اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات: 2)
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب: 56)
معزز خواتین و حضرات!
آج جمعہ کا دن ہے اور ربیع الاول کا مہینہ ہے۔ ایک بہت بڑی حقیقت ہمارے سامنے ہے۔ اگرچہ ہم دنیا کی بھول بھلیوں اور گہما گہمیوں میں اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن جس طرح کوئی آدمی سورج سے اوٹ میں ہو جائے تو سورج پہ کوئی فرق نہیں پڑتا، سورج اپنی جگہ موجود رہتا ہے بلکہ اس چھپنے والے کو سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔ اسی طرح حقائق سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جو انکار کرتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ آج ربیع الاول کے مہینے اور جمعہ کے دن کی مناسبت سے ”آپ ﷺ کی محبت اور تعظیم و توقیر میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل“ کے موضوع پر بات ہو گی۔
تمام جن و انس کو اس بات کا مکلّف کر دیا گیا ہے کہ وہ آپ ﷺ سے تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبت کریں۔ اس محبت کا کیا طریقہ اور سلیقہ ہو، اس بارے میں ہمارے لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معیار بنایا گیا ہے۔ ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ زندگی کو دیکھنا ہو گا کہ انہوں نے اس بات پر کتنا عمل کیا اور کیسے کیا ہے؟ اس سے ہمیں ایک راستہ مل جائے گا پھر ہم اسی طریقہ پہ چلیں گے۔
آج ہم آپ ﷺ کی شانِ محبوبیت کو حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفۂ اَجَلّ حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”(اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)“ سے بیان کریں گے۔ یہ کتاب واقعی ”اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ“ ہے کیونکہ اس میں اپنے دور کے دو بڑے بزرگوں کی تعلیمات کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں بزرگ آپ ﷺ کی محبت سے سرشار تھے۔ ایک حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ”نَشْرُ الطِّیْب فِیْ ذِکْرِ النَّبِیِّ الْحَبِیْبِ“ لکھی جبکہ حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے ”فضائلِ اعمال“ لکھی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں چالیس درود و سلام کو جمع کیا جسے حضرت مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”فضائلِ درود شریف“ میں مِنّ و عن نقل کیا اور اس کا نام ”مقبول وظیفہ“ یا ”چہل حدیث درود و سلام“ رکھا اور حضرت کے خلفاء نے اس کو چہار دانگِ عالَم میں پھیلا دیا۔ حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں حضرات کے سیرتِ نبوی ﷺ سے متعلق ارشادات و افادات کو جمع کیا ہے اور اپنے مخصوص رنگ میں بیان کیا ہے۔ اس لئے یہ کتاب واقعی ”(اَلعُطُوۡرُ الۡمَجۡموۡعَۃُ)“ ہے۔ حضرت صوفی محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کتاب کو چھپوانے کے لئے بنفس نفیس بیروت تشریف لے گئے تھے تاکہ کتاب کی طباعت خوبصورت سے خوبصورت ہو۔ حالانکہ ضعیف العمری کا زمانہ تھا، مختلف امراض لاحق تھے لیکن حضرت اس مقصد کے لئے خصوصی طور پر بیروت تشریف لے گئے۔ حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ جو میرے شیخ تھے، انہوں نے اس کتاب پر تقریظ لکھی ہے اور محبت سے بھرپور تقریظ لکھی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس تقریظ کے لکھوانے کا ذریعہ مجھے بنایا گیا۔ صوفی محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا کہ حضرت سے تقریظ لکھوا دو تاکہ حضرت کا فیض بھی اس میں شامل ہو جائے۔ میں نے جا کر حضرت سے عرض کیا تو حضرت نے فرمایا کہ میں ابھی لکھتا ہوں آپ یہیں ٹھہریں۔ ظہر کے بعد تقریظ لکھنا شروع فرمائی، درمیان میں عصر کی نماز پڑھی، اس کے بعد لکھتے رہے لکھتے رہے حتیٰ کہ مغرب کے وقت تقریظ مکمل کر کے مجھے دے دی اور میں حضرت صوفی محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے آیا۔ یہ ہمارے لئے بڑی سعادت کی بات ہے کہ اللہ پاک نے اس کے لئے ہمیں ذریعہ بنایا۔ آج چونکہ جمعہ کا دن ہے اور ربیع الاول کا مہینہ ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس کتاب ”الْعُطُورُ الْمجموعہ“ سے کچھ اقتباسات پڑھیں گے اور سمجھیں گے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”آپ ﷺ کی شانِ محبوبیت:
