے گا۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنيْاَكُمْ" (صحیح مسلم: 2363)
ترجمہ: ”تم اپنے دنیاوی امور کو بہتر جانتے ہو“۔
اس میں سائنس کی اجازت دی گئی ہے اور فقاہت کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمانا چاہتے ہیں اس کو تَفَقُّه فی الدین نصیب فرماتے ہیں۔
متن:
سوال:
جب آخرت کا دائمی عذاب بعثت پر موقوف ہے تو پھر بعثت کو ”رحمتِ عالمیان“ کہنا کیا معنی ہو گا؟
تشریح:
یعنی اگر بالفرض بعثت نہ ہوتی تو آخرت کا دائمی عذاب بھی نہ ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ عذاب کا سبب بعثت ہے تو پھر بعثت کو عالمین کے لئے رحمت کہنے کا کیا معنی ہو گا؟
متن:
جواب:
بعثتِ (انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات) عین رحمت ہے کیونکہ یہ واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات کی معرفت کا سبب ہے جس میں دنیا و آخرت کی سعادتیں شامل ہیں۔ اور بعثت (انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات) کی دولت کی وجہ سے معلوم ہو گیا کہ فلاں چیز حق تعالیٰ کی بارگاہ قدس کے مناسب ہے اور فلاں نا مناسب۔ کیونکہ ہماری لنگڑی اور اندھی عقل امکان و حدوث کے داغ سے داغ دار ہے، وہ کیا سمجھے کہ اس حضرت وجوب کے لئے جس کے واسطے قِدم لازم ہے اس کے اسماء و صفات اور افعال میں سے کون سے مناسب ہیں اور کون سے نامناسب تاکہ ان مناسب (اسماء و صفات) کا اطلاق کیا جائے اور نا مناسب سے پرہیز کیا جائے۔ بلکہ بعض اوقات (ہماری اندھی عقل) اپنے نقص کی وجہ سے کمال کو نقص جانتی ہے اور نقص کو کمال سمجھنے لگتی ہے۔
فقیر کے نزدیک یہ (مناسب و نامناسب کا) امتیاز تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ وہ شخص بڑا ہی بد بخت ہے جو نا مناسب امور کو اس تعالیٰ کی پاک بارگاہ کی طرف منسوب کر دے اور نا شائستہ چیزوں کو حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ نسبت دے۔ یہ بعثت (انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات) ہی کا کار نامہ ہے جس نے حق کو باطل سے جدا کر دیا۔ بعثت ہی کی وجہ سے غیر مستحق عبادت اور مستحق عبادت (حق جل و علا) کے درمیان تمیز قائم کی۔ یہ بعثت ہی ہے کہ جس کے ذریعے حق جل و علا کے راستے کی طرف دعوت دی جاتی ہے جو بندوں کو مولٰی جل سلطانہٗ کے قرب اور وصل کی سعادت تک پہنچاتی ہے اور بعثت ہی کے وسیلے سے مولیٰ جل شانہ کی مرضیات کی اطلاع میسر ہوتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
تشریح:
ابھی ابھی اس سیاق و سباق میں ایک بات دل آئی ہے وہ عرض کرتا ہوں۔ جانوروں کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے، جانوروں کے لئے پیغمبر نہیں آتے اس لئے ان کو عذاب نہیں دیا جائے گا اور نہ ان کو ثواب دیا جائے گا۔ دنیا میں جو ہوا بس وہی ہو گیا۔ اس لئے اگر بعثت سے کوئی اپنے آپ کو کاٹنا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جانور بننا چاہتا ہے کیونکہ یہ معاملہ تو جانوروں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ان کے اوپر بعثت کا اثر نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی اپنی جبلت کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، ان کے لئے نہ گناہ ہے نہ ثواب ہے، بس جس وقت ان کی زندگی ختم ہو گئی، اس کے ساتھ سب کچھ ختم ہو گیا اور مزید کچھ نہیں رہا۔ انسان کے لئے یہ معاملہ نہیں ہے، اس کے لئے انسانیت ہے، انسانیت سمجھانے کے لئے ہی پیغمبر تشریف لائے کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی غلط ہے، کون سا عمل کرنا ہے اور کون سا نہیں کرنا، اللہ کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہیے، اللہ کی صفات اور باقی تمام چیزوں کے بارے میں جاننے کے لئے ہم بعثت کے محتاج ہیں اور اس کے ذریعے سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت حاصل ہوتی ہے۔
متن:
بعثت ہی کے طفیل اس تعالیٰ کی ملک میں تصرف کے جواز و عدم جواز کی تمیز حاصل ہوتی ہے۔ بعثت کے فوائد کی مثالیں بکثرت ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ انبیاء کی بعثت سراپا رحمت ہے۔ جو شخص اس نفس امارہ کا مطیع ہو گیا اور شیطان لعین کے حکم سے بعثت کا انکار کرتا ہے اور بعثت کے تقاضوں کے مطابق عمل نہیں کرتا تو اس میں بعثت کا کیا گناہ اور بعثت کس طرح رحمت نہ ہو گی۔
سوال: ہر چند عقل اپنی ذات کی حد تک احکام الہیٰ جل شانہ کی بجا آوری میں ناقص و نا تمام ہے لیکن ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ تصفیہ اور تزکیہ حاصل ہونے کے بعد عقل کو مرتبۂ وجوب تعالیٰ و تقدس کے ساتھ ایک بے تکیّف مناسبت اور اتصال پیدا ہو جائے کہ جس مناسبت اور اتصال کے سبب وہ احکام کو وہاں سے اخذ کر لے اور اس کو اس بعثت کی جو فرشتے کے واسطے سے ہے، کوئی حاجت نہ رہے۔
تشریح:
چونکہ اس زمانے میں اس قسم کی باتیں ہو رہی تھیں اس لئے حضرت نے ان کے رد میں یہ باتیں لکھیں۔ اکبر کے نام نہاد دینِ الہٰی میں اس نے اس قسم کے سوالات پیدا کئے تھے۔ حضرت کے سامنے یہ باتیں پہنچیں تو حضرت نے ان چیزوں کے جوابات دیئے۔ یہ چیزیں ہمارے لئے نہیں ہیں کیونکہ آج کل شاید ان چیزوں پہ کوئی بات نہیں کر رہا، البتہ ان کے علاوہ کچھ اور چیزیں آ گئی ہیں جو ہمارے ساتھ ہو رہی ہیں۔
متن:
جواب:
اگرچہ عقل یہ مناسبت اور اتصال پیدا کر لے لیکن وہ تعلق جو اس کا جسمانی بدن کے ساتھ ہے وہ بالکل ختم نہیں ہوتا اور کامل طور پر علیحدگی حاصل نہیں ہوتی، لہذا قوتِ واہمہ ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے، اور قوت متخیلہ ہرگز اس کا خیال نہیں چھوڑتی اور قوت غضبیہ اور شہویہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے اور حرص و لالچ کے رذائل ہر وقت اس کے ہم نشین رہتے ہیں۔ سہو و نسیان جو نوع انسانی کے لوازمات میں سے ہیں اس کی عقل سے مکمل طور پر جدا نہیں ہوتے، اور غلطی و خطا جو اس جہان کا خاصہ ہے اس سے جدا نہیں ہوتے۔ لہذا عقل اعتماد کے لائق نہیں ہے، اور اس سے ماخوذ احکام وہم اور تصرف خیال کے غلبہ سے محفوظ نہیں رہتے اور نسیان و خطا کے گمان کی آمیزش سے محفوظ نہیں رہتے، بر خلاف فرشتے کے کہ وہ ان اوصاف سے پاک اور ان رذائل سے مبرا ہے تو لازمًا وہ اعتماد کے قابل ہے۔
