مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 05

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مقاماتِ قدسیہ کے بارے میں ان کے صاحبزادہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ“ میں اولیاء اللہ کی قسمیں بتاتے ہوئے رقم طراز ہیں:
متن:
پس اے میرے پیارے! بعض کو مقامِ ولایت سے مقامِ فردانیت تک پہنچایا جاتا ہے۔ اور یہ مقام مشائخ کا مقامِ اوّل ہے۔ ورنہ عام طور پر مشائخ وہ ہوتے ہیں کہ ولایت سے قطبیت اور پھر وہاں سے مقام فردانیت کو پہنچائے جاتے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! وہ افراد جو کہ قطبِ مدار یعنی قطبِ عالم سے افضل اور بہتر ہیں ہمیشہ اور دائمی طور پر تجلئ ذات میں محو ہوتے ہیں، لیکن مخلوق اور اہل ظاہر ان کو عالم محو میں سمجھتے ہیں، لیکن وہ محو عظیم ہوتا ہے۔ اور افراد کے قالب (جسم) بشریت کے لباس میں مشابہت اور تمثیل کے طور پر اہل ظاہر کو نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ نورِ ذات میں محو اور فنا ہوتے ہیں۔ نہ تو وہاں مکان ہوتا ہے اور نہ زمان (یعنی اہل مکان و زمان) یعنی اہلِ تجلئ صفات افعال اور آثار کی تجلیات کے لیے کوئی افراد کی تجلی نہیں ہوتی۔ بلکہ اُن کے لیے مشاہدہ بھی نہیں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ پس جو کوئی اس مقام تک رسائی حاصل کرے وہ خود سمجھ جائے گا۔ یہ عام لوگ اور اہل ظواہر شیخی اور درویشی کو اس بات میں سمجھتے ہیں کہ چند رکعت نماز پڑھ لی جائے، یا چند روز تک خلوت میں بیٹھا رہے یا چند دن بھوکا پیاسا رہے۔ خدا کی قسم ان تمام توہمات اور خیالات سے حقیقت دور ہے۔ اور جناب حضرت شیخ رحمکار صاحب قطبِ حقیقی تھے۔ اور آپ تجلئ ذات سے متجلّی اور منور تھے۔ پس اے میرے پیارے! صاحبِ فصوص الحِکم تحریر فرماتے ہیں کہ منصور حلّاج کو تجلئ ذات حاصل تھی اور فردانیت کے مقام کو پہچانتا تھا۔ لیکن محمد حسین بن نصیر الدین جو کہ بحر المعانی کے مصنف ہیں فرماتے ہیں کہ اگر منصور حلاج کو تجلی ذات حاصل ہوتی تو وہ "أَنَا الْحَقُّ" کبھی نہ کہتے۔ اور ذکر سبحانی نہ الاپتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجلئ ذات میں محویت ہوتی ہے، اور جو محو ہو جائے تو اس کو کیا خبر ہوتی ہے کہ وہ کون ہے اور کیا چیز ہے؟ پس "أَنَا وَ إِنَّا" (میں اور ہم وغیرہ) سے مراد اپنی حقیقت کو سمجھنا اور بیان کرنا ہے۔ پس وہ مقامِ محویت میں کب اور کیسے ہوتا ہے کہ جب کہتا ہے کہ میں اور ہم۔ یعنی میں ایسا ہوں اور ہم ایسے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! تجلئ ذات میں کلام کرنا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سرور عالم رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ کَلَّ لِسَانُہ" یعنی جو شخص اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، تو اس کی زبان بند ہو جاتی ہے۔
تشریح:
اس مقام کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بات کی ہے۔ اسم ظاہر کی تجلی میں اللہ جل شانہ کی طرف سے بندے پر مختلف چیزیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں جن کے ذریعے بندہ اللہ تعالیٰ کی معرفت تک پہنچ جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو بندہ اس کے اندر ایسا محو ہو جاتا ہے کہ پھر اسے کسی چیز کی خبر نہیں رہتی یہاں تک کہ وہ اپنا آپ بھی بھول جاتا ہے۔ وہ مسلسل ایک ایسی محویت کے عالم میں رہتا ہے جس میں اسے کسی اور چیز کا ادراک نہیں ہوتا۔ اسی بات کو یوں فرمایا گیا کہ جس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس کی زبان گنگ ہو گئی یعنی وہ کلام نہیں کر سکتا۔ کلام نہ کر سکنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مقام حیرت میں ہوتا ہے، وہ جو دیکھ رہا ہوتا ہے اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے حضرات مخلوق کے درمیان تو رہتے ہیں مگر لوگوں کے ساتھ وہی باتیں کرتے ہیں جنہیں لوگ سمجھ سکیں، اپنی معرفت کے مطابق بات نہیں کرتے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:
”کَلِّمُوا النَّاسَ عَلٰى قَدۡرِ عُقُوۡلِهِمۡ“
ترجمہ: ”لوگوں کے ساتھ ان کی عقلوں کے مطابق بات کرو“۔
کیونکہ اگر ان کی عقل سے باہر کی کوئی بات کی گئی تو لوگوں میں ذہنی انتشار پیدا ہو گا جس سے بجائے فائدہ کے ان کو نقصان ہو گا۔ اس وجہ سے ایسے حضرات گفتگو کم کر دیتے ہیں اور بعض حضرات بالکل ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر بھی یہ حالت گزری تھی۔ حضرت نے ان دنوں وعظ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لوگ ان کے استاذ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور کہا کہ ان کے مواعظ سے لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچتا تھا لیکن انہوں نے وعظ کرنا بند کر دیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بلا کر دریافت کیا کہ وعظ کرنا کیوں موقوف کر دیا ہے؟ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے سامنے رونے لگ گئے، کچھ کہہ نہ سکے۔ حضرت مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کی حالت سمجھ گئے اور لوگوں سے کہا کہ ان کو چھوڑ دو، اِس وقت ان سے کوئی بات نہ کرو، اِس وقت ان کی حالت ایسی ہے کہ اگر منبر پہ بیٹھ گئے تو پہلی بات جو ان کی زبان سے نکلے گی وہ ”اَنَا الْحَق“ کا کلمہ ہو گا۔ بعد میں جب افاقہ ہوا تو لوگوں نے حضرت سے پوچھا کہ یہ کیا بات تھی؟ فرمایا: مجھ پر توحید کا غلبہ ہو گیا تھا۔
متن:
اور اس ''عَرَفَ'' سے مراد تجلئ ذات ہے، لیکن تجلئ صفات اور تجلئ اسماء و آثار میں کلام کرنا جائز ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے "مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ طَالَ لِسَانُہٗ" یعنی جو اپنے رب کی معرفت کی سعادت سے مشرف ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔
تشریح:
زبان لمبی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ زیادہ بات کرے گا۔ اسم ظاہر کا اثر یہی ہوتا ہے کہ سالک کو بہت کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ اس کو اتنا کچھ دکھایا جا رہا ہوتا ہے کہ وہ بیان کرتے کرتے تھک جاتا ہے لیکن اس کے مشاہدات کا بیان ختم نہیں ہوتا۔ بعد ازاں جب وہ تجلی ذات میں آ جاتا ہے تب اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی ذات الفاظ کے دائرے میں نہیں آ سکتی۔ الفاظ کے ذریعے اللہ پاک کی تجلیوں کا بیان ممکن نہیں ہے۔ تجلی کا احساس تو ہر شخص کو اپنی معرفت کے مطابق ہو سکتا ہے مگر اس کا بیان ممکن نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ اللہ پاک کی مخلوقات میں غور کرو اللہ پاک کی ذات میں غور مت کرو، وہ وراء الورا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ قرآن شریف میں نصِ صریح سے ثابت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے اللہ مجھے اپنا دیدار کرا دے۔ اللہ پاک نے ان سے فرمایا: تو ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ لہٰذا اس دنیا میں تو انسان اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، ہاں تجلیات کے اندر غرق ضرور ہو سکتا ہے اور اسی کو معرفت کہا گیا ہے۔ جب کسی کو یہ تجلی ذات حاصل ہوتی ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔
متن:
جو اپنے رب کی معرفت کی سعادت سے مشرف ہو جاتا ہے تو اس کی زبان لمبی ہو جاتی ہے۔ اس حدیث سے تجلئ صفات وغیرہ مراد ہیں۔ اس بات میں خوب غور و فکر سے کام لو کہ جب تجلئ ذات کے درمیان کلام ہو تو تجلئ ذات میں "سُبْحَانِيْ" اور "أَنَا الْحَقُّ" کہنا مناسب نہیں اور ہرگز جائز نہیں۔ پس معلوم ہوا کہ یہ کلام وغیرہ تجلئ صفات کے دوران ہوگا۔ اور محمد حسین بن نصیر الدین فرماتے ہیں کہ جب میں اس مقام میں تھا تو اس فقیر کے ساتھ اتنی باتیں ہوئیں اور یہ فقیر بھی جواب دیتا تھا کہ اُس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اگر تجلئ صفات وغیرہ میں کلام نہ ہو تو ہلاکت کا خوف ہوتا ہے۔ اور اسی محمد حسین صاحب نے یہ مثنوی کہی ہے جو کہ تجلئ صفات کے مقام سے کہی گئی ہے۔ مثنوی:
؂ بحر جان چوں زدہ صد گونہ جوش
چوں توانم بود بیک ساعت خموش
جوں کہ غرق آتشم غیبم مکن
مے بسوزیم گر نمی گویم سخن پس مے از گوش
’’روح اور جان کا سمندر جب طغیانی اور جوش میں آتا ہے تو ایک گھڑی بھر کے لیے میں کیسے چپ رہ سکتا ہوں؟ چونکہ آگ میں ڈوبا ہوا ہوں تو اگر میں بات نہ کروں تو میں جل جاتا ہوں۔ یہ بات کان کھول کر سنو‘‘
پس اے میرے پیارے! "أَنَا الْحَقُّ" اور "سُبْحَانِيْ" کی شرح یہ ہے کہ جب سالک تجلئ صفات میں مستغرق ہوتا ہے تو صفات کے جمال کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی انہیں صفات میں (موصوف) دیکھتا ہے۔ یعنی ذات جاذب الوجود، واجب الوجود کی صفات میں اُن صفات کے جمال کے نور میں مستغرق ہو جاتا ہے۔ اور واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) کی صفات جذبیت میں آتی ہیں۔ جاذب الوجود (سالک) کا وجود مجذوب ہو کر کلام کرنے لگ جاتا ہے۔ "سُبْحَانِيْ" اور "أَنَا الْحَقُّ" مجذوب نہیں کہتا ہے بلکہ وہی صفاتِ واجب الوجود (اللہ تعالیٰ) جاذب الوجود (سالک) کی زبان سے فرماتا ہے جیسا کہ سید الکونین رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ "إِنَّ اللهَ تَعَالٰی جَعَلَ الْحَقَّ عَلٰى لِسَانِ عُمَرَ "
ترجمہ: تحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان میں حق رکھ دیا ہے۔
محمد حسین نے کہا ہے کہ اے میرے محبوب! جو شرح کہ اس فقیر نے نقل کی ہے۔ تو یہ شرح اُن لوگوں سے پوچھی جائے جو "أَنَا الْحَقُّ" اور "سُبْحَانِيْ" کہہ چکے ہیں تو وہ خود بھی اس کی شرح نہیں کر سکتے۔ اور اس کو واضح طور پر بیان نہیں کر سکتے۔ خدائے برتر و توانا کی قسم کہ اس کی شرح بیان کرنے سے وہ عاجز ہوتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ میں سے کسی نے بھی اس کی شرح بیان نہیں کی ہے۔ پس اہل ظاہر یہ کلام مجذوب کی جانب سے تصور کر کے اُس کو ضرر پہنچاتے ہیں۔
تشریح:
میں آپ کو اس بارے میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے بات سمجھانے کا ڈھنگ عطا فرمایا تھا لہذا حضرت بڑی نازک بات کو بھی بڑے اچھے طریقے سے سمجھا دیتے تھے۔ لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ کے پاس ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی کہ یہ نابینا ہے اس پر دم فرما دیں تاکہ یہ بینا ہو جائے۔ اس وقت ان بزرگ پر غلبۂ حال طاری تھا، انہوں نے جواب دیا کہ میں کوئی موسیٰ یا عیسیٰ ہوں کہ نابینا کو بینا کر دوں؟ جاؤ اپنا کام کرو۔ وہ عورت روتی ہوئی واپس چلی گئی۔ اتنے میں حضرت کو اللہ کی طرف سے الہام ہوا کہ موسیٰ کون اور عیسیٰ کون، یہ سب کام تو میں کرتا ہوں۔ یعنی موسیٰ نے یہ کام نہیں کئے، عیسیٰ نے یہ کام نہیں کئے یہ تو میں نے کئے ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام نے کسی کو زندہ کیا یا کسی نا بینا کو بینا کر دیا ہے تو یہ ان کا کام تھوڑی ہے یہ تو میرا (اللہ پاک) کا کام ہے۔
ان بزرگ کو یہ الہام ہوا۔ اب ہوتا یہ ہے کہ عاشق الہام کو بڑے مزے سے سنتا ہے اور اسے دہرانے لگتا ہے۔ محبوب کا کلام دہرانے میں اسے بڑا مزہ آتا ہے۔ ان بزرگ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے دل پر یہ الفاظ الہام کئے گئے کہ ”موسیٰ کون اور عیسیٰ کون؟ یہ سب تو میں کرتا ہوں“۔ اس پر انہیں تنبیہ تو ہو گئی لیکن اس تنبیہ کے ساتھ انتہائی خوشی بھی تھی کہ اللہ پاک نے مجھ سے الہامی طور پہ بات کی ہے۔ اس خوشی میں آ کر وہ اس عورت کی طرف بھاگے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ ”موسیٰ کون عیسیٰ کون یہ تو میں کرتا ہوں، موسیٰ کون عیسیٰ کون یہ تو میں کرتا ہوں“۔ اس عورت کے پاس پہنچے اور یہ کلمات دہراتے ہوئے نابینا بچے کے چہرے پہ ہاتھ پھیرنے لگے اور وہ بینا ہو گیا۔
اب اگر لوگ اس بزرگ سے پوچھتے کہ آپ یہ کیا کہہ رہے تھے تو وہ بتا دیتے کہ میں تو وہ الفاظ دہرا رہا تھا جو میرے دل پہ وارد ہوئے تھے اور میری زبان پہ جاری ہو گئے تھے میں انہی کو دہرائے جا رہا تھا۔
وہ بزرگ اس وقت مقام عروج میں تھے اور مقام عروج میں کشف اور کرامتیں بہت زیادہ ظاہر ہوتی ہیں، ان کی کرامت ظاہر ہو گئی جس کے ذریعے وہ بچہ بینا ہو گیا۔ ایسے واقعات کے پیچھے ایک پوری تفصیل ہوتی ہے لیکن اسے لوگ نہیں سمجھتے اور غلطی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور واقعہ لکھا ہے کہ ایک آدمی مسلسل یہ کہے جا رہا تھا کہ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ پھر میں تیری بات کیوں مانوں، نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ پھر میں تیری بات کیوں مانوں۔ اس بات پہ لوگ اسے برا بھلا کہہ رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے اور پتھر پھینک رہے تھا لیکن وہ اپنی مستی میں یہ بات کہے جا رہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک بزرگ تشریف لائے انہوں نے یہ سارا ماجرا دیکھا اور اس آدمی کے پاس جا کر غور سے سنا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، پھر اس سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں کہہ رہے ہیں اور کس کو کہہ رہے ہیں؟ اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا: الحمد للہ ایک عقلمند سے ملاقات ہو گئی، در اصل میرا نفس کسی برائی کا تقاضا کر رہا ہے اس لئے میں اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں کہ نہ تو میرا خدا ہے نہ میں تیرا بندہ پھر میں تیری بات کیوں مانوں۔
اس بزرگ نے کہا کہ حضرت آپ بات تو صحیح کر رہے ہیں لیکن جگہ آپ نے غلط منتخب کی ہے، مہربانی کر کے آپ یہ بات اپنے نفس سے گھر میں بیٹھ کر کہہ دیا کریں تاکہ عوام پریشان نہ ہوں۔ یہ سن کر اس آدمی نے چادر اٹھا کے کندھے پہ ڈالی اور یہ کہتے ہوئے گھر کی طرف چل پڑا کہ عقلمند کی بات ماننی چاہیے۔