یہاں ایسی محبت کا بیان کیا جاتا ہے جس کا سبب ایمان ہے۔ یہ محبت سب محبتوں پر غالب، گہری اور ایسی ضروری ہے کہ اس کے بغیر دوسری قسم کی محبت کا اعتبار نہیں۔ اس محبت کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض حضرات اس کو حُبِّ ایمانی یا حُبِّ عقلی کہتے ہیں اور بعض اسے حُبِّ طبعی قرار دیتے ہیں لیکن یہ سب لفظی اختلاف اور تعبیرات کا فرق ہے۔
عِبَارَاتُنَا شَتّٰی وَ حُسْنُكَ وَاحدٌ
وَ کُلُّ اِلٰی ذَاكَ الْجَمَالِ یُشِیْرُ
اور شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے اس کا حُبّ طبعی ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ (حضرت کے ارشادات ان شاء اللہ آگے درج کئے جائیں گے) وہ اس کو کمالِ ایمان کے لئے ہی نہیں بلکہ نفسِ ایمان کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں اور دیگر اسبابِ محبت جو گزشتہ اوراق میں گزرے ہیں اُن سے اس محبت کا ظہور ہوتا ہے اور جِلاء ہوتی ہے اور اس کے ثمرات و نتائج برآمد ہوتے ہیں، جن میں اعظم ثمرہ محبوب کی اتباع ہے۔ اتباع ہی اس پوشیدہ محبتِ ایمانی کی علامت قرار دی جاتی ہے اور اتباع ہی سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور مغفرت کا انعام ملتا ہے۔
۲۔ محبتِ رسول ﷺ کا علیٰ سبیلِ الکمال ہونا:
ہر مومن میں محبتِ رسول ﷺ کا علیٰ سبیلِ الکمال ہونا شرعاً واجب ہے اور اس کے وجود کا عام مومنین میں مشاہدہ بھی ہے۔ در اصل یہ بحث ایمان کے کم اور زیادہ ہونے کے مشابہ ہے۔ زیادتی اور نقصان کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
”اَلْاِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَ لَا یَنْقُصُ“
ترجمہ: ”ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں“۔
اس میں شک نہیں کہ ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے۔ اس یقین میں زیادتی اور نقصان کی گنجائش نہیں۔ اس لئے کہ جو قبولِ زیادت یا نقصان کرے وہ داخلِ دائرۂ ظن ہے، یقین نہیں ہے“۔
تشریح:
یعنی جس چیز میں کمی زیادتی ہو سکتی ہو وہ یقین کا فائدہ نہیں دیتی بلکہ ظنیات میں شامل ہوتی ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”البتہ اعمالِ صالحہ کی ادائیگی یقین میں روشنی پیدا کرتی ہے اور اس سے یقین کے ثمرات ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اعمالِ غیرِ صالحہ یقین کو تاریک کر دیتے ہیں اور نفاق کے مشابہ برے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دو برابر کے آئینے ہوں ایک تو صاف ستھرا ہو دوسرے پر گرد و غبار ہو تو صاف آئینہ کا فائدہ اور اس کا وجود ظاہر ہو گا اور دوسرے کا کوئی فائدہ ظاہر نہ ہو گا۔ حالانکہ آئینہ ہونے کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ اس طرح ہر مومن خواہ وہ فاسق و فاجر ہو اس میں بھی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہیں تو وہ مومن ہی نہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی حاصل نہیں۔
3۔ اللہ کے حبیب کی محبت اللہ کی محبت میں مندرج ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اس وجہ سے کہ وہ تم کو غذا میں اپنی نعمتیں دیتا ہے اور مجھ سے (یعنی رسول اللہ ﷺ سے) محبت رکھو اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے محبت ہے۔ (ترمذی)
فائدہ: اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف غذا دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت رکھو بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات و احسانات بے شمار ہیں اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئیں تو یہ احسان تو بہت ظاہر ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ یہی سمجھ کر (مذکوره بالا وجہ سے) اس سے محبت کرو۔
تشریح:
پیغمبر کی شان یہ ہے کہ وہ نزول میں کمال کے درجہ پہ ہوتا ہے یعنی وہ اس انداز میں بات کرتا ہے کہ کم سے کم سمجھ رکھنے والا بھی اس بات کو سمجھ سکے۔ دیکھئے نبی ﷺ یہ بات سمجھا رہے تھے کہ اللہ پاک سے محبت کیوں کرنی چاہیے۔ اگر نبی ﷺ یہ بات سمجھانے کے لئے کوئی مشکل انداز اختیار فرماتے تو لوگ کیا سمجھتے؟ لیکن آپ ﷺ نے ایسا طرزِ بیان اختیار فرمایا جس سے ایک بچہ بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ فرمایا کہ اللہ پاک سے اس لئے محبت کرو کہ اس نے تمہیں سب کچھ دیا ہے۔