تشریح:
یہاں پر اگر عقل اور کشف پر ساتھ ساتھ بحث کر لی جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی۔ کشف میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں شیطان اس میں اپنی بات نہ ملا دے۔ اس وجہ سے ہمیں بھی اس بارے میں رہنمائی در کار ہوتی ہے کہ ہمارا کشف صحیح ہے یا غلط ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انسان عقل میں نفس کی آمیزش سے نہیں بچ سکتا کیونکہ عقل کو جو خبر مل رہی ہے اس خبر میں بھی نفس کا واسطہ ہے۔ مثال کے طور پر عقل کو درد کا احساس ہوتا ہے تو اس کے مطابق عقل کچھ فیصلہ بھی کرے گی۔ درد، خواہش، شہوت؛ یہ تمام چیزیں انسان کے ساتھ ہیں، میں کتنے ہی عقل کے گھوڑے دوڑا لوں لیکن کسی بات کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ محض عقل کی بنیاد پر نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں نفس کی آمیزش ہوتی ہے۔ آج کل یورپ کا مشاہدہ کر لیں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آ جائے گی۔ کیا یورپ میں رہنے والے عقلاء کو معاشرے میں ہونے والی یہ برائیاں نظر نہیں آ رہیں؟ ان لوگوں نے قوانین ایسے بنائے ہیں جن میں برائی ہی پھیل سکتی ہے۔ وہاں کی پارلیمنٹ میں جو عقلا بیٹھے ہیں اور جو ان کے مفکر حضرات ہیں، کیا انہیں ان قوانین کی برائیوں کا پتا نہیں ہے؟ ان کو سب پتا ہے لیکن شیطانی نظام ان کے اوپر طاری ہے جو ان کو سوچنے ہی نہیں دیتا۔ چونکہ میں جرمنی میں رہا ہوں تو مجھے ان چیزوں سے واسطہ پڑا ہے۔ وہاں یہ حالت ہے کہ آپ اپنے بچے کو کچھ نہیں کہہ سکتے، اگر کچھ کہیں گے تو آپ کے خلاف مقدمہ بن جائے گا۔ اس حال میں آپ بچے کی تربیت کیسے کریں گے؟ وہ پولیس کو ایک فون کرے گا تو پولیس پہنچ جائے گی اور بچے کو آپ سے لے جائے گی۔ خدا نخواستہ اگر کسی کی بیوی بد چلن ہو جائے تو آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس کی اپنی مرضی ہے، وہ جو بھی کرے، آپ اس کی مرضی کے خلاف اس کو مجبور نہیں کر سکتے۔ یہ مذہبی رشتے ان کے ہاں اہمیت نہیں رکھتے لیکن اپنی قوت ارادی اور اظہار رائے کی آزادی کی ان کے ہاں بہت اہمیت ہے۔ انہوں نے قوانین ایسے شیطانی انداز سے بنائے ہوئے ہیں کہ ان میں شریف آدمی ہی جکڑا جاتا ہے۔ جو صحیح کام کر رہا ہے اس کے لئے راستہ نہیں ملتا اور بروں کے لئے اس میں راستہ بنتا جاتا ہے۔ الغرض سارا نظام ہی برائی کا ہے اور یہ سارا نظام وہاں کے عقلا نے بنایا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر اللہ کی طرف سے ہدایت کا نظام نہ ہو تو عقل ایسے ہی ٹھوکریں کھائے گی۔ ایسے لوگ اپنی غلطی نہیں سمجھ سکتے، اس کو سمجھنے کے لئے جتنا زمانہ چاہیے وہ اس سے پہلے ہی گزر چکے ہوں گے۔ جب کہ ہمیں الحمد للہ پورے کا پورا نظام ملا ہوا ہے، ہم صرف اس کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے مکلف ہیں۔
متن:
اور اس سے ماخوذ احکام وہم و خیال کی آمیزش اور نسیان و خطا کے گمان سے محفوظ ہیں اور بعض اوقات وہ علوم جو تلقی روحانی (القائے روحانی) سے اخذ کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے متعلق تبلیغ کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قویٰ و حواس کے ساتھ بعض مقدمات مسلمہ غیر صادقہ جو وہم و خیال یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہوئے ہیں، بے اختیار ان علوم کے ساتھ اس طرح خلط ملط ہو جاتے ہیں کہ اس وقت ہرگز تمیز ممکن نہیں رہتی، اور دوسرے وقت میں ایسا ہوتا ہے کہ اس تمیز کا علم دے دیا جاتا ہے اور کبھی نہیں دیا جاتا۔ لہذا لازمی طور پر وہ علوم ان مقدمات کے مل جانے کی وجہ سے کذب کی ہیئت پیدا کر لیتے ہیں اور اعتماد کے قابل نہیں رہتے۔ یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تصفیہ اور تزکیہ کا حاصل ہونا ”اعمال صالح“ کے بجا لانے پر موقوف ہے جو ”مرضیات مولیٰ سبحانہٗ“ ہیں اور یہ معنی بعثت (انبیاء) سے وابستہ ہیں جیسا کہ بیان ہو چکا۔
تشریح:
تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفس کی نہ مانیں بلکہ اللہ کی مانیں۔ ہر وقت آپ کے پاس نفس بھی ہے اور اللہ کا حکم بھی ہے۔ آپ اللہ کا حکم مانیں گے اور نفس کی نہیں مانیں گے تو یہ تزکیہ ہے۔
﴿فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾ (الشمس: 8)
ترجمہ: ”پھر اس کے نفس میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے“۔
فجور کی بات تو نفس میں آ گئی، اب تقویٰ کے بارے میں کون بتائے گا کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا تعلق تو اوامر و نواہی کے ساتھ ہے۔ اوامر و نواہی کوئی نہیں بتائے گا تو آپ کو کیسے پتا چلے گا؟ چنانچہ پھر آپ فجور میں ہی رہ جائیں گے لہٰذا آپ کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ شریعت سے رہنمائی حاصل کریں۔
متن:
لہذا ثابت ہوا کہ بعثت کے بغیر تصفیہ اور تزکیہ کی حقیقت میسر نہیں ہوتی اور وہ صفائی جو کفار اور اہل فسق کو حاصل ہوتی ہے وہ نفس کی صفائی ہے نہ کہ قلب کی صفائی، اور نفس کی صفائی سوائے گمراہی کے کچھ نہیں بڑھاتی، اور سوائے نقصان کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ بعض غیبی امور کا کشف جو صفائی نفس کے وقت کفار اور اہل فسق کو حاصل ہو جاتا ہے وہ استدراج ہے جس سے مقصود اس جماعت کی خرابی اور نقصان ہے۔
تشریح:
نفس کی صفائی کیا چیز ہے؟ میرے خیال میں یہ بہت مشکل سوال ہے لیکن اللہ پاک نے دماغ میں اس کا جواب ڈال دیا ہے، الحمد للہ۔ نفس کی صفائی سے مراد یکسوئی ہے، نفس کی باہمی خواہشات آپس میں مخالف ہوں تو یہ پراگندگی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ آپ یکسو نہیں ہو سکتے۔ آپ نفس کو ایک رخ پر لے آئیں تو اس سے نفس کی قوت و صلاحیت بڑھ جاتی ہے جو مختلف قسم کے شعبدہ باز انسانوں کے لئے رستے کھولتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سے ایسے کام کر سکتا ہے جو عام انسان نہیں کر سکتے۔ جوگ وغیرہ میں یہی ہوتا ہے، جیسے ابھی جوگی کا واقعہ گزرا۔ اس نے بھی صرف یکسوئی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ پہ ایسے کام ہوتے تھے جن کو لوگ بظاہر کرامات سمجھتے ہیں۔ حاصل یہ کہ نفس کی صفائی در اصل انسان کی صلاحیت کو ایک رخ پر لے آتی ہے۔ جیسے سورج کی روشنی ہر چیز پہ پڑتی ہے اور اس سے ہر چیز اپنی استعداد کے مطابق گرم ہوتی ہے لیکن اگر آپ اس کے سامنے عدسہ لگا دیں تو اس کی وجہ سے وہ ساری گرمی کسی ایک نقطے پر جمع ہو جاتی ہے نتیجتاً وہ اس جگہ کو جلا دیتی ہے حالانکہ عام روشنی اس کو نہیں جلا سکتی صرف گرم کر سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح اپنے نفس کو قابو کر لے تو اس سے کچھ ایسے محیر العقول کام سرزد ہوں گے جن کو دیکھ کر لوگ اس کی بہت زیادہ واہ واہ کریں گے۔ نفس کی صفائی سے یہ چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
متن:
اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ تکلیفِ شرعی جو بعثت (انبیاء) کی راہ سے ثابت ہوئی ہے وہ بھی رحمت ہی ہے، نہ کہ جس طرح تکلیف شرعی کے منکروں یعنی ملحدوں اور زندیقوں نے گمان کیا ہے اور تکلیف شرعی کو مصیبت جان کر غیر معقول اور نا پسند قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ کون سی مہربانی ہے کہ بندوں کو امور شاقہ کی تکلیف دی جائے پھر ان سے کہا جائے کہ اگر تم اس تکلیف کے مطابق عمل کرو گے تو بہشت میں جاؤ گے اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو دوزخ میں جاؤ گے، ان کو ایسے امور کی کیوں تکلیف دیتے ہیں اور ان کو کیوں نہیں چھوڑ دیتے کہ کھائیں، پئیں اور سوئیں، اور جس طرح چاہیں اپنے طور پر زندگی بسر کریں۔ (یہ منکرین) بد نصیب اور بے عقل یہ نہیں جانتے کہ از روئے عقل ”شکرِ منعم“ ادا کرنا واجب ہے۔
تشریح:
یہ ظالم باقی تمام چیزوں میں یہ بات جانتے ہیں، چنانچہ اگر کوئی آدمی کسی کے اوپر احسان کر دے تو شرفاء شکر ادا کرتے ہیں اور اس کے ممنون ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ اللہ جل شانہ کے ممنون ہونے کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ اسی طرح قادیانی جب لوگوں کے ساتھ تھوڑی سی دنیاوی مدارات کرتے ہیں تو لوگ ان کے بہت زیادہ ممنون ہوتے ہیں، حتی کہ بعض بد نصیب اپنا دین تک چھوڑ دیتے ہیں۔
ریاض میں ہمارے ایک استاد دوست تھے جو کچھ زیادہ ہی مغرب پرست تھے۔ ایک بار ان کو امریکہ میں پی ایچ ڈی کے لئے 550 ڈالر کی سکالر شپ ملی تو وہ بار بار اس خط کو چومتے تھے اور امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگاتے تھے۔ میں ان کو کہتا کہ خدا کے بندے! امریکہ یہ 550 ڈالر تمہیں مفت میں تو نہیں دے رہا، اس کے بدلے تم سے کتنا کام لے رہا ہے جب کہ اللہ پاک نے تمہیں جو کچھ دیا ہے، اس کے بدلے وہ تم سے کچھ بھی نہیں لے رہا۔ لیکن یہ باتیں ان کو سمجھ نہیں آئیں۔
متن:
اور یہ تکلیفاتِ شرعیہ اس شکر کے بجا لانے کا بیان ہے لہذا تکلیف (شرعی) عقل کی رو سے بھی واجب ہے۔ اسی طرح ”نظام عالم“ ”تکلیفاتِ شرعیہ“ کے ساتھ وابستہ ہے۔
تشریح:
دنیاوی لحاظ سے مختلف چیزوں کو قابو میں رکھنے کا کوئی نظام نہ ہو تو لوگوں کو اطمینان نہیں مل سکتا۔ مثلاً ٹریفک ہی کو لے لیں، ٹریفک کے قوانین کے ذریعے آپ کو روک دیا جاتا ہے، آپ کا بھلے کتنا ہی ضروری کام ہو، سرخ بتی پر آپ کو لازماً رکنا پڑے گا، اگر آپ نہیں رکیں گے تو جرمانہ دینا پڑے گا۔ اگر آپ ٹریفک والے سے کہیں کہ مجھے ضرورت ہے، مجھے جانے دیں تو وہ کہے گا کہ صرف تمہیں ضرورت نہیں ہے اور بھی لوگوں کی ضرورت ہے، ہمیں سب کی رعایت کرنی ہے، اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو سب لوگ نقصان اٹھائیں گے۔ بعض دفعہ جب کسی جگہ پر بھیڑ ہو جاتی ہے اور بجلی گئی ہوتی ہے اور اشارے کام نہیں کر رہے ہوتے، ٹریفک پولیس کے لوگ بھی غائب ہوتے ہیں تو لوگ خود کہتے ہیں کہ پولیس والے کدھر گئے، وہ ہوتے تو یہ معاملہ ٹھیک کرتے۔ اسی طرح دنیا کا سارا نظام قوانین پر چل رہا ہے اور قوانین پر عمل کرنے میں تکلیف تو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ آپ کو ہر چیز کے اصولوں پر عمل کرنا ہے۔ نہیں کریں گے تو یہ جرم ہے۔ آج کل کرونا سے بچاؤ کے اصولوں پر ہر طرف گفتگو ہو رہی ہے یہ اصول بھی قوانین ہی ہیں۔ یقیناً آپ کو ان قوانین پہ عمل کرنے میں تکلیف ہو گی لیکن اجتماعی معاملات کے اندر یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حاصل یہ کہ آپ کے فائدے کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں، اور کچھ تکالیف بھی دی گئی ہیں کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، ان سب کا فائدہ آپ کو آخرت میں ہو گا۔
متن:
اگر ہر ایک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جاتا تو سوائے شرارت و فساد کے کچھ ظہور میں نہ آتا، اور ہر بو الہوس (لالچ رکھنے والا) دوسرے کی جان و مال میں دست درازی کرتا اور خباثت و شرارت سے پیش آتا، اس طرح خود بھی ضائع ہوتا اور دوسروں کو ضائع کرتا۔ عِیَاذًا بِاللہِ سُبْحَانَہٗ۔ اگر سختی اور شرعی موانع حائل نہ ہوتے تو معلوم نہیں کہ کس قدر شرارت و فساد ظاہر ہوتا۔ ﴿وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (بقرہ: 179) ”اے عقلمندو! تمہارے لئے قصاص میں ہی زندگی ہے“۔
یا ہم یہ کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ زمین و آسمان اور ہر چیز کا خود مختار مالک ہے اور (تمام) بندے اس سبحانہٗ کے مملوک اور غلام ہیں۔ لہذا جو حکم و تصرف وہ ان میں فرماتا ہے وہ عین خیر و اصلاح ہے اور ظلم و فساد کی آمیزش سے منزہ و مبرا ہے۔ ﴿لَا یُسْـَٔلُ عَمَّا یَفْعَلُ﴾ (انبیاء: 23) ”وہ جو کچھ کرتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا“۔