غور فرمائیں باقی لوگ ان کو کیا سمجھ رہے تھے لیکن جس نے تحقیق کی اسے معلوم ہو گیا کہ اصل بات کیا ہے۔ لوگ کسی بھی بات کا فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں بلکہ کئی مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی شخص کے دل میں جو سوچ اپنے بارے میں ہوتی ہے دوسرے پر بھی وہی گمان کرتا ہے۔ عموماً لڑائیاں ایسے ہی ہوتی ہیں کہ ایک آدمی نے بڑی اچھی نیت کے ساتھ ایک کام کیا لیکن کوئی ایسا آدمی جو بد نیت ہے وہ اس کام کو بھی بد نیتی پر محمول کر کے اس کے مخالف ہو جائے گا۔ اگر وہ اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنے سے پہلے اس سے پوچھ لیتا تو معلوم ہو جاتا کہ اس نے بڑی اچھی نیت کے ساتھ یہ کام کیا تھا۔ عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو انسان خود غلط سوچ کا مالک ہوتا ہے وہ دوسرے کے بارے میں بھی غلط سوچنے لگتا ہے۔ جس نے پاکی دیکھی نہیں وہ پاکی کو کیا سمجھ سکتا ہے۔ جن کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں وہ اللہ کی معرفت کو کیسے پہچان سکتے ہیں، وہ تو اپنے اسی ذہن سے سوچیں گے جس میں محدود عقل اور محدود سوچ ہے۔
یہاں ایک اہم بات سمجھنی چاہیے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ نور عطا فرمایا ہو جس کے ذریعہ ان کو ایسی باتیں محسوس ہوں تو ان کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں پہ رحم کریں اور ان کے سامنے وہ باتیں نہ کریں جو لوگوں کی سمجھ سے باہر ہوں۔ جیسے اس بزرگ نے اس آدمی کو مشورہ دیا کہ آپ مہربانی کر کے اپنے گھر میں یہ بات کریں۔ یہ ایک ادب کی بات ہے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
انہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ جب ان کو اللہ کی اسم باطن والی معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو ان کی زبان گنگ ہو جاتی ہے جو سمجھدار ہوتے ہیں وہ خاموش ہو جاتے ہیں، اس وقت ان کا بات کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ کیونکہ لوگ اس کو سمجھیں گے نہیں لہذا خراب ہو جائیں گے اور مخالفت پہ اتر آئیں گے۔ بعض اوقات اس مخالفت سے گمراہی کا خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔
خود میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا ہے۔ ایک مرتبہ میں ماہ رمضان میں پشاور جا رہا تھا۔ میں با وضو تھا اور جیب میں قرآن پاک کا چھوٹا نسخہ بھی تھا تو میں نے سوچا کچھ تلاوت کر لوں۔ میں نے قرآن پاک نکال کر تلاوت کرنا شروع کر دی۔ کنڈیکٹر نے مجھے تلاوت کرتے دیکھا تو ڈرائیور کو آواز دے کر کہا استاد جی میوزک بند کر دیں یہاں ایک صاحب تلاوت کر رہے ہیں۔ ڈرائیور نے ریکارڈنگ بند کر دی۔ میں بڑا خوش ہو گیا کہ اللہ کا شکر ہے سہولت ہو گئی۔ پندرہ سولہ کلومیٹر آگے گئے ہوں گے کہ کسی کا شیطان جاگ گیا۔ ایک آدمی اٹھ کر کہنے لگا کہ صرف یہ ہی تو سفر نہیں کر رہے ہم بھی سفر کر رہے ہیں ہم کہتے ہیں کہ میوزک چلاؤ۔ اس بات پہ ذرا بحث ہو گئی۔ خیر ڈرائیور نے دوبارہ میوزک چلا دیا۔ میں نے قرآن پاک بند کر کے جیب میں رکھ لیا اور اپنے ساتھ والے سے کہا کہ دیکھو میں بھی سواری ہونے کی حیثیت سے بحث کر سکتا ہوں اور میں حق پر بھی ہوں، لیکن اس وقت اس آدمی پر اتنی شیطانیت سوار ہے کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس کی زبان سے کہیں کلمۂ کفر نہ نکل جائے کیونکہ اس کو احساس نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں کس چیز کو منع کر کے کس چیز کو کرنے پہ زور دے رہا ہوں۔ اگر قرآن پاک کے بارے میں یا دین کے بارے میں اس کے منہ سے کوئی توہین کا لفظ نکل گیا تو یہ کافر ہو جائے گا، میں اس کو کافر نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن پاک کی تلاوت کرنا مستحب ہے لیکن اس کو کفر سے بچانا فرض ہے لہذا میں نے قرآن پاک رکھ دیا۔ حق پر ہوتے ہوئے بھی ہم اپنی بات سے اس لئے دست بردار ہوئے کہ ہمارے خیال میں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ اگر ہم ایسے نہ کرتے تو خواہ مخواہ ایک شخص کا ایمان خطرے میں پڑ جاتا۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جواب بھی آتا ہے، طاقت بھی ہوتی ہے، حالات بھی ہوتے ہیں لیکن اس بات سے ڈرتے ہیں کہیں یہ دین سے نکل نہ جائے گمراہ نہ ہو جائے، بلاوجہ کی بد گمانی نہ ہو جائے اس وجہ سے خاموش رہتے ہیں۔
متن:
پس اہل ظاہر یہ کلام مجذوب کی جانب سے تصور کر کے اُس کو ضرر پہنچاتے ہیں۔ پس تم حتمی طور پر یہ بات سمجھ رکھو کہ تجلیاتِ ذات میں کوئی کلام نہیں، کلام صرف تجلی صفات میں ہے، اور محمد حسین بن نصیر الدین مصنف بحر المعانی نے اپنا حال ایک مرید کو ظاہر کیا، اور فرمایا کہ افراد کے گروہ میں بھی اونچے درجوں والے ہوتے ہیں۔ یہ فقیر مقامِ لاہوت یعنی مقامِ فردانیت میں جا پہنچا اور فردانیت کے تیسرے مقام میں فروکش ہوا اور وہ یہ ہے کہ "قَالَ الْفَقِیْرُ إِذَا أَرَادَ اللہُ أَنْ یُوَالِيَ عَبْدًا مِّنْ عِبَادِہٖ فَتَحَ عَلَیْہِ أَبْوَابَ الْقُرْبِ ثُمَّ أَجْلَسَ عَلٰی کُرْسِیِّ التَّوْحِیْدِ ثُمَّ یَرْفَعُ عَنْہُ الْحُجَبَ الْعَظِیْمَۃَ فَیُقَوِّیْہِ لِلْمُشَاھَدَۃِ ثُمَّ أَدْخَلَہٗ دَارَ الْفَرْدَانِیَّۃِ وَ کَشَفَ عَنْہُ الْجَمَالَ فَإِذَا وَقَعَ بَصَرُہٗ عَلَی الْجَمَالِ بَقِيَ ''ھُوْ'' فَحِیْنَئِذٍ صَارَ الْعَبْدُ فَانِیًا وَّ بِالْحقِّ بَاقِیًا"
ترجمہ: فقیر کہتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ اپنے بندوں میں سے کسی کو دوست بنائے تو اس پر قرب کے دروازے کھول دیتا ہے۔ پھر اس کو توحید کی کرسی پر بٹھاتا ہے پھر اس کے سامنے سے بڑے بڑے پردے اٹھا دیتا ہے اور اس کو مشاہدہ کی قوت بخشتا ہے۔ پھر اس کو فردانیت کے مقام میں داخل کرتا ہے اور اس کو اپنا جمال دکھا دیتا ہے۔ جب اس کی نظر جمال پر پڑ جاتی ہے تو "ھُو" باقی رہ جاتا ہے اور بندہ فانی ہو جاتا ہے۔ اور حق باقی رہ جاتا ہے۔
اے میرے پیارے! ہُو کے دائرے سے تم عزت کے مقام تک پہنچو گے اور ہُو کے سوا تم سے کچھ ظاہر نہ ہو گا۔ اور دنیا کے حالات اور اشیاء میں سے عرش سے لے کر پاتال تک تم کو کچھ خبر نہ ہو گی۔ بعض لوگوں کو یہ مقام احمد کے نور سے اور بعض کو احد کے نور سے حاصل ہوتا ہے۔
تشریح:
یہ باریک باتیں ہیں ان میں کلام نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ مشاہدات ہیں۔ جن کو یہ مشاہدات ہوئے، وہی انہیں سمجھ سکتے ہیں اور جان سکتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے انسان کو اپنی خلافت کے لئے پیدا کیا ہے۔ خلیفہ پر ساری چیزوں کو کھولا جاتا ہے لیکن اسی پر جو اس کا اہل ہوتا ہے۔ اس لئے جن پر یہ چیزیں کھول دی جائیں انہیں ان سے انکار نہیں کرنا چاہیے اور جن پر نہ کھولی جائیں ان کو دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔ جن کو دیا جاتا ہے وہ بولتے نہیں اور جو بولتے ہیں ان کو ملا نہیں ہوتا۔ جو عارف ہوتا ہے وہ خاموش ہوتا ہے اور غیر عارفین جن کا نفس مرا نہیں ہوتا وہ اپنے نفس کی خاطر اپنی حد سے اوپر کی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں جو صرف ہوائی باتیں ہوتی ہیں، وہ انہی میں مستغرق رہتے ہیں، موٹی موٹی باتیں کرتے ہیں اور عمل صِفر ہوتا ہے۔ جبکہ وہ لوگ جن کو کچھ ملا ہوتا ہے ان کے ہاں باتوں کی بجائے عمل پہ زور ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ لوگ اپنے کسی راز دان سے یہ باتیں کر بھی لیتے ہیں، اس راز دان کے ذریعے یہ باتیں لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں لیکن لوگوں میں سمجھنے والے کم ہوتے ہیں۔