بات کو اس انداز میں سمجھانا کہ وہ پیچیدہ بھی نہ ہو اور حقِ مطلب بھی ادا ہو جائے یہ بڑے کمال کا ملکہ ہوتا ہے۔ ہمارے ایک ساتھی نے گفتگو کے دوران ایک بڑی اچھی بات کہی کہ کمال ہے جتنا جتنا ہم اوپر جاتے ہیں، آپ ﷺ کے قریب ہوتے جاتے ہیں اتنے زیادہ انسان نظر آتے ہیں اور جب نیچے آتے ہیں تو بزرگ نظر آتے ہیں۔
ان کی یہ بات واقعی درست ہے کہ ہم جتنا اوپر جاتے ہیں، صحابہ کرام اور نبی ﷺ کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ سب حضرات ہمیں بالکل عام انسانوں کی طرح محسوس ہوتے ہیں اور جب نیچے آتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے بزرگ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات میں نزول کامل ہوتا ہے، وہ ظاہراً بالکل عام لوگوں کے مرتبہ میں ہوتے ہیں، لیکن عام لوگوں کے مرتبہ میں رہ کر تقویٰ کی اعلیٰ منزلوں پر ہوتے ہیں جبکہ عام لوگ ایسا نہیں کر سکتے، عام لوگوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تقویٰ کے اعلیٰ درجات پر پہنچ کر بھی عام نظر آئیں۔ صحابہ کرام کے مقام کو جاننے کے لئے اس نکتہ کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”رسولِ اعظم ﷺ کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت میں داخل ہے کیونکہ اللہ کی محبت اسی وقت معتبر ہے اور کار آمد ہے جب اللہ کے حبیب ﷺ کے ساتھ بھی محبت ہو۔ اسی طرح اللہ کے حبیب ﷺ کی محبت اسی وقت معتَدْ بہ اور نافع ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ہو (جس کا ادنیٰ درجہ کفر سے نکلنا ہے) اگر کوئی کم بخت کہے کہ میں رسول اللہ ﷺ سے محبت کرتا ہوں اللہ کو چھوڑ کر، تو وہ کافر اور مردود ہے۔ بہت سے کفار کو حضور اقدس ﷺ کے کمالات و محاسن کی وجہ سے عقیدت و محبت ہوتی ہے جس کے اظہار میں وہ نعتیہ اشعار بھی پڑھتے ہیں، مضامین لکھتے ہیں مگر وہ سب کچھ نجات کے معاملہ میں بے کار اور بالکل غیر معتبر ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت اس وقت معتبر ہو سکتی ہے جب اس کی محبت کا منشاء ایمان باللہ ہو۔
تشریح:
ایک ہندو نے نبی پاک ﷺ کی مدح میں ایک خوبصورت شعر کہا ہے۔ ؎
عشق ہو جائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں
وہ ہندو کہتا ہے کہ صرف مسلمان ہی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کریں یہ ضروری تو نہیں ہے، ہمیں بھی حضرت محمد ﷺ کے ساتھ محبت ہے۔
ایک دوسرا ہندو شاعر جس کا نام غالباً بھیم داس نرائن ہے۔ یہ نابینا تھا، اس نے آپ ﷺ کی تعریف میں نعت لکھی اور حج کے لئے مکہ جانے والے مسلمانوں کو دی اور کہا کہ یہ روضۂ اقدس پہ میری طرف سے پڑھ دینا۔ جس وقت وہ نعت روضۂ اقدس پہ پڑھی جا رہی تھی، عین اسی وقت اس کی آنکھوں میں بینائی آ رہی تھی۔ جب نعت مکمل ہو گئی تو اس کی بینائی مکمل طور پر ٹھیک ہو گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جن کا نبی ﷺ کی تعلیمات پر ایمان نہیں جب وہ نبی پاک ﷺ سے عقیدت رکھتے ہیں تو انہیں دنیا کا فائدہ تو ہو جاتا ہے لیکن آخرت کا فائدہ تب ہی ہو گا جب اس محبت کے ساتھ ایمان بھی ہو، کیونکہ اخروی نجات کا مدار ایمان پر ہے، بغیر ایمان کے نجات نہیں ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح البخاری کی کتابُ الایمان میں محبتِ رسول اللہ ﷺ پر مستقل باب باندھا ہے۔
”بَابُ حُبِّ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ مِنَ الْاِیْمَانِ“
ترجمہ: ”باب اس بیان میں کہ حضور اقدس ﷺ سے محبت ہونا ایمان کا جزو ہے“۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی ”تقریرِ بخاری“ میں فرماتے ہیں اگر کسی کو آپ ﷺ سے محبت نہیں تو وہ مسلمان ہی نہیں۔
اب یہاں کچھ روایات ذکر کی جاتی ہیں جن سے حضور ﷺ سے کمالِ محبت کا شرعاً وجوب ثابت ہوتا ہے۔
اپنی جان اور اولاد سے زیادہ محبت مطلوب ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ میرے ساتھ اتنی محبت نہ رکھے کہ تمام اہل و عیال اور تمام آدمیوں سے بھی زیادہ۔ (روایت کیا اس کو مسلم نے) اور بخاری میں عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ بے شک مجھ کو آپ کے ساتھ سب چیزوں سے زیادہ محبت ہے بجُز اپنی جان کے (یعنی اپنی جان کے برابر آپ کی محبت معلوم نہیں ہوتی)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایماندار نہیں ہو گے جب تک میرے ساتھ اپنی جان سے زیادہ محبت نہیں رکھو گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اب تو آپ کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت معلوم ہوتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اب پورے ایماندار ہو اے عمر!
فائدہ: حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس بات کو آسانی کے ساتھ یوں سمجھو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اول غور نہیں کیا تھا۔ یہ خیال کیا کہ اپنی تکلیف سے جتنا اثر ہوتا ہے دوسرے کی تکلیف سے اتنا اثر نہیں ہوتا۔
تشریح:
یہ بات بہت اہم ہے اس کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا لیکن پہلے حضرت کی بات سن لیں۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
یہ خیال کہ اپنی تکلیف سے جتنا اثر ہوتا ہے دوسروں کی تکلیف سے اتنا اثر نہیں ہوتا۔ اس لئے اپنی جان زیادہ پیاری معلوم ہوئی۔ پھر سوچنے پر معلوم ہوا کہ اگر جان دینے کا موقع آ جائے تو یقینی بات ہے کہ حضور ﷺ کی جان بچانے کے لئے ہر مسلمان اپنی جان دینے کے لئے تیار ہو جائے اس طرح آپ ﷺ کے دین پر بھی جان دینے سے کبھی منہ نہ موڑے تو اس طرح آپ ﷺ جان سے بھی زیادہ پیارے ہوئے۔ (حیوٰۃ المسلمین)
تشریح:
عاجلہ کی محبت فطری ہے۔ انسان فوری چیز کا اثر زیادہ لیتا ہے البتہ جب محبت عقلی اور ایمانی ہو تو پھر جس وقت عقل اور ایمان کے تقاضے سامنے آئیں تو انسان عاجلہ کو اختیار نہیں کرتا۔ مثلاً آدمی ہر وقت اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں نہیں سوچتا لیکن اگر اس کے سامنے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مخالفت یا توہین کی جائے تو انسان جان لینے اور دینے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”اس بات کو سمجھانے کے لئے بعض حضرات نے محبت کی قسمیں بیان کی ہیں کہ ایک محبت طبعی ہوتی ہے، ایک عقلی اور یہاں (حدیث بالا میں) مقصود و مطلوب محبتِ عقلی ہے نہ کہ طبعی۔ لیکن حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد صاحب حضرت یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہ نقل فرمایا کرتے تھے کہ یہاں مطلوب جو محبت ہے وہ محبتِ طبعی ہے لیکن یہ جو بسا اوقات شبہ ہوتا ہے کہ اولاد وغیرہ کی محبت حضور ﷺ سے زائد معلوم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺ کی محبت کے مواقع (امتحان و اظہار کے) بہت کم پیش آتے ہیں بخلاف ان اولاد و اقارب کی محبت کے۔ چنانچہ اگر دونوں میں تصادم ہو جائے تو آپ ﷺ کی محبت ہی راجح ہو گی۔ مثلاً کسی کی بیوی حضور اقدس ﷺ کو نعوذ باللہ برا بھلا کہہ دے تو وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا بلکہ گلا تک گھونٹ دے گا۔ اسی طرح اگر کسی کا لڑکا قرآن پاک پر پیر رکھ دے تو وہ دور ہی سے ڈانٹتا ہوا دوڑے گا اور اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ مسلمان ہی نہیں۔
تشریح:
حضرت نے جیسے پہلے فرمایا تھا کہ علماء کے درمیان یہ بحث تو ہے کہ یہ طبعی محبت ہے یا عقلی محبت ہے۔ کسی نے کہا طبعی محبت ہے اور کسی نے کہا کہ عقلی محبت ہے۔ حضرت کا اپنا رجحان اسی طرف ہے جس طرف حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ گئے ہیں، ان دونوں حضرات کے نزدیک محبت طبعی ہونی چاہیے، حضرت صوفی محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے اس لئے وہ اسی کے دلائل دے رہے ہیں۔ در اصل اس کو عقلی محبت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ ایمان سے وابستہ ہے اور ایمان کی بنیاد پر ہے، چونکہ ایمان دل میں ہوتا ہے لیکن اس کو محسوس عقل کرتی ہے۔ اس وجہ سے جس وقت انسان کے دل میں ایمان ہو تو اس کے سارے پیمانے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کافر بھی ذہین ہوتا ہے اور مسلمان بھی ذہین ہوتا ہے لیکن کافر کی ساری ذہانت و قوت دنیا کے لئے استعمال ہو رہی ہے، وہ دنیا کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ مسلمان آخرت اور دنیا دونوں کی فکر کرتا ہے، ہاں جب دونوں میں سے ایک کو چننا ہو تو مسلمان آخرت کا انتخاب کرتا ہے۔ اس کا سبب ایمان ہے۔ کافر کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ ایمان کیا شے ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ بادشاہتیں تک چھوڑ دیتے ہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میں نے جب بہشتی زیور لکھی تو اس کے حقوق اپنے نام پر محفوظ نہیں کروائے۔ ایک انگریز نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ نے اس کے حقوق اپنے نام نہیں کروائے تو آپ کو اس کا فائدہ کیا ہے؟ اب میں اس کو کیسے بتاتا کیونکہ اس کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آ سکتی تھی کہ میں نے آخرت کے فائدہ کے لئے دنیا کا فائدہ چھوڑ دیا ہے۔
دیکھئے انگریز لوگ بھی خیرات وغیرہ کرتے ہیں لیکن ان کی خیرات اپنے دنیاوی سکون کے لئے ہوتی ہے، وہ اس خیرات کے ذریعے اپنے آپ کو پر سکون کرتے ہیں۔ جب تک انہیں بے سکونی اور ڈپریشن کے عوارض پیش نہیں آتے تب تک ان کو عطیات کا خیال نہیں آتا بلکہ وہ ظلم پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ مسلمان عبادات، صدقات و خیرات اور طاعات صرف دنیاوی اور ذہنی سکون کے لئے نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سب کام ایمان کی وجہ سے کرتا ہے۔ اس کے دل میں ایمان ہوتا ہے اور عقل اس سے اثر قبول کرتی ہے اور ایمان کی روشنی میں عاجلہ (فوری) چیز کو چھوڑنے اور آجلہ (آخرت) کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہلے تو کہا تھا کہ مجھے میری جان زیادہ پیاری ہے، کیونکہ یہ طبیعت کا تقاضا تھا اور طبیعت کے تقاضے ہر وقت سامنے ہوتے ہیں جبکہ نبی ﷺ کی محبت عقلی تھی، اور عقل کے تقاضے ہر وقت سامنے نہیں ہوتے بلکہ جب موقع آئے تبھی پیش آتے ہیں۔ جب نبی ﷺ نے خاص طور پر ذکر کر کے فرمایا کہ جب جان سے بھی زیادہ میری محبت نہ ہو تب تک ایمان کامل نہیں تو ان کے سامنے عقلی طور پر یہ بات آ گئی اور انہیں پتا چل گیا کہ یہ تو ایمان کا تقاضا ہے کہ نبی ﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو۔ تب انہوں نے عرض کیا کہ میں اب آپ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔
ہر آدمی عقلی اور ایمانی محبت کا ہی مکلف ہے، ہاں جس شخص کا ایمان یقین کے لحاظ سے درجہ بدرجہ ترقی کرتا رہتا ہے اس پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کی عقلی محبت طبعی محبت بن جاتی ہے یہاں تک کہ وہ محبت اتنی راسخ ہو جاتی ہے کہ آپ ﷺ کا نام سن کر ہی حالت بدل جاتی ہے، رقت طاری ہو جاتی ہے اور رونا آ جاتا ہے، جذبات بدل جاتے ہیں۔ یہ سب طبعی چیزیں ہیں، عقلی نہیں ہیں۔
معلوم ہوا کہ ابتداءً تو عقلی محبت ہی تھی مگر بعد میں وہی طبعی بن گئی۔ ایسی طبعی محبت جس کی بنیاد اور اساس ایمانی اور عقلی محبت ہو، وہ بڑی پائیدار محبت ہوتی ہے۔ خیر دونوں میں سے جو بھی محبت حاصل ہو اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اللہ پاک دونوں قسم کی محبتوں سے خوش ہوتے ہیں۔ باقی اکابر کے اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کسی کا ذوق اور مناسبت محبتِ عقلی کو ترجیح دیتا ہے تو کسی کا ذوق محبتِ طبعی کا ہے۔ دونوں طرف ہمارے اکابر ہیں اس وجہ سے ہم اس پر زیادہ بات نہیں کرتے۔ مزید یہ کہ دونوں طرف فرق صرف لفظوں کی حد تک ہے، اصل بنیاد اور نتیجہ ایک ہی ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”مسلمان خواہ کتنا ہی گنہگار ہو اس میں اللہ اور رسول کی محبت لازمی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو جناب رسول اللہ ﷺ نے شراب پینے کے جرم میں سزا دی، پھر ایک دن حاضر کیا گیا، پھر آپ نے حکم سزا کا دیا، ایک شخص نے مجمع میں سے کہا کہ اے اللہ اس پر لعنت ہو کہ کس قدر کثرت سے اس کو (اس مقدمہ میں) لایا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت مت کرو۔ واللہ میرے علم میں یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ (روایت کیا اس کو بخاری نے)
تشریح:
میں نے بیان کے آغاز میں سورج کی مثال دی تھی کہ سورج اپنی جگہ پہ موجود رہتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن درمیان میں کوئی آڑ آ جائے تو اس آڑ کی وجہ سے آپ کو اس کی روشنی نہیں پہنچتی۔ اسی طریقے سے اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت ہر مسلمان کے دل میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے لیکن اس کے نفس کی خواہشات کی آڑ آ جاتی ہے، اس آڑ کی وجہ سے وقتی طور پر اس آدمی تک اُس محبت کی روشنی نہیں پہنچتی اور وہ گناہ کر بیٹھتا ہے، جب وہ آڑ ہٹ جاتی ہے تو اسے ندامت و پشیمانی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا گنہگار مسلمان سے بھی اللہ و رسول اللہ ﷺ کی محبت کی نفی نہیں کی جائے گی بلکہ اس سے اس کے نفس کے شر کا خاتمہ کرنے کو کہا جائے گا۔
نقشبندی سلسلے میں ابتدا جذب سے کرواتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان کو جذب و محبت حاصل ہو جاتے ہیں لیکن نفس کا سلوک طے نہیں ہوا ہوتا لہذا نفس کے شر سے پیدا ہونے والی غلطیاں ہو رہی ہوتی ہیں، آدمی ان چیزوں سے دور نہیں ہو رہا ہوتا جو نفسِ امارہ کی وجہ سے پیش آتی ہیں۔
حاصِل کلام یہ ہے کہ مسلمان گنہگار بھی ہو تو اس سے نبی ﷺ کی محبت کی نفی نہیں کی جائے گی، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کے دل میں محبتِ نبوی ﷺ نہیں ہے، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ بعض اوقات اس پر نفسِ امارہ غالب آ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ کر بیٹھتا ہے لہٰذا نفسِ امارہ کو نفسِ مطمئنہ بنانے کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”فائدہ: اس حدیث سے چند امور ثابت ہوئے۔ ایک بشارت مذنبین کو کہ ان سے اللہ اور رسول کی محبت کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ دوسرے تنبیہ مذنبین کو کہ نری محبت سزا سے بچنے میں کام نہ آئی تو کوئی اس میں ناز میں نہ رہے کہ بس خالی محبت بدون اطاعت کے سزائے جہنم سے بچا لے گی۔
تشریح:
یہ ایک المیہ ہے کہ بعض لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ ہم اطاعت نہ بھی کریں تو صرف محبت ہمیں سزائے جہنم سے بچا لے گی۔
ہمارے دفتر میں ایک ساتھی تھے جن کے ساتھ ہماری گپ شپ ہوتی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ ان کے کوئی دوست ملنے آئے۔ دورانِ گفتگو وہ کہنے لگے کہ بھائی ہم تو بس کالی کملی والے کے دامن میں پناہ لیں گے۔ میں نے یہ سن کر کہا: کیا مطلب؟ ان کے دوستوں نے جو انہی کے مسلک کے تھے ان سے کہا کہ یہاں پر دلیل کے ساتھ بات کرنی پڑے گی، گپ شپ نہیں چلے گی۔ اس پر وہ چپ ہو گئے۔
بہر حال بغیر طاعات کے صرف محبت کی بنا پر سزائے جہنم سے بچنے کا خیال طفل تسلیاں دینے والی بات ہے۔ ع
بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
شوگر کے مریض بھی کچھ ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کا نفس انہیں میٹھا کھانے پہ مجبور کرتا ہے اس کے لئے مختلف ڈھکوسلے اور بہانے سامنے رکھتا ہے اور وہ اس کے ہاتھوں بہک کر میٹھا کھاتے چلے جاتے ہیں اور بعد میں خطرناک نتائج بھگتتے ہیں۔
خیر! یہاں دو باتیں بتائی گئی ہیں اور دونوں باتیں بالکل درست اور مسلّم ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان گنہگار بھی ہو تب بھی اس کے دل میں نبی ﷺ کی محبت ہوتی ہے۔ دوسری یہ کہ صرف محبت کی بنا پر عذاب سے بچنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں جس پہ اللہ کا فضل ہو جائے گا تو الگ بات ہے لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ عذاب سے بچنے کے لئے نبی پاک ﷺ کی عملی طور پر اطاعت کرنا ضروری ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”الحاصل محبت کا ہونا تو مشاہدہ ہے۔ مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ صرف ایک ضابطہ کا اشکال ہے کہ محبتِ طبعی تو اضطراری اور غیر اختیاری ہوتی ہے۔ شریعت میں غیر اختیاری بات کا مطالبہ کیوں کر درست ہوا؟ جواب یہ ہے کہ محبتِ طبعی کا منشا محبتِ قرب ہوتا ہے۔ جہاں جس مقدار کا قرب ہوتا ہے وہاں محبت بھی اتنی ہوتی ہے حضور اقدس ﷺ کے قرب کی خود محبت کے پیدا کرنے والے نے خبر دی ہے۔ ارشاد ہے کہ
﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ﴾ (الاحزاب: 6)
ترجمہ: ”ایمان والوں کے لیے یہ نبی ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں“۔
لہذا ایمان لاتے ہی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خصوصی تعلق خود بخود طبعی طور پر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس اندرونی طبعی تغیّر کو اس مثال سے سمجھیں کہ کسی عورت سے نکاح کرتے ہی اس عورت کی ماں جو پہلے غیر محرم تھی وہ فوراً مرد کی محرم ہو جاتی ہے اب وہ عورت مرد دونوں خواہ دیندار متقی نہ بھی ہوں ان میں اندرونی طور پر ایک ایسا تغیر آ جاتا ہے کہ عورت ماں کی طرح عادۃً مامون قرار دی جاتی ہے۔
تشریح:
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ محبتِ طبعی اور محبتِ عقلی کے بارے میں اکابر کا مختلف ذوق ہے کچھ اکابر محبتِ طبعی کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور بعض اکابر محبتِ عقلی کی طرف۔ حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان محبتِ طبعی کی طرف ہے، لہٰذا وہ اس سلسلے میں دلائل دے رہے ہیں۔ حضرت کا فرمانا یہ ہے کہ ایمان لاتے ہی اللہ و رسول ﷺ کے ساتھ ایک تعلق اور محبت طبعاً ہو جاتی ہے۔ محبتِ عقلی والے حضرات اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ شریعت میں اختیاری امور کا حکم ہے اور اختیاری امر عقلی ہوتا ہے جبکہ طبعی امور غیر اختیاری ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایمان لاتے وقت آدمی محبتِ عقلی کا مکلف ہو گا بعد میں جب محبتِ عقلی میں طبعی رنگ آ جائے گا تو یہی عقلی محبت طبعی محبت بن جائے گی، یوں کہہ سکتے ہیں کہ طبیعتِ ثانیہ بن جائے گی، لیکن بنیاد اور آغاز میں محبت عقلی ہی ہوتی ہے۔ بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ابتداءً عقلی ہوتی ہیں لیکن بعد میں انسان کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہیں، ایسے امور در حقیقت ہوتے عقلی ہی ہیں لیکن اس طرح راسخ ہو جاتے ہیں کہ طبیعت میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں مسلسل کرتے کرتے انسان کے لئے انہیں کرنا ایسا ہی آسان ہو جاتا ہے جیسے اس کے لئے امورِ عادیہ آسان ہوتے ہیں، ہاں اِن میں اور اصل امورِ عادیہ میں فرق یہ ہوتا ہے کہ اول الذکر امور اختیاری ہوتے ہیں۔ بہر حال ہمارے نزدیک دونوں طرف کے حضرات حق پر ہی ہیں۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”آپ ﷺ کی محبوبیتِ عامہ کی ایک اور لطیف وجہ:
امت کے علماءِ ربانیین اور عارفین صحیح احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ کل کائنات کی اصل نورِ محمدی ﷺ ہے۔ اسی نور سے تمام کائنات کو وجود بخشا گیا ہے۔
چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ نبوی ﷺ میں عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ) یہ بتلائیے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جابر اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنے نور سے (یعنی اپنے نور کے فیض سے) تمہارے نبی کے نور کو پیدا کیا“
تشریح:
یہاں غور فرمائیں کہ حضرت نے حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فوراً فرمایا دیا کہ ”اپنے نور سے پیدا کیا“ کا مطلب یہ ہے کہ ”نور کے فیض سے پیدا کیا“۔ کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”اپنے نور سے پیدا کیا“ کا مطلب یہ ہے کہ نبی ﷺ اللہ کے نور کا ایک جز ہیں۔ حضرت نے اس کی وضاحت فرما دی، کیونکہ عقیدہ کی بات سب سے اہم ہوتی ہے۔ اپنے عقیدہ کو سلامت رکھنا چاہیے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
پھر تمام کائنات کا وجود ہوا۔ اب کائنات کی ہر شے کو اپنی اصل کی جانب جذب و کشش ایک فطری اور طبعی تقاضا ہے جو ہر موجود میں پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے اپنی فطرت کو زنگ آلود کر لیا ان کا یہ احساس بھی معدوم ہو گیا۔ آخر زمانہ میں جب قلوب سے صلاحیت ختم ہو جائے گی اور اسلام کی صلاحیت اور استعداد مفقود ہو جائے گی تو پھر اسلام اور ایمان ساری دنیا سے سمٹ کر اپنے اصلی مرکز میں محدود ہو جائے گا۔ جیسے بخاری شریف میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ بے شک اسلام مدینہ کی طرف ایسا کھنچ آئے گا جیسے سانپ اپنے سوراخ کی طرف کھنچ آتا ہے۔
کائنات کے ظہور کو حضراتِ عارفین نے مسلم شریف کی اس حدیث سے سمجھا ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے:
”اِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ جَمِیْلٌ“
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ جمیل ہے“۔
اور جمال کے لئے ظہور مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ چونکہ حکیم بھی ہیں اس لئے حکمت کا تقاضا ہوا کہ ذات و صفات کا ظہور فرماویں اور ذات و صفات کا ظہور ہوتا ہے افعال سے، جن کا تعلق تخلیق سے ہے اور اسی ظہور سے معرفت ہو سکتی ہے، اسی ظہور کے اِقتِضاء یعنی چاہنے کو حُبّ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ عارفین اسی حُبّ کو اصطلاح میں تعیُّنِ اوّل اور حقیقتِ محمدیہ بھی کہتے ہیں
تشریح:
تعیُّنِ اوّل یعنی پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے وجود دیا ہوا ہے۔
متن: (اَلۡعُطُوۡرُ الۡمَجۡمُوۡعَۃُ)
”جو کہ ساری مخلوق کی اصل قرار دی گئی ہے۔ لہٰذا سید الکونین ﷺ کی محبوبیتِ عامہ کا اثر انسانوں سے گزر کر حیوانوں اور جمادات نباتات تک پہنچ گیا۔ البتہ جو مریضِ قلب شقاوتِ ازلی کی وجہ سے جانوروں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں ان میں نہیں آیا۔ حِجّۃ الوداع میں سید الکونین حبیب خدا ﷺ کے دستِ مبارک سے قربان ہونے کے لئے قربانی کے وقت اونٹوں کا ایک دوسرے سے بڑھ کر پیش ہونا کہ ہر ایک جلدی قربان ہونا چاہتا تھا اور زبانِ حال سے کہتا تھا ؎
سر بوقتِ ذبح اپنا ان کے زیرِ پائے ہے
یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
اور کھجور کے تنہ اسطوانۂ حَنَّانہ کا حضور اقدس ﷺ کی جدائی میں اس زور سے رونا کہ مسجد گونج گئی۔ درختوں کا حضور ﷺ کو بارہا سلام کرنا اور آپ کی رسالت کی شہادت دینا۔ حضور اقدس ﷺ کے غلاموں کے لئے جنگلی درندوں کا مطیع ہونا اور ان کے لئے دریاؤں کا مسخر ہونا وغیرہ بے شمار واقعات جو کتبِ احادیث میں مشہور ہیں اسی محبوبیتِ عامہ کا پتا دیتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جبَلِ اُحد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:
”ھٰذَا جَبَلٌ یُّحِبُّنَا وَ نُحِبُّہٗ“
ترجمہ: ”یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں“۔
تشریح:
دو قسم کی مخلوقات ہیں۔ (1) مکلّف مخلوقات۔ (2) غیر مکلّف مخلوقات۔ مکلّف مخلوقات کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اختیاری طور پر وہ اسباب اختیار کر لیں جن سے انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو۔ ایسا کرنے میں نفس کی طرف سے رکاوٹ پیش آتی ہے، یہ ایک طبعی رکاوٹ ہے۔ اس طبعی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے عقلی کاوش اور محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب مکلّف مخلوقات وہ محنت و کوشش کرتی ہیں تو اللہ اور اللہ کے رسول کی وہ محبت جو انسان کے اندر دبی ہوئی ہے وہ باہر آ جاتی ہے۔ اگر یہ کوشش و محنت نہ کی جائے تو وہ محبت دبی رہتی ہے۔ جبکہ غیر مکلف مخلوقات میں یہ چیز نہیں ہے۔ وہ اپنی جبلت پر عمل کرتی ہیں اور غیر مکلّف مخلوقات میں چونکہ نفس نہیں ہوتا اس لئے ان کی جبلت کے اندر موجود محبت کے اظہار میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی۔ اسی وجہ سے اونٹوں نے اپنی جان قربان کرنے کا مظاہرہ کیا اور استوانۂ حنانہ نبی ﷺ کے فراق کے غم میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔
مکلّف مخلوقات اس پر مامور ہیں کہ وہ اس رکاوٹ کو دور کر کے اپنی اصلاح کریں اور اس چیز کو باہر لائیں جو جبلت کے اندر دبی ہوئی ہے۔
اسی وجہ سے حضرت نے فرمایا کہ یہ عنصر صرف ان لوگوں میں نہیں پایا جاتا جنہوں نے اپنی نفس کی خواہشات میں اپنے آپ کو اتنا سرگرداں کر دیا کہ ان کے دل پتھر ہو گئے۔ در اصل نفس میں دو چیزیں آ سکتی ہیں اور دل میں بھی دو چیزیں آ سکتی ہیں۔ نفس فجور اور تقویٰ کا مقام ہے جبکہ دل الہامِ رحمانی اور وسوسۂ شیطانی کا مقام ہے۔ دونوں مقامات میں اپنی اپنی دونوں چیزیں آ رہی ہوتی ہیں۔ انسان اپنے اختیار سے جس چیز کو لیتا ہے اسے اسی چیز کے نتائج ملتے ہیں۔ نفس ہر دم فجور اور تقویٰ کی کشمکش میں ہوتا ہے اس کے سامنے فجور کے کام بھی آ رہے ہوتے ہیں اور تقویٰ کے بھی۔ اگر وہ نفس اصلاح کی طرف مائل ہے تو تقویٰ کے کام اختیار کرتا ہے وگرنہ فجور کی طرف چلا جاتا ہے۔ اسی طرح دل میں بھی اللہ پاک کی طرف سے الہامات آ رہے ہیں اور شیطان کی طرف سے وساوس بھی۔ اللہ تعالیٰ کی سنت عادیہ ہے کہ جو کسی چیز کو جتنا زیادہ اختیار کرتا ہے اس کی ضد اتنی کم ہوتی جاتی ہے۔ اب اگر کسی نے ایک فیصد تقویٰ اختیار کیا تو اس میں سے ایک فیصد فجور کم ہو گیا، اسی طرح کسی نے ایک فیصد فجور اختیار کر لیا تو ایک فیصد تقویٰ کم ہو گیا۔ کسی نے شیطانی چینل پر لبیک کہا تو اس کے لئے شیطانی چینل مزید کھل جائے گا اور رحمانی چینل تھوڑا سا بند ہو جائے اگر پہلے دونوں پچاس پچاس فیصد تھے تو اب شیطانی چینل 51 فیصد ہو جائے گا اور رحمانی چینل 49 فیصد ہو جائے گا۔ اس کے بعد اگر وہ شیطانی چینل کی طرف بڑھتا گیا تو ہوتے ہوتے ایک دن اس کے نفس و قلب پر مکمل طور پر شیطان چھا جائے گا اور وہ ہلاک ہو جائے گا۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰی سَمْعِهِمْؕ وَ عَلٰۤی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠﴾ (البقرہ: 7)
ترجمہ: ”اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لیے زبردست عذاب ہے“۔
ایسے ہی لوگوں کی مثال جانوروں سے دی گئی ہے:
﴿اُولٰٓىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ﴾ (الاعراف: 179)
ترجمہ: ”وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں“۔
دوسری طرف اگر انسان محنت کرے اور خیر کی آواز پہ لبیک کہے تو پھر رحمانی چینل کھلتا جائے گا اور شیطانی چینل کمزور ہوتا ہوتا آخر کار مکمل طور پر بند ہو جائے گا اور رحمانی چینل مکمل طور پر کھل جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ﴾ (الحجر: 42)
ترجمہ: ” یقین رکھو کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا“۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقعی اپنے اوپر محنت کر کے شیطانی چینل کی اپنے تک رسائی بند کر دی۔ جبکہ کچھ لوگوں نے دوسری طرف محنت کر کے رحمانی چینل بند کر لیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے دوبارہ اس چینل کو کھولنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی اصلاح کروا لیں۔ ابھی بھی اللہ و رسول ﷺ کی محبت ان کے اندر موجود ہے، وہ مادہ ان کے اندر موجود ہے لیکن یہ تب تک اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک رکاوٹیں دور نہ کر لیں۔ انسان کے اندر دبی اس محبت و جذب کو جگانے کے لئے تصوف میں فاعلات و مراقبات ہیں جبکہ نفس کی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے مجاہدات ہیں۔ خصائل (اچھی عادات) کو ابھارنے کے لئے فاعلات کروائے جاتے ہیں اور برائیوں کو دبانے کے لئے مجاہدات کروائے جاتے ہیں۔ بری چیزوں کو دبانا ہوتا ہے، اس کے لئے مجاہدہ ہے اور اچھی چیزوں کو ابھارنا ہوتا ہے، اس کو فاعلہ کہتے ہیں۔ انہی دو چیزوں (فاعلات اور مجاہدات) سے انسان کی اصلاح ہوتی ہے۔ یہ شیخ کی صوابدید اور تجربہ پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس وقت سالک کو فاعلہ پر لگائے، کس وقت مجاہدہ پر لگائے اور کس ترتیب سے لگائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