اگر وہ سب کو دوزخ میں ڈال دے اور دائمی عذاب کا حکم فرمائے تو کسی کو اعتراض کی کیا مجال ہے اور یہ غیر کی ملک میں تصرف نہیں ہے کہ اس میں ظلم و ستم کا شائبہ ہو۔ بر خلاف ہماری املاک کے جو فی الحقیقت اسی سبحانہ کی املاک ہیں، ان املاک میں تمام تصرفات (سوائے ان کے جو جائز ہیں) عین ستم ہیں۔ کیونکہ صاحب شرع نے بعض مصالح کی بنا پر ان املاک کی نسبت ہماری طرف کر دی ہے لیکن حقیقت میں وہ سب اسی سبحانہٗ کی ملکیت ہیں۔ لہذا ان میں ہمارا تصرف اسی قدر جائز ہے جس قدر مالک علی الاطلاق (بالکلیہ مالک) حق تعالیٰ نے ان میں تصرف کی اجازت دی اور مباح فرمایا۔ کیونکہ ان بزرگواروں (یعنی انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات) نے حق جل و علا کے احکام کے بارے میں خبریں دی ہیں اور جو احکام بیان فرمائے ہیں وہ سب سچے اور واقعہ کے مطابق ہیں۔ (علما نے) احکام اجتہادیہ میں ان بزرگوار (پیغمبران علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات) سے اگرچہ خطا کو تجویز کیا ہے لیکن خطا کے برقرار رکھنے کو ان کے حق میں جائز نہیں رکھا اور فرمایا ہے کہ ان کو ان کی خطا پر جلدی متنبہ کر دیتے ہیں اور ان کی خطا کا تدارک صواب سے کر دیتے ہیں ”فَلاَ اِعْتَدَادَ بِذٰلِکَ الخَطَإِ“ (لہذا یہ خطا کسی گنتی میں نہیں ہے)۔
تشریح:
یہ در اصل تربیت کا ایک نظام ہے، اللہ جل شانہ کی طرف سے انبیائے کرام کی تربیت کے لئے وحی بھی آتی ہے اور ساتھ ساتھ کچھ عملی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ زندگی میں جو واقعات آتے ہیں ان سے بھی تربیت ہوتی ہے۔ اس تربیت کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ اجتہادی طور پر پیغمبر نے ایک کام کیا، اس کے بعد حکم آ گیا کہ یہ نہیں کرنا بلکہ دوسرا کام کرنا ہے، تو حکم تبدیل ہو گیا۔ اس صورت میں پہلا کام سیکھنے کے لئے کروایا گیا تھا جب سیکھ لیا تو اس کی بنیاد پر دوسرا حکم دیا گیا۔ جیسے
﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰى 0 أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمٰى﴾ (عبس: 1-2)
ترجمہ: ”(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔ اس لیے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا“۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ آپ ﷺ بڑے بڑے مشرکوں کو جمع کر کے تبلیغ فرما رہے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے، وہ نا بینا تھے انہیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ ﷺ گفتگو فرما رہے ہیں۔ انہوں نے آ کر نبی ﷺ کو مخاطب کر کے بات کرنا شروع کر دی۔ نبی ﷺ کو ان کی یہ بات نا گوار گزری۔ آپ ﷺ کا خیال یہ تھا کہ عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اپنے آدمی ہیں، وہ بعد میں بھی آ سکتے ہیں جبکہ عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا عذر یہ تھا کہ انہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی طبیعت پر بوجھ آیا اور اس بوجھ کے بارے میں اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، طالب کا حق پہلے ہے، یہ آپ کو بوجھ نہیں لگنا چاہیے۔ اب یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی منشا سے ہی صادر ہوا اور اس کا مقصد نبی ﷺ کے ذریعہ امت کو یہ بات سکھانا تھا کہ طالب کا حق پہلے نمبر پر ہوتا ہے، اس لئے طالب کو ترجیح دینی چاہیے۔ یہ واقعہ تھا تو اجتہادی غلطی لیکن اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مکمل مسئلے کا علم نصیب فرما دیا۔ اس لئے ہم پیغمبروں کی اجتہادی خطا کو غلطی نہیں کہیں گے، بلکہ اسے تربیت کا نظام کہیں گے۔
متن:
عقیدہ: 13
اور قبر کا عذاب خاص طور پر کافروں کے لئے اور بعض گنہگار اہل ایمان کے لئے ”حق“ ہے کیونکہ مخبر صادق علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے اس کی خبر دی ہے۔
تشریح:
آج کل بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو قبر کے عذاب کے منکر ہیں حالانکہ اس کے بارے میں متواتر احادیث شریفہ موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ عذابِ قبر حق ہے اور اس کا انکار کرنا بدعت ہے۔
متن:
عقیدہ: 14
اور قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر نکیر کا سوال بھی ”حق“ ہے۔ کیونکہ دنیا اور آخرت کے درمیان ”قبر“ ایک برزخ ہے۔ اس کا عذاب بھی ایک وجہ سے دنیاوی عذاب سے مناسبت رکھتا ہے اور انقطاع پذیر (ختم ہونے والا) ہے اور دوسری وجہ سے اس کو عذاب اخروی کے ساتھ مناسبت ہے کیونکہ وہ حقیقت میں آخرت کے عذابوں میں سے ہے۔ آیت کریمہ
﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا﴾ (مومن: 46)
”وہ صبح و شام آگ (دوزخ) پر پیش کئے جاتے ہیں“۔
”نَزَلَتْ في عَذَابِ القَبْرِ“ ”یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے“۔
اور اسی طرح قبر کی راحت بھی دو حیثیتیں رکھتی ہے، وہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے جس کی لغزشوں اور گناہوں کو کمالِ کرم اور مہربانی سے معاف فرما دیں اور ہرگز اس سے مواخذہ نہ کریں اور اگر مقامِ مواخذہ میں آ جائے تو بھی اپنی کمال رحمت سے دنیاوی آلام و مصائب کی تکالیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دے دیں۔ اور اگر کچھ باقی رہ جائے تو قبر کی تنگی اور ان تکلیفوں کو جو اس مقام میں مقرر ہیں ان سے کفارہ کر دیں تاکہ پاک و پاکیزہ ہو کر حشر میں مبعوث ہو۔ اور جس کسی کے لئے ایسا نہ کریں اور اس کا مواخذہ آخرت پر چھوڑ دیں تو یہ بھی عین عدل ہے۔ لیکن گنہگاروں اور شرمساروں کے حال پر افسوس ہے۔ ہاں اگر وہ (گنہگار) اہل اسلام سے ہے تو اس کا انجام رحمت سے ہے اور وہ عذاب ابدی سے محفوظ ہے، یہ بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ ”رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرلَنَا اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیءِِ قَدِیر۔ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ المُرسَلِینَ عَلَیْہِ وَ عَلیٰ اٰلِہٖ وَ عَلَیھِمُ الصَّلوَاتُ وَ التَّسْلِیمَاتُ“ ”اے ہمارے رب! سید المرسلین علیہ و علیٰ آلہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے طفیل ہمارے نور کو کامل فرما اور ہم کو بخش دے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے“۔
تشریح:
اس کا مطلب یہ ہے کہ منکر نکیر کا سوال برزخی سوال ہے، یہ درمیان کی بات ہے، اصل حساب آگے ہو گا۔ گویا کہ یہ حوالات کی طرح کوئی چیز ہے، برزخ والی زندگی اس کے حساب سے گزرے گی۔ یہاں تین سوال کئے جائیں گے:
(1)۔ ”مَنْ رَّبُّکَ؟“ ”تمہارا رب کون ہے؟“
(2)۔ ”مَا دِیْنُکَ؟“ ”تمہارا دین کیا ہے؟“
(3)۔ مَا هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بُعِثَ فِيكُمْ؟ ’’یہ کون صاحب ہیں جو تمہارے درمیان بھیجے گئے تھے؟‘‘
ان تینوں کے جواب اگرچہ ظاہر ہیں، لیکن یہ علمی سوال نہیں ہیں، بلکہ عملی سوال ہیں، یعنی جیسا عمل کیا ہو گا اسی حساب سے جواب دے سکیں گے۔
متن:
عقیدہ: 15
روز قیامت ”حق“ ہے۔ اس روز آسمان، ستارے، زمین، پہاڑ، سمندر، حیوان، نباتات اور معدنیات سب کے سب معدوم و نا چیز ہو جائیں گے۔ آسمان شق ہو جائیں گے اور ستارے منتشر ہو کر گر جائیں گے، اور زمین و پہاڑ پراگندہ ذرات ہو جائیں گے۔ اس تمام توڑ پھوڑ اور فنا کا تعلق نفخۂ اولیٰ سے ہے۔ نفخۂ ثانیہ (دوسرے صور) پر لوگ قبروں سے اٹھ کر محشر کی طرف روانہ ہوں گے۔ فلاسفہ (یعنی حکمائے یونان وغیرہ) آسمانوں اور ستاروں کے نیست و نابود ہونے کو نہیں مانتے اور ان کا فانی اور فاسد ہونا جائز نہیں سمجھتے۔ وہ ان کو ازلی اور ابدی کہتے ہیں اور اس امر کے با وجود ان میں سے متاخرین اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنے آپ کو زمرۂ اہلِ اسلام میں شمار کرتے ہیں اور اسلام کے بعض احکام کو بھی بجا لانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اہلِ اسلام ان کی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور جرأت و دلیری کے ساتھ ان کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ بعض مسلمان ان لوگوں میں سے بعض کے اسلام کو کامل جانتے ہیں اور اگر کوئی ان پر طعن و تشنیع کرے تو اس کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ نصوص قطعیہ کے منکر ہیں اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے اجماع کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۪ۙ۱وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ۪ۙ۲﴾ (تکویر: 1، 2) ”جب آفتاب بے نور ہو جائے گا اور ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے“۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْۙ۱ وَ اَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَ حُقَّتْۙ۲﴾ (انشقاق: 1-2) ”جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے رب کا حکم سن لے گا، اور وہ اسی لائق ہے“۔
وہ یہ نہیں جانتے کہ صرف کلمۂ شہادت زبان سے ادا کر لینا اسلام میں کافی نہیں ہے، بلکہ ان تمام چیزوں کی تصدیق بھی ضروری ہے جن کا بجا لانا اور ان پر عمل کرنا دین کی ضروریات میں سے ہے، اور کفر و کافری سے برأت اختیار کرنا اور بیزار ہونا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام متصور ہو جائے۔ ”وَ بِدُونِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ“ ”اور اس کے علاوہ بے فائدہ تکلیف اٹھانا ہے“۔
عقیدہ: 16
اور حساب، میزان (اعمال کا وزن ہونا) اور پل صراط ”حق“ ہے کہ مخبر صادق علیہ و علی آلہ السلام نے ان کی خبر دی ہے۔ (لیکن) نبوت کے اطوار سے نا واقفیت کی بنا پر بعض جاہلوں کا ان امور کو بعید از عقل سمجھنا درجہ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ نبوت کے اطوار عقل کے اطوار سے بالاتر ہیں۔ حقیقت میں انبیاء کرام علیہم السلام کی سچی خبروں کو عقل کی نظر کے موافق کرنے کی کوشش کرنا حقیقت میں ”طور نبوت“ سے انکار ہے کیونکہ یہاں معاملہ صرف تقلید (انبیاء) پر مبنی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ”طور نبوت“ ”طور عقل“ کے مخالف ہے، بلکہ ”طور عقل“ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید کی تائید کے بغیر اس عالی مطلب کی طرف ہدایت حاصل نہیں کر سکتی۔ مخالفت دوسری چیز ہے اور رسائی نہ ہونا دوسری بات ہے کیونکہ مخالفت رسائی کے بعد متصور ہوتی ہے۔
تشریح:
یعنی رسائی ہو جائے تو اس کے بعد مخالفت کا نمبر آئے گا، ہماری تو وہاں تک رسائی ہی نہیں، ہاں ہماری وہاں تک رسائی انبیائے کرام کے ذریعے سے ہو سکتی ہے۔
متن:
عقیدہ: 17
اور بہشت و دوزخ موجود ہیں۔ قیامت کے دن حساب کے بعد ایک گروہ بہشت میں بھیجا جائے گا اور دوسرا گروہ دوزخ میں، اور ان (مومنوں) کے لئے ثواب اور (کفار کے لئے) عذاب دائمی و ابدی ہو گا جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ جیسا کہ قطعی اور موکدہ نصوص اس امر پر دلالت کرتے ہیں۔
صاحب فصوص (شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) کہتے ہیں کہ سب کا انجام ”رحمت“ ہے (جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:)
﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ﴾ (اعراف: 156)
”اور میری رحمت سب چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے“ـ
کفار کے لئے دوزخ کا عذاب تین حقبہ (ایک حقبہ اسی برس کی مدت) تک ثابت ہے۔ اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ ”آگ ان کے حق میں بَرْدًا وَّسَلَامًا (ٹھنڈی اور سلامتی والی) ہو جائے گی جیسا کہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام پر ہو گئی تھی۔ وہ حق جل و علا کی وعید میں خلاف کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور وہ (صاحب فصوص) یہ کہتے ہیں کہ ”اہل دل (صوفیہ) میں سے کوئی بھی کفار کے دائمی عذاب کی طرف نہیں گیا ہے“۔ اس مسئلہ میں بھی وہ راہ حق سے دور جا پڑے ہیں اور انہوں نے یہ نہیں جانا کہ مومنوں اور کافروں کے حق میں ”وسعت رحمت“ صرف اسی دنیا میں مخصوص ہے لیکن آخرت میں کافروں کو رحمت کی بو تک نہیں پہنچے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِنَّهٗ لَا یَایْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ (یوسف: 87)
”بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سوائے کافروں کے کوئی مایوس (نا امید) نہ ہو گا“۔
