تعلیمات مجددیہ درس 04





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ! بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

‌آج‌ ‌اتوار‌ ‌کا‌ ‌دن‌ ‌ہے‌ ‌اتوار‌ ‌کے‌ ‌دن‌ ‌ہمارے‌ ‌ہاں‌ ‌مکتوبات‌ ‌شریف ‌کا‌ ‌درس‌ ‌ہوتا‌ ہے، ‌آج‌ ‌کل‌ ‌ایک‌ ‌بہت‌ ‌ضروری‌ عنوان ‌چل‌ ‌رہا‌ ‌ہے‌ کہ‌ ‌ہمارے‌ ‌عقائد‌ ‌کیسے‌ ‌ہونے‌ ‌چاہئیں۔ اس حوالے سے ‌اس‌ ‌میں‌ ‌دو‌ ‌قسم‌ ‌کے مکتوبات ‌شریف‌ ‌ہیں۔‌ ‌ایک‌ ‌عقائد‌ ‌کا‌ ‌وہ‌ ‌بیان‌ ‌جو‌ ‌عوام‌ ‌کے‌ ‌لئے‌ ‌تھا‌ ‌جس‌ ‌میں ‌بنیادی‌ ‌عقائد‌ ‌بیان‌ ‌کئے‌ ‌گئے‌ ‌ہیں۔‌ ‌لیکن‌ ‌کچھ‌ ‌ایسے‌ ‌عقائد‌ ‌ہوتے‌ ‌ہیں‌ جن ‌میں‌ ‌ ‌تصوف‌ ‌کے‌ ‌لحاظ‌ ‌سے‌ ‌بہت‌ ‌گہرائی‌ ‌میں‌ ‌جاتے‌ ‌ہیں، ‌اس‌ ‌کے‌ ‌لئے‌ ‌بھی‌ ‌حضرت‌ ‌مجدد‌ ‌الف‌ ‌ثانی‌ ‌رحمۃ‌ ‌اللہ‌ ‌علیہ‌ ‌نے‌ ‌حضرت‌ ‌‌خواجہ‌ ‌باقی‌ ‌باللہ‌ ‌رحمۃ‌ ‌اللہ‌ ‌علیہ‌ ‌کے‌ ‌صاحبزادگان‌ ‌کی‌ ‌طرف‌ ‌خط‌ ‌لکھا‌ ‌تھا‌۔ چونکہ ‌ان‌ ‌حضرات‌ ‌کے‌ ‌اشکالات‌ ‌ان‌ ‌کے‌ ‌علم‌ اور‌ مقام‌ ‌کے‌ ‌حساب سے تھے تو‌ ‌ان‌ ‌کو‌ ‌بڑی ‌تفصیل‌ ‌کے‌ ‌ساتھ‌ ‌وہ‌ ‌چیزیں‌ ‌سمجھائی‌ ‌ہیں‌۔ ‌تو‌ یہ‌ عقائد ‌کا‌ ‌باب‌ تقریباً‌ ‌چالیس‌ ‌صفحات‌ ‌پر‌ مشتمل ہے۔ اس‌ ‌لحاظ‌ ‌سے‌ اس‌ ‌میں‌ کافی‌ ‌تفصیل‌ ‌کے‌ ‌ساتھ‌ ‌یہ‌ ‌چیزیں‌ ‌آئی‌ ‌ہیں‌ ‌اور‌ ‌چونکہ‌ ‌ہمیں‌ ‌مجدد‌ ‌صاحب‌ ‌رحمۃ‌ ‌اللہ‌ ‌علیہ‌ ‌کی ‌تعلیمات‌ ‌کو‌ ‌ہر‌ ‌طبقۂ‌ ‌فکر‌ ‌تک‌ ‌پہنچانا‌ ‌ہے‌ لہٰذا‌ ‌جو‌ ‌اشکالات‌ ‌صوفیا‌ء ‌کو‌ ‌ہوتے‌ ‌ہیں‌ ‌ان‌ ‌کا‌ ‌جو‌ جواب‌ ‌حضرت‌ ‌نے‌ ‌دیا‌ ‌ہے‌ ‌وہ‌ ‌‌بھی‌ ‌بیان‌ ‌کرنا‌ ‌پڑے‌ ‌گا‌ اور‌ ‌اس‌ ‌کے‌ ‌بعد‌ ‌ان‌ ‌شاء‌ ‌اللہ‌ ‌ہم‌ ‌کوشش‌ ‌کریں‌ ‌گے‌ ‌کہ‌ ‌اس‌ ‌پر‌ ‌ایک‌ ‌جامع ‌کتاب‌ چھاپ دی جائے جس میں ‌حضرت‌ ‌کے‌ ‌بیان‌ ‌فرمودہ‌ ‌عقائد‌ ‌‌آ‌ ‌جائیں ‌تا‌کہ‌ ‌اس‌ ‌میں‌ ‌ہر‌ ‌قسم‌ ‌کی‌ ‌بات‌ ‌واضح‌ ‌ہو‌ جائے‌۔ ‌‌پچھلی‌ ‌دفعہ‌ آٹھ‌ ‌عقیدے‌ ‌اس‌ ‌مکتوب‌ ‌شریف‌ ‌کے‌ ‌‌ہو‌ ‌چکے‌ ‌ہیں‌۔ آج‌ نویں‌ ‌عقیدے‌ ‌سے‌ ‌ہم‌ ‌شروع‌ ‌کر‌ ‌رہے‌ ‌ہیں‌۔ ‌حضرت‌ ‌فرماتے‌ ‌ہیں‌:

