مطالعہ سیرت بصورت سوال



اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت میں مؤرخین کا اختلاف رہا ہے البتہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ آپ ﷺ کی ولادتِ پاک ماہِ ربیع الاوّل میں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ کے ساتھ ہر امتی کو محبت ہے اور جس کے ساتھ کسی کو محبت ہو تو محبت کرنے والا اپنے محبوب کی زندگی کے اہم مواقع کو یاد کرتا ہے اور ان مواقع پر کچھ خصوصی کام بھی کرتا ہے۔ اس مناسبت سے ہمیں ماہ ربیع الاول میں ایسے کیا خصوصی کام کرنے چاہئیں جن کے ذریعے ہم آپ ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر سکیں؟

جواب:

یہ بات مسلّم ہے کہ آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت اور تاریخِ وفات دونوں میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی وجہ کیا بنی، ہم یہ بات بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ کسی بات میں اختلاف تب ہی ہوتا ہے جب اس کا حتمی علم کسی کو نہ ہو۔ ایک آدمی اس کے بارے میں اپنی تحقیق کرتا ہے اور اپنی تحقیق کے نتیجے میں جو علم حاصل ہو اس کو درست سمجھتا ہے، دوسرا آدمی اپنی تحقیق کرتا ہے اور وہ کوئی دوسرا نتیجہ نکالتا ہے۔ نبی ﷺ کی تاریخ پیدائش کا بھی یہی معاملہ ہے کہ حتمی تاریخ کسی کو معلوم نہیں ہے، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اپنی اپنی تحقیق کے مطابق مختلف آراء اختیار کی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ نبی ﷺ کی تاریخ پیدائش حتمی طور پر معلوم کیوں نہیں ہو سکی۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کے والد محترم آپ ﷺ کی پیدائش سے قبل ہی وفات پا چکے تھے۔ عرب معاشرے میں یتیم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ سیرت کی کتب میں آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش کے دن ایک یہودی ڈھونڈتا اور پوچھتا پھر رہا تھا کہ آج کون سا بچہ پیدا ہوا ہے لیکن اس کو کسی نے آپ ﷺ کے بارے میں نہیں بتایا۔ باقی بچوں کے بارے میں تو بتایا گیا لیکن آپ ﷺ کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔ اس نے خصوصیت سے پوچھا کہ ان کے علاوہ کوئی اور بچہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوا ہے یا بس یہی ہیں؟ تب کسی نے کہا کہ آج ہاشمیوں کے ہاں بھی ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے وہاں لے چلو۔

اُس وقت نبی ﷺ کی پیدائش کو اہمیت نہ دینے کی وجہ یہی تھی کہ آپ ﷺ یتیم پیدا ہوئے تھے۔ کسی یتیم بچے کا پیدا ہونا ان کے لئے اتنی غیر اہم خبر تھی کہ اس کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں تھا۔ اگرچہ ولادتِ نبوی ﷺ سے روحانیت کی دنیا میں تو بہت بڑا انقلاب آیا تھا۔ کتبِ سیرت میں کئی واقعات کا ذکر ہے جو آپ ﷺ کی ولادت کے وقت پیش آئے تھے لیکن اُس وقت مکہ مکرمہ میں کسی کو ان چیزوں کا پتا نہیں تھا، ان کے لئے تو یہ بس ایک یتیم بچہ ہی تھا جس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس وجہ سے نبی ﷺ کی ولادت کی تاریخ عرب معاشرے کے اندر مخفی رہی۔ کسی کو بھی حتمی تاریخ معلوم نہ تھی۔

نبی ﷺ کی تاریخ پیدائش معلوم نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دورِ نبوی اور دورِ صحابہ میں ان چیزوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ ہاں نبوت کے سلسلے میں قرآن و سنت، دین و شریعت اور اوامر و نواہی کے متعلق ہر بات محفوظ کی جاتی تھی۔ ان باتوں کا پورا ذخیرہ موجود ہے کیونکہ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک پوری جماعت موجود تھی اور ہر شخص کو یہ احساس تھا کہ آپ ﷺ جو فرماتے ہیں وہ ان کی اپنی بات نہیں بلکہ اللہ کی بات ہوتی ہے لہذا اس کو بہت اچھی طرح محفوظ رکھتے تھے، روایتیں کیا کرتے تھے، ایک دوسرے سے سوال و جواب اور مذاکرے کیا کرتے تھے۔ اس دور میں عمومی طور پر مجالس میں ہونے والی گفتگوؤں کا موضوع قرآن اور آپ ﷺ کا فرمان ہی ہوا کرتے تھے۔

نبی ﷺ کی تاریخِ پیدائش کے مخفی رہنے کی تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ وقتِ پیدائش آپ ﷺ کی شہرت کسی حوالے سے نہیں تھی۔ کچھ سال بعد آپ ﷺ اپنے حسنِ اخلاق اور حسنِ معاملات کی وجہ سے صادق و امین کے لقب سے مشہور ہوئے، اس کے کچھ عرصہ بعد نبوت ملی، ہجرت کے واقعات ہوئے، جنگیں ہوئیں۔ تب آپ ﷺ کی شہرت عرب اور عرب سے باہر پھیلنا شروع ہوئی۔

ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے بآسانی یہ بات سمجھ آ جاتی ہے کہ ولادتِ پاک کی حتمی تاریخ کا مخفی رہنا کوئی بعید نہیں ہے۔ ہاں آپ ﷺ کی وفات کی تاریخ کا چھپا رہنا ضرور عجیب بات ہو سکتی ہے کیونکہ اس وقت آپ ﷺ پورے جزیرۂ عرب میں مشہور ہو چکے تھے، اس وقت آپ ﷺ نبی اللہ تھے، خاتم النبیین تھے۔ آپ ﷺ کے پاس ایک جماعت تھی، آپ ﷺ بحثیت حکمران پورے عرب کے حاکم بھی تھے۔ ان تمام وجوہات کے ہوتے ہوئے تاریخِ وفات کا مخفی رہنا بہت عجیب بات ہے۔ لیکن غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اسی میں تھی کہ یہ تاریخیں مخفی ہی رہیں۔

اُس معاشرے میں اور خصوصاً دورِ صحابہ میں ولادت و وفات کی تاریخوں کو یاد رکھنا کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس کی طرف ان کا دھیان جاتا۔ وہ حضرات نبی پاک ﷺ کی سیرت اور احادیث بیان کرتے تھے لیکن ولادت و وفات کی تاریخیں وغیرہ ان کی روایات میں شامل نہیں ہوتی تھیں۔ احادیث میں واقعات کی جو ترتیب ہے اسی سے مؤرخین نے اندازہ لگایا ہے کہ تاریخِ ولادت اور تاریخِ وفات کیا ہو سکتی ہے، چونکہ ہر ایک کی تحقیق الگ الگ ہوتی ہے اس لئے ان تاریخوں میں اختلاف ہوا ہے۔

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”سیرت النبی“ جلد اول میں اس موضوع پر جو لکھا ہے میں آپ کو وہ سنا دیتا ہوں۔ ان دونوں حضرات کی مرتب کردہ ”سیرت النبی ﷺ“ مستند ترین سیرت کی کتابوں میں سے ہے۔ اس میں اِس بات کا خصوصی طور پر خیال رکھا گیا ہے کہ کونسی بات مستند ہے اور کونسی بات غیر مستند ہے۔ غیر مستند باتوں کو ان حضرات نے اپنی کتاب میں شامل نہیں کیا۔ اگر کہیں غیر مستند بات نقل کی بھی ہے تو اس پر تنقید اور جرح بھی ساتھ ذکر کی ہے۔ لکھتے ہیں:

”تاریخ ولادت:

تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہیئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے دلائلِ ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت 9 ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 20 اپریل 571ھ میں ہوئی تھی“

اس سے آگے کئی صفحات میں یہ بات پوری تفصیل کے ساتھ لکھی ہے کہ محمود فلکی نے یہ استدلال کیسے کیا تھا۔ اس استدلال کو روایت اور درایت دونوں قسم کے دلائل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ روایات کی تحقیق اور اَسناد بیان کی گئی ہیں اور درایتاً یعنی ریاضی کے اصولوں پر تاریخوں کی جانچ پرکھ کی گئی ہے۔ لکھتے ہیں:

1- صحیح بخاری میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام (آنحضرت ﷺ کے صغیر السن صاحبزادے) کے انتقال کے وقت آفتاب میں گہن لگا تھا۔ اور 10ھ تھا (اور اس وقت آپ ﷺ کی عمر کا تریسٹھواں سال تھا)

بخاری کی اس روایت سے درج ذیل باتیں حتمی طور پر معلوم ہو رہی ہیں۔ ایک یہ کہ نبی ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا انتقال سن 10 ہجری میں ہوا۔ دوسری یہ کہ جب ان کا انتقال ہوا اس دن سورج گرہن ہوا تھا۔ تیسری یہ کہ آپ ﷺ کی عمر اس وقت 63 سال تھی۔

سورج گرہن ایک ایسی چیز ہے کہ سائنس اور ریاضی کے قاعدوں کے ذریعے کئی سو سال پرانے سورج گرہن کا حساب کتاب لگایا جا سکتا ہے بلکہ ہزاروں سال پہلے کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے کہ سورج گرہن کب ہوا تھا اور ہزار سال بعد کا بھی پتا لگایا جا سکتا ہے کہ ہزار سال بعد سورج گرہن کب ہو گا۔ یہ با قاعدہ ریاضی کے اصول و ضوابط پر مبنی ہوتا ہے۔

”2- ریاضی کے قاعدے سے حساب لگانے سے معلوم ہوتا ہے کہ 10ھ کا سورج گرہن 07 جنوری 632ء کو 08:30 منٹ پر ہوا تھا“۔

”3- اس حساب سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر قمری 63 برس پیچھے ہٹیں تو آپ ﷺ کی پیدائش کا سال 571ء (از روئے قواعد ہیئت) ربیع الاول کی پہلی تاریخ 12 اپریل 571ء کے مطابق تھی“۔

”4- تاریخ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاول کا مہینہ اور دو شنبہ کا دن تھا اور تاریخ 8 سے لے کر 12 تک میں منحصر ہے“۔

یہ حساب میں نے بھی لگایا ہے۔ ریاضی کے قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے سورج گرہن کا حساب لگانے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ربیع الاول میں پیر کا دن یا آٹھ تاریخ کو بنتا ہے یا 9 تاریخ کو۔ اس لئے کہ قمری تاریخ میں ایک دن کا فرق چاند کی رویت کے حساب سے ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یا آٹھ تاریخ ہو گی یا 9 تاریخ۔

دیکھئے اس تحقیق سے معلوم ہو گیا کہ نبی ﷺ کی تاریخ پیدائش 8 ربیع الاول ہے یا پھر 9 ربیع الاول ہے۔ بعض حضرات نے کتابوں میں 9 ربیع الاول لکھی بھی ہے اس وجہ سے ہم 9 ربیع الاول کو زیادہ مستند مان سکتے ہیں اور عیسوی سن کے حساب یہ تاریخ 20 اپریل 571ء عیسوی بنتی ہے۔

تاریخ ولادت کے بارے میں تاریخی اور علمی بات تو آپ نے سن لی اب عملی بات بھی سن لیں۔ یومِ ولادت منانے کا کہیں پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بالخصوص 12 ربیع الاول کو یومِ ولادت منانا تو تاریخی لحاظ سے بھی غلط ہے، روایتاً بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں اور درایتاً بھی غلط ہے۔ بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے خیبر پختون خواہ میں ربیع الاول کے مہینہ کو ’’12 وفات‘‘ کا مہینہ کہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 12 ربیع الاول کی تاریخ وفات کے لئے زیادہ مشہور ہے۔ لہٰذا ہمیں ولادت و وفات کے دن منانے پر زور نہیں دینا چاہیے بلکہ صحابہ کرام نے جن چیزوں پر زور دیا ان پہ ہم بھی زور دیں اور جن چیزوں پہ زور نہیں دیا ان پہ ہم بھی زور نہ دیں۔ ہماری اصل منزل اور مقصد یہی ہے۔ ایک دفعہ انسان اپنی منزل سے ہٹ جائے تو پھر وہ بھٹکتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اصل چیز کی طرف نہیں جانا تو پھر دوسری چیزوں کی طرف جانے کی کوئی حد نہیں رہے گی، ایک غلط کام کریں گے تو مزید غلط کاموں کی راہ ہموار ہوتی چلی جائے گی۔

کہتے ہیں پائلٹ کی مہارت کا پتا لینڈنگ میں چلتا ہے، take off اتنا مشکل نہیں ہوتا جتنی مشکل لینڈنگ ہوتی ہے کیونکہ take off میں جس طرف بھی نکلے گا تو آسمان میں ہی نکلے گا۔ اس میں کیا مشکل ہے، جس طرف بھی گیا تو آسمان ہی میں گیا لیکن لینڈنگ میں خاص سمت میں ہی جہاز اتارنا پڑتا ہے۔

ایک مرتبہ ہم سفر میں تھے، جہاز کی لینڈنگ سکاٹ لینڈ (انگلینڈ) میں ہونی تھی۔ فضا میں مکمل دھند چھائی ہوئی تھی، کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔ پائلٹ نے اعلان کروا دیا کہ سب لوگ اپنے اپنے آلات بند کر دیں کیونکہ میں اب آٹو پائلٹ پہ جہاز چلاؤں گا، اگر کسی کا موبائل وغیرہ آن ہوا تو جہاز کے navigation سسٹم میں خرابی ہو سکتی ہے جس کے نتیجہ میں جہاز تباہ بھی ہو سکتا ہے لہذا ساری چیزیں بند کرا دیں، موبائل بھی بند کرا دیں، لیپ ٹاپ بھی بند کرا دیا۔ جس وقت جہاز نیچے اتر رہا تھا اس وقت ہر طرف بے حد اندھیرا تھا، کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ نیچے کیا ہے۔ خیر جہاز لینڈ ہو گیا اور بالکل آخری کنارے پہ لینڈنگ ہوئی، اگر ایک سیکنڈ کی بھی غلطی ہو جاتی تو حادثہ ہو جاتا۔ یہ پائلٹ کی مہارت کا کمال تھا کہ اس نے ایسی حالت میں بھی بالکل درست جگہ پہ جہاز اتارا۔ خود اس کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن ریاضی کو نظر آ رہا تھا، حساب کتاب کو نظر آ رہا تھا۔ اسی طرح نبی ﷺ کی تاریخ پیدائش میں بھی یہی معاملہ ہے کہ کسی اور کو نظر آئے یا نہ آئے ریاضی کو ضرور نظر آ رہا ہے۔ لہٰذا ہمیں ریاضی کے اصولوں کو سامنے رکھ کر تحقیق کرنی پڑے گا کیونکہ آگے پیچھے اندھیرا ہے۔

بہر حال ہم لوگوں کو اس بات کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ ہمارے پاس معلومات حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں انہیں بھی اس مسئلے کے حل کے لئے استعمال کریں۔ جذباتیت کو ختم کرنا چاہیے اور اصل بات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ ﷺ جو دین لے کے آئے تھے اس کو سینے سے لگانا ہے، اس پر عمل کرنا ہے، جو آپ ﷺ دیں اس کو لو اور جس سے آپ ﷺ منع کریں اس سے رک جاؤ۔ اللہ پاک نے یہی فرمایا ہے۔ لہذا آپ ﷺ جو ہمیں دے رہے ہیں ہم اس کو لیں گے۔ صحابہ کرام نے یہی کیا تھا۔ صحابہ کرام اسی میں حریص تھے۔ وہ یہ جاننے کے حریص نہیں تھے کہ آپ ﷺ کی ولادت پاک کب ہوئی تھی اور وفات کب ہوئی۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس میں کسی انسان کا اختیار نہیں ہے وہ غیر اختیاری چیز ہے۔ صحابہ کرام اختیاری کاموں کو کرتے تھے غیر اختیاری کے درپے نہیں ہوتے تھے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھدار بنائے اور جو کام کرنے کے ہیں ہم وہی کریں، جو کام کرنے کے نہیں ہیں ان سے بچیں۔ جن چیزوں کے ساتھ کوئی غرض نہ ہو ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہی ہو کہ ہم ان کے درپے نہ ہوں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