جیسا کہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ﴾ کے بعد فرمایا ہے: ﴿ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَۚ﴾ (اعراف: 156) ”پھر میں اپنی رحمت کو ان لوگوں کے لئے لکھوں گا جو متقی ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں، اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں“۔ شیخ (ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) نے آیت کے اول حصے کو تو پڑھ لیا اور آخری حصے کا مطالعہ نہ فرمایا۔ اور جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (اعراف: 56) ”بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت محسنین کے قریب ہے“۔ نیز آیۂ کریمہ ﴿فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ﴾ (ابراہیم: 47) ”پس ہرگز گمان نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا“۔ یہ آیت بھی وعدہ خلافی کی خصوصیت پر دلالت نہیں کرتی۔ ہو سکتا ہے کہ اس جگہ وعدہ خلافی کے نہ ہونے کا اقتصار و انحصار اس وجہ سے ہو کہ وعدے سے مراد رسولوں کی نصرت اور کفار پر ان کا غلبہ ہے اور یہ بات وعدہ و وعید دونوں کو متضمن ہے یعنی رسولوں کے لئے وعدہ ہے اور کفار کے لئے وعید لہذا اس آیت کریمہ میں بھی خلفِ وعدہ (وعدہ خلافی) کی نفی ہوتی ہے اور خلف وعید کی بھی نفی۔ فَالآیَۃُ مُسْتَشْھِدَۃٌ عَلَیْہِ لَا لَہٗ ”لہذا آیت مذکورہ شیخ کے خلاف ہے، تائید میں نہیں ہے“۔ اسی طرح خلف در وعید (وعید میں خلاف ہونا) بھی وعدہ خلافی کی مانند جھوٹ کو مستلزم ہے اور یہ حضرت جل سلطانہٗ کے شایان شان نہیں ہے کیونکہ وہ (حق تعالیٰ) ازل ہی میں جانتا تھا کہ کفار کو دائمی عذاب نہیں دوں گا۔ با وجود اس کے کسی مصلحت کی بنا پر اپنے علم کے خلاف فرما دیا کہ میں ان پر دائمی عذاب مسلط کر دوں گا۔ اس بات کو جائز کرنا نہایت ہی برا ہے ﴿سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ﴾ (صافات: 180) ”تمہارا بڑی عزت والا رب ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں“۔
اور کفار کے لئے دائمی عذاب کے نہ ہونے پر اہلِ دل (صوفیہ) کا اجماع صرف شیخ کا اپنا کشف ہے اور کشف میں خطا اور غلطی کی بہت گنجائش ہے اور خصوصًا وہ کشف جو مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہو، اس لئے اس کا کچھ اعتبار و اعتماد نہیں ہے۔
تشریح:
خلود فی النار کا مسئلہ بہت ہی نازک ہے اور اس پہ شاید حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی اس طرح کی کوئی بات گزری ہے۔ ان کو بھی اشکال تھا لیکن حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر یہ بات کھولی تو انہوں نے اس سے رجوع کر لیا۔ ان کے رجوع سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ فارسی میں اپنے مرید حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں با قاعدہ ایک غزل لکھی کیونکہ انہوں نے حق کی طرف رجوع فرما لیا تھا۔ بعض حضرات کو اشتباہ ہو جاتا ہے۔ ان کا دھیان اس طرح کی نصوص پہ پڑتا ہے کہ اللہ پاک کی رحمت اس کے غضب کے اوپر سبقت کرتی ہے ان کی ساری توجہ انہی نصوص پہ مرکوز ہو جاتی ہے دوسری نصوص ان کی نظر سے غائب ہو جاتی ہیں وہ مغلوب الحال ہو جاتے ہیں۔ اس مغلوب الحال ہونے میں وہ مقتدا تو نہیں رہتے کہ ان کی بات مانی جائے لیکن وہ خود معذور ہو جاتے ہیں۔ پھر جیسے ہی ان کو حق کا پتا چلتا ہے تو وہ رجوع کر لیتے ہیں جیسے حضرت سید سلیمان ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کیا۔ ممکن ہے حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کیا ہو، کیونکہ بہت ساری باتوں میں بعض لوگ رجوع کر لیتے ہیں لیکن وہ رجوع مشہور نہیں ہو پاتا۔ اس وجہ سے عین ممکن ہے کہ حضرت نے بھی اس سے رجوع فرما لیا ہو کیونکہ حضرت (مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) خود فرماتے ہیں کہ ان کی بعض باتوں سے تو ہم اختلاف کرتے ہیں لیکن ان کے مقامِ ولایت کو ہم مانتے ہیں کہ وہ ولی اللہ ہیں اور بڑے اونچے مقامات میں ہیں۔ یہ بات ہر آدمی نہیں کہہ سکتا، صرف حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہی یہ بات کہہ سکتے ہیں۔
متن:
عقیدہ: 18
فرشتے خداوند جل سلطانہ کے بندے ہیں جو گناہوں سے پاک اور خطا و نسیان (بھول چوک) سے بھی محفوظ ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ﴾ (تحریم: 6) ”اللہ تعالیٰ جو حکم ان کو کرتا ہے وہ اس میں اس کی نا فرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم ہوتا ہے“۔ وہ کھانے پینے سے اور مرد و زن ہونے سے منزہ اور مبرا ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے لئے مذکر ضمیروں کا استعمال اس اعتبار سے ہے کہ صنف ذکور کو صنف نساء کے مقابلہ میں شرف حاصل ہے چنانچہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے بھی مذکر ضمیروں کا استعمال کیا ہے۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے بعض (فرشتوں) کو رسالت کے لئے منتخب کیا ہے جیسا کہ بعض انسانوں کو رسالت کی دولت سے مشرف فرمایا ہے (جیسا کہ ارشاد ہے:) ﴿اَللّٰهُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ﴾ (حج: 75) ”اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے بعض کو رسالت کے لئے منتخب فرما لیتا ہے“۔
جمہور علمائے اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ ”خاص انسان خاص فرشتوں سے افضل ہیں‘‘، لیکن امام غزالی، امام الحرمین اور صاحبِ فتوحات مکیہ رحمہم اللہ تعالیٰ اس بات کے قائل ہیں کہ خاص فرشتے خاص انسانوں سے افضل ہیں۔ جو کچھ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ فرشتے کی ولایت نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی ولایت سے افضل ہے لیکن نبوت و رسالت میں نبی کے لئے ایسا درجہ ہے کہ جس تک فرشتہ نہیں پہنچا ہے اور وہ درجہ عنصر خاک کی وجہ سے ظاہر ہوا ہے جو بشر کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس فقیر پر یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ ”کمالات ولایت“ ”کمالات نبوت“ کے مقابلہ میں کسی گنتی میں نہیں ہیں۔ کاش کہ ان کے درمیان وہ نسبت ہی ہوتی جو قطرہ کو دریائے محیط کے ساتھ ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ پس وہ فضیلت جو نبی کو نبوت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے وہ اس فضیلت سے کئی گنا زائد ہے جو ولایت کی وجہ سے حاصل ہو، لہذا ”فضیلتِ مطلق“ انبیائے کرام علیہم الصلوات و التسلیمات کا حصہ ہے اور جزئی فضیلت ملائکہ کرام کے لئے ہے۔ پس درست وہی ہے جو علمائے کرام شَکَرَ اللہُ تَعَالیٰ سَعْیَہُمْ نے فرمایا ہے۔ اس تحقیق سے یہ ظاہر ہو گیا کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے درجات میں سے کسی نبی کے درجے تک کوئی ولی نہیں پہنچتا بلکہ اس ولی کا سر ہمیشہ اس نبی کے قدم کے نیچے ہوتا ہے۔