متن:

عقیدہ (9): جاننا چاہیے کہ تمام ممکنات۔

تشریح:

ممکنات ان چیزوں کو کہتے ہیں جو بعد میں پیدا ہوئی ہیں۔

متن:

تمام ممکنات خواہ جواہر ہوں یا اعراض، خواہ اجسام و عقول ہوں یا نفوس، افلاک ہوں یا عناصر، سب اسی قادرِ مختار کے ایجاد کئے ہوئے ہیں ان کو جو یہاں خانۂ عدم سے معرض وجود میں لایا ہے، اور جس طرح یہ سب اپنے وجود میں اس تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی طرح بقا (باقی رہنے) میں بھی اس سبحانہ کے محتاج ہیں۔

تشریح:

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ مکتوب نمبر 234 جلد نمبر 01 میں بڑی تفصیل کے ساتھ بات فرمائی ہے۔ اور اس کے علاوہ بہت سے مکتوبات شریف میں بھی کہ اصل موجود اللہ پاک کی ذات ہے باقی جو بھی ہے وہ اصل میں عدم سے وجود میں آیا ہے، ان کی حقیقت عدم ہے۔ حقیقت اس کو کہتے ہیں جس سے وہ چیز آتی ہے، تمام چیزیں جو اللہ کے علاوہ ہیں ان کی اصل یہ ہے کہ وہ عدم سے وجود میں آئی ہیں اور عدم کی بنیاد شر اور فطرتاً نقص والا ہونا ہے، جب تک کہ اس کو دور نہ کیا جائے۔ ہم نفسِ امّارہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ وہ فطرتاً شر ہے، تو اس شر کو دور کرنا پڑے گا یعنی نفسِ امّارہ سے نفسِ مطمئنہ بنانا پڑے گا۔ یہ خود بخود نہیں بنتا جیسے خود بخود نیچے سے کوئی چیز اوپر نہیں جاتی اِلَّا یہ کہ کوئی ہائیڈروجن جیسی چیز ہو، عام طور پر چیزیں اوپر سے نیچے آتی ہیں، جیسے پانی ڈھلوان کی طرف جاتا ہے یہ اس کی فطرت ہے۔ اسی طریقے سے نفس امّارہ کو بھی شر سے خیر کی طرف لانا پڑے گا۔

شر سے خیر کی طرف خود نہیں آتا البتہ خیر سے شر کی طرف خود بخود جاتا ہے۔ جیسے ہیلی کاپٹر کو ہوا میں اپنی جگہ پہ کھڑا ہونے کے لئے بھی پر ہلانے پڑتے ہیں ورنہ گر جائے گا۔ اسی طریقے سے شر سے بچنے کے لئے اور خیر پر قائم رہنے کے لئے بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ یعنی آپ اس سے بے فکر نہیں ہو سکتے کہ بس ٹھیک ہے جی اب میں بزرگ بن گیا اب یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا، ایسا نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو ٹھیک رکھنے کے لئے بھی مسلسل محنت کرنی ہوتی ہے۔ ایک ہوتا ہے ٹھیک کرنا پھر ہوتا ہے اس کو ٹھیک رکھنا۔ تو خانۂ عدم سے ساری چیزیں معرض وجود میں آئی ہیں۔

متن:

خانۂ عدم سے معرض وجود میں لایا ہے، اور جس طرح یہ سب اپنے وجود میں اس تعالیٰ کے محتاج ہیں اسی طرح بقا (باقی رہنے) میں بھی اس سبحانہ کے محتاج ہیں۔

تشریح:

خالق بھی وہی ہے، قیوم بھی وہی ہے۔

متن:

اور اس نے اسباب و وسائل کے وجود کو اپنے فعل کا روپوش بنا دیا ہے۔

تشریح:

یعنی اسباب و وسائل کے ذریعے اپنی قدرت کو چھپایا ہوا ہے۔ سامنے سبب سے ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن پیچھے سے وہی کرتا ہے، سبب کے اندر کچھ نہیں ہے بلکہ سبب کے اندر وہی قوت ڈالتا ہے۔

متن:

اور حکمت کو اپنی قدرت کے پردے بنا دیا ہے۔

تشریح:

یعنی حکمت کو اللہ تعالیٰ نے پردے بنایا اور اس سے اپنی قدرت چھپا دی۔

متن:

یہی نہیں بلکہ اسباب کو اپنے فعل کے ثبوت کے دلائل قرار دے کر حکمت کو اپنی قدرت کے وجود کا وسیلہ فرمایا ہے۔

تشریح:

یعنی اسباب اللہ تعالیٰ کے فعل کے ثبوت کے طور پر ہیں، یعنی وہ سبب جب پیدا ہو گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ پاک نے اس کو کر لیا یعنی سبب کا پیدا ہونا ہی اس کے کرنے کی نشاندہی ہے۔

متن:

حکمت کو اپنی قدرت کے وجود کا وسیلہ فرمایا ہے۔

تشریح:

حکمت گویا کہ قدرت کے پیچھے ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ پاک نے اپنی حکمت سے فیصلہ فرما دیا، اصل میں تو اس کے مطابق اپنی قدرت استعمال فرمائی کیونکہ قادر تو ساری چیزوں پر ہے۔ مثلاً میں یہ کتاب اِدھر بھی رکھ سکتا ہوں، اُدھر بھی رکھ سکتا ہوں، لیکن میں نے اپنے سامنے رکھی ہے اس میں حکمت ہے کیونکہ میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ آپ ادھر نہیں رکھ سکتے؟ میں کہوں گا: رکھ سکتا ہوں لیکن رکھی نہیں کیونکہ حکمت اس میں ہے کہ سامنے رکھوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے لیکن یہ اس کی حکمت نہیں ہے یہ صاف بات ہے کہ اس کی حکمت نہیں ہے۔

متن:

کیونکہ وہ عقلمند حضرات جنہوں نے حضرات انبیاء علیهم الصلوات والتسلیمات کی متابعت میں اپنی بصیرت کو سرمگیں اور روشن کر لیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اسباب و وسائل اپنے وجود و بقا میں اس سبحانہ کے محتاج ہیں اور اپنا ثبوت و قیام اسی تعالیٰ و تقدس سے اور اسی کے ساتھ رکھتے ہیں۔

تشریح:

یعنی جن لوگوں کو اللہ پاک نے بصیرت کی دولت سے نوازا ہے وہ جانتے ہیں کہ جتنے بھی اسباب و وسائل ہیں وہ بھی تب موجود اور باقی ہیں کہ اللہ جل شانہ نے ان کو وجود اور بقا بخشی ہے۔ میاں بیوی کے ملنے سے بچے پیدا ہوتے ہیں تو اس قانون کو اللہ نے باقی رکھا ہوا ہے اگر ختم کر دے تو پھر ایسا نہیں ہو گا۔ جب بھی اللہ پاک ارادہ کر لیں کہ یہ نہ ہو تو اس کے لئے کوئی سبب بنا لیتے ہیں اور وہ پھر نہیں ہوتا۔

لیکن جب اللہ تعالی اس کی بقا نہیں چاہتا تو کوئی ایسا جرثومہ پیدا کر دیتا ہے جو خود سے زندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے بلکہ کوئی اسے لے آتا ہے خود سے نہیں آتا اور نہ ہی آ سکتا ہے۔ پھر جب زندہ خلیے سے مل جاتا ہے تو ان کا آپس میں رابطہ ہو جاتا ہے اور اسی قسم کے جرثومے بنانا شروع کر دیتا ہے تو وہی زندہ خلیہ جو بقا کے لیے ہوتا ہے وہ تباہی کا باعث بن جاتا ہے، اللہ تعالی کا قانون ہے۔ اللہ تعالی نے بنا دیا کوئی کچھ نہیں کر سکتا، بڑے بڑے ڈاکٹر حیران و سرگرداں اور پریشان رہ جاتے ہیں۔

نمرود کو تو ایک لنگڑے مچھر نے مارا تھا جو زندہ تھا لیکن کرونا وائرس کون سی چیز ہے؟ یہ تو زندہ بھی نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانی ہے خود سے آتا بھی نہیں بلکہ لایا جاتا ہے۔ جتنی بھی احتیاطی تدابیر ہیں یہ صرف اس کے لانے سے ممانعت کے لئے اسباب ہیں اس وجہ سے ان اسباب کی قدر کرنی چاہیے، نا قدری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اللہ پاک نے اسباب کو پیدا کیا ہے تو ان اسباب کی قدر کرنی پڑے گی، یہ صرف اور صرف اس کو لانے سے روکنے کے لئے ہیں۔ فاصلہ رکھو اس لئے کہ اگر چھینکے یا کوئی کھانسے تو آپ تک اس کا مواد نہ پہنچے اور کمال کی بات یہ ہے کہ جس کو یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہو ضروری نہیں کہ اس پر علامات بھی ظاہر ہوں بلکہ پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اندر جراثیم پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن ابھی علامات تک نہیں پہنچا مثلاً کھانسی نہیں شروع ہوئی، بخار شروع نہیں ہوا لیکن جراثیم پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ اب کوئی آپ کے قریب ہے اور وہ کھانستا ہے یا چھینکتا ہے، کسی اور وجہ سے بھی بے شک چھینکے ضروری نہیں کہ اسی وجہ سے چھینکے، مثلاً گلے میں کوئی چیز پھنس گئی ہو اور کھانسی آ گئی لیکن جراثیم پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے تو آپ کے پاس اُڑ کے آ سکتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں: "فاصلہ رکھیں" تاکہ اس کا سبب نہ بنے۔

موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور زہر موت کے لئے ایک وسیلہ ہے تو کیا کوئی زہر خود کھاتا ہے؟ کیونکہ لوگوں کو مرتے دیکھا ہوتا ہے زہر سے۔ کہتا ہے کہ ٹھیک ہے اللہ ہی سب کچھ کرتا ہے لیکن اللہ نے جب ایک قانون بنایا ہے تو ہمیں اس کا خیال کرنا ہے اور ہم زہر نہیں کھائیں گے۔ تو جس طرح زہر سے لوگ بچتے ہیں اسی طرح جراثیم سے بھی بچنا چاہیے، یہ کیسا توکل آ گیا کہ بس ٹھیک ہے جی ہم نہیں ڈرتے۔

آپ ﷺ سے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ کیا اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کریں یا کھلا چھوڑ کے توکل کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اونٹ کے گھٹنے کو باندھ کر توکل کرو۔ یعنی دونوں چیزیں جمع کرو سبب کو بھی اور توکل کو بھی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا جو قرآن کی نص ہے کہ اے میرے بیٹو! مصر میں پہنچ کے مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ کیونکہ بارہ بیٹے تھے تو نظر لگنے کا اندیشہ تھا، اور پھر ساتھ ہی فرمایا: ہو گا تو وہی جو اللہ چاہے گا۔ اگر اللہ پاک کو منظور یہی ہو گا کہ تم لوگوں میں سے کسی کو نظر لگ ہی جائے تو بے شک کچھ بھی ہو جائے اس کے اسباب بن جائیں گے۔ یعقوب علیہ السلام نے سبب اور توکل دونوں کو جمع کر لیا، یہ ہے بصیرتِ نبوی۔ ہمارا توکل کچا توکل ہے ہم لوگ اپنی سوچ کے توکل پہ چلتے ہیں، سوچ والی بات یہاں نہیں چلتی، اللہ کی حکمت کو دیکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کس چیز میں ہے، اس کی منشا کیا ہے؟ اس کی منشا کے مطابق چلنا ہے۔

مولانا تقی عثمانی صاحب سے آپ لوگوں کا توکل زیادہ ہے؟ وہ کرونا کی وبا کے دنوں میں مسجد نماز پڑھنے نہیں جاتے حالانکہ مسجد ان سے دو منٹ کے فاصلے پر تھی۔ تو کیا ہمارا توکل ان سے زیادہ ہے؟ یہ قوانین طبعی ہیں، اللہ پاک نے بنائے ہیں، ان قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔

طاعون جس شہر میں تھا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے واپس ہوئے، وہاں داخل نہیں ہوئے تو جو صحابہ اندر تھے انہوں نے کہا کہ آپ تقدیر سے کیوں بھاگ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف جا رہا ہوں۔ یعنی جہاں میں جا رہا ہوں وہاں بھی میری تقدیر ہی ہو گی، اسباب تو میں نے وہی اختیار کرنے ہیں جو مجھے نظر آ رہے ہیں باقی تقدیر کی طرف ہی جا رہا ہوں۔ ایک آدمی موت سے بھاگ رہا ہے اور بھاگتے بھاگتے گاڑی کے نیچے آ جاتا ہے، وہ موت کی طرف ہی بھاگ رہا تھا لیکن وہ مجرم نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے خیال میں خود کو نہیں مار رہا تھا بلکہ اس کا وقت پورا ہو گیا تھا۔ اسی طریقے سے ہم بھی کوشش کریں گے باقی فیصلہ جو اللہ کا ہو گا وہی نافذ ہو گا اس کے آگے کوئی کچھ کر نہیں سکتا۔ اللہ پاک ہی سب چیزوں پر قادر ہے ﴿اِنَّ اللّٰہَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ ‎(البقرة: 20) حکمت کو اپنی قدرت کے پردے بنا دیا، حکمت اللہ تعالیٰ کی جو اس چیز میں ہے تو اس کے مطابق ہی بات چلتی ہے۔

متن:

ورنہ حقیقت میں وہ جمادِ محض ہیں۔

تشریح:

کچھ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جمادِ محض ہیں، کم از کم یہ جراثیم تو جمادِ محض ہے، پوری دنیا کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے۔

متن:

وہ کس طرح دوسرے میں جو وہ بھی ان کے مثل (جماد) ہے اثر انداز ہو سکتے ہیں، اور ان میں احداث و اختراع کس طرح کر سکتے ہیں (ہرگز نہیں) بلکہ ان کے علاوہ اور قادر ہے جو ان کو ایجاد کرتا ہے اور ہر ایک کے لائق و مناسب کمالات ان کو عطا فرماتا ہے جیسا کہ عقلمند آدمی جماد محض سے فعل کو دیکھ کر اس کے فاعل اور محرک کا سراغ لگا لیتے ہیں۔

تشریح:

سبحان اللہ! کیا خوبصورت بات کی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جتنی بھی چیزیں ہیں، اپنی صلاحیتوں، اثر پذیری نیز ان چیزوں کے باہم اختلاط سے جو کمالات پیدا ہوتے ہیں وہ سب ایک فاعل (خالق حقیقی) کے پیدا کردہ اور محتاج ہیں، سائنس نے بھی اپنے اصول انہیں بنیادوں پر وضع کئے ہیں، جیسے نیوٹن کا قانون ہے کہ اگر کوئی چیز کھڑی ہے پھر چل پڑے، ثابت ہوا کہ کسی چیز نے اس کو چلایا ہے۔ پھر اس کو ڈھونڈتے ہیں کہ کس چیز نے اس کو چلایا۔ تلاش کے بعد مل جاتی ہے اسی طرح کوئی چیز جب کھڑی ہو تو وہ کھڑی رہے گی جب تک اس کو کوئی چلائے نہیں اور جو چلتی ہے تو وہ چلتی رہے گی جب تک اس کو کوئی روکے نہیں۔ اس سے پھر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کس کا فعل ہو سکتا ہے؟ گویا کہ ایک کار خانہ جو چل رہا ہے آخر کسی فاعل کا کام ہے،کوئی فاعلِ حقیقی ہے جو اس تمام کارخانۂ قدرت کو چلا رہا ہے، خود بخود یہ چیزیں نہیں چل سکتیں۔

متن:

کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ فعل اس (جماد) کے حال کے لائق نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کوئی اور فاعل ہے جو اس فعل کو اس میں ایجاد کرتا ہے، لہذا عقلمندوں کے نزدیک جماد کا فعل، فاعل حقیقی کے فعل کا روپوش ہونا ثابت نہیں ہوا۔

تشریح:

عقلمند لوگ جماد کے فعل کو نہیں سمجھتے جیسے ایک اینٹ دوسری اینٹ کے اوپر گر گئی اور اس نے پہلی اینٹ کو گرا دیا۔ پہلی اینٹ بھی جماد ہے اور دوسری بھی جماد ہے، پھر تحقیق کرتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے اس کو گرایا ہے تو کسی حرکت کرنے والی چیز نے گرایا ہو گا، کسی زور والی چیز نے گرایا ہو گا۔ حرکت والی چیز مثال کے طور پر پانی ہو سکتا ہے یا ہوا ہو سکتی ہے، تو ہوا بھی کسی وجہ سے چل رہی ہوتی ہے اور پانی بھی کسی وجہ سے آ رہا ہوتا ہے۔ پھر اس کی تحقیق کرتے ہیں اور اس طرح تحقیق کرتے چلے جاتے ہیں اور آخر میں بات اللہ تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ سبب اور مسبب کی بات چل رہی ہوتی ہے۔ یہی سائنس ہے بس فرق صرف یہ ہے کہ ہماری سائنس آدھی اندھی ہے اور آدھی بینا ہے۔ جتنا نظر آتا ہے اس میں غور کرتی ہے اور جو نظر نہیں آتا اس میں غور نہیں کرتی وہاں اندھی ہو جاتی ہے، سوچتی نہیں ہے، سوچنے والا کام اس کا بند ہو جاتا ہے، دیگر چیزوں میں سوچتی ہے لیکن اس بارے میں نہیں سوچے گی۔

حضرت نے فرمایا کہ عقلمند جو ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ یہ تو جماد ہے، یہ خود کچھ نہیں کر سکتا یعنی کسی چیز نے اس کو چلایا ہوا ہے اور وہ اللہ ہی ہو سکتا ہے۔

متن:

پس یہاں بھی اسی طرح ہے، البتہ اس بے وقوف کے فہم میں جماد کا فعل فاعلِ حقیقی کے فعل کا روپوش بن گیا۔

تشریح:

جو بے وقوف ہوتا ہے وہ ہر کام کو جماد کا فعل سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر ہوا بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے جماد ہے، تو اگر میں کہوں کہ ہوا نے ایسا کر دیا اور اس سے آگے نہ سوچوں کہ ہوا کو کس نے چلایا ہوا ہے۔ چنانچہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ اس سوچ پہ ہی رک جاتا ہے جبکہ عقلمند آخر تک پہنچ جاتا ہے۔

متن:

جس نے اپنی حد درجہ بے وقوفی کی وجہ سے جماد محض کو اس ظاہری فعل کے سبب صاحب قدرت جان لیا ہے اور فاعل حقیقی کا منکر ہو گیا ہے: ﴿يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا ۙ وَّيَهْدِىْ بِهٖ كَثِيْرًا (البقرۃ: 26) ”گمراہ کرتا ہے اس سے بہت لوگوں کو اور ہدایت کرتا ہے اس سے بہت لوگوں کو“۔

تشریح:

یہ دہریوں کی بات کر رہے ہیں۔ دہریے کہتے ہیں کائنات کا نظام خود بخود بن گیا ہے۔

نیوٹن عیسائی سائنس دان تھا، عیسائی بھی اللہ کو مانتے ہیں، اس کا ایک دوست دہریہ تھا، فزکس میں بہت سارے دہریے ہوتے ہیں وہ بھی فزکس کا ماہر تھا۔ وہ اس کے پاس آیا تو دیکھا کہ اس کے پاس لکڑی کا بنا ہوا نظام شمسی کا ایک خوبصورت ماڈل پڑا ہوا تھا جس میں سورج اور پھر اس کے ارد گرد عطارد، پھر زہرہ، پھر زمین، پھر مریخ، پھر مشتری، پھر جتنے بھی ستارے ہیں، اس کے مطابق بنے ہوئے تھے، جس سے وہ اپنے طالب علموں کو سکھاتا تھا۔ دہریہ سائنس دان نے اس سے کہا کہ یہ آپ نے کس سے بنوایا ہے؟ نیوٹن نے بے خیالی اور لا پروائی سے کہہ دیا خود سے بنا ہے۔ وہ سمجھا کہ شاید یہ بات پوری طرح نہیں سمجھا اور بولا: اس نظام شمسی کے ماڈل کے بارے میں پوچھ رہا ہوں کہ یہ کس نے بنایا؟ کہا: خود سے بنا ہے تمہیں کہہ تو دیا۔ اس نے کہا: بھئی میں ایک سنجیدہ بات کر رہا ہوں گپ نہیں لگا رہا، میں ایک ایسا ہی ماڈل اپنے طالبعلوں کو سکھانے کے لئے بنوانا چاہتا ہوں، تو نیوٹن نے کہا: میں صاف بات کہہ رہا ہوں کہ یہ خود سے بنا ہے، میرے صاف الفاظ کیوں سمجھ نہیں آ رہے آپ کو؟ اس نے کہا: میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں؟ نیوٹن نے جواب دیا: میں مذاق نہیں کر رہا، جب آپ اصل نظام شمسی کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ خود سے بنا ہے جیسے سورج، سیارے وغیرہ تو یہ تو پھر ایک ماڈل ہے جو اس کی نقل ہے یہ خود سے کیوں نہیں بن سکتا؟ یہ اس کو الزامی جواب دیا اور صحیح جواب ہے۔

یہی بات حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کی تھی جب ان کا ایک دہریے سے مناظرہ ہوا تھا تو امام صاحب ذرا دیر سے پہنچے۔ دہریہ کہنے لگا: آپ ان کو اپنا اتنا بڑا امام کہتے ہیں کہ ایسا ہے اور ویسا ہے جبکہ ان کو اتنا نہیں پتا کہ وقت پہ پہنچنا چاہیے۔ امام صاحب سے پوچھا: آپ کیوں دیر سے پہنچے؟ وقت تو طے تھا۔ انہوں نے کہا: میں دریا کے کنارے ہی کھڑا تھا کہ میں کس طرح جاؤں؟ کوئی کشتی وغیرہ کا بند و بست نہیں تھا تو دیکھا کہ ایک درخت کٹ گیا اور اس سے تختے بن گئے، پھر تختے آپس میں جڑتے گئے، پھر دیکھتے ہی دیکھتے کشتی بن گئی اور اس کشتی میں بیٹھ کے میں آ گیا، اس میں کچھ وقت تو لگتا ہے۔ دھریے نے کہا: یہ آپ لوگوں کا کیسا امام ہے جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے۔ امام صاحب نے کہا: بھئی آپ ہی کی بات کر رہا ہوں، آپ کہتے ہیں یہ سارا کچھ خود سے بنا ہوا ہے تو اگر سارا کچھ خود سے بن سکتا ہے تو کشتی خود سے کیوں نہیں بن سکتی؟

یہ الزامی دلیل ہے۔ بعض دفعہ الزامی دلیل زیادہ کام کی ہوتی ہے۔ یہ خاموش کرا دینے والی دلیل ہوتی ہے۔

متن:

یہ معرفت ”مشکوٰۃ نبوت“ سے مقتبس ہے۔

تشریح:

مشکوٰۃ یعنی چراغ۔ معرفت نبوت کے چراغ سے روشن ہے۔

متن:

لیکن ہر شخص کی فہم اس تک نہیں پہنچی۔ ایک جماعت اس کمال کو اسباب کے دور کرنے میں جانتی ہے اور شروع ہی سے چیزوں کو بغیر اسباب کے توسط کے حضرت حق سبحانه و تعالیٰ کی طرف منسوب کرتی ہے اور نہیں جانتی کہ اسباب کے رفع کرنے میں حکمت ختم ہو جاتی ہے جس کے ضمن میں بہت سی مصلحتیں مدِ نظر ہیں۔

تشریح:

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس سب کچھ اللہ کرتے ہیں تو اس میں اسباب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ حضرت فرماتے ہیں: اس میں اللہ پاک کی ایک صفت ”حکیم ہونا“ چھپ جاتا ہے اور اللہ پاک کی صفت حکیم ہونے کو بھی ماننا پڑتا ہے کیونکہ اللہ پاک کا اسمِ صفت ہے اس کو ماننا پڑتا ہے، ہمارا اس پر بھی ایمان ہے، اس کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ پاک نے اسباب بنائے ہوئے ہیں، تو اسباب کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔

اصل میں پھر جبری عقیدے کی طرف بات چلی جاتی ہے جب اسباب کو ختم کیا جاتا ہے۔ تو حضرت بہت گہرائی میں سوچ رہے ہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز کے اندر حکمت ہے اور حکمت کے مطابق سب کچھ ہوتا ہے۔

متن:

جسکے ضمن میں بہت سی مصلحتیں مد نظر ہیں: ﴿رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا (آل عمران: 191) ”اے ہمارے رب! تو نے یہ سب بیکار اور بے فائدہ پیدا نہیں کیا“۔

تشریح:

﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ﴾ (آل عمران: 190) وہی حکمت والی بات ہے ﴿اَلَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِهِمْ﴾ (آل عمران: 191) وہ حکمت ان پہ کھلے گی جو ذکر فکر والے ہوں گے، جو حکمت والے اور جاننے والے عقلمند ہیں۔ سائنس دانوں کا نہیں، سائنس دان بیچارہ تو راستے میں رہ جاتا ہے۔

کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا

مہر و ماہ و مشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں

سائنس تو ان ہی چیزوں میں رہ جاتی ہے، آگے پیچھے نہیں ہوتی۔ جو مصلحتیں ہیں اللہ تعالیٰ کی اس مسئلے میں ہیں وہ اسباب سے نظر آتی ہیں۔

متن:

انبیاء علیهم الصلوات و التسلیمات بھی اسباب کی رعایت کرتے ہیں۔

تشریح:

بلکہ اتنی رعایت کرتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا نزول کامل ہوتا ہے، نزول کا مطلب یہ ہے کہ بہت نیچے آ جاتے ہیں تو ساری چیزیں ان کو نظر آتی ہیں پھر ہر چیز کی تفصیل نظر آتی ہے۔ چھوٹے بچے جو ابھی چلنا پھرنا سیکھ رہے ہوتے ہیں تو زمین پر ایک باریک سی چیز کو دیکھ لیتے ہیں جبکہ ہمیں نظر نہیں آتی کیونکہ ہم اس سے دور ہوتے ہیں اور وہ اس کو پکڑ لیتے ہیں۔ کوئی کیڑا ہو یا کوئی اور چیز ہو تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ بھئی یہ کیا کرتے ہیں؟ لیکن وہ ان کے قریب ہوتے ہیں اور ان کی نظر بھی تیز ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو زیادہ نزول والے ہوتے ہیں وہ زیادہ اسباب کی رعایت کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کرامات بھی زیادہ تر عروج کے وقت ہوتی ہیں، نزول کے وقت نہیں ہوتیں۔ جب نزول پہ انسان آ جاتا ہے تو پھر کرامات نہیں ہوتیں پھر اسباب کے مطابق سارے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

متن:

انبیاء علیهم الصلوات و التسلیمات بھی اسباب کی رعایت کرتے ہیں اور (با وجود اس رعایت کے) اپنے کام کو حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی مراعات سے جانتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام نے نظر بد لگ جانے کے خیال سے اپنے لڑکوں کو وصیت فرمائی تھی ﴿وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ﴾ (یوسف: 27) ”اے میرے بیٹو! تم ایک دروازہ سے داخل نہ ہونا بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہونا۔“

اور (حضرت یعقوب علیہ السلام نے) اس احتیاطی تدبیر کی رعایت کے باوجود اپنے حکم کو جل سلطانہ کے سپرد کر کے فرمایا: ﴿وَ مَاۤ اُغْنِیْ عَنْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ شَیْءٍؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ﴾ (یوسف: 67) ”میں تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ بھی نہیں بچا سکتا۔ بیشک حکم صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے اسی پر میں نے توکل (بھروسہ) کیا اور اسی پر توکل کرنے والوں کو توکل کرنا چاہیے“۔

تشریح:

اس سے ہمیں پتا چلا کہ جراثیم سے بچنے کے تمام اسباب اختیار کرے، لیکن جو اللہ نے کرنا ہو گا وہ تو ہو گا یعنی اس میں یہی نتیجہ آپ نکال سکتے ہیں۔ ایک صاحب کرونا کی وبا میں بھی مسجد جانا چاہتے تھے، ہمارے ساتھ تھے تو میں نے کہا کہ بھئی ایسا مت کریں۔ لیکن ان کو بات سمجھ نہیں آئی میں اس کو روکنا چاہتا تھا لیکن نہیں روک سکا کیونکہ نماز کا مسئلہ تھا نماز کا مسئلہ تو کافی نازک مسئلہ ہے تو استخارہ کیا، استخارہ میں اتنی واضح ہدایات ہیں کہ میرے لئے معاملہ بالکل صاف ہو گیا، میں حیران ہو گیا۔ فرمایا گیا: اجتماعی چیزوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایک آدمی کی بے احتیاطی باقی لوگوں کو پریشان کر سکتی ہے۔ تو جب نماز کے لئے گنجائش موجود ہے، پھر تو کسی طریقے سے باہر جانے کی گنجائش نہیں۔ اب اس سے زیادہ واضح بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ پتا چل گیا کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انتظامات ایسے ہیں جس میں اللہ کی کوئی حکمت ہو گی، ہم لوگ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اللہ کی حکمتوں کے مقابلے میں ہماری سوچ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم لوگ اس میں سیکھ رہے ہیں یہ ہمارے سیکھنے کا میدان ہے اور بہت ساری چیزیں واضح ہو رہی ہیں۔

بعض حضرات کو بتایا گیا کہ اس میں کافروں کے لئے عذاب ہے اور مسلمانوں کے لئے خیر ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ مسلمانوں کے لئے اس میں کیا خیر ہو گی؟ تو ایک بات دل پہ آئی کہ اس میں مسلمان سیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو نقصان بھی کم ہوا ہے باقی لوگوں کے مقابلے میں امریکہ، برطانیہ، اٹلی وغیرہ میں بہت زیادہ نقصان ہوا ہے یہاں تو الحمد للہ اللہ کا بہت فضل ہے۔ اب یہ اسباب والی باتیں عملی طور پر بہت واضح ہو رہی ہیں، تو کچھ چیزوں کے ساتھ کچھ چیزوں کو حاصل کیا جاتا ہے، تناؤ اور پریشانی ضرور ہے لیکن اس پریشانی کے ذریعے سے ہمیں کچھ مل رہا ہے اس وجہ سے اس پہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ جو مل رہا ہے یہ بھی اپنے بزرگوں کی برکت سے ہے ورنہ لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں، بیمار ہو رہے ہیں۔ ہم بھی انسان ہیں، کمزور ہیں، کوئی طاقت ور لوگ نہیں ہیں لیکن چونکہ بزرگوں کی تعلیمات کے زیرِ سایہ الحمد للہ یہ سارا نظام چل رہا ہے تو وقت پر ساری چیزوں کا پتا چل گیا۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو میں نے فوراً کہہ دیا: مولانا تقی عثمانی صاحب سے میں زیادہ عالم نہیں ہوں جو فیصلہ ان کا ہو گا وہی میرا فیصلہ بھی ہو گا۔ تو کچھ لوگوں نے اس وقت نہیں مانا لیکن اب مان رہے ہیں۔ فارسی کی ضرب المثل ہے: ہرکہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد از خرابیٔ بسیار ”جو دانا کرتا ہے، نادان بھی بعد میں وہی کرتا ہے لیکن بہت ساری خرابی اٹھانے کے بعد۔“ ایک صاحب نے میرے ساتھ ہاتھ ملانا چاہا، میں نے کہا: مولانا تقی عثمانی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ ہاتھ نہ ملائیں۔ کہتے ہیں: اس سے کچھ نہیں ہوتا۔ میں نے گھر کی چابی گھمائی اور گھر کے اندر چلا گیا اور سوچا کہ ان سے بات کرنا فضول ہے ﴿وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63) کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں حقائق ماننے چاہئیں کہ کرتا تو اللہ ہے، اسباب اللہ نے بنائے ہیں، اسباب کا خیال رکھو لیکن نظر اللہ پہ رکھو۔

بر توکل زانوے اشتر بہ بند

گفت پیغمبر بہ آواز بلند

پیغمبر نے بآوازِ بلند کہا کہ اپنے اونٹ کے گھٹنوں کو باندھ کر توکل کرو۔ ایک موقع پہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ توکل تو ایک بچہ بھی کر سکتا ہے کہ جیب میں کچھ نہیں اور کہتا ہے اللہ کرتا ہے۔ اصل توکل تو یہ ہے کہ بینک بھرے ہوں پھر بھی کہے: اللہ کرتا ہے۔ انسان کو اسباب اختیار کرنے چاہئیں، اس کے بعد وہی حکم جو اللہ کا ہے اسی پہ عمل کرنا چاہیے اور یہی سنت ہے۔

متن:

اور حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان کی اس معرفت کو پسند فرما کر اس بات کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا: ﴿وَ اِنَّهٗ لَذُوْ عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (یوسف: 68)۔

تشریح:

یعنی کیسے تائید فرمائی ہے اللہ پاک نے۔

متن:

(اور وہ (حضرت یعقوب علیہ السلام) بیشک بہت ہی صاحب علم تھے اس لئے کہ ہم نے ان کو اپنے پاس سے علم سکھایا تھا لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے)۔

تشریح:

پتا چلا کہ جو نہیں جانتے وہ نہ جاننے والوں میں شامل ہیں اور جو جانتے ہیں وہ عقلمندوں میں شامل ہیں کیوں کہ دو ہی قسم کے لوگ ہیں، جو ان چیزوں کو جانتے ہیں وہ عقلمند ہیں اور جو نہیں جانتے تو وہ عقلمند نہیں ہیں۔

متن:

اور حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمارے پیغمبر علیه الصلوٰۃ والسلام کو بھی اسباب کے واسطہ کا اشارہ فرمایا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال: 64) ”اے نبی! آپ کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ مومنین بھی جو آپ کی اتباع کرتے ہیں“۔ باقی رہا یہ کہ اسباب کی تاثیر روا ہے کیونکہ بعض اوقات حضرت حق سبحانه و تعالیٰ اسباب میں بھی تاثیر فرما دیتا ہے تاکہ وہ موثر ہو جائیں، اور بعض اوقات ان میں تاثیر پیدا نہیں فرماتا۔ لہذا ناچار ان کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم (روز مرہ) اسباب میں اس حقیقت کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی ان اسباب پر مسببات کا وجود مرتب ہوتا ہے اور کبھی کوئی اثر ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ اسباب کی تاثیر سے مطلقاً انکار کرنا لغو و باطل ہے۔ تاثیر کو ماننا چاہیے لیکن اس تاثیر کو بھی اس کے سبب کی طرح حضرت حق سبحانه و تعالیٰ کی ایجاد سے جاننا چاہیے۔ فقیر کی رائے اس مسئلہ میں یہی ہے، "وَاللّٰہُ سُبۡحَانَہُ ال‬ۡمُلۡھِمُ" ”جیسا کہ اللہ سبحانہ نے الہام فرمایا۔“

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ اسباب کا واسطہ توکل کے منافی نہیں ہے جیسا کہ ناقصوں نے خیال کیا ہے بلکہ اسباب میں توسط کا خیال کرنا ”کمالِ توکل“ ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملہ کو حق جل و علا کے سپرد کرنے کو توکل فرمایا ﴿عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُۚ وَ عَلَیْهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُوْنَ﴾ (یوسف: 67) ”اسی پر میں نے توکل کیا اور اسی پر توکل کرنے والوں کو توکل (بھروسہ) کرنا چاہیے۔“

تشریح:

ان شاء اللہ ان چیزوں کو ہم بیان کریں گے اور یہ بہت اہم ہے۔ یہ مکتوب بہت پہلے لکھے گئے ہیں لیکن ہمارے آج کل کے دور کے مسائل بیان کر رہے ہیں، اور پھر ان کا ذکر اسی وقت ہی آ جانا، یہ بھی تو اللہ پاک کا فضل ہے کہ اس کی ہمیں جب ضرورت تھی تو اللہ پاک اسی وقت ہی ماشاء اللہ یہ ساری چیزیں آگے پیچھے کر کے ہمارے سامنے لے آئے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