بہر حال جن لوگوں کو یہ مشاہدات کرائے گئے ہوں ان پہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔
متن:
باب سوم
حضرت صاحب شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ کی ریاضت اور مجاہدوں کے بیان میں۔
ہمارے شیخ محترم شیخ المشائخ (حضرت شیخ رحمکار رحمۃ اللہ علیہ) اپنے زمانے میں نہایت عبادت اور ریاضت فرماتے تھے۔ ریاضت کے جنگل کے ایک شیر تھے اور محنت کے سمندر کے نہنگ تھے۔ حضرت موصوف نے اپنے ایام طفولیت میں اتنی ریاضتیں، محنتیں اور مشقتیں اُٹھائی تھیں جو کہ شمار اور گنتی سے باہر ہیں۔ اپنی صغرِ سنی اور طفولیّت کے زمانے میں کچھ وقت ابتدائے حال میں بالکل باتیں نہیں کرتے تھے اور کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔ ان حالات میں ایک دن آپ کی والدہ محترمہ کو گھر کے اندر کسی چیز کی ضرورت پیش آئی، اُس کو تلاش کیا، مگر سخت جستجو کے باوجود وہ چیز نہ پا سکیں۔ حضرت صاحب وہ چیز دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ اُن کو اس چیز کی ضرورت ہے، لیکن اس وقت وہ کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتے تھے، اور اللہ کا ذکر اور فکر کرنے کے علاوہ دوسرا کام نہیں کرتے تھے، اس لیے خود حضرت صاحب بنفسِ نفیس اُس چیز کی طلب کے لیے اُٹھے لیکن بھوک کی شدت کی وجہ سے سخت کمزور تھے، بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ والدہ صاحبہ نے مامتا کی وجہ سے چیخ ماری اور فریاد کرنے لگیں۔ ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ جن بھوت نے ان کو یہ نقصان پہنچایا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت صاحب ہوش میں آئے اور اپنی مشفقہ والدہ مکرمہ سے کہا کہ میں صحیح اور تندرست ہوں۔ اس چیز کے لیے جس کو تم ڈھونڈتی تھی، میں اُٹھنا چاہتا تھا، مگر کمزوری کی وجہ سے میں زمین پر گر پڑا۔ اور اُن کو وہ چیز بتا دی اور دکھا دی۔ اور اکثر دفعہ لوگوں سے بھاگا کرتے تھے اور جب رات سر پر آ جاتی تو اُن کی والدہ محترمہ اُن کی تلاش کی خاطر گاؤں کے لوگوں کو بھیجا کرتیں۔ اور وہ ان کو ڈھونڈتے اور جب اُن کو پا لیتے تو گھر لے آتے، کیونکہ اُس زمانے میں چوروں ڈاکوؤں وغیرہ کا بہت زیادہ خطرہ تھا۔ اور "حال" کے ابتدائی ایام میں حضرت صاحب موسم سرما میں رات کے وقت پانی میں بیٹھ کر گزارا کرتے تھے، اور اس کے نتیجے میں برف کی تہہ اُن کی گردن کے گرد حلقہ بنائے ہوئے نظر آتی تھی۔ تہجد کے وقت وہ پہنے ہوئے کپڑے پانی سے نچوڑ لیتے تھے اور اُس کے بعد نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ اپنی جوانی کے آغاز میں حضرت صاحب نے اپنی والدہ محترمہ اور اپنے بھائیوں کے ساتھ اس بات پر مصالحت کی، اور ان کو کھل کر کہا کہ اے والدہ مکرمہ اور اے میرے بھائیو! اگر مجھے اختیار کرنا چاہتے ہو، تو میں تمہارے ساتھ رہوں گا اور میں دنیا کو تصدّق کروں گا۔ اور اگر تم دنیا کو اختیار اور پسند کرنا چاہتے ہو تو میں تمہارے درمیان سے نکل جاؤں گا، اور تم اپنا معاش اور گذارہ کرتے رہو۔ پس اس قرارداد پر جانبین نے مصالحت کی اور انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ہم نے تم کو اختیار کیا اور دنیا کے امور تم پر چھوڑ دیے، ہم نے دنیا تمہارے حوالے کی، اور آپ جو پسند فرماتے ہوں وہی کرو۔ حضرت صاحب نے ایک دن میں ستر دنبے اور تیس گائے بیل ذبح کر ڈالے۔ ایک اعلیٰ گھوڑا بھی حضرت صاحب کے ہاں تھا، حضرت صاحب اُس گھوڑے پر سوار ہو کر دور دراز کا سفر کرتے۔ ایک کھلے اور طویل میدان میں گھوڑے کو دوڑایا، اور دور لے جا کر اُس کو تنہا اپنے ہاتھوں ذبح کر ڈالا اور کہا کہ میں نے گھوڑا درندوں اور دیگر گوشت خور جانوروں کی خاطر تواضع کے لیے ذبح کر ڈالا، تم لوگ اس کام میں مداخلت نہ کرو۔ گھوڑے کا پیٹ چاک کر کے وہاں چھوڑ دیا۔ اور حضرت صاحب واپس اپنے مکان کو تشریف لے آئے۔
؎ جدا مست و جہد مایۂ اقبال آدمی
تا از حضیض به اوج سما رسد
مردانی ز جد و جہد بجائے رسیده اند
آن را کہ جد و جہد نہ باشند کجا رسد
”آدمی کے اقبال و ترقی کے لیے جد و جہد ایک سرمایۂ اقبال ہے۔ جد و جہد اور کوشش سے انسان فرشِ خاک سے اوجِ سما اور فرازِ عرش تک پہنچتا ہے۔ لوگ جد و جہد اور کوشش سے اپنے مقام عالی تک پہنچ گئے ہیں۔ اور جو لوگ کوشش نہیں کرتے وہ کہاں پہنچتے ہیں“
شمائلِ اتقیاء نامی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ابدال ان چار عادات و فضائل کی وجہ سے ابدال ہو جاتے ہیں: "قِلَّۃُ الطَّعَامِ وَ قِلَّۃُ الْمَنَامِ وَ قِلَّۃُ الْکَلَامِ وَ احْتِمَالُ جَفَاءِ الْأَنَامِ" یعنی تھوڑا کھانا، تھوڑا سونا، تھوڑا بولنا اور لوگوں کی جفا کاریوں کو برداشت کرنا۔ ابدال وہ ہوتے ہیں کہ ان کی برائیاں خوبیوں میں تبدیل ہو جائیں اور ایسا ہونا ریاضت کا ثمرہ ہوتا ہے۔
اور جس کسی کو ریاضت کرنے کی سعادت حاصل ہو جائے، تو اس کو ابدی نعمت اور سرمدی دولت نصیب ہو جاتی ہے۔ اور ہمارے حضرت شیخ اتنا کم سوتے تھے کہ جب دن کے وقت کبھی اتفاقاً قیلولہ کے طور پر سو جاتے تو چار یا پانچ گہرے سانس لینے کی مقدار میں سوئے ہوتے، پھر جاگ اُٹھتے اور آنکھ مبارک کھولتے۔ اور رات کی نیند کی حقیقت سے میں واقف نہیں ہوں، لیکن اندازہ کرتا ہوں اور خیال ہے کہ دن کی طرح اور اسی انداز پر نیند فرماتے۔ اور کھانے سے پیٹ بھرنا اور زیادہ کھانا بُرا سمجھتے تھے اور ایسا کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔
تشریح:
یہ سب باتیں ہمارے لئے نہیں ہیں، ایسا نہ ہو کہ ہم یہ سب کام شروع کر لیں۔ حضرت کا معاملہ اور تھا۔ بزرگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جن کی تربیت مشائخ کرتے ہیں اور ایک وہ جن کی تربیت اویسی طریقہ پہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو مادر زاد ولی کہتے ہیں یعنی وہ ماں کے پیٹ سے ہی ولی پیدا ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے کام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔
حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا اور اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے اللہ تجھ تک پہنچنے کا آسان طریقہ کیا ہے تو اللہ پاک نے فرمایا:
”دَعْ نَفْسَكَ وَ تَعَالَ“
”اپنے نفس کو چھوڑ اور میرے پاس آ جا“۔
نفس کو چھوڑنا یہی ہے کہ نفس جس چیز سے خوش ہوتا ہے اسے نہ کرنا، نفس کی خواہش کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف چلنا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو چھوڑ دیا کہ جو کرنا چاہے کرے اور پھر بغیر توبہ کئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امیدیں کرتا رہا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفس کو چھوڑنے میں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ رکھا ہے۔ انسان کے اندر بہت ساری صفات ہیں لیکن ان صفات پر نفس کی خواہشات کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ جیسے جیسے انسان نفس کی خواہشات کو کچلتا ہے ویسے ویسے اس کی صفات نکھرتی چلی جاتی ہیں اور وہ اپنے صحیح انسانی ارتقا کے راستے پر چلتا ہے۔ یہ چیز مجاہدہ کہلاتی ہے۔ مجاہدہ اور ذکر اذکار مل کر بہت موثر کام کرتے ہیں۔
اگر کسی غبارے میں ہائیڈروجن بھری جائے تو جتنی ہائیڈروجن زیادہ ہو گی اتنا غبارہ اوپر اڑے گا لیکن اگر اس غبارے میں وزن زیادہ ہو تو غبارہ کم اونچا جائے گا، اس کا وزن جتنا جتنا کم کرتے جائیں گے وہ اتنا اتنا اوپر جائے گا۔ جہاز کی مثال سے بھی ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ جہاز کی طاقت انجن پر منحصر ہے، انجن جتنا طاقتور ہو گا جہاز اتنا اوپر اڑ سکے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وزن کو بھی دیکھا جائے گا، انجن طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ جہاز کا وزن جتنا کم ہو گا جہاز مزید اوپر اڑے گا اور وزن جتنا بڑھتا جائے گا جہاز اتنا نیچے اڑے گا۔ لہٰذا جہاز کو زیادہ بلندی پر تیزی سے اڑانے کے لئے دو طریقوں سے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔ ایک تو انجن کی طاقت بڑھائی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ جہاز کے وزن کو بھی کم کیا جاتا ہے۔ جہاز کے وزن کو کم کرنے کے لئے ایسی دھاتیں استعمال کرتے ہیں جو وزن میں ہلکی ہوں۔
ان مثالوں کو سامنے رکھ کر یہ سمجھیں کہ ذکر انسان کی روح کے لئے انجن کی طرح ہے جو اسے اوپر اٹھاتا ہے جبکہ نفس انسان کی روح کے لئے وزن کی طرح ہے جو اسے نیچے کی طرف کھینچتا ہے اور اس کی رفتار کم کرتا ہے۔ نفس اور اس کی خواہشات کا وزن جتنا کم ہوتا جائے گا اس کی پرواز کی صلاحیت اتنی ہی بڑھے گی اور جتنا جتنا اس کے ذکر کی قوت بڑھے گی اس کی پرواز کی قوت بڑھے گی۔
نقشبندی سلسلہ میں ابتداءً ذکر اور مراقبات کے ذریعے روحانی طاقت بڑھائی جاتی ہے۔ اس کے بعد مجاہدہ کے ذریعے نفس کا ثقل کم کیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی سلاسل میں پہلے نفس کا وزن کم کرایا جاتا ہے، نفس کے خلاف مجاہدات کرائے جاتے ہیں، اس کے بعد ان پہ جذب طاری ہوتا ہے اور اس کے ذریعے وہ آگے بڑھتے ہیں۔ بہر حال چاہے پہلے پرواز کی طاقت بڑھائیں یا پہلے وزن کم کریں، منزل ایک ہی ہے۔
بعض لوگوں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو انہوں نے اعتراض کرنا شروع کر دیا کہ یہ تو رہبانیت ہے اور اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ لیکن وہ اس چیز کو بھول گئے کہ رہبانیت میں نفس کے خلاف اپنی خواہشات کو قربان کرنا دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کو ثواب نہیں سمجھا جاتا البتہ اس کی وجہ سے جو روحانی پرواز بڑھتی ہے اس کا اثر اعمال پر پڑتا ہے، اس سے نماز اچھی ہوتی ہے، روزہ اچھا ہوتا ہے اور ہر دینی کام اچھا ہوتا ہے اس سے اس کا اجر بڑھ جاتا ہے اور ثواب زیادہ ملتا ہے۔
مجاہدے میں خود وہ کام مقصود نہیں ہوتا جو بطور مجاہدہ کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ذریعے نفس کی مخالفت مقصود ہوتی ہے۔ نفس کی وہ مخالفت جس کے لئے شرعی دلیل موجود ہو اس میں تو ثواب سمجھیں گے لیکن جس کے لئے شرعی دلیل موجود نہیں ہے اس میں ہم ثواب نہیں سمجھیں گے مثلاً روزہ میں نفس کی مخالفت ہے کہ ہم روزہ کی حالت میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک نہ کچھ کھاتے ہیں اور نہ ہی پیتے ہیں اور مباشرت سے بچے رہتے ہیں، یہ مجاہدہ ہے لیکن یہ ایک ایسا مجاہدہ ہے جو شرعی دلیل سے ثابت ہے، لہٰذا اس مجاہدہ میں ثواب ہے۔ یہ ایک شرعی مجاہدہ ہے، اس میں ہمارا تصرف بالکل نہیں ہے، ہم نہ اس کو کم کر سکتے ہیں نہ زیادہ کر سکتے ہیں۔ اگر روزہ کچھ دیر پہلے شروع کر لیا تو ثواب میں کمی ہو جائے گی یا مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد افطار کیا تب بھی ثواب میں کمی ہو جائے گی حالانکہ نفس کی مخالفت تو پھر بھی ہو رہی ہے لیکن اس کے با وجود ثواب میں اس لئے کمی ہو جائے گی کہ ہم نے اس میں کچھ کمی یا زیادتی کر لی ہے جو شریعت میں نہیں بتائی گئی تھی۔ شرعی مجاہدہ جتنا بتایا گیا ہوتا ہے ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں، اس سے زیادہ نہیں کر سکتے، اس کی ایک حد ہوتی ہے ہم اس حد کو عبور نہیں کر سکتے۔
اختیاری مجاہدہ میں بطور مجاہدہ کیے جانے والے عمل میں ہم ثواب نہیں سمجھتے لیکن اس اختیاری مجاہدے کی وجہ سے جو ہمارا شرعی مجاہدہ بہتر ہوتا ہے اس میں ثواب ضرور ملتا ہے۔
مثلاً: اگر میری آنکھیں صحیح ہیں تو میں نظر کی عینک نہیں پہنوں گا، ایسا کرنا بے وقوفی ہو گی لیکن اگر میری آنکھ صحیح نہ ہو اور عینک کے ساتھ مجھے صحیح دکھتا ہو تو ایسی صورت میں عینک پہننی پڑے گی اور اس سے میرے سارے کام ٹھیک ہوں گے کیونکہ درست نظر آئے گا۔ اسی طرح اگر میرا روزہ، نماز، حج اور دوسرے شرعی اعمال پہلے ہی درست ہیں تو پھر مجھے کسی اضافی مجاہدے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انہی شرعی مجاہدات نماز، روزہ، حج اور زکوۃ وغیرہ سے ہی میرا مجاہدہ ہو گا، مجھے اجر بھی ملتا رہے گا اور میرے باقی کام بھی درست ہوتے رہیں گے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ نماز بے حیائی اور منکرات سے روکنے والی ہے۔ روزہ کے لئے فرمایا گیا کہ اس سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ زکوٰۃ بخل کا علاج ہے اور حج عشق کو حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ اگر یہ سب اعمال میں پہلے ہی کر رہا ہوں پھر تو مجھے کسی اضافی مجاہدہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر میں دیکھ رہا ہوں کہ حج کے ذریعہ اللہ پاک کے ساتھ میرے عشق میں اضافہ نہیں ہوتا، نماز سے میری منکرات نہیں چھوٹتیں، بے حیائی نہیں چھوٹتی، تو اس کا مطلب ہے کہ میرے ان اعمال میں کچھ کمی ہے اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے کچھ اضافی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دفعہ دیکھا گیا کہ ایک مسجد میں امام صاحب نے جلدی جلدی نماز پڑھائی اور نماز پڑھانے کے فوراً بعد تیزی سے کمرے میں چلے گئے۔ لوگ حیران ہو گئے کہ امام صاحب کو کیا جلدی تھی۔ ان کا کوئی ساتھی ملنے کے لئے پہنچا تو دیکھا کہ امام صاحب ٹی وی پہ کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے۔
اب بتائیں کہ اگر اس نے نماز جلدی جلدی اس لئے پڑھائی کہ میچ دیکھے تو اس کی نماز منکرات کو روکنے والی کیسے ہو گی بلکہ وہ تو نماز کے دوران منکرات کا ہی سوچ رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ کب نماز ختم ہو اور کب میں یہ منکر سر انجام دوں۔ نماز اسے منکر سے کیا روکتی، وہ نماز میں ہی اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اب مجھے بتاؤ کیا یہ نماز اس کو وہ چیز دے رہی ہے جو نماز کی خاصیت ہے؟ بالکل نہیں دے رہی۔ لہٰذا اس کی اصلاح ضروری ہے۔ وہ اصلاح مجاہدے کے ذریعے ہو گی۔ اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ اس پر نماز سے زیادہ مجاہدہ ڈالا جائے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کاغذ کو رول کر کے کھولیں تو یہ سیدھا نہیں ہو گا لیکن اگر اس کو مخالف سمت پر دوبارہ رول کر کے کھولیں تو سیدھا ہو جائے گا۔ دوبارہ کاغذ کو رول کرنے سے مقصود کاغذ سیدھا کرنا تھا محض رول کرنا مقصود نہیں تھا۔ کیونکہ یہ کاغذ اتنا مڑ چکا تھا کہ معمولی طور پر الٹا سیدھا کرنے سے سیدھا نہیں ہو رہا اس لئے مجبوراً اس کو مخالف سمت میں پورا رول کیا تاکہ یہ سیدھا ہو جائے۔ اسی طرح اختیاری مجاہدہ نفس کو سیدھا کرنے کے لئے ہوتا ہے کیونکہ نفس اتنا بگڑ چکا ہوتا ہے کہ اس کے بغیر وہ سیدھا نہیں ہو پا رہا ہوتا۔
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا نواسا جو تب بالکل چھوٹی عمر کا نا سمجھ بچہ تھا، ایک مرتبہ کھیل کھیل میں حضرت کی ٹوپی اتار کے انہیں اس طرح مارنے کا اشارہ کرنے لگا جیسے چابک مارا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی توتلی زبان میں یہ کہنے لگا کہ ہلنا مت ورنہ تمھیں سیدھا کر دوں گا۔ حضرت نے بجائے خفا ہونے کے فرمایا: ”بیٹا اگر یہ کام ہو جائے پھر تو کیا ہی بات ہے، یہی تو مسئلہ ہے کہ میں سیدھا نہیں ہو رہا اگر مجھے سیدھا کر سکو تو اور کیا چاہیے“۔ حضرت نے تو یہ بات بچے سے پیار میں کہہ دی لیکن اس کے پیچھے ایک درد چھپا ہوا تھا اور وہ درد اپنی اصلاح کی فکر کا تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فنائے نفس بغیر مجاہدے کے حاصل نہیں ہوتا۔ نفس کو مارنے کے لئے مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ یہ اختیاری مجاہدات اصل میں مجبوری ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے انسان ہسپتال میں مجبوراً داخل ہوتا ہے، اور مجبوراً پرہیزی کھانے کھاتا ہے۔ یہ اس کی مجبوری ہے، اگر علاج نہیں کرے گا تو ٹھیک نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر ہم مجاہدات نہیں کریں گے تو روحانی طور پر بیمار رہیں گے۔
رہبانیت اور ان مجاہدات میں یہی فرق ہے کہ رہبانیت میں مجاہدہ مقصود ہوتا ہے جبکہ مجاہدات میں مجاہدہ کے ذریعے نفس کی اصلاح مقصود ہوتی ہے۔ لوگ اس فرق کو نہیں جانتے اور مجاہدات و ریاضات پر رہبانیت کا حکم لگا کر صحیح صوفیوں کے خلاف باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی منجانب اللہ تربیت ہو رہی تھی۔ ان کا رجحان شروع سے ہی اس طرف تھا۔ وہ یہ سب کام خود بخود کر رہے تھے جو لوگوں سے بطور مجاہدہ کروائے جاتے ہیں۔ یہ چار مجاہدات ہیں جن سے ابدال بنتے ہیں۔ قلتِ طعام، قلتِ منام، قلتِ کلام، قلتِ خلط مع الانام۔
متن:
اور کھانے سے پیٹ بھرنا اور زیادہ کھانا بُرا سمجھتے تھے اور ایسا کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے، کیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو رات چھا جاتی ہے۔ جب پیٹ بھر جاتا ہے تو باطن پر رات چھا جاتی ہے، یعنی باطن کو تاریک بناتی ہے۔ لیکن ایک وقت ان وقتوں میں ایسا آیا تھا کہ سارے مہینے میں جو کہ تیس (30) راتیں ہوتی ہیں، پختہ سیر کے وزن سے تیس (30) سیر وزن کا گھی کھانے میں نوش فرماتے۔
مطلب یہ کہ ہر رات ایک سیر گھی طعام کے ساتھ کھاتے۔ اُس حال میں تمام ماہ ایک ہی وضو سے عشاء و فجر کی نماز ادا کرتے۔
تشریح:
ایک مرتبہ ماہ رمضان میں ہم اعتکاف میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب ہم سے ملنے آئے اور دوران گفتگو رو پڑے۔ کہنے لگے کہ ”شاہ صاحب میں نے سارا نقشبندی سلوک طے کر لیا ہے لیکن حال یہ ہے کہ میں نے اس ماہ اپنے گھر میں کیبل لگوائی ہے اور میں اس پہ بہت پریشان ہوں، میری اصلاح نہیں ہو پا رہی، سارا سلوک طے کر لیا ہے اب اس کے علاوہ اور کیا کروں کہ میری اصلاح ہو جائے“۔
ان کی بات سن کر میں بھی ڈر گیا اور سوچ میں پڑ گیا کہ ان کو کیا جواب دوں اور ایسا کیا بتاؤں جس سے ان کی اصلاح ہو جائے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ ان کے لئے کوئی جواب بھیج دے۔ الحمد للہ! اللہ نے دعا قبول فرمائی اور میرے دل میں ایک بات آ گئی۔ میں نے ان سے کہا کہ ”بھائی صاحب آپ نے دل کا سلوک طے کیا ہے، نفس کا سلوک طے نہیں کیا۔ آپ نے ذکر و اذکار کر کے دل کو تو بنا لیا، یہی وجہ ہے کہ آپ رو رہے ہیں، آپ کو دلی طور پہ احساس ہے کہ آپ نے غلط کیا ہے ورنہ آپ نہ روتے۔ یہ احساس اسی لئے ہے کہ آپ کے دل کی اصلاح ہوئی ہے لیکن اس کے با وجود آپ سے گناہ ہوا، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے نفس کی اصلاح ابھی نہیں ہوئی۔ چونکہ ابھی آپ نے نفس کا علاج اور مجاہدہ نہیں کیا اس لئے آپ کو نفس کے اوپر قابو نہیں ہے۔ اگر آپ نفس کے اوپر قابو حاصل کرنے کے لئے تیار ہیں تو ہمارے پاس کچھ وقت لگائیں“۔
اس وقت وہ چلے گئے پھر عید کے بعد تشریف لائے اور اپنی اصلاح کروانا شروع کی اور اللہ کے فضل سے ان کے معاملات بہتر ہونا شروع ہو گئے۔
ڈاکٹر ارشد صاحب ہمارے ساتھی ہیں اور چاروں سلسلوں کے شیخ ہیں۔ ان کے ساتھ بات چیت کے دوران میں نے یہ ساری گفتگو انہیں سنائی جو میرے اور اس آدمی کے درمیان ہوئی تھی۔ جب انہوں نے وہ جواب سنا جو میں نے اس شخص کو دیا تھا کہ ”آپ کی دل کی اصلاح ہوئی ہے لیکن نفس کی اصلاح نہیں ہوئی“ تو ڈاکٹر ارشد صاحب نے فرمایا کہ ”شاہ صاحب آپ نے تو ہمارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔ ہم دو بھائی ہیں اور دونوں ہی شیخ ہیں۔ ہم کچھ دنوں سے اسی بات پہ غور و فکر اور بات چیت کر رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج کل لوگوں کی اصلاح نہیں ہو پاتی۔ ہمارے پاس لوگ اصلاح کروانے آتے ہیں، ہم انہیں مختلف معمولات اور اذکار و اوراد بتاتے ہیں اور وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں اس کے با وجود ان کی اصلاح نہیں ہوتی۔ ہم مسلسل اسی بات پہ غور و فکر کر رہے تھے لیکن ہمیں کوئی جواب سمجھ نہیں آ رہا تھا، آپ نے تو مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ اب ہمیں اپنے سوال کا جواب مل گیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ نفس کو ٹھیک کرنے کے لئے مجاہدات نہیں کرتے، معمولات اور اذکار و مراقبات سے دل کی اصلاح تو ہوتی ہے لیکن نفس کی اصلاح مجاہدات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ بات تو ہمیں سمجھ آ گئی ہے لیکن اب ہمارا ایک سوال ہے کہ آپ لوگوں سے نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدات کیسے کروائیں گے؟ کیونکہ مجاہدات چار انواع کے ہوتے ہیں۔ قلت طعام، قلت منام، قلت کلام اور قلت خلط مع الانام۔ آج کل پہلے دونوں مجاہدے متروک ہیں، مشائخ حضرات اب سالکین سے یہ مجاہدے نہیں کرواتے کیونکہ لوگوں میں اتنی قوت نہیں ہے کہ یہ مجاہدے برداشت کر سکیں۔ ایسے حالات میں ہم لوگوں سے کس طریقے سے مجاہدات کروائیں تاکہ ان کے نفس کی اصلاح ہو سکے“۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کو اس کا یہ جواب دیا کہ آج کل سالکین سے یہ مجاہدات کروانے کا طریقہ یہ ہے کہ کبھی کریں اور کبھی نہ کریں۔ مثلاً ایک ہفتہ قلت طعام اور قلت منام کا مجاہدہ کریں اس سے اگلا ہفتہ نہ کریں۔ اس طرح مجاہدہ بھی باقی رہے گا اور درمیان میں وقفہ ہونے کی وجہ سے برداشت بھی ختم نہیں ہو گی۔ جب انسان مسلسل مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اس کے لئے مجاہدہ نہیں رہتا کیونکہ کچھ وقت کے بعد انسان اس کام کا عادی ہو جاتا ہے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کریں گے جو میں نے عرض کیا کہ ایک ہفتہ مجاہدہ کرے اور ایک ہفتہ چھوڑ دے۔ اگر دوسرے ہفتے چھوڑ دے گا تو عادی نہیں ہو گا اور برداشت سے باہر بھی نہیں ہو گا۔ پھر اگلے ہفتے دوبارہ کرے گا تو مجاہدہ بھی لگے گا۔ مجاہدہ ہو گا تو نفس کی مخالفت ہو گی، نفس کی مخالفت ہو گی تو نفس کی اصلاح ہونا شروع ہو جائے گی“۔
یہ بات سن کر ڈاکٹر ارشد صاحب نے فوراً کہا کہ یہ تو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مجاہدہ ہے۔
یہی بات ابھی ہم نے اوپر متن کی عبارت میں پڑھی کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کس طرز کا مجاہدہ کیا کرتے تھے۔ ایک ماہ سخت مجاہدہ کرتے تھے اس کے بعد اگلے ماہ خوب کھاتے پیتے تھے یہاں تک کہ روزانہ ایک سیر خالص دیسی گھی پیتے تھے اس کے بعد پھر اگلے ماہ خوب مجاہدہ کرتے تھے۔
کھانے پینے اور آرام و آسائش کا مقصد نفس کو پالنا نہیں بلکہ نفس کو تیار رکھنا ہے۔ ایک نفس وہ ہوتا ہے جو پل پل کر اتنا موٹا ہو چکا ہوتا ہے کہ ہمارے قابو سے ہی باہر ہو جاتا ہے اور اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے ہمیں اپنے پیچھے لگائے رکھتا ہے۔ دوسرا نفس وہ ہے جو ہمارے قابو میں ہوتا ہے لیکن اس میں اتنی طاقت اور جفا کشی ضرور ہوتی ہے کہ ہمارے کہنے کے مطابق بلکہ اللہ و رسول کے کہنے کے مطابق اعمال کر سکے۔ نفس کو ایسا بنانے کے لئے محنت تو کرنی پڑے گی اسی محنت کو ہی مجاہدہ کہتے ہیں۔
ہمارا یہ موقف تو پہلے سے ہی تھا کہ نفس کے مجاہدات کے بغیر کام نہیں بنتا۔ الحمد للہ اس واقعہ سے مزید شرح صدر ہو گیا۔ اس کے بعد ہم نے اس پر لکھنا شروع کیا کہ آج کل کے دور میں مجاہدہ پھر سے شروع کرنا چاہیے اس کے بغیر کام نہیں ہو گا۔ یہ جو ہم نے مجاہدہ مکمل طور پر متروک مان لیا ہے اس کی وجہ سے بہت خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور ہمارا نفس قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے، اس کو قابو میں لانے کے لئے اس کو مجاہدے کی نکیل ڈالنی پڑے گی۔ ذکر و اذکار سے دل تو زندہ ہو جاتا ہے لیکن نفس قابو میں نہیں آتا جبکہ ذکر کے بغیر صرف مجاہدہ کرنے سے نفس تو قابو میں آ جائے گا لیکن اس کی سمت درست نہیں رہے گی۔ جوگی بھی نفس کا خوب مجاہدہ کرتا ہے لیکن ذکر نہیں کرتا، اس کے دل میں ایمان بھی نہیں ہوتا جس کے نتیجہ میں اس کا سارا مجاہدہ دنیا کے لئے ہو جاتا ہے۔ آپ ذرا تحقیق کریں تو یہ دیکھ کر حیران ہو جائیں گے کہ ہندوؤں میں جوگی اور سوامی قسم کے لوگ بے حد مجاہدے کرتے ہیں، کئی کئی دن ایک ہاتھ اٹھا کر بے حس و حرکت اور ساکت و صامت بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن آپ بتائیں کہ انہیں ان ساری ریاضتوں اور مجاہدوں کا دنیا کی شہرت کے علاوہ کیا فائدہ ملتا ہے؟
جو لڑکے موٹر سائیکل پر ویلنگ کرتے ہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ وہ اس کے لئے کتنی محنت کرتے ہیں اور کتنا خطرہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ لوگ سمجھیں گے کہ ہم بڑے بہادر ہیں کہ جان تک کی پروا نہیں کرتے۔ حالانکہ لوگ ان کو پرلے درجے کا بیوقوف سمجھتے ہیں لیکن انہیں کوئی ہوش نہیں ہوتا وہ اپنے کام میں مگن ہوتے ہیں۔
جن کا دل زندہ نہیں ہے جب وہ مجاہدہ کریں گے تو ان کا سارا مجاہدہ دنیا کی نذر ہو جائے گا اور جو صرف ذکر کے ذریعے دل کو تو زندہ کر لیں گے لیکن مجاہدہ نہیں کریں گے انہیں راستہ تو معلوم ہو گا مگر وہ اس پہ چل نہیں سکیں گے۔ مکمل اصلاح کی خاطر دونوں کام ضروری ہیں۔ مجاہدہ بھی کرنا ہے اور ذکر بھی کرنا ہے۔ ان دونوں کاموں کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ یہ دونوں کام شیخ کامل کی نگرانی میں کرنے ہیں، شیخ کی نگرانی کے بغیر ان کا صحیح فائدہ نہیں ہو گا۔ کنٹرول ہر جگہ ضروری ہوتا ہے۔ ایٹمی توانائی تباہی ہے لیکن اگر اس کو ایٹمی ری ایکٹر کے ساتھ قابو کر لیں تو فائدہ مند ہے۔ سیلاب تباہی ہے لیکن اس کے آگے بند باندھ لیں تو انرجی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی طرح ذکر اور مجاہدہ بڑے کام کی چیزیں ہیں، لیکن انہیں بے ترتیبی اور بغیر نگرانی کے کرنا فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ انہیں کنٹرول کرنے کے لئے کسی کی نگرانی میں کام کرنا ضروری ہے اور نگرانی شیخ کرے گا۔ بغیر نگرانی کے ذکر کرنے سے بھی مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور بغیر نگرانی کے مجاہدہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔
متن:
اور رات بھر نوافل پڑھتے رہتے۔ اُس مہینے کے گذرنے کے بعد جیسا کہ ذکر گذر چکا، حضرت صاحب اس معمول کا ذکر فرماتے، اور اس کی تعریف فرماتے کہ اس ماہ کا بہت اچھا معمول تھا جو کہ گذر چکا۔ اور اوائل میں حضرت صاحب کے معمول کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ اٹھارہ مہینے طعام نہیں کھاتے تھے، اور ایک ماہ پانی نہیں پیتے تھے، لیکن آخری عمر میں دو ماہ بہت دفعہ طعام نہیں کھاتے تھے اور ایک سال پانی نہیں پیتے تھے۔ اور حضرت صاحب کے کھانا کھانے کا اندازہ یہ تھا کہ کبھی کبھی بہت سا عرصہ جَو کی روٹی کھایا کرتے، اور کبھی کبھی بہت عرصے تک ارزن شموخہ (ایک گھاس ہے) کی روٹی کھاتے تھے۔ اور کبھی کبھی بہت عرصے تک دوسرا غلہ کھاتے تھے۔ اور بغیر نمک والے سالن کی کم خوراک تناول فرماتے۔ اور پتلی روٹی جو اچھی طرح پک کر سخت ہو گئی ہو، کھاتے تھے کہ اس روٹی میں مغز نہیں ہوتا تھا۔ اور لذیذ کھانا نہیں کھاتے تھے مگر دوسروں کے التماس اور لحاظ سے کہ کسی نے اس کو نہ دیکھا ہو، کھایا کرتے، مگر سیر ہو کر نہ کھاتے۔ اور امیروں میں سے ایک امیر ان کی خدمت میں حاضر ہوا، بازار کی شیرینی میں سے حضرت صاحب کے کھانے کے لیے کچھ شیرینی لے آیا۔ اور عرض اور استدعا کی کہ حضرت! یہ شیرینی جو میں خدمتِ اقدس میں لا چکا ہوں، آپ میرے روبرو اس میں سے تناول فرمائیے۔ حضرت صاحب نے ان کی خاطر وہ شیرینی منہ میں ڈالی اور پھر پھینک دی۔ چنانچہ حضرت شیخ صاحب نے فرمایا کہ اس شیرینی کی مٹھاس میرے حلق سے نہیں گزری۔ میں اپنی زبان کپڑے سے رگڑتا اور وہ شیرینی پھینک دیتا تاکہ اُس کی مٹھاس اور لذت میرے منہ سے نکل جائے۔ اپنی زبان کو اتنا رگڑ دیا تھا کہ بہت عرصے کے لیے اس رگڑنے سے سخت تکلیف سے دو چار ہوئے اور وہ امیر اس راز سے آگاہ نہ ہوا۔ اُس وقت شام کے بعد کی خفتن کے قریب کی تاریکی چھا رہی تھی۔ اور یہ کام اُنہوں نے اس لیے کیا تھا کہ بازار کی اور لذیذ خوراک کھانے سے پرہیز فرماتے تھے اور جس طعام اور شیرینی پر لوگوں کی نظر پڑ چکی ہوتی، وہ تناول نہ فرماتے۔ اور یہ سچے اور حقانی صوفیائے کرام کے خصائل و خواص میں سے ہے کہ وہ بازار کا کھانا نہیں کھاتے اور نہ لذیذ قسم کے طعام کی طرف میل رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کا نفس نفسِ مطمئنہ کے اوصاف سے متصف تھا اور ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ﴾ (الفجر: 27) کی ندائے دل نواز سے مخاطب ہو کر اس نام سے موصوف ہو گئے تھے۔
؎ لَیْسَ لِلْحَاجَاتِ إِلَّا مَن لَّہٗ جَھْدٌ
فَعَلَیْکَ الْجَھْدُ فِیْھَا وَ عَلَی اللہِ نَجَاحٌ
”جو لوگ جد و جہد اور کوشش کرتے ہیں، ان کی حاجت بر آتی ہے، تم کو چاہیے کہ تم کوشش کیے جاؤ اللہ تعالیٰ اس کی مکافات میں تمہاری حاجت بر لائے گا“
تشریح:
قرآن پاک کی ایک آیت ہے:
﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
اگر نفس اس حد تک بگڑا ہوا ہو کہ بغیر اضافی مجاہدہ کے قابو میں نہ آتا ہو تو اس کو قابو میں لانے کے لئے یہ مجاہدہ ضروری ہو جائے گا۔ تندرستی ہماری ضرورت ہے، اس تندرستی کے لئے پرہیز اور ڈاکٹر سے علاج کروانا بھی ضروری ہے۔ اسی طرح نفس کی اصلاح ضروری ہے تو اس کے لئے مجاہدات و ریاضات بھی ضروری ہوں گے۔ چاہے انسان کو سمجھ آئے یا نہ آئے صحت تو انہی کے ذریعے ہی حاصل ہو گی۔ مجاہدہ میں بعض اوقات جائز چیز کو بھی کچھ وقت کے لیئے چھوڑنا پڑتا ہے، جیسے کسی کو ٹائیفائیڈ ہو تو کھانا منع کر دیا جاتا ہے، حالانکہ کھانا جائز ہوتا ہے لیکن مجبوری کے طور پر اور علاج کے لئے کھانا منع ہوتا ہے اسی طرح مجاہدہ میں مجبوری کے طور پر اور روحانی علاج کی خاطر کچھ عرصہ کے لئے کچھ چیزیں منع کی جاتی ہیں کیونکہ بغیر پرہیز کے علاج نہیں ہوتا۔
ایک بچی بیمار تھی، ڈاکٹر نے اسے انڈا منع کیا ہوا تھا۔ وہ بچی روتی رہی، ماں سے انڈا مانگتی رہی لیکن ماں نے نہیں دیا کیونکہ اس کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں تھا۔ اخیر میں بچی نے اپنی معصومیت میں کہا کہ اچھا آپ انڈا پکا کر میرے سامنے رکھ دیں میں کھاؤں گی نہیں صرف اس کو دیکھوں گی۔ والدین تو آخر والدین ہوتے ہیں، ان کا دل پسیج گیا، انہوں نے انڈا پکا کر اس کے سامنے رکھ دیا اور اپنی باتوں میں لگ گئے۔ بچی با قاعدہ دونوں کو دیکھتی رہی، جیسے ہی دونوں کسی وقت غافل ہوئے تو ایک جھپٹا مارا اور انڈا سیدھا منہ میں ڈال لیا، والدین دیکھتے ہی رہ گئے۔
نفس بھی اسی طریقے سے کام کرتا ہے۔ لہٰذا اسے قابو کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کی بے حد ضرورت ہے۔ اسی اصلاح کے لئے مجاہدے کروائے جاتے ہیں۔
لوگوں نے رہبانیت والی حدیث شریف تو یاد کی ہوتی ہے لیکن اس کا صحیح منشا انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ بلاشبہ یہ حدیث ہے کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے لئے کوئی ایسا مجاہدہ تجویز نہیں کر سکتے جس کی شریعت نے اجازت نہ دی ہو۔ مثلاً روزے کا ثواب بہت زیادہ ہے لیکن عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، عید الفطر کے ایک اور عید الاضحی کے تینوں دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے، اگر کوئی ان دنوں میں روزہ رکھے گا تو گناہ گار ہو گا۔ جس مجاہدے کی شریعت نے حدود مقرر کی ہوں اس میں ہم ان حدود سے تجاوز نہیں کر سکتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مجاہدہ کے طور پر جو عمل کر رہے ہوں اس میں ثواب نہیں سمجھنا چاہیے۔ اگر ہم اسے ثواب کا کام سمجھیں گے تو وہ بدعت بن جائے گا۔ بدعت کی تعریف یہی ہے کہ کسی کام کو دین سمجھ کر کرنا اور اسے ثواب کا باعث سمجھنا۔ اگر ہم کوئی کام کریں لیکن اس میں ثواب نہ سمجھیں تو پھر وہ کام لغو تو ہو سکتا ہے مگر بدعت نہیں ہو گا کیونکہ بدعت دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرنے کا نام ہے۔ ہر نئی چیز کو بدعت نہیں کہتے بلکہ وہ نئی چیز جو دین سمجھی جائے اور اس میں ثواب سمجھا جائے تب اسے بدعت کہیں گے۔ دین میں کئے جانے والے نئے کاموں کی دو قسمیں ہیں: ایک احداث للدین (دین کے لئے تبدیلی کرنا) اور ایک احداث فی الدین (دین میں تبدیلی کرنا)۔ دین میں تبدیلی کرنا تو منع ہے اور بدعت ہے جبکہ دین کے لئے تبدیلی کرنا منع نہیں ہے بلکہ مستحسن ہے۔ دین کے لئے تبدیلی کرنے کی ایک بڑی مثال ہر مسجد کے ساتھ مینار کا ہونا ہے۔ دورِ نبوی اور قرون اولیٰ میں کہیں ثابت نہیں ہے کہ مساجد کے مینار ہوا کرتے تھے لیکن آج کوئی بھی مسجد مینار کے بغیر نہیں ہوتی یہاں تک کہ حریمین شریفیں کی مساجد میں بھی مینار ہیں۔ اور یہ بدعت نہیں ہے کیونکہ مینار کا اضافہ دین کے لئے کیا گیا ہے، دینی اعمال میں مدد کی خاطر کیا گیا ہے۔ آبادی والے علاقوں میں اگر مینار نہ ہو تو مسجد کا علم صرف عمارت کو دیکھ کر نہیں ہو سکتا، ایسے میں اگر جماعت کا وقت کم ہو اور آدمی پوچھ پوچھ کر مسجد جائے تو ممکن ہے اس کی جماعت رہ جائے، لیکن مینار سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دور سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مسجد ہے اور آدمی سیدھا مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی آدمی لوگوں سے مسجد کا راستہ پوچھے تو جو اسے مسجد کا راستہ بتائے گا اسے ثواب ملے گا، اسی طرح ایک آدمی نے مسجد کا مینار بنا دیا تاکہ مسجد آنے والے کو دور سے ہی معلوم ہو جائے تو اس کو بھی ثواب ملے گا کیونکہ اس کا مقصد مینار برائے مینار نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مسجد کا پتا چل جائے۔ صرف مینار بنانے میں کوئی ثواب نہیں لیکن اگر کوئی مسجد کی نشاندہی کی خاطر مینار بنائے گا تو ضرور ثواب ہو گا۔
یہ بڑے باریک معاملات ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسے معاملات میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ کوئی ہلکی پھلکی بات نہیں ہوتی، اس میں تفصیلات دیکھنی ہوتی ہیں۔
ہمارے جتنے بھی علماء ہیں یہ سب درس نظامی سے فارغ ہیں۔ کیا کبھی کسی صحابی نے درس نظامی کیا تھا؟ ظاہر ہے کسی صحابی نے درس نظامی نہیں کیا تو کیا خیال ہے سب درس نظامی کرنے والوں کو بدعتی قرار دیا جائے؟ ہرگز نہیں۔ کسی چیز کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ صرف اتنی بات سے نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمیں مزید گہرائی میں جا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ درس نظامی والے مسئلے میں مزید گہرائی میں جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ در اصل علم حاصل کرنا فرض ہے۔ اب ہر دور میں حصول علم کے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں، جس دور میں جو ذریعہ ہو گا اسی ذریعہ سے علم حاصل کیا جائے گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کے ذرائع اور تھے، وہ براہ راست نبی ﷺ سے اور دوسرے صحابہ سے علم حاصل کر لیا کرتے تھے جبکہ آج کل کے دور میں اس کے ذرائع اور ہیں، دینی علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ لہٰذا اب معلوم ہوا کہ درس نظامی کرنا بدعت نہیں ہے بلکہ علم حاصل کرنے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے مستحسن اور اچھا کام ہے۔
تصوف میں مجاہدات و ریاضات کا بعینہ یہی معاملہ ہے کہ مجاہدات اور ریاضات نفس کی اصلاح کے ذرائع ہیں اور اصلاح فرض عین ہے۔ نیز یہ مجاہدات رہبانیت نہیں ہیں۔ مجاہدہ اور رہبانیت میں ایک فرق تو یہ ہے رہبانیت میں ثواب سمجھا جاتا ہے جبکہ مجاہدہ میں ثواب نہیں سمجھا جاتا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ رہبانیت میں رہبانیت والے اعمال کو مقصود اصلی سمجھا جاتا ہے اور تا عمر رہبانیت جاری رکھی جاتی ہے جبکہ ہم لوگ مجاہدہ کو مقصود اصلی نہیں بلکہ مقصود اصلی کے حصول کا محض ایک ذریعہ سمجھتے ہیں نیز مجاہدہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا بلکہ صرف مقصود کے حاصل ہونے تک ہوتا ہے، اس کے بعد مجاہدہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جو مجاہدات تصوف میں کرائے جاتے ہیں یہ تحدیث فی الدین نہیں بلکہ تحدیث للدین کے زمرے میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