جاننا چاہیے کہ ان مسائل میں سے ہر ایک مسئلہ میں جن میں علما اور صوفیا کا اختلاف ہے، جب اچھی طرح غور اور ملاحظہ کیا جاتا ہے تو حق علما کی جانب معلوم ہوتا ہے اور اس کا راز یہ ہے کہ علما کی نظر نے انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی متابعت کے باعث نبوت کے کمالات اور اس کے علوم میں نفوذ کیا ہے، اور صوفیا کی نظر ولایت کے کمالات اور اس کے معارف تک محدود رہتی ہے۔
تشریح:
یعنی صوفیا پر جو منکشف ہوتا ہے وہی دیکھتے ہیں۔ علماء منکشف ہونے والی بات کی طرف جاتے ہی نہیں بلکہ وہ تو قرآن و حدیث کی بات جانتے ہیں۔
متن:
لہذا وہ علم جو نبوت کی مشکوٰۃ سے حاصل کیا جائے وہ لازمًا اس علم سے جو مرتبہ ولایت سے اخذ کیا گیا ہو کئی درجے زیادہ صحیح اور حق ہو گا۔ ان معارف میں سے بعض کی تحقیق اس مکتوب (دفتر اول مکتوب 260) میں جو فرزندی ارشدی (خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ) کے نام طریقے کے بیان میں لکھا ہے درج ہو چکی ہے، اگر کچھ دقت اور پوشیدگی رہ گئی ہو تو اس (مکتوب کی طرف) رجوع کریں۔
عقیدہ: 19
ایمان سے مراد جو کچھ دینی امور سے متعلق ضرورت اور تواتر کے طریق پر ہم تک پہنچا ہے اس کی دل سے تصدیق کرنا ہے۔ زبان سے اقرار کرنا بھی ایمان کا رکن ہے جیسا کہ (علما نے کہا ہے) کہ اس کے بغیر (ایمان کے) منہدم ہونے کا احتمال ہے، اور اس علامت کی تصدیق کفر سے تبری کرنا اور کافری سے اور جو کچھ کافری کے لوازم و خصائص ہیں جیسے زنار کا باندھنا اور اس کی مانند وغیرہ سے بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔ اللہ سبحانہٗ کی پناہ! اگر کوئی تصدیق کا بھی دعوی کرے اور کفر سے بے زاری کا اظہار نہ کرے تو وہ دو دینوں کی تصدیق کرنے والا بن جائے گا جو ارتداد کے داغ سے داغ دار ہو گا اور حقیقت میں اس کا حکم منافق کے حکم میں ہے: ﴿لَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی هٰۤؤُلَآءِ﴾ (نساء: 143) ”نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے“ لہذا ایمان کی تحقیق میں کفر سے تبری (بیزاری کا اظہار) کئے بغیر چارہ نہیں۔ تبری کا ادنیٰ درجہ دل سے بے زاری کرنا ہے اور تبری کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ دل اور جسم دونوں سے ہو، اور تبری سے مراد حق جل و علا کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی رکھنا ہے۔ خواہ دشمنی قلب سے ہو جب کہ ان سے نقصان پہنچنے کا خوف ہو، خواہ دل اور جسم دونوں سے ہو جب کہ ان سے ضرر کا خوف نہ ہو۔ آیۃ کریمہ ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ﴾ (توبہ: 73) ”اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ“ اس مضمون کی تائید کرتی ہے کیونکہ خدائے عز و جل کی محبت اور اس کے رسول علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی محبت ان کے دشمنوں کی دشمنی کے بغیر صورت پذیر نہیں ہوتی۔ اس جگہ یہ مصرع صادق آتا ہے۔
تولی بے تبری نیست ممکن
”حب حق کے واسطے ہے غیر سے نفرت ضرور“۔
شیعہ (فرقہ) نے جو یہ قاعدہ اہل بیت کی محبت اور دوستی میں جاری کیا ہے اور تینوں خلفا اور ان کے علاوہ اکثر صحابہ سے تبری کرنا اہل بیت کی دوستی کی شرط قرار دیا ہے، نا مناسب ہے کیونکہ دوستوں کی محبت کے لئے شرط ہے کہ ان کے دشمنوں سے تبری کیا جائے، نہ کہ مطلق طور پر دشمنوں کے علاوہ دوسروں سے بھی ہو اور کوئی عقلمند منصف اس بات کی تجویز نہیں کرتا کہ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات کے اہلِ بیت کے دشمن ہوں، حالانکہ ان بزرگواروں نے آپ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی محبت میں اپنے اموال اور جانوں کو صرف کر دیا اور اپنی عزت و حکومت کو برباد کر دیا تو اہل بیت سے ان کی دشمنی کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے، جب کہ نص قطعی سے آنسرورِ عالم علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے قرابت داروں کی محبت ثابت ہے۔ اور دعوت کی اجرت کو ان کی محبت قرار دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (شوری: 23) ”آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اہلِ قرابت کی دوستی کے علاوہ کوئی بدلہ نہیں چاہتا“۔
اور حضرت ابراہیم خلیل الرحمٰن علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو یہ بزرگی حاصل ہوئی اور ”شجرہ انبیاء“ بن گئے، یہ سب اس تعالیٰ کے دشمنوں کے ساتھ (علی الاعلان) تبری کرنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِهِمْ اِنَّا بُرَءٰٓؤُا مِنْكُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗۤ﴾ (ممتحنہ: 4) ”تمہارے لئے ابراہیم(علیہ و علی نبینا الصلوۃ و السلام) میں اور ان لوگوں میں جو ان کے ساتھ تھے ایک عمدہ نمونہ ہے جب کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سے بے زار ہیں، اور ہم تمہارے منکر ہیں اور ہم میں اور تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض ظاہر ہو گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ“۔
اس فقیر کی نظر میں ”رضائے حق جل و علا“ حاصل کرنے کے لئے اس تبری (بے زاری) کے اظہار کے برابر کوئی عمل نہیں ہے۔ (یہ فقیر اپنے ذوق میں پاتا ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو کفر و کافری کے ساتھ ذاتی عداوت ہے۔ اور یہ آفاقی اِلٰہ مثلاً لات و عزیٰ اور ان کی پوجا کرنے والے ذاتی طور پر حق جل سلطانہٗ کے دشمن ہیں، اور دوزخ کا دائمی عذاب اس برے فعل کی سزا ہے۔ خواہشِ نفسانی کے اِلٰہ اور تمام برے اعمال یہ نسبت نہیں رکھتے کیونکہ ان کی عداوت اور غضب ذاتی نسبت سے نہیں ہے۔ اگر غضب ہے تو وہ صفات کی طرف منسوب ہے اور اگر عقاب و عتاب (عذاب و غصہ) ہے تو افعال کی طرف راجع ہے، لهذا دوزخ کا دائمی عذاب ان کے گناہوں کی سزا نہیں ہوئی بلکہ (حق تعالیٰ نے) ان کی مغفرت کو اپنی مشیت اور ارادے پر منحصر رکھا ہے۔
جاننا چاہیے کہ جب کفر اور کافروں کے ساتھ ذاتی عداوت کی تحقیق ہو چکی تو لازماً رحمت و رافت جو ”صفات جمال“ میں سے ہے آخرت میں کافروں کو نہ پہنچے گی، اور رحمت کی صفت ذاتی عداوت کو دور نہیں کرے گی۔ کیونکہ جو چیز ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس چیز کی نسبت جو صفت سے تعلق رکھتی ہے زیادہ قوی اور بلند ہے، لہذا مقتضائے صفت (صفت کے تقاضے) مقتضائے ذات کو تبدیل نہیں کر سکتے اور یہ جو حدیث قدسی میں آیا ہے: ”سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلیٰ غَضَبِیْ“ ”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“۔ اس غضب سے مراد غضبِ صفاتی سمجھنا چاہیے جو گنہگار مومنوں کے ساتھ مخصوص ہے نہ کہ غضبِ ذاتی جو مشرکوں کے ساتھ مخصوص ہے۔
تشریح:
یہاں حضرت نے بہت زبر دست دلیل دی ہے جس سے ساری بات بالکل واضح ہو گئی ہے لیکن اس کے لئے تمہید بہت لمبی باندھی ہے۔ اختصار کے ساتھ اس کو یوں سمجھ لیں کہ ایمان بنیاد ہے اس لئے کہ اس کا تعلق ذات کے ساتھ ہے اور اعمال کا تعلق صفات کے ساتھ ہے لہٰذا جو ایمان نہیں لاتے، ان کی ذات کے ساتھ دشمنی ہے، صفات والی رحمت اس دشمنی کو ختم نہیں کرے گی۔
ما شاء اللہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے علمِ کلام کی بڑی گہرائی نصیب فرمائی تھی، دلائل میں مسلسل قرآن و حدیث چل رہے ہیں، کشفیات کبھی کبھی آتے ہیں، جیسے ابھی آگے ذکر آ رہا ہے کہ ایک صاحب مرض الموت میں مبتلا تھے، مجھے کہا گیا کہ آپ اس پہ ذرا توجہ کریں، میں نے توجہ کی مگر توجہ کام نہیں کر رہی تھی تو میں حیران ہو گیا۔ وجہ پوچھنے پر بتایا گیا کہ اس کی کافروں کے ساتھ دوستی تھی، تمہاری توجہ اس کو دور نہیں کر سکتی۔ اس کا علاج عذاب جہنم ہی ہے۔
کافروں کے ساتھ دوستی بڑی مہنگی پڑتی ہے اس لئے کافروں کے ساتھ دوستی نہیں ہونی چاہیے۔ مدارات والی بات الگ ہے لیکن دوستی ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ ہم کسی کافر کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ میرا دوست ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوْلِیَآءَ﴾ (المائدة: 51)
ترجمہ: ” اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یار و مدد گار نہ بناؤ“۔
یعنی ان کے ساتھ دوستی نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کی اللہ سے ذاتی طور پہ عداوت ہے لہٰذا وہ صفات والی رحمت اس کو عذاب سے نہیں روک سکتی۔ صفات والی رحمت اعمال کے لحاظ سے ہے، یہ رحمت صرف اعمال کے اندر کام کرے گی۔ صحیح بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ نے قرآن میں جو فرمایا ہے:
﴿وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ﴾ (الشورى: 30)
ترجمہ: ”اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے“۔
اس ارشاد کی برکت سے تھوڑی سی بچت ہے ورنہ اگر برابر برابر معاملہ ہوتا تو کوئی نہیں بچ سکتا تھا۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم تو انتظامی طور پر باتیں کرتے ہیں ورنہ وہاں تو ایسے ایسے لوگوں کی مغفرت ہو گی جن کو ہم واقعی کافر سمجھتے ہوں گے لیکن وہ اللہ کے نزدیک کافر نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ جن پر یہ باتیں کھولتے ہیں وہ انتظامی بات تو کرتے ہیں لیکن دل میں اس کو نہیں رکھتے، ان کو پتا ہوتا ہے کہ جس کے ساتھ معاملہ ہے وہ بہت کریم ذات ہے، اس کا معاملہ سب کے ساتھ بالکل الگ ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی کے ساتھ ہماری نرمی کی وجہ سے ان کو نقصان ہو رہا ہے تو پھر ہم سختی کریں گے لیکن وہ سختی انتظامی ہو گی اور وہ اس لئے بھی ضروری ہوتی ہے کہ گناہوں کی کثرت ایمان کو سلب کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لئے اگر آپ اس کو انتظامی طور پہ نہیں روکیں گے تو وہ ذاتی دشمنی میں چلا جائے گا اور اس کو صفات والی بات سنبھال ہی نہیں سکے گی۔ لہٰذا آپ کے لئے ان کو موت سے پہلے پہلے روکنا ضروری ہے۔
ہمارے دفتر میں ایک آدمی تھے جو بڑے نیک انسان تھے، ان کے معاملات بہت شفاف تھے لیکن عبادات یعنی نماز وغیرہ میں سستی کرتے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ کسی طریقے سے ان کو بات پہنچا دیں گے اور دوستی کے ناتے ان کے ساتھ کسی وقت بیٹھ کر ان سے بات چیت کریں گے، ممکن ہے کہ وہ مان جائیں۔ لیکن ایک دن اچانک ان کو دل کا دورہ پڑا اور وہ فوت ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 43 سال تھی۔ کچھ دنوں بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا، میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے کہ میں تم سے اور یوسف سے ناراض ہوں، میں نے کہا کیا مسئلہ ہو گیا؟ جواب دیا کہ تم لوگوں نے مجھے سمجھایا کیوں نہیں؟ پھر فرمایا کہ ایک دفعہ میرا حساب ہو گیا ہے لیکن اس میں کچھ مسائل ہیں، اب پرسوں دوبارہ حساب ہو گا، میں نے سوچا کہ ان کی بات تو بالکل صحیح ہے کیونکہ ہم ان کو نہیں کہہ سکے تھے۔ اس خفت کی وجہ سے میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے لئے ابھی ایصالِ ثواب کر دیتا ہوں، چنانچہ میں نے خواب میں ہی ایک دفعہ سورۂ فاتحہ اور تین دفعہ سورۂ اخلاص پڑھ کے اس کا ثواب ان کو بخش دیا۔ جب بیدار ہوا تو میں نے یوسف صاحب کو سارا قصہ سنایا، یوسف صاحب بھی بہت پریشان ہو گئے کہ اس کا شکوہ تو بالکل بجا ہے، واقعتاً ہم سے سستی ہو گئی، چنانچہ انہوں نے بھی ان کے لئے ایصالِ ثواب کروا دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جن کے ساتھ میری دوستی ہے اس کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ میں ان کے غلط اعمال دیکھ کر در گزر کا معاملہ کروں، بلکہ دوستی کا حق یہ ہے کہ میں ان کو روکوں تاکہ وہ بچ جائیں۔ ورنہ اگر وہ کفر کی طرف چلے گئے تو ہماری پہنچ سے معاملہ نکل جائے گا۔ اس وجہ سے گناہ گاروں کے ساتھ نرمی و ملائمت اپنی جگہ لیکن دین پر لانے کے لئے کچھ نہ کچھ انتظام ہونا چاہیے، اللہ پاک ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعالَمِيْنَ